جناب محمود اعظم فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ﴿۱۹۱۹ -۱۹۹۷﴾ کی شخصیت ہندستان، پاکستان اور بنگلادیش کے تحریکی حلقوں کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت رہی ہے۔ وہ پورے تحریکی حلقے میں اپنی شخصیت کی انفرادیت، ذہانت وفطانت اور نصب العین سے غیرمشروط وابستگی اور اس کے حصول کے لیے مسلسل کوشش و جدوجہد کے لیے تادیر یاد کیے جاتے رہیں گے۔ انھوں نے اپنی مفوضہ ذمّے داریوں کی انجام دہی کے لیے اپنی عمر عزیز وقف کررکھی تھی۔ وہ تحریک اسلامی کے ان رجال میں تھے ، جنھوں نے تقسیم ہند سے پہلے ہی اس سے باضابطہ اس وابستگی اختیار کرلی تھی اور وابستگی کے وقت اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کے ساتھ محترم امیر جماعت کے سامنے ، جو عہد وپیمان انہوں نے کیا تھا، اُسے پورا کرنے کی وہ تا حیات کوشش اور جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
جناب محمود اعظم فاروقی ۱۹۱۹ئ میں ضلع اعظم گڑھ ﴿اُترپردیش﴾ کی ایک گم نام بستی علی پور میں پیدا ہوے تھے۔ وہیں پلے بڑھے، پروان چڑھے اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ الٰہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔ انگریزی ان کا خاص مضمون تھا۔ خانگی حالات مساعد نہ ہونے کی وجہ سے گریجویشن کے بعد تعلیم آگے نہ بڑھ سکی۔ ایک عزیز کی کوشش سے شاہ جہاں پور ﴿یوپی﴾ کے فیض عام انٹرکالج میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی۔ کچھ ہی برس کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ وہ پاکستان چلے گئے۔ کراچی میں مقیم ہوے اور آخری سانس تک وہیں مقیم رہے۔ شاہ جہاں پور اور شاہ جہاںپور والوں سے انھیں بڑا والہانہ لگاؤ تھا۔ جب بھی کسی مجلس میں شاہ جہاں پور کا یا شاہ جہاں پور کے حوالے سے کسی شخص کام نام سنتے تھے تو پھڑک اٹھتے تھے۔ ایک بار میں نے دورانِ گفتگو میں موضوع گفتگو کی مناسبت سے طاہر تلہری مرحوم کا یہ شعر سنایا:
کچھ ایسے بد حواس ہو ے آندھیوں سے لوگ
جو پیڑ کھوکھلے تھے انھی سے لپٹ گئے
بہت پسند کیا۔ پوچھا یہ کس کا شعر ہے؟ میں نے بتایا کہ یہ طاہر تلہری کا شعر ہے۔ وہ ضلع شاہ جہاں پور کے قصبہ تلہر کے رہنے والے ہیں۔ بس شاہ جہاںپور اور تلہر کا نام سنتے ہی پھڑک اُٹھے۔ فرمایش کرکے دیر تک ان کے اور بھی اشعار سنتے اور اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے رہے۔
فاروقی صاحب تقریباً تیس برس تک جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ دونوں کے رکن رہے۔ مدتوں کراچی اور ٹھٹّا کی امارت بھی سنبھالی۔ جماعت کے مرکزی رہ نما ان کی رایوں اور تجاویز کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ۱۹۶۲ئ میں انھوں نے جماعت کے ٹکٹ سے مغربی پاکستان اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ اپنی ذہانت اور حاضر دماغی سے وہاں بھی لوگوں کو متاثر کیا۔ ۱۹۷۷ئ میں قومی اتحاد اور جماعت اسلامی کے متفقہ فیصلے اور اصرار کی وجہ سے وزیر اطلاعات کے طور پر کابینہ میں بھی شامل ہوئے۔
فاروقی صاحب اکاؤنٹس کے آدمی تھے۔ پاکستان کے معروف ادارے آئی سی آئی میں مالیات کے شعبے میں ذمے دار انہ منصب پر فائز تھے۔ ہارٹ کے مریض بھی تھے،بائی پاس سرجری ہوئی تھی، لیکن انھوں نے اپنی ملازمت اور بیماری کو تحریکی کاموں کے لیے کبھی رُکاوٹ نہیں بننے دیا۔ جو بھی ذمّے داری تفویض ہوتی تھی اُسے وہ نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے تھے اور محنت اور لگن کے ساتھ اُسے انجام دیتے تھے۔ مشاہدین بتاتے ہیں کہ وہ دس دس اور گیارہ گیارہ بجے رات تک دفتر جماعت میں بیٹھ کر کام کرتے رہے تھے۔
محمود اعظم فاروقی اپنی خوش مزاجی، زندہ دلی، بذلہ سنجی، وضع داری اور خوش لباسی کے لیے جماعتی اور غیر جماعتی ہر طبقے میں مشہور تھے۔ علی گڑھ وضع کی شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں وہ جہاں اور جس مجلس میں بھی ہوتے تھے ، لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔ اپنے لطائف اور حاضر جوابیوں سے سب کے دلوں میں گھر کیے رہتے تھے۔
حافظ محمد ادریس پاکستان کے تحریکی حلقے کے معروف اہل قلم ہیں۔ سیرت ورجال سے انھیں خصوصی مناسبت ہے۔ انھوں نے محمود اعظم فاروقی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں کہیں لکھا ہے کہ ۱۹۷۰ کے انتخاب میں پاکستان کے مشہور بریلوی عالم مولانا محمد شفیع اوکاڑوی اور محمود اعظم فاروقی آمنے سامنے تھے۔ مولانا نے عدالت میں فاروقی صاحب کے خلاف انتخابی عذر داری داخل کردی تھی۔ صورت حال یہ تھی کہ کبھی عدالت سے مولانا کے حق میں فیصلہ آتا تھاکبھی فاروقی صاحب کے حق میں۔ مگر خوبی قسمت سے آخر میں محمود اعظم فاروقی ہی کے حق میں فیصلہ صادر ہوا۔ ان ساری عدالتی کارروائیوں کے دوران میں دونوں حریف ایک دوسرے سے برابر ملتے جلتے اور خیر خیرت دریافت کرتے رہے۔ دونوں کی خوش مزاجیوں اور بذلہ سنجیوں سے بھی دونوں کے رفقا محظوظ ہوتے رہتے تھے۔ دیکھنے والے اس یگانگی اور رواداری پر عش عش کرتے تھے۔ ایک پیشی کے موقعے پر دونوں بزرگ اپنے رفقا کے ساتھ ایک جگہ کھڑے تھے۔ باہمی گفتگو کے دوران میں مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مرحوم نے طنزاً فرمایا:
’’یہ جماعت اسلامی والے ہمیشہ کرسی کے چکّر میں رہتے ہیں۔ کرسی کے بھوکے ہیں۔ اِنھیں اقتدار چاہیے۔ الحمدللہ! ہم لوگ عزت کے کوشاں ہیں۔ عزت کے بھوکے ہیں، ہم عزت چاہتے ہیں اور اِسی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔‘‘
اس پر فاروقی صاحب کی رگ ظرافت پھڑکی ، انھوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’جی ہاں مولانا! جس کے پاس جو چیز نہیں ہوتی ؛ وہ اسی کے لیے دوڑتا ہے، بھاگتا ہے اور کوشش کرتا ہے۔‘‘
دونوں کے رفقانے زور دار قہقہہ لگایا اور مولانا اور مرحوم نے بھی مسکراہٹ سے ان کی حاضر جوابی کا استقبال کیا۔
فاروقی صاحب کی حاضر جوابی وبذلہ سنجی کا یہ واقعہ کراچی کے متعدد لوگوں کے حافظوں میں محفوظ ہے کہ ایک بار پروفیسر غلام اعظم ڈھاکا سے فاروقی صاحب سے ملنے کی غرض سے کراچی پہنچے تو پتا چلا کہ وہ لاہور گئے ہوئے ہیں۔ اسی روز فلائٹ سے وہ لاہور تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کراچی کے لیے روانہ ہوگئے۔ چناں چہ وہ پھر کراچی واپس ہوگئے۔ غالباً انھیں کسی موضوع پر ان سے کوئی خاص بات کرنی تھی۔ کراچی میں جب ملاقات ہوئی تو پروفیسر غلام اعظم صاحب نے مزاحاً فرمایا : آقا کی تلاش میں غلام کہاں پھرتا رہا، محمود اعظم فاروقی نے فرمایا: یوں کہیے : ’’محمود کی تلاش میں ایاز کہاں کہاں پھرتا رہا۔‘‘
محمود اعظم فاروقی کانام تو میں پاکستان سے آنے والے عزیزوں اور ودوست احباب سے مسلسل سنتا رہا ہوں ۔ یہ جان کر کہ ان کا آبائی تعلق اعظم گڑھ کی مٹی سے ہے، ان سے یک گونہ تعلق خاطر بھی ہوگیا تھا، لیکن انھیں دیکھنے، ان کے ساتھ بہت بہت دیر تک بیٹھنے اور ان کی شگفتہ وشاداب صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع نومبر ۱۹۸۲ء میں نصیب ہوا تھا، جب میں اپنے بعض عزیزوں سے ملنے کے لیے کراچی گیا اور کم وبیش ایک مہینا وہاں رہا۔ اس کے بعد سے میں جب بھی پاکستان گیا، ان سے ضرور ملا، ان کے ساتھ کئی کئی نشستیں رہیں، ہم طعامی کا بھی شرف حاصل ہوا اور وہاں سے کراچی کے جس دوردراز مقام پر بھی مجھے جانا ہوتا تھا، وہ اپنی گاڑی سے مجھے چھوڑ بھی آتے تھے۔ میں اس بات کو قطعی نہیں بھولوں گا کہ ایک بار مجھے ان کے ہاں سے ایک ایسے صاحب کے پاس جانا تھا، جن سے ان کا شدید اختلاف چل رہا تھا۔ وہ صاحب ایک ایسے ادارے کے ذمے دار انہ منصب پر فائز تھے، فاروقی صاحب جس کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان صاحب کے کسی روےّے پر فاروقی صاحب نے پابندی لگائی، تو وہ صاحب ادارے کی ذمّے داری سے ہی مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد سے انھوں نے مسلسل اور بڑے پیمانے پر فاروقی صاحب کے خلاف کچھ نہ کچھ کہنا شروع کردیا۔ متعدد کتابچے اور ہینڈبل بھی شائع کیے۔ وہ صاحب رکن جماعت تو نہیں تھے، لیکن اپنی بعض خوبیوں اور ایک جماعتی ادارے کا ذمّے دار ہونے کی وجہ سے انھوں نے وہاں کے کئی ارکانِ جماعت کو بھی اپنا ہم نوا بنالیا تھا۔ جب میں نے فاروقی صاحب کو بتایا کہ مجھے فلاں صاحب کے پاس جانا ہے، ان کے ہاں میری دوپہر کی دعوت ہے تو انھوں نے خود ہی بڑی خندہ پیشانی سے فرمایا :چلیے میں گاڑی سے پہنچادوں۔ آپ اجنبی آدمی ہیں وہاں تک آپ کو پہنچنے میں دِقت پیش آئے گی۔ مجھے ان کی اس پیش کش پر بے حد حیرت ہوئی۔ میں نے راستے میں کہا: بھائی صاحب! … صاحب سے تو اِس موضوع پر کبھی میری کوئی بات نہیں ہوئی، لیکن بعض تحریکی رفقاء کا خیال ہے کہ فاروقی صاحب نے… صاحب کے سلسلے میں سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ انھیں نرمی اور رعایت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ فاروقی صاحب خاموش رہے۔ ایسا لگا کہ وہ کسی دوسری دُنیا میں چلے گئے۔ مجھے سخت پشیمانی ہوئی کہ میں نے ناحق یہ بات چھیڑ دی۔ انھوں نے طویل خاموشی کے بعد فرمایا:
’’تابش صاحب! مجھے… صاحب بہت عزیز رہے ہیں۔ میں ان کی اچھائیوں اور صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ لیکن یہ بتائیے کہ آپ دیوبند میں رہتے ہیں ، آپ دہلی سے کسی کاریا ٹیکسی پر بیٹھیں اور ڈرائیور سے کہیں کہ مجھے دیوبند جانا ہے۔ لیکن وہ دہلی سے نکلنے کے بعد بریلی یا کسی دوسرے شہر کا رُخ کرلے تو کیا آپ اس ڈرائیور کی شرافت اور دوسری اچھائیوں کی وجہ سے، اُسے کچھ نہ کہیں گے اور وہ جس طرف جارہا ہے، اُسے اسی طرف جانے دیں گے اور خود بھی اسی طرف جاتے رہیں گے؟
میں نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا: بس یہی میرے اور …صاحب کے درمیان اختلاف کی نوعیت ہے۔ فاروقی صاحب کی یہ بات میرے دل کو لگی۔ اس کے بعد ہم ان صاحب کے دولت خانے پر پہنچ گئے۔ فاروقی صاحب مجھے وہاں اُتار کر اگلی ملاقات کا وقت طے کرکے رخصت ہوگئے۔
فاروقی صاحب سے آخری ملاقات ۱۹۹۰ءمیں ہوئی۔ جب میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں سے فاروقی صاحب اور بعض دوسرے عزیز وں اور دوستوں سے ملاقات کی غرض سے کراچی بھی جانا ہوا۔ کراچی کے جہاں گیر علاقے میں میرے استاد زادے جناب انتخاب احمد صدیقی مرحوم کے ہاں میری دعوت تھی۔ انھوں نے فاروقی صاحب، شعیب احمد عباسی اور بعض دوسرے شعرا وادبا کو بھی مدعو کیا تھا۔ کھانے کے بعد ہلکی سی شعری محفل بھی ہوئی تھی۔ کسی نے سیاسی گفتگو چھیڑدی۔ مجھے سیاسیات سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ میں اس گفتگو میں حصہ نہ لے سکا۔ فاروقی صاحب نے محسوس کیا کہ میں اِس موضوع سے بدحظ ہورہا ہوں اور مجھے مجلس کا یہ رویہ پسند نہیں آرہا ہے۔ فرمایا: تابش صاحب! ’’مجھے ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو سیاست کا لٹکا نہیں ہے۔ آپ کی جماعت ﴿جماعت اسلامی ہند﴾نے اب تو ووٹ دینے کی بھی چھوٹ دے دی ہے۔ میں نے عرض کیا جی ہاں! میں بس شعروادب کا ہی ہوکر رہ گیا ہوں۔ کہنے لگے: ’’آپ شعروادب کے ہوکر رہ گئے ہیں اور ہم لوگ بس سیاست کے ہی ہوکر رہ گئے ہیں۔ پچھلے سے پچھلے انتخاب میں کراچی سے جماعت کے کئی اُمیدوار سامنے تھے۔ سب کی اپنے اپنے حلقوں میں اچھی پوزیشن تھی۔ اُن حلقوں میں عوامی ہم دردیاں زیادہ حاصل تھیں، جن میں بریلوی مکتب فکر کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ حالانکہ متعدد بریلوی علماء بھی میدان میں تھے۔ الیکشن سے تین چار روز پہلے بریلوی مکتب فکروالوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا۔ بہت بڑا مجمع تھا۔ ایک مولوی صاحب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، وہ خودبھی اُمیدوار تھے۔ ان کو یہ بات معلوم تھی کہ اس حلقے میں جماعت اسلامی کے اُمیدوار کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ انھوں نے جلسے کے اختتام پر کہا کہ دوستو! یہ سیاسی جلسہ ہے۔ اس میں صلوٰۃ وسلام کا کوئی محل نہیں ہے۔ لیکن میں چاہوں گا آج ہم سب کھڑے ہوں اور آخری بار جھوم کر سرکار بے کس پناہ میں صلوٰۃ وسلام کا نذرانہ پیش کردیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس وقت صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں جماعت اسلامی کی ہوا ہے۔ اب ان کی حکومت ہوگی۔ان کی حکومت میں نہ صلوٰۃ وسلام کی اجازت ہوگی نہ درود اور فاتحے کی۔ اس کے بعد پورے مجمعے نے کھڑے ہوکر قیامی سلام پڑھا اور نعرۂ رسالت اور نعرۂ غوث پر جلسہ برخاست ہوا۔ پھر ہوا یہ کہ اس پورے حلقے سے جماعت اسلامی کے امیدوار کو ایک راے بھی نہیں ملی۔ انتخابی سیاست میں آکر اگر کام یابی حاصل کرنی ہے تو یہ سب کرنا پڑے گا۔‘‘
گزشتہ دنوں کراچی کے جماعتی رفیق جناب صغیر الدین اور جناب محمد یونس قریشی اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے ملنے اور شادی بیاہ کی بعض تقریبات میں شرکت کے لیے ہندستان آئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی کے موقعے پر دلّی کے ریلوے اسٹیشن پر میں بھی ان سے ملنے گیا۔ میں نے محمد یونس قریشی سے محمود اعظم فاروقی کے اہل وعیال اور ان کے بعض زیر تکمیل تحریری کاموں کے بارے میں دریافت کیا تو ان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ صغیر صاحب بھی آب دیدہ ہوگئے۔ ٹرین چھوٹنے تک وہ فاروقی صاحب ہی کے مشاغل، معمولات اور ان کے کرداروعمل پر گفتگو کرتے اور اردگرد بیٹھے ہوے لوگوں کو متاثر کرتے رہے۔ یونس صاحب نے مدتوں فاروقی صاحب کے ساتھ کام کیا تھا۔ ان کی امارت کے زمانے میں وہ کراچی جماعت کے آفس سکریٹری تھے۔ انھوں نے فاروقی صاحب کو بہت نزدیک سے دیکھا اور پرکھا تھا۔ ان کے انداز وگفتار، کردار وعمل اور اخلاق ومحبت کے وہ عینی شاہد تھے۔ اتنی مدت کے بعد بھی ان کے ساتھ ان کی یہ محبت وشیفتگی ان کے سچے اور پکّے مومن ہونے کی دلیل ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2012