اس پراسرار، حیرت انگیز لیکن انتہائی خوبصورت کائنات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی کوئی بھی چیز بیکار محض یا فضول نہیں بنائی گئی۔ بل کہ ہرچیز کسی نہ کسی مقصد یا مقاصد کو ضرور پورا کرتی رہتی ہے۔ اُن میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ہرچیز اپنے وجود کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے وجود کا نہ صرف پتا دیتی ہے بل کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، الوہیت اور ربوبیت کو اجاگر اور واضح کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت کا پرچم بھی لہراتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور سجائی تو ہے انسان کے لیے اور خود انسان کو بنایا ہے اپنی ذات کے لیے اپنی پہچان کے لیے، اپنی معرفت کے لیے اپنی عبادت کے لیے۔ اسی لئے سورہ الذاریات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْانسَ الَّا لِیَعْبُدُونِ۔﴿الذاریات:۵۶﴾
’’میں نے جن و انس کی تخلیق نہیں کی سوائے اس مقصد کے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
’’عبادت‘‘کا وسیع تر مفہوم سورہ یٰسین کی اس آیت سے اخذ کیا جاسکتا ہے:
أَلَمْ أَعْہَدْ الَیْکُمْ یَا بَنِیْٓ اٰدمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ۔﴿یٰسین:۶۰﴾
’’آدم ؑ کے بچو! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرو‘‘۔
عبادت کے زمرے میں صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج ، جہاد فی سبیل اللہ ، ذکر ومراقبہ ہی نہیں آتے بلکہ ایک مسلمان کی ہر حرکت اس وقت عبادت بن جاتی ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق سرزد ہورہی ہو۔ چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے، اسی لیے اس کی پیدائش یا تخلیق کا مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک کہ انسان اپنے دل ودماغ ، آنکھوں اور کانوں کے علاوہ اپنے ہر عضو کو صد فی صد اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان نہ بنادے۔ اگر کوئی انسان اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں اللہ تعالیٰ کی ’’عبادت‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے منھ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پس پشت ڈال دے تو وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو پامال کر رہا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی منشاء سے واقف کروانے اور اپنی منشاء کے مطابق انسان سے عمل کروانے کے لیے ابتدائے آفرینش ہی سے ’’ہدایت‘‘ کا اہتمام فرمایا ہے اور اس مقصد کے لیے ہر زمانے اور ہر قوم میں انبیاء ورسل بھی بھیجے اور ان پر اپنے احکام پر مبنی صحیفے اور کتب بھی نازل فرمائیں۔ ہمارا زمانہ آخری زمانہ ہے۔ اسی لیے ہمارے لیے آخری نبی اور رسول خاتم النبیین اور خاتم المرسلین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ان پر خاتم الکتب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اگر اس دور کے انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد جاننا ہو، اس ارادے کے ساتھ کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد یا اپنے مقصدِ حیات کو ہر حال میں پورا کرے گا تو قرآن مجید اس کے لیے بہترین رہبر، بہترین ہدایت نامہ اور اس کے سفر زندگی کو پوری طرح روشن اور واضح کرنے والی کتاب ثابت ہوگی۔قرآن مجید ایک ایسی شاندار کتاب ہے جس میں دنیاوآخرت کے ہر پہلو کو پوری طرح سے اجاگر اور واضح کردیاگیا ہے۔ ضرورت غوروفکر اور تدبر کی ہے ۔ قرآن مجید کے مضامین میں غوروفکر اور تدبر کرنے سے انسان کو اپنے مقصد حیات کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر شوہر اور بیوی کے تعلقات پر مبنی حسب ذیل آیات: سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النساء بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِم۔ ﴿النساء :۳۴﴾
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بنائی اور سجائی انسان کے لیے اور خود انسان کو بنایا اپنے لیے۔ لیکن انسان کی پیدائش اور دنیا بسانے کا ذریعہ خود انسان ہی کو بنایا جیسا کہ سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت میں واضح فرما دیاگیا ہے:
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دیے‘‘۔
یوں دنیا میں ہر رشتے سے پہلے شوہر اور بیوی کا رشتہ وجود میں آیا۔ اسی لیے یہ رشتہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ شوہر اور بیوی دراصل ایک دوسرے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ احسن الخالقین نے ازدواجی زندگی کا ایک بے حد خوبصورت اور مضبوط ڈھانچا بنایا ہوا ہے جس کے مطابق ازدواجی زندگی میں مرد وعورت دونوں کا اپنا مقام ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی ذمے داری اوردونوں کا اپنا اپنا کردار ہے۔ جب مرد وعورت اپنی اپنی ذمے داری اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتے ہیں تو ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار بلکہ باغ وبہار بن جاتی ہے۔ کیوں کہ دونوں ہی اپنے اپنے مقصد حیات کو پورا کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر دونوں یا دونوں میں سے کوئی اپنی ذمے داری نہ نبھائے تو وہ اپنے مقصد حیات کی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ دو طرح کی تباہی ہے۔ دنیوی بھی اور اخروی بھی۔ اسی لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے لیے کس کس طرح کا کردار پسند فرمایا ہے اور دونوں کو کیا کیا ذمے داریاں سونپی ہیں۔
سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۴ میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کے کردار اور ذمے داریوں کو صرف ایک لفظ ’’قوام‘‘ میں سمو دیا ہے۔ شوہر ’’قوام ہونے کے ناطے اپنے خاندان کے معاملات کو، جس کا اہم ترین حصہ بیوی ہوتی ہے، درست حالت میں چلانے، خاندان کی حفاظت ونگہبانی کرنے اور خاندان کی ساری ضرورتیں پوری کرنے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ مرد کا عورتوں پر قوام ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسی لیے دنیا کے صرف مہذب طبقوں ہی میں نہیں بلکہ جاہل اور جنگلی طبقوں میں بھی مرد ہی کو ہمیشہ قوام کا درجہ ملا ہے۔ نئی تہذیب کے بگڑے ہوئے لوگ اور بعض غیر اہم قبائل اس سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔
نبوت کا تیرہواں سال تھا۔ ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ مکرمہ ہی میں تھے۔ حج کے موقع پر سترہ سے زیادہ افراد کا وفد مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ آیا اور انھوں نے اصرار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت فرمائیں۔ اس ضمن میں اس وفد سے چند اہم امور پر بیعت لی گئی۔ اس بیعت کی آخری دفعہ کے تعلق سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کروگے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو‘‘۔ اس پر حضرت براء ؓ ﴿بن معرور﴾ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ’’ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی برحق بناکر بھیجا ہے ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔
یہاں تو جہ طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے باشندوں کو جو نئے نئے اسلام کی آغوش میں چلے آئے تھے، یہ بات پہلے ہی سے معلوم تھی کہ مرد اپنی بیوی بچوں کی جان، مال اور ناموس کی حفاظت کے ذمے دار ہوتے ہیں، کسی مذہبی قانون کی بنا پر نہیں بل کہ بالکل فطری طور پر۔
اس ذمے داری کے علاوہ مرد پر، ’’قوام‘‘ ہونے کی حیثیت سے اور بھی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
﴿۱﴾ گرمی، سردی، بارش اور موسمی اثرات، چوروں، غنڈوں سے حفاظت کے لیے اور اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہوئے سکون واطمینان حاصل کرنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق وہ ایک مکان فراہم کرے۔
﴿۲﴾ اپنی استطاعت کے مطابق کھانے پینے کا بندوبست کرے ۔ اکثر یہ ذمے داری دو حصوں میں بانٹی جاتی ہے، کھانے پینے کا سامان فراہم کرنے کی ذمے داری مرد پر اور پکوان کی ذمے داری عورت پر۔
﴿۳﴾ اپنی استطاعت کے مطابق بیوی بچوں کے لئے لباس کا بندو بست کرے۔ لباس کا بندوبست کرتے ہوئے نہ مرد بخل سے کام لے اور نہ عورت مرد کی استطاعت سے بڑھ کر فرمایش کرے۔
﴿۴﴾ بیماریوں سے بچنے کے لیے جو بھی احتیاطی تدابیر ممکن ہوں، اختیار کرے۔ بیوی بچوں میں سے کوئی بھی بیمار پڑجائے تو علاج معالجے میں کسی طرح کی بے پروائی نہ برتے۔
﴿۵﴾ مرد وعورت سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اپنی بیوی بچوں کو، حسب استطاعت، اس حال میں رکھے کہ انھیں سماج میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
﴿۶﴾ تفریح طبع سے خاندان میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے۔ وقتاً فوقتاً مرد کو اس بات کا بھی خیال رکھنا اور اپنی استطاعت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔
﴿۷﴾ بچوں کی تعلیم وتربیت مرد وعورت دونوں کی ذمے داری ہے لیکن تعلیم کے سارے اخراجات کی ذمے داری مرد پر ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر وہ ذمے داری جس میں مال خرچ کیا جاتا ہے یہ فرماکر مرد کو سونپ دی کہ ’’اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں‘‘۔ اگر کوئی مرد استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر اپنے اس منصب ’’قوام‘‘ کو نہ نبھائے تو وہ اسلامی آئین، اسلامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب اوراللہ تعالیٰ کی ناراضی کا مستحق ہوجاتا ہے اور اخلاقی اعتبار سے انسانیت سے خارج بھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد کو خاندان میں ’’قوام‘‘ کا منصب عطا فرمایا اور خاندان کی دیکھ بھال کی ساری ذمے داری اُس کو سونپ دی۔ اسی لیے خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ چلانے کے لیے مرد کا حکم مانا جائے گا۔ اپنا فرض یا ڈیوٹی نبھانے کے لیے، محکومیت کے طور پر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض کی ادائی کے تعلق سے بھی سورۃ النساء کی اس آیت میں اپنی منشاء اور مرضی کو یوں ظاہر فرمایا ہے:
فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ۔
’’پس صالح عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں اور مردوں کے غیاب میں، اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور نگرانی میں اُن کے ﴿شوہروں کے﴾ حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
یہاں قرآن حکیم کایہ اعجاز توجہ طلب ہے کہ عورتوں کو براہ راست یہ حکم نہیں دیاگیا کہ شوہروں کی فرماں برداری کریں، شوہروں کی اطاعت شعار بن کر رہیں بل کہ یہی بات عورتوں تک پہنچانے کے لیے ایک انتہائی مؤثرکن اسلوب اختیار کیاگیا اوہ یہ کہ اگر عورتیں صالحات ہوں گی تو یقینا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، ربوبیت ،الوہیت اور اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر حاکمیت ان کے دلوں میں جاگزیں ہوگی۔ اللہ کے رسولوں ، اللہ کی کتابوں، اللہ کے فرشتوں، یوم آخرت، دوزخ اور جنت کے تعلق سے ان کاایمان مستحکم ہوگا اوراسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے ہر ہر شعبے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لانے میں کسی بھی قسم کی بے پروائی او رغفلت کو بالکل بھی جگہ نہیں دیں گی۔ بل کہ ہر دم اور ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی ہی کو مقدم رکھتی ہوں گی تو ایسی عورتوں کے لیے یہ سمجھ لینا بالکل بھی دشوار نہیں ہوگا کہ شوہر کی فرماں برداری ، شوہر کی اطاعت شعاری بھی اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی ہی میں شامل ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری سے ایمان کی لذت ، سکون واطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کو پورا کرنے کے لیے شرعی حدود کے اندر، اندر شوہر کی اطاعت وفرماں برداری سے بھی ایمان کی لذت، سکون و اطمینان کی دولت اور دنیا وآخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ کیوں کہ یہ فرماں بردار ی کسی کو حاکم اور کسی کو محکوم کا درجہ دینے کے لیے نہیں بل کہ خاندانی امور کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کے لیے ہے اور ایک صحتمند خاندان ، صحتمند سماج کا ضامن ہوتا ہے ۔
یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳۴ کے صرف چند الفاظ کے ذریعے شوہر اور بیوی کے رشتے کے تعلق سے سارے رہنما یانہ خطوط ، شوہر اور بیوی کے رشتے کے سارے مقتضیات اولوالالباب یا عقل مندوں کے لیے روز روشن کی طرح واضح کردیے گئے، جن پر عمل پیرا ہونا انتہائی خوش نصیبی اور دنیوی زندگی کو جنت نشان بنانے کے لیے کافی ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ بھی۔ اور اگر شوہر یا بیوی یا دونوں ہی اس آیت مبارکہ میں دیے ہوئے رہنمایانہ خطوط کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں، شوہر اور بیوی کے رشتے کے مقتضیات پر بالکل بھی عمل پیرا نہیں ہوتے تو وہ حقیقت میں اللہ عزوجل کی ’’عبادت‘‘ سے منھ موڑ رہے ہوتے ہیں، بلکہ انجانے میں شیطان کی ’’عبادت‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو انسانیت کے دائرے اور اولوالالباب یا عقلمندوں کی فہرست سے خارج کر رہے ہوتے ہیں۔
﴿۲﴾ خالق کاینات نے شوہر اور بیوی کے رشتے کی جاذبیت اور ایک دوسرے کی جانب فطری میلان، فطری جھکاؤ اور ایک دوسرے کے لیے فطری ہمدردی کے راز پر سے سورۃ الروم کی آیت نمبر ۲۱ میں اس طرح پردہ اٹھایا ہے اور اس کو اپنی نشانی کا درجہ عطا فرمایا ہے:
وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْکُنُوا الَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُم مَّوَدَّۃً وَرَحْمَۃً۔ ﴿الروم:۲۱﴾
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔
انسان کی تخلیق کے موقع پر ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات عورت کی فطرت میں رکھ دی کہ اس کی ذات سے مرد یعنی شوہر کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور اسی طرح تخلیق ہی کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں ہی کے درمیان محبت بھی رکھ دی ، رحمت وہمدردی اورلگائو کے جذبات بھی رکھ دیے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی کسی دوسرے کی ذرا سی پریشانی سے خود بھی بے چین اور پریشان ہوجائے۔ اور یہ انسان کے لیے اتنی بڑی نعمتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نشانیوں میں شمار فرمایا۔ اگر مرد وعورت ازدواجی زندگی کے ان فطری قواعد کے مطابق اپنی زندگی گزارتے ہیں تو وہ اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں جس کے باعث ان کی زندگی باغ وبہار بنی رہتی ہے ۔ لیکن اس کے برخلاف اگر عورت مرد کے ساتھ کچھ ایسا برتائو اپناتی ہے کہ مرد کو عورت کی ذات سے سکون و اطمینان حاصل ہونے کی بجائے کوفت، جھنجھلاہٹ، تلخی اور کڑواہٹ سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو یہ اسی بات کی واضح علامت ہے کہ عورت اپنی فطرت سے روگردانی کر رہی ہے اور اپنے مقصدِ حیات کو اپنے ہی ہاتھوں پامال و تباہ کر رہی ہے۔ اسی طرح مرد وعورت دونوں ہی کے درمیان محبت، رحمت اور ہمدردی کے جذبات نہیں پائے جاتے یا بہت ہی کم پائے جاتے ہیں یا کسی میں پائے جاتے ہیں کسی میں نہیں تو یہ بھی فطرت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے :
لَقَدْ خَلَقْنَا الْانسَانَ فِیْٓ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ﴿سورہ التین:۴﴾
’’ہم نے نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے یا ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے‘‘۔
یعنی صورت بھی بہترین عطا کی اور سیرت بھی بہترین ۔ لیکن مرد وعورت یا دونوں میں سے کوئی ایک اپنی من مانی کرکے، ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکامات، اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے روگردانی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ’’اسفل سافلین‘‘ یعنی پستی کی انتہا میں پہنچادیتے ہیں اور اپنی زندگی کو دنیا ہی میں جہنم بنادیتے ہیں۔
’’وہ خواتین جو اپنے شوہروں کے سکون کا باعث بننے کی بجائے ان کا سکون غارت کرکے رکھ دیتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی باہمی محبت اور رحمت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے یا وہ مرد جن کو اپنی بیویوں کی ذات میں سکون میسر آنے کے باوجود بیویوں کے ساتھ محبت بھرا، پیار بھرا اور ہمدردانہ برتاؤ نہیں کرتے، کیا وہ اپنے مقصد حیات کو تار تار کرکے نہیں رکھ دیتے؟ پھر وہ عقلمندوں یا اولوالالبات کے زمرے میں یا انسانیت کی فہرست میں کس طرح شامل رہ سکتے ہیں؟ آئے دن ڈوری کیسس (Dowry Cases) میں اضافہ کیا ازدواجی زندگی کو منھ نہیں چڑا رہا ہوتا؟ اسلام نے تو مرد و عورت کو وہ سب کچھ دیا جس سے زندگی میں بہار لائی جاسکتی ہے۔ لیکن مسلم مرد اور مسلم عورت نے اسلام ہی سے منھ موڑ لیا اور اپنے آپ کو طاغوتی طوفان کے حوالے کردیا۔ اسلام پر ایک بڑا دھبا، انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر رہ گئے۔
﴿۳﴾ احسن الخالقین نے شوہر او ربیوی کے باہمی رشتے کی اہمیت کو سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۸۷ کے چند الفاظ :
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنّ۔ ﴿البقرہ:۱۸۷﴾
’’وہ تمھارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو‘‘۔
کے ذریعے کس خوبصورتی کے ساتھ سمجھایا ہے اس کی مثال ملنی ناممکن ہے۔
مرد اپنے لباس کو اپنے لیے باعثِ زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتے ہیں اسی لیے اپنے لباس کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ لباس دھول، داغ دھبوں سے محفوظ رہے۔ لباس کو غلطی سے بھی ہلکی کھروچ تک نہ آنے پائے۔ لباس کو پھاڑنے یا تار تار کرنے کا تو تصور تک نہیں کیاجاتا۔ بل کہ لباس کو خوشبو میں بسایاجاتا ہے۔ لباس ہی کی طرح بیوی مرد کے لیے باعث زینت اور اس کی شخصیت کا نکھار ہوتی ہے اور اسی لیے پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کی حقدار بھی۔ مرد پر لازم ہے کہ اپنے لباس ہی کی طرح اپنی بیوی کو غیر ضروری شک وشبہ یا الزام تراشی کے داغ دھبوں اور دھول سے محفوظ رکھے۔ اپنی زبان یا اپنے کسی عمل سے بیوی کے دل پر ہلکی سی کھروچ تک نہ آنے دے۔ اپنے ظلم یا اپنی زیادتیوں کے ذریعے بیوی کے دل کو تار تار کرنے کا تصور تک نہ کرے۔ عورت کو ہمیشہ اپنی محبت کی خوشبو میں بسائے رکھے تو یہ عمل مرد ہی کے لیے نشان امتیاز ہوگا اور کامیاب ازدواجی زندگی کی علامت بھی اور اگر کوئی مرد ایسانہیں کرتا تو گویا وہ اپنا لباس خود ہی گندہ میلا کر بیٹھتا ہے ، خود ہی اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ کر تارتار کررہا ہوتا ہے۔ کسی بھی مرد سے پوچھیے کیا وہ ایسی بدحالی کو برداشت کر پائے گا؟ لیکن کتنے ہی مرد ہیں جو ایسی بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔
عورت تو اپنے لباس کو اپنے لیے کچھ زیادہ ہی باعث زینت اور اپنی شخصیت کا نکھار سمجھتی ہے ۔اسی لئے کوئی بھی عور ت اپنے لباس پر مرد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی توجہ دیتی ہے اور اپنے لباس کی دھول داغ دھبوں یا کھروچ وغیرہ سے کچھ زیادہ ہی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے لباس کو پھاڑنے یا تارتار کرنے کا تصور ہی اس کے دل کی دنیا کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اگر بیوی اپنے لباس ہی کی طرح اپنے شوہر کی پوری پوری توجہ کے ساتھ دیکھ بھال کرے ، اپنی بدکلامی یا اپنی تلخ کلامی ، اپنی بدتمیزی یا بے رخی کے ذریعے مرد کے دل کو تار تار نہ کرے تو عورت ہی کی زندگی خوشگوار اور محبت کی خوشبو سے معطر ہوجائے گی۔ وہ بیوی کیسی لگتی ہوگی جو خود ہی اپنے لباس کو میلا، گندہ کردے، اپنے لباس کو پھاڑ پھاڑ ڈالے اوراس کے جسم پر بہترین زینت وزیبائش والے لباس کی جگہ چیتھڑے جھول رہے ہوں؟ کیا کوئی بھی عورت اس طرح کی بدحالی کو برداشت کرسکتی ہے ؟ لیکن کتنی ہی عورتیں ہوتی ہیں جنھیں اپنی بدحالی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ حقیقت کے آئینے میں اپنے آپ کو کبھی دیکھتیں ہی نہیں اور نہ انھیں کسی طرح کی شرمندگی کا احساس ہی ہوتا ہے۔ صاحبِ قرآن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ اُم المؤمنین خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ازدواجی زندگی میں ہر کسی کے لیے بہترین نمو نہ ہے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کو صاحب عرش نے نہ صرف یہ کہ پسند فرمایا اور شرف قبولیت بخشا بل کہ اپنی پسند اور شرف قبولیت کو دنیا والوں پر ظاہر بھی فرما دیا۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ خدیجہ ؓ تشریف لارہی ہیں ۔ ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا کوئی مشروب ہے۔ جب وہ آپﷺ کے پاس آپہنچیں تو آپﷺ انھیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہیں اور جنت میں موتی کے ایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور وشغب ہوگا نہ درماندگی اور تکان۔
یہ درجہ اُم المؤمنین کو صرف اور صرف اس لیے ملا کہ تبلیغ اسلام کے سلسلے میں آپﷺ پر جب مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے، دل پاش پاش ہوجاتا تو آپﷺ کو اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی معیت میں سکون واطمینان ملتا، راحت ملتی، چین ملتا اور یہ ’’لِتَسْکُنُوْا اِلَیْہَا‘‘ کی بہترین تفسیر ہوتی۔ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ ؓ اپنے والہانہ تعلق خاطر کے ذریعے ’’مودۃ ورحمۃ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بھی تھیں۔ ہر عقد کے موقع پر دعا ہوتی ہے کہ ’’اے اللہ! اس نئے شادی شدہ جوڑے کے درمیان ایسی ہی الفت رکھ دے جیسی الفت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان رکھی تھی۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2012