اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام جانداروں سے بہتر اور افضل مخلوق بنایا ہے۔ اسے شکل وصورت اور جسمانی ساخت بھی بہتر عطا کی ہے اور عقل وشعور اور فہم وفراست سے بھی نوازا ہے۔ انسان جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہے اور انسان کی زندگی جسم اور روح ہی کے اتصال سے قائم رہتی ہے۔ جسم اور روح کے اپنے تقاضے ہیں جن کو پورا کرکے انسان مکمل انسان بنتاہے۔ کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، سونا اور جاگنا، جنس کی تکمیل کرنا، سردی اور گرمی کے اثرات سے بچنا، خوشی اور غم کے حالات سے گزرنا، یہ سب جسم کے تقاضے ہیں۔ جب کہ علم وعرفان، عبادت، ذکر، عدل وانصاف، اخلاص واخلاق، ایثار وقربانی، ہمدردی اورخدمت خلق، یہ سب روح کے تقاضے ہیں۔ انسان جب ان تقاضوں کو توازن کے ساتھ پورا کرتا ہےتو مکمل انسان بن جاتا ہے اور جب ان تقاضوں کو نظر انداز کرتا ہے اور کسی ایک طرف جھک جاتا ہے تو یک رخا اور ادھورا انسان رہ جاتا ہے۔ افراط وتفریط میں مبتلا ہوکر وہ انسانیت کی تنقیص کرتا ہے، تکمیل نہیں کرتا۔
یہ انسان کی کم زوری ہے کہ کبھی وہ روح کے تقاضوں کی تکمیل میں اتنا مبالغہ کرتاہے کہ جسم کے جائز تقاضوں کو نظر انداز کردیتا ہے، بلکہ کبھی کبھی جسم کو تکلیف پہنچانے میں روح کی عافیت محسوس کرتاہے۔ وہ ترک لذت اور ترک دنیا کی اس انتہا پر پہنچ جاتا ہے جہاں تعمیر وترقی کا اور تہذیب وتمدن کی خدمت کا جذبہ گھٹ کے رہ جاتا ہے اور وہ اسے روحانیت کی معراج سمجھ لیتاہے۔ روحانی سکون کی تلاش میں انسان خویش واقارب اور خاندان، انسانی آبادی اور سماج تک کو چھوڑ دیتاہے۔ جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں میں گوشہ عافیت تلاش کرلیتا ہے اور انسانوں سے الگ تھلگ ہوکر زندگی گزارنے لگتاہے۔ اسلام اسے رہبانیت کا نام دیتا ہے۔
رہبانیت اپنی شکل وصورت اور مزاج وماحول کے لحاظ سے کتنی ہی سادہ اور معصوم کیوں نہ لگتی ہو مگر اسلام اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا کیوں کہ نہ یہ انسانی زندگی کامطلوبہ معیار ہے اور نہ اس پر انسانی آبادی کو گامزن اور مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ اگر سب لوگ اس طرزِ زندگی کو اختیار کرلیں تو انسانی دنیا ویرانے میں تبدیل ہوجائے گی اور دنیا حیوانیت کی آماج گاہ اور موذی جانوروں کی شکار گاہ بن کر رہ جائے گی۔
پچھلے زمانے میں بودھ، مانی اور حضرت عیسیٰ مسیح کے ماننے والوں میں بہت سے لوگوں نے روحانیت کے حصول کے لیے ایسی ہی طرزِ زندگی اختیار کی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو پسندیدہ نگاہوں سے نہیں دیکھا اور اس پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا۔
وَرَهْبَانِیةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَیهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایتِهَا ۖ فَآتَینَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِیرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ (الحدید: ۲۷)
[اور رہبانیت انھوں نے خود ہی ایجاد کرلی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انھوں نے خود ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے ان کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔ ]
رہبانیت جسم کے حقوق اور اس کے تقاضوں کی تکمیل سے صرف نظر کرلیتی ہے اور روحانی مسرتوں کے حصول کے لیے صرف نفس کشی اور ترک دنیا کو اپنا لائحہ عمل بنالیتی ہے۔
رہبانیت کے برخلاف ایک دوسرا تصور زندگی ہے جو مادہ پرستی پر مبنی ہے، جس میں انسان روح کے تقاضوں کو نظر انداز کردیتا ہے، صرف نفس اور جسم کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے جدوجہد کرتا اور اسی میں پوری عمر بسر کردیتاہے۔ مادہ پرستی انسان کو خود غرض اور مفاد پرست بنادیتی ہے۔ وہ اس دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اپنی ذات اور اپنی فیملی کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ اسی کے نفع ونقصان کی فکر کرتا ہے، اسی کے رنجم وغم سے سرورکار رکھتاہے اور اسی کی تعمیر وترقی کے خواب دیکھتاہے۔ قرآن پاک نے مادہ پرستی کے اس تصور کی ترجمانی اس طرح کی ہے:
(الجاثیہ: ۲۴)
[یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو، درحقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر باتیں کرتے ہیں۔ ]
مادہ پرستی میں مبتلا ہوکر انسان ضمیر وجدان، قلب و روح، علم وعرفان، سب کے تقاضے بھول جاتاہے۔ اس کی نگاہِ ہوس صرف مادی وجود پر مرتکز ہوکر رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ موت جیسی اٹل حقیقت سے بھی جان بچانے اور راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتاہے اگرچہ اس میں کام یاب نہیں ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اس کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے۔
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَیاةٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا ۚ یوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن یعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِیرٌ بِمَا یعْمَلُونَ (البقرہ: ۹۶)
[تم انھیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤگے حتی کہ یہ اس معاملہ میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کس طرح ہزار برس جئے حالاں کہ لمبی عمر بہر حال اُسے عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی، جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں اللہ تو انھیں دیکھ ہی رہا ہے۔ ]
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھے انسان کا دل بھی طویل عمر اور مال کی محبت میں جوان رہتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰة، باب کراہة الحرص علی الدنیا)
مادہ پرست لوگ اس زمینی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دنیا میں سارا سازوسامان کسی ایک شخص کو نہیں ملتا، بلکہ ہر شخص کو بقدر محنت اور بقدر توفیق ملتاہے۔ دنیا کے سارے انسان مال ودولت او راسباب راحت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ انسان کی آزمائش اس میں ہے کہ کوئی مال دار ہے اور کوئی نادار، کوئی توانا ہے اور کوئی کم زور، کوئی مخدوم ہے اور کوئی خادم، آزمائش کی بات یہ ہے کہ کون شکر کرتا ہے اور کون صبر کرتاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَینَهُم مَّعِیشَتَهُمْ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِیا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَیرٌ مِّمَّا یجْمَعُونَ ﴿٣٢﴾ وَلَوْلَا أَن یكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَن یكْفُرُ بِالرَّحْمَٰنِ لِبُیوتِهِمْ سُقُفًا مِّن فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَیهَا یظْهَرُونَ ﴿٣٣﴾ وَلِبُیوتِهِمْ أَبْوَابًا وَسُرُرًا عَلَیهَا یتَّكِئُونَ ﴿٣٤﴾ وَزُخْرُفًا ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا ۚ وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِینَ (الزخرف: ۳۲-۳۵)
[دنیا کی زندگی میں ہم نے لوگوں کے درمیان ان کی معیشت تقسیم کردی ہے اور ان میں سے بعض کے درجے بعض کے اوپر بلند کردئیے ہیں۔ تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لیں، اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جسے یہ لوگ جمع کررہے ہیں۔ اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی طریقہ کے ہوجائیں گے تو ہم رحمن کے منکروں کے گھروں کی چھتیں اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ بالاخانوں پر چڑھتے ہیں اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب سونے اور چاندی کے بنوادیتے۔ یہ تو محض دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور آخرت تیرے رب کے یہاں صرف پاکبازوں کے لیے ہے۔ ]
ایک مرتبہ رسول کریمﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کوٹیکس وصول کرنے کے لیے بحرین بھیجا۔ ٹیکس کامال لے کر جب وہ مدینہ واپس آئے تو انصار کو ان کی آمد کی اطلاع ملی، وہ لوگ فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں حاضرہوئے، نماز ادا کرکے رسول کریم ﷺ نے ان لوگوں کو مڑ کر دیکھا تومسکرائے اور فرمایا:
میرا خیال ہے کہ تم لوگوں کو ابوعبیدہ کے مال لانے کی خبر ملی ہے۔ ان حضرات نے کہا جی ہاں! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور اللہ نے تمھارے لیے جو میسر کیا ہے اس کی امید رکھو۔ اللہ کی قسم مجھے تم لوگوں کے بارے میں فقروتنگدستی کا خوف نہیں ہے، لیکن مجھے یہ ڈر ہے کہ دنیا اسی طرح تمھارے سامنے پھیلادی جائے گی جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں کے لیے پھیلا دی گئی تھی، پھر وہ لوگ دنیاداری میں جس طرح مقابلہ کرنے لگے تم لوگ بھی اسی طرح مقابلہ کرنے لگوگے۔ یہ چیز تم کو اسی طرح ہلاک کردے گی جس طرح ان لوگوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الزہد)
مادہ پرستی کا نام ترقی نہیں ہے:
مادہ پرستی صرف مال وزر کی تقدیس اور پرستش کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اپنا فلسفۂ حیات، اپنی تہذیب اپنا تمدن، اپنا نظام اور اپنے داخلی اورخارجی اثرات رکھتی ہے۔ یہ رہبانیت کی طرح سادہ اور بے ضرر نہیں، بلکہ نہایت مضر اور فسوں کار ہے۔ یہ استحصالی نظام اور شاطرانہ مزاج رکھتی ہے۔ اس نظام میں سب کچھ مال ودولت کی فراوانی، مادی منفعت اور ذخیرہ اندوزی ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کو اتنی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ انسانی تعلقات اورمذہبی خدمات سب ثانوی ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی کا تصور بھی صرف مادی پرستی تک محدود ہوکر رہ جاتاہے۔ اس مادہ پرستانہ ذہنیت اور نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ الَّذِینَ لَا یرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَیاةِ الدُّنْیا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِینَ هُمْ عَنْ آیاتِنَا غَافِلُونَ ﴿٧﴾ أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا یكْسِبُونَ (یونس: ۷-۸)
[حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جولوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہوگا ان بُرائیوں کی پاداش میں جن کا ارتکاب وہ غلط عمل سے کرتے تھے۔ ]
مولانا مودودی نے مال ودولت اور عیش وعشرت کے عارضی اور فانی ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’دنیا کی زندگی اوراس کی زینتیں سب عارضی ہیں۔ ہر بہار کا انجام خزاں ہے۔ ہر شباب کا انجام ضعیفی اور موت ہے۔ ہر عروج کا زوال دیکھنے والا ہے۔ لہٰذا دنیا وہ چیز نہیں ہے جس کے حسن پر فریفتہ ہوکر آدمی خدا اور آخرت کو بھول جائے اوریہاں کی چند روزہ بہار کے مزے لوٹنے کی خاطر وہ حرکتیں کرے جو اس کی عاقبت کو برباد کردے‘‘۔ (تفہیم القرآن، سورة الزمر، آیت۲۰)
قرآن کریم اس خیال کی پرزور تردید کرتا ہے کہ صرف مادی ترقی کا نام ترقی ہے۔ قرآن نے ایک موزوں مثال قارون کی پیش کی اور اس کے دردناک انجام کو دکھایا ہے۔ قارون مال ودولت او رثروت کا خزانہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ اس کی مالداری ضرب المثل تھی۔ اس کے باوجود وہ ہلاک ہوگیا۔ اگر صرف مادی ترقی کی اہمیت ہوتی اور اسے قبولیت حاصل ہوتی تو مال ودولت کے ذریعے ترقی یافتہ انسان کبھی ہلاک وبرباد نہیں ہوتے۔
فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِی زِینَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِینَ یرِیدُونَ الْحَیاةَ الدُّنْیا یا لَیتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِی قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِیمٍ ﴿٧٩﴾ وَقَالَ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَیلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَیرٌ لِّمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا یلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ ﴿٨٠﴾ فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِن فِئَةٍ ینصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنتَصِرِینَ (القصص: ۷۹-۸۱)
[ایک روز قارون اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ کے ساتھ نکلا۔ جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے۔ اسے دیکھ کر کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا نصیب والا ہے۔ مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے کہ افسوس تمھارے حال پر، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو۔ آخر کار ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا پھر کوئی اس کے حامیوں کاگروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلہ میں اس کی مدد کرتا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا۔ ]
مادہ پرستی کے اثرات:
انسانی زندگی پر مادہ پرستی کے اثرات منفی اور مضر ہوتے ہیں۔ مادہ پرست کسی کو بظاہر نقصان نہ پہنچائے تب بھی اس کی ذہنیت انسانی معاشرہ کے لیے ضرر رساں ہوتی ہے۔ اس کے حسب ذیل مظاہر ہیں:
(۱) مادہ پرست انسان اپنے مال ودولت سے کبھی مطمئن اور آسودہ نہیں ہوتا۔ اس کو قناعت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ مزید مال ودولت کی ہوس میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ قرآن پاک نے مادہ پرستی کی اس نفسیات کا محاسبہ کرتے ہوئے کہا ہے:
أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ ﴿١﴾ حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴿٢﴾ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ (التکاثر۱-۳)
[تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایک اور دوسرے سے بڑھ کر مال حاصل کرنے کی ہوس نے غفلت میں ڈال رکھا ہے۔ یہاں تک کہ (اسی فکر میں) تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو، عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا۔ ]
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا ﴿١٩﴾ وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا (الفجر: ۱۹-۲۰)
[تم لوگ مردوں کی میراث ہڑپ کر جاتے ہو اور مال سے بے پناہ محبت کرتے ہو۔ ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اولاد آدم کے پاس مال ودولت کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی خواہش کرے گا۔ انسان کا پیٹ مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرسکتی (صحیح مسلم، کتاب الزکوٰة، باب الحرص علی الدنیا)
(۲) مادہ پرست انسان خواہش نفس کا غلام رہتاہے۔ اسی کا حکم مانتا ہے، اسی کی رہ نمائی قبول کرتاہے۔ اس کے علاوہ کسی روحانی اور خدائی ہدایت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ (الاعراف: ۱۷۶)
[اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا۔ ]
(۳) مادہ پرست انسان صرف مال و دولت، دنیاوی سازوسامان اور مادی اسباب پر بھروسا کرتا ہے۔ روحانی قوت اور قدرت کی کارسازی پر بھروسا نہیں کرتا۔ جب مادی اسباب فراہم ہوتے ہیں تو اُنھیں کام یابی کا ذریعہ سمجھتا ہے اور جب یہ اسباب ختم ہوجاتے ہیں تو مایوس ہوجاتاہے۔ قرآن مادی اسباب اوروسائل کو اختیار کرنے کوکافی نہیں سمجھتا بلکہ خالق حقیقی پر بھروسا کرنے کی تلقین کرتا ہے کیوں کہ اسی نے اسباب پیدا کیے ہیں اور وہی حالات کوسازگار بناتاہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
مَن یتَّقِ اللَّهَ یجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا ﴿٢﴾ وَیرْزُقْهُ مِنْ حَیثُ لَا یحْتَسِبُ ۚ وَمَن یتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَیءٍ قَدْرًا (الطلاق: ۲-۳)
[جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھراس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتاہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کررکھی ہے۔ ]
(۴) مادہ پرست انسان دنیا کا اسیر اور حریص ہوتا ہے۔ آخرت کی نہ اُسے فکر ہوتی ہے اور نہ اس میں ذمہ داری اور جواب دہی کااحساس پیدا ہوتاہے۔ دنیا کی زندگی اس کو دھوکہ میں مبتلا رکھتی ہے۔ وہ اپنی حالت پر مطمئن اور انجام سے بے خبرر ہتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
یعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیاةِ الدُّنْیا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (الروم: ۷)
[وہ لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں۔ ]
قرآن پاک میں دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا گیاہے:
الَّذِینَ یسْتَحِبُّونَ الْحَیاةَ الدُّنْیا عَلَى الْآخِرَةِ وَیصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّهِ وَیبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِی ضَلَالٍ بَعِیدٍ (ابراہیم: ۳)
[جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ ان کی خواہشات کے مطابق ٹیڑھا ہوجائے یہ لوگ گم راہی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔ ]
(۵)مادہ پرست انسان صرف مال وزر اور مادی اسباب کی قدر ومنزلت سمجھتاہے۔ اس کی نظر میں روحانی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ وہ ان کو حقیر سمجھتاہے اور ان کا مذاق اڑاتاہے۔ قرآن پاک میں اس ذہنیت کا محاسبہ کرتے ہوئے کہا گیاہے:
زُینَ لِلَّذِیۡنَ كَفَرُوا الۡحَیٰوةُ الدُّنۡیا وَیسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘ وَالَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَهُمۡ یوۡمَ الۡقِیٰمَةِؕ وَاللّٰهُ یرۡزُقُ مَنۡ یشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ (البقرہ: ۲۱۲)
[جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے ان کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب ودل پسند بنادی گئی ہے، ایسے لوگ ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیزگار لوگ ہی ان کے مقابلہ میں عالی مقام ہوں گے اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتاہے۔ ]
(۶) مادہ پرست انسان صرف مالداروں کے قریب رہنا پسند کرتا ہے اور انھیں لوگوں سے رسم وراہ رکھتا ہے جو اہل ثروت ہیں۔ وہ غریبوں، ناداروں اور سماج کے کم زور طبقوں سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتاہے۔ قرآن پاک نے اس کے برخلاف غریبوں کے ساتھ رہنے اور ان کی دل جوئی کرنے کو حقیقی انسانیت قرار دیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِینَ یدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِی یرِیدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَینَاكَ عَنْهُمْ تُرِیدُ زِینَةَ الْحَیاةِ الدُّنْیا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا (الکہف: ۲۸)
[اور اپنے دل کو ان لوگوں کی صحبت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح وشام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو، کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو۔ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی اور جس کا طریق کار افراط وتفریط پر مبنی ہے۔ ]
(۷) مادہ پرست انسان اپنی دولت سے فائدہ اٹھانے کا حقدار صرف اپنے آپ کو سمجھتا ہے، غریبوں، ناداروں اور محتاجوں کا اس میں کوئی حق تسلیم نہیں کرتا۔ اسی لیے وہ ناداروں کی حاجت روائی کو دولت کی بربادی سمجھتا ہے اوراسے بے وقوفوں کا کام قرار دیتاہے۔ قرآن پاک نے مادہ پرستوں کی ذہنیت کا تعاقب کرتے ہوئے کہا ہے:
وَاِذَا قِیۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ یشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ (یٰس: ۴۷)
[اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمہیںعطا کیا ہے اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو تو یہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ہے ایمان لانے والوں کو جواب دیتے ہیں، کیا ہم ان کو کھلائیں جنھیں اگر اللہ چاہتا تو خود کھلادیتا تم تو بالکل بہک گئے ہو۔ ]
(۸) مادہ پرست انسان اخلاق کے معیار سے گرجاتاہے۔ اخلاقی پستی اور قلب ونظر کے فساد میں مبتلا ہوجاتا ہے، جوچیز اس کی ظاہری شان وشوکت اور قوت وحشمت میں اضافہ کرے اس کو آگے بڑھ کے اختیار کرتا ہے۔ چاہے اس سے بُرائی بے حیائی اور فحاشی میں اضافہ کیوں نہ ہو۔ وہ ساری مخرب اخلاق چیزوں کو اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ اسے بدکاری اور حرام کاری کے پروگراموں سے بھی گریز نہیں ہوتا۔ قرآن کریم ایسے پست اخلاق مادہ پرست لوگوں کو ہدایت کرتے ہوئے کہتا ہے:
وَلَا تُكۡرِهُوۡا فَتَیٰتِكُمۡ عَلَى الۡبِغَآءِ اِنۡ اَرَدۡنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبۡتَغُوۡا عَرَضَ الۡحَیٰوةِ الدُّنۡیا(النور: ۳۳)
[اور اپنی چھوکریوں کو بدکاری کے لیے مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں، تاکہ تم دنیا کی زندگی کا سامان کمانا چاہو۔ ]
(۹) مادہ پرست انسان حلال وحرام کی تمیز سے محروم ہوجاتاہے۔ پیسہ کمانے اور دولت جمع کرنے کی ہوس میں انسان جائز وناجائز کی حدیں پار کرجاتا ہے۔ پاک وناپاک کی تمیز کھودیتاہے۔ اس کا مطمح نظر مال جمع کرنا ہوتا ہے، چاہے جس طریقہ سے ہو۔ اسی لیے وہ ناپ تول میں کمی کرتاہے۔ دھوکہ دہی کرتا ہے۔ سودی کاروبار کرتا ہے اور قانون شکنی کا ارتکاب کرتاہے۔ مادہ پرستی اس سلسلے میں انسان کو سود خوری سکھاتی ہے کیوں کہ آمدنی کو بڑھانے کا یہ آسان ذریعہ ہے۔ قرآن پاک میں سود خوری کی مذمت کرتے ہوئے کیاگیا ہے۔
الَّذِینَ یأْكُلُونَ الرِّبَا لَا یقُومُونَ إِلَّا كَمَا یقُومُ الَّذِی یتَخَبَّطُهُ الشَّیطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَیعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَیعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ (البقرہ: ۲۷۵)
[جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن نہیں کھرے ہوں گے مگر اس شخص کی طرح جسے شیطان نے چھوکر خبطی بنادیا ہو۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا کہ تجارت بھی توسود کی طرح ہے، حالاںکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ ]
علامہ اقبال نے اسی نکتہ کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
(۱۰) مادہ پرستی انسان کو مصلحت کوشی سکھاتی ہے۔ انسان ذاتی مصالح اور مفاد کو جماعتی اورقوی مفاد پر ترجیح دیتا ہے۔ یہاں تک کہ دشمنوں سے بھی اس کو مالی منفعت حاصل ہونے کی امید ہوتو ان کی خدمت کرنے اور قومی اور ملکی مفاد کا سودا کرنے میں اسے خوف نہیں ہوتا۔ وہ بلاتکلف قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کردیتاہے۔ قرآن پاک نے ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے:
وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِیآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ (ہود: ۱۱۳)
[ان لوگوں کی طرف مت جھکو جنھوں نے ظلم کیا ہے ورنہ تم کو بھی آگ لگ جائے گی اور اللہ کے مقابلہ میں تمھارا کوئی مددگار نہ ہوگا اور کسی طرف سے تمھیں مدد نہ مل سکے گی۔ ]
ان کے علاوہ اور بھی امراض ہیں جو مادہ پرستی کے پیٹ میں جنم لیتے ہیں۔ جیسے نفاق، بزدلی، طوطا چشمی، نمود ونمائش فخرومباہات اور ریاکاری وغیرہ۔ ان امراض سے انسان اسی وقت نجات پاتا ہے جب کہ وہ مادہ پرستی کی قید سے آزاد ہوجائے۔ روحانی قدروں کو تسلیم کرے اور انسانی عظمت کا علم بردار ہوجائے۔
اسلام کی متوازن تعلیم
اسلام انسانی زندگی کا معتدل اور متوازن تصور پیش کرتاہے۔ وہ جسم اور روح دونوں کے تقاضوں کی تکمیل کوضروری سمجھتاہے۔ دنیا کو انسان کی ضرورت اور آخرت کی کام یابی کو انسان کا مقصد قرار دیتاہے۔ اسی لیے وہ دنیا کی زندگی اچھی طرح گزارتے ہوئے آخرت کا زادسفر اختیار کرنے کی تعلیم دیتاہے۔ اس کی نظر میں مال ودولت اور دنیاوی ساز و سامان مسافر کارخت سفر ہے۔ جتنی ضرورت ہے اتنا سامان سفر ضرور اختیار کرے مگر ہمیشہ نظر منزل پہ رکھے۔ سامان سفر کی فکر میں منزل کو بھول نہ جائے اور مقصد زندگی سے غافل نہ ہوجائے۔ قرآن پاک میں صراحت کی گئی ہے:
اَلۡمَالُ وَ الۡبَـنُوۡنَ زِیۡنَةُ الۡحَیٰوةِ الدُّنۡیا ۚ وَالۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَیۡرٌ اَمَلًا (الکہف: ٤٦)
[مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں بہتر ہیں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے اور امیدوں کے لحاظ سے۔ ]
قرآن دنیا چھوڑدینے کی ہمت افزائی نہیں کرتا۔ جسم کے جائز تقاضوں کی تکمیل سے نہیں روکتا بلکہ کہتا ہے:
وَلَا تَنسَ نَصِیبَكَ مِنَ الدُّنْیا(القصص : ۷۷) دنیا میں اپنا حصہ نہ بھولو۔ قرآن تو اس کی تلقین کرتا ہے کہ دنیا کو سب کچھ نہ سمجھو بلکہ آخرت کی تیاری کرو۔ دنیا اور آخرت کا مکمل تصور پیش کرتے ہوئے قرآن کہتاہے:
فَمِنَ النَّاسِ مَن یقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا وَمَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾ وَمِنْهُم مَّن یقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿٢٠١﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ (البقرہ: ۲۰۰-۲۰۲)
[کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں دے دے، ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔ انھی لوگوں کے واسطے ان کی کمائی کا حصہ ہے اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ ]
مادہ پرستی کی ذہنیت انسان کو اس خوف میں مبتلا کردیتی ہے کہ آخرت کی فکر کرنے سے اور دین کے اصولوں پر چلنے سے دنیا برباد ہوجاتی ہے۔ انسان محتاج اور نادارہوجاتاہے۔ قرآن پاک اس خیال کی تردید کرتا ہے۔ اس کی نظر میں فکر آخرت دنیا کو برباد نہیں کرتی بلکہ پاکیزہ بنادیتی ہے اور دنیا کے معاملات کو سنوار دیتی ہے۔ ارشاد ہے:
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًـا مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَـنُحۡیینَّهٗ حَیٰوةً طَیبَةًۚ وَلَـنَجۡزِیـنَّهُمۡ اَجۡرَهُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا كَانُوۡا یعۡمَلُوۡنَ (النحل: ۹۷)
[مرد وعورت میں سے جو بھی عمل صالح کرے بشرطیکہ وہ مومن ہو ہم اس کو پاکیزہ زندگی (کے وسائل) دیں گے اور ان کے بہتر کاموں کا بھرپور اجر عطا کریں گے۔ ]
اسلام کی اس مفید، صاف و شفاف، معقول، متوازن اور عملی تعلیم کا تقاضا یہ تھا کہ مسلم قوم دنیا میں اس نظام حیات کی نمائندہ ہوتی اور اس کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتی۔ تاکہ دوسری قومیں اس نظام زندگی اور اس کی عملی مثال کو سامنے رکھ کر اپنی قومی سیرت کی تشکیل کرلیتیں، اپنا نظام حیات اس کی روشنی میں مرتب کرتیں اور دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کرتیں۔ مگر ہوا یہ کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ مسلمانوں کے فکروخیال میں اضمحلال اور ان کے عملی نظام پر زوال آیا۔ پھر ان کی بڑی تعداد نے اسلام کے متوازن نظریہ حیات اور اس کی عملی مثال کو چھوڑ کر مادہ پرستی کا طرز عمل اختیار کرلیا۔ گوکہ اس کی زبان پر بدستور اسلام کا کلمہ جاری رہا۔ مگر اس کے دل ودماغ میں مادہ پرستی سرایت کرگئی۔ اس کاآئیڈیل مغرب کامادہ پرستانہ نظام بن گیا۔ اور اس کا طرزِ عمل اور اندازِ فکر وہی ہوگیا جو مغرب کے مادہ پرست لوگوں کا تھا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اس صورت حال کا محاسبہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
م’’سلمان ایک بااصول بلند اخلاق، پختہ سیرت، جماعت کے بلند مقام سے گر کر ایک بے اصول ناقابل اعتبار، ابن الوقت اور مصلحت پرست قوم کی ادنیٰ سطح پر آتے جارہے ہیں۔ جس کے سامنے کوئی اخلاقی معیار نہیں ہے۔ بلکہ صرف منافع اور مصالح اور اغراض ومقاصد ہیں۔ یہ تبدیلی اس وقت شروع ہوئی جب ہندوستان میں اور تقریباً تمام اسلامی ممالک میں (جو کسی طرح یورپ کے زیر اثر آئے) مسلمانوں کو مغربی تہذیب، مغربی فلسفۂ اخلاق اور مغربی معیاروں کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی۔ مغربی اخلاق، فلسفہ وعلوم وسیاست کا ہر طالب علم اور اس زمانہ کا ہر واقف آدمی جانتا ہے کہ یورپ کا سارا نظام زندگی تمام تر مادہ پرستی اور مصلحت جوئی پر مبنی ہے۔ افادیت اور مصلحت بینی اس نظام زندگی کے ریشہ ریشہ میں سرایت کرچکی ہے۔ سارا یورپ اس وقت سے جب سے اس نے کلیسا کے اقتدار سے اپنے آپ کو آزاد کرایا ہے، صرف ایک ہی عملی مذہب رکھتا ہے اور وہ مذہب مادہ پرستی ہے‘‘۔ (ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ، جلد سوم، ۱۳۶۵)
مشمولہ: شمارہ مئی 2024