قرآن مجیداللہ کی آخری کتاب ہے۔ اس کتاب عظیم کا بنیادی مضمون اور موضوع (Them) یہ ہے کہ انسانوں پر مختلف انداز میں، مختلف پیرائے اور مختلف اسلوب میں، دلائل اور مثالوں کے ساتھ یہ واضح کرکے اتمامِ حجت قائم کی جائے کہ ’’لوگو، تمہارا خالق و مالک، مربی اور مدبر صرف اور صرف اللہ ہے۔ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہ ذات میں، نہ صفات میں ۔بہ الفاظ دیگر شرعی اصطلاح میں توحیدِ ذات باری تعالیٰ قرآن مجید کا بنیادی موضوع ہے اور یہی ہر نبی اوررسولﷺ کی دعوت کا محور رہا ہے۔ ہر نبی اور ہر رسولﷺ نے اپنی قوم سے یہی کہا: یاقوم اعبدواللّٰہ، یا قوم اعبدواللّٰہ۔
کہتے ہیں کہ کسی چیز کوواضح کرنے کے لیے اس کی ضد سے بھی بہت آسانی سے بات سمجھائی جاسکتی ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ ’توحید‘ کو صاف اور واضح انداز میں بیان کیا، بلکہ توحید کی ضد ’شرک‘ کو بھی بالکل صاف اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا۔ پھر اتنا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے توحید اور شرک کو صاف صاف بیان کیا بلکہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پریہ ذمے داری ڈالی کہ آپﷺ بھی اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کریں۔ چنانچہ فرمایا:
وَأَنزَلْنَآ اِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْْہِمْ ۔ ﴿النحل:۴۴﴾
’’اور ہم نے آپﷺ پر یہ نصیحت نامہ اس لیے اتارا ہے کہ آپﷺ انسانوں کو صاف صاف کھول کر بتا دیںکہ ان کے لیے کیا کچھ اتارا گیا ہے‘‘۔
قرآن مجید کی متعدد آیات، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث اور حجۃ الوداع میں موجود سوالاکھ سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی گواہی اس پر شاہد ہے کہ آپﷺ نے اللہ عزوجل کی طرف سے سونپی گئی یہ ذمے داری کماحقہ نبھائی۔
انسانوں پر توحید واضح کرکے بیان کرنے اور اتمام حجت قائم کرنے کے نتیجے میں چند تقاضے ابھرتے ہیں جنھیں ’’عبادت‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جب یہ طے ہوگیا کہ پوری کائنات میں موجود ہر ہر شئے کا خالق ومالک صر ف اور صرف اللہ عزوجل ہے تو لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر قسم کی عبادت بھی صر ف اور صرف اسی کو سزاوار ہے اور اس کے علاوہ جس کسی کی بھی پرستش، پوجا اور عبادت کی جائے گی وہ عمل ’’شرک‘‘ کہلائے گا۔
قرآن مجید میں ’’من دونِ اللہ‘‘ متعدد مقامات پر آیا ہے۔ اِن الفاظ کے لغوی معنی یوں بنیں گے: ’’من=سے، دون= سوائے، غیر، علاوہ، بجز ۔ گویا من دون اللہ کے معنیٰ ہوئے ’’اللہ کے سوا؛ اللہ کا غیر؛ اللہ کے علاوہ؛ اللہ کے بجز‘‘۔ ان الفاظ سے گو کہ چند مقامات پر قرآن مجید میں ’’بت‘‘ مراد ہیں، جن کی کفار قریش پرستش اور عبادت کرتے تھے، مگر یہ کہنا کہ جہاں جہاں یہ الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں، ان سے لازماً ’’بت‘‘ ہی مراد ہیں، ایک دھاندلی ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر معنوی تحریف بھی۔ جیسا کہ بعض تفاسیر میں ہے کہ من دون اللہ سے صرف ’’بت‘‘ مراد ہیں، اور بتوں کی پوجا شرک ہے۔ اس سے عوام الناس کو یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ صرف بتوں کی پوجا ہی ’’شرک‘‘ کے زمرے میں آتی ہے اور بتوں کے علاوہ دوسروں کو پکارنا شرک نہیں ہے۔ یہ ایک گمراہ کن عقیدہ ہے۔
آئیے، اب ہم ذیل میں قرآن مجید کی آیات ہی کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ من دون اللہ کے الفاظ سے کئی مقامات پر ذوی العقول انسان زندہ اور مردہ، دونوں بھی مراد ہیں، جن کو پکارنا بھی اتنا ہی بڑا شرک ہے جتنا کہ بتوں کو پکارنا اور پوجنا:
وَاِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَٰی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلہ َادْعُواْ شُہَدَآئ کُم مِّن دُونِ اللّہِ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔﴿البقرہ:۲۳﴾
’’اور اگر تم کو شک ہے اس کلام میں جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر، تو تم بھی بنا لائو ایسی ہی ایک سورت اور اللہ کے سوا جن کو حاضر مانتے ہو ان سب کو بلا لائو اگر تم سچے ہو‘‘۔
نزول قرآن کے وقت کفار ومشرکین قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر طرح طرح کے اعتراضات بھی کرتے تھے اور شک بھی۔ لہٰذا قرآن حکیم نے انھیں چیلنج کیا کہ وہ اس کلام جیسی صرف ایک سورۃ بنالائیں۔ ظاہر ہے کہ چیلنج صرف ذوی العقول انسانوں کو ہی کیا جاسکتا ہے۔ دھات، پتھر، مٹی اور لکڑی کے بتوں کو چیلنج کرنا اور ان سے یہ مطالبہ اور توقع کرنا کہ وہ ایک سورۃ بنا لائیں، یہ ایک لایعنی اور مہمل سی بات ہے۔
اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ۔﴿التوبہ:۳۱﴾
’’انھوں نے اپنے عالموں، درویشوں اور مریم کے بیٹے مسیح ؑ کو اپنا رب بنا لیا ہے‘‘۔
ظاہر ہے کہ احبار اور رھبان ۔ یہود ونصاریٰ کے بڑے شیوخ، علمائ اور برگزیدہ اشخاص ہوا کرتے تھے جو انسانوں ہی میں سے ہوتے تھے۔ اسی آیت کی تفسیر میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ﴿جو قبولِ اسلام سے پہلے عیسائی تھے﴾ والی وہ حدیث بھی ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت عدیؓ نے جب شکایتاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم نے تو اپنے احبار ورہبان کو رب نہیں بنایا تھا، پھر قرآن کریم نے ہم پر یہ الزام کیوں دھرا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ کیا تمھارے احبار ورہبان اللہ کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال نہیں ٹھہراتے تھے؟ حضرت عدیؓ نے جواباً کہا تھا کہ ’’ہاں‘‘، ایسا تو ہوتا تھا۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ’’غیراللہ ‘‘کو رب بنا لینا ہے۔ پتا چلا کہ اس آیت میں من دون اللہ سے ’’بت‘‘ مراد لینا بعید از قیاس ہے۔ عقلاً بھی اور نقلاً بھی۔ آگے حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی رب بنا لینے کا ذکر ہے ہی جو کہ دیگر تمام انبیائ علیہم السلام کی طرح انسان تھے۔
قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّّٰہِ مَا لاَ یَمْلِکُ لَکُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً۔﴿المائدہ:۷۶﴾
کہہ دو کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت میں لگے ہو جو تمھارے نقصان اور نفع کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
سورۂ المائدہ کی اس آیت نمبر :۷۶ کا سلسلۂ کلام اور اصل بیان آیت نمبر :۷۲ سے شروع ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک انھوں نے کفر کیا جنھوں نے مسیح ابن مریم کو اللہ کہا۔ آگے اسی عمل کو شرک بتاکر شرک کرنے والے پر جنت کے حرام ہونے کا اعلان ہے۔ اس سے آگے آیت نمبر :۷۳ میں کہا گیا کہ بے شک انھوں نے بھی کفر کیا جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں کا تیسرا ہے۔ پھر اس سے آگے آیت نمبر: ۷۵ میں فرمایا کہ مسیح ﴿علیہ السلام﴾ اللہ کے رسول کے سوا اور کیا تھے اور یہ کہ ان کی والدہ صدیقہ تھیں اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ کھانے کی ضرورت بتلانے سے بھی مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا بت نہ ہونا ثابت ہوجاتا ہے ۔ اس پس منظر میں آیت نمبر: ۷۶ کے الفاظ میں من دون اللہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہاں کسی آئینہ ’بت‘ مراد نہیں ہیں اور ’’بت‘‘ مراد لینے کا دور دور تک کوئی قرینہ نہیں ۔
وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یَا عِیْسَٰی ابْنَ مَرْیَمَ أَأَنتَ قُلتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِیْ وَأُمِّیَ اِلَٰ ہَیْْنِ مِن دُونِ اللّٰہِ۔ ﴿المائدہ:۱۱۶﴾
’’اور﴿قیامت کے دن﴾ جب اللہ فرمائے گا اے عیسیؑ مریم کے بیٹے کیا تونے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھ کو اور میری ماں کو دومعبود اور بنا لینا‘‘۔
اس آیت میں تو اتنا صاف اور واضح بیان ہے کہ من دون اللہ سے صریحاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ﴿سلامٌ علیہا﴾ ہی مراد ہیں۔ اِتَّخِذُونِیْ اورأُمِّیَ ان دوالفاظ میں ضمیر متکلم ’’ی‘‘کا مرجع حضرت عیسیٰؑ ہیں۔ واضح ہو کہ نصاریٰ نے جو اللہ عزوجل کے علاوہ دو مزید الٰہ ﴿الٰہین بصیغۂ تثنیہ﴾ حضرت عیسیٰؑ اور مریمؑ کی شکل میں بنالیے تھے۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اس آیت میں بھی من دون اللہ سے بت ہرگز مراد نہیں۔
وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَایَخْلُقُوْنَ شَیْئاً وَّہُمْ یُخْلَقُوْن۔ أَمْوَاتٌ غَیْرُأَحْیَآئٍ وَمَایَشْعُرُوْنَ، أَیَّانَ یَبْعَثُوْن۔
اور اللہ کے سوا جس کسی کو بھی یہ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیدا کرنے والے نہیں بلکہ خود مخلوق ہیں۔ مردے ہیں، زندہ نہیں ، ا ن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ کرکے کب اٹھائے جائیں گے۔
لَایَخْلُقُوْن﴿ی پر زبر‘مضارع بہ صیغۂ معروف﴾ سے پتا چلا کہ جو بھی اللہ کے سوا پکارے جارہے ہیں وہ کچھ بھی پیداکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ظاہر ہے کہ آج تک کسی عقلمند نے یہ دعویٰ بھی کبھی نہیں کیا کہ دھات، پتھر ، لکڑی کے معبود بھی کچھ پیدا کرتے ہیں۔ پھر وہم یخلقون ﴿صیغۂ مجہول سے اور مزید وضاحت ہوگئی کہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں ۔ یہاں پر پیدا کیے جانے کے عمل کا فاعل اللہ رب العزت ہے اور اگر وہ کہ جو پیدا کیے گئے ہیں، ان سے مراد ’’بت‘‘ لیے جائیں تو یہ اللہ عزوجل کی طرف ایک نہایت ہی قبیح فعل کا انتساب ہوگا۔ اس لیے کہ یہ بات اللہ کی شان کے منافی ہے کہ اس نے بتوں کو پیدا کیا۔ شجر، حجر، وغیرہ کو بطور مخلوقات پیداکرنا اور ہے اور بتوں کو پیداکرنا ﴿ گھڑنا، تراشنا﴾ اور ہے۔ پھر اگلی آیت نمبر :۲۱ تو صاف بتاتی ہے کہ یہ جو بھی پوجے جانے والے اور پکارے جانے والے من دون اللہ ہیں وہ مردہ ہیں نہ کہ زندہ، اور وہ یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ دوبارہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ بتوں میں زندگی نہیں ہوتی ۔لہٰذا انھیں موت آنے کا سوال ہی نہیں تو پھر دوبارہ زندہ کرکے اٹھایاجانے کا امکان بھی بعید ازقرینہ ہے۔ اس آیت سے پتا چلا کہ یہاں من دون اللہ سے فوت شدہ لوگ مراد ہیں۔
وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّٰہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَآئ أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ ۔ ﴿الفرقان:۱۷﴾
اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا اور جن کو یہ لوگ اللہ کے سوا پوجتے تھے ان کو بھی جمع کرکے پوچھے گا کہ کیا میرے ان بندوں کو تم نے گمراہ کردیا تھا یا یہ لوگ خود ہی سیدھی راہ چھوڑ کر بہک گئے تھے۔
اس آیت میں اس دن ﴿روز قیامت﴾ کا ذکر ہے، جب بہ غرض حساب وکتاب تمام انسان اللہ کے حضور جمع کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری، حساب وکتاب اور پوچھ گچھ صرف ذوی العقول سے ہی ہوگی۔ شجر ،حجر، درند، چرند، پرند اور دیگر تمام مخلوق مٹی کردیے جائیں گے۔وہ سب حساب وکتاب سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسا کہ سورۂ النبآئ کے آخر میں فرمایا: یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَاباً۔پتا چلا کہ بتوں کو جمع کرنا، ان سے باز پرس وغیرہ بعید ازقیاس ہے۔ یہاں من دون اللہ سے یقینا وہ مراد ہیں، جنھوں نے اپنی پرستش کروائی، اپنے لیے لوگوں سے سجدے کروائے:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ عِبَادٌ أَمْثَالُکُمْ فَادْعُوہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لَکُمْ اِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ۔ ﴿الاعراف:۱۹۴﴾
اللہ کے سوا جسے بھی تم پکارو، وہ تمھارے ہی جیسے بندے ہیں، پھر بھی ان کو دعا کرکے پکاروگے تو ہونا یہ چاہیے کہ وہ تمھاری دعا سن کر فریاد کو پہنچ جائیں، اگر تم سچے ہوتو ایسا کرکے دکھلاؤ۔
اس آیت میں لفظ ’’عباد‘‘ آیا ہے، جو ’’عبد‘‘ کی جمع ہے — جس کے معنی بندہ اور غلام کے ہیں۔ لفظ ’عبد‘ کا اطلاق صرف اور صر ف جسم ،جسد اور روح رکھنے والے ﴿ انسان﴾ پر ہی ہوتا ہے۔ دھات، مٹی، پتھر، لکڑی کے بنے بتوں پر ’’عبد‘‘ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ پھر آگے أَمْثَالَکُمْ ﴿تمھارے مانند، تمھاری طرح﴾ نے مزید وضاحت کردی۔ ’تمھاری‘ سے اشارہ انسانوں کی طرف ہے۔ لہٰذا یہاں بھی من دون اللہ سے ’’بت‘‘ مراد لینا بعید از امکان ہے۔
یہ صرف سات آیتیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں— ورنہ حق یہ ہے کہ قرآن مجید میں بے شمار آیات ایسی ہیں، جن میں من دون اللہ سے مراد ’’بت‘‘ قطعاً نہیں ہیں۔ حوالے کے لیے آل عمران ، آیت نمبر: ۶۴، ۷۹، سورۂ یونس، آیت نمبر: ۳۷، ۳۸؛ سورۂ ھود آیت : ۱۳،۲۰؛ سورۂ القصص: ۸۱، سورۂ سبا :۲۲، سورۂ فاطر:۴۰، سورۂ الاحقاف:۴ اور ۵؛ سورۂ الحج :۷۳ اور سورۂ الشعرائ : ۷۳ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
پتا چلا کہ من دون اللہ کے الفاظ سے ’ بت‘ مراد لینا اور اس سے یہ جواز پیدا کرنا کہ صرف بتوں کی پرستش شرک ہے اوربتوں کے علاوہ دیگر ہستیوں کو پکارا جاسکتا ہے۔ یہ سراسرایک مغالطہ ہے ۔ اسی عقیدے کا مظہر (Manifest) یہ ہے کہ فوت شدہ بزرگوں کی قبریں باقاعدہ پوجی جاتی ہیں، جو صریحاً شرک ہے۔ بہت سے لوگ اپنے شرکیہ عقائد اور اعمال کے دفاع میں یہ کہتے ہیں کلمۂ توحید کا اقرار کرلینے کے بعد مسلمان ہوتے ہوئے کوئی شرک نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید نے اس غلط عقیدے کی اور خام خیالی کی بھی نفی کردی:
وَمَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُم مُّشْرِکُون۔ ﴿یوسف:۱۰۶﴾
اور لوگوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور ساتھ میں شرک بھی کرتے ہیں۔
اور یہ بات تو ہرکس وناکس جانتا ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر نہ ہوتے ہوئے بھی تین سو ساٹھ بتوں کو پوجتے تھے‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ عقیدۂ توحید ایمان کی اساس ہے اور ایک کلمہ گو کا سرمایۂ حیات ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور نبوت کے پورے تیرہ سال صرف عقیدۂ توحید کے بنانے اور پختہ کرنے پر محنت شاقہ فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر فرمایا کہ وہ اگر چاہے تو شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔ جس نے شرک کیا اس پر جنت کے حرام ہونے کا اعلان ہے۔اتنا ہی نہیں ، بلکہ سورۂ الانعام کی آیات ۸۳ تا ۸۸ میں پورے اٹھارہ انبیاء علیہم السلام کے نام لے کر صیغۂ جمع میں فرمایا :
وَلَوْ أَشْرَکُواْ لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔
’’اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ضرور ان کے کیے کرائے سب عمل غارت اور برباد ہوجاتے‘‘۔
اسی انداز میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے سورۂ الزمر کی آیت: ۶۵ میں فرمایا کہ اگر آپﷺ نے بھی شرک کیاتو آپﷺ کے سارے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ یہاں یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ انبیائ علیہم السلام سے اور حضور اکرمﷺ سے شرک کا صدور ناممکن الوقوع ہے۔ ان آیات میں انبیاء علیہم السلام اور حضور اکرمﷺ کے توسط سے امت کو آگاہ کرنا اور تنبیہ کرنا مطلوب ہے۔ یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012