عوامی تحریکوں کا حال عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ ان کے نصب العین، طریقہ کار، نقشہ سفر اور راستے کے سنگ ہائے میل کا علم صرف قیادت کو ہوتا ہے۔ تحریک کے عام افراد ایک خوش نما خواب دیکھ کر اس میں شامل ہوتے ہیں اور قیادت پر مکمل بلکہ اندھا اعتماد کرکے قیادت کی جانب سے دی گئی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں۔ سنہرے خوابوں کے سبز باغ انھیں کوششوں میں مصروف رکھتے ہیں اور قیادت کی طرف سے دیے گئے پرزور نعرے ان کے جوشِ سفر میں اضافہ کرتے ہیں۔ قیادت کی جذباتی تقریریں انھیں سرگرم رکھتی ہیں اور قیادت کی طویل خاموشی انھیں منجمد کردیتی ہے۔ غرض ان تحریکوں کے عام افراد بھیڑوں کے ایک ریوڑ کے مانند ہوتے ہیں جو اشتعال دلائے جانے پر بھیڑیا بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی تحریکوں کے لیے محض انبوہ کا کام کرتے ہیں۔ تحریک کی پالیسیوں اور فیصلوں کی انھیں کوئی پروا نہیں ہوتی ہے، یہ دردِ سر قیادت اپنے پاس رکھتی ہے۔ قیادت کی دانستہ یا نادانستہ غفلت پوری تحریک کو غفلت سے دوچار کر دیتی ہے۔ ایسی تحریکوں کی عُمر اُن کی قیادت کی عمر سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔ قائدین کے اس دنیا سے رخصت ہونے یا جیتے جی مرنے کے ساتھ ہی تحریک بھی فنا کی راہ لیتی ہے۔ قائد بکتے ہیں تو پوری تحریک سودے کا حصہ ہوتی ہے۔ تحریک کے عام افراد کو تحریک کی پاسبانی سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا۔ جس جہاز میں وہ سوار ہوتے ہیں، اس میں پڑنے والے سوراخ کو بند کرنے اور اس سے در آنے والے پانی کو روکنے کے لیے وہ کچھ سوچتے تک نہیں ہیں۔ ان کا محبوب جہاز ان کی نگاہوں کے سامنے انھیں لے کر ڈوب جاتا ہے اور وہ اپنی تمام تر قوتوں اور توانائیوں کے باوجود بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
علم و شعور اسلامی تحریک کا امتیاز
اسلامی تحریک علم و شعور پر مبنی تحریک ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت اس تحریک کے علم و شعور کا سرچشمہ ہے۔ قرآن و سنت سے ہر مسلمان کا راست رابطہ مطلوب ہے، اس لیے تحریک کا ہر فرد بغیر کسی واسطے کے راست اس سرچشمہ سے جُڑا ہوتا ہے۔ اسلامی تحریک کا ہر فرد تحریک کے نصب العین، طریقہ کار، نقشہ سفر اور راستے کے سنگ ہائے میل کو سمجھتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک کا نصب العین تحریک میں شامل ہر فرد کی اپنی زندگی کا نصب العین اور اس کی زندگی کا اہم ترین قضیہ ہوتا ہے۔ علم و شعور کی سطح پر تحریک سے لگاؤ میں قیادت اور عام ارکان میں کوئی قابل لحاظ فرق نہیں ہوتا ہے۔ فرق ہوتا ہے تو صرف اتنا کہ تحریک میں شامل ہونے والا نیا فرد اس درس گاہ کا مبتدی طالب علم ہوتا ہے، جو کچھ ہی عرصے میں مبتدی نہیں رہ جاتا بلکہ باشعور صاحب علم رکن بن جاتا ہے۔ اسی لیے اسلامی تحریک میں مطالعہ و فہم پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
نظر عارفانہ، قدم قائدانہ
اسلامی تحریک کے ارکان اپنے علم و شعور کی بنا پر قائدانہ اوصاف کے حامل ہوتے ہیں اور ان سے قائدانہ کردار کی توقع رکھی جاتی ہے۔ وہ خود تحریک کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور تحریک کے محافظ و پاسبان بھی ہوتے ہیں۔ انھیں حفاظت کی ذمے داری تفویض نہیں کی جاتی ہے بلکہ وہ از خود (by default) محافظ ہوتے ہیں۔ ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ
نہ دیکھیں گے چمن برباد ہوتے
کہ اس میں خون ہے شامل ہمارا
اس مضمون میں بتایا جائے گا کہ مختلف پہلوؤں سے حفاظت و پاسبانی کے اس کردار کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔
مقصد اور نصب العین کی حفاظت
اسلامی تحریک جب برپا ہوتی ہے تو اس کے سامنے بہت واضح طور پر ایک ہی ہدف یعنی اپنے نصب العین کا حصول ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، نصب العین پر گفتگو کم ہونے لگتی ہے۔ میسر وسائل اور درپیش مسائل کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے۔ نصب العین کے لیے درکار جن وسائل کا حصول آسانی سے ممکن ہوتا ہے، ان کے حصول ہی کو کام یابی خیال کیا جانے لگتا ہے۔ کام یابی کا یہ مسرت انگیز احساس نصب العین کی طرف سے غافل کردیتا ہے۔ مسلم امت کی تاریخ میں یہ سانحہ پیش آچکا ہے۔ بڑے پیمانے پر اسلام کی قبولیت اور بڑے رقبے پر مسلمانوں کی حکومت ہونےکے باوجود امت اپنے نصب العین یعنی اقامت دین سے غافل ہوگئی۔ اسلامی تحریک امت کو اس سانحے سے باہر نکالنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ تاہم خود اسلامی تحریک بھی اس سانحے سے دوچار ہوسکتی ہے، اگر اس کے ارکان ہمہ وقت بیدار نہ رہیں اور نصب العین کی ایک دوسرے کو تذکیر نہ کرتے رہیں۔ نصب العین کی حفاظت کا یہ کام تحریک کے ہر رکن کو کرنا ہوگا۔ وقتی اہداف نصب العین سے قریب کرتے ہیں لیکن وقتی اہداف طے کرتے اور ان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اصل نصب العین کی تذکیر کرتے رہنا ضروری ہے۔ نگاہ وقتی ہدف پر اس طرح نہ جم جائے کہ نصب العین ذہن سے اوجھل ہوجائے۔
کسی مقام پر تحریک کے افرادتحریک کے نصب العین کو سامنے رکھ کر تعلیمی ادارہ قائم کریں، شروع میں اس پر توجہ بھی رہے، طلبہ کی اسی جہت میں شخصیت سازی بھی کی جائے۔ رفتہ رفتہ اس کی حیثیت عام تعلیمی اداروں کی ہوجائے، اس کے بعد جب بھی ادارے کی ترقی کے لیے منصوبہ بنے تو محض ایک تعلیمی ادارے والی حیثیت سامنے رہے، اس ادارے کو نصب العین کے حصول کے لیے کار گر بناتا تھا، یہ بات کسی کے ذہن میں نہ رہے۔ یہ ایک مثال ہے۔ مختلف کاموں اور اداروں کا اس پہلو سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
دفاع اور تحفظ انسان کی فوری ضرورت ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن دفاع اور تحفظ پر توجہ اس طرح مرکوز ہوجائے کہ وہی نصب العین کی جگہ لے لے اور نصب العین کی یاد دہانی کو بے وقت کی راگنی کہا جانے لگے، تو یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔ جس طرح کھانا پینا انسان کی ضرورت ہے مگر انسان کی زندگی کا مقصد نہیں، اسی طرح دفاع و تحفظ امت مسلمہ اور اسلامی تحریک کی ضرورت تو ہے مگر مقصد اور نصب العین نہیں ہے۔
نصب العین کی حفاظت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے دستور میں وضاحت کے ساتھ درج کردیا جائے اور دستور سے تحریک کے ارکان کا مضبوط تعلق رہے۔ وہ دستور کی طرف بار بار رجوع ہوتے رہیں۔ دستور کے ذریعے تحریک کے تنظیمی ڈھانچے کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ فرائض و اختیارات کی دستور میں وضاحت ہو اور عملی طور پر اس کا پورا لحاظ کیا جائے تو تنظیمی ڈھانچہ اور اس کی روح محفوظ رہتی ہے۔ اگر عمل اور دستور میں ہم آہنگی برقرار نہ رہے تو دستور کا احترام محفوظ نہیں رہتا ہے اور دھیرے دھیرے مزاج میں غیردستوریت داخل ہوجاتی ہے جو تنظیمی بحران کا سبب بنتی ہے۔
سمت سفر کی حفاظت
نصب العین کے حصول کے لیے سفر صحیح سمت میں جاری رہے، یہ بھی ضروری ہے۔ جب نصب العین کے حصول میں تاخیر ہوتی ہے تو دل میں وسوسے پیداہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف یہ سوال سنائی دیتا ہے کہ نصف صدی گزر گئی، ایک صدی بیت گئی، تحریک ابھی تک نصب العین کے حصول سے دور کیوں ہے۔
یہ سوال مایوسی پیدا کرتا ہے، نصب العین کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ شارٹ کٹ تلاش کرنے کا خیال آتا ہے۔ ایسے وسوسوں اور خیالوں کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے دلوں سے نکالنا ضروری ہے۔ نصب العین کا جلد حصول جدوجہد میں اضافہ اور رفتار میں سرعت کا تقاضا تو کرتا ہے، لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے کسی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ شارٹ کٹ کو اختیار کرنے والے منزل کھوبیٹھتے ہیں اور صحیح سمت کی طرف چلنے والوں کے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اسلامی تحریک کا یہ ٹھوس فیصلہ رہا ہے کہ وہ پرامن طریقہ کار پر کار بند رہے گی۔ تاہم مختلف ملکوں میں غلبہ اسلام کی خاطر عسکریت کا راستہ سُجھانے والے جلد باز اور ناسمجھ افراد نے عام مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، اسلام کی تصویر کوخراب کیا اور اسلامی تحریکات کے لیے مشکلات بڑھائیں۔ رائے عامہ کی تربیت کرکے ملک میں صالح انقلاب لانے کے راستے کو طویل خیال کرکے، بعض ملکوں میں اسلامی حکومت کے قیام کی امید میں آمریت کا ساتھ دینے کا تجربہ بھی شارٹ کٹ تلاش کرنے کی افسوس ناک مثال ہے۔
کبھی حالات کا خوف اور دباؤ بھی سمت سفر بدلنے کی تجویز سُجھاتا ہے۔ حالاں کہ اسلامی تحریک کے سامنے پہلے دن سے یہ بات واضح رہتی ہے کہ یہ راستہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ سبق اچھی طرح یاد رہے تو ذہن کسی طرح کے خوف اور دباؤ کو قبول نہ کرے۔
خوف اور مایوسی کے زیر اثر کبھی درست فیصلے نہیں ہوسکتے ہیں۔ تحریک کے ارکان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے درمیان خوف اور مایوسی کی باتیں نہ ہونے دیں۔ جب کوئی ایسی بات سامنے آئے تو اپنے بنیادی لٹریچر کی طرف رجوع کریں جہاں خوف اور مایوسی سے محفوظ رکھنے والے زرّیں اصول دیے گئے ہیں۔ اسلامی تحریک کے بانیوں نے جلد بازی کے نقصانات کو بھی اچھی طرح واضح کیا ہے۔ ان اسباق کا اعادہ بھی تحریک کے سبھی ارکان کو کرتے رہنا چاہیے۔
رفتار کار کی حفاظت
نصب العین سے سچی محبت کا تقاضا ہے کہ اس کی طرف قدم تیز تیز اٹھیں۔ راستے میں آرام کا وقفہ لمبا نہ ہو۔ راستے کے کانٹوں سے الجھنے میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔ وقت، توانائی اور مال کا زیادہ سے زیادہ حصہ اسی کام میں لگایا جائے۔
نصب العین کے حصول کی تمنا اس کی محرک بنتی ہے کہ نئے نئے ترقی یافتہ طریقے اختیار کیے جائیں۔ پرانے طریقوں پر اصرار نہ کیا جائے۔ جنھیں پرانی سواریوں کا شوق ہوتا ہے وہ فرصت کے اوقات تخلیق کرکے پرانی سواریوں پر بیٹھنے کا اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ لیکن جنھیں منزل پر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے وہ تیز رفتار سواریوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی طرح نصب العین کو جلد حاصل کرنے کی فکر روایتی طریقوں پر اصرار سے باز رکھتی اور نئے نئے طریقے سیکھنے کا محرک بنتی ہے۔ رفتار کار کی سرعت کو نصب العین کی اہمیت سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جمود اور سست رفتاری کے بجائے حرکت اور تیز رفتاری پر تمام ارکان یقین رکھتے ہوں۔ یہ جمود پسندی اور سست روی ہے کہ پرانے سست رفتار طریقوں پر اصرار کیا جائے محض اس لیے کہ وہ پہلےاختیار کیے گئے تھے اور طبیعت ان سے مانوس ہے۔
چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھنے کے نتیجے میں تحریک کی رفتار پربہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ بڑے نصب العین کی طرف گام زن تحریک کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہوتا ہے کہ وہ چھوٹے مسائل میں اختلاف کا شکار ہوجائے۔ نصب العین سے چھوٹا ہر مسئلہ خواہ وہ اپنے آپ میں کتنا ہی بڑا محسوس ہوتا ہو، اسلامی تحریک کے لیے وہ چھوٹا مسئلہ ہی ہوتا ہے۔ ایسے مسائل میں الجھ کر اپنی توانائی ضائع کرنا اور نصب العین کی طرف پیش قدمی کو سست کرلینا دانش مندی نہیں ہے۔
جوش و جذبے کی حفاظت
تحریک نام ہی ہے جوش اور جذبے کا۔ جوش اور جذبہ ہی تحریک کو برپا کرتا ہے اور وہی اسے منزل کی طرف گام زن رکھتا ہے۔ شروع میں جب تحریک کے افراد میں جوش وجذبہ جوان رہتا ہے، تو تحریک کا سفر زور و شور سے جاری رہتا ہے۔ اگر جذبات کی انگیٹھی کو مسلسل ہوا نہ دی جائے تو وقت کے گزرنے کے ساتھ نصب العین سے والہانہ لگاؤ کم ہونے لگتا ہے اور زندگی کے دوسرے اہداف دل میں جگہ بنالیتے ہیں۔ جب زندگی کے چھوٹے تقاضے بڑی ترجیحات بن جاتے ہیں تو نصب العین جیسے بڑے تقاضے کے لیے جوش سرد پڑنے لگتا ہے۔ چھوٹے تقاضوں میں زیادہ دل چسپی نصب العین سے لگاؤ کو کم کردیتی ہے۔
جذبات کی انگیٹھی کو دہکائے رکھنے کا کام صرف قیادت سے نہیں ہوتا ہے۔ ہر فرد کواپنے حصے کی آگ بھڑکانی ہوتی ہے۔ تحریک کو مایوسی اور خوف سے بچانے اور جذبات کو کو گرم رکھنے کے لیے تحریک کے ہر رکن کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ورنہ
خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں
برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ
جس طرح سورج ہر روز اپنی اُسی آب و تاب کے ساتھ نکلتا ہے، اسلامی تحریک کے ارکان کو بھی اپنے دن کا آغاز پرجوش عزائم کے ساتھ کرنا چاہیے۔
قیادت پر اعتماد کی حفاظت
دوسری عوامی تحریکیں تو اپنے افراد سے قیادت پر اندھا بھروسا اور اندھی عقیدت مانگتی ہیں۔ لیکن اسلامی تحریک قیادت پر شعوری اعتماد کا مطالبہ کرتی ہے۔ قیادت قرآن و سنت کی پابند ہوتی ہے اور اجتہادی معاملات میں اجتہاد کرنے کے لیے آزاد ہوتی ہے۔ اسلامی تحریک کے ارکان قیادت پر نگاہ رکھتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کی پابندی کرے، لیکن اجتہادی معاملات میں قیادت کے فیصلوں کو قبول کرتے ہیں، خواہ وہ ان کی اپنی اجتہادی رایوں کے خلاف ہوں۔ قیادت پر اعتماد کی یہ انوکھی صورت ہے جو صرف اسلامی تحریک کی خصوصیت ہے۔ اسلامی تحریک سے وابستہ فرد اگر کبھی محسوس کرتا ہے کہ قیادت کی جانب سے کسی قرآن وسنت کے کسی مستحکم اصول کی خلاف ورزی ہورہی ہے تو وہ محتسب بن جاتا ہے اور جیسے ہی اس پر یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسی کوئی خلاف ورزی نہیں ہورہی ہے، وہ مطیع و فرماں بردار بن جاتا ہے۔ احتساب کا عمل اعتماد کی کیفیت کو مجروح نہ کرے، تحریک کی صحت مندی کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔
اجتہاد کی آزادی ارکان کوبھی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی اطاعت کی راہ میں آڑے نہ آئے۔ اس آزادی کے نتیجے میں ارکان کی فکری سطح ضرور بلند ہو،تاہم حرکت و عمل کے سلسلے میں قیادت سے ملنے والی رہ نمائی کا پورا پاس رکھا جائے۔
کسی بھی اجتماعیت کے لیے مشاورتی نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ مشاورتی نظام سے برآمد ہونے والے فیصلے ضروری نہیں کہ سب کے لیے اطمینان بخش ہوں، لیکن یہ بات ضرور سب کے لیے اطمینان بخش ہونی چاہیے کہ فیصلہ ایک مشاورتی نظام سے برآمد ہوا ہے۔ آپ کو مشاورتی نظام کی صحت و بقا کی فکر زیادہ ہونی چاہیے، مشاورتی نظام سے حاصل ہونے والے فیصلوں کے بارے میں زیادہ فکر نہیں ہونی چاہیے، خواہ وہ آپ کی رائے میں غلط کیوں نہ ہوں۔
ثبات و تغیر کی حفاظت
اسلامی تحریک کے فکری سرمایے میں کچھ اصول اور عقائد ہوتے ہیں جو ثابت اور ناقابل تغیر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ فکر و عمل کا ایک حصہ وہ ہوتا ہے جو زمانے کی تبدیلی کے ساتھ تغیر پذیر رہتا ہے۔ ثابت اصولوں کا ثبات محفوظ رہے اور باقی جزئیات کی تغیر پذیری محفوظ رہے، یہ بہت ضروری ہے۔ تحریک کے عقیدے اور نصب العین کو ثبات حاصل رہے جب کہ طریقہ کار اور پالیسی و پروگرام میں زمانے کے تقاضوں کے تحت مناسب تبدیلی ہوتی رہے۔ تحریک کے ارکان کو ان دونوں پہلوؤں کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ ثبات و تغیر کا تصور اگر تحریک کے ارکان کے سامنے رہے گا تو جہاں تبدیلی مطلوب ہے وہاں وہ آسانی کے ساتھ اول وقت میں انجام پائے گی۔ ورنہ تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے بھی اس کے لیے خود کو آمادہ کرنے میں کافی دیر ہوجائے گی۔ تبدیلی کی ضرورت کا احساس، تبدیلی کا فیصلہ اور تبدیلی کے فیصلے پر عمل، یہ سب کچھ بروقت ہونا چاہیے۔ اس پورے عمل میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ جب تک کسی تبدیلی پر عمل کی نوبت آئے، اگلی تبدیلی کا وقت آجائے۔ ارکان کی مستعدی کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا۔ خاص طور سے تیز رفتار تبدیلیوں کے موجودہ زمانے میں۔
تحریک میں کشاد ہ ماحول اور آزاد فضا کی حفاظت
اسلامی تحریک کے اندر فکری ہم آہنگی ضروری ہے۔ فکری ہم آہنگی کا مطلب فکری بنیادوں پر سب کا اتفاق ہے، تمام افکار پر سب کا مکمل طور پر متفق ہوجانا نہیں ہے۔ باشعور انسانوں کے کسی گروہ میں ایسا ہو بھی نہیں سکتا ہے۔ اسلامی روایت میں ہمیں کوئی شاگرد ایسا نہیں ملتا جو اپنے ٹیچر کی تمام رایوں سے مکمل طور پر متفق رہا ہو۔ جزئیات میں بے شمار اختلافات کے باوجود ٹیچر اور شاگرد مل کر ایک مکتب فکر کی تشکیل کرتے رہے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
اسلامی تحریک میں صحت مند فکری ماحول ہو اس کے لیے غور و فکر کی آزادی اور ایک دوسرے سے اختلاف ظاہر کرنے کی کشادگی ضروری ہے۔ اس کشادگی اور آزادی کی بدولت تحریک کا دائرہ بڑھتا ہے۔ نصب العین پر یقین رکھنے والے، مختلف قسم کی سوچ اور ذوق کے حامل افراد آسانی سے ایک پرچم تلے جمع ہوسکتے ہیں۔ اگر کشادہ ماحول اور آزاد فضا نہ ہو تو تحریک کا دائرہ سمٹ کر بہت چھوٹا ہوجاتا ہے یا پھر تحریک کے دائرے کے اندر مختلف افکار کے حاملین کے درمیان بقا کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے۔
چمن میں اختلاط رنگ و بو سے بات بنتی ہے
ہمی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں تمھی تم ہو تو کیا تم ہو
ایک عظیم نصب العین سے وابستہ ہوجانے کے بعد دل میں اتنی کشادگی ضرور آجانی چاہیے کہ فقہی و فکری مسائل میں اختلاف رائے کو خوشی سے قبول کرلیا جائے۔ تحریک میں مطلوب فکری وحدت یہ نہیں ہے کہ تحریک کے تمام لوگ تمام فقہی و فکری مسائل میں مکمل طور پر اتفاق کرلیں۔ بلکہ مطلوب اور ممکن وحدت یہ ہے کہ تحریک کے تمام لوگ ایک دوسرے کے لیے فقہی و فکری اختلاف کے حق کو تسلیم کرلیں۔ ایک نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے والے مختلف فقہی، کلامی، ذوقی مسلکوں سے وابستہ ہونے کے باوجود ایک تحریک کا حصہ بن جائیں، یہی مثالی صورت ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تحریک کے افراد ہر چیز سے زیادہ نصب العین سے محبت رکھتے ہیں۔
جہاں تحریک کے اندر فکر و خیال کی آزادی مطلوب اور اس کے نتیجے میں ہونے والا فکری تنوع محمود ہے، وہیں میدان عمل میں قدم سے قدم ملاکر اور سیسی پلائی ہوئی دیوار بن کر پیش قدمی کرنا ضروری ہے۔ مشاورتی عمل کے ذریعے جو پالیسی اور پروگرام طے ہوجائے، اس کی عمل آوری میں کسی طرح کی چوں چرا مذموم ہے۔ فکری حریّت عملی حرکیت کے لیے مہمیز کا کام کرے نہ کہ رکاوٹ کا۔
صفوں میں اتحاد کی حفاظت
تحریک کے ارکان کی ذمے داری ہے کہ وہ تحریک کے اندر اتحاد و اتفاق کی کیفیت پر نگاہ رکھیں۔ کوئی عصبیت اٹھتی ہوئی دیکھیں تو حکمت سے اس کا ازالہ کردیں۔ انسانی اجتماعیت کے درمیان عصبیتیں جنگلی بیلوں کی طرح ہوتی ہیں۔ انھیں نمودار ہونے اور پھیلنے میں نہیں لگتی۔ ان کی جڑ ناپائیدار اور کم زور ہوتی ہے لیکن وہ جب پھیل جاتی ہیں تو مضبوط بنیادوں پر قائم اجتماعیت کو نحیف و لاغر کرکے رکھ دیتی ہیں۔
عصبیتیں گروپ بندی کو جنم دیتی ہیں۔ گروپ بندی کی نہایت قبیح صورت اسلامی تحریک کے اندر ہونے والی گروپ بندی ہے۔ تحریک کے اندر بننے والے گروپوں کی حیثیت دراصل قلعہ کی فصیل میں پڑنے والی دراڑوں کی ہوتی ہے۔ جب دیوار میں دراڑیں پڑ جائیں تو وہ کسی بھی وقت ڈھے سکتی ہے۔
امت کے اندر ایک تحریک تشکیل پائے جو امت کو زوال سے نکال کر عروج تک پہنچانے کے لیے کوشش اور محنت کرے اور اسی تحریک کے اندر ایسے گروپ بن جائیں جن کا کام سوائے اس تحریک کو کم زور کرنے کے اور کچھ نہ ہو۔ اس المیے سے اسلامی تحریک کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
مختلف فکری موقف رکھنے والے الگ الگ تحریک قائم کریں اور انسانوں کے وسیع سمندر میں اپنا اپنا کام کریں، اس کی تو پوری گنجائش موجود ہے، لیکن ایک ہی تحریک کے اندرکئی گروپ بن جائیں اور تحریک کے چھوٹے سے آنگن میں بڑی کشمکش چھڑ جائے، یہ کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔
تحریک کے ہر رکن کی ذمے داری ہے کہ وہ جہاں دیکھے کہ تحریک کے اندر گروپ بندی کا بیج بویا جارہا ہے فوراً اس سے اپنے آپ کو الگ کرلے اور دوسروں کواس کی خرابی سے خبردار کردے۔ جہاں کسی عصبیت کا حوالہ دیا جائے وہ چیخ پڑے: اسے چھوڑو، یہ بدبودار ہے۔
دین کے کچھ احکام قرآن و سنت میں صاف بیان کیے گئے ہیں اور کچھ احکام اجتہاد کے ذریعے معلوم کیے جاتے ہیں، تحریک کے ارکان پر یہ فرق اچھی طرح واضح رہنا چاہیے۔ امت کے اندر جتنے فرقے بنے ہیں اور تفرقہ بازی کے جتنے فتنے اٹھے ہیں، وہ سب اپنے اجتہادی فہم کو قرآن وسنت سے زیادہ اہمیت دینے کے نتیجے میں ہی بنے ہیں۔ اپنی سمجھ کوقرآن و سنت کا مقام دینے کے نتیجے میں تحریک کے اندر بھی تفرقے کا فتنہ برپا ہوسکتا ہے۔ ارکان کا صحیح فہم اس طرح کے فتنوں کا آسانی سے سدّ باب کرسکتا ہے۔
تحریک سیاسی شوق کی آماج گاہ نہ بنے
اسلامی تحریک جب ایک تنظیم کا سانچہ اختیار کرتی ہے تو اس میں مجالس اور عہدے وجود میں آتے ہیں۔ ان مجالس اور عہدوں کے لیے انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ یہ انتخابات بہت سادہ اور پاکیزہ طریقے سے ہوسکتے ہیں۔ انتخابات کی حقیقت صرف اتنا ہی تو ہے کہ ہر شخص اپنی صواب دید سے اپنی رائے یا ووٹ دے دے اور جو نتیجہ آئے اسے خوش دلی سے قبول کرے۔ لیکن ایسے موقع پر اگر کسی کے دماغ میں سیاست کا کیڑا کلبلانے لگے اور وہ اس چکر میں پڑجائے کہ فلاں کو زیادہ ووٹ ملے اور پھر اس کے لیے سرگرم ہوجائے، تو اس مذموم سیاسی شوق سے تحریک کوبڑا نقصان پہنچتا ہے۔ اس کا نظام اقدار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس مکروہ شوق کے نتیجے میں تحریک کے اندر لابیاں بنانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
تحریک کے ارکان میں اس حوالے سے شدید حساسیت ہونی چاہیے۔ تحریک میں کسی کے اندر یہ جرأت نہ ہو کہ وہ کسی کے لیے مہم چلائے۔ اس طرح کی مہم چلانے والا شخص پہلے ہی قدم پر شدید ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرے۔
تحریک کے شباب و تسلسل کی حفاظت
تحریک کی ابتدا میں نوجوانوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ وہ نوجوان عمر دراز ہوتے جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر نیا نوجوان خون شامل ہوتا رہے تو تحریک توانا رہتی ہے اور اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اور قطرے رک جائیں تو دریا سوکھ جاتا ہے۔ نیا تازہ دم خون شامل کرنے کا کام تحریک کے ارکان کا ہے۔ درخت کی جڑ میں بے شمار نسیں ہوتی ہیں جو زمین سے غذا شاخوں تک پہنچاتی ہیں، تب شاخوں میں نئے پتے، نئے پھول اور پھل آتے ہیں۔ جڑ کی ہر ہر نس کو یہ کام کرنا ہوتا ہے۔ تحریک میں یہی کام ہر ہر رکن کو انجام دینا ہوتا ہے۔ جو ارکان اس کام پر توجہ دیتے ہیں وہ دراصل تحریک کے شباب اور تسلسل کی حفاظت کرتے ہیں۔ نئے آنے والے نوجوانوں کو تحریک کے اندر خوب پذیرائی ملے، ان کی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو، ان کے جذبات کو سازگار ماحول ملے اور انھیں عمر کی اجنبیت کا ذرا احساس نہ ہو، یہ تحریک کے تجربہ کار اور عمر رسیدہ بزرگوں کی بے نفسی، کشادہ ظرفی اور محبت و شفقت سے آسانی سے ممکن ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک کے شباب کی حفاظت میں تحریک کے بزرگ ارکان کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔
تحریک کی زندگی افراد سے ہے۔ افراد کی مسلسل آمد تحریک کی زندگی کو یقینی بناتی ہے۔ بعض گھروں میں تحریک کی امانت آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں ہوپاتی ہے اور گھر کے تحریکی بزرگ کی وفات کے ساتھ ہی تحریک بھی اس گھر کو الوداع کہہ دیتی ہے۔ بعض گھروں میں تحریک گھر کے اندر تو خوب پنپتی ہے لیکن وہاں سے دوسرے گھروں تک نہیں پہنچتی۔ تحریک آپ کے گھر میں ختم نہ ہوجائے اور آپ کے گھر تک محدود نہ رہ جائے، دونوں باتوں پر یکساں توجہ دینی ہوگی۔
اعلی اقدار کی حفاظت
اسلامی تحریک کے قیام کے وقت اعلی اقدار کا ایک زبردست ذخیرہ وجود میں آتا ہے۔ وہ مجموعہ اقدار اسلامی تحریک کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت کے لیے تحریک کے ہر فرد کی توجہ درکار ہوتی ہے۔ ہرنسل اپنے بعد آنے والی کم سن نسل کو یہ اقدار منتقل کرنے کا اہتمام کرے تو تحریک کے ساتھ اقدار کا سفر بھی جاری رہتا ہے۔ تحر یکی کام کے پرانے طریقوں کو ترک کرکے نئے طریقے اختیار کرتے وقت اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اقدار کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے۔ بہت ضروری ہے کہ ہر نئے طریقے کو اقدار کے محلول میں بھگو کر اسے اقدار سے ہم آہنگ کیا جائے۔
فرد کی اثر آفرینی اور تنظیم کی کارکردگی بڑھانے والے بہت سے طریقے دراصل تجارتی مقاصد کے تحت ایجاد کیے گئے ہیں۔ یہ طریقے اسلامی تحریک و تنظیم کے لیے بھی مفید ہوسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان کے اندر سے تجارتی روح کو نکال کر دینی روح کو داخل کیا جائے۔
تحریک کے سارے کاموں کا محرک رضائے الہی کا حصول ہو، یہ اسلامی تحریک کی اعلی ترین قدر ہے۔ صبر، قربانی اور ایثار بھی اسلامی تحریک کی اعلی قدریں ہیں۔ امیر کی اطاعت اور اجتماعی فیصلے پر رضامندی بھی اعلی قدریں ہیں۔ ایک ہی فرد کبھی امیر اور کبھی اطاعت گزار کارکن بن جاتا ہے۔ تحریک میں شامل ہوتے ہی تحریک کا رکن ہر طرح کی حرام کمائی سے دست بردار ہوجاتا ہے۔ غیر اسلامی تقریبات سے شدید قسم کا تنفر پایا جاتا ہے۔
ایسی تمام قدروں کی حفاظت اسی وقت ہوگی جب تحریک کا ہر رکن اس کے لیے فکر مند رہے گا۔
انتہا پسندانہ رجحانات سے حفاظت
اسلامی تحریک کئی جہتوں سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ ملک کی مقتدرہ، عوام کے مختلف طبقات اور دوسری تحریکات اور جماعتیں اسلامی تحریک کے افراد کو مختلف مواقع پر زیادتی کا نشانہ بناتی ہیں۔ ایسے میں تشدد کے ردعمل میں تشدد کا خیال آسکتا ہے۔ لیکن اسلامی تحریک کے لیے تشدد کا راستہ تباہ کن ہوتا ہے اور منزل سے بہت دور کردیتا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک کے تمام ارکان کی چوکسی ضروری ہے۔ اسلامی تحریک کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد میں دین کے لیے جوش و جذبہ اور امت کے لیے غیرت و حمیت بہت ہوتی ہے، لیکن وہ اعتدال کے دائرے میں رہتی ہے، انتہا پسندی کی صورت اختیار نہیں کرتی ہے۔
جوش و جذبے اور غیرت و حمیت کا ماحول انتہا پسندی کے لیے بہت سازگار ہوتا ہےاگر اسے شعور و اعتدال کی لگام نہ دی جائے۔ تحریک کے ہر رکن کو اپنے اندر وہ شعور پیدا کرنا ہوگا جو اس کے جذبات کو حد اعتدال میں رکھے۔
محبت کے ماحول کی حفاظت
اسلامی تحریک کے اندر محبت و احترام کا ماحول ہونا چاہیے۔ آپس میں ایک دوسرے کو مربوط کرنے کے لیے تحریک میں ایک ہی شیرازہ ہوتا ہے، یعنی اللہ واسطے کی محبت۔ جب سب کا مقصود اللہ کی رضا کا حصول ہو، جب سب کا نصب العین ایک ہو اور جب سب ایک راہ کے راہی ہوں، تو محبت و احترام کا ماحول بغیر کسی تکلف اور بناوٹ کے بن جاتا ہے۔ اس ماحول کی حفاظت ضروری ہے۔
بدگمانی، تجسس اور غیبت جیسی برائیاں، نیز طنز و تمسخر جیسی بے احتیاطیاں دل میں کدورت اور تعلقات میں بگاڑ پیدا کردیتی ہیں۔ تحریک میں محبت واحترام کا ماحول قائم رہے اس کے لیے ایسی ہر چیز سے پرہیز لازم ہے جس سے دلوں میں میل آجائے۔
تحریک کے ارکان اگرباہمی محبت کا سرمایہ بڑھانے پر توجہ دیں تو تحریک سے وابستگی ایک پرکیف عمل بن جائے گی۔ محبت کا سرمایہ کیسے بڑھایا جاتا ہے اور کیسے اس کی حفاظت کی جاتی ہے، اس کے سلسلے میں قرآن و سنت میں بہت سی تعلیمات موجود ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ صحابہ کی جماعت میں محبت کا سرمایہ بڑھانے اور اسے بچانے پر خاص توجہ دیتے تھے۔ سلام، دعا، دعوت، تحائف اور زبان سے محبت کا اظہار جیسے بہت سے طریقے ہمیں آپ کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔
روحانی ماحول کی حفاظت
اسلامی تحریک دنیا میں برپا ہونے والی اور دنیا کو تبدیل کرنے والی دینی تحریک ہوتی ہے۔ اس میں وسائل مادی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن ماحول روحانی درکار ہوتا ہے۔
تحریک کی نوع بہ نوع سرگرمیوں پر اللہ کے ذکر کا گہرا عکس نظر آنا چاہیے۔ تحریک کے کام انسانوں کے درمیان انجام پاتے ہیں۔ انسانی تعلقات اور انسانوں سے ملاقات کی بہتات ہوتی ہے۔ ایسے میں بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے غفلت ہوجائے اور اس طرح تعلقات اور ملاقاتیں خالص مادی صورت اختیار کرجائیں۔ اس لیے کثرت سے اللہ کا ذکر ضروری ہے۔
جو لوگ انسانوں کے درمیان زیادہ رہتے ہیں ان کے لیے خلوت کے لمحات اتنے ہی زیادہ ضروری ہوتے ہیں۔ آہ سحر گاہی، صبح کی مناجاتیں اور رات کے آخری پہر کی نمازیں دن بھر کی سرگرمیوں کو روحانی رنگ دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دین کی تشریح و تفہیم کرتے ہوئے بھی روحانی پہلو کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اللہ کی اطاعت کے تقاضوں کے ساتھ اللہ کی محبت کے تقاضوں پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ اسلام کے سیاسی و معاشی نظام کے ساتھ اسلام کے روحانی نظام کو بھی پیش کیا جائے۔ عدل وانصاف کے قیام کی ذمے داری بھی اٹھائی جائے ساتھ ہی اللہ کے لیے عبادت و انابت کی طرف دعوت دینے میں بھی کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔
اعتدال و توازن کی حفاظت
تحریک میں فکر و عمل کا اعتدال بے حد ضروری ہے۔ اپنی ذات کی تربیت، اپنے گھر اور خاندان کی تربیت اور پورے انسانی سماج کی اصلاح کی کوشش اس طرح کی جائے کہ کسی بھی سمت میں کوتا ہی نہ رہ جائے۔
علمی ارتقا اور عملی جدوجہد کے درمیان تواز ن رہے۔ کوئی ایک پہلو زیادہ تشنہ نہ رہ جائے۔
جوش و جذبے اور حکمت و بصیرت کے درمیان حسین توازن رہے۔ جوش کی زیادتی جذباتیت میں مبتلا نہ کردے اور جوش کی کمی مصلحت پسند اور کم ہمت نہ بنادے۔
بیرونی دنیا کی مصروفیت باطن کی سیر سے بے نیاز نہ کرے اور باطن کی طرف دھیان میں غلو بیرونی دنیا سے منقطع نہ کردے۔
تحریک سے بے انتہا محبت ہو، لیکن وہ محبت غلو کے درجے تک نہ پہنچ جائے کہ تحریک کے باہر کا ہر فرد گم راہ نظر آنے لگے۔
قیادت کا احترام عقیدت میں تبدیل نہ ہوجائے اور عقیدت سے بچنے کی فکر میں احترام رخصت نہ ہوجائے۔
وسائل سے اتنا زیادہ لگاؤ نہ ہو کہ وہ مقصد سے زیادہ اہمیت اختیار کرجائیں اور مقصد کے نام پر وسائل سے بے نیازی بھی اختیار نہ کی جائے۔
تحریک کے مزاج کی حفاظت
اسلامی تحریک کا بہت قیمتی سرمایہ اس کا اپنا خاص مزاج بھی ہے۔ تحریک میں سنجیدہ مزاجی ہوتی ہے۔ منصوبہ بند کام اور نتیجہ خیز کوششوں پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ ہلّڑ بازی اور محض بھیڑ اکٹھا کرنےکو ناپسند کیا جاتا ہے۔ مناظرہ بازی تحریک کے مزاج سے میل نہیں کھاتی۔ امت میں ہونے والی ہر اچھی اور تعمیری کوشش کو سراہا جاتا ہے۔ امت کی خیر خواہی کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ امت کی دیگر جماعتوں کے ساتھ کشمکش سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اشتعال انگیز تقریروں اور نعروں سے سختی سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
ذمے داریوں کو منصب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے عہدے سےدامن بچانے کا مزاج ہوتا ہے۔ بیت المال کے سلسلے میں یتیم کے مال کی طرح احتیاط برتی جاتی ہے۔ مطالعہ کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ کو مرکزی مقام دیا جاتا ہے۔ احتساب کے لیے ہر فرد خوش دلی سے آمادہ رہتا ہے۔ امیر کی اطاعت ہوتی ہے،مگر معروف میں۔ آپس میں ایک دوسرے پر تنقید ہوتی ہے مگر مثبت اور تعمیری تنقید۔ شخصیت پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ فقہی اور کلامی مباحث میں الجھنے کو پسند نہیں کیا جاتا۔ یہ تحریکی مزاج کی خوبی ہے کہ برسوں ساتھ رہنے کے بعد بھی رفقائے تحریک ایک دوسرے کے فقہی مسلک سے ناواقف رہتے ہیں۔
غرض اسلامی تحریک کی اپنی مزاجی خصوصیات ہیں۔ ان خصوصیات کی حفاظت اسی وقت ہوگی جب تحریک کا ہر رکن عملی طور پر اس کی پاس داری کرے گا۔
خلاصہ کلام
اوپر جو نکات ذکر کیے گئے ہیں ان کی حیثیت مثالوں کی ہے۔ اس مضمون کا اصل مقصود یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے ہرایک خلیے اور ہر ایک خصوصیت کی حفاظت تحریک کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ تحریک کی گاڑی میں بریک، ایکسلیٹر، ڈرائیونگ وہیل سب کا درست طریقے سے کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسے یقینی بنانا تحریک کے تمام پاسبانوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی تحریک بھی انسانوں پر مشتمل تحریک ہوتی ہے۔ قیادت بھی اور جماعت بھی۔ انسانوں میں خوبیوں کے ساتھ کم زوریاں بھی ہوتی ہیں اور اچھے کاموں کے ساتھ غلطیوں کا صدور بھی ہوتا ہے۔ خوبیوں پر مگن ہوجانا یا خرابیوں سے بد دل ہونا مناسب رویہ نہیں ہے۔ خوبیاں بڑھانے اور خرابیاں دور کرنے کی طرف مثبت انداز میں توجہ رہنی چاہیے۔ اس کے لیے قرآن مجید میں مذکور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر (ایک دوسرے کو راہ حق پر چلنے اور اس پر جمےرہنے کی نصیحت کرتے رہنا) کے عمل کو اپنے درمیان رائج رکھنا چاہیے۔ تحریک کی پاسبانی کا کام مل جل کر ہوتا ہے۔ ایک دوسرے پر ڈھکیلنے سے یہ ذمے داری کبھی ادا نہیں ہوپاتی ہے۔ یہ پاسبانی ہر فرد کی ہر آن چوکسی اور مستعدی کا تقاضا کرتی ہے، ورنہ
پاسباں آنکھیں ملے، انگڑائی لے، آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کرجاتی ہے آگ
اللہ تعالی ایسی ہر آگ اور ایسی ہر غفلت و کوتاہی سے اسلامی تحریک کی حفاظت فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2024