اسلامی تحریک کا ہر رکن اپنے دل میں ایک عظیم الشان تبدیلی کا روشن خواب سجا کر رکھتا ہے۔ اس خواب سے سچی محبت کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سماج میں اس خواب کو فروغ دے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس خواب کے امین بن جائیں۔ یہ ستم ظریفی ہوگی کہ جس خواب کو وہ اپنی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہے، اس کے بارے میں اس کے گھر اور محلے کے لوگ بھی بے خبر رہیں۔ سماج میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب تبدیلی کا خواب سماج کے زیادہ لوگ دیکھنے لگیں گے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کو جب حضرت یحیی کی بشارت دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ تین دن تک صرف اللہ کے ذکر و تسبیح میں مصروف رہیں، {وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِیرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِی وَالْإِبْكَارِ } [آل عمران: 41] تو حضرت زکریا اپنی قوم کے پاس گئے اور انھیں بھی تلقین کی کہ وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح کریں۔{فَخَرَجَ عَلَى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرَابِ فَأَوْحَى إِلَیهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِیا} [مریم: 11]
اپنے خواب کو سماج کا خواب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سماج سے آپ کے وسیع روابط ہوں اور سماج پر آپ کا گہرا اثر ہو۔ اس مضمون میں اسی راستے کے نقوش واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
سماج سے رابطہ، سماج کے لوگوں کی خدمت اور سماج پر اثر اندازی سے متعلق جتنی باتیں اس مضمون میں ذکر کی گئی ہیں، وہ کسی نہ کسی شکل میں اسلامی تحریک کے تمام افراد انجام دے سکتے ہیں، مرد بھی اور خواتین بھی۔ گھر کے باہر مردوں کے لیے سرگرمی کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں، تاہم عورتوں کے پاس بھی مواقع کم نہیں ہوتے ہیں، خاص طور سے عورتوں کے سماج میں تو ان کے پاس مردوں سے کہیں زیادہ اسپیس ہوتا ہے اور وہ اس سماج کا طاقت ور ستون بن سکتی ہیں۔
شروع میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس مضمون میں جہاں جہاں سماج کا ذکر آیا ہے وہاں سماج کے تمام افراد پیشِ نظر ہیں، مسلمان بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی۔ اسلامی تحریک کے ارکان کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے پورے سماج کے ستون بنیں اور پورے سماج کا بوجھ اٹھائیں۔ سماج کے تمام افراد انھیں اپنا خیر خواہ سمجھیں اور ان پر بھروسا کریں۔یہی رسول کریم ﷺ کا پیارا نمونہ اور یہی صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل تھا۔ دورِ حاضر کی اسلامی تحریک بھی اسی شان دار روایت کی امین رہی ہے۔
بوجھ نہ بنیں، بوجھ اٹھانے والے بنیں
اسلامی تحریک کا میدان کار انسانی سماج ہے۔وہ انسانی سماج جس میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، جوان اور بچے بھی ہیں اور بوڑھے بزرگ بھی، مسلمان بھی ہیں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھی، مال دار بھی ہیں اور غریب ونادار بھی۔ انسانی سماج میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی تحریک کے ارکان سماج کے مضبوط ستون بنیں۔ سماج کی ذمے داریوں کو اٹھانے کے لیے سب سے زیادہ بھروسے مند ان کے کندھے ثابت ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے قریب ترین دوست حضرت ابوبکرؓ سماج کا بوجھ اٹھانے کی نمایاں پہچان رکھتے تھے۔حضرت خدیجہؓ نے جو گواہی اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں دی، وہی گواہی ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں دی: (دونوں روایتیں صحیح بخاری میں ہیں) ‘‘بے شک آپ رشتوں کا خیال رکھتے ہیں، بوجھ اٹھاتے ہیں، نادار کو نوازتے ہیں، مہمان کی ضیافت کرتے ہیں اورقدرتی آفتوں میں مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے قریبی دوست حضرت ابوبکرؓ کا اپنے سماج میں کتنا فعّال رول تھا۔ اعلان نبوت سے پہلے کے زمانے میں جب کہ وہ سماج غیر مسلموں کا سماج تھا اور اعلان نبوت کے بعد کے زمانے میں بھی جب کہ اس سماج میں تھوڑے سے مسلمان اور باقی سب غیر مسلم تھے۔
سماج کو بہتر بنانے کا ایجنڈا
اسلامی تحریک کے ہر فرد کے پاس اپنے سماج کے سلسلے میں ایک ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اس کے سامنے واضح رہے کہ وہ کن محاذوں پر کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہتا ہے۔اس کی نگاہ ان افراد کو تلاش کرتی رہے جو مطلوبہ تبدیلی لانے میں مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ موجودہ لوگوں میں اسے کام کے افراد نہ ملیں تو وہ بچوں میں جوہر تلاش کرے اورکم سن بچوں کو منتخب کرکے انھیں مستقبل کے مردانِ کار کے طور پر تیار کرے۔ اس کی نگاہ ان مواقع پر بھی رہے جو کبھی کبھی میسّر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں کا وہ بھرپور استعمال کرے۔ اس کے ایجنڈے کی کسی شق پر بھی اگر کوئی عمل کرنے کے لیے پیش قدمی کرے تو وہ بڑھ کر اسے سہارا دے اور اس کی رہ نمائی اور حوصلہ افزائی کرے۔
غرض وہ جس سماج میں رہتا ہو اس کے سلسلے میں اس کے پاس اپنا ایجنڈا ضرور ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ سماجی تبدیلی کے کسی متعین ہدف کے بغیر پوری زندگی گزار دے۔ اس کی روز مرہ کی گفتگو میں اس کے ایجنڈے کی جھلک صاف نظر آتی ہو۔
سماجی کاموں میں سبقت
عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ سماج میں کیا غلط ہورہا ہے، اس کا جواب ہر شخص کو آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن سماج میں کیا ہونا چاہیے، اس کا جواب گہرے غور و فکر کے بعد ہی ملتا ہے اور گہرے غور و فکر کی مشقت زیادہ لوگ اٹھانا نہیں چاہتے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں بھی کچھ لوگ بیٹھتے ہیں وہاں سماج میں پھیلی خرابیوں کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے اور دیر تک جاری رہتاہے، لیکن سماجی تبدیلی کے لائحہ عمل پر گفتگو بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ اگر اس سلسلے میں کسی سے مشورہ مانگا جائے تو وہ بھی ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرکے نکل جاتا ہے۔
سماج کے حقیقی محسنین وہ ہوتے ہیں جو بہتر تبدیلی کے لیے بڑھ کر آئیڈیا پیش کریں اور اس پر عمل کرنے میں بھی خود پیش پیش رہیں۔ سماج کے بہت سے کام آگے بڑھ کر شروع کردینے والوں (Initiators)کا انتظار کرتے ہیں۔ اکثر کے ذہن میں تو اس کا آئیڈیا ہی نہیں آتا ہے اور جن کے ذہن میں آتا ہے ان کے اندر عملی اقدام کا حوصلہ نہیں ہوتا ہے۔
تحریک کے افراد کی جس انداز سے تربیت اور اجتماعی کامو کے لیے ذہن سازی ہوتی ہے، ملک بھر میں ہونے والے تجربات سے ان کی جو خاص واقفیت ہوتی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ سماجی کاموں میں سبقت کریں۔آئیڈیا بھی دیں، ابتدا بھی کریں اور سماج کے سنجیدہ اور باصلاحیت افراد کے ساتھ نیٹ ورکنگ بھی کریں۔ کوئی بعید نہیں کہ جن کاموں کو لوگ مشکل سمجھ کر چھوڑے ہوئے تھے وہ آپ کےمبارک اقدام سےنیک انجام تک پہنچیں۔
ثالثی کا منصب
سماج میں کچھ لوگ بہت مؤثر مانے جاتے ہیں، وہ ثالثی کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ کوئی سرکاری منصب نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کی اصابت رائے اور معاملہ فہمی پر لوگوں کو بھروسا ہوتا ہے، ان کی دیانت داری اور غیر جانب داری پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اور جب کوئی تنازع ہوتا ہے تو باہمی مصالحت کے لیے ایسے ہی لوگوں کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں۔ یہ لوگ سماج کاقیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ جس سماج میں ایسے لوگوں کا کردار فعال ہوتا ہے، وہاں بہت سے تنازعات بھاری قیمت وصول کرنے سے پہلے ہی فیصل ہوجاتے ہیں۔
اسلامی تحریک کی تاریخ بتاتی ہے کہ بہت سے علاقوں میں تحریک کے افراد کو ثالثی کا مقام حاصل رہا ہے اور کام یاب حَکَم کی حیثیت سے ان کی پہچان بنی۔
آپ چھوٹے چھوٹے تنازعات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ غیر جانب داری، دیانت داری اور فہم و فراست کا ثبوت دیں۔ دھیرے دھیرے وہ وقت آئے گا جب بڑے تنازعات کے تصفیے کے لیے بھی آپ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
کونسلنگ کے فن میں مہارت
سماج کے بہت سے لوگ کونسلنگ کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ وہ کسی الجھن یا اضطراب کے شکارہوتے ہیں اور اس سے نکلنے کے لیے انھیں کسی مددگار کی ضرورت ہوتی ہے جو انھیں صحیح راستے کی رہ نمائی کرے۔ کونسلنگ کے فن میں مہارت رکھنے والے افراد غم کے ماروں کے چہروں پر خوشی لاتے ہیں، مایوسی کے قید خانوں میں بند دلوں کو نکال کر امید کی آزاد فضامیں لاتے ہیں، منفی سوچ کے عذاب سے نکال کر مثبت سوچ کی نعمت سے ہم کنار کرتے ہیں۔بے سمتی کے شکار نوجوانوں کو صحیح سمت دینا، سب کچھ کھودینے کے احساس میں گرفتار بوڑھوں کو ابھی بھی بہت کچھ ممکن ہے،کے حوصلہ بخش احساس سے دوچار کرنا، ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کو محبت کی لڑی میں پرونا، تلخ یادوں سے جھوجھنے والوں کی زندگی میں مٹھاس گھولنا، ٹھوکر کھاکر گرنے والوں کو سہارا دے کر کھڑا کرنا، وہ کام ہیں جو کونسلنگ کے ماہرین کرسکتے ہیں۔
اسلامی تحریک کے افراد اگر کونسلنگ کے فن میں مہارت حاصل کریں اور اس کا بہتر سے بہتر استعمال کریں، تو سماج کے لیے وہ بہت فائدہ مند ہوں گے اور سماج کے مؤثر افراد میں شمار ہوں گے۔
رہ نمائی کی استعداد
مریض کو اچھے معالج کا پتہ بتانا، مظلوم کو اچھے وکیل سے ملوانا، بچے کے سرپرست کو اچھے اسکول کی رہ نمائی کرنا، طلبہ اور نوجوانوں کو مفید کتابوں کے نام بتانا، والدین کو اچھے رشتوں کی نشان دہی کرنا، کسی کی قانونی رہ نمائی کرنا تو کسی کی طبی اور کسی کی تعلیمی رہ نمائی۔ رہ نمائی کی بے شمار قسمیں اور شکلیں ہیں۔ رہ نمائی خدمت خلق کی بہترین صورت ہے۔ کسی ضرورت مند کو اپنی جیب سے کچھ روپے دینے سے زیادہ اہم یہ ہوتا ہے کہ اسے ایسی صورت بتادی جائے جس سے اس کی ضرورت مکمل طور پر پوری ہوجائے۔ مثال کے طور پر مریض کو ایسے اسپتال کاپتہ بتادیا جائے جہاں اس کا مفت یا بہت کم پیسوں میں علاج ہوجائے۔غریب کو کسی سرکاری یا غیر سرکاری اسکیم سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ سمجھادیا جائے کہ پھر اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔
رہ نمائی کی استعداد بڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ سماج کی مختلف جہتوں اور اداروں کا زیادہ سے زیادہ علم رکھا جائے۔ جو لوگ سماجی اداروں، سرکاری اسکیموں اور افراد سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، ان کے پاس رہ نمائی کے لیے مطلوب سرمایہ زیادہ ہوتا ہے اور وہ رہ نمائی کا کام زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔
اسلامی تحریک کے افراد کا دائرہ کار پورا سماج ہوتا ہے، اس لیے ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سماج کی تفصیلات سے زیادہ باخبر رہیں گے اور مختلف پہلوؤں سے لوگوں کی رہ نمائی کے لیے زیادہ مفید اور بااعتماد ثابت ہوں گے۔
ترغیب و تشویق کا ملکہ
لوگوں کے اندر بڑے ہدف کا شوق پیدا کردینے (Motivation) کا ملکہ انسان کو سماج میں بااثر بناتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے اندرکچھ کردکھانے کی تحریک پیدا کردی جائے۔ ادارہ جاتی سطح پر یہ کام موٹیویشنل اسپیکر کرتے ہیں اور مقبول عام ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسٹیج کے مقرر تو نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنی پرکشش شخصیت اور حوصلہ بخش گفتگو سے مخاطب کے اندر زبردست تحریک پیدا کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ بڑے مجمع میں موٹیویشنل تقریریں نہیں کرتے ہیں، بلکہ ملاقاتوں کے دوران دلوں میں زندگی کی جوت جگاتے ہیں۔ ہم بڑے لوگوں کے تذکرے میں پڑھتے ہیں کہ وہ بغیر کسی خواب کے زندگی گزار رہے تھے، ان کی دل چسپی عام مشغلوں تک محدود تھی، پھر کسی نے انھیں زندگی کا ایک بڑا ہدف دیا اور اس یادگار لمحے نے ان کی شخصیت کو ارتقا کے پر لگادیے۔ اس کی بھی مثالیں موجود ہیں کہ بہت کم پڑھے لکھے شخص نے کسی بچے میں تعلیم کا ایسا شوق جگادیا کہ وہ علم کی بلندیوں تک جاپہنچا۔
رابطہ بندی کی صلاحیت
سماج میں اگر کچھ لوگ ضرورت مند ہوتے ہیں تو کچھ لوگ ضرورتوں کی تکمیل کا سامان بھی رکھتے ہیں۔ ان کے درمیان رابطہ بندی (Coordination) کرنا سماج کی بہت بڑی خدمت ہے۔فرض کریں کہ سماج میں کسی غریب شخص کو بڑی رقم کی شدید ضرورت آن پڑے، لیکن اس کی رسائی اہل ثروت تک نہ ہو۔ ایسی صورت میں رحمت کا فرشتہ ثابت ہوتا ہے وہ شخص جو اس کے حالات سے واقف ہوتا ہے اور اہل ثروت تک پہنچ بھی رکھتا ہےاور اپنے اعتماد کی بنا پر انھیں اس ضرورت مند کی مدد پر آمادہ کرتا ہے۔ بعض افرادکے پاس ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے وافر رقم موجود نہیں ہوتی ہے، لیکن اپنی رابطہ بندی کی صلاحیت سے وہ بھلائی کے بڑے بڑے کام انجام دیتے ہیں۔
رابطہ بندی کے ذریعے خدمت کے بے شمار کام انجام دیے جاسکتے ہیں۔ اسپتال میں علاج، اسکول میں تعلیم، رفاہی اداروں سے امداد، سرکاری اسکیمیں اور سرکاری دفاتر میں ضروری کارروائی وغیرہ سے متعلق بہت سی مدد ایسے لوگ کرسکتے ہیں جوضرورت مندوں کو کارسازوں سے جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔
اہل ثروت ہوں یا اہل منصب، ان سے روابط آپ کی قوت ہیں۔ لیکن جیسے ہی ان روابط کا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے ہوتا ہے، یہ قوت کم زوری میں بدل جاتی ہے۔ اس لیے ذاتی مفادات سے بلند ہوکر اپنی اس قوت کی حفاظت اور اس کا بہتر استعمال کرنا چاہیے۔ روابط کا بہترین استعمال یہ ہے کہ انھیں سماج کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ رابطہ بندی کا کام انجام دینے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کا شمار سماج کے اعلی حیثیت والے افراد میں ہوتا ہو۔ سماج کا عام فرد بھی اپنے اندر رابطہ بندی کی استعداد پیدا کرکے سماج کی چھوٹی بڑی ضرورتوں کی تکمیل میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
مسائل کا گہرا تجزیہ اور حکمت عملی
سماج میں وہ لوگ توجہ کا مرکز بنتے ہیں جو درپیش حالات و مسائل کا گہرا تجزیہ کرتے ہیں، نیز اپنا تجزیہ خوب صورتی اور سلیقے سے پیش کرتے ہیں۔ جذباتی مزاج کے لوگ جذباتی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ کسی پارٹی سے وابستہ لوگ اپنی پارٹی کی عینک لگاکر ہر مسئلے کو دیکھتے اور بتاتے ہیں۔ بعض لوگوں کی سطحی باتیں انھیں بے وزن بنادیتی ہیں۔ ایسے میں اصل قدر و قیمت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو کسی تعصب کے بغیر، سنجیدگی اور گہرائی سے حالات و مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس سلسلے میں عملی تجاویز بھی رکھتے ہیں۔ سماج میں ایسے افراد کی موجودگی اہم مانی جاتی ہے۔
گہرے تجزیے کے ساتھ کام یاب حکمت عملی (strategy) بھی سماج کی اہم ضرورت ہے۔ عام طور سے لوگ جذباتی مشورے دیتے ہیں یا مایوسی کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی منصوبہ پیش کیا جائے تو اکثر و بیشتر لوگ اسے ناممکن کہہ کر منصوبہ پیش کرنے والی کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایسے لوگ مشکل سے ملتے ہیں جو منصوبوں کی کام یابی کے لیے عمدہ حکمت عملی تیار کرکے دے دیں۔ سماج کو درپیش مسائل سے نکلنے کے لیے اور سماج کی ترقی کے مختلف منصوبوں کو انجام دینے کے لیے حکمت عملی والی سوچ (Strategic thinking)درکار ہوتی ہے۔
حالات اور مسائل کا سنجیدہ تجزیہ کرنے والے اور بہتر سے بہتر حکمت عملی سُجھانے والے ہی دراصل سماج کے حقیقی رہ نما ہوتے ہیں۔ سماج پر ان کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک کے افراد کواس پہلو پر توجہ دینی چاہیے۔ اچھے تجزیے غور سے پڑھنے اور سننے سے تجزیہ کرنے کا ملکہ ترقی پاتا ہے۔حکمت عملی بھی انسان کی ایک مخصوص حس (Strategic sense) ہے جو تربیت اور ممارست سے نشو و نما پاتی ہے۔
مفید و معتبرمعلومات کا ذخیرہ
انسان کی زندگی میں معلومات کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ حصول معلومات کے ذرائع بڑے پیمانے پر دستیاب ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے جو جدید وسائل کا استعمال کرکے مفید اور معتبر معلومات مہیا کرسکیں۔ صحیح و غلط معلومات کے سیلاب میں معتبر معلومات تک پہنچنا عام لوگوں کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ سماج کی رہ نمائی کرنے والے افرادکی ایک بڑی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ معتبر اور غیر معتبر معلومات کے درمیان حد فاصل قائم رکھیں۔ اس کے لیے انھیں اپنی تربیت کرنی ہوگی اور معلومات کے معتبر سرچشموں سے خود کو جوڑنا ہوگا۔ آج کے دور میں اگر ایک طرف رطب و یابس کا سیلاب بہہ رہا ہے تو دوسری طرف صحیح اور غلط کا فرق بتانے والے ترقی یافتہ وسائل بھی میسّر ہیں۔ صحیح اور ضعیف حدیثوں میں فرق معلوم کرنے کے ذرائع بھی موجود ہیں نیز جھوٹی اور سچی خبروں میں تمیز کرنے کے ذرائع بھی موجود ہیں۔جعلی ویڈیو کی بھرمار ہے، جو بسا اوقات سماج کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوتے ہیں، تاہم جعلی ویڈیو کی حقیقت سے آگاہ کرنے والے وسائل بھی آسانی سے دست یاب ہیں۔
پریشان حالوں کی خبر گیری
پریشان حال لوگوں کی خبر گیری اسلامی روایت کا روشن باب ہے۔ لوگوں کی پریشانیوں سے واقف ہونے کے لیے خلفائے راشدین راتوں میں گشت لگایا کرتے اور اپنی پہچان پوشیدہ رکھ کر ان کی چارہ جوئی کیا کرتے تھے۔
افراد کو لاحق بہت سی پریشانیوں کا علاج اگر کسی ایک فرد کے پاس نہیں تو مجموعی طور پر سماج کے پاس موجود ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ سماج کے ذمے دار افراد خبر گیری اور چارہ سازی کا مزاج رکھتے ہوں۔ وہ پریشان حال افراد اور سماج کے وسائل کے درمیان پُل بنیں۔
سماج میں اسلامی تحریک کے افراد کی پہچان چارہ ساز کی ہونی چاہیے۔ جب کسی کو پریشانی لاحق ہو تو وہ تحریک کے افراد کے علم میں لانا مناسب سمجھے، اس امید کے ساتھ کہ ان کے مشورے مفید ہوں گے اور ان کی کوششوں سے کوئی سبیل نکل جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ دولت مند ہوں تبھی پریشان حال غریبوں کی خبر گیری کریں، خود غریب ہونے کے باوجود آپ نہ صرف پریشانی میں مبتلا لوگوں کا پتہ لگاسکتے ہیں بلکہ سماج کے باحیثیت لوگوں سے رابطہ کرکے ان کی ضرورت کو پورا بھی کرسکتے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ پریشانی صرف غریبوں کو لاحق نہیں ہوتی ہے۔ مال دار حضرات بھی طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ خاص طور سے بڑھاپے میں ان کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
بائیکاٹ کے بجائے اصلاح کا راستہ اختیار کریں
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب معاملہ اپنے بگاڑ کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا، تب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جب کہ اسی معاملہ کی ابتدا میں اگر حکیمانہ مداخلت ہوگئی ہوتی تو نوبت وہاں تک نہیں پہنچتی۔ مثال کے طور پر دو افراد کے درمیان تنازع شروع ہوتے ہی اگر اسے حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو آسانی سے حل ہوجاتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو دونوں طرف شکایتوں کا انبار جمع ہوجاتا ہے اور دشمنی کی آگ اتنی زیادہ بھڑک جاتی ہے کہ اسے بجھانا آسان نہیں ہوتا۔
آپ کے کسی قریبی کے یہاں شادی کی تقریب کا فیصلہ ہوتا ہے تو صحیح طریقہ یہ ہے کہ شروع سے ہی اس میں دل چسپی لیں، اس تقریب کی کام یابی کے لیے کوششیں کریں اور ساتھ ہی یہ کوشش بھی کریں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق تقریب انجام پائے۔ شروع سے غیر متعلق رہنے کے بعد، آخر میں جب غیر اسلامی انداز سے تقریب کرنے کی ساری تیاریاں کرلی گئی ہوں تو اس وقت وعظ و نصیحت کا خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ فضولیات پر مشتمل تقریب کا بائیکاٹ کرنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے، کمال تو یہ ہے کہ ایسی تقریب کو شروع ہی سے صحیح رخ پر رکھنے کی کوشش کی جائے۔
خاندان اور محلے کے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے ان کے والدین کے مشیر و معاون بنیں، بعد میں ان کے ناقد بننے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
روابط آپ کا سرمایہ ہیں
اسلامی تحریک کا میدانِ کار انسانی سماج ہے اورانسانی سماج سے روابط تحریکی افراد کا اہم سرمایہ ہیں۔ یہ سرمایہ جتنا زیادہ ہوگا اتنے ہی بہتر نتائج کی امید کی جاسکے گی۔ سماج کی سوچ بدلنا ہویا سماج کے رواجوں اور معمولات پر اثر انداز ہونا ہو، سماج میں پھیلی برائیوں کی اصلاح کرنا ہو یا سماج میں نئی خوبیوں کو فروغ دینا ہو، ان سارے ہی بڑے اہم اور بہت مشکل کاموں کے لیے روابط کا سرمایہ درکار ہوتا ہے۔
روابط قائم کرنے کے لیے عمر میں یکسانیت شرط نہیں ہے۔ مزاج میں ہم آہنگی گہری دوستی کے لیے ضروری ہوتی ہے، میل جول اور روابط میں مزاج کا فرق رکاوٹ نہیں بنتا ہے۔ جو لوگ رابطہ سازی کی اہمیت سمجھتے ہیں وہ ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگوں سے اچھے روابط رکھتے ہیں۔ سماج میں زیادہ روابط ہونا سماج میں زیادہ مؤثر ہونے میں مددگار بنتا ہے۔
مضبوط رابطے ملاقاتوں کے ذریعے جنم لیتے ہیں اورملاقاتوں سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ملاقات دل چسپ اور فرحت بخش ہو، اکتاہٹ بڑھانے والی نہ ہو۔
ہمارے کس رویے سے اکتاہٹ پیدا ہورہی ہے، اس پر دھیان دینا ضروری ہے۔ دیر تک بیٹھنا، مناسب وقفے کے بغیر جلدی جلدی ملاقاتیں کرنا، ایک ہی موضوع پر دیر تک بات کرنا، ایک ہی بات کو بار بار کہنا، وغیرہ اکتاہٹ پیدا کرنے والے رویے ہیں۔ بحث کرنے میں ہوسکتا ہے آپ کو بہت لطف آتا ہو لیکن یہ بھی ہوسکتا ہےکہ کسی دوسرے کو یہ عمل ناگوار گزرتا ہو۔
غرض ایسے روابط قائم کریں جو دونوں فریقوں کے لیے فرحت و انبساط کا سامان ہوں۔
سماجی رابطوں کے کچھ ضمنی فائدے
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سماجی روابط اسلامی تحریک کو قوت پہنچاتے ہیں اور نصب العین کی طرف اسلامی تحریک کے سفر کی رفتار کو تیز کرنے میں مددگار بنتے ہیں۔ ان رابطوں کے بہت سے ثمرات وہ بھی ہیں، جو اصلاًمقصود تو نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ اچھے روابط کے نتیجے میں خود حاصل ہوتے ہیں اور ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔خندق کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے ایک صحابی حضرت نعیمؓ کے روابط سے فائدہ اٹھایا۔ ہم یہاں بطور مثال ایسے کچھ ضمنی فائدوں کا ذکر کریں گے۔
مسجد کی کمیٹی کے افراد سے اگر آپ کے روابط اچھے ہیں تو تحریکی سرگرمیوں کے لیے مسجد میں کافی مواقع مل سکتے ہیں۔
اسکول کی انتظامیہ سے اگر آپ کےمراسم اچھے ہیں تو اسکول کے کیمپس میں متنوع سرگرمیاں انجام دی جاسکتی ہیں اور وہاں کے طلبہ واساتذہ کی شرکت اور ان کا تعاون بھی مل سکتا ہے۔
مقامی اور ضلعی انتظامیہ سے آپ کے روابط مضبوط ہیں تو مختلف عوامی پروگراموں کے لیے آپ کو اجازت لینے میں دشواری پیش نہیں آئے گی، بلکہ انتظامیہ آپ کے لیے ممکنہ سہولتیں بھی فراہم کرے گی۔
فنکشن ہال کے مالکوں اور منتظمین سے اچھے مراسم کی بنیاد پر مختلف طرح کے پروگراموں کے لیے آپ کوبغیرمعاوضے یا معمولی معاوضے پر اچھی جگہ مل سکتی ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگوں سے آپ اپنےپیغام کی ترسیل کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اگر ان سے آپ کے اچھے تعلقات ہوں۔
اسی طرح دوسرے مذاہب کی بااثر شخصیات سے آپ کے روابط ان کی کمیونٹی کے دیگر افراد تک پہنچنے میں بہت مدد کرسکتے ہیں۔
اسلامی تحریک اپنا موقف اور پیغام رکھتی ہے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ مذکورہ بالا فائدے تحریک کی پیغام رسانی میں معاون ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو ان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
سماجی خدمت کے کسی کام کو معمولی نہ سمجھیں
بہت سے کام ایسے ہیں جو بہت زیادہ صلاحیت کے طالب نہیں ہوتے ہیں، انھیں تھوڑی سی تعلیم و مشق سے آدمی سیکھ لیتا ہے اور سماج کے لیے کسی نہ کسی درجے میں مفید بن جاتا ہے۔
فرسٹ ایڈ کی واقفیت رکھنے والے مرد و خواتین حادثات کے وقت رحمت کا فرشتہ ثابت ہوتے ہیں۔
بعض لوگوں کے پاس کچھ نادر طبّی نسخے ہوتے ہیں اور وہ مرجع خلائق بن جاتے ہیں۔
مُردوں کو غسل دینے میں جو مرد اور خواتین ماہر ہوتے ہیں، وہ ایسے مواقع پر لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔
عالم نہیں ہونے کے باوجود اگر آپ نماز جنازہ پڑھانے، جمعہ کا خطبہ دینے اور نکاح کی کارروائی انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تو سماج کے لوگ بار بار آپ کی خدمات حاصل کریں گے۔
جو لوگ اچھی تحریر ڈرافٹ کرلیتے ہیں، وہ ایسے بہت سے لوگوں کے کام آتے ہیں جو اچھی تحریر لکھ نہیں پاتے ہیں۔
یہ کچھ مثالیں ہیں۔ جب سماج کی خدمت کا شوق ہوگا تو ذہن خودایسے بہت سے کام سُجھائے گا۔ تھوڑی سی توجہ سے ان کاموں میں مہارت بھی حاصل ہوجائے گی۔
شخصی جاذبیت
اہل نظر کہتے ہیں کہ جاذبیت کا قانون جس طرح کائنات کے سیاروں اور ایٹم کے عناصر پر نافذ ہے، اسی طرح انسانوں پر بھی اس کا انطباق ہوتا ہے۔ بعض انسانوں کے اندر جاذبیت زیادہ ہوتی ہے، وہ مرکزیہ بن جاتے ہیں اور لوگ ان سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ کم جاذبیت والوں کا حلقہ مختصر ہوتا ہے اور زیادہ جاذبیت والوں کا حلقہ بہت بڑا ہوتا ہے۔
جاذبیت پیدا کرنے والے مختلف عوامل ہوتے ہیں۔اپنے فن اور پیشے میں نمایاں مقام ایک اہم عامل ہے۔ اپنے پیشے میں خدمت کے عنصر کو بڑھانا بھی اہم عامل ہے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کسی اعلی مشن سے وابستہ ہوجانا بہت اہم عامل ہے۔
اسلامی تحریک کے افراد کو اپنی شخصی جاذبیت کو بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کا مقصد خود نمائی ہرگز نہ ہو، بلکہ اس جاذبیت کے ذریعے تحریک کی قوت کو بڑھانا مقصود ہو۔ تحریک کے ہر رکن کی شخصیت تحریک کی جاذبیت میں اضافے کا باعث بنے۔
مایوس نہ ہوں،مواقع پیدا کریں
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم سماج کے اندر بڑی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں کوئی ہم نوا نہیں ملتا۔ہماری خواہش ہوتی ہے کہ باصلاحیت اور مخلص افراد کا ایک بیس (base) بن جائے، لیکن لوگوں کی سوچ اور دل چسپیاں ہمارے مقصد سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ ایسی صورت میں ہم مایوس ہوجاتے ہیں،کیوں کہ ہم چاہتے یہ ہیں کہ ہمارے کاموں کے لیے یا تو پہلے سے بیس بنا ہوا ہویا پھر بغیر محنت کے محض ہماری خواہش سے کوئی بیس بن جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے افراد کو اپنے سماج میں تحریک برپا کرنے کے لیے افراد کا بیس خود بنانا ہوگا اور اس کے لیے سخت محنت بھی کرنی ہوگی۔
مثال کے طور پر لوگ تحریکی شعور سے مالا مال اس وقت ہوں گے جب وہ تحریکی لٹریچر کامطالعہ کریں گے۔لوگ تحریکی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے بن جائیں، اس ہدف تک پہنچنے کے سارے مرحلے آپ انجام دیں گے۔ لوگوں کو پڑھنا نہیں آتا ہو تو تعلیم بالغان کا کلاس آپ شروع کریں گے۔ مطالعہ کرنے کاشوق نہ ہو تو اس کا شوق آپ پیدا کریں گے۔ لوگ مطالعہ کرتے ہوں مگر دینی کتابوں کے مطالعہ کا رجحان نہ رکھتے ہوں تو ان کے اندر وہ رجحان آپ پیدا کریں گے۔ سماج کے با اثر بڑے افراد کے درمیان، طلبہ اور نوجوانوں کے درمیان اور کم سن بچوں اور بچیوں میں یہ شوق اور رجحان پروان چڑھانے کا منصوبہ بنائیں گے۔ غرض مطالعہ سے بالکل بے رغبت سماج میں مطالعہ کی تحریک برپا کرنا اور اسے تحریکی لٹریچر کے مطالعہ کی منزل تک پہنچاناآپ کا کام ہے۔ اس مشکل اور طویل مدتی کام کا بیڑا اگر آپ نے اٹھالیا تو آپ نے سماج کے ستون کا مقام حاصل کرلیا۔
تحریکی کتابوں کے مطالعہ کوعام کرکےتحریک کے لیے بیس بنانے کی کوشش ایک مثال ہے۔اسی طرح اور بھی کوششیں ہوسکتی ہیں۔ سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کرنے کا مزاج آپ پروان چڑھائیں۔ ذہن ساز تقاریر اور خطبات کے ویڈیو سننے کا رجحان آپ فروغ دیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک لوگوں میں سنجیدہ کتابیں پڑھنے، سنجیدہ گفتگو کرنے اور سنجیدہ تقریریں سننے کا مزاج اور شوق پیدا نہیں ہوگا، وہ کسی طویل المیعاد سنجیدہ کوشش کا حصہ کیسے بن سکیں گے۔
غرض یہ کہ سماج میں تحریک برپا کرنے کے لیے افراد کا بیس بنانا بہت ضروری ہے اور یہ کام تحریک کے ارکان کو خود کرنا ہے۔ اس کے لیے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ کبھی جلدی سامنے آسکتا ہے اور کبھی کئی سال لگ سکتے ہیں۔ سماج کے با اثر لوگ آپ کی کوششوں سے جلد متاثر ہوجائیں تو بہت کم عرصے میں یہ بیس بن جائے گا۔ نوجوانوں میں کوشش کریں گے تو چند برس درکار ہوں گے اور اگر کم سن بچوں اور بچیوں کو تیار کرنے کا کام آج شروع کیا جائے گا تو دس پندرہ سال بعد سہی، غیر معمولی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس پورے عرصے کے دوران انھیں مطلوبہ تربیتی غذا پابندی سے ملتی رہے۔
شان دار روایت
اسلامی تحریک کی یہ تابناک روایت رہی ہے کہ تحریک کے افراد نے سماج کی بڑی بڑی ذمے داریوں کو آگے بڑھ کر اٹھایا۔ تعلیم بالغان کے مراکز قائم کیے، بچوں کے لیے درس گاہیں قائم کیں، رفاہی دوا خانے شروع کیے، سدبھاؤنا منچ بنائے، شرعی پنچایتوں کی داغ بیل ڈالی، مساجد میں درس قرآن کے حلقے قائم کیے، محلوں میں دینی کتابوں کی لائبریریاں قائم کیں، تعلیمی بیداری کی مہمات چلائیں، غیر سودی بیت المال قائم کیے۔ کچھ نہیں تو کسی یتیم بچی کی کفالت کرکے اسے اچھی تعلیم دلائی اور اچھا رشتہ کرایا۔ کسی ایک شخص کو روزگار سے جوڑ دیا۔ غرض اپنے سماج کی ترقی وبہتری میں نمایاں کردار ادا کیا۔
کچھ عرصہ قبل ایک تحریکی شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ چند سال کی کوشش سے قریب پچاس بہت غریب افراد کو روزگار کی لائن سے اس طرح جوڑا کہ وہ سب زکات ادا کرنے والے بن گئے۔
اسلامی تحریک کے ارکان سماج کے با اثر اور با اعتماد افراد کی پہچان رکھتے تھے۔ لوگ اپنے مسائل، پریشانیاں اور تنازعات کے حل کے لیے ان سے رجوع کرتے تھے۔ آج بھی بہت سے مقامات پر یہ پہچان اور کردار دیکھا جاسکتا ہے۔ اس شان دار روایت اور اس عظیم کردار کو باقی و جاری رکھنا اسلامی تحریک کے کام یاب سفر کا لازمی حصہ ہے۔
مؤثر ترین افراد کی تین صفات
تین صفات اگر کسی شخص کے اندر جمع ہوجائیں تو وہ سماج کا مؤثر ترین فرد ہوتا ہے۔ وہ تین صفات ہیں: صالحیت، صلاحیت اور اصلاحیت۔
صالحیت کا مطلب اعلی اور پاکیزہ کردار، جس میں کسی طرح کا نفاق، دورخا پن، خود غرضی اور نفس پرستی نہ ہو۔ صالحیت کے نتیجے میں انسان کو امین کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ اس کے اوپر لوگ بھروسا کرتے ہیں۔
صلاحیت سے مراد سماج کے لیے نفع بخش صلاحیت ہے۔ جس انسان کے اندر صلاحیت ہو اور وہ اس سے سماج کو فائدہ پہنچائے تو وہ محض ایک فرد نہیں رہتا بلکہ سماج کا بیش قیمت اثاثہ بن جاتا ہے۔
اصلاحیت انسانی شخصیت کا بہت اعلی پہلو ہے۔ اصلاح پسند انسان ہر مسئلے کا بہتر حل چاہتا ہے۔وہ کسی کی پریشانی سے لطف اندوز نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی کو پریشان دیکھ کر اس کی پریشانی دور کرنے کے لیے فکر مند ہوجاتا ہے۔ اس کی نگاہ مسائل میں الجھتی نہیں بلکہ مسائل سے ہوتی ہوئی ان کے حل تک جاپہنچتی ہے۔ وہ برائی کو دیکھ کر نظر انداز نہیں کرتا ہے بلکہ اسے دور کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اصلاح پسندی انسان کو سماج میں غیر معمولی نفوذ عطا کرتی ہے۔ لوگ اپنے ذاتی معاملات، اپنے خانگی معاملات اور اپنے سماجی معاملات کے سلسلے میں مصلحین کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔
اسلامی تحریک کے افراد کو صالحیت کا پیکر، صلاحیتوں سے آراستہ اور اصلاح کا علم بردار ہونا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ان کی شخصیت کو وزن، جاذبیت اور تاثیر حاصل ہوگی۔ سماج میں عظیم تبدیلی کا بیڑا اٹھانے والوں کے لیے یہی رختِ سفر ہے۔تبھی وہ سماج سے کہہ سکیں گے اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ [یوسف: 55] (زمین کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں) اور سماج کے لوگ ان کے بارے میں گواہی دیں گے إِنَّ خَیرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِی الْأَمِینُ [القصص: 26]۔( بہترین شخص جس کی خدمات آپ حاصل کریں وہی ہو سکتا ہے جو مضبُوط اور امانت دار ہو) وہ سماج کو یہ یقین دلانے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ وَمَا أُرِیدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ [هود: 88]( میں ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تم کو روکتا ہوں ان کا خود ارتکاب کروں میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے)۔
رسولوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا سماج سے بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ وہ سماج کے لیے نمونہ، سماج کے محسن اور سماج کی مرکزی شخصیت رہے ہیں۔ اسلامی تحریک کے ارکان کے لیے رسولوں کی تاریخ میں بہترین نمونہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2024