بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد قریش کے مظالم نے مسلمانوں کے لیے مکہ کی رہایش غیر ممکن بنا دی تھی۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت مرحمت فرما دی۔ معقول وجہ کے بغیر ہجرت نہ کرنے پر وعید بھی سنائی،حضرت جریرؓ بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں بے زار ہوں ہر اس مسلمان سے جو مشرکوں کے اندر اقامت اختیار کرے‘‘۔ سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مشرکوں کے ساتھ سکونت مت رکھو اور نہ ان کے ساتھ مل جل کر رہو، جو ایسا کرے گا وہ انھی کے مثل ہوگا‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کا یہ اعلان سن کر صحابہ کرامؓ بھاری تعداد میں مدینہ منتقل ہونا شروع ہوگئے۔ تمام سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلے ہجرت کا شرف حضرت ابوسلمہؓ نے حاصل کیا ۔ وہ نکلے تو تھے اپنی بیوی اُم سلمہؓ اور بیٹے سلمہ کو لے کر لیکن اتنے میں اُم سلمہؓ کے قبیلے والے آگئے اور انھوں نے اپنی لڑکی کو جانے نہیں دیا۔ اسی وقت ابوسلمہؓ کے قبیلے والے بھی آگئے اور کہا کہ تو چلا جا لیکن ہمارے لڑکے کو ساتھ نہیںلے جاسکتا۔یہ کہہ کر وہ ابوسلمہؓ کے بیٹے کو بھی لے گئے اور اس طرح انھیں تنہا ہی ہجرت کرنی پڑی۔ اس کے علاوہ بھی سیرت کی کتابیں ان واقعات سے بھری پڑی ہیں کہ مہاجرین ؓ کو کن کن مصائب سے ہوکر مدینہ جانا پڑا۔ حضرت صہیب رومیؓ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو قریش نے انھیں روک کر کہا کہ جب تم یہاں آئے تھے تو ایک فقیر تھے اوراب ایک امیر آدمی کی حیثیت سے جانا چاہتے ہو؟ اس پر صہیب رومیؓ نے اپنا سارا مال ان کے حوالے کردیا اور اس کے عوض اپنے لیے ہجرت کا راستا خرید لیا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ لکھتے ہیں کہ مفسرین کے مطابق قرآن حکیم کی اس آیت کا حوالہ انھیں کی طرف ہے: ’’اور انسانوں میں سے ایک ایسا ہے جس نے رب تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیا‘‘۔ ﴿ پیغمبر اسلامﷺ ، ص: ۱۷۴﴾ ۔ اسی طرح جب حضرت عمرؓ اور حضرت عیاشؓ نے ہجرت فرمائی تو مکے سے ایک سازشی وفد ان کے پیچھے روانہ ہوا، جو ابوجہل اور حارث بن ہشام پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ جاکر عیاشؓ سے ملے او رکہا کہ تمھاری والدہ کا حال ابتر ہے اور اس نے قسم کھالی ہے کہ جب تک تم سے نہ ملے گی سر کے بال نہ سنوارے گی اور چلچلاتی دھوپ میںکھڑی رہے گی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں سمجھایا کہ یہ ایک سازش ہے ، تم ان کے پھندے میں آگئے تو یہ تمھیں اپنے دین سے پھیر دیں گے۔ لیکن عیاشؓ کے ذہن میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ وہ واپس جاکر اپنا کچھ مال نکال لائیں۔ عمرؓ نے پیشکش کی کہ میں اس سے زیادہ مال رکھتا ہوں تم مجھ سے آدھا لے لو۔ مگر عیاشؓ نہ مانے، اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اچھا اگر یہی طے ہے تو میری اونٹنی لے جاؤ، یہ تیز رفتار ہے۔ جہاں کوئی اندیشہ محسوس ہو، بھاگ نکلنا۔ مگر مکی سازشیوں نے راستے میں ایسی چال چلی کہ اصیل اونٹنی سے فائدہ اٹھانا بھی عیاشؓ کے بس کا نہ رہا اور ان کی مشکیں کس لی گئیں۔اہل وفد جب مکہ پہنچے تو انھوں نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو یوں علاج کرواپنے عقل کے ماروں کا جیسے ہم نے کیا ہے۔
ہجرت تمام صحابہ کرامؓ نے خفیہ طریقے سے فرمائی سوائے حضرت عمرؓ کے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے ہجرت کاارادہ کیا تو گردن میں تلوار لٹکائی، کندھے پر کمان ڈالی، ہاتھ میں چند تیر لیے، کمر میں نیزہ لگایا اورخانہ کعبہ کی طرف گئے۔ حضرت عمرؓ نے سات بار اطمینان سے کعبے کا طواف کیا۔ اس وقت قریش کے بڑے بڑے سردار خانہ کعبہ میں موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ ایک جگہ کھڑے ہوگئے اور فرمایا: ’’چہرے بدشکل ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان دشمنوں کی ناک نیچی کرکے رہے گا۔ جو شخص بھی چاہتا ہو کہ اس کی ماں اس پر روئے، اس کے بچے یتیم ہوجائیں اور اس کی بیوی بیوہ ہوجائے تووہ مجھ سے اس وادی کے بعد آکر ملے‘‘۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ کسی نے بھی ان کا پیچھا کرنے کی جرأت نہیں کی۔ اس کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں کاایک سلسلہ قائم ہوگیا اور مکہ میں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علیؓ کے علاوہ صرف وہی باقی بچا جسے ہجرت سے روکنے کے لیے قید کرلیاگیا ہو، یا مریض ہو یا کسی اور معذوری کی وجہ سے نہ جاسکا ہو۔
دوسری طرف قریش دیکھ رہے تھے کہ مسلمان آہستہ آہستہ اپنے لیے ایک نیا مرکز تیار کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ اس لیے انھوں نے دارالندوہ میں فوراً ایک مجلس بلائی جس میں قریش کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ وہ اس بات پر غوروفکر کر رہے تھے کہ کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے راستے سے ہٹائیں۔ایک ایک شخص اپنی رائے دے رہا تھا لیکن وہاں بیٹھا ایک نجدی بوڑھا ان کی رائے کو بہ دلائل رد کرتا جاتا تھا۔ آخر میں ابوجہل نے تجویز پیش کی کہ سب قبائل میں سے ایک ایک آدمی مل کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا گھیرائو کرے اورانھیں نعوذ باللہ قتل کردیں۔ اس پر ابلیس نے کہا: ’’اگررائے ہے تو بس یہ ہے‘‘۔ لہٰذا سب کا اسی پر اتفاق ہوا۔ ادھر حضرت جبرئیل ؑ نے بذریعہ وحی آپﷺ کو ہجرت کی اجازت پہنچا دی اور یہ بھی کہا کہ آج کی رات آپﷺ اپنے بستر پر نہ سوئیں۔ ہجرت کی اجازت پاکر دوپہر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر گئے اور پہلے دریافت کیا کہ گھر میں کوئی غیر آدمی تو نہیں۔ جب اطمینان ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ان کی دونوں بیٹیوں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت اسمائؓ کے سوا اور کوئی نہیں ہے، تو آپﷺ نے فرمایا کہ مدینے کی طرف ہجرت کا حکم نازل ہوگیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ رفیق سفر کون ہوں گے؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے رفیق سفر ہو۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ جو ش مسرت میں رونے لگے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ تب مجھے پہلی بار یقین ہوگیا کہ انسان غم میں ہی نہیں بلکہ خوشی میں بھی روتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے ہجرت کا سامان تیار کرنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان میں آئے اور رات کا انتظار کرنے لگے ۔ اسی رات مشرکین کاآپﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رات ہوتے ہی حسب وحی حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلایا اور امانتیں بھی ان کے سپرد کیں، تاکہ وہ انھیں ان کے وارثوں تک پہنچائیں۔ جب رات کو قریش نے آپﷺ کے گھر کا گھیرائو کیا تو آپﷺ نے ایک مٹھی خاک اٹھائی اور دروازہ کھول کر سبھی کافروں پر تھوڑی تھوڑی پھینکی، جس کی وجہ سے وہ آپﷺ کو دیکھنے پر قادر نہ ہوسکے۔ اس وقت آپﷺ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے:
’’وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْہِمْ سَدّاً وَّمِنْ خَلْفِہِمْ سَدّاً فَأَغْشَیْنَاہُمْ فَہُمْ لَایُبْصِرُوْن‘‘۔ ﴿یٰسٓ:۹﴾
’’ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انھیں ڈھانک لیا اور وہ کچھ دیکھ نہیں رہے ہیں‘‘۔
یہ ۲۷ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲/۱۳/ ستمبر ۶۲۲ء کی درمیانی رات تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکان سے نکل کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں سے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں نے باہر کی راہ لی، تاکہ طلوع فجر سے پہلے پہلے وہ نکل جائیں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کی ہجرت کا روز دوشنبہ تھا، آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا دن بھی دوشنبہ تھا، آپﷺ کے مکے سے مدینے کو ہجرت کا دن بھی دوشنبہ، آپﷺ کے مدینے میں داخلے کا دن بھی دوشنبہ تھا اور آپﷺ کا یوم وفات بھی دوشنبہ ہی تھا۔ادھر صبح جب قریش حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے اندر داخل ہوئے تو انھوں نے وہاں حضرت علیؓ کو موجود پایا، جنھیں دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔ انھوں نے حضرت علیؓ سے حضور اکرمﷺ کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت علیؓ سے کوئی حتمی جواب نہ پاکر قریش حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئے۔ دروازے پر آواز دی، اسمائ بنت ابی بکرؓ باہر نکلیں۔ ابوجہل نے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے ان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ یہ سن کر ابوجہل نے اس زور سے طمانچہ مارا کہ ان کے کان کی بالی نیچے گرگئی۔وہ سب وہاں سے آگے بڑھے، چاروں طرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈا لیکن ناکام ہوئے۔بالآخر سواونٹ کا انعام بھی مقرر کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ جانتے تھے کہ قریش پوری جانفشانی کے ساتھ ان کی تلاش میں ہوں گے اور جس راستے پر سب سے پہلے ان کی نظر اٹھے گی، وہ مدینے کا وہ کارروانی راستا ہوگا ،جو شمال کے رخ پر جاتا ہے ، اس لیے آپﷺ نے وہ راستا اختیار کیا، جو اس کے بالکل الٹ تھا ۔ یمن جانے والا راستا جو مکہ کے جنو ب میں واقع ہے۔ اس راستے پر تقریباً پانچ میل کا فاصلہ طے کرنے پر دونوں آفتاب ومہتاب ایک غار تک پہنچے جو غارثور کے نام سے مشہور ہے۔ یہ غار ایک مشکل چڑھائی والے پہاڑ میں واقع ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں، جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں زخمی ہوگئے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ آپﷺ نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے ۔اس لیے آپﷺ کے پاوس زخمی ہوگئے۔ بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو ، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپﷺ کو اٹھا لیا اور دوڑتے دوڑتے غار تک پہنچے۔ غار میں داخل ہونے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان، آپﷺ ذرا باہر ٹھہریں۔میں اندر جا کے غار کا معائنہ کروں کہ کوئی ایذا پہنچانے والا جانور تو موجود نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار کے اندر گئے اور دیکھا کہ غار کے اند ر بہت سے سوراخ ہیں، جن سے سانپ یا بچھو وغیرہ کے نکلنے کا امکان ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے کپڑوں سے جو زائد کپڑے تھے انھیں پھاڑ کر ان سوراخوں کو بند کیا، لیکن ایک سوراخ باقی رہ گیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس پر اپنا پاؤں رکھا اور اس کے بعدحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی گزارش کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے اورحضرت ابوبکر صدیقؓ کی آغوش میں سر رکھ کر سوگئے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا اور جب تکلیف کی وجہ سے آنسو بہنا شروع ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے او رپوچھنے پر جب پتا چلا کہ کسی جانور نے ڈس لیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زخم پر لعاب دہن لگا دیا۔ تکلیف جاتی رہی۔ البتہ ایک روایت کے مطابق بعد میں اس زہر کا اثر پھرلوٹ آیا اور آخری وقت میں یہی موت کا سبب بنا۔ ﴿الرحیق المختوم: ص ۲۵۸﴾۔ یہی وہ رات تھی جس نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی قدرومنزلت میں اضافہ کرنے میں خاص رول ادا کیا۔ جب کچھ لوگ حضرت عمرؓ کو ابوبکرؓ پر فوقیت دینے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ عمرؓ اور اس کی آنے والی نسل کی عبادت کا موازنہ اگر حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی اس ایک رات سے کیا جائے ،جو انھوں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور میں گزاری، تب بھی میرا ان سے کوئی موازنہ نہیں۔ بہرحال اس غار میں دونوں حضرات نے تین راتیں گزاریں۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بیٹے عبداللہ ؓ مکے میں جو کچھ ہورہا تھا اس کی خبر ان تک پہنچادیتے۔ ادہر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کاایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے ، اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے، تینوں رات انھوں نے یہی کیا۔ عامر بن فہیرہ عبداللہ بن ابی بکرؓ کے مکہ جانے کے بعد انھی کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے ۔تاکہ نشانات مٹ جائیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے پہلے ہی عبداللہ بن اریقط جو کہ مسلمان نہ تھا مگر قابل اعتماد تھا تین دین کے بعد غارثور پہنچ جانے کو کہہ دیا تھا۔
جب دوشنبہ کی رات آئی جو ربیع الاول کی چاندنی رات تھی ، مطابق ۱۶/ستمبر ۶۲۲ء ، تو عبداللہ بن اریقط دونوں اونٹنیاں جو کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے گھر میں موجود تھیں اور ایک اونٹ لے کر غارثور کے نزدیک دامن ثور میں پہنچ گیا۔ اسمائ بنت ابی بکرؓ بھی سفر کے لیے ایک تھیلے میں ستو لے آئیں ، لیکن اس کے لٹکانے کا تسمہ بھول آئیں۔ جب یہ تھیلا اونٹ کے کجاوے سے باندھ کر لٹکانا چاہا تو کوئی تسمہ یاڈوری اس وقت موجود نہ تھی۔ حضرت اسمائؓ نے فوراً اپنا کمر بند نکال کر آدھا تو اپنی کمر سے باندھا اور آدھا کاٹ کر اس سے ستو کا تھیلا لٹکایا۔ اس بروقت وبرمحل تدبیر کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کو ’’ذات النطاقین‘‘ کہا۔ چنان چہ بعد میں حضرت اسمائؓ ذات النطاقین کے لقب سے مشہور ہوئیں۔ ایک یہ بات بھی قابل تذکرہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ روانگی کے وقت اپنا تمام زرنقد جو پانچ چھ ہزار درہم تھے، لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق کے والد ابوقحافہ جو ابھی تک کفر کی حالت میں تھے اور نابینا تھے، گھر میں آئے اور دونوں پوتیوں سے کہا کہ ابوبکرؓ خود تو چلا گیا اور سارا مال بھی لے گیا۔ حضرت اسمائؓ بولیں: ’’دادا جان! وہ ہمارے لیے بہت روپیہ چھوڑ گئے‘‘۔ یہ کہہ کر انھوں نے ایک کپڑے میں بہت سے سنگریزے لپیٹ کر اس جگہ لے جاکررکھے جہاں روپیے کی تھیلی رہتی تھی اور دادا کا ہاتھ پکڑ کر لے گئیں۔ انھوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیااور سمجھا کہ روپیہ موجود ہے۔ پوتیوں سے کہا کہ اب ابوبکرؓ کے جانے کا کوئی غم نہیں ہے۔ اس کے بعد رسولﷺ اور ابوبکرؓ نے کوچ فرمایا، عامر بن فہیرہؓ اور دلیل راہ عبداللہ بھی ساتھ تھے۔ یہ مختصرساقافلہ رات کے پہلے حصے میں ہی روانہ ہوگیا اور اگلے دن ربیع الاول۱۴نبویﷺ کے سہ پہر تک گرم سفر رہا۔ سہ پہر کے قریب خیمہ اُم سعید پر پہنچے۔ یہ بوڑھی عورت قوم خزاعہ سے تھی اور مسافروں کو پانی وغیرہ پلا دیتی تھی۔ یہاں آپﷺ نے بکری کا دودھ پیااور تھوڑی دیر آرام فرماکر پھر روانگی کا حکم دیا۔ کچھ دور چلے ہوں گے کہ سراقہ تعاقب کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آیا لیکن جب اس کا گھوڑا بار بار زمین میں دھنس گیا تو وہ ڈر گیا بالآخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک تحریری امان لے کر واپس چلا گیا۔ ُسراقہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوگیا اور اسی تحریر کو اس نے فتح مکہ کے روز اپنے لیے دستاویز امان بنایا۔ حضرت اسمائ ؓ فرماتی ہیں کہ غارثور سے ہجرت کے بعد ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں،حتیٰ کہ ایک جن مکہ مکرمہ کی نچلی جانب سے آیا تو عربی لب ولہجہ میں اشعار پڑھتا تھا۔ آواز سنائی دیتی تھی مگر اس کا جسم نظر نہیں آتا تھااورلوگ آواز سن کر پیچھے پیچھے چل رہے تھے حتیٰ کہ وہ مکہ مبارکہ کے بالائی حصے سے باہر نکلا۔
حضرت اسمائؓ بیان کرتی ہیں کہ ان اشعار کی وجہ سے ہمیں پتا چلا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کدہر ہے۔
مکہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کی خبر کئی روز پہلے مدینے پہنچ چکی تھی اس لیے انصار مدینہ روزانہ صبح سے دوپہر تک بستی سے باہر نکل کر آپﷺ کے انتظار میںکھڑے رہتے تھے، اور پھر مایوس ہوکر واپس چلے جاتے، اس دن بھی جب وہ واپس لوٹ کر جارہے تھے کہ ایک یہودی جو اس وقت اپنے مکان کے چھت پر چڑھا ہوا تھا، اس نے دور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قافلے کو دیکھ کر گمان کیا کہ یہی وہ قافلہ ہے، جس میں رسولﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے زور سے آواز دی کہ اے گروہ عرب، اے دوپہر کو آرام کرنے والو! تمھارا مطلوب تو یہ آپہنچا ہے۔ آواز سنتے ہی لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور تمام قباء میں جوش مسرت کاایک شور مچ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اس غرض سے کہ خادم اور آقا میں تمیز ہوسکے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک چادر سے سایہ کیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف روایات کے مطابق قباء میں کل چار دن یا دس دن سے زیادہ یا پہنچ اور روانگی کے علاوہ ۲۴ دن قیام فرمایا اور اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور اس میں نماز بھی پڑھی۔ اس کے بعد حکم الٰہی کے مطابق سوار ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ ﷺ کے ردیف تھے۔آپﷺ نے بنوالنجار کو جو آپﷺ کے ماموں کا قبیلہ تھا اطلاع بھیج دی تھی چنانچہ وہ تلواریں حائل کیے حاضر تھے۔ آپﷺ نے ان کی معیت میں مدینے کا رخ کیا۔ بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت آگیا۔ آپﷺ نے وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھا جہاں اب مسجد ہے۔ یہ اسلام کا پہلا جمعہ تھا جس میں کل سو صحابہ کرامؓ شامل تھے۔جمعہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں داخل ہوئے۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینے میں اس سے روشن اور تابناک دن او رکوئی نہیں دیکھا۔ چاروں طرف سے اللہ اکبر کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ نوجوانانِ انصار ہتھیاروں سے کرتب دکھانے کے لیے میدان میں امنڈپڑے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں اپنے نرم اور معصوم لہجے میں یہ ترانہ مسر ت پڑھ رہی تھیں:
بعدِ ہجرت کے اہم واقعات
یکم ہجری:- ﴿۱﴾ مدینہ منور میں مسجد نبویﷺ کی بنیاد ﴿۲﴾ اذان کی ابتدائ﴿۳﴾ قتال کی مشروعیت ﴿۴﴾ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی وفات ﴿۵﴾ سلمان فارسیؓ کا اسلام ﴿۶﴾ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رخصتی ﴿آپﷺ کی شادی مکے میں ہوچکی تھی، اس وقت آپؓ کی عمر چھ سال تھی ، رخصتی کے وقت ۹ سال کی تھیں﴾۔
۲/ہجری:-﴿۱﴾ غزوۂ بدر ﴿۲﴾ تحویل قبلہ ﴿۳﴾ رمضان المبارک کا روزہ ﴿۴﴾ صدقہ فطر اور زکوٰۃ کی فرضیت ﴿۵﴾ عید کی نماز کی مشروعیت ﴿۶﴾ حضرت علیؓ کی خاتون جنت سے شادی ﴿۷﴾ آپﷺکی صاحبزادی رقیہؓ ﴿زوجہ حضرت عثمانؓ ﴾ کی وفات۔
۳/ہجری:- ﴿۱﴾ غزوۂ احد﴿۲﴾ حضرت حمزہؓ کی شہادت ﴿۳﴾ شراب کی حرمت ﴿۴﴾ حضرت اُم کلثوم بنت رسولﷺ کی حضرت عثمانؓ سے شادی ﴿۵﴾ رسول اکرمﷺ کی حضرت حفصہ ؓ اور حضرت زینب بنت خزیمہؓ سے شادی ﴿۶﴾ امام حسنؓ کی ولادت۔
۴/ہجری:- ﴿۱﴾ حضر ت امام حسینؓ شہید کربلا کی ولادت ﴿۲﴾ حضرت زینب بنت خزیمہؓ کی وفات ﴿۳﴾ حضرت اُم سلمہؓ کی شادی اور ازواج مطہرات میں داخل ہونا ﴿۴﴾ اسی سال ذوالقعدہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی اور ایک یہودن کو سنگسار کرنے کا فیصلہ سنایا اور دونوں کو رجم کیاگیا۔
۵/ہجری:-﴿۱﴾ حج کی فرضیت ﴿بقول بعض علمائ﴾ ﴿۲﴾ واقعہ افک ﴿۳﴾ غزوۂ دومتہ الجندل ﴿۴﴾ غزوہ بنی المصطلق ﴿بقول بعض علمائ﴾ ﴿۵﴾ غزوۂ خندق ﴿۶﴾ غزوہ بنوقریضہ ﴿۷﴾ حضرت زینب بنت حبش سے رسولﷺ کی شادی ﴿۸﴾ پردے کی آیتوں کا نزول ﴿۹﴾ حضرت جویریہؓ سے شادی ﴿۱۰﴾ تیمم کی آیتوں کا نزول۔
۶/ہجری:- ﴿۱﴾ غزوۂ حدیبیہ ﴿۲﴾بیعت رضوان ﴿۳﴾ صلح حدیبیہ ﴿۴﴾ دنیا کے بادشاہوں کے نام مکتوب گرامی اور اسلام کی دعوت ﴿۵﴾ والدہ ماجدہ حضرت آمنہ ؓ کی قبر کی زیارت﴿۶﴾ خشک سالی میں آپﷺ کی دعا سے مسلسل لگاتار رات اور دن ایک ہفتہ بارش ہونا۔
۷/ ہجری:- ﴿۱﴾ غزوۂ خیبر ﴿۲﴾ حضرت صفیہ بنت حیی ﴿بنونضیر کے سردار کی بیٹی﴾ سے شادی ﴿۳﴾ متعہ کا حرام فرمانا ﴿۴﴾ گدھے کے گوشت کا حرام ہونا ﴿۵﴾ مہاجرین حبشہ کی ہجرت اور ان ہی میں اُم المؤمنین حضرت اُم حبیبہؓ بھی تھیں ﴿۶﴾ حضرت خالد بن ولیدؓ ، حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت عثمان بن ابی طلحہؓ کا اسلام ﴿۷﴾ حضرت ابوہریرہؓ کا اسلام۔
۸/ہجری:- ﴿۱﴾ فتح مکہ معظمہ ﴿یوم جمعہ ۲۱/ رمضان المبارک ﴾ ۲ /غزوۂ حنین ﴿۳﴾ غزوۂ طائف ﴿۴﴾ حضرت زینب بنت رسولﷺ کا انتقال ﴿۵﴾ حضرت حکم بن حزام کا اسلام ﴿۶﴾ حضرت ابراہیم بن محمدﷺ کی ولادت۔
۹/ہجری:- ﴿۱﴾ غزوۂ تبوک ﴿۲﴾ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مکہ روانگی اوراعلان کہ آئندہ کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ننگا طواف کرے ﴿۳﴾ حضرت اُم کلثوم ؓ کی وفات ﴿۴﴾ عرب وفود کے آنے کی ابتدائ ﴿۵﴾ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواج مطہرات سے ایک ماہ تک علیٰحدگی اختیار فرمانا۔
۱۰/ہجری:- ﴿۱﴾ حجۃ الوداع ﴿۲﴾حضرت ابراہیم بن محمدﷺ کی وفات ﴿۳﴾ حضرت جبریل ؑ کا انسانی شکل میں عمدہ اور سفید لباس میں آنا جس کوہر شخص دیکھ سکتا تھا اور ایمان و اسلام و احسان و قیامت کے متعلق سوالات۔
۱۱/ہجری:- ﴿۱﴾ صفر کے اواخر میں علالت اور ۱۳/ ربیع الاول اس دنیا سے رحلت فرمانا ﴿۲﴾ اس کے چھ ماہ بعد حضرت فاطمہؓ کی وفات ﴿۳﴾ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی بیعت۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2012