مزاج کا تزکیہ

اسلامی تحریک کی اہم ضرورت

انسانوں کے بڑے انبوہ میں کچھ ہی لوگ ہیں جنھیں اسلام کا صحیح شعور حاصل ہوتا ہے، ان کے اندر اسلام کی نصرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، وہ اجتماعی جدوجہد کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں اور انھیں اسلام کی نصرت کے لیے کوشاں اجتماعیت میں شامل ہونے کی توفیق ملتی ہے۔

کیا یہ بڑا المیہ نہیں ہوگا کہ محض مزاج کی ناسازگاری کی وجہ سے یہ کچھ لوگ بھی ایک دوسرے سے متنفر ہوجائیں اور اعلی مقصد کی خاطر قائم ہونے والی اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جائے۔

کروڑوں انسانوں کے مقابلے میں، انسانوں کی فلاح کے لیے اٹھنے والی مٹھی بھر انسانوں کی یہ جماعت انسانیت کے لیے امید کی کرن ہوتی ہے۔ جو لوگ اس اجتماعیت سے وابستہ ہوتے ہیں ، اللہ کے فضلِ خاص سے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوش نصیبی ہے کہ انھیں دین کی نصرت کے لیے قائم جماعت میں شامل ہونے کا موقع ملا، تو کیا یہ ان کی زندگی کی بڑی بدنصیبی نہیں ہوگی کہ مقصد میں، فکر میں اور طریقہ کار میں اتفاق کے باوجود صرف رفقائے جماعت کے ساتھ مزاج ہم آہنگ نہیں ہونے کی وجہ سے وہ اس جماعت میں نہیں رہ سکے۔ یا رہے بھی تو جماعت کے لیے قوت کا ذریعہ اور قیمتی اثاثہ بننے کے بجائے بھاری بوجھ اور مشکل مسئلہ بنے رہے۔

مزاج کی خرابی اجتماعیت کے شیرازے کو تو کم زور کرتی ہی ہے، وہ فرد کی کار کردگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو تحریکی شعور بھی رکھتے ہیں اور تحریکی جذبہ بھی، لیکن مزاج کی خرابی انھیں تحریکی میدان میں کچھ کرنے نہیں دیتی ہے۔

 اپنے آپ کو بڑی بدقسمتی اور اسلامی تحریک کو بڑے المیے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ فکر و عمل اور عقل وقلب کے تزکیے کے ساتھ مزاج کے تزکیے پر بھی خوب توجہ دی جائے۔

مزاجوں کے تزکیے کے دو اصول

انسانوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو غصہ آتا ہی نہیں اور کچھ لوگوں کو ذرا ذرا سی بات پر غصہ آتا ہے۔کچھ لوگ کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرتے اور کچھ لوگ معمولی بات پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ گفتگو میں ظرافت کو شامل کرتے ہیں اور کچھ لوگ ذرا سی ظرافت کو برداشت نہیں کرپاتے۔ کچھ لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو اونچی آواز سے الرجی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ تنقید کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور کچھ لوگ تنقید سننا گوارا نہیں کرتے۔ کچھ لوگ حد درجہ حسّاس ہوتے ہیں، ذرا سی بے اعتنائی کو بہت زیادہ محسوس کرلیتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے احساس پر چھوٹی چھوٹی باتوں کو طاری نہیں ہونے دیتے۔ کچھ لوگ سلیقہ مندی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کچھ لوگ سلیقہ مندی سے قطع نظر صرف نتائج کے حصول پر نظر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ آگے بڑھنے کے لیے شاباشی کے ضرورت مند ہوتے ہیں اور کچھ لوگ شاباشی کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔

ایسے مختلف مزاج رکھنے والے انسان جب ایک اجتماعیت کا حصہ بنتے ہیں تو مزاجوں کا ٹکراؤ ہونا یقینی ہوتا ہے۔ خود کواور اپنی اجتماعیت کو ٹکراؤ سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعیت کا ہر فرد دو اصولوں کی پابندی کرے۔

پہلا اصول : اپنے مزاج کو دوسروں کے لیے سازگار بنائیں

ہوسکتا ہے کسی بات پر آپ کو غصہ نہیں آئے، لیکن اگر اسی بات پر دوسروں کو غصہ آتا ہے تو آپ اس سے پرہیز کریں۔ آپ ظرافت پسند ہیں، لیکن اگر دوسرے لوگ سنجیدگی پسند ہیں تو آپ اپنی ظرافت کو اتنا کم کریں کہ لوگ اسے برداشت کرسکیں۔جن باتوں پر آپ ناراض نہیں ہوتے مگر دوسرے ناراض ہوتے ہیں ان باتوں سے آپ بھی اجتناب کرلیں۔اگر آپ کا کوئی ساتھی بہت زیادہ حسّاس طبیعت رکھتا ہے تو آپ اس کا خیال کرکے ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے اسے الرجی ہو۔

اس کے لیے بہت ضروری ہوگا کہ آپ اجتماعیت میں شامل لوگوں کی مزاجی خصوصیات اور کم زوریوں سے واقفیت حاصل کریں۔

دوسرا اصول: دوسروں کے مزاجوں کو برداشت کریں

آپ کے ساتھی کی کوئی بات آپ کے مزاج سے میل نہیں کھاتی پھر بھی اسے گوارا کرلیں۔ آپ کو یہ پسند نہیں ہے کہ مجلس میں کوئی آپ کے ساتھ مذاق کرے، لیکن کوئی کرتا ہے تو اسے ہنسی خوشی سہہ لیں۔ اونچی آواز میں باتیں کرنا یا بحث ومباحثہ کرنا آپ کے مزاج کو راس نہیں آتا پھر بھی برداشت کرلیں۔

پہلا اصول کہتا ہے کہ آپ اپنے مزاج کے ان کانٹوں کو ختم کردیں جو دوسروں کے مزاجوں کو چبُھتے ہوں۔

دوسرا اصول یہ کہتا ہے کہ آپ اپنے مزاج میں وہ صبر و تحمل پیدا کریں کہ دوسروں کے مزاج کے کانٹے آپ کو تکلیف نہ دیں۔

پہلا اصول اپنائیں گے تو لوگ آپ کے مزاج کی وجہ سے تحریک سے متنفر نہیں ہوں گے۔ دوسرا اصول اپنائیں گے تو آپ لوگوں کے مزاج کی وجہ سے تحریک سے متنفر نہیں ہوں گے۔

عہدِ رسالت سے رہنمائی

اللہ کے رسول ﷺ اپنے حسنِ مزاج میں بھی بہترین اسوہ ہیں۔ آپ کے حسنِ مزاج کا ایک پہلو یہ تھا کہ کسی کے لیے بھی آپ کا مزاج تکلیف دہ نہیں تھا۔ اس کی ایک خوب صورت مثال آپ کے خادم حضرت انسؓ کا یہ بیان ہے : میں دس سال تک اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں رہا۔ انھوں نے کبھی مجھے اف نہیں کہا۔ میرے کسی کام پر مجھ سے یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں کیا، اور مجھ سے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (سنن ترمذی) مزاج کی نرمی کی اس سے اعلی مثال شاید پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔

آپ کے حسنِ مزاج کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ دوسروں کی بدمزاجیاں بھی آپ خندہ پیشانی سے انگیز کرلیا کرتے تھے۔

اس کی مثال میں حضرت انس کا ایک مشاہدہ پیش کیا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ نجران کی چادر اوڑھے تھے ،اس کا کنارا کڑے قسم کا تھا۔ اسی دوران ایک بدو آیا اور اس نے آپ کی چادر کو زور سے کھینچا۔ میں نےدیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ کی گردن پر چادر کے کنارے کا گہرا نشان پڑ گیا۔ پھر اس نے کہا: اے محمد اللہ کا جو مال آپ کی تحویل میں ہے، اس میں سے مجھے دینے کا حکم جاری کرو۔ اللہ کے رسول ﷺ اس کی طرف مڑے، پھر خوب ہنسے، پھر اس کے لیے عطیے کا حکم صادر فرمادیا۔ (صحیح بخاری)

بدمزاجی کو خوش مزاجی سے دفع کرنے کا ایک خوب صورت واقعہ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک بدو سے عجوہ کھجوروں کے بدلے اونٹ کا گوشت خریدا۔ آپ گھر آئے تو معلوم ہوا کہ گھر میں وہ کھجور نہیں ہے۔ آپ واپس اس بدو کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے تم سے عجوہ کھجور کے بدلے یہ گوشت خریدا تھا، ہمارا خیال تھا کہ گھر میں وہ کھجور رکھی ہے، مگر گھر میں وہ کھجور نہیں ہے۔ اس پر وہ بدو چلانے لگا: یہ دھوکہ ہے، یہ دھوکہ ہے۔ لوگوں نے اسے ٹہوکا لگایا کہ تم اللہ کے رسول سے ایسی بات کہہ رہے ہو۔ آپ نے کہا: اسے چھوڑ دو، حق دار کو بولنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس نے سمجھ کر نہیں دیا۔ تو آپ نے حضرت خولہ کے یہاں کہلا بھیجا کہ اگر عجوہ کھجورتمھارے پاس ہو تو ہمیں قرض دے دو ہم بعد میں ان شاء اللہ ادا کردیں گے۔ اس طرح آپ نے اس بدو کو کھجور ادا کردی۔ پھر ایسا ہوا کہ وہ بدو آپ کے پاس سے گزرا، آپ اپنے صحابہ کی مجلس میں بیٹھے تھے۔ اس نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آپ نے پورا معاوضہ ادا کیا اور دل خوش کردیا۔ آپ نے فرمایا: یہ بہترین لوگ ہیں، پورا حق ادا کرتے ہیں اور عمدہ اوصاف کے حامل ہیں۔(مسند احمد)

اللہ کے رسول ﷺ کی خوش مزاجی کی خوب صورت تعبیر حضرت علیؓ سے منقول ہے۔ جنھوں نے بچپن سے آپ کو قریب سے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں: سب سے زیادہ کشادہ دل، سب سے زیادہ صاف گو، سب سے زیادہ نرم مزاج اور سب سے زیادہ خوش اخلاق۔ (سنن ترمذی)

اسلامی تحریک میں شامل ہونے والے خوش نصیب افراد اگر پیارے نبی کے اس حسین نمونے کو اپنے سامنے رکھیں تو ان کا تحریکی رشتہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوگا۔

نصب العین کو سامنے رکھیں ، مزاج کو مکدرہونے سے بچائیں

لوگ مجھے نظر انداز کرتے ہیں، یہ احساس مزاج کومکدّر کرتا ہے۔ذمے داریوں کے لیے انتخاب کے موقع پر اس احساس کا ہونا کہ مجھے لوگوں نے منتخب نہیں کیا، یاکسی پروگرام کی بابت یہ محسوس کرنا کہ اس میں مجھے شایان شان رول نہیں دیا گیا، مزاج کی خرابی کا سبب بنتا ہے۔ مزاج کا تزکیہ ہوجائے تو آدمی یہ سوچتا ہے کہ میں تحریک میں اس لیے شامل ہی نہیں ہوا تھا کہ مجھے کسی منصب کے لیے منتخب کیا جائے یا کسی اسٹیج پر نمایاں ہونے کا موقع ملے۔ میں تو دین کی نصرت کے لیے شامل ہوا ہوں اور دین کی نصرت کے بے شمار مواقع میرے سامنے موجود اور میری پہل کے منتظر ہیں۔ جب مزاج کا تزکیہ ہوجاتا ہے تو آدمی ایسے تمام احساسات سے پاک رہ کر اپنا پورا فوکس کوشش و محنت پر کرتا ہے۔ یہ یقین اس کے لیے مشعلِ راہ بنتا ہے کہ اخلاص کے ساتھ جو کوشش کی جائے وہی اصل میں ذخیرہ ٔآخرت ہے۔ اسے اگر واقعی نظر انداز کردیا جائے تو بھی اس کا مزاج کسی تکدر کا شکار نہیں ہوتا ہے۔

مزاج کی آزمائش

تحریکی زندگی میں مزاج کا امتحان بار بار ہوتا ہے اور ہر امتحان مزاج کے تزکیے کی ضرورت کا احساس دلاتا ہے۔مزاج کی آزمائش اس وقت بھی ہوتی ہے جب آپ سے کم عمر شخص کو قیادت سونپ دی جاتی ہے۔ اپنے سے کم عمر شخص کی اطاعت مزاج پر گراں گزرتی ہے۔یہ انسانی مزاج کی عام کم زوری ہے۔ مزاج کا تزکیہ کرکے اپنی کم زوری پر جو لوگ قابو پالیتے ہیں وہ اس امتحان میں آسانی سے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ورنہ مزاج کی گرانی رفتارِ کار کو متاثر کردیتی ہے۔ مزاج پر عمر کے تفاوت کا اثر کئی طرح سے ظاہر ہوتا ہے۔ایک طرف تو بزرگوں کے مزاج پر نوجوانوں کے فیصلے اور اقدامات گراں گزرتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ یہ نوجوان نئے تجربات کی دھن میں جماعت کی قدیم روایتوں کی حفاظت نہیں کرسکیں گے، دوسری طرف نوجوانوں کے مزاج پر بزرگوں کی نصیحتیں اور مشورے گراں گزرتے ہیں،انھیں لگتا ہے کہ یہ بزرگ نئے دور کے تقاضے نہیں جانتے اورنہیں چاہتے کہ نئے تجربات کیے جائیں۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی خاص موقع پر ان بزرگوں کی بات درست ہو یا کسی خاص مقام پر ان نوجوانوں کا موقف صحیح ہو۔جہاں تک موقف کی بات ہے ، باہمی گفتگو سے صحیح موقف تک پہنچا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر اس تناؤ کے پیچھےمزاج کی کارفرمائی ہو تو گفتگو بے نتیجہ رہتی ہے اور کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے، جب تک کہ مزاج کی اصلاح نہ کرلی جائے۔ مزاج کی یہ اصلاح بزرگوں کو بھی کرنی ہوگی اور نوجوانوں کو بھی۔ نیز ایک دوسرے کے ساتھ خوش د لی سے رہنے کا حسین و جمیل مزاج بھی اپنے اندر پروان چڑھانا ہوگا۔

عمر کی طرح علم و صلاحیت کا تفاوت بھی مزاج کی کم زوری کو ظاہر کردیتا ہے۔ وسعت ظرفی کی صفت اس کم زوری کو نہ صرف چھپاتی ہے بلکہ دور بھی کردیتی ہے۔ علم کے ساتھ حلم ہو تبھی علم کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ کم ظرفی اپنے آپ میں عیب ہے لیکن علم و صلاحیت کے ساتھ مل کروہ عیب اور زیادہ بدنما ہوجاتا ہے۔

 مزاج کا تزکیہ ہوجائے تو بزرگ نوجوانوں کی قدر کریں اور نوجوان بزرگوں کی۔فیصلوں کا احترام اس بنا پر کیا جائے کہ وہ شورائی عمل سے گزر کر وجود میں آئے ہیں۔ اطاعت اس شعور کے ساتھ کی جائے کہ اجتماعیت کے لیے اطاعت ناگزیر ہے۔مزاج کی اس کم زوری کو دور کرنے کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی یہ تعلیم کافی ہے کہ اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیكُمْ عَبْدٌ حَبَشِی، كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِیبَةٌ. سنو اور اطاعت کرو، خواہ تم پر ایک حبشی غلام امیر بنادیا جائے، جس کا سر سوکھی ہوئی کشمش کی طرح (بدنما) ہو۔ (صحیح بخاری)

اطاعت ومشاورت کو اگر جماعت کے مفاد کی نظر سے دیکھا جائے تو نہ کسی کی اطاعت طبیعت پر گراں گزرے گی اور نہ ہی کسی کی تنقید و نصیحت۔ چاہے عمر میں تفاوت ہو یا علم و صلاحیت میں ۔

مزاجوں کی نگہداشت ضروری ہے

مزاج کو لاحق ہونے والی بدمزگیاں رشتوں کوکم زور کرتی ہیں۔ اس لیےاجتماعیت کی حفاظت کی فکر کرنے والوںکی توجہ اس پر رہنی چاہیے کہ مزاجوں کافرق اجتماعیت کو کمزور کرنے کا سبب نہیں بنے۔ اجتماعیت میں جہا ں تک ممکن ہو مزاجوں کے فرق کی رعایت کی جائے، مزاجوں کو سازگار بنانے کی کوشش کی جائے اورمزاجوں کی ناہمواریوں کو انگیز کیا جائے۔ یہ وہ اہم معاملہ ہے جس کی نگہداشت قیادت کو بھی کرنی چاہیے اور فرد کوخوداپنے سلسلے میں کرنی چاہیے۔ اپنے مزاج کی اصلاح آپ ہی کرسکتے ہیں البتہ دوسروں کی نشان دہی بہت مفید ہوسکتی ہے ۔

مزاجوں کا علم حاصل کریں

اپنے مزاج کا گہرائی سے مطالعہ کریں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ مزاج کی وہ کیا کم زوریاں ہیں جو دوسروں کے لیے مسئلہ بن سکتی ہیں۔دوسروں کے مزاج پر بھی نظر رکھیں، تاکہ آپ ان کے مزاجوں کی کم زوریوںکی رعایت کرسکیں۔

موقف کی سختی اور ہے سخت مزاجی اور ہے

حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے مگر                 گتھیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ

بعض مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت موقف اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مزاج کی سختی ایک الگ چیز ہے اور موقف کی سختی ایک دوسری چیز۔ حضرت ابوبکرؓ کے مزاج میں نرمی تھی لیکن مانعین زکات کے مسئلے پر ان کا موقف سخت تھا۔ جب کہ حضرت عمر ؓکے مزاج میں کچھ سختی تھی لیکن مانعین زکات کے مسئلے پر ان کا موقف اس طرح سخت نہیں تھا۔

موقف کی سختی ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے مزاج کی سختی نہیں بلکہ صورت حال کا تقاضا کارفرما ہوتا ہے۔ وہ سختی اسی حد تک ہوتی ہے جس حد تک اس کا ہونا ضروری اور مفید ہوتا ہے۔ لیکن مزاج کی سختی کے پیچھے کوئی معقولیت نہیں ہوتی ہے۔ اس کی کوئی حد بھی نہیں ہوتی ہے۔ وہ سختی اُن لوگوں پر بھی نازل ہوجاتی ہے جو اس کے سزاوار نہیں ہوتے ہیں اور ان مواقع پر بھی ظاہر ہوجاتی ہے جو اس کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں۔ اگر آدمی حق پر ہو تو موقف کی سختی اس کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے۔ جب کہ مزاج کی سختی انسان کا عیب بن جاتی ہے، چاہے وہ انسان حق پر کیوں نہ ہو ۔موقف کی سختی اجتماعیت کی بہت بڑی ضرورت ہے لیکن مزاج کی سختی کسی بھی اجتماعیت کو راس نہیں آتی ہے۔ بسا اوقات مزاج کی سختی کی وجہ سے آدمی کی دوسری تمام خوبیاں اور صلاحیتیں نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔سخت مزاج قائد کے ساتھ چلنا مشکل ہوتا ہے اور سخت مزاج افراد کو ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کے سلسلے میں بعض لوگوں کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ بے شمار خوبیوں کے باوجودسخت مزاج ہیں اورخلافت کا فریضہ انجام دینے میں انھیں دشواری پیش آئے گی۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کا یہ اندیشہ دور کیا اور بتایا کہ ان کے رویے کی سختی ان کے اپنے کنٹرول میں رہتی ہے ۔وہ سخت مزاجی کے ہاتھوں مجبور نہیں ہیں۔سختی اور نرمی ان کے لیے اسٹریٹیجی کا معاملہ ہے مزاج کا نہیں۔ تاریخ طبری میں درج ذیل مکالمہ مذکور ہے:

جب خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓکو بلایا اور کہا مجھے عمر ؓکے بار ے میں بتاؤ۔ انھوں نے کہا: وہ بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں، البتہ ان کے مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: وہ سختی اس وجہ سے ہے کہ وہ مجھے نرم دل پاتے ہیں۔ اگر معاملہ ان کے حوالے ہو تو وہ اپنےرویے میں کافی تبدیلی لائیں گے۔ میں نے ان پر غور کیا ہے، معاملہ یہ تھا کہ جب میں کسی شخص پر غصہ ہوتا تو وہ اس سےناراض نہ ہونے کی راہ دکھاتے اور کسی کے ساتھ نرمی برتتا تو اس کے ساتھ سختی کرنے کا مشورہ دیتے۔

انسان کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ اس کی سخت مزاجی سے دین کی نصرت کے کاز کو کتنا زیادہ نقصان ہورہا ہے، تو وہ اپنے مزاج کونرم کرنے کی شعوری کوشش کرے گا۔نرم مزاجی اللہ کی رحمت ہے اورجس طرح اللہ کی ہر رحمت کو پانے کے لیے انسان کوشش کرتا ہے ، اسے پانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔

{ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ}   [آل عمران: 159]

معاف کرنے سے مزاج کی سختی کم ہوتی ہے اور اس کی نرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔معاف کرنا ایک پیمانہ بھی ہے جس سے انسان اپنے مزاج کی نرمی اور سختی کو جانچ سکتا ہے۔

احساس کی لطافت اور ہے ،حسّاس مزاجی اور ہے

احساس کی لطافت آدمی کوسعادت کے راستے دکھاتی ہے۔ جب کہ حسّاس مزاجی انسان کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتی ہے۔ فرض کریں اجتماعیت کے اندر کسی رفیق نے دوسرےرفیق کو اس کی کچھ خامیوں کی طرف توجہ دلائی۔ اب اگر وہ بے حس ہوگا تو اس تنقید کی پرواہ کیے بغیر معمول کی زندگی گزارتا رہے گا، نہ تو اپنی خامیاں دور کرے گا اور نہ تنقید کرنے والے سے تعلقات خراب کرے گا۔اوراگر اس کے اندر احساس کی لطافت ہوگی تو وہ تنقید کو سنوارنے کا عمل سمجھے گا، احتساب کرنے والے کا شکریہ ادا کرے گا اور ان خامیوں کو دور کرنے کی تدبیریں کرے گا۔ لیکن اگر وہ حسّاس مزاج ہوگا تو تنقید کے ایک ایک جملے کو اپنے دل میں تیر کی طرح چبھتا ہوا محسوس کرے گا۔ کافی عرصے تک اس کا دل مجروح اور بوجھل رہے گا ۔ ممکن ہے کہ وہ تنقید کا اتنا اثر لے کہ اجتماعیت سے ہی روٹھ جائے۔

مشاورت کے دوران کسی شخص کا مشورہ رد کردیا گیا۔ لطیف احساس والا شخص خوشی سے اجتماعیت کے فیصلے کو قبول کرے گا لیکن حسّاس مزاج شخص کواس کا بہت زیادہ ملال ہوگا کہ اس کا مشورہ قبول نہیں کیا گیا۔ یہ ملال اگر بڑھ جائے تو اسے اجتماعیت سےبھی دور کرسکتا ہے۔

حسّاس مزاج انسان چھوٹی باتوں اور بڑی باتوں میں فرق نہیں کرپاتا ہے۔ وہ نہایت معمولی باتوں کا بھی بہت زیادہ اثر لے لیتا ہےاور بہت عرصے تک اثر لیے رہتا ہے۔معتدل مزاج شخص چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرتا ہے اورصرف بڑی باتوں کو اہمیت دیتا ہے۔کسی بھی بات کو وہ اتنا ہی وزن دیتا ہے جتنا وزن اسے ملنا چاہیے، پھر وہ اس کا اتنا ہی اثر لیتا ہے اور اتنی ہی دیر تک لیتا ہے۔ انصاف پسندی کے لیے مشہور ایک بادشاہ نے اپنا اصول یہ بتایا کہ میں جرم کے برابر سزا دیتا ہوں غصّے کے بقدرنہیں۔

اسلامی تحریک اور اسلامی اجتماعیت کی اہمیت اگر دل میں اچھی طرح بیٹھ جائے تو آدمی حسّاس مزاجی کے منفی اثرات سے خود کو بچاسکتا ہے۔ اس کی حسّاس مزاجی کا فوکس اس کی زندگی کا مقصد بن جائے جس کی خاطر وہ تحریک سے وابستہ ہوا۔

اللہ کے رسول ﷺ کے احساس کی انتہائی شدّت اس پر مرکوز تھی کہ انسانوں کو ہدایت مل جائے۔یہ فکرمندی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اس کے سامنے انسانوں کی ساری زیادتیاں چھوٹی اور ناقابلِ اعتنا ہوگئی تھیں۔ستانے والوں کے لیے ہدایت کی کوششیںاور دعائیں کرنے کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان کے ستانے کا مزاج پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے، ان کے بھٹکنے کا مزاج پر بہت زیادہ اثر ہے۔ اتنا زیادہ اثر کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ یؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِیثِ أَسَفًا [الكهف: 6]

ستائش طلب مزاج

ہم اکثر یہ جملہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص اس لیے ہشاش بشاش نہیں رہتا کیوں کہ اس کی جاب تھینک لیس ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ تھینک لیس جاب اسی کے لیے افسردگی اور فرسٹریشن کا سبب بنتی ہے جو مزاجی کم زوری میں مبتلا ہو۔ستائش کی طلب ایک مزاجی کم زوری ہے۔یہ خرابی بڑھ جاتی ہے تو آدمی زیادہ سے زیادہ ستائش کی مانگ کرتا ہے اور ہمیشہ تشنہ ہی رہتا ہے۔یہ صحیح ہے کہ شاباشی انسان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔قدر شناسی اور قدر افزائی کا ماحول اجتماعیت کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔ لیکن اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ شاباشی انسان کی مزاجی کم زوری نہ بن جائے۔

شاباشی پر خوش ہونا الگ چیز ہے اور ریا کاری الگ چیز ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ آدمی اخلاص کے ساتھ انسانوں کے فائدے کاکوئی کام انجام دے اور اس کام کی قدر کیے جانے پراسےکچھ خوشی ہو، یا قدر نہ کیے جانے پر اسےکچھ ملال ہو۔ البتہ یہ خوشی اور ملال اتنی اہمیت نہ اختیار کرلیں کہ آدمی قدر افزائی نہ ہونے پر اپنے فرض سے بیزار اور اجتماعیت سے متنفر ہوجائے۔ اس کے لیے اپنے دل کو بار بار یہ سمجھانا ہوگا کہ اصل قدر افزائی تو اللہ کے یہاں ہوگی اور اصل خوشی بھی اسی قدر افزائی سے حاصل ہوگی۔ إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْیكُمْ مَشْكُورًا  [الإنسان: 22]

ستائش کی طلب ایک فطری امر ہے۔ البتہ مزاج کا تزکیہ کرنے سے انسان انسانوں کی ستائش سے بے نیاز ہوکر اللہ کی ستائش کا طلب گار ہوجاتا ہے۔پھر اگر ستائش نہ بھی ہو تو اسے ذرا ملال نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو ذرا دیر کے لیے ہوتا ہے اورجلد ہی اس کا اثر زائل ہوجاتا ہے۔

اگر آپ دوسروں سے اس ملال کا ذکر کریں گے تو یہ بڑھ جائے گا۔اگر دوسرے آپ سے ذکر کریں گے اور آپ کان لگاکر سنیں گے تو بھی یہ ملال بڑھ جائے گا۔ اس لیے اسے کبھی زبان پر نہ آنے دیں اور ہرگز اسے موضوعِ گفتگو نہ بننے دیں۔

تنک مزاجی سے نکلیں اور تحمل اختیار کریں

آدمی کے اندر چڑچڑا پن ہوتا ہے۔ اسے جلدی غصہ آجاتا ہے۔ کوئی بات مزاج کے خلاف ہوئی تو مجلس سے اٹھ کر چل دیتا ہے۔اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتا ہے۔ مقرر کی کوئی ادا نا پسندہو تو اس کی تقریر سننا بھی گوارا نہیں کرتا ہے۔ اجتماعیت تو مختلف المزاج لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر ایک کی اپنی الگ ادا اور انداز ہوتا ہے۔ایسے میں تحمل مزاجی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

تنک مزاجی آدمی کی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ اگر آدمی تصور کی آنکھوں سے یہ دیکھ لے کہ تنک مزاجی کے نتیجے میں وہ کیسی عجیب وغریب حرکتیں کربیٹھتا ہے تو وہ خود ہی اس کم زوری سے نجات پانے کی کوشش کرے۔

 اپنے مزاج کو زیادہ اہمیت دینے کا مزاج

اجتماعیت میں یہ مزاج بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔آپ جس وقت مذاق کے موڈ میں ہیں تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوب مذاق کرتے ہیں۔ لیکن جس وقت آپ مذاق کے موڈ میں نہیں ہوتے ہیں، کسی ساتھی کے ذرا سے مذاق پر شدید برہم ہوجاتے ہیں۔ دوسروں کی باتوں پر آپ کو غصّہ آتا ہے لیکن آپ دوسروں کو اس کا حق نہیں دیتے کہ آپ کی اسی طرح کی باتوں پر انھیں غصّہ آئے۔ جب آپ کا موقف مضبوط ہوتا ہے تو بحث کرنے میں اور دلائل کا انبار لگانے میںآپ پیش پیش رہتے ہیں ، لیکن جہاں آپ کا موقف کم زور ہوتا ہے وہاں دوسرے کی بحث آپ کی طبیعت پر ناگوار گزرتی ہے اور آپ اسے کٹھ حجتی سے تعبیر کرتے ہیں۔

 اس طرح کے رویوںکا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے مزاج کو دوسروں کے مزاج سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

مضبوط اجتماعیت مساوات کے اس زریں اصول پر قائم ہوتی ہے کہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ یہ اصول مزاج پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ آدمی دوسروں کے مزاج کو بھی اتنی ہی اہمیت دے جتنی اپنے مزاج کو دیتا ہے۔

منفی مزاج سے منفی ماحول بنتا ہے

یوں تو مزاج کی بہت سی خرابیاں ہیں اور ہر خرابی اجتماعیت کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ لیکن منفی مزاج کی خاص بات یہ ہے کہ وہ متعدی خرابی ہے۔ منفی مزاج والا شخص مثبت پہلو نہیں دیکھتا ہے اور خوبیوں کو بالکل اہمیت نہیں دیتا ہے۔ وہ کسی اجتماعی فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتا ہے۔ کوئی شخصیت اسے راس نہیں آتی ہے۔ ہر تقریر میں وہ خامیوں کو تلاش کرتا ہے۔ پھر وہ جب بھی گفتگو کرتا ہے منفی پیغامات نشر کرتا ہے۔اس کی وجہ سے لوگوں میں بدگمانی پھیلتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ایمان والوں کو ہدایت کی تھی کہ بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا۔ (صحیح بخاری) ایسی باتیں کرو، جن سے خوشی ہو اور آگے بڑھنے کی ترغیب ملی۔ ایسی باتیں مت کرو جن سے طبیعت میں تکدر ہو اور حوصلے پست ہوجائیں۔

مثبت مزاج رکھنے والے ،مثبت پہلوؤں کو ابھارنے والےاور حوصلہ بخش مثبت باتیں کرنے والے دراصل تبشیرکا کام کرتے ہیں، جس کا رسول پاک ﷺ نے حکم دیا ہے۔ منفی مزاج رکھنے والے، منفی پہلوؤں کو بڑا کرکے دکھانے والے اور حوصلہ شکن منفی باتیں کرنے والے تنفیر کا کام کرتے ہیں، جس سے اللہ کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔

منفی مزاج اور تنقید کے عمل میں فرق ہے۔ منفی مزاج والا شخص خوبیوں کو دیکھتا ہی نہیں ہے، صرف خامیوں کو دیکھتا ہےاور خامیوں کو دور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔ جب کہ تنقید کرنے والا خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے اور خامیوں کو دور کرنے کا طریقہ بھی بتاتا ہے۔ منفی مزاج والے کو خامیوں سے لگاؤ ہوتا ہے کیوں کہ وہ اس کے مزاج کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہیں، خامیاں نہ ملنے پر اسے بے چینی ہوتی ہے۔جب کہ ناقد کو خامیوں سے بیر ہوتا ہے اور وہ ان کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ انتہائی مثبت مزاج رکھنے والا شخص بھی گہرا ناقد ہوسکتا ہے۔

اقامت دین کی تحریک اور اسلامی اجتماعیت میں شامل ہر فرد کو یہ مصمم ارادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے فکر و عمل کے ساتھ اپنے مزاج کو بھی اس تحریک و اجتماعیت کے لیے سازگار و مددگار بنائے گا۔ وہ سہل مزاج ہو مشکل مزاج نہ ہو کہ اس کے ساتھ تعامل دشوار ہوجائے۔ وہ سخت مزاج نہیں نرم مزاج ہو تاکہ اجتماعیت کے ساتھ شیر و شکر ہوجائے۔ وہ انتہا پسند مزاج کے بجائے معتدل مزاج ہو تاکہ اس کی وجہ سے اجتماعیت میں مسائل پیدا نہ ہوں۔ وہ منفی مزاج نہیں مثبت مزاج ہو تاکہ اس کی ذات تحریک کے لیے مفید ہوسکے۔اس کے مزاج میں انکسار ہو ،تکبر نہ ہو، برداشت ہو غصہ نہ ہو ، امید ہو قنوطیت نہ ہو اور اس کے مزاج میں اصول پسندی کے ساتھ ساتھ لچک ہو اڑیل پن نہ ہو۔ اور بہت اہم بات یہ ہے کہ جو ہم سفرمزاج کی ان خوبیوں کا حامل نہ ہو اس کے ساتھ بھی وہ چلنے کا مزاج ، ظرف اور حوصلہ رکھتا ہو۔

اسلامی تحریک کے لیے فکر کی راستی وہم آہنگی کے ساتھ مزاج کی سازگاری و ہم آہنگی بھی بہت ضروری ہے۔ وہ مزاج جو فرد کی تحریکی سرگرمی میں رکاوٹ اور رفقائے تحریک کے ساتھ اس کے تعلقات میں خلل نہ ڈالے، اسے تحریکی مزاج کہتے ہیں۔ تحریکی مزاج پر امیر کی اطاعت گراں گزرتی ہے اورنہ ہی رفقائے تحریک کی تنقیدیں بھاری پڑتی ہیں،شکایت طول پکڑتی ہے اور نہ ہی معافی مانگنے میں انا حائل ہوتی ہے، دوسروں کی رائے اپنی رائے کی رفیق لگتی ہے اور اجتماعی فیصلے اپنے فیصلے بن جاتے ہیں۔ تحریکی مزاج محبت و احترام ،وسعت ظرفی اور تحمل و بردباری سے عبارت ہوتا ہے۔

جس دن آپ یہ طے کرلیتے ہیں کہ آپ کا نصب العین آپ کےمزاج سے زیادہ آپ کوعزیز و محبوب ہے، اسی دن سے مزاج کا تزکیہ شروع ہوجاتا ہے۔ تزکیہ کا یہ سفر زندگی بھر جاری رہتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جون 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223