دنیا کی تمام اسلامی تحریکات نے وسطیہ یعنی میانہ روی اور اعتدال پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریک اسلامی کا کام مسلم ملت کے اندر حرکت پیداکرنا ہے۔ ملت کی حالت جمے ہوئے پانی کی طرح ہے۔ تحریک اسلامی اس جمود میں حرکت پیدا کرتی ہے۔ مسلم ملت اپنا مطلوبہ کردار ادا کرے اس کے لیے حرکت ضروری ہے۔ لیکن حرکت کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ کبھی غلط رخ اختیار کرسکتی ہے اوراس کے غلط نتیجے سامنے آسکتے ہیں۔ حرکت احتیاط چاہتی ہے۔ حرکت کو غلط رخ پر جانے سے بچانے کے لیے میانہ روی اور اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کوتاہی تشدد، انتہا پسندی اور تکفیری رجحانات کی طرف لے جاسکتی ہے۔
آج پوری دنیا میں تحریک اسلامی مختلف چیلنجوں کا سامنا کررہی ہیں۔ ان مختلف جہتوں سے آنے والے چیلنجوں کے مقابلے کے لیے تحریک اسلامی کو درمیان کی پوزیشن لینی ہوتی ہے۔ اس لیے بھی میانہ روی اور اعتدال کی روش ضروری ہے۔
میانہ روی کو سمجھنے میں اللہ کے رسول کی ایک حدیث مدد کرتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ کو سب سے محبوب دین کشادگی والی حنیفیت ہے۔ أَحَبُّ الدِّینِ إِلَى اللَّهِ الحَنِیفِیةُ السَّمْحَةُ۔
حنیفیت کا مطلب یہ ہے کہ رخ منزل کی طرف مرکوز رہے اور سمحة کا مطلب یہ ہے کہ منزل کی طرف یہ سفر افراط و تفریط سے پاک رہے۔
دین ایک کشادہ شاہ راہ ہے۔ اس کے کناروں پر چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کناروں پر خطرہ ہوتا ہے۔ درمیان میں چلنے میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کشادگی کے باوجود کناروں پر چلنا مناسب بات نہیں ہے۔
یہ تو میانہ روی کی بات ہوئی، اس کے بعد ہم اعتدال پر بات کریں گے۔
تحریک اسلامی کے سامنے متعدد مختلف اور کبھی باہم متضاد تقاضے ہوتے ہیں۔ مختلف حوالوں سے دوئیاں (Binaries) سامنے آتی ہیں۔ ان دوئیوں کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں ہم آگے پیش کریں گے۔ اس سے پہلے ہم توازن کی وضاحت کریں گے۔
توازن کائنات کا حسین ساز ہے۔ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ۔کائنات میں کہیں عدم توازن نظر نہیں آتا۔ مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ۔ہر مخلوق میزان کے مطابق ہے۔ إِنَّا كُلَّ شَیءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ۔ سابقہ قوموں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے: مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِیرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا یعْمَلُونَ۔ یعنی ایک گروہ تو اعتدال کے راستے پر ہے باقی سب جو اعتدال سے ہٹے ہوئے ہیں وہ بہت بری روش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سابقہ قوموں سے کہا گیا کہ غلو مت کرو۔ یاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ۔
اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کے عقیدے میں توازن ہے۔ دِینًا قِیمًا۔ اسلامی امت اعتدال والی امت ہے وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا۔ زندگی کے ساتھ اس کا تعامل بھی اعتدال و توازن پر مبنی ہے۔ وَابْتَغِ فِیمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِیبَكَ مِنَ الدُّنْیا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اعتدال و توازن کی تعلیم بڑی خوب صورتی کے ساتھ دی۔ ایک طرف اپنے بارے میں یہ کہا کہ ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لاَ یؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ۔
دوسری طرف اس بے پناہ محبت کو بے اعتدالی سے بچانے کی تعلیم بھی دی اور احترام میں ایسے غلو سے منع کیا جو توحید کو مجروح کرے۔ لاَ تُطْرُونِی، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْیمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ۔
غرض اعتدال و توازن تحریک اسلامی کا امتیاز ہے۔ علامہ یوسف قرضاوی کے بقول:
’’تمام اقوام کے درمیان مسلمان مقام وسط پر ہیں۔ اور تمام فرقوں کے درمیان اہل سنت مقام وسط پر ہیں۔ اور تمام جماعتوں کے درمیان اسلامی تحریک مقام وسط پر ہے۔ اسلامی تحریک کے افراد توازن قائم رکھتے ہیں۔ عقل اور جذبات کے درمیان، مادے اور روح کے درمیان، فکر اور عمل کے درمیان، فرد اور سماج کے درمیان، شورائیت اور اطاعت کے درمیان، حقوق اور واجبات کے درمیان اور قدیم و جدید کے درمیان۔‘‘
سید قطب امت وسط کی اس خصوصیت کو نمایاں کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’یہ امت وسط ہے۔ فکرو شعور کے میدان میں یہ علم کے موجود ذخیرے پر قناعت نہیں کربیٹھتی ہے، علم و معرفت اور تجربہ و تحقیق کے دروازے خود پر بند نہیں کرلیتی ہے۔ لیکن وہ سوچے سمجھے بغیر ہر نعرہ باز کے پیچھے نہیں ہولیتی ہے۔ بندروں کی طرح ہر کسی کی نقالی نہیں کرتی ہے۔ وہ اپنے عقائد، اصول اور نظام فکر و عمل کی حفاظت کرتی ہے، انھیں مضبوطی سے تھامے رہتی ہے، لیکن انسانیت کے تجربات اور دریافتوں کی ناقدری بھی نہیں کرتی ہے۔‘‘
مولانا مودودی نے اعتدال وتوازن کو کائنات کے آئینے میں دیکھنے کی تعلیم دی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اس زندگی میں کام کرنے کے لیے فکر و نظر کا ایسا توازن اور سعی و عمل کا ایسا اعتدال درکار ہے جو مزاج کائنات کے توازن و اعتدال کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ حالات کے ہر پہلو پر نگاہ رکھی جائے۔ معاملات کے ہر رخ کو دیکھا جائے۔ ضروریات کے ہر گوشے کو اس کا حق دیا جائے۔ فطرت کے ہر تقاضے کو ملحوظ رکھا جائے۔ کمال درجے کا معیاری اعتدال چاہے نصیب نہ ہو، مگر یہاں کام یابی کے لیے بْہرحال اعتدال ناگزیر ہے۔ جتنا بھی وہ معیار سے قریب ہو گا، اتنا ہی مفید ہو گا اور جس قدر وہ اس سے دور ہوگا اسی قدر زندگی کی حقیقتوں سے متصادم ہو کر نقصان کا موجب بنے گا۔‘‘
مولانا مودودی نے مزاج کے یک رخے پن پر سخت تنقید کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’مزاج کی بے اعتدالی کا اوّلین مظہر انسان کے ذہن کا یک رُخا پن ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہوکر آدمی بالعموم ہرچیز کا ایک رُخ دیکھتا ہے، دوسرے رُخ کو نہیں دیکھتا۔ ہرمعاملے میں ایک پہلو کا لحاظ کرتا ہے، دوسرے کسی پہلو کا لحاظ نہیں کرتا۔ ایک سمت جس میں اس کا ذہن ایک دفعہ چل پڑتا ہے، اسی کی طرف وہ بڑھتا چلا جاتا ہے، دوسری سمتوں کی جانب توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل ایک خاص طرح کے عدم توازن کا ظہور ہوتا ہے۔ رائے قائم کرنے میں بھی وہ ایک ہی طرف جھکتا چلا جاتا ہے۔ جس چیز کو اہم سمجھ لیتا ہے بس اسی کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے، دوسری ویسی ہی اہم چیزیں بلکہ اس سے بھی اہم چیزیں اس کے نزدیک غیروقیع ہوجاتی ہیں۔ جس چیز کو بُرا سمجھ لیتا ہے، اسی کے پیچھے پڑجاتا ہے، دوسری ویسی ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑی بُرائیاں اس کے نزدیک قابلِ توجہ نہیں ہوتیں۔ اصولیت اختیار کرتاہے تو جمود کی حد تک اصول پرستی میں شدت دکھانے لگتا ہے اور کام کے عملی تقاضوں کی کوئی پروا نہیں کرتا۔ عملیت کی طرف جھکتا ہے تو بے اصولی کی حد تک عملی بن جاتا ہے، اور کام یابی کو مقصود بالذات بنا کر اس کے لیے ہرقسم کے ذرائع وسائل استعمال کر ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘
مزاج کے یک رخے پن کے سلسلے میں اکیسویں صدی میں صورت حال اور زیادہ سیریس ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا انسان کے یک رخے پن کو بڑھاوا دینے میں بہت بڑا رول ادا کرتا ہے۔اس حوالے سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنی شخصیت کی حفاظت کا خیال رکھتا نئے زمانے کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اجتماعی بے اعتدالی کو مولانا مودودی نے بہت خطرناک قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں:
’’ایک آدمی یہ رَوش اختیار کرے تو زیادہ سے زیادہ اتنا ہی ہوگا کہ وہ اکیلا جماعت سے کٹ جائے گااور اس مقصد کی خدمت سے محروم ہوجائے گا جس کی خاطر وہ جماعت سے وابستہ ہوا تھا۔ اس سے کوئی اجتماعی نقصان نہ ہوگا، مگر جب کسی اجتماعی ہیئت میں بہت سے غیرمتوازن ذہن اور غیرمعتدل مزاج جمع ہوجائیں، تو پھر ایک ایک قسم کا عدم توازن، ایک ایک ٹولی کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ ایک انتہا کے جواب میں دوسری انتہا پیدا ہوتی ہے۔ اختلافات شدید سے شدید تر ہوتے جاتے ہیں، پھوٹ پڑتی ہے، دھڑے بندی ہوتی ہے اور اس کش مکش میں وہ کام خراب ہوکر رہتا ہے، جسے بنانے کے لیے بڑی نیک نیتی کے ساتھ کچھ لوگ جمع ہوئے تھے۔‘‘
بے اعتدالی کے نتیجے میں یک رخا پن، انتہا پسندی اور تنگ دلی جیسی بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے اسلامی تحریک کو خاص طور سے ہندوستان میں میانہ روی، اعتدال اور توازن کی اہمیت اور تقاضوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
ہم یہاں بات کریں گے ثوابت و متغیرات کے بارے میں۔ ثوابت کا مطلب ہمارے ناقابل تغیر اصول ہیں، جو کسی بھی حال میں تبدیل نہیں ہوسکتے۔ متغیرات سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو زمانے کے تغیر کے ساتھ تبدیل ہوسکتی ہیں۔
ہماری اسلامی تحریک نے تاریخ کے ایک خاص موڑ پر جنم لیا تھا۔ اس کا اہم ترین کام اسلام کی تعلیمات کو سب کے سامنے پیش کرنا تھا۔ اولین اصحاب تحریک کو جن حالات کا سامنا تھا انھیں پیش نظر رکھ کر انھوں نے اسلام کی تعلیمات کو بہترین انداز میں پیش کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بہت سی بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ ۱۹۴۷ سے پہلے ملک ایک تھا مگر آزاد نہ تھا۔ ۱۹۴۷ میں وہ آزاد بھی ہوا اور تقسیم بھی ہوا۔ ۱۹۵۰ میں ملک میں دستور بنا اور یہ ایک خود مختاری (Sovereignty)والا ملک بنا۔ یہ ایک اہم مرحلہ تھا۔ اسی طرح خود تحریک اسلامی دو ملکوں میں تقسیم ہوئی۔ دونوں ملکوں کے حالات بالکل مختلف تھے۔ اپنے اپنے ملک کے تبدیل شدہ حالات میں دونوں کو اپنی اپنی پالیسی اور حکمت عملی طے کرنی تھی اور دونوں نے کی۔
اسی طرح ایک تبدیلی اور ہوئی۔ ہماری تمام تر پالیسیاں بیسویں صدی میں تشکیل پائی تھیں۔ یہ جدیدیت کی صدی تھی۔ آج ہم اس سے کافی مختلف اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔ حالات کی یہ اہم تبدیلی ہے۔
اسی طرح عالمی حالات بدلے ہیں۔ خود ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ملک کی مقتدرہ وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔
یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی پوری تاریخ مجددین سے سجی ہوئی ہے۔ ہر زمانے میں مجدد آتے رہے۔ وہ کسی پہلو سے اپنے زمانے میں دین کی تجدید کا کام کرتے تھے اور ان کا تجدیدی کام ملت کا تاریخی ورثہ اور سرمایہ بن جاتا تھا۔ یہ تمام مجدد ہمارے لیے مستند حوالہ اور ریفرنس ہیں۔ لیکن ہر مجدد کو اپنے زمان ومکان سے ربط ہوتا ہے۔ اس سیاق کو سامنے رکھ کر قرآن وسنت کی روشنی میں ہر مجدد سے فائدہ اٹھانا ہے۔
مولانا مودودی بھی ایک مجدد تھے۔ جب جماعت اسلامی کا دستور تیار کیا گیا تو اس میں خاص طور سے یہ لکھا گیا کہ معیار حق صرف رسول کی ذات ہے۔ آپ کے علاوہ کوئی معیار حق نہیں ہے۔ اس اصول کے تحت انھوں نے امت کی مختلف شخصیات پر تنقیدوں کی جرأت بھی کی۔ اور خود کو بھی اسی مقام پر رکھا کہ ان سے اختلاف بھی کیا جاسکے اور ان پر تنقید بھی کی جاسکے۔ تقسیم کے بعد بھارت میں کیا کرنا ہے، ان سے جب بھی پوچھا گیا انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہے۔ وہ اپنے حدود سے خود بھی واقف تھے اور دوسروں کو بھی واقف کراتے تھے۔
گویا ہمارے سامنے ایک نیا راستہ ہے جو ہمارے سابقین کے سامنے نہیں تھا۔ اس نئے راستے پر اپنے ٹھوس اصولوں اور نئے راستے کے متغیر تقاضوں کے ساتھ ہمیں چلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
کچھ لوگ روایت پسند ہوتے ہیں اور کچھ جدت پسند ہوتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کے درمیان سے اعتدال کا راستہ نکالنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں طرح کے لوگ ثوابت و متغیرات کو اچھی طرح سمجھیں۔ ورنہ تحریک داخلی کشمکش سے باہر نکل کر اپنا مطلوبہ کردار ادا نہیں کرسکے گی۔
یہ فہم و شعور قیادت کے لیے بھی ضروری ہے جو فیصلے کرتی ہے اور کیڈر کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرسکے اور تن د ہی سے عمل کرسکے۔
صحابہ کرام اور خاص طور سے خلفائے راشدین کی سیرت میں ہمارے لیے رہ نمائی کا عمدہ سامان ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا فَعَلَیكُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِینَ الْمَهْدِیینَ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے خلافت سنبھالنے کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں رائج کئی امور سے مختلف راہیں اختیار کی۔ جیسے بیت المال سے وظائف کی تقسیم پہلے برابر حصوں میں ہوتی تھی حضرت عمرؓ نے اسے مختلف کیٹیگری بناکر تقسیم کرنے کا نظام بنایا۔ دونوں کے سامنے قرآن و سنت کی رہ نمائی تھی پھر بھی دونوں کے اجتہادی فیصلے مختلف ہوئے۔
شرعی موقف طے کرنے میں حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی کا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے دونوں شاگردوں کے درمیان بے شمار مسائل میں اختلاف ہوا۔ بعد کے علمائے احناف کہتے ہیں، یہ دلیل کا اختلاف نہیں بلکہ زمان ومکان کی تبدیلی کا اختلاف تھا۔ هو اختلاف عصر وزمان لا اختلاف حجة وبرهان۔ حالاں کہ استاذ اور شاگرد کے زمانے میں بہت بڑا فاصلہ نہیں ہوتا ہے۔
بہرحال تحریک کی لیڈر شپ کی ذمے داری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میں تحریک کے سفر کو آگے بڑھانے والے فیصلوں کے لیے اقدام بھی کرے اور ان کی تفہیم بھی کرے۔ جب کہ رفقائے تحریک کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی قیادت پر اعتماد کریں اور قیادت کے فیصلوں کو حسنِ ظن کی نگاہ سے دیکھیں۔ تحریک اسلامی میں قیادت وأمرھم شوری بینھم کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے اور اس لیے اولی الامر منکم کی حقیقی مصداق ہوتی ہے۔ اولی الأمر کے سلسلے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔
بہرحال ایک پہلو ہے فیصلہ سازی کا اور فیصلوں کی اطاعت کا، جس میں قیادت اور کیڈر دونوں کو اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ تحریک کے اندر انٹلکچول ایکٹیوزم جاری رہے۔ سابقہ فیصلوں پر غور و فکر اور بحث و تحقیق ہوتی رہے، نئی راہیں تلاش کی جاتی رہیں۔ اس عمل میں شریک ہونا صرف قیادت نہیں بلکہ تمام وابستگان کی ذمے داری ہے۔ یہ حق نہیں فریضہ ہے۔ البتہ یہ عمل تحریک کے لیے فکری ارتقا کا ذریعہ بنے اور فکری انتشار کا سبب نہ بنے، اس کے لیے قیادت کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ فکری مباحث میں نیک جذبے سے شریک ہونا کیڈر کی ذمے داری ہے اور فکری مباحث کو تعمیری رخ دینا قیادت کی ذمے داری ہے۔
تنقید تحریک کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ لیکن تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے، بدنام کرنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ تنقید کے نام پر کسی کی کردار کشی کرنا سراسر غیر اخلاقی عمل ہے۔ کسی شخصیت کے بارے میں کوئی شکایت ہو تو وہ ذمے داروں کے علم میں لانی چاہیے۔ فیصلوں اور پالیسیوں پر تنقید کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ قیادت کی ذمے داری ہے کہ تنقید کے لیے مناسب پلیٹ فارم مہیا کرے اور کیڈر کی ذمے داری ہے کہ ان پلیٹ فارموں کا بہتر استعمال کرے۔
ا س گفتگو کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے پیش نظر ایک مثالی اسلامی سماج کی تشکیل ہوتی ہے۔ تحریک کا لٹریچر اس کے لیے ذہن تیار کرتا ہے۔ لیکن ہم ایک تکثیری سماج میں رہتے ہیں۔ بلکہ اس سماج کے شہری ہیں۔ مثالی سماج میں رہنے کے سلسلے میں ہمیں قرآن و سنت سے رہ نمائی ملتی ہے اسی طرح تکثیری سماج میں رہنے کے سلسلے میں بھی ہمیں قرآن و سنت سے رہ نمائی ملتی ہے۔ لیکن یہ دوسری رہ نمائی کبھی کبھی ہمیں یاد نہیں رہتی۔ اور ہم پہلی رہ نمائی ہی پر اصرار کرتے ہیں۔
یاد رکھیں، کوئی بھی مثالی نظریہ جب عملی روپ لیتا ہے تو کچھ نہ تراش خراش کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کی مثال سنت سے ہمیں یہ ملتی ہے کہ ایک طرف تو مثالی تعلیم ہے کہ اگر حبشی غلام بھی امیر بن جائے تو اس کی اطاعت کرو۔ اسْمَعُوا وَأَطِیعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیكُمْ عَبْدٌ حَبَشِی، كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِیبَةٌ۔ دوسری طرف یہ عملی رہ نمائی بھی کی گئی کہ ایک زمانے تک قیادت قریش کے ہاتھ میں رہے گی۔ الأئمةُ من قُریشٍ۔
اس حوالے سے ہندوستان میں اسلامی تحریک کے سامنے ایک سوا ل بار بار آتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم ملت کے ساتھ تحریک اسلامی کا تعلق کیسا ہو؟
اس میں شبہ نہیں کہ ہم نصب العین کی حامل تحریک ہیں اور ہم کوئی ملی تنظیم نہیں ہیں۔ قومیت اور پھر مسلم قومیت کو ہم پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ خطبہ مدراس میں مولانا مودودیؒ نے قومیت کے دلدل میں پھنس جانے سے خبردار کیا ہے۔
لیکن ہندوستان میں مسلم ملت جن مسائل سے دوچار ہے وہ ہمیں ضرور ایڈریس کرنے ہوں گے۔ ملت کا درد ہمیں پوری طرح محسوس کرنا ہوگا۔ ہمارے اور ملت کے درمیان فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے موقف اعتدال پر مبنی ہونے چاہئیں۔ کوئی موقف نہ ہونا اعتدال نہیں ہے۔ بالکل خاموش رہنا بھی اعتدال نہیں ہے۔ بے کار بیٹھنا بھی اعتدال نہیں ہے۔ ہمارا موقف بھی اور ہمارا عمل بھی اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے۔
اسلامی تحریک اور مسلم ملت کے درمیان تعلق کو لے کر اعتدال وتوازن کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ ہمیں اصلاح امت اور اتحاد امت کے درمیان اعتدال و توازن کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ نئی میقات میں مسلم امت کو محض مخاطب قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کے عمل میں اسے شریک کار قرار دیا گیا ہے۔ ملک و ملت کی اصلاح کے لیے ملت کو ساتھ لے کر کام کرنا ہے۔ ہم ملت کی اصلاح کے لیے بھی کوشش کریں اور ملت کے اتحاد کی تدبیریں بھی کریں۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
اب ہم کچھ اور دوئیوں کی بات کریں گے۔ ہر دوئی میں میانہ روی اور اعتدال و توازن کی ضرورت ہوگی۔
تحریک کے لیے کمیت اور کیفیت کے درمیان توازن قائم رکھنا ضروری ہے۔ ارکان سازی کے حوالے سے معیار اتنا اونچا نہ ہو کہ ارکان سازی کا کام ہی رک جائے اور تحریک قحط الرجال کا شکار ہوجائے اور ارکان سازی ایسی مہماتی انداز میں بھی نہ کی جائے کہ کوئی معیار ہی نہ رہے اور سماج میں تحریک کی پہچان خطرے میں پڑ جائے۔
ارکان اور کارکنان کے درمیان تعلق میں اعتدال ہونا چاہیے۔ اس وقت بعض مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ ارکان اور کارکنان کے درمیان نسلی برتری جیسا فاصلہ قائم ہوگیا ہے۔ ارکان کی ذمے داری ہے کہ وہ اس فاصلے کو کم کریں اور انھیں زیادہ سے زیادہ ساتھ لیں۔ انھیں بے وقعت اور بے قیمت ہونے اور ناقابل اعتبار ہونے کا احساس نہ ہونے دیں۔
تنظیم اور افراد کے درمیان تعلق بھی توجہ چاہتا ہے۔ تنظیم کی افراد پر پکڑ ضروری ہے۔ تنظیم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیان مرصوص کی طرح ہو۔ لیکن تنظیم کے اندر افراد کو ذاتی ارتقا اور وسیع جدوجہد کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔
اسی طرح ڈسپلن اور اقدامیت میں بھی توازن ہونا چاہیے۔ ڈسپلن کی سختی افراد کے جذبہ اقدامیت کو ٹھنڈا نہ کردے۔
تحریک اور ادارے بھی ایک توجہ طلب موضوع ہے۔ تحریک جو ادارے چلارہی ہے وہ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ تعلیمی، معاشی، رفاہی اور مختلف نوعیت کی خدمت کے ادارے۔ ہماری آئیڈیالوجی اور نظریے کے مظاہر ہیں ہمارے ادارے۔
ادارہ سواری کی طرح ہے۔ سفر کرنے کے لیے سواری ضروری ہے، لیکن سواری کی اپنی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ سواری کو ایندھن چاہیے اور طرح طرح کے دیگر انتظامات چاہئیں۔ لیکن اس قیمت کی وجہ سے سواری کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی استظاعت کے حدود میں سواری کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ غرض سواری کا کچھ بوجھ برداشت کرنا ہی ہوگا لیکن سواری کو بوجھ نہیں بنانا ہوگا۔ بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم اداروں کے قیام میں کوتاہی دکھا رہے ہیں بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم نے اداروں پر ضرورت سے زیادہ توجہ دی ہے۔ بہرحال اصولی بات یہ ہے کہ ہمارے نصب العین کے حصول میں ہمارے اداروں کو مددگا ر ہونا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں ہر نئی صورت حال میں یہ بھی دیکھناچاہیے کہ ہم اپنے ثوابت اور ٹھوس اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ میانہ روی اور اعتدال وتوازن کےتقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی صورت حال کو بہتر سے بہتر طریقے سے کیسے ایڈریس کرسکتے ہیں۔
فکری انحراف بہت بڑی مصیبت ہے اور فکری جمود بھی بہت بڑی مصیبت ہے۔ ہمیں دونوںمصیبتوں سے بچتے ہوئے اپنا سفر آگے بڑھانا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس سے ہم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے۔
اللہ تعالی ہم سب کو میانہ روی اور توازن و اعتدال کے راستے پر قائم رکھے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2025