اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں موسی اور فرعون کے قصے کو اہتمام کے ساتھ بار بار ذکر فرمایا ہے۔ دور رسالت میں اس قصے کی ضرور بہت زیادہ معنویت تھی، تاہم عصر حاضر میں بھی اس کی ہر کڑی کے اندر انسانوں کے لیے نصیحت و عبرت کا سامان ہے، اور قیامت تک رہے گا۔
سورۂ اعراف میں جہاں کئی نبیوں کی روداد بیان ہوئی ہے، حضرت موسیٰؑ کے واقعات زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’موسیٰؑ نے کہا ’اے فرعون، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا ہوا آیا ہو ں۔میرا منصب یہی ہے کہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات حق کے سوا نہ کہوں۔‘‘‘ سورۂ النازعات میں حضرت موسیٰؑ کو فرعون کے دربار میں بھیجنے کا مقصد اس طرح بیان ہوا ہے کہ: ’’کیا تمہیں موسیٰؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے؟ جب اس کے رب نے اُسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ ’فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے اور اس سے کہہ کیا تو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے۔ اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہ نمائی کروں تو (اُس کا) خوف تیرے اندر پیدا ہو؟‘ یہ دراصل دین اسلام کی بنیادی دعوت پیش کرنے کی تلقین تھی جس کی بجا آوری کا بیان اس طرح سے ہے کہ ’’اور پھر موسیٰؑ نے (فرعون کے پاس جا کر) اُس کو بڑی نشانی دکھائی۔‘‘
فرعون نے اس دعوت کے ساتھ جو معاملہ کیا اس بابت ارشادِ ربانی ہے ’’مگر اُس نے جھٹلا دیا اور نہ مانا۔‘‘ اس کا انکار اپنی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ ’’پھر چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا اور لوگوں کو جمع کر کے اس نے پکار کر کہا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ اس جلیل القدر نبی کے ساتھ جس کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ: ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘ ایسا تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ کو یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ ’’جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں، بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دے اور ان کو تکلیف نہ دے ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی ہے اُس کے لیے جو راہِ راست کی پیروی کرے۔ ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘۔ اس تقریر دل پذیر کا اختتام اس انذار پرہوتا ہے جو ابتدا میں بیان ہوا کہ ڈراؤ تاکہ اس کا خوف اس کے اندر پیدا ہو۔ دیگر آیا ت کے تناظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر دنیا اور آخرت دونوں کا ڈر دکھایا گیاہے۔
حضرت موسیٰؑ کی اس نہایت دل سوز دعوت کے جواب میں کیا جانے والاتمسخر آمیز سوال دیکھیں، اور حضرت موسیؑ کے جواب کی سنجیدگی بھی سامنے رکھیں:’’فرعون نے کہا ’اچھا، تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰؑ؟‘ موسیٰؑ نے جواب دیا ’ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘ سورۂ طٰہ میں رب کائنات نے سرکش مخاطبین کا ردعمل اور ان کے مقابلے میں اپنے برگزیدہ رسول کا اسوہ پیش فرمایا ہے۔ جہاں ایک طرف نفسِ مسئلہ کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر فرعون بولا ’’اور پہلے جو نسلیں گزر چکی ہیں ان کی پھر کیا حالت تھی؟‘‘ تو جواب میں نہایت خندہ پیشانی سے موسیٰؑ نے کہا ’’اُس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے میرا رب نہ چُوکتا ہے نہ بھُولتا ہے۔‘‘ یعنی دوسروں کے غیر ضروری مسائل میں اپنے مخاطب کو الجھا کر راہِ فرار اختیار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہے، اس کے بجائے انسان کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے۔
یہ پیغمبرانہ بصیرت ہے کہ وہ اپنے مخاطب کے جال میں پھنسنے کے بجائے اپنی دعوت کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’وہی جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، اور اُس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے، اور اوپر سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی۔ کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ یقیناً اِس میں عقل رکھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون کی توجہ پاک پروردگار کے احسانات کی جانب مبذول کرائی کہ جن سے وہ اور اس کی قوم بہرہ مند ہورہی تھی لیکن مسئلہ صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ رب کائنات فرماتا ہے: ’’اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے۔‘‘ اس مرحلے میں اسلام کی یہ دعوت فرعون تک مخصوص نہیں رہتی بلکہ عام ہوجاتی ہے۔ بنی نوع انسانی کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بعد روئے سخن پھر سے فرعون کی جانب مڑ جاتاہےجس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ارشادقرآنی ہے: ’’ہم نے فرعون کو اپنی سب ہی نشانیاں دکھائیں مگر وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہ مانا۔‘‘
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر فرعون کے انکار کا بیان ہے۔آگے بڑھنے سے قبل سورہ قصص کا نمونہ دیکھ لینا ضروری معلوم ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: ’’اور فرعون نے کہا ’اے اہل دربار میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا ہامان، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰؑ کے خدا کو دیکھ سکوں۔‘‘ یہ عجیب اتفاق ہے حضرت موسیٰؑ کے کئی ہزار سال بعد اسٹالن کے جانشین اور سوویت یونین کے سربراہ نیکیتا خروشچیف نے بھی فرعون والی بات کا اعادہ کرتے ہوئے خدا کا انکار کیا تھا۔خروشچیف نے یوری گیگرین سمیت اپنا خلائی جہاز ’اسپتنک‘چاند کی جانب بھیجا اور اس مہم کی کامیابی کے بعد اعلان کیا کہ ’’گیگرین نے خلا میں پرواز کی مگر وہاں اللہ کو نہیں دیکھا۔‘‘ اللہ کی کتاب میں فرعون کے انکار کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ’’اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے۔‘‘ خروشچیف کو بھی سوویت یونین کے سپر پاور ہونے غرور تھا اور وہ ذاتی طور پر آخرت کی جزا و سزا کا منکر تھا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ مذکورہ اعلان کے دو سال بعد خروشچیف کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا۔ ۳۰ سال کے بعد سوویت یونین نام کی سپر پاور کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ نئی صدی سے دوسال قبل اس نام نہاد سابق سپر پاور کا دیوالیہ ہو گیا اور صدر بورس یلتسن اپنی میعاد کے درمیان ہی میں اقتدار سے کنارہ کش ہوگئے۔ ان تفصیلات کے اندر کتاب اللہ میں بیان کردہ فرعون کے انجام کاعکس دکھائی د یتا ہے: ’’آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔‘‘ فرعون کی قوم اورخروشچیف کے سوویت یونین کا انجام دل چسپ مماثلت کا حامل ہے۔
سورۂ قصص میں آگے ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے اِس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے۔‘‘ قرآن حکیم کی اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم پر دنیوی لعنت اور اخروی قباحت کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔ سوویت یونین کے جملۂ معترضہ کے بعد قصۂ فرعون و کلیم کی جانب لوٹتے ہوئے سورۂ اعراف میں عذاب کے پس منظر کا واقعہ دیکھ لینا ضروری ہے۔ ارشادِ قرآنی ہے: ’’(جن کا ذکر اوپر کیا گیا) اُن قوموں کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا مگر انھوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا، پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘ اس تمہید کے بعد کہ جو خلاصۂ کلام بھی ہے حضرت موسیٰؑ کا دربارِ فرعون میں صاف اور واضح مطالبہ دیکھیں ’’میں تم لوگوں کے پاس تمہارے رب کی طرف سے صریح دلیل ماموریت لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے”۔
عالم الغیب کے علاوہ اس بات سے کون واقف ہوسکتا ہے کہ اس دعوت کے جواب میں کیا مطالبہ پیش کیا جائے گا۔ ’’فرعون نے کہا “اگر تو کوئی نشانی لایا ہے اور اپنے دعوے میں سچا ہے تو اسے پیش کر”۔ رب کائنات نے کلیم اللہ کو اس کے جواب سے لیس کرکے مبعوث فرمایا تھا سو: ’’موسیٰؑ نے اپنا عصا پھینکا اور یکا یک وہ ایک جیتا جاگتا اژدہا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا ‘‘۔قبطیوں نے اپنی فطرت کے مطابق سوال کیا اور اس کا قرار واقعی جواب مل گیا۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ سرِ تسلیم خم کرلیتے لیکن ایسا نہیں ہوا ’’ا س پر فرعون کی قوم کے سرداروں نے آپس میں کہا کہ “یقیناً یہ شخص بڑا ماہر جادو گر ہے‘‘۔
اس بہتان تراشی کے بعد فرعون کے خوشامدی درباریوں نے اس کی رگِ نازک کو چھیڑتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’(یہ) تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے، اب کہو کیا کہتے ہو؟‘‘ اپنے فرماں روا کی خوشنودی کے لیے: ’’پھر اُن سب نے فرعون کو مشورہ دیا کہ اسے اور اس کے بھائی کو انتظار میں رکھیے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجیے کہ ہر ماہر فن جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں، چنانچہ جادوگر فرعون کے پاس آ گئے۔‘‘ عالم القلوب باری تعالیٰ نے مقابلے سے قبل جادوگروں کی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ: ’’اُنھوں نےپوچھا ’اگر ہم غالب رہے تو ہمیں اس کا صلہ تو ضرور ملے گا؟‘ فرعون نے جواب دیا ’ہاں، اور تم مقرب بارگاہ ہو گے۔‘‘‘ اس طرح گویا فرعون اور جادوگروں کے درمیان کھلے عام عہدو پیمان طے ہوگیا۔
جادوگروں کے ساتھ مقابلہ آرائی کاپس منظر، نوعیت اور تیاری کی تفصیل سورۂ طٰہ میں اس طرح بیان ہوئی ہے: ’’اور بیشک ہم نے اس (فرعون) کو اپنی ساری نشانیاں دکھائیں مگر اس نے جھٹلایا اور (ماننے سے) انکار کر دیا، اس نے کہا: اے موسٰی! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ اپنے جادو کے ذریعہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو، سو ہم بھی تمہارے پاس اسی کے مانند جادو لائیں گے تم ہمارے اور اپنے درمیان (مقابلہ کے لیے) وعدہ طے کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں اور نہ ہی تم، (مقابلہ کی جگہ) کھلا اور ہموار میدان ہو۔‘‘ فرعون کی پیشکش نے اسلام کی دعوت کے تمام لوگوں تک پہنچانے کا بہترین موقعاز خود فراہم کردیا۔ حضرت موسیٰ نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے کہا: ’’تمہارے وعدے کا دن یومِ عید (سالانہ جشن کا دن) ہے اور یہ کہ (اس دن) سارے لوگ چاشت کے وقت جمع ہوجائیں۔‘‘ فرعون اس راضی ہوگیا اور: ’’پھر فرعون (مجلس سے) واپس مڑ گیا سو اس نے اپنے مکر و فریب (کی تدبیروں) کو اکٹھا کیا پھر (مقررہ وقت پر) آگیا۔‘‘ گویا سارے لوگوں کے جمع کرنے کا پختہ اہتمام کرکے خود بھی حاضر ہوگیا۔
مقابلے سے قبل حضرت موسیٰ ؑ نےجس پرزور انداز میں جادوگروں اور ان کے توسط سے وہاں موجود فرعون کی قوم کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی وہ بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’موسٰی ؑ نے ان سے فرمایا: تم پر افسوس (خبردار!) اللہ پر جھوٹا بہتان مت باندھنا ورنہ وہ تمہیں عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردے گا اور واقعی وہ شخص نامراد ہوا جس نے (اللہ پر) بہتان باندھا،‘‘۔ یہ انذار ہے کہ جب حق سامنے آجائے گا تو اس سے روگردانی نہ کرنا کیوں کہ اس سے قبل جب یہ معجزات فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے آئے تھے تو انھوں نے اسے جادو قرار دے کر جھٹلادیا تھا۔ جادوگروں پر اس تنبیہ کا خاطر خواہ اثر پڑا اور فرعون سے انعام و اکرام کے خواہشمندلوگوں کے اندر اللہ کے عذاب کا جو خوف پیدا ہوا اس کی گواہی اس آیت میں ہے: ’’چنانچہ وہ (جادوگر) اپنے معاملہ میں باہم جھگڑ پڑے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے۔‘‘
جادوگروں کے درمیان اختلاف رائے تو ہوا لیکن پھر بھی مقابلے کا جذبہ غالب رہا اور وہ: ’’کہنے لگے: یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں جو یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمہیں جادو کے ذریعہ تمہاری سر زمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کردیں۔‘‘ فرعون اور اس کے درباری جہاں بندگی (اطاعت )اور اقتدار کے حوالے سے فکرمند تھے وہیں جادوگروں نے دین حق کو اپنی تہذیب و ثقافت کی عظمت کے لیے بھی خطرہ محسوس کیا ’’اور: (باہم فیصلہ کیا) پس تم (جادو کی) اپنی ساری تدابیر جمع کر لو پھر قطار باندھ کر (اکٹھے ہی) میدان میں آجاؤ، اور آج کے دن وہی کامیاب رہے گا جو غالب آجائے گا،‘‘۔ اس اعلان سے قبل اگر وہ اپنی ناکامی کے امکان پر بھی غور کرتے تو اس سے باز رہتے۔ خیرمقابلے کے آغاز میں: ’’جادوگر بولے ’موسیٰؑ، تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟‘ موسیٰؑ نے کہا ’نہیں، تم ہی پھینکو‘ یکایک اُن کی رسّیاں اور اُن کی لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے موسیٰؑ کو دَوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور موسیٰؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔‘‘
یہ ایک فطری ردعمل تھا اور وہاں موجود سارے لوگ اس کیفیت سے گزرے ہوں گے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کی ڈھارس بندھاتے ہوئے’’کہا ’مت ڈر، تو ہی غالب رہے گا۔ پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، خواہ کسی شان سے وہ آئےبالآخر کو یہی ہُوا۔‘‘ اس ایمان افروز منظر کو دیکھ کر: ’’سارے جادوگر سجدہ میں گر پڑے‘‘اور علی الاعلان شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دیتے ہوئے بولے: ’’ہم ہارون اور موسٰی کے رب پر ایمان لے آئے۔‘‘فرعون کا داوں الٹ چکا تھا۔ سورۂ اعراف میں اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ‘’اس طرح جو حق تھا وہ حق ثابت ہوا اور جو کچھ اُنھوں نے بنا رکھا تھا وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھی میدان مقابلہ میں مغلوب ہوئے اور الٹے ذلیل ہو گئے‘‘۔
جادوگر تو ایمان لے آئے مگر فرعون نے(ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے) کہا: ’’تم ایمان لے آئے قبل اس کے کہ میں تمہیں اس کی اجازت دیتا؟۔‘‘ فرعون کا جادوگروں سے یہ مطالبہ کہ تم نے میری اجازت کے بغیر دین حق کو قبول کرنے کی جرأت کیسے کی روئے زمین پر بدترین جبر کی روایت ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے۔
اس کے بعد فرعون نے ایک ناقابلِ یقین الزام لگا دیا کہ: ’’یہ تمہارا (جادوگروں کا) گرو ہے جس نے تمہیں جادوگری سکھائی تھی۔‘‘یہ بہتان اس لیے احمقانہ تھا کہ جادوگروں کو بلانے تجویز سے لے کر اہتمام تک کی ساری مشق اس نے خود کی تھی۔ وہ ظالم حکمراں یہیں نہیں رکا بلکہ دھونس دھمکی پر اتر آیا اور بولا:’’اچھا، اب میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواتا ہوں اور کھجور کے تنوں پر تم کو سُولی دیتا ہوں پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے” (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ)۔‘‘ فرعون اس معرفت سے بے بہرہ تھا کہ ایمان کی دولت کیا ہوتی ہے؟ وہ نہیں جانتا تھا کہ ایمان والے کس قدر جری و بہاد ہوتے ہیں؟ اس لیے جادوگروں کے اس جواب نے اس کو ہوش باختہ کردیا:’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم روشن نشانیاں سامنے آ جانے کے بعد بھی (صداقت پر) تجھے ترجیح دیں، تُو جو کچھ کرنا چاہے کر لے تو زیادہ سے زیادہ بس اِسی دُنیا کی زندگی کا فیصلہ کر سکتا ہے‘‘۔
یہ ایک ایسا موقع ہے کہ پوری قوم ایک میدان میں جمع ہے۔ ان کے سامنے فرعون کی پول کھل چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان جادوگروں کے ذریعہ دین اسلام کی دعوت سب کے سامنے پہنچا نے کا انتظام کرواچکا ہے۔ جادوگر شہادت دیتے ہیں: ’’ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اس جادوگری سے، جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، درگزر فرمائے اللہ ہی اچھا ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۔‘‘ اس نازک ترین گھڑی میں جادوگروں نے جو ایمان افروز دعا کی، سورۂ اعراف میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ: ’’اے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا تو اِس حال میں کہ ہم تیرے فرماں بردار ہوں۔‘‘ یہ عجیب و غریب منظر ہے، حضرت موسیٰ ؑ کو زیر کرنے کے لیے ساحروں کو جمع کرنے کا منصوبہ فرعون نے بنایا۔ ان کو بصورتِ کامیابی اپنا مقرب بنانے کی پیشکش کی خود کی ،لیکن جب داؤ الٹ گیا اور وہ ایمان لے آئے تو ہاتھ پیر مخالف سمتو ں سے کٹواکر سولی چڑھانے کی دھمکی پر اتر آیا۔ اس کے باوجود جادوگروں کا صبرو ثبات اور عزم و حوصلہ دیکھ کر فرعون کے درباری گھبرا گئے۔
قرآن عظیم میں ان کی گھبراہٹ کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ: ‘’فرعون سے اُس کی قوم کے سرداروں نے کہا “کیا تو موسیٰؑ اور اُس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟”۔ یہاں پر مفسدین الٹا حضرت موسیٰ ؑ پر فساد پھیلانے کی تہمت باندھ رہے ہیں۔ دہلی میں آج بھی فرعونِ وقت یہی کررہا ہے۔ اس سوال کا ’’فرعون نے جواب دیا “میں اُن کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور اُن کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے” اس جواب میں فرعون اپنے حق بجانب ہونے کا جواز اقتدار کی مضبوطی کو قرار دیتا ہے۔ یعنی چوں کہ وہ طاقتور ہے اس لیے وہ ہر طرح کے ظلم و جبر پر قدرت رکھتا ہے۔ یعنی اس کے حق بجانب ہونے کی سوائے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے کوئی دلیل نہیں ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں اس کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔
فرعون کے ان مذموم ارادوں کا بنی اسرائیل پر کیا اثر ہوا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ان کا حوصلہ بلند کرنے کی خاطر: ’’موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا “اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔‘‘ اس مرحلے میں حضرت موسیٰ ؑ کی حکمت عملی اور ہمارے موجودہ طریقۂ کار میں ایک واضح فرق قابلِ توجہ ہے۔ عصرِ حاضر میں ملت کے اوپر جب بھی کوئی آزمائش آتی ہے ہمارے علماء اور دانش ور موقع غنیمت جان کر اصلاح کا دفتر کھول دیتے ہیں۔ اصلاح کا طریقہ بھی یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے عیوب یاد دلا کر کوسنا اور برا بھلا کہنا۔ اصلاحِ حال یعنی ملت کی خرابیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش یقیناً بڑاکار خیر ہے لیکن اس کا بھی موقع اور محل ہوتا ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے اندر بھی بے شمار خرابیاں تھیں لیکن فرعون کے مقابلے میں اولین ترجیح انھیں ظلم سے نجات دلانے کی تھی اس لیے پہلے مرحلے میں موسیٰؑ کی توجہ ترجیحی طور پر دعوت پہنچانے اور جبر کے استیصال پررہی۔
حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے صبر و ثبات کی تلقین کرنے کے بعد انھیں امید و حوصلہ دیتے ہوئے کہا: ’’زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔‘‘ یعنی بظاہر فرعون بہت طاقتور ہے لیکن رب کائنات کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔یہ دنیا مسبب الاسباب کی مرضی سے چل رہی ہے اور وہ کسی کو بھی اس کا وارث بناسکتا ہے اس میں یہ مفہوم شامل ہے کہ وہ کسی کو بھی اس وراثت سے معزول کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ دنیا کا اقتدار ہی اصل کامیابی نہیں ہے بلکہ ’’آخری کامیابی انھی کے لیے جو اس (اللہ) سے ڈرتے ہوئے کام کریں۔‘‘ یعنی خشیت اللہ اپنے دل میں پروان چڑھائیں، فرعون سےخوف زدہ نہ ہوں۔ سورۂ قصص میں یہی یقین ان الفاظ میں درج ہے “ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیروؤں کا ہی ہو گا۔‘‘
ویسے یہ بشارت تو ہمارے لیے بھی ہے کہ: ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ ا س وقت اگر تمھیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ‘‘ لیکن نہ جانے کیوں اس کواکثر فراموش کردیاجاتاہے۔ اس وقت بنی اسرائیل کے حالات امت کی موجودہ حالت سے خاصے مماثل تھے۔ اس لیے جب حضرت موسیٰؑ ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو جواب میں: ’’اس کی قوم کے لوگوں نے کہا “تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جا رہے ہیں۔‘‘ اس کڑوے کسیلے مایوس کن ردعمل کے باوجود حضرت موسیٰؑ نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
آج بھی پریشان حال امت کو اسی طرح کی حوصلہ مند اور پر امید قیادت درکار ہے جوملت کونہ صرف کامیابی کی نوید سنائے بلکہ اس کے مقصد سے بھی آگاہ کرے۔ یعنی اس کو بتائے تمہیں اقتدار اس لیے نہیں دیا جائے گا تم ان سے انتقام لو یا ان کی طرح ظلم و زیادتی اور عیش و طرب میں پڑجاؤ، بلکہ وہ بھی ایک آزمائش ہی ہوگی۔اس کائنات میں جہاں انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی آزمائش ہے، اس کی نوعیت تو بدلتی ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ کبھی اقتدار سے محروم کرکے توکبھی نوازکر اللہ تعالی یہ دیکھتا ہے بلکہ ہمیں دکھاتا ہے ہم کیسا عمل کرتے ہیں۔ کوئی پہلی آزمائش میں ناکام ہوجاتا ہے تو کوئی دوسری میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔ ویسے یہ دنیا ایسی سعید روحوں سے بھی خالی نہیں ہوتی کہ جو دونوں مراحل میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں فرعون کی قوم پر دنیوی عذاب کا سلسلہ دراز کیا گیا۔
اس بابت تفسیر احسن البیان میں حضرت موسیٰ کی یہ دعا بھی درج ہے: ”اے میرے رب! فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے لہٰذا تو انھیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے جو ان کے لیے سزا وار ہو۔ اور میری قوم اور بعد والوں کے لیے عبرت ہو۔‘‘ فرعونیوں پرجو مصائب مسلط کیے گئے ان میں ایک تدریج نمایاں ہے یعنی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ارشادِ حق ہے:’’ہم نے فرعون کے لوگوں کو کئی سال تک قحط اور پیداوار کی کمی میں مبتلا رکھا کہ شاید ان کو ہوش آئے۔‘‘ قبطیوں کی اصلاح کے لیے یہ پہلا اور سب سے ہلکا عذاب آیا تھا:’’مگر اُن کا حال یہ تھا کہ جب اچھا زمانہ آتا تو کہتے کہ ہم اِسی کے مستحق ہیں، اور جب برا زمانہ آتا تو موسیٰؑ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے لیے فال بد ٹھیراتے۔‘‘ وطن عزیز میں اس کی مثال کورونا کی وبا کے ابتدائی ایام میں سامنے آئی۔ ہندستان میں جس وقت متاثرین کی تعداد کم تھی تو کہا جاتا تھا ہمارے ملک میں لوگوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے۔ یہاں کا موسم کورونا کے لیے ناساز گار ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب تعداد بڑھنے لگی تو پہلے تبلیغی جماعت اور پھر عام مسلمانوں کو اس کے پھیلاو کی خاطر موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگا۔
اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’حالانکہ در حقیقت ان کی فال بد تو اللہ کے پاس تھی، مگر ان میں سے اکثر بے علم تھے۔‘‘ وہ اس آسمانی مصیبت کابہتان حضرت موسیٰ کے سحر پر منڈھتے ہوئے کہتے تھے ’’تو ہمیں مسحور کرنے کے لیے خواہ کوئی نشانی لے آئے، ہم تو تیری بات ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ یہ سراسر خود فراموشی اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سورۂ نمل میں ان کی اندرونی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ: ’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں اُن لوگوں کے سامنے آئیں تو انھوں نے کہا یہ تو کھلا جادو ہے انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نشانیاں ان کے قلب و ذہن کو قائل کرچکی تھیں لیکن انا، رعونت یا دنیوی مفاد جیسی نفسانی کم زوریاں اعترافِ حق کی راہ میں حائل تھیں۔ ایسا آج بھی ہوتا ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد لوگ ضد پر اڑ جاتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں پانچ قسم کے عذاب الگ الگ وقتوں میں آئے۔ فرمانِ حق ہے: ’’آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خو ن برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔‘‘ طوفان سے مراد آسما ن سے پانی اور اولے برسنا ہے۔ اسرائیلیات میں یہ تفصیل ملتی ہےکہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ابرآلود آسمان سےسبت کی شب زبردست برسات شروع ہوئی اور طوفان بپا ہوگیا۔ اس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ کھیت کھلیان اور گھر سب ڈوب گئے پانی گلے تک آگیا۔ ایک ہفتہ قبطی اس مصیبت میں گرفتار رہے مگر بنی اسرائیل کو محفوظ رکھا گیا۔ اس مصیبت سے عاجز آکر انھوں حضرت موسیٰ ؑ سے دعا کی درخواست کی اس کاذکر سورۂ اعراف میں ہے: ’’جب کبھی اُن پر بلا نازل ہو جاتی تو کہتے “اے موسیٰؑ، تجھے اپنے رب کی طرف سے جو منصب حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے حق میں دعا کر‘‘۔
یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ عذاب میں جب شدت آئی تو ان کا رویہ تبدیل ہوگیا اور وہ حضرت موسیٰ کو اپنے رب سے حاصل عہدہ یعنی نبوت کی دہائی دے کر رجوع ہوئے اور یہ وعدہ بھی کیا کہ ‘’اگر اب کے تو ہم پر سے یہ بلا ٹلوا دے تو ہم تیری بات مان لیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے۔‘‘ اس مصیبت کے باوجود وہ لوگ موسیٰ ؑ کی دعوت پر لبیک کہہ کر فرعون کا انکار اور اللہ کے اقرار پر تیار نہیں تھے بلکہ دوسرے درجہ کے کمتر مطالبے ،یعنی بنی اسرائیل کی رہائی کے تعلق سے نرم پڑے۔ ویسے یہ ان مستقل رویہ تھا کہ ہر مرتبہ بلا کے ٹل جانے پر وہ عہد شکنی کرتے۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’مگر جب ہم ان پر سے اپنا عذاب ایک وقت مقرر تک کے لیے، جس کو وہ بہرحال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔‘‘ لیکن طوفان تھم جانے کے بعد جب کھیت اور باغ سرسبزو شاداب ہوجاتے تو وہ اپنی مصیبت کو بھول کر الٹا طوفان کو نعمت قراردینے لگتے اور پھر سے ظلم و طغیان کی طرف لوٹ جاتے۔
طوفان کے بعد والے مرحلے میں ان کی تیار فصلوں پر ٹڈی دل نے ہلہ بول دیا۔ اس سے پریشان ہوکر وہ دوبارہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئے۔ آپ نے پھر سے دعا کی اور وہ عذاب بھی ٹل گیا تو وہ حسبِ سابق بدل گئے۔ اس کے بعد جو اناج رکھا گیا تھا ان میں گھن لگ گیا اور بالوں میں جوئیں آگئیں۔ اس قہر آسمانی سے بلبلا کر وہ حضرت موسیٰؑ کے حضور حاضر ہو ئےاور دعا کی ، درخواست کی ، وعدہ کیا ، مگر پھر وہی پرانی کہانی دوہرائی گئی۔ اس کے بعد مینڈکوں کا عذاب نازل ہو گیا۔مینڈکوںکے قہر نے ان کا چین و سکون چھین لیا۔ ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک، نہ سونے دیتے نہ کھانے دیتے ۔ کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتے تو اچھل کر اندر چلے جاتے۔ اس عذاب سے نجات کے لیے وہ روتے گڑگڑاتے حضرت موسیٰ ؑ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی استدعا کے ساتھ حاضر ہوئے۔ آپ نے ان کی بار بار عہد شکنی کے باوجود کبھی انکار نہیں کیا اور دعا کرتے رہے۔ نہ تو رسول کا رویہ بدلہ اور نہ ان کی عہد شکنی میں تبدیلی واقع ہوئی یہاں تک کہ خون کے عذاب میں مبتلا کردیے گئے۔
یہ عذاب کی ایک منفرد شکل تھی کہ قبطی برتن سے پانی نکالتے تو خون بن جاتا اور بنی اسرائیل کے لیے وہ صاف شفاف پانی ہی رہتا۔ اس طرح پانی کے باوجود وہ قطرے قطرے کے محتاج ہوگئے۔ حکایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ گنے وغیرہ کو چوستے تو اس کا رس بھی خون بن جاتا۔ اس طرح پے درپے عذاب میں مبتلا ہونے اور نجات پانے کے باوجود جب ان لوگوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو تیسرے مرحلے کا حتمی عذاب آیا۔ اس کے متعلق ارشادِ قرآنی ہے: ’’تب ہم نے اُن سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیوں کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور اُن سے بے پروا ہو گئے تھے ‘‘ حالانکہ یہ دنیا کا آخری عذاب ضرور ہے لیکن اصلی اور دائمی عذاب تو وہ ہے جو قیامت میں حساب کتاب کے بعد ملنے والا ہے۔
فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو فرعونی تسلط سے نجات مل گئی۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور اُن (فرعونیوں) کی جگہ ہم (اللہ) نے اُن لوگوں(بنی اسرائیل) کو جو کم زوربنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا۔ جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیوں کہ اُنھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔‘‘ یہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کو صبر و استقامت سےمنسوب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ اپنے آپ کو خالق کائنات کی بشارتوں کا مستحق بنانا چاہتی ہے تو اس کو بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔عصرِ حاضر میں آگے بھی دشمنانِ اسلام کی تباہی کاسبب بھی وہی ہوگاجو فرعون کی غرقابی کا تھا۔ اس بارے میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے‘‘۔ یعنی ان کی میخیں، طاقت، قوت، حشمت، جاہ و جلال کچھ بھی ان کے کسی کام نہیں آیا۔ دنیا کا سب سازو سامان دھرا کا دھرا رہ گیا۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، ارشاد ربانی ہے: ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020