عقیدۂ توحید اور وحدتِ اُمت

(9)

تیسری شہادت:

ایک خطرناک بدعت شیعہ حضرات میں رواج پاگئی یعنی اذان میں ایک کلمہ کا اضافہ اس ضمن میں ڈاکٹر موسوی کہتے ہیں:

’’ شیعہ فقہاء کا اس بات پراجماع ہے کہ جس نے اذان میں یہ سمجھ کر شہادت ثالثہ (تیسری شہادت) ادا کی کہ وہ اذان کا حصہ ہے اس نے ایک حرام کام کیا ۔‘‘(۱)

پانچویں صدی ہجری کے ایک سرکردہ امامی شیعہ عالم سید مرتضیٰ فرماتے ہیں کہ جس نے نماز کی اذان میں ’’اشہد ان علی ولی اللہ ‘‘ کہا اس نے ایک حرام کام کیا ۔ اس  رائے سے معلوم  ہوتا ہے کہ اذان میں تیسری شہادت غیبوبت کبریٰ کے بعد داخل ہوئی لیکن اسے مذہبی طور پر باقاعدہ حیثیت اسی وقت حاصل ہوئی جب شاہ اسماعیل صفوی نے ایران کوشیعہ مسلک میں داخل کیا اور مؤذنوں کوحکم دیا کہ وہ اذان کے میناروں سے اذان میں تیسری شہادت پڑھیں ۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے سلسلے میں امام علیؓ کی جگہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اسی وقت سے دنیا میں شیعوں کی مساجد میں اسی طریقہ پر عمل ہورہا ہے جسے صفوی شاہ نے پروان چڑھایا تھا اور کوئی بھی شیعہ مسجد اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے فقہاء، اللہ انہیں معاف کرے ۔ اس پر اجماع کے قائل ہیں کہ یہ تیسری شہادت اذان میں بہت بعد میں شامل کی گئی اورچوتھی صدی ہجری تک بھی اسے لوگ نہیں جانتے تھے ، اس بات پر بھی وہ متفق ہیں کہ اگر امام علیؓ زندہ ہوتے اوراذان میں اپنا نام سنتے توکہنے والے پر حد شرعی جاری کرتے ۔ (لیکن اس کے باوجود یہ بدعت آج بھی زندہ ہے)

شیعوں میں رائج متعہ‘ ایک قبیح فعل ہے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:۔

’’محدود وقت کی شادی یا شیعہ اصطلاح میں’’متعہ‘‘ جسے ہمارے فقہاء  جائز قرار دیتے ہیں وہ صرف ایک شرط کے ساتھ جنس کی آزادی کے سوا کچھ نہیں کہ ’عورت کسی کے نکاح میں نہ ہو ‘ یہ شرط پوری ہو ں تومرد نکاح کے دو بول پڑھ کر اس کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے ۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہے نہ نفقہ ادا کرنے کی پابندی اورجتنی بھی مدت کے لیے چاہے  نکاح کرسکتا ہے ۔ مرد کو مکمل اختیار ہے کہ اگروہ چا ہے تو ایک ہی چھت کے نیچے متعہ والی ایک ہزار بیویوں کورکھ سکتا ہے ۔‘‘

’’جو فقہایہ کہتے ہیں کہ متعہ خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حکم سے حرام کیاگیا وہ امام علیؓ کے عمل کو کیسے نظر انداز کردیتے ہیں جنہوں نے اپنے دورِ خلافت میں اس کی حرمت بر قرار رکھی ۔ شیعہ مسلک میں اور ہمارے فقہاء کے مطابق امام کا عمل حجت ہے بالخصوص جب وہ پوری طرح آزاد ہو ں او ر امام علیؓ نے تو جیسا کہ ہم جانتےہیں خلافت قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی جب تک یہ شرط نہ مان لی جائے کہ وہ ملک کے انتظام میں (قرآن وسنت کے بعد) اپنے اجتہاد سے کام لیں گے۔ ایسی صو رت میں متعہ کی حرمت کی امام علی کی طرف سے توثیق کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرمت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے تھی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا توآپ اس کی مخالفت کرتے اور اس سلسلے میں خدا کا حکم واضح کرتے ۔ امام کا عمل شیعوں کے لیے حجت ہے اسے ہمارے فقہاء کیسے نظر انداز کرسکتےہیں۔‘‘

وہ عورت جسے اللہ نے اسی شرف سے نوازا کہ وہ ماں بنے ، عظیم ترین مردوں اور عورتوں کوجنم دے اورجسے وہ مرتبہ عطا فرمایا جوکسی کونہیں دیا یعنی جنت اس کے قدموں کے نیچے رکھ دی۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘  (۱)

…….کیا یہی اس کی شایانِ شان ہے کہ وہ یکے بعد دیگرے مردوں کی آغوش میں وقت گزارےوہ بھی شریعت محمدیہ کے نام پر ؟

متعہ کے جوازکا فتویٰ دینے والے اور اس پر عمل کرنے والے کو مستحب قرار دینے والے فقہاء سے سوال کرتا ہوں کہ کیا وہ اپنی بیٹیوں ، بہنوں اور رشتہ دار خواتین کے سلسلے میں متعہ جیسی چیز پسند کریں گے ؟ ۔  یا وہ اس طرح کی بات سنیں گے توان کا چہرہ سیاہ پڑجائے گا اور وہ اپنا غصہ بھی نہ چھپاپائیں گے ؟  …..اس رسوا کن کام کی پوری ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے اپنی عزت تومحفوظ رکھی لیکن مسلم خواتین کی عزت سے کھل کرکھیلنے کی اجازت دے دی۔ اپنی لڑکیوں کی عزت بچالی اورمومن عورتوں کی عزت نیلام کردی ۔ ہر حساس دل کے لیے یہ کیسا مقامِ عبرت ہے ۔(۲)

ایک عجیب وغریب بدعت نہیں معلوم کب اورکیسے اہل تشیع میں رواج پاگئی اوروہ ’’جمع بین الصلاتین‘‘ کی ہے ۔ محترم ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں :۔

’’امام شیعہ اس بات میں سب سے منفرد ہیں کہ وہ ظہر وعصر کی نمازیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں مقیم ہونے کی حالت میں بھی ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اس فقہی اختلاف میں میرا موقف یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا یہ عمل جس میں وہ سب سے منفرد ہیں عظیم تر اسلامی اتحاد کے لیے نقصان دہ ہے خاص طور پر جب شیعہ فقہاء کی اکثریت بھی یہ فتویٰ دیتی ہو کہ نمازوں کوان کے مقررہ اوقات پرقائم کرنا ہی مستحب ہے حالاں کہ عملاً وہ نمازوں کوجمع کرتے ہیں اورشیعہ مساجد میں بھی اسی طرح عمل ہوتا ہے ۔‘‘

’کاش میں جان سکتا کہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ اس اختلاف کا مظاہرہ کرنے میں کیا بھلائی مضمر ہے ۔ یا یہ طریقہ ان لوگوں نے ایجاد کیا ہے جن کا مقصد شیعوں کواتحاد کے تمام مظاہروں سے کاٹ دینا تھا …..ہم اس اصلاحی پر وگرام میں نظریاتی وعملی دونوں اتحاد پر زور دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فکری وعملی اختلافات  کے تمام مظاہر کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے اور یہ بات تبھی ممکن ہے جب ایسا بھی ہوگا جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل وسنت پر دوسرو ں کے عمل ورائے کوترجیح د ے ۔(۱)

کتاب  ’’مسلک اعتدال‘‘ کے محترم مولف ڈاکٹر موسیٰ موسوی جنہوں  نے بڑی محنت وکاوش کے ساتھ خود اپنے مکتب  فکر اور حکمران طبقہ کی فکری اورعملی خامیوں کو اجاگر کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے وہ عالم اسلام کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرار پاتے ہیں ، یہ صرف اہل تشیع کے لیے ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے لیے بھی انتہائی غوروفکر کا حامل ہے ۔ انہوںنے اہل تشیع اوراہلِ سنت کے درمیان مفاہمت اور فکر ی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے صدیوں سے چلی آرہی خلیج کوپاٹنے اوروسیع تر اتحاد کے لیے ایک اصلاحی تحریک چلائی ۔ امام خمینیؒ نے اپنی کتاب میں طلبہ اورجوانوں کومخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ !

’’عوام کوبیدار کریں، انہیں اسلام کی راہ نجات کی طرف بلائیں، اسلام آج اجنبی بن گیا ہے اس کا پہچاننے والا یہاں کوئی نہیں رہا آپ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اسلام سے متعارف کرائیں۔ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس کی حقیقی صورت میں پیش کریں تاکہ ان کے دلوں میں اس کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ اسلام کے اوپرسے یہ فروعی تاویلات کا خول اتار پھینکیں ۔ ‘ ‘  (الحکومت الاسلامیہ  ۲۳۶)

یہ کتنی پُر مسرت بات ہے کہ انہیں کے خانوادے اورمکتب فکر کی ایک سعید روح نے اپنی حد تک پوری دلسوزی اوردرد مندی کے ساتھ حقیقی اسلام کو پیش کرکے امام خمینی  کے  خوابوں کی عملی تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ صرف اہل تشیع کے لیے نہیں بلکہ اہل سنت میں اصلاحِ معاشرہ کے علمبرداروں کے لیے بھی بہترین سبق ہے کہ وہ اپنے اپنے مکاتب فکر ،خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی یا سلفی ہوں یا حقیقی ، کی کتابوں کا جائزہ لیں اور جوکچھ قرآن وسنت کے مطابق ہو اسے مر زباں بنائیں اور جوکچھ اس سے ہٹ کر کسی بزرگ یا شیخ کے حوالے سے سامنے آئے اسے بعینہٖ قبول کرنے کے بجائے اس پر تنقیدی نظر ڈالیں ۔ اہل سنت کی کتابوں میں ایسی بہت سی روایتیں (مثلاً ناد علی جیسی ) جوعقل ونقل کے خلاف ہوتی ہیں محض اس وجہ سے رواج پاگئیں کہ وہ کسی بزرگ سے منسوب تھیں جن کے خلاف لب کشائی اورتنقید کوسوء ادب سمجھ کر نظر انداز کرلیا گیا اوروہ عقیدے کا جز بن کر شرک وبدعت کوفروغ دینے کا باعث بن گئیں ۔ اسلام دشمن لوگوں کی سازشیں بھی اس میں شامل رہی اورآج بھی مسلمان نما منافقین کا گروہ اس سلسلے میں سرگرمی سے کام کررہا ہے تا کہ وہ اسلام کی صحیح تصویر کوبگاڑ سکے ۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی:۔

’’انہی روایات کا کرشمہ ہے کہ آج چودھویں صدی ہجری میں حیدرآباد دکن ، گلبرگہ ، اورنگ آباد، پیرانِ کلیر  بریلی، بدایوں ، دہلی ، اجمیر، دیوہ، ردولی ، کچھوچہ ، مارہرہ ، لاہور، پاک پتن، ملتان ، اُچ جلال پور پیروالا ، سیہوان ، درازہ ، حجرہ شاہ مقیم اوربھٹ شاہ کے اکثر مزارات سبائیت اور باطنیت کے فروغ وشیوع کے مرکز بن گئے ہیں۔‘‘(۱)

ڈاکٹر موسیٰ موسوی ایک جگہ اپنی کتاب میں بہت بہترین اوربیش بہا جس سے قیمتی کوئی دوسری بات ہو ہی نہیں سکتی یہ لکھی ہے کہ :۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے اور اس حدیث کی صحت پر سنی وشیعہ رایوں کا اجماع ہے کہ :۔

’’ جوکتاب اللہ کے مطابق ہواسے لے لو اورجواس سے ٹکرائے اسے چھوڑدو۔‘‘(۲)

یہ بات بھی ان کی بڑی اہم ہے :۔

’’کلمۂ حق کہنا ضروری ہے کوئی مانے یا نہ مانے ہرایک تک نصیحت پہنچانا ضروری ہے کیوںکہ رسول اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :۔

’’حق بات سے چپ رہنے والا گونگا شیطان ہے ۔‘‘ (۳)

اچھے اور بہترین لوگ وہ ہوتے ہیں جوسچائی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں خواہ وہ کہیں سے بھی ہوں ۔ ان کے نزدیک یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ کس نے کیا بلکہ ان کی حق پسندی یہ دیکھتی ہے کہ کیا کہا گیا اور دلائل کی بنیاد پر وہ کسی حقیقت کوقبول یا رد کرتے ہیں اورقبول حق کی راہ میںکوئی مسلکی ، جماعتی اورگروہی عصبیت ان کی راہ کی رکاوٹ نہیں بنتی۔

بات چوں کہ عالمی اتحاد کی چل رہی ہے اس لیے یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اتحاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بغیر کسی مقصد کے اتحاد بے معنی ہے اور مقصد سوائے اس کے اورکیا ہوسکتا ہے کہ عالمی پیمانے پر الجماعت کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ اس لیے کہ اسلام بغیرجماعت کے نہیں ۔اگراسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے تواس کے ماننے والوں کوعالمی طور پر ایک ہونا چاہیے اورجماعت بغیر امارت کے نہیں ہوئی ۔ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت واضح حکم موجود ہے جس کی اب تک خلاف ورزی ہوتی چلی آرہی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس سلسلے میں پیش رفت کی جائے ۔ آپؐ نے فرمایا :۔

’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں ، جن کا حکم اللہ نے مجھے دیا ہے ۔الجماعت، سماعت، اطاعت، ہجرت اورخدا کی راہ میں جہاد جوشخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا ، اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ۔ الا یہ کہ وہ پھر جماعت کی طرف پلٹ آئے اورجس نے جاہلیت (افتراق وانتشار)کی دعو ت دی وہی جہنمی ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ؐ اگرچہ وہ روزہ رکھے اورنماز پڑھے؟ فرمایا ہاں اگرچہ وہ روزہ رکھے اورنماز پڑھے اورمسلمان ہونے کا دعویٰ کر ے ۔ ‘ ‘  (احمد، حاکم )(۱)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے جو مستحباب میں سے نہیں بلکہ واجبات کا درجہ رکھتا ہے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے مسلمان ہونے کا دعویٰ ا ور نماز روزہ جیسی عبادت جودین کا ستون کہی جاتی ہیںاللہ کے نزدیک معتبر نہیں۔ جب تک وہی ہم نظامِ جماعت واطاعت قائم نہ کریں جس کا حکم حدیث میں دیا گیا ہے ۔

’’حضرت عرفجہ سے روایت ہے کہ انہوںنے بیان کیا کہ میںنے رسول اللہ علیہ وسلم کوفرماتے  ہوئےسناہے کہ عنقریب فتنے اورفساد رونما ہوںگے۔پھر جوکوئی امتِ محمد ؐ کے بندھے ہوئے رشتہ کوپارہ پارہ کرنے کا ارادہ کرے جب کہ وہ سب متفق ہوں تو اس کی تلوار سے خبر لو۔‘‘ ( نسائی (۲)

الجماعۃ بذاتِ خود مقصود ہے اورایک بڑے مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا مقصد جہاد فی سبیل اللہ ہے تا کہ اللہ کا دین پوری طرح قائم کیا جاسکے ۔ آج کا دور ایک دجالی دورہے ۔ دجال اکبر کے آنے میں ہوسکتا ہے ابھی کچھ دیر ہو لیکن دجّالی تہذیب نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑدیے ہیں ۔ ہر طرف مکر وفریب اوردجل ودغا کا دور د ورہ ہے ۔ ہرسطح پر اس کا مظاہرہ ہورہا ہے ۔ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا دونوں کا ایک بڑا ہتھیار یہی ہے جس کے ذریعہ وہ ساری دنیا کوفریب میں مبتلا کرکے اسلام اور مسلمانوں کوہرطرح سے ایذا پہنچانے، ان کی تہذیب کوختم کرنے اوران کے اندر پھوٹ ڈالنے کا منظم منصوبہ بنا چکے ہیں اوراب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کا مقابلہ جب تک عالمی طورپر متحد ہوکر نہ کیا جائے اس وقت تک ان کے دجل وفریب کا پردہ چاک نہیں ہوسکتا اورنہ اسلام کواس کی حقیقی صورت میں عملاً پیش کیا جاسکتا ہے ۔ نظریاتی طور پر تو اس کی حقانیت پر لائبریریاں بھردی گئی ہیںمگردنیا عمل کودیکھنا چاہتی ہے اورخدا بھی عمل کی بنیاد پر ہی فیصلہ کرےگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ۔ اس ضمن میں بعض مشاہیر علماء کے بیانات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ پورے شرح صدر کے ساتھ اس سمت میں قدم بڑھایا جاسکے ۔ بات صرف پہل کرنے کی ہے کہ اتحاد کا پرچم لے کر کون آگے بڑھے!

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ اپنی کتاب امامتِ کبریٰ میں قائدین امت سے خطاب کرتے ہوئے فر ما تے  ہیں:۔

’’اسلامی ممالک میں تقلید یورپ اوراتباع مذہب دونوں کا تصادم ہورہا ہے ۔لیکن حالات سے ہر  باخبر انسان بخوبی جانتا ہے کہ مغربی تہذیب وتمدن، اسلامی تمدن، کلچر، اصول معاشرت اورطرزِ حکومت پر کس طرح غالب ہوتا جارہا ہے ۔ پھر اگران ممالک نے ترقی کی معراج حاصل کربھی لی تواللہ اوررسولؐ کی نظروں میں اس عزت اور ترقی کی کیا حیثیت ہوگی؟کیا یہ اسلامی حکومت کہی جائےگی ؟ کیا خلافتِ الٰہی کا کھویا ہوا تاج وتخت انہیں حاصل ہوجائے گا ؟کیا اس وقت انہیں تائید الٰہی حاصل ہوجائے گی ؟ کیا وہ   اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (المجادلہ  ۲۲) کے مصداق ہوجائیں گے ؟ کیاو ہ متقین اور صالحین کی وہ جماعت بن جائیں گے جن کی نصرت کے لیے ملائکہ نازل ہوا کرتے تھے ؟ اگر ایسا نہ ہوگا اوریقیناً نہ ہوگا توہمارے قائدین ملت کو وقت کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئیے ۔ اگر پوری ملت اس سیلاب کی رو میں بہہ گئی توپھر نہایت ہی ماتم کا وقت ہوگا ۔ اس وقت امت کا خدا سے رہا سہا رشتہ بھی منقطع ہوجانے کا خطرہ ہے ۔ پھر معلوم نہیں ان خوفناک فتنوں کا قدرت کیا جواب دے ؟ اسلام کے درد مندوں کوچاہئے کہ ان فتنوں کے مقابلے کے لیے ، بشرطیکہ انہیں اپنی مسئولیت اورذمہ داری کا ڈر بھی ہو، خانقاہوں کی ہو یا اورمدرسوں کے حجروں سے باہر نکلیں ۔ کتابِ الٰہی کی روشنی میں منزل مقصود تلاش کریں ۔ امت کی شیرازہ بندی اورقوم کی مکمل تنظیم کا ہر ممکن طریقہ اختیار کریں اور ان مفاسد کا سب سے پہلے سد باب کریں جواختلافات و نزاع کے جراثیم پیدا کرکے وحدت امت کوٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ پھررفتہ رفتہ ان کے ظاہر وباطن پر پڑے ہوئے غلافِ ظلالت کواُٹھایا جاسکتا ہے ۔ ظاہر ہے اتنے عظیم الشان انقلاب کا مطلب قوم کوبالکل نئے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔ جس کے لیے کافی غور وفکر کے ساتھ کافی حزم واحتیاط اور عزیمت واستقلال کی ضرورت ہوگی۔ اگریہ کام کرنے کا ہے اوروقت کا سب سے پہلا اورـضروری فرض ہے توہمیں اپنا نظریہ پیش کرنے سے پہلے اربابِ بست وکشاد کے فیصلوں کا انتظار ہے ۔(۱)

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ فرماتے ہیں:۔

’’مسلمان خلافت اورامارت کا نظام قائم کرنے کے شرعی طور پر مکلف ہیں اوراس میں کوتاہی اورسہل انگاری ان کوگنہگار کرسکتی ہے ۔ حدیث اورفقہ کی کتابوں اوراسلام کی روح اوراس کے مقاصد کے صحیح فہم کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ اس موضوع پرحضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتاب ازالۃ الخفا اورمولانا اسمٰعیل شہید کی کتاب منصبِ امامت کا مطالعہ بہت مفید ہوگا۔ پہلے کے مسلمان اس بات کے رو ادار نہیں تھے اوراس کو بہت بری بات سمجھتے تھے کہ ان کا کوئی مختصر وقفہ بغیر خلافت وامارت کے گزرجائے۔ چنانچہ مسلمان مؤ رخین جب کسی نئے سال کے آغاز کا ذکر کرتے ہیں تواس طرح لکھتے ہیں کہ ’’ نیا سال شروع ہوگیا اورمسلمان اب تک بلا خلیفہ کے ہیں‘‘ اگروہ اس زمانے میں ہوتے اوراس طویل مدت کودیکھتے جو بغیر خلافت وامارت ہی کے نہیں بلکہ بغیر کسی احساس وشعور وفکر کے گزررہی ہے توہمار ے متعلق کیا رائے قائم کرتے؟

مولانا قاری محمد طیب صاحب کمیونزم کے مہلک نتائج بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:۔

’’اسلام اوراس کی خلافت نے دولت اورروٹی کے مسئلہ کو اہم نہ بناتے ہوئے نہایت خوبی اور خوبصورتی سے اس طرح حل کردیا کہ اغنیاء کی دولت کا کچھ حصہ توقانوناً وصول کیا مگروہ بھی دین کی راہ میں جس کا دینا باوجود سیاسی حکم کے طبائع پر شاق نہ رہا جیسے زکوٰۃ وصدقات اورنذور کفارات وغیرہ اور بہت سا حصہ اخلاقاً وصول کیا اوروہ بھی خدا کے نام پر کہ اس کے دینے سے خوش دلی سے دلوں میں جذبہ وانتظار پیدا ہوگیا !……..ظاہر ہے خلافتِ الٰہی کی اس جامع اشتات فضا میں ایک کمیونسٹ بھی آسائش کی زندگی بسر کرسکتا ہے اورایک سرمایہ دار بھی بالفاظ دیگر امریکہ بھی خلافت کے زیرِ سایہ رہ سکتا ہے او ر روس بھی…….اس سے صاف واضح ہے کہ مالی مشکلات کا حل اوراقتصادی بے چینیوں کا سد باب صرف اقامتِ دین اوراحیائے خلافتِ الٰہی میںہے ۔ دنیا میں مفسد وہی ہیں جوخدا کے راستہ کوچھوڑکر خود اپنا راستہ اختیار کرتے ہیں اور ان کا فاسد دماغ فاسد راستوں پر ہر دنیا کوڈال کر سارے عالم کو فسادات کا شکار بنادیتا ہے اوربحرو بر میں فسادات اور ہنگامے برپا رہتے ہیں جیسا کہ آج ہورہا ہے ۔ ( ۱ )

قرآنیات کے ایک بڑے عالم مولانا عبدالحمید فراہی سورۂ عصر کی تفسیر میں ’’ لفظ ’وتواصوا‘ سے خلافت کا وجوب‘‘ ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔

’’ایمان ، عملِ صالح اورتواصی، ان تینوں صفتوں نے اپنے اندر دنیا وآخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹ لی ہیں۔ جولوگ اس کلام پر غور کریں گے وہ محسوس کریں گے باوجود غایت ایجازان الفاظ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ نیکی اوربھلائی کی قسم کی کوئی بات ان کے دائرہ سے باہر نہیں رہ گئی ہے۔ ایمان تمام عقائد کا شیرازہ ہے اورعمل صالح تمام شریعت کامجموعہ ہے اورتواصی ایک رتبہ کمال و فضیلت ہے جواللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مخصوص فرمایا اوراس امت میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اس کے رہنما ہیں کیوں کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری انہی پر ہے ………اس تواصی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کی شیرازہ بندی فرمائی ہے او ران کو اختلافات ونزاع کے تمام خطروں سے محفوظ کرکے بھائی بھائی بنا دیا ہے ۔جب تک امت کے اندر یہ نظام باقی رہا اس کے قدم برابر ترقی کی راہوں میںبڑھتے رہے جیسا کہ اوائل خلافت میں ہم دیکھتے ہیں لیکن جب یہ نظام درہم برہم ہوگیا تودفعتاً بڑھتے ہوئے قدم رک گئے ۔تواصی ایک عام فرض ہے جس میں تما م مسلمان برابر کے شریک ہیں…….اس سے معاملہ کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں کواپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآمد ہونے کے لیے ـضروری ہے کہ وہ عمل صالح کریں، پھر ادائے حقوق  کے معاملہ میں  ایک دوسرے کی مدد کریں اور چوںکہ ادائے حقوق بغیر خلافتِ وسیاست کے ناممکن ہے اس لیے ضروری ہے کہ خلافت قائم کریں اورخلافت کا قیام چوںکہ اطاعت پر منحصر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کے اندر اطاعت بھی ہو۔‘‘(۲)  (جاری)

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223