مراد ہوفمین

یوروپ میں وہ سرمایہ ملت کا نگہباں

مراد ہوفمین ایک عظیم اسلامی مفکر اور مغربی دنیا میں اسلام کے بہترین ترجمان تھے۔ ان کی وفات پر دنیا بھر کے اہل اسلام نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ رب العزت ان کی جلیل القدر کو خدمات قبول فرمائے۔ (ادارہ)

نقوش حیات

معروف سفارت کارو مفکرڈاکٹر مراد ہوفمین کا ۱۲؍جنوری۲۰۲۰ء کوانتقال ہو گیا۔ وہ جرمنی کے شہری تھے، اور ان کی پیدائش۱۹۳۱ء میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انھیں جرمن، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر مکمل مہارت حاصل تھی۔ وہ ۱۹۸۰ء میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ انھوں نے جرمنی کی وزارت خارجہ میں جوہری دفاع کے شعبہ میں بحیثیت ماہر کام کیا، اس کے بعد وہ 1983ء سے 1987ء تک برسلز (بیلجیم) میں ناٹو میں محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹر رہے، پھر 1987ء سے 1990ء تک الجیریا میں جرمنی کے سفیر رہے، اس کے بعد انھوں نے 1990ء سے 1994ء تک مراکش میں جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی متعدد تصنیفات ہیں، جن میں انھوں نے مغربی معاشرہ کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کا تعارف کرایا ہے اور ساتھ ہی اسلام کا دفاع بھی کیا ہے۔ اپنی بعض کتابوں میں انھوں نے عام مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا ہے۔ان کی چند اہم تصنیفات یہ ہیں:Islam: The Alternative, Islam in the Third Millennium: Religion on the Rise, Emptiness of the Self and Colonial Brains, Diary of a German Muslim, Journey to Makkah۔ ان میں سے زیادہ تر کتابوں کا انگریزی اور عربی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ ان کی تحریروں کی خصوصیت ان کی فکر کی گہرائی اور وضاحت، اور اسلام اور مغرب کی سمجھ ہے۔ انھوں نے یوروپی باشندوں کے سامنے اسلام کو بہت عمدہ انداز میں پیش کیا۔ اسلام بحیثیت ایک عالم گیر مذہب اور دیگر مذاہب کے درمیان مشترک اقدار کو بیان کرنے میں وہ بہت کامیاب رہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان کو اتنا نہیں پڑھا گیا جتنا پڑھا جانا چاہیے تھا۔

ہدایت کا آغاز

۱۹۶۱ء اور ۱۹۶۲ء کے درمیان مراد ہوفمین الجیریامیں کام کر رہے تھے۔ اس وقت وہاں پر قابض فرانسیسی فوج اور الجیریا قومی آزادی فرنٹ کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی، جو تقریبا آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس دوران انھوں نے دیکھا کہ الجیریا کے باشندے شدید پریشانی میں ہیں، اور اس کے باوجود وہ رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں اور انھیں اپنی جیت کا مکمل یقین ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ تمام تر تکلیفوں اور پریشانیوں کے باوجود الجیریا کے باشندوں کا انسانی سلوک اور رویہ بہت اچھا ہے، انھوں نے محسوس کیا کہ ان سب کی وجہ صرف اسلام ہے۔ الجیریا کے باشندوں کا اچھا سلوک مراد ہوفمین کے دل میں اس وقت پوری طرح گھر کر گیا جب ان کی بیوی کو زچگی کے وقت، جنگ کے حالات کے سبب ایمبولینس نہیں مل سکی اور ان کی موت کا خدشہ ہونے لگا تو مراد ہوفمین ان کو لے کر ایک کلینک پر گئے جہاں ان کے الجیریائی ڈرائیور نے خون کا عطیہ دے کر ان کی جان بچائی۔ یہاں پر یہ قرآنی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ “قل ان الھدی ھدی اللہ”، قابض فوج کے خلاف الجیریائی مزاحمت میں بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ جو کسی کو ایمان لانے پر آمادہ کر سکے، لیکن مراد ہوفمین کے ساتھ ایسا ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان اجتماعی طور پر اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ کرلیں تو انھیں صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اسلام پر مضبوطی سے عمل کرنے لگیں اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے رویے اور اخلاق کو ڈھال لیں۔ مراد ہوفمین سے ایک بار پوچھا گیا کہ اسلام کی دعوت کیسے دینی چاہیے تو ان کا جواب تھا: اپنے عمل کے ذریعہ۔

وہ آیت جس نے فکر بدل دی

مراد ہوفمین نے قرآن پڑھنا شروع کیا اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئے، خصوصاً ایک آیت قرآنی سے وہ بہت متاثر ہوئے جس نے ان کے اندر ایمان کی شمع روشن کردی: قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [الأنعام: 164]۔ پہلے پہل ان سے اس آیت کے سمجھنے میں غلطی ہو گئی، انھیں لگا کہ یہ آیت اخلاقی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی ہے، کیونکہ ہر شخص کو دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، جبکہ اس آیت میں کہا گیا ہے کہ ایک شخص کا بوجھ دوسرا شخص نہیں اٹھائے گا۔ لیکن اس آیت پر مزید غور و فکر کے بعد مراد ہوفمین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ آیت دو اہم حقیقتوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اول: ہر شخص کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اپنے رب کے حضور براہ راست حاضر ہونا ہے، ان کے درمیان کوئی بھی ثالث نہیں ہو گا۔ دوم: اس آیت میں موروثی وابدی گناہ کے تصور کو مسترد کیا گیا ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر شخص کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوگی کہ ہر ایک کو اخروی نجات کی سخت ضرورت ہے اس وقت تک ہم میں سے کوئی نجات کی تلاش نہیں کرے گا اور نتیجتاً وہ نجات نہیں پا سکے گا۔

قرآن کریم درحقیقت ہدایت کی کنجی ہے، اسلام کو جاننے اور سمجھنے کا یہی سب سے اچھا ذریعہ ہے۔ لیکن جو شخص عربی زبان سے واقف نہیں ہے اس کے لیے ترجمہ کے ذریعہ قرآن کے الفاظ کے معانی کی تہ تک پہنچنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مراد ہوفمین نے قرآن پر پوری توجہ مرکوز کر دی، اور پھر جرمن زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا۔

اسلام قبول کرنے سے قبل بھی مراد ہوفمین فکری طور پر اسلام سے قریب تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ عملی طور پر تو مسلمان نہیں تھے لیکن فکری طور پر اسلام کے قریب تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے انھوں نے چند اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے شراب پینا اور خنزیر کھانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ خود کہتے ہیں: “شراب چھوڑتے وقت مجھے اندیشہ ہوا کہ جب تک شراب کاکم از کم ایک گھونٹ میرے اندر نہیں جائے گاتب تک یا تو مجھے نیند نہیں آئے گی یا پھر میں صحیح سے نہیں سو سکوں گا۔ لیکن میرے ساتھ بالکل اس کے برعکس ہوا، اور نیند کے دوران میری نبض پہلے سے کہیں زیادہ پر سکون رہنے لگی۔ یہ بات درست ہے کہ چربی اور تیل کے ہاضمے کے لیے شراب معاون ہے، لیکن ہم نے پہلے ہی خنزیر کے گوشت کو اپنے دسترخوان سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا تھا، اس کے بعد اس مضر اور حرام گوشت کی بوہی سےقے محسوس ہونے لگتی تھی۔”

راہ ہدایت پر گام زن

مراد ہوفمین کی زندگی کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایک جرمن سفارت کار اور فلسفی ہوتے ہوئے انھیں راہ ہدایت مل گئی اور وہ اس پر چل پڑے، جبکہ وہی راہ ہدایت کتنے ہی پیدائشی مسلمانوں کو ملی لیکن انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔ مراد ہوفمین نے الحاد اور بے دینی کے عام ہونے کی پیش گوئی کی تھی، لیکن ساتھ ہی وہ ملحدین کے سوالات کے مضبوط جوابات دیتے اور اس بے دینی کے رجحان کا منطقی تجزیہ پیش کرتے، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی تحریروں میں ہمیشہ اسلام کے فروغ اور غلبے کی بات کرتے ۔

فکری جہاد نہ کہ انفرادی نجات

مراد ہوفمین کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے گوشہ تنہائی اختیار نہیں کیا، نہ ہی انھوں نے تصوف وروحانیت کے ذریعہ صرف انفرادی نجات اور اپنے پیاسے دل کی روحانی تسکین پر توجہ صرف کی، بلکہ ساتھ ہی انھوں نے اپنے قلم اور اپنی فکر سے لوگوں کے لیے راہیں روشن کیں۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اور مشہور کتاب “اسلام: دی آلٹرنیٹو” کی اشاعت سے پہلے، مراد ہوفمین پر بڑی تنقیدیں ہوئیں، انہیںجرمن وزارت خارجہ سے برخاست کرنے کا مطالبہ کیا گیا، ان پر طرح طرح کی تہمتیں لگائی گئیں، لیکن وہ ثابت قدم رہے، مسلسل اسلام کا دفاع کرتے رہے اور اس کے غلبے کی بشارت دیتے رہے۔انھیں اپنی تحریروں کے نتائج کا بخوبی علم تھا۔ سن ۲۰۰۰ء میں اپنی ایک کتابIslam in 2000پبلشر کو بھیجتے وقت انھوں نے کہا تھا: ’’دعا کرتا ہوں کہ میری یہ کتاب آپ کے لیے اور آپ کے ادارہ کے لیے کسی پریشانی کا سبب نہ بنے۔‘‘  اپنی تحریروں سے لوگوں کی زندگی روشن کرنے کا ارادہ شاید انھوں نے الجیریا کے مزاحمتی تجربےکی روشنی میں کیا تھا، جہاں سے ان کے اندر اسلام کے بارے میں جاننے کا جذبہ ابھرا تھا۔ مزید ان کے دل میں یہ خیال، قرآن میں غور وخوض کے بعد اور زیادہ پختہ ہو گیا- قرآن کریم میںغور وخوض انسان کو انفرادی عمل اور انفرادی نجات کے دائرے سے نکال کر دوسروں کی اصلاح اور ان کو سیدھا راستہ دکھانے کی راہ پر لگا دیتا ہے۔

مایوسیوں کے درمیان امید

شدید مایوس کن حالات کے باوجود مراد ہوفمین اپنی زیادہ تر تحریروں میں اسلام کے مستقبل کے تعلق سے بہت ہی پرامید نظر آتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں تو مایوسی کے عوامل کچھ زیادہ ہی بڑھ گئے ہیں، موجودہ نفسیاتی پراگندگی اور مایوس کن حالات نے بہت سے مسلم نوجوانوں کو دین سے دور کر دیا ہے، ایسے حالات میں مراد ہوفمین کی کتابوں کا مطالعہ صرف فکری غذا ہی فراہم نہیں کرتا، اور صرف مغربی فکر سے ہی واقف نہیں کراتا، بلکہ آپ کے اندر علمی طور پر اسلام کے مستقبل کے تعلق سے بڑی امید جگاتا ہے۔ ان کی پرامید تحریریں جذبات پر مبنی نہیں ہوتی ہیں، نہ ہی ‘آخری زمانہ میں ظہور اسلام سے متعلق نصوص کی من مانی تاویلوں پر مبنی ہوتی ہیں، بلکہ ان کی تحریریں بصیرت پر مبنی ہیں جن میں عملی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔

پر امید مستقبل ماضی سے علیحدہ نہیں ہوتا

مراد ہوفمین کی تحریروں میں مستقبل پر بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے، ان کی تحریروں میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ آنے والی دہائیوں میں دنیا میں کس طرح کی تہذیبی تبدیلیاں آئیں گی اور اس وقت اسلام کی کیا صورت حال ہوگی۔ انھوں نے اپنی تین کتابوں (Islam: The Alternative, Islam in the Third Millennium: Religion on the Rise Islam in 2000) میں اسلام کے مستقبل کے تعلق سے گفتگو کی ہے۔ ہم مسلمانوں کے جملہ فکری وعلمی کاموں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو بہت کم ملتی ہے، اس کے برعکس مغرب میں مستقبل کے تعلق سے گفتگو نے مستقل ایک علم اور فن کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مراد ہوفمین نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ مستقبل اسلام کا ہے، اسلام ہی کے پاس مغربی معاشرہ کے تہذیبی دیوالیہ پن کا حل موجود ہے، بشرطیکہ ہم مسلمان اس حل کو اپنے مخاطب کو سمجھتے ہوئے صحیح طور پرپیش کرسکیں۔ مراد ہوفمین کہتے ہیں:

“اسلامی دنیا میں بہت ساری خامیاں ہیں مثلا ناخواندگی، غربت، بدعنوانی، معاشرتی ناانصافی، تشدد، سست روی، برداشت کا فقدان، بادشاہت، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور بڑھتی ہوئی مادہ پرستانہ ذہنیت۔ لیکن ان سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اسلام مغربی دنیا کی تمام پریشانیوں کا حل پیش کر سکتا ہے”۔

دفاعی انداز فکر سے اجتناب

حالیہ دہائیوں میں مسلم مفکرین اور اہل دعوت کے یہاں دفاعی رجحان غالب نظر آتا ہے، اس کے برعکس مراد ہوفمین نے فکر اسلامی کی تاسیس اور بنیاد سازی کی راہ اختیار کی۔ حالیہ دہائیوں میں مسلم مفکرین اور اہل دعوت اسلام کے تعلق سے اٹھائے جانے والے سوالات وشبہات اور تہمتوں کے رد اور ازالے میں لگے رہے، انھوں نے فکر اسلامی کی بنیاد سازی کی کوشش نہیں کی۔ اس رجحان نے دعوت اسلامی کی رفتار بہت سست کر دی، کیونکہ مسلم مفکرین اور داعیوں کی تمام تر توجہ دفاعی پہلو پرہی مرکوز رہی۔ اس رویےکے برعکس مراد ہوفمین فکر اسلامی کی بنیاد سازی میں مشغول رہے۔ اسلام کے تعلق سے جو شبہات پیدا کیےجا رہے ہیں ان پر انھوں نے معذرت خواہانہ رویہ نہیں اختیار کیا، بلکہ انھوں نے اسلام اور اسلامی تعلیمات کے قابل فخر پہلووں اور امتیازات کو نمایاں کرکے پیش کیا، انھوں نے شبہات پیدا کرنے والوں کو ہی اس جگہ لاکر کھڑا کر دیا کہ خود انھیں معذرت پیش کرنے کی ضرورت آ پڑی۔

فقہ حنفی اور یوروپ

مراد ہوفمین کا خیال تھا کہ یوروپ کے مسلمانوں کے لیے فقہ حنفی سب سے زیادہ مناسب ہے۔ ان کا یہ خیال ان کے فکر کی گہرائی کی علامت ہے۔ برسوں سے میرا رجحان بھی اسی جانب ہے۔ میں نے ایک کتاب لکھی تھی، جس کا عنوان تھا: “ابو حنیفہؒ: اقلیتوں کے فقیہ”۔ اس کے کئی اسباب ہیں، جیسے امام ابو حنیفہؒ عقل کو اور شخصی آزادی کوترجیح دیتے ہیں، دیگر ائمہ کے بالمقابل ان کی فقہ میں انسانی واخلاقی پہلو زیادہ غالب ہے۔ یہ بات کہنے میں کوئی مضایقہ نہیں کہ مسلکی عصبیت یوروپ میں اسلام کے وجود کے لیے زیادہ بڑا خطرہ ہے، مسلکی عصبیت اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔

یوروپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ

مراد ہوفمین اجتماعی و ادارہ جاتی کاموں میں دل چسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے اسلام کے تعارف کے لیے “برج فاونڈیشن” کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ وہ جرمنی میں ” مسلمانوں کی سپریم کونسل” کے مشیر بھی تھے۔ اسی طرح انھوں نے یوروپ کے مسلمانوں کو عملی پیغام دیا کہ وہ انفرادی کاموں کے بجائے ادارہ جاتی کاموں کی طرف توجہ کریں۔ انھوں نے یوروپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ کے رول کی اور اس کے سابق صدر شیخ یوسف القرضاوی کے معتدل فقہ کی بڑی تعریف کی۔ انھوں نے یوروپ کے باہر سے آنے والےامپورٹیڈ فتووں کی نزاکتوں اور خطرناکیوں کی طرف توجہ بھی دلائی، کیونکہ باہر سے آنے والےفتوےحقائق اور حقیقی صورت حال کی معرفت پر مبنی نہیں ہوتے۔ کوئی بھی فقہی رائے دینے کے لیے حقیقی صورت حال سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے۔

خاندان اور اخلاق ہی اسلامی حل ہے

مراد ہوفمین اپنے ایک طویل مضمون میں لکھتے ہیں کہ تہذیبوں کی بربادی کا آغاز اور اختتام خاندان سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں خاندان اور اخلاق پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خاندان کا بگاڑ پورے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ اور اس کا حل صرف اسلام میں موجود ہے۔ مغربی معاشرے میں خاندان کی منفی تبدیلی کے بہت سارے مظاہر کا انھوں نے ذکر کیا ہے، مثلا شرح طلاق کی کثرت، اکیلی مائیں، والدین کے بغیر زندگی گزارنے والے بچے، جسم فروشی، ناجائز جنسی عمل، طالب علموں کا تشدد، منشیات کا استعمال اور پوری مغربی دنیا میں اس کا پھیلاؤ، اور ٹیلیوژن اور انٹرنیٹ کا نشہ۔ مراد ہوفمین کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کے پاس خاندانوں کو بچانے کا پیغام موجود ہے، اور وہی منشیات کے خاتمہ کے لیے واحد امید ہیں۔ مراد ہوفمین اسقاط حمل کو قانونی اور دینی طور پر جائز کہنے کے سخت مخالف تھے۔ ان کو اس بات پر فخر تھا کہ اسلام میں اسقاط حمل حرام ہے الا یہ کہ ماں کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔ انھوں نے اسقاط حمل کی روک تھام کے لیے مغربی روایت پسندوں سے اسلام کے ساتھ اتحاد کرنے کا مطالبہ کیا۔

نماز: ذہنی تناؤ اور نفسیاتی اضطراب کا حل

مراد ہوفمین کہتے ہیں کہ مغربی فرد شدید دباؤ اورنفسیاتی اضطراب کا شکار ہے، حتی کہ اسکولوں کے بچے اور چھٹیوں پر گھومنے جانے والے افراد بھی سخت ذہنی تناؤ اور نفسیاتی اضطراب سے دوچار ہیں، لہذا وہ زندگی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ نفسیاتی ماہرین اور ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔ مراد ہوفمین کا کہنا ہے کہ نماز ہی ذہنی تناؤ اور نفسیاتی اضطراب کا حل ہے۔ وہ کہتے ہیں:

“منظم اور مستقل غور و فکر کی اسلامی تکنیکیں مثلا نماز کو اختیار کرکے ایسے لوگ اپنے سوالوں کا جواب پا سکتے ہیں۔ خود کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دینے کا نام اسلام ہے، اور تقوی ایک انسان کو اللہ سے مربوط کرتا ہے، اور ایسا باعمل مسلمان اپنے اسلام کو چھپاتا نہیں ہے”۔

مراد ہوفمین مثالی مسلمان تھے، انھوں نے کبھی بھی اپنے اسلام کو چھپایا نہیں، اور نہ ہی سخت ترین آندھیوں کے سامنے خود سپردگی کی، بلکہ علم اور حکمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، اور اس مقابلہ میں وہ کامیاب ہوئے۔ انھوں نے یوروپ میں اسلام اور مسلمانوں کی بڑی عظیم خدمت کی۔ ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ وفاداری کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی تحریروں کو پڑھیں، اور اپنے درمیان ان کے جانشینوں کو تلاش کریں جو فروغ اسلام کے ان کے منصوبے کو جاری رکھ سکیں۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223