کسی بھی انسانی گروہ کے عروج و ترقی میں، ہمارے خیال میں دو قوتوں کا کردار سب سے اہم اور اساسی ہے۔ اس میں ایک نظریاتی قوت ہے جو دو ماہ قبل ان صفحات میں زیر بحث آچکی ہے اور دوسری اخلاقی قوت ہے جو اس وقت زیرِ گفتگو ہے۔تمام عقلی و فکری قوتوں کا منبع و سرچشمہ نظریاتی قوت ہے اور تمام عملی قوتوں کا سرچشمہ اخلاقی قوت ہے۔ مقصد و نصب العین سے تعلق، علمی قوت، معاشی قوت،تہذیبی قوت، تعلقاتی قوت، نافعیت،سماجی سرمایہ وغیرہ ان سب قوتوں کا ایک اہم پہلو فکری ونظریاتی ہے۔ یہ سب قوتیں بروئے کار آنے کے لیے ملت کا ایک خاص ذہنی سانچہ اور فکری شاکلہ چاہتی ہیں جو اصلاً فکر و نظریہ کی پختگی، اس سے گہری وابستگی اور اس پر ہمہ گیر اتفاق رائے سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ اسی طرح ان سب قوتوں کا ایک پہلو عملی و اطلاقی ہے جس کی مکمل کارفرمائی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملت کی ایک خاص رخ پر اخلاقی تربیت ہو،یعنی ملت اخلاقی قوت سے آراستہ ہو۔
ترقی و تمکین کا سب سے اہم عامل اخلاقی قوت ہے
قرآن مجید نے اس اہم حقیقت کو بڑی وضاحت کے ساتھ واشگاف کیا ہے کہ قوموں اور انسانی گروہوں کی ترقی و زوال کا اصل محرک ان کی اخلاقی کیفیت ہے۔ اخلاقی بلندی قوموں کو عروج و ترقی عطا کرتی ہے۔اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(بے شک زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ الانبیاء: 105) اس آیت سے مولانا ابوالکلام آزادؒ نے عروج وزوال کا ایک مستقل اصول مستنبط کیا ہے جسے وہ بقائے اصلح کا اصول کہتے ہیں۔ مولانا ؒلکھتے ہیں:
’’یعنی جماعتوں اور قوموں کے لیے یہاں بھی یہ قانون کام کر رہا ہے کہ انھی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرماں پذیری آتی ہے جو نیک ہوتے ہیں، صالح ہوتے ہیں۔ صلاح کے معنی سنوارنے کے ہیں۔ فساد کے معنی بگڑنے اور بگاڑنے کے ہیں۔ صالح انسان وہ ہے جو اپنے کو سنوار لیتا ہے اور دوسرے میں سنوارنے کی استعداد پیدا کرتا ہے اور یہی حقیقت بد عملی کی ہے پس قانون یہ ہوا کہ زمین کی وراثت سنور نے اور سنوار نےوالوں کی وراثت میں آتی ہے۔ ان کی وراثت میں نہیں جو اپنے اعتقاد و عمل میں بگڑجاتے ہیں اور سنوارنے کی جگہ بگاڑنے والے بن جاتے ہیں۔‘‘[1]
یہ ٹھیک وہی بات ہے جس کی مولانا مودودیؒ نے اپنے مخصوص دلنشین اور عام فہم انداز میں ’بناو بگاڑ کا قانون‘ کہہ کر وضاحت کی ہے۔[2] قرآن مجید، صالحیت کو آخرت کی کام یابی ہی کا نہیں بلکہ مادی اور دنیوی کام یابیوں کا بھی اصل ذریعہ قرار دیتا ہے۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ اعراف : 96)
اس کے بالمقابل، قرآن مجید نے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ زوال، پس ماندگی، ضعف، درماندگی اور پھر ہلاکت کا اصل سبب قوموں کے اجتماعی جرائم اور ان کی اجتماعی اخلاقی خرابیاں ہوتی ہیں۔ أَلَمْ یرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَیهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِی مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ (کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وه قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں۔ پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا۔الانعام: 6)
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید نے عروج و زوال یا تمکین و اضعاف کے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں بلکہ جزا و عقاب اور ثواب و عذاب کی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ اس سے بعض لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ محض آخرت کی جزا و سزا کی بحث ہے یا محض ان عذابات کا ذکر ہے جو پیغمبروں کی دعوتوں کے انکار پر اللہ کی قدرت خاص سے اس دنیا میں، معجزانہ طور پر ظہور پذیر ہوئے تھے۔ لیکن قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ زوال و پس ماندگی، شکست و درماندگی، ذلت و خواری وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک شکل ہوسکتی ہے، جو وہ دنیا میں قوموں کو دیتا ہے۔ یہ دنیوی جزا و سزا اللہ تعالیٰ کی قدرت خاص سے اچانک معجزانہ طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے، جیسا کہ پیغمبروں اور ان کی قوموں کے ساتھ ہوا اور غیر محسوس طریقے سے عام قوانین فطرت کے تحت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اوپر جن آیتوں کے ہم نے حوالےد یے ہیں وہ سب دنیوی جزاو سزا ہی سے متعلق ہیں۔ ان کے علاوہ بھی قرآن مجید میں متعدد اشارے موجود ہیں جوقوموں کے لیے دنیوی جزا و سزا کو اللہ کے مستقل قانون کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں۔ ظَهَرَ الفَسادُ فِى البَرِّ وَالبَحرِ بِما كَسَبَت أَیدِى النّاسِ لِیذیقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم یرجِعونَ (خشکی اور تری میں لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے فساد پھیل گیا تاکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کوبعض برے اعمال کی سزا انھیں دنیا میں چکھا دے، شاید کہ لوگ برے اعمال سے باز آجائیں۔روم: 4) وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا (اور جس نے میرے ذکر سے روگردانی کی تو اس کے لیے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔ طہ: 124) اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں پچھلی قوموں کی ہلاکت کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے اسے اللہ کا مستقل قانون اور اس کی سنت قرار دیا ہے۔ سُنَّةَ اللَّهِ فِی الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِیلًا (یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آرہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔الاحزاب: 62) اس کی مزید وضاحت اور تائید احادیث نبوی سے ہوتی ہے۔ خاص طور پر خصال خمس والی مشہور حدیث جس کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
’’اے مہاجرین کے گروہ، پانچ خصلتیں تمھارے لیے آزمائش بن سکتی ہیں اور میں ان سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ جب قوم میں فحاشی عام ہوجاتی ہے تو طاعون اور ایسی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں جن سے پچھلے لوگ نا آشنا تھے۔ جب ناپ تول میں اور تجارت میں بے ایمانی عام ہوجاتی ہے تو برسہا برس کے سخت حالات لاحق ہوجاتے ہیں،بدحالی عام ہوجاتی ہے اور ظالم حکم رانوں کا تسلط ہوجاتا ہے۔ جب زکوة کی ادائیگی نہیں ہوتی تو بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر جانور نہ ہوتے تو بالکل بھی بارش نہ ہوتی۔ جب عہد شکنی ہوتی ہے اور خدا اور رسو ل سے کیے ہوئے عہد توڑے جاتے ہیں تو دشمنوں کا تسلط ہوجاتا ہے۔ جب ان کے حکّام کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے توان میں آپس میں عداوت پڑجاتی ہے۔‘‘[3]
اس لیے دنیوی جزا و سزا سے متعلق قرآن کے بیان کردہ اصولوں کو عروج و زوال کی بحث میں مسلمان علمانے عام طور پر بنائے استدلال بنایا ہے اور ہم بھی اسی منہج کو یہاں اختیار کررہے ہیں۔
یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اخلاق سے مراد اخلاق کے وہ عام معنی مراد نہیں ہیں جو عوام الناس میں رائج ہیں۔ یعنی اخلاق یا تو محض خوش خلقی اور شریف النفسی کے معنوں میں بولا جاتا ہے یا اس کے معنی جنسی و مالیاتی اخلاق سے متعلق چند معروف قدروں تک محدود سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں اخلاق سے مراد اخلاق کا جامع تصور ہے جو بہت سی قدروں کا مجموعہ ہوتا ہے اور جس کی اصل،کچھ قدروں پر اتفاق رائے اور پورے معاشرے کی جانب سے، اپنی خواہشات اور مفادات کے مقابلے میں ان قدروں کے سختی سے پابند رہنے کی صلاحیت ہے۔ اسلامی تصور اخلاق کے سلسلے میں آگے ہم امام غزالیؒ اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے افکار نقل کررہے ہیں۔یہ ہمہ گیر اخلاق اخلاقی قوت بنتے ہیں۔ جو قوم اس اخلاق کے جتنے زیادہ پہلوؤں سے آراستہ ہوگی وہ اتنی ہی قوت کی مالک ہوگی۔
اخلاقی قوت کیا ہے؟
مذکورہ بنیادی کلیے کو تسلیم کرلینے کے بعد اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی اوصاف کیا ہیں جن کا تعلق عروج و ترقی سے ہے اوروہ اخلاقی رذائل کیا ہیں جن کا تعلق زوال و درماندگی سے ہے۔ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے متعدد اخلاقی اوصاف بھی گنائے ہیں لیکن قرآن کے مطابق اصل عامل وہ ذہنی، فکری، اعتقادی اور نفسیاتی سانچہ ہے جس میں تمام اخلاقی اوصاف کی افزائش ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون قرآن مجید کی دو مشہور آیتوں میں دہرایا گیا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ(اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے ’انفُس‘ میں تبدیلی نہ کرلے۔الرعد : 11) ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ یكُ مُغَیرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ یغَیرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے ’انفُس‘ کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔الانفال :53) ان آیتوں میں قوموں کے احوال میں تبدیلی کا اصل عامل ’انفُس‘ میں تبدیلی کو قرار دیا گیا ہے۔
مشہور شامی تحریکی دانش ور و مصنف جودت سعید ؒ (1931-2022)نے ان آیات سے قوموں کی طاقت و قوت اور ان کی حالت میں تغیر و تبدیلی سے متعلق کچھ بڑے اہم اصول اخذ کیے ہیں۔[4] ان کے اصولوں کا خلاصہ یہ ہے (تفصیلی دلائل کا یہاں موقع نہیں ہے۔ مصنف مرحومؒ کی محولہ کتاب میں دلائل ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں):
ان آیات میں بیان کردہ اصول ایک آفاقی اصول ہے جو تمام انسانوں پر لاگو ہوتا ہے اور ہر زمان ومکان میں اس کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔[5]
یہ اصول اصلاً دنیوی زندگی سے متعلق ہے۔ آخرت کی جزا و سزا سے متعلق نہیں ہے۔[6]
یہ اصول اجتماعی زندگی کا اصول ہے۔ افراد سے متعلق نہیں۔ اس میں جماعتوں (قوموں، ملتوں، انسانی گروہوں) کی ترقی و زوال کے ڈائنامکس بتائے گئے ہیں۔[7]
اس میں قوموں میں آنے والی دو تبدیلیوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ تبدیلی جو خدا لاتا ہے (تغییر اللہ) اور ایک وہ تبدیلی جو قوم خود اپنے اندر لاتی ہے (تغییر القوم)۔تغییر اللہ ہمیشہ تغییر القوم کے نتیجے میں واقع ہوتی ہے۔[8]
تغییراللہ کا دائرہ قوم کے مجموعی حالات ہیں۔ جن میں قوت و کم زوری، تمکین و تنزل، دولت وافلاس،علم و جہالت، عزت و ذلت اورسربلندی و پستی، وغیرہ شامل ہیں۔یہ تبدیلی قوم خود نہیں لاتی بلکہ اللہ تعالیٰ لاتا ہے [9](اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان ظاہری تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرکے تمکین و ترقی کی کوئی تحریک کبھی کام یاب نہیں ہوسکتی)۔
تغییر القوم کا دائرہ ’انفُس ‘ ہے۔ قوم جب اجتماعی طور پر اپنے ’انفُس‘ میں تبدیلی لاتی ہے تو اللہ تعالیٰ قوم کی حالت میں تبدیلی لاتا ہے۔ یہ تبدیلی مثبت سمت میں ہوگی یعنی انفُس میں مثبت تبدیلی واقع ہوگی تو قوم کی حالت میں بھی مثبت تبدیلی ہوگی۔ [10]اور اگر یہ تبدیلی منفی تبدیلی ہوگی تو قوم کی حالت میں بھی منفی تبدیلی ہوگی (اس کلیے کے نتیجے میں تمکین و ترقی کی تحریک کا اصل ہدف ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ایسی تحریکوں کو سب سے زیادہ انفُس کی تبدیلیوں پر مرکوز ہونا چاہیے)۔
انفُس کیا ہے؟ یہ نفس کی جمع ہے اور قرآن مجید کا نہایت اہم تھیم ہے۔ قرآن مجید کے مطابق، انفُس، آفاق کی طرح ایک پورا عالم(عالم الانفُس )ہے۔ سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنفُسِهِمْ (عنقریب ہم اِن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے انفُس میں بھی۔ فصلت :53) لفظ نفس کے مفسرین کرام نے متعدد معنی بیان کیے ہیں لیکن یہاں اس کا مطلب ان نفسی قوتوں کا مجموعہ ہے جو انسان کے اعمال اور رویوں کو متاثر کرتی ہیں۔ان میں خیالات، تصورات، جذبات، احساسات،داعیات،مزاج اور شعور و لاشعور شامل ہیں۔[11]
گویا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی کا اصل عامل قوم کی اجتماعی نفسیات ہے۔ کسی قوم کو نہ اس کے دشمن ذلت و پس ماندگی کی کھائیوں میں ڈھکیل سکتے ہیں، نہ اس کے دوست اور حلیف عروج و سربلندی کی چوٹیوں پر پہنچاسکتے ہیں، نہ حالات کے تھپیڑے اس کا مقدر بگاڑ سکتے ہیں اور نہ زمان و مکان کی خوش گواری اس کی قسمت چمکاسکتی ہے۔ حالت بدلتی ہے تو صرف اجتماعی نفسی کیفیت یعنی انفُس کی تبدیلی سے بدلتی ہے۔ تبدیلی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف افکار و خیالات، مزاج و نفسیات اور جذبات و احساسات کی زمین میں یعنی انفُس کی زمین میں بوئے جاسکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں،یہ اجتماعی نفسیات یا انفُس ہی اخلاقی قوت ہے۔ امام غزالیؒ کا مشہور زمانہ ’فلسفۂ اخلاق ‘بھی یہی ہے۔ امام صاحب ؒ کے نزدیک اخلاق اصلاً تین قوتوں کے اعتدال کا نام ہے:[12] ’قوت غضب‘، ’قوت شہوت‘، اور ’قوت علم ‘۔ (امام صاحب نے چوتھی قوت، ’قوت عدل ‘کا بھی ذکر کیا ہے لیکن ہم علامہ شبلی نعمانی ؒ کی اتباع میں تین قوتوں ہی کا ذکر کررہے ہیں[13] کیوں کہ ’قوت عدل ‘کا مطلب بھی امام غزالیؒ نے پہلی تین قوتوں کا اعتدال ہی قرار دیا ہے) یہ تین اندرونی قوتیں جب ٹھیک ٹھیک نقطہ اعتدال پر قائم رہتی ہیں تو اعلیٰ اخلاق کا ظہور ہوتا ہے اور جب یہ قوتیں کسی ایک جانب یعنی افراط یا تفریط کی جانب مائل ہونے لگتی ہیں تو اخلاقی بگاڑ ظہور پذیر ہونے لگتا ہے۔[14] ’قوت غضب ‘کا اعتدال خودداری، دلیری، آزادی، حلم،استقلال وغیرہ ہے ، لیکن یہ قوت جب افراط کی طرف مائل ہوتی ہے تو ظلم و جبر، وحشت و بربریت، تکبر و انا پرستی وغیرہ جیسی اخلاقی برائیوں کا ظہور ہونے لگتا ہے اور جب تفریط کی طرف مائل ہوتی ہے تو بے حمیتی و بے غیرتی، مداہنت و نفاق اورکم ہمتی و بزدلی جیسے رذائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ’قوت شہوت ‘کی افراط حرص و طمع، بے شرمی وبدکاری، عیش و عشرت اور ہوس و بدچلنی ہے اور اس کی تفریط بے عملی و نفس کشی اورتجرد و دنیا بے زاری ہے اور یہ بھی اخلاقی عیوب ہیں۔ اس قوت کا اعتدال عفت و حیا، جود و سخا، قناعت و بے طمعی وغیرہ ہے۔ اسی طرح ’قوت علم ‘کی ایک انتہا مکر و فریب، حیلہ سازی اورعیاری ہے، جب کہ دوسری انتہا کم فہمی و سادہ لوحی اور حماقت و ناعاقبت اندیشی ہے۔ دونوں طرح کی خصوصیات اخلاقی عیوب ہیں۔ اس قوت کا اعتدال حکمت و دانش مندی، معاملہ فہمی اورحسن تدبیر، جودت ذہن اوراصابت رائےہے۔
امام صاحب کے اس فلسفے کا سرچشمہ بھی قرآن مجید ہے۔ عدل قرآن مجید کا اہم موضوع ہے۔ قرآن اسے بھی قوموں کے عروج و زوال کا اہم عامل قرار دیتا ہے۔ عدل کا ایک پہلو تو سماجی ہے اور ایک پہلو نفسی یعنی انسان کے اندرون سے متعلق بھی ہے۔ مزاج کا افراط و تفریط سے پاک ہونا اور اعتدال وتوازن کا حامل ہونا، یہ بھی عدل ہے۔چناں چہ عدل کی تعریف میں جہاں لوگوں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ شامل ہے وہیں اشیا و امور کے سلسلے میں ان کی حقیقت کے مطابق ٹھیک ٹھیک رویہ بھی شامل ہے۔[15] اس کا متضاد ظلم ہے جس کا اصل مطلب کسی بھی شے کو اس کی اصل جگہ سے ہٹانا ہے۔[16] قرآن کے مطابق ظلم سماجی بھی ہوتا ہے، یعنی افراد دوسرے افراد یا معاشروں پر ظلم کرتے ہیں اور نفسی بھی ہوتاہے، یعنی افراد اور قومیں خود اپنے ’انفُس‘ پر ظلم کرتی ہیں۔چناں چہ قرآن کام یابی کی ایک اہم شرط صبر کو قرار دیتا ہے جو شخصی عدل کا مظہر ہے۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ كَانُوا یسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِی بَارَكْنَا فِیهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ یصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا یعْرِشُونَ۔ (اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کم زور شمار کیے جاتے تھے۔ اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنا دیا، جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کا نیک وعده، بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وه اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے، سب کو درہم برہم کر دیا۔ اعراف : 137) مولانا امین احسن اصلاحیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’بِمَا صَبَرُوْا سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں پر اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہوتے ہیں وہ بہرحال اوصاف و کردار پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ مجرد خاندان و نسب کسی کو خدا کا چہیتا بنا دے۔‘‘[17]
صبر جذبات پر کنٹرول اور توازن کا نام ہے۔ امام غزالیؒ تمام اخلاق حسنہ کو صبر ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ تین قوتوں کا اعتدال، جو امام صاحب کے نزدیک اسلامی اخلاق کا خلاصہ ہے، وہ صبر ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ صبر ہی سے ’قوتِ غضب‘ اعتدال میں رہتی ہے اور ظلم و جبر اور بے حمیتی و بزدلی کی انتہاؤں سے محفوظ رہتی ہے۔ صبر ہی سے ’قوت شہوت‘ پر قابو حاصل ہوتا ہے اور صبر ہی ’قوت علم‘ کو توازن کی حالت میں رکھتا ہے۔[18] صبر کے ساتھ، توکل[19]، شکر[20]، توبہ[21] جیسی صفات قرآن کےنزدیک عروج وسربلندی کا ذریعہ ہیں۔ یہ تمام اوصاف ایک خاص اجتماعی مزاج (attitude) تشکیل دیتی ہیں۔ان میں سے بعض موضوعات کو ان صفحات میں ہم اس سے قبل زیر بحث لاچکے ہیں۔[22]کسی قوم کا انفُس اس مزاج سے جتنا قریب ہوگا وہ اتنی ہی زیادہ اخلاقی قوت کی حامل ہوگی۔
یہاں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے فلسفہ اخلاق کا مختصر تذکرہ بھی مفید ہوگا۔ اس سے آگے آنے والی ’مرکزی قدروں‘ کی بحث کو رخ دینے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ شاہ صاحب ؒ نے اخلاق کا خلاصہ چار بڑی اخلاقی خصوصیتوں کے ذریعے بیان کردیا ہے۔ امام غزالی کے اخلاق ثلاثہ کی طرح شاہ صاحبؒ کے اخلاق اربعہ سے بھی اسلامی اخلاق کا جامع تصور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ شاہ صاحب ؒکے مطابق ’طہارت‘ (اندرونی و بیرونی پاکیزگی اور نفاست)، ’اخبات‘ (خدا کے سامنے نیاز مندی اور عجز و انکسار)، ’سماحت‘ (بردباری، ضبط نفس اور اعتدال) اور ’عدالت‘ (ہر معاملے میں عدل و انصاف) یہ چار نفسیاتی خصوصیات ہیں جو تمام اخلاقی محاسن اور اچھی رسوم کی منبع و سرچشمہ ہیں۔[23]اخلاق اربعہ پر شاہ صاحبؒ نے جو بحث کی ہے وہ بڑی بصیرت افروز ہے اور مسلمانان ہند کی اخلاقی کم زوری کی تعیین میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے۔ شاہ صاحبؒ کے نزدیک طہارت ایک اساسی اخلاقی وصف ہے۔ اس میں خیالات کی طہارت، قلب و روح کی طہارت وغیرہ بھی شامل ہے اور جسم کی نیز گھر کے اطراف و اکناف کی طہارت بھی۔ اخبات بہت سی اخلاقی خوبیوں اور نفسیاتی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ سماحت کی تشریح میں شاہ صاحبؒ نے عفت و پاک دامنی، صبر وسکون، عفو و درگذر، سخاوت و قناعت، تقویٰ و پرہیزگاری وغیرہ کے ساتھ سخت کوشی اور محنت و مشقت کو بھی سماحت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ عدالت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ انسان کے رہن سہن اور ذاتی احوال میں بھی مطلوب ہے جہاں اسے سلیقہ مندی و شائستگی (ادب) کہا جاتا ہے، مالی معاملات میں بھی مطلوب ہے جہاں وہ کفایت کہلاتی ہے، لوگوں سے میل جول میں بھی مطلوب ہے جہاں اس کانام حسن معاشرت ہے،ملکی معاملات میں بھی مطلوب ہے جہاں اس کا نام اسلامی سیاست ہے اور شاہ صاحب نے یہ بھی واضح کیا کہ عدالت گھر میں بھی مطلوب ہے جہاں اس کا نام شاہ صاحب ؒ کے مطابق حریت ہے۔[24]
شاہ صاحب ؒ کی اس بحث سے مطلوب انفُس کی یہ چار خصوصیات متعین ہوتی ہیں۔ انفُس کے اس جامع بیان کے ساتھ قرآن مجید نے قوموں کے عروج و تمکین کے سلسلے میں، چند اہم اخلاقی محاسن کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جن میں عدل و قسط، سچائی، امانت داری، معاہدوں اور عقود کی حرمت، عفت وعصمت اور حیا و پاک دامنی، صلہ رحمی وغیرہ جیسی صفات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح قرآن نے ان اخلاقی رذائل کا بھی ذکر کیا ہے جو زوال و درماندگی کا سبب بنتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کے بیانات بہت صاف اور واضح ہیں۔ بعض اخلاقی رذائل پر قرآن نے خاص طور پر زور دیا ہے اور انھیں دنیوی زوال اور تباہی کا بھی اہم سبب گردانا ہے۔ ذیل کے جدول میں اس کا خلاصہ بیان کیا جارہا ہے۔
نمبر شمار | برائی | قرآنی حوالے |
۱ | ظلم و ناانصافی | وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَینَاتِ وَمَا كَانُوا لِیؤْمِنُوا كَذَلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِینَ (لوگو، تم سے پہلے کی قوموں کو (جو اپنے اپنے زمانہ میں برسر عروج تھیں) ہم نے ہلاک کر دیا جب انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور اُن کے رسُول اُن کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے اور انھوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ یونس: 13) وَتِلْكَ الْقُرَى أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَوْعِدًا (یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمھارے سامنے موجود ہیں انھوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔الكهف: 59) وَمَا كُنَّا مُهْلِكِی الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ (اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔القصص: 59) |
۲ | ذنوب و فسوق | وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْیةً أَمَرْنَا مُتْرَفِیهَا فَفَسَقُوا فِیهَا فَحَقَّ عَلَیهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِیرًا (جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ الاسراء: 16) فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِینَ (آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انھیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا۔الانعام: 6)
|
۳ | نعمتوں پر غرور اور ناشکری | وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْیةٍ بَطِرَتْ مَعِیشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَن مِّن بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِیلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِینَ (اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اترا گئے تھے سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آ خرکار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔القصص: 58) وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْیةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً یأْتِیهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا یصْنَعُونَ ( اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔النحل : 112) |
۴ | اسراف و عیاشی | ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنجَینَاهُمْ وَمَن نَّشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِینَ (پھر دیکھ لو کہ آخرکار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور انھیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور اسراف کرنے والوں کو ہلاک کر دیا۔ الانبیاء: 9) |
قرآنی اصول پر اتفاق رائے
ان قرآنی اصولوں پر اب اسلامی مفکرین کے افکار میں اور جدید سماجیات، تاریخ اور اجتماعی نفسیات کے ماہرین کی آرا میں، کئی پہلوؤں سے بڑی مشابہت نظر آتی ہے۔ درج ذیل جدول سے اس کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
شخصیت | تصور |
ابن خلدونؒ(1332-1406) مشہور فلسفی اور مورخ جو بجا طور پر جدید عمرانیات، فلسفہ تاریخ، معاشیات اور آبادیات کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ | ابن خلدونؒ نے اپنے مقدمے میں تفصیل سے واضح کیا ہے کہ قوت و طاقت اور ملک گیری اور تسلط کا گہرا تعلق اخلاق سے ہے۔ مکارم اخلاق کی طرف رغبت قوت اور غلبہ عطا کرتی ہے اور یہ کہ ’’جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے ملک و طاقت چھیننا چاہتا ہے تو اس میں اخلاق مذمومہ اور عادات رذیلہ کی افزائش کرتا ہے‘‘[25]ظلم، عیش و عشرت، اور گناہ ابن خلدونؒ کے نزدیک زوال کے اصل اسباب ہیں۔ |
حضرت شاہ ولی اللہ (1703-1762) عہد مغلیہ کے معروف محقق، مجدد اور مصلح جنھوں نے اسلامی نشاة ثانیہ کے لیے طاقت ور علمی بنیادیں فراہم کیں اور برصغیر کی تمام علمی، دینی اور اصلاحی تحریکوں کا منبع وسرچشمہ بنے۔ | شاہ صاحب کے نزدیک انسانی ترقی ’ارتفاقات‘ کی ترقی ہے۔ ارتفاقات ان کے نزدیک گہرائی سے اجتماعی اخلاق سے وابستہ ہیں۔ شاہ صاحب نے بڑی وضاحت سے ’رسوم‘ کی اہمیت بیان کی ہے۔ ان کا ’رسوم‘ کا تصور تقریباً وہی ہے جسے جدید اصطلاح میں سماجی معمول (social norm)کہا جاتا ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک ارتفاقات صالحہ کا فروغ ان معمولات کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ یہ معمولات (رسوم) صحیح ہوں تو ترقی ہوتی ہے اور مذموم ہوں تو درماندگی مقدر بنتی ہے۔[26] درست معمولات کی وضاحت شاہ صاحب کے محولہ بالا مشہور ’اخلاق اربعہ ‘ سے ہوتی ہے۔ |
مولانا مودودیؒ (1903-1979) جدید اسلامی تحریکات کے اولین رہنما، قد آور مفکر اور نظریہ ساز نیز برصغیر کی اسلامی تحریک کے بانی۔ | مولانا مودودیؒ بھی اخلاق ہی کو قوموں کے عروج و زوال کا اصل سبب مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اخلاق کی دو قسمیں ہیں۔ بنیادی انسانی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات۔ اس تقسیم کو بنیاد بناکر مولانا عروج و زوال کا اصل کلیہ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’ اگر دنیا میں کوئی منظم انسانی گروہ ایسا موجود نہ ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں سے آراستہ ہو اور پھر مادی اسباب ووسائل بھی استعمال کرے، تو دنیا کی امامت و قیادت لازماً کسی ایسے گروہ کے قبضے میں دے دی جاتی ہے جو اسلامی اخلاقیات سے چاہے بالکل ہی عاری ہو لیکن بنیادی انسانی اخلاقیات اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بڑھا ہوا ہو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنی دنیا کا انتظام چاہتا ہے اور یہ انتظام اسی گروہ کے سپرد کیاجاتا ہے جو موجود الوقت گروہوں میں اہل تر ہو۔لیکن اگر کوئی منظم گروہ ایسا موجود ہو جو اسلامی اخلاقیات اور بنیادی انسانی اخلاقیات دونوں میں باقی ماندہ انسانی دنیا پر فضیلت رکھتا ہو اور وہ مادی اسباب و وسائل کے استعمال میں بھی کوتاہی نہ کرے، تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسرا گروہ دنیا کی امامت و قیادت پر قابض رہ سکے۔‘‘[27] |
گوسٹیو لیبان (1841-1931) لیبان (Gustave Le Bon) کئی علوم کا ماہر مشہور فرانسیسی اسکالر تھا ، جس کی اجتماعی نفسیات سے متعلق تحقیقات اساسی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں۔ | لیبان نے اس بات کو بہت زور دے کر لکھا ہے کہ انسانی تاریخ میں کوئی قوم بھی علم و صلاحیت کے زوال کی وجہ سے یا مادی وسائل میں کمی کی وجہ سے زوال کی شکار نہیں ہوئی۔ زوال کا سبب ہمیشہ ایک ہی رہا ہے کہ قوموں کی ذہنی ساخت (mental constitution) اور ان کے اخلاق (character) میں تبدیلی واقع ہوئی اور وہ ان کے زوال کا سبب بنی۔[28]یہ ٹھیک وہی بات ہے جو قرآن مجید نے کہی ہے کہ قوموں کے احوال میں تبدیلی، ہمیشہ ان کے انفُس میں تبدیلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ |
پروفیسر ٹائن بی(1889-1975) مشہور انگریز فلسفی اور مورخ اور تہذیبوں کا تجزیہ نگار جس کی 12 جلدوں پر مشتمل کتاب ’اے اسٹڈی آف ہسٹری‘ تہذیبوں کے عروج و زوال کے موضوع پر مستند حوالہ تسلیم کی جاتی ہے۔ | ٹائن بی کے نزدیک قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اصل سبب اخلاقی ہے۔ وہ زوال کے بنیادی اسباب بس دو بتاتے ہیں۔ ایک تخلیقیت کا زوال اور چیلنجوں کے مقابلے کے لیے تخلیقی توانائی کا استعمال میں نہ آنا اور دوسرے اخلاقی زوال، عیش و عشرت، ظلم وزیادتی اور اصولوں سے انحراف۔ [29] |
ولیم ڈورانٹ(1885-1981) اور ان کی بیوی اریل ڈورانٹ (1898-1981)دو امریکی مورخ اور فلسفی، جن کی گیارہ جلدوں پرمشترک کتاب ’دی اسٹوری آف سولائزیشن‘ اس موضوع پر اہم حوالہ سمجھی جاتی ہے۔
| ڈورانٹ میاں بیوی کے مطابق، دنیا میں قوموں اور تہذیبوں کے زوال کا اصل سبب اخلاقی رہا ہے۔ جب قومیں ترقی کرتے کرتے عروج کو پہنچتی ہیں تو وہ ڈسپلن اور اخلاقی حس سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ علوم و فنون پر مذہب کی گرفت کم زور ہونے لگتی ہے۔ حد سے زیادہ عقلیت پسندی کے نتیجے میں خاندانی قدریں، تعلیم و تربیت کا نظام اور علم و ادب مذہب اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد ہونے لگتے ہیں۔اور بالآخر مذہب و اخلاق اور سماج وتمدن ایک ساتھ زمین بوس ہوتے ہیں اور ویسے ہی ایک ساتھ موت کے شکار (harmonious death)ہوتے ہیں جیسے (کسی انسانی وجودسے) پہلے جان نکلتی ہے اور اس کے ساتھ ہی جسم مردہ ہوجاتا ہے۔[30] |
میخائل گورباچیف (1931-2022) وہ اپنے وقت کی سپر پاور، سوویت یونین کے سربراہ تھے اور انھی کے زمانے میں سوویت یونین کا زوال اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ | گورباچیف نے اپنے ملک اور وہاں کے معاشرے کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے تفصیل سے لکھا ہے کہ اُس وقت سوویت یونین مادی ترقی کے لحاظ سے اپنے عروج پر تھا۔ لوہا، ایندھن اور توانائی کا دنیا میں سے سے بڑا پروڈیوسر تھا۔اناج اور غذائی اجناس کی پیداوار میں سر فہرست ملکوں میں سے ایک تھا۔آبادی کے تناسب سے ڈاکٹروں اور ہسپتال کے بستروں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا مین پہلے نمبر پر تھا۔ خلائی پروگراموں اور راکٹوں کی حصولیابی کے اعتبار سے ساری دنیا کے لیے باعث رشک تھا۔ صد فی صد لوگوں کو روزگار میسر تھا۔ گویا مادی اور ترقی کے ظاہری وسائل کے اعتبار سے کسی چیز کی کمی نہیں تھی، لیکن اس بہتات کے باوجود وہ تیزی سے زوال پذیر ہوا۔ اس کی اصل وجہ گوربا چیف کے نزدیک وہ اخلاقی بحران تھا جس نے سوویت معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔[31] انھوں نے پیروستریکا یعنی دوبارہ ترقی کا راستہ یہی سجھایا کہ ملک میں اخلاقی احیا کی طاقت ور تحریک شروع کی جائے۔[32] |
یہ چارٹ اُس ہمہ گیر اتفاق رائے کو ظاہر کرتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال میں اخلاقی قوت کی مرکزی اہمیت کے حوالے سے پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید اخلاقی زوال ہی کو زوال کا اصل سبب قرار دیتا ہے۔ اسلامی حکما میں قرآن کے اس اصول پر اتفاق رائے کا پایا جانا بالکل فطری اور عین متوقع ہے۔ چناں چہ ابن خلدون ؒ، شاہ ولی اللہؒ اور مولانا مودودیؒ کے افکار کو اوپر بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے ورنہ تمام ہی مسلمان حکما کے نزدیک یہ متفق علیہ بات ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دیگر عالمی مفکرین بھی اب اس اصول کو بڑے پیمانے پر تسلیم کرنے لگے ہیں ،چناں چہ برطانوی(ٹائن بی)، امریکی (ڈورانٹ)، فرانسیسی (لے بان) اور روسی (گوربا چیف) دانش وروں کے خیالات کا مذکورہ خلاصہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب یہ خیال ساری دنیا میں عام ہے۔
اخلاقی قوت: اہم خصوصیات
ا ن مباحث سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اخلاق کس صورت میں قوت بنتے ہیں اور قوموں کی تمکین وترقی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ہمارے خیال میں درج ذیل چار اصول اخلاقی قوت کی واضح صورت گری کرتے ہیں۔
۱۔ اخلاقی قوت اجتماعی اخلاق کا نام ہے جس کا اہم مظہر سماجی معمولات ہوتے ہیں: انفرادی سطح پر افراد میں اخلاقی محاسن کا پایا جانا ایک دوسری چیز ہے۔ متعلقہ افراد ان ذاتی محاسن کی وجہ سے آخرت میں جزا کے مستحق ہوں گے لیکن اس دنیا میں عروج و سربلندی کا تعلق اجتماعی اخلاق سے ہے۔اجتماعی اخلاق کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی رویے پوری قوم میں اس طرح عام ہوجائیں کہ وہ ان کی شناخت اور ان کی پہچان بن جائیں۔ قوم کا اخلاقی شعور پختہ ہو اوراہم اخلاقی قدروں کے سلسلے میں اس کے اندر مکمل اتفاق ہو۔ یہ اتفاق صرف نظریاتی سطح پر نہ ہو بلکہ عمل اور رویے کی سطح پر بھی پوری قوم میں اس حوالے سے یک رنگی پیدا ہوجائے۔ اس کیفیت کے پیدا ہوجانے کے بعد بھی یہ عین ممکن ہے کہ بعض افراد کی ذاتی زندگیوں میں ان کا عکس نظر نہ آئے یا کم نظر آئے لیکن بحیثیت مجموعی قوم کا اجتماعی مزاج ان قدروں کا عکاس ہونا چاہیے۔کسی اخلاقی قدر کے اجتماعی اخلاق بن جانے کا سب سے اہم مظہر یہ ہوتا ہے کہ وہ قدر ایک سماجی معمول (social norm) بن جاتی ہے۔ اس سے انحراف کو سماج برداشت نہیں کرتا اور اس کے نفاذ کے لیے سماج کو جتن کرنے نہیں پڑتے۔ وہ لوگوں کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ایسے معمولات مثبت بھی ہوسکتے ہیں اور منفی یعنی اخلاقی عیوب بھی ہوسکتے ہیں (جیسے ہمارے ملک میں کرپشن کی حیثیت ایک سماجی معمول کی ہے)۔ سماجی معمولات کے نفاذ کے لیے قانون کی طاقت بھی درکار نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات قانون کے خلاف بھی سماجی معمولات عام چلن بنے رہتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے ایسے ہی معمولات کو ’رسوم‘ کہا ہے اور ’صالح ارتفاقات‘کے لیے اچھی ’رسوم‘ کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اجتماعی اخلاق اور سماجی معمولات جتنے صالح، مفید اور نفع بخش ہوں گے، اخلاقی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
۲۔ اجتماعی اخلاق کا تعین مرکزی قدروں (core values)سے ہوتا ہے: ہر سماج اور تہذیبی گروہ کے کچھ تصورات، معمولات (norms)، اخلاقی اقدار اور اصول ہوتے ہیں۔ ان میں بعض قدریں بہت اہم اور اساسی ہوتی ہیں۔ ان پر کسی قسم کی مصالحت کے لیے سماج کبھی تیار نہیں ہوتا۔ یہی قدریں اس کی شناخت بنتی ہیں اور ان سے پورے گروہ کو مشترک مقصد، مشترک سمت اور فلسفہ حیات میسر آتا ہے۔ اسے جدید اصطلاح میں مرکزی اقدار کہا جاتا ہے۔ جدید اجتماعی نفسیات میں مرکزی اقدار کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے کہ کسی انسانی گروہ کے عملی رویے اصلاً مرکزی اقدار ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ قدریں افراد کی نہیں بلکہ پورے سماج کی اجتماعی قدریں ہوتی ہیں۔ ان پر اتفاق کا مطلب محض خیال اور رائے کی سطح کا اتفاق نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج کی متفقہ گہری عملی وابستگی ہوتاہے۔ مثلاًبعض جنگجو سماجوں میں ’بہادری‘ مرکزی قدر ہوتی ہے۔ ’غیرت‘، ’مہمان نوازی‘ وغیرہ بہت سے روایتی قبائلی سماجوں کی مرکزی قدریں ہوتی ہیں۔ جدید مغربی معاشروں میں ’فرد کی آزادی‘،’ اظہار خیال کی آزادی‘، ’جمہوریت ‘ وغیرہ مرکزی قدریں ہیں۔ ان قدروں کے نفاذ کے لیے کسی بیرونی قوت کی ضرورت در پیش نہیں ہوتی۔ بے شک ان قدروں کا عام ہونا، تاریخ کے کسی مرحلے میں مصلحین و قائدین کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن اس کے بعد، ان کی تنفیذ کے لیے وعظ و نصیحت کی بڑی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ وہ قوم کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہی ’انفُس‘ ہے۔ اخلاق اس وقت اخلاقی قوت بنتے ہیں جب مرکزی قدروں کا یہ نظام گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔
۳۔اجتماعی اخلاق، سماجی معمولات اور مرکزی قدروں کا انسانوں کے اجتماعی مفاد سے ہم آہنگ ہونا : اخلاقی قوت بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو قدریں اس طرح کی مرکزی قدروں کی حیثیت اختیار کرلیں وہ ایسی ہوں جن سے عالم انسانیت کی فوز وفلاح اور عملی فائدہ بھی وابستہ ہو۔یعنی ان میں نافعیت کا پہلو ہو۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول قانون بقائے اصلح اور بقائے انفع ایک ہی قانون ہے۔وہی صالحیت مطلوب ہے جو نافع بھی ہو۔ [33] اگر مرکزی قدریں نافع نہ ہوں تو سماجوں کی قوت بننے کے بجائے ان کی کم زوری بن جاتے ہیں۔ ذات پات کی تقسیم کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہندوستانی سماج کی ایک مرکزی قدر ہے لیکن یہ اس کی قوت نہیں کم زوری ہے۔ اس لیے کہ یہ قدر نہ اس کے لیے مفید ہے نہ وسیع تر انسانیت کے لیے اس کا کوئی فائدہ ہے بلکہ اس کے برعکس یہ قدر بدترین ظلم اور انسانوں کی تذلیل کا ذریعہ ہے۔اس لیے یہ مرکزی قدر ایک ایسے اجتماعی اخلاق اور انفُس کی تشکیل کا باعث ہے جو انسانوں کے لیے سراسر نقصان دہ ہے اس لیے یہ کم زوری و زوال کا سبب ہے۔ انفُس کی تبدیلی اصلاً مرکزی قدروں کی تبدیلی ہے۔ مرکزی قدریں جب مثبت رخ پر بدلتی ہیں تو تغییر الله بھی مثبت رخ اختیار کرتی ہے اور عروج وافتخار، امامت و قیادت، عزت و سربلندی، دولت و خوش حالی اور علم ونافعیت کی بلندیوں کی طرف سفر شروع ہوجاتا ہے اور جب مرکزی قدریں منفی سمت میں بدلنے لگتی ہیں، غیر نافع معمولات عام ہونے لگتے ہیں اور اخلاقی عیوب کو مرکزی قدروں کی حیثیت حاصل ہونے لگتی ہے تو زوال و پس ماندگی، ذلت و درماندگی، افلاس و محرومی اورجہالت اور بے فیضی کی کھائیوں میں گرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
۳۔مسلم معاشرے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اجتماعی اخلاق اسلام سے ہم آہنگ ہوں: مرکزی قدروں کے اخلاقی قوت میں ڈھلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سماج کے عقیدے اور تصور حیات سے ہم آہنگ ہوں۔ اگر ان میں کوئی تناقض پایا جائے تو ایسی قدریں قوت نہیں بن سکتیں۔دوسرے سماجوں کے لیے تویہ ہوسکتا ہے کہ مثلاً عفت و عصمت کو وہ مرکزی قدر کی حیثیت نہ دیں لیکن شفافیت اور معاملات میں دیانت کو مرکزی قدر بنائیں اور یہ قدر ان کی قوت بن جائے لیکن مسلم سماج کے لیے یہ نہیں ہوسکتا اس لیے کہ عفت و عصمت کی قدر ہمارے تصور حیات اور عقیدے کا لازمی جز ہے۔ یہی بات ہے جسے مولانا مودودیؒ بنیادی انسانی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔[34] اس لیے مسلم معاشرے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی مرکزی قدریں وہی ہوں جو قرآن تجویز کرتا ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن کے مطابق ایمان، صبر، توکل،عدل و احسان، صداقت،امانت اور عفت یہ اہم ترین اساسی قدریں ہیں۔سورہ نحل کی آیت إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاءِ ذِی الْقُرْبَىٰ وَینْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْی ۚ یعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔النحل: 90)متعدد اسلامی مفکرین کے نزدیک اسلامی اخلاق کا خلاصہ ہے۔[35]اس بنیاد پر ہم اس آیت میں بتائی گئی قدروں کو اہل اسلام کی مرکزی قدریں قرار دے سکتے ہیں۔ مسلم معاشرے کو اخلاقی قوت اس وقت نصیب ہوگی جب یہ قدریں عملاً مرکزی قدریں بن جائیں۔مسلم انفُس میں اس طرح مثبت تبدیلی آئے کہ یہ قدریں ہمارے اجتماعی مزاج میں گہرائی سے پیوست ہوجائیں۔ ان کی بنیادوں پر ہمارے معمولات اور رویے اس طرح تشکیل پائیں کہ یہ قدریں ہماری اجتماعی عادات ثانیہ بن جائیں۔ ان کی خلاف ورزی کا تصور بھی محال ہو اور ان کے نفاذ کے لیے کسی بیرونی تحریک کی ضرورت باقی نہ رہے۔
ان قدروں کے حوالے سے ہندوستانی مسلم معاشرے کی کیا صورت حال ہے؟ ہمارے سماجی معمولات میں وہ کیا امور ہیں جو ہماری اخلاقی قوت کا سبب بنتے ہیں اور وہ کیا امور ہیں جو اخلاقی کم زوری پیدا کرتے ہیں؟ کیا مرکزی قدروں کا کوئی نظام ہمارے یہاں موجود ہے؟ معاصر ترقی یافتہ سماجوں کی کیا اخلاقی خصوصیات ان کی ترقی کا سبب بن رہی ہیں؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے سلسلے میں ہم اپنا تجزیہ اور گذارشات ان شاء اللہ اگلے شمارے میں پیش کریں گے، اور ان کی روشنی میں اخلاقی احیا کا منصوبہ بھی تجویز کریں گے۔ واللہ المستعان۔
[1] مولانا ابوالکلام آزاد (1984) قرآن کا قانون عروج و زوال؛ شاہين بک سينٹر؛ دہلي؛ ص 121
[2] مولانا سيد ابوالاعلي مودودي (2018) بناو اور بگاڑ؛ مرکزي مکتبہ اسلامي پبلشرز؛ نئي دہلي۔
[3] رواہ عبد اللہ بن عمرؓ؛ ابن ماجه (4019)، والطبراني۔ المعجم الأوسط (4671) صححہ الالبانی،صحیح الجامع (7978)
[4] جودت سعید (1998) حتی یغیروا ما بانفسھم؛ موسسۃ الاھراء للنشر والتوزیع، قاھرہ؛
[5] ايضاً ص 31-37
[6] ايضاً ص 43-44
[7] ايضاً ص 38-42
[8] ايضاً ص 45-48
[9] ايضاً ص 49-51
[10] ايضاً ص57-68
[11] ايضاً ص51
[12] أبو حامد محمد بن محمد الغزالي، ربع المہلکات؛ دار المعرفة؛ بيروت؛ ص 53
[13] شبلي نعماني (1902) الغزالي؛ نامي پريس، کان پور؛ ص 81
[14] أبو حامد محمد بن محمد الغزالي، ربع المہلکات؛ دار المعرفة؛ بيروت؛ ص 53-55
[15] احمد بن محمد الفیومی، المصباح المنیر؛ مکتبۃ لبنان؛ ص 396
[16] ایضا؛ ص 386
[17] مولانا امين احسن اصلاحي (2009) تدبر قرآن؛ جلد 3؛ فاران فاونڈيشن، لاہور، ص 357
[18] أبو حامد محمد بن محمد الغزالي، جلد 4؛ دار المعرفة؛ بيروت؛ ص 65-67
[19] قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (ان سے کہو :ہميں ہرگز کوئي (برائي يا بھلائي) نہيں پہنچتي مگر وہ جو اللہ نے ہمارے يے لکھ دي ہے اللہ ہي ہمارا موليٰ ہے، اور اہل ايمان کو اسي پر بھروسا کرنا چاہيے۔التوبة:51)
[20] وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (اور ياد رکھو، تمھارے رب نے خبردار کر ديا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو ميں تم کو اور زيادہ نوازوں گا۔ابراہيم: 7)
[21] یٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا وَّ یَزِدۡکُمۡ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمۡ وَ لَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِیۡنَ (اور اے ميري قوم کے لوگو، اپنے ربّ سے معافي چاہو، پھر اس کي طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاري موجودہ قوت پر مزيد قوت کا اضافہ کرے گا۔)
[22] ملاحظہ ہو:
سيد سعادت اللہ حسيني؛ اشارات؛ زندگي نو؛ نئي دہلي؛ ستمبر 2020 ص 5-18
سيد سعادت اللہ حسيني؛ اشارات؛ زندگي نو؛ نئي دہلي؛ نومبر 2020 ص 5-19
[23] شاہ ولی اللہ الدھلوی (2005) حجۃ اللہ البالغۃ، دارالجیل، الجزء الاول،ص 106—109
[24] ايضاً ص 108
[25] عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون (2006)مقدمۃ ابن خلدون (المحقق: عبد اللہ محمد الدرویش)؛ الجزء الاول؛ دار یعرب؛ دمشق؛ ص 277-278
[26] شاہ ولی اللہ الدھلوی (2005) حجۃ اللہ البالغۃ، دارالجیل، الجزء الاول، ص : 100-101
[27] مولانا سيد ابوالاعلي مودودي(1981) تحريک اور کارکن؛ مرکزي مکتبہ اسلامي، نئي دہلي؛ ص 65-66
[28] Gustave Le Bon (1898) The Psychology of Peoples;The Macmillan; New York USA page 211-218
[29] Arnold J Toynbee (1948)A Study of History; Oxford University Press London; Vol 4, page 133-244
[30] Will Durant and Ariel Durant(1954) The Story of Civilization; Simon and Schuster; New York; Vol. 1, p. 71
[31] MIKHAIL GORBACHEV (1987) PERESTROIKA: New Thinking for Our Country and the Worldº HARPER ‘ ROW, PUBLISHERS, New York page 21
[32] Ibid page 30
[33] مولانا ابوالکلام آزاد (1984) قرآن کا قانون عروج و زوال؛ شاہين بک سينٹر؛ دہلي؛ ص 121
[34] مولانا سيد ابوالاعلي مودودي(1981) تحريک اور کارکن؛ مرکزي مکتبہ اسلامي، نئي دہلي؛ ص 65-66
[35]مثلاً ملاحظہ ہو:
مفتي محمد شفيع (2008)؛ معارف القرآن؛ جلد پنجم؛ مکتبہ معارف القر آن؛ کراچي؛ ص 387-388(تفسير آيت 90 سورة النحل )
مشمولہ: شمارہ نومبر 2023