یہ امر افسوسناک ہے کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کی تابندہ تہذیب، درخشاں تاریخ ، عظیم کارناموں اور ملک پر ان کے احسانات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ برادران وطن روز بروز مسلمانوں کے متعلق غلط فہمیوں کا شکار ہو تے جارہے ہیں ۔آج مسلمانوں کی تصویر کشی ایک ایسی قوم کے طور پر کی جا رہی ہے جو ہندو مخالف ہے جس نے ملک میں لوٹ مار کی ، ظلم و ستم کیا ۔ مندروں کو توڑا اورلوگوں کو جبراََ مسلمان بنایا ۔یہی وجہ ہے کہ برادران وطن کی نئی نسل میں مسلمانوں اور ان کے دور حکمرانی کے تئیں نفرت کے جذبات بڑھ رہے ہیں ۔وہ اس دور کو دور ترقی کے بجائے دور غلامی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس تحریر میں ان احسانات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ملک پر مسلمانوں نے کئے ہیں۔آج ملک کی اکثریت مسلمانوں کے احسانات سے نا واقف ہے انہیں واقف کرانا ایک حقیقت پسند قلمکار کی ذ مہ داری ہے۔
تاریخ کیسے مسخ ہوئی؟
انگریزوںنے ہندو مسلم اتحاد کو نقصان پہنچایا انھوں نے دلوں میں دوریاں پیدا کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔اگر برطانوی دستاویزات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ــ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پرانگریزوں نے کس کس طریقے سے عمل کیا۔چنانچہ لارڈ الگنؔ کے زمانے میں سکریٹری آف ووڈؔ نے اس کو ایک خط مؤرخہ ۳ ماچ ۱۸۶۲ء میں لکھا جس میں وہ کہتا ہے کہ ’’ہم نے ہندوستان میں اب تک اپنا اقتدار اس طرح قائم کر رکھا ہے کہ ہم انھیں (ہندو مسلم کو) ایک دوسرے کے مخالف بناتے رہے ہیں اور اس عمل کو جاری رکھنا چاہئے، اس لئے جہاں تک ممکن ہو اس بات کی پوری کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ یہاں کے لوگوں میں مشترکہ جذبات پیدا نہ ہو سکیں ‘‘۔(۱)
انگریزوں نے ہندو مسلم اتحاد پر پہلا حملہ یہاں کے نصاب تعلیم کی کتابوں میں مسلم حکمرانوں کی شبیہ کو بگاڑ کر کیا ۔ ۲۶ مارچ ۱۸۲۶ء کو ایک دوسرے سکریٹڑی آف اسٹیٹ جارج فرانسسؔ ہملٹن نے لارڈ کرزنؔ کو لکھا :’’میرے خیال میں ہندوستان میں ہماری حکومت کو ابھی خطرہ نہیں لیکن پچاس برس کے بعد یہ خطرہ ضرور سامنے آئے گا چنانچہ آئندہ تعلیم کے پھیلنے سے ہماری حکومت پر مسلسل حملے ہوں گے،لیکن اگر ہم ہندوستان میں تفرقہ پیدا کرتے رہیں تو ہماری حکومت مضبوط رہے گی،اس لئے ہم تعلیمی اداروں میں نصاب کی کتابیں ایسی پڑھائیں گے کہ یہاں کے مختلف فرقوں کے درمیان تفرقہ کی مضبوطی ہو‘‘ (۲) ۔ ہندو ؤں کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں غلط فہمیاں پیدا کرنے میں انگریز کہاں تک کامیاب رہے اس کا اعتراف پروفیسر بی این پانڈے ؔنے ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء میں راجیہ سبھا کی اپنی مفصل تقریر میں کیا ۔ انھوں نے کہا :’’ بد قسمتی سے ہمارے اسکول اور کالجوں میں جو کتابیں پڑھائی جارہی ہیں وہ وہی ہیں جو یورپین مصنفین کی لکھی ہوتی ہیں اور یورپی اساتذہ نے جو کچھ پڑھا یا ہے اس کے اثرات ہندوستانی آج تک دور نہیں کر سکے،ایسی لکھی ہوئی تاریخوں سے جو تأثر پیدا ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمہ کو متأثر کئے ہوئے ہیں،ہندو مسلمانوں کے جذباتوں کو بھڑکانے میں انگریز مؤرخین نے بڑی مدد پہنچائی ہے ،نصاب کی یہ چیزیں عمر کے اس زمانے میں پڑھائی جاتی ہیں جب ذہن پر کسی چیز کا گہر اثر پڑتا ہے پھر اس کا دور ہونا مشکل ہوتا ہے ،توپھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیںکہ ہندوستانی ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے کے عادی ہو گئے اور ان میں باہمی بد اعتمادی پیدا ہو گئی ،ہندو یقین کرنے پر مجبور ہو گئے کہ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومتیںمحض ہوا تھیں ، آج وہ مسلمانوں کی تاریخ پر کوئی فخر نہیںکرتے بلکہ اس کو نظر انداز کرکے اپنی قدیم تاریخ سے ہی سب کچھ سیکھنا چاہتے ہیں‘‘(۳) ۔نصاب تعلیم کی کتابوں سے پیدا ہونے والے خیالات نے ملک کو تعصب کی آگ میں جھونک دیا ہے۔
سرزمین ہند سے مسلمانوں کے روابط
قدیم ہندوستانی کتابوں اور تاریخ اسلامیہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سرزمین ہند سے اسلام اور مسلمانوں کا رشتہ قدیم ہے ۔ مسلمانوں کے خیال کے مطابق انسانیت کی ابتداء جس گوشۂ ارض سے ہوئی وہ ہندوستان ہے ۔ ہندوستان پر پہلا قدم ایک مسلمان نے رکھا اوراسلام کی ابتداء ہندوستان سے ہوئی۔حضرت آدم ؑ کے ہندوستان میں اتارے جانے سے متعلق روایات ’’تاریخ طبری‘‘ میں(۵) حضرت ابن عباس اور حضرت علی سے ’’الکامل فی التاریخ ‘‘ میں(۶)حضرت علی حضرت ابن عباس اورحضرت قتادہ سے اور ’’البدایہ والنہایہ ‘‘میں(۷)حضرت حسن اور حضرت السدی سے نقل کی گئی ہیں۔ ’’سبحۃ المرجان في آثار ہندوستان‘‘ میں مولاناغلام علی آزاد بلگرامی نے اس مضمون کی کئی روایات جمع کر دی ہیں۔
حضرت آدمؑ اور حواؑ سے متعلق اس نوع کے تذکرے سناتن دھرم کی قدیم کتابوں میں ملتے ہیں ۔ جیسے حضرت آدمؑ کی تخلیق،فرشتوں کا انھیں سجدہ کرنا،حضرت آدم سے حضرت حوا کا تخلیق کیا جانا،شیطان کا دونوں کوبہکا کر شجر ممنوعہ چکھوانا اور پھر دنیا میں اتارا جانا۔ ملاحظہ کریں: رگ وید :پہلا منڈل سوتر نمبر۱۰ تا۱۷۔بھوشہ پران پرتی سرگ کا پہلا کھنڈ۔رام چرتر مانس بال کانڈ ،شلوک ۱۴۱ کی پہلی چوپائی ۔ تمام انسان حضرت آدم اور حضرت حوا کی اولاد ہیں تو دنیا کے تمام انسان چاہے وہ جس مذہب کے پیروکار ہوں ان کاآپسی رشتہ خون کا رشتہ ہے ،اور ابتداء میں ایک مذہب تھا’’ اسلام‘‘۔(۸)
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد
عرب و ہند کے تعلقات قدیم ہیں یہ تعلقات زیادہ تر تجارتی ہوا کرتے تھے ۔ہندوستانی بحری سفر کے عادی نہیں تھے اور عرب اس میں مہارت رکھتے تھے اسلئے وہ ہندوستان سے تجارتی سامان خرید کر اپنے ممالک میں لے جاتے اور وہاں سے یورپ پہنچایا کرتے ۔ بعثت محمدی ﷺ کے بعدمسلمان عہد فاروقی میں ۱۵ھ مطابق ۶۲۷ء میں ہندستان آئے ۔ بحرین کے گورنر عثمان بن ابو العاص نے عمان کے راستے ہندوستان کے ساحل سمندر پر اپنا لشکر بھیجا ؓیہ لشکر بمبئی کے مقام ’’تھانہ ‘‘تک آیا حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو اس کارروائی کو ناپسند کیا ۔ اسی زمانے میں کچھ لشکر بہروچ اور دیبل بھی بھیجے گئے لیکن آپ کی ممانعت کے بعد مہم روک دی گئی۔ حضرت عمر ؓ کے عہد میں ہندوستان کے بری راستے بھی معلوم کر لئے گئے جس کے بعد یہاں کے متعلق مفید معلومات حاصل ہوئیں۔(۹)
آٹھویں صدی عیسوی کے شروع میں مکران کے گورنرسید بن اسلم کو شہید کردیا گیا اور ان کے قاتل بھاگ کر راجہ داہر کی پناہ میں آگئے ،داہر نے خلیفہ کے اصرار کے باجود ان قاتلوں کو خلیفہ کے حوالے نہیں کیا۔ ابھی یہ معاملہ ٹھنڈ ا نہیں ہوا تھا کہ ایک عرب قافلے کو جو لنکا کے راجہ کے تحائف حجاج بن یوسف کی خدمت میں لے جا رہا تھا بحری قذاقوں نے لوٹ لیا اور عورتوں وبچوں کو قید کردیا۔ خلیفہ کے بار بار کہنے کے باوجود بھی جب ر اجہ نے کوئی کاروائی نہیں کی تو حجاج نے ۷۱۱ء میں چھ ہزار سپاہی دیکر اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو روانہ کیا ۔انھوں نے اپنی فوجی مہارت سے تھوڑے ہی عرصہ میں دیبل،ؔ نیرو ن ؔ ، سہوؔان ، مہمن آباؔد، اور شمالی پنجاب تک کے علاقوں کو فتح کرلیا ۔
ان علاقوں میں صرف دیبل اور مہن آباد میں لڑائی کی نوبت آئی ،سہوان کے لوگوں نے اپنے ہی راجہ سے بغاوت کر کے محمد بن قاسم کا ساتھ دیا اورنیرون والوں نے صلح کر لی ۷۱۱ء سے ۷۱۴ء تک صرف ۴ سال کے قلیل عرصہ میں محمد بن قاسم ہندوستانیوں کے دلوںکو جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔انھوں نے عدل و انصاف اور مساوات کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ لوگ ان کو دیوتا کا درجہ دینے لگے ۔چنانچہ ان کے جانے کے بعد لوگوں نے ان کا مجسمہ بنا دیا(۱۰) ۔ یہ سب اسلام کے درس مساوات و مواخات کا کمال تھا کیوں کہ مسلمانوں کی آمد سے قبل عوام الناس کی زندگی اجیرن کر دی گئی تھی ۔
ڈاکٹر راجندر پرشاد لکتے ہیں ’’داہر کا باپ راجہ چچ ایک متعصب حکمراں تھا اس نے اپنی رعایا کے ایک حصہ کے لئے سخت اور جابرانہ قوانین نافذ کئے تھے ،انھیں ہتھیار رکھنے،ریشمی کپڑے پہننے اور گھوڑوں پر زین ڈال کر سوار ہونے کی ممانعت کردی تھی ، اور حکم دیا تھا کہ وہ ننگے سر اور ننگے پاؤوں کتوں کو ساتھ لے کر چلا کریں ‘‘ موصوف محمد بن قاسم کی انسانیت نوازی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںــ ’’ مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی اور فیاضی کا سلوک کیا ،مال گزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا ،ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی اور ان پر ایک خفیف سامحصول عائد کیا جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتاتھا ۔ زمینداروں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں (۱۱)۔
محمد بن قاسم کے بعد ہندوستان پر مختلف خاندانوں جیسے غورؔی ،خلجی، تغلقؔ، خاندان غلامانؔ وغیرہ نے حکومت کی ، ان حکمرانوں کی زندگی مثالی نہ تھی اور ان میں سے کچھ اخلاقی خرابیوں کا شکار بھی ہو گئے تھے لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے یہاں کی رعایا سے فیاضی، عدل اور مساوات کا برتاؤکیا ۔ اس پورے دور میں جبراََ تبدیلیٔ مذہب کی ایک بھی مثال نہیں ملتی۔ بزرگان دین نے اسلام تک رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا ۔ان میںخواجہ معین الدین چشتی اور با با فرید قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگان دین کی کوششوں کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔(۱۲)
ہندوستان پر مسلمانوں کے احسانات
خدا شناسی : ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اس کی مٹی میں مذہب شامل ہے۔لیکن دیگر مذاہب کی طرح سناتن دھرم کو بھی تحریف کا شکار بنا یا گیا اور اس میںایک خدا کے ساتھ دیوی دیوتاؤں کو شریک ٹہرا دیا گیا ۔ ہندوستان پر مسلمانوں کا احسان یہ ہے کہ انھوں نے یہاں کے باشندوں کو ان کے مالک حقیقی کا صحیح تعارف کرا یا اورخدا کا پیغام بنا کسی تفریق کے معاشرے کے ہر طبقہ میں سنا یا ۔ مسلمانوں نے ہندوستانیوں کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلا یا جو پہلے پیغمبر حضرت آدم ؑ سے لے کر محمد ﷺ تک ہر نبی نے دیا تھا ۔مشہور مؤرخ ڈاکٹر ایم پانکر لکھتے ہیں ’’ اور یہ بات تو واضح ہے کہ اس عہد میں ہندو مذہب پر اسلام کا گہرااثر پڑا ۔ہندوستان میں خدا پرستی کا تصور اسلام کی بدولت ہی پیدا ہوا ،اور اس زمانے کے مذہبی پیشواؤوں نے اپنے دیوتاؤوں کا نام چاہے جو بھی رکھا ہو خدا پرستی کی ہی تعلیم دی ،یعنی خدا ایک ہے وہی عبادت کے لائق ہے اسی کے ذریعے ہم کو نجات مل سکتی ہے(۱۳)۔
مسلمانوں کے پیغام توحید نے لاکھوں دلوں کو اسلام سے منور کیا۔،لاکھوں کفروشرک سے تائب ہوئے۔مسلمانوں کے اثر سے ہندو قوم میں بہت سے مصلح کھڑے ہوئے اور قوم کو بت پرستی سے نکالنے کی کوشش کی، بھگت کبیر اورگرو نانک نے ایک خدا کی عبادت پر زور دیا ۔شنکر آچاریہ،دیانند اور رامانند نے بت پرستی کے خلاف آواز اٹھا ئی۔ سکھ مت،آریہ پریوار،بابامینشن سمیت تحریکات پر مسلمانوںکے اثرات نمایاں ہیں۔
اخوت و مساوات : مسلمانوں کا احسان یہ ہے کہ انھوں نے اجتماعی و معاشرتی زندگی میں اخوت و مساوات کا تصور پیش کیا۔ یہاں اونچ نیچ اور ذات پات کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے پیش کردہ تصور مساوات نے طبقاتی نظام کی جڑیں کھوکھلی کر دیں اور ملک میں اس ظالمانہ طبقاتی تقسیم کے خلاف رد عمل شروع ہو گیا ۔ہندوستان میں جس قدر اظہاررائے کی آزادی ہے مسلمانوں کی دین ہے ورنہ یہاں اونچے طبقہ سے بغاوت کی سزا موت تھی ۔منو اسمرتی میں ہے کہ ’’ ایک شودر اگر دویج کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی زبان کاٹ دی جائے کیونکہ وہ برہما کے حصۂ اسفل سے پیدا ہوا ہے ‘‘ (۱۵)۔لیکن اسلام نے یہ نظام بدل دیا ۔پنڈت جواہر لعل نہرو لکھتے ہیں’’اسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے ، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندوستانی سماج میںپیدا ہو گئی تھیں یعنی ذات کی تفریق اور چھوت چھات اور انتہائی درجہ کی خلوت پسندی ،ان سب کو بالکل آشکار کر دیا،اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤوں کے ذہن میں بڑا اثر ڈالا ،وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حق سے محروم تھے اس سے بہت متأثر ہوئے‘‘(۱۶ )۔
اپنی مسلم دشمنی کے باوجود انگریز مؤرخ ڈاکٹر سرولیم ہنٹر اس حقیقت کا اعتراف کر تے ہوئے کہتا ہے ’’ ہندوؤں نے دہانۂ گنگا کی قدیم قوموں کو کبھی اپنی برادری میں شامل نہیں کیا ،مسلمانو ں نے جملہ انسانی مراعات کو برہمنوں اور اچھوتوں دونوں کے سامنے یکساں طور پر پیش کیا ، ان پر جوش مبلغوں نے ہر جگہ یہ پیغام سنا یا کہ ہر شخص کو خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں جھک جانا چاہئے ،خدائے واحد کے سامنے تمام انسان برابرہیں اور مٹی کے ذروں کی طرح سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے ‘‘ (۱۷)۔
عدل وانصاف کا قیام : مسلمانوں کا یہ بڑا احسان ہے کہ انھوں نے مختلف طبقات کو انصاف فراہم کیا۔ ان کے دور میں عوام خوشحال تھے اور ملک میں امن امان قائم تھا۔اس کی بنیادی وجہ مسلم حکمرانوں کا عد ل وانصاف تھا۔وہ مظلوم کی فریاد رسی کرتے اور اس کو انصاف دلا تے۔جہانگیر نے اپنے آگرہ کے قلعے کے باہر فریادیوں کے لئے ایک زنجیر لٹکا رکھی تھی جس کو زنجیر عدل کہا جاتا تھا ۔فریادی دن رات میںکسی بھی وقت اس کو کھینچتا اوراسی وقت اس کی فریاد رسی کی جاتی۔ نشہ آور اشیاء پر پابندی لگا دی تھی۔اورنگ زیب نے اس میں اور سختی سے کام لیا۔
شیر شاہ سوری کا یہ عمل تھا کہ اگر کسی علاقہ میںڈاکہ زنی ہوجاتی تو اس نقصان کی تلافی اس کے قرب و جوار کے علاقے والے کرتے ،کہ ان کی موجودگی میں ڈاکوؤں کی جرأت کیسے ہوئی؟۔اس قانون کی بدولت عوام خود ایک دوسرے کے محافظ بن گئے اور رہزنی کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ ایک مرتبہ شیر شاہ سوری کے سپاہی نے کسی کے کھیت کی بالی توڑ لی ۔شیر شاہ کو علم ہوا تو اس کی ناک چھیدوا کر اس میں اس بالی کو پرو دیا۔اورنگ زیب نے محکمۂ احتساب قائم کیا جو ملک میں برے کاموں کی روک تھام کرتا تھا۔ اس نے شاہی خاندان کے تمام لوگوںکو قانون کا پابند کیا۔ کہ ان میں سے کوئی بھی عوام کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا تھا۔(۱۸)
عورتوں کے حقوق کی بازیابی: ایک بڑا احسان جو مسلمانوں نے کیا وہ عورتوں کی عزت بحال کرنا تھا اور اس کے حقوق کا اعتراف تھا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا تھا ۔غلاموں کی طرح لوگ بیویوں کو فروخت کر دیتے تھے ۔ کورؤوں نے جوے میں اپنی بیویوں کو پانڈؤوں کے پاس رہن رکھ دیا تھا جنھیں بعد میں وہ ہار بیٹھے تھے۔ معاشرے میں عورت ذلیل شوہر کی موت کے بعد ستی ہو کر جل جانا ہی اس کو وفاداری کی سند دلا سکتا تھا بیوہ عورت دوسرا نکاح نہ کر سکتی تھی۔
ہندو مذہبی کتب کے ماہرجناب کے ایم سنت صاحب لکھتے ہیں’’عورتوں سے غیر اخلاقی حرکتیں کروائی جاتی تھیں مثلاََ شوہر کی موت کے بعد شوہر کے کسی قریبی رشتہ دار کو اس کی بیوہ سے ناجائز تعلق قائم کر کے اولاد کے حصول کا حق حاصل تھا ،بیوہ کی زندگی جانور سے بد تر ہو جاتی تھی، نہ تو اس کو نکاح ثانی کا حق تھا اور نہ ہی وہ معاشرہ میں چین و سکون سے زندگی گزار سکتی تھی بلکہ وہ اپنی سسرال والوں کی نظر میں منحوس قرار پاتی تھی ‘‘(۱۹)۔ایسے ماحول میں مسلمان ہندوستان آئے تو اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو آشنا کیا، رسومات کی اصلاح میں مسلم حکمرانوں کا بڑا کردار ہے ، مشہور سیاح ڈاکٹر برنیر جو مسلمانوں کے شروعاتی دور میں ہندوستان آیا تھا لکھتا ہے’’ آج کل پہلے کے مقابلے ستی کی تعداد کم ہو گئی ہے کیونکہ مسلمان جو اس ملک کے فرمانروا ہیں اس وحشیانہ رسم کو نیست و نابود کرنے کی حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں ،لیکن ان علاقوں میں جہاں کے صوبہ دار مسلمان نہیں بلکہ ہندو ہیں یہ رسم اب بھی موجود ہے ‘‘ (۲۰)۔ مسلمانوں کی انھیں کوششوںکے نتیجہ میں یہاں کے مختلف طبقات میں بیداری آئی اور انھوں نے عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا۔
مذہبی ومعاشرتی اصلاح: مسلمانوں نے تہذیب و تمدن میں بڑا اصلاحی کام کیا جس سےلوگ ناروا معاشرتی قیدوں سے آزاد ہوگئے لوگ طرح طرح کے توہمات کے شکار تھے، مثلا بلی کا راستہ کاٹنا۔ چوڑیوں کا ٹوٹنا۔ سندور کا گرجانا۔گھرکی چھت پر الو یا کوے کا بیٹھنا وغیر ہ ۔یہ سب اپشگون کی علامات تھیں۔اگر کسی کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو اس کے پیروں تلے زمین نکل جاتی اور وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہوجاتا۔ اسی طرح پجاریوں نے بہت سے ایسے شگون رائج کر رکھے تھے جن کی کوئی اصل نہیں تھی اور ان کے رونما ہونے پر صرف پجاری ہی ان کے برے اثرات کوزائل کر سکتے تھے ۔اس طرح وہ لوگوں سے منھ مانگی رقمیں وصول کیا کرتے تھے۔مسلمانوں نے عوام کو اس توہماتی فریب سے نکالا اور حقیقت حال سے واقف کیا۔
ڈاکٹر تاراچند لکھتے ہیں:’’مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان میں ایک نیا مخلوط تمدن پیدا ہوا ۔ہندو آرٹ،ہندو ادب،ہندو سائنس اور ہندو طب نے ا سلامی اثرات قبول کرنے شروع کئے۔ہندو کلچر اور ہندو ذہنیت میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی ۔ مہاراشٹر ،پنجاب،گجرات اوربنگال کے مذہبی پیشواؤں نے پرا نے اعتقادات کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔مسلمانوں کے اثرات سے نہ صرف ہندوستا ن کی اقتصادی زندگی بلکہ یہاںکی معاشرت اور سیاست میں بھی کافی انقلابات پیدا ہوئے ۔ اسلام کی معاشرتی زندگی جمہوریت پر مبنی ہے اور مسلمانوں میں نسل اور خاندان کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ۔ اس سے ہندو بھی متأثر ہوئے اور انھوں نے معاشرتی بندوں توڑ کر مساوات پیدا کرنے کی کوششیں شروع کیں‘‘۔(۲۱)
خارجی دنیا سے ہندوستان کے روابط
مسلمانوں کی آمد سے قبل خارجی دنیا سے ہندوستان کا رابطہ بہت محدود تھا لیکن مسلمانوں نے خارجی دنیا سے بہت وسیع پیمانے پر رابطے قائم کئے۔ ہندوستان اپنے بہترین کپڑے ،چینی کے برتن ،پرچہ بافی،کاغذ،اور اناج دنیا کے مختلف ممالک کو در آمد کر نے لگا۔عالمی تجارت میں ہندوستان نے اچھا رول ادا کیا جس کی بدولت دنیا بھر میں ہندوستان عزت کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ہندوستان کے کپڑوں کی شہرت کا عالم یہ تھاکہ یورپ سے جاپان تک لوگ اپنے یہاں کے کپڑوں کو بھول گئے،یہاں کا سونامشہور ہوا ہندوستان سونے کی چڑیا کے نام سے پہچانا جانے لگا ، سلطان محمد بن شاہ گجراتی کے دور میںیہاں روزگار کے مواقع اس قدر بڑھ گئے کہ ایران وسمرقند کے معمار اور فنکار جوق در جوق یہاں کا رخ کرنے لگے،عرب دنیا سے ہندوستان کا رشتہ تو بہت قدیم تھا لیکن یہاں مسلمانوں کے اقتدار کے باعث یہ رشتہ مستحکم ہو گیا ۔(۲۲)
ایک متحدہ عظیم ہندوستان کی تشکیل
مسلمان جب یہاں آئے تو پوراہندوستان چھوٹے چھوٹے علاقوںمیں منقسم تھا ہر علاقہ کا الگ راجہ ہوا کرتا جس کی اس علاقہ میں خود مختار حکومت ہوتی ،یہ راجہ آپس میں لڑتے رہتے اور ایک دوسرے کی حکومت پر قبضہ کے در پے رہتے۔مسلمان حکمرانوں نے ان علاقوں کو فتح کر کے ایک عظیم ہندوستان کی بنیاد رکھی ۔چنانچہ شیر شاہ سوری نے اپنی فوج کے بندوقچیوںمیںبڑی تعداد ہندوؤں کی رکھی، مسلمانوں کوہندی علوم و فنون سے اور ہندؤوں کو مسلم علوم و فنون سے قریب کر نے کی کوششیں کیں ، اورنگ زیب ہندوستان کے تمام دور دراز علاقوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوگیا،اس کے زمانے کا ہندوستان تاریخ بر صغیر کا سب سے عظیم ملک تھا (۲۳)۔
عسکری احسانات
مسلمانوں نے ہندوستان کی فوج کو ترقی دی ،اسے طاقتور اور منظم کیا۔ ہندوستان کا بحری بیڑہ مسلمانوں نے ہی تشکیل دیا ۔ توپوں کاباقاعدہ استعمال ابراہیم لودھی نے شروع کیا۔حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے راکٹ ایجاد کیا ۔امریکی خلائی کمپنی ناسا میں حیدر علی اور سلطان ٹیپو کا نام راکٹ کے موجدین کی حیثیت سے آج بھی درج ہے۔ٹیپو سلطان نے جہاز سازی کی بنیاد ڈالی اور اس کے کارخانے بنوائے۔ انھوں نے پانی سے چلنے والا انجن ایجاد کیا۔لودھی حکومت سے ٹیپو سلطان تک کے طویل عرصہ تک عثمانی فوج کے بعد ہندوستانی فوج دنیا کی طاقتور ترین فوج تھی۔صرف محمود غزنوی کی فوج میں ہی ایک لاکھ پیدل،پچاس ہزار سوار،اور تین ہزار جنگی ہاتھی تھے ۔مسلمانوں نے جنگ کے نئے انداز سکھائے،حصار بندی،منجنیق بازی،سواروں کے دستوں کا استعمال،بارود کا رواج،یہ سب مسلمانوں نےشروع کیا۔
علمی احسانات
ہندوستان پر مسلمانوںکا بڑا احسان یہ ہے کہ ملک کو نئے علوم سے آشنا کیا اور قدیم علوم و فنون میں وسعت پیدا کی ، مسلمانوں سے پہلے جن علوم کی تعلیم رائج تھی ان کی فہرست مختصر تھی مسلمانوں نے اس میں اضافہ کیا اور ہندوستان کو علم کا گہوارہ بنا دیا ۔
تعلیم کی آزادی : مسلمان ہندوستان آئے تو انھوں نے علوم و فنون سے اجارہ داری کا خاتمہ کیا۔
مسلمانوں نے ہندوستانی علوم و فنون کا دنیا بھرمیں تعارف کرا یا مسلم حکمرانوں نے دارالترجمے قائم کئے اور وہاں سنسکرت کی بڑی کتابوں کو فارسی میں منتقل کروایا۔اکبر نے باقاعدہ ہندو فاضلوں کو اس کام پر مامور کیا ۔مولانا سید صباح الدین عبدالرحمٰن نے اس پر بڑی تحقیقی بحث کی ہے اور ان مترجمین اور ان کے ترجموں کی طویل فہرست پیش کی ہے۔(۲۵)
علم تاریخ : مسلمانوں کا بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے ہندوستان کو علم تاریخ سے روشناس کیا چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے یہاں جو علوم و فنون منتقل کئے ان میں تاریخ کا علم سب سے اہم ہے ۔ہندوستان اس میدان میں تہی دامن تھایہاں کی کوئی کتاب تاریخی کتاب کہلانے کی مستحق نہیں تھی ۔ بقول سید سلیمان ندویؒ یہاں صرف مذہبی نوشتے، رزمیہ قصائد اور رامائن و مہا بھارت کے نسخے ملتے تھے، مسلمانوں نے یہاں فن تاریخ کا ایک مستقل کتب خانہ تیار کیا،حقیقت یہ ہے کہ یہاں علم تاریخ کے موجد مسلمان ہی ہیں اسی لئے مسلمانوں کی آمد سے قبل کی ہندوستانی تاریخ کا پتہ لگا نا بہت مشکل ہے ۔ڈاکٹر کٹاؤلی بان اپنی کتاب ’’تمدن ہند‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ہندوستان کا تاریخی زمانہ فی الواقع مسلمانوں کی فوج کشی کے بعد شروع ہوا اور ہندوستان کے پہلے مؤرخ مسلمان تھے ‘‘(۲۶)
البیرونی کا کارنامہ : ہندوستان کے تاریخ وتمدن اور یہاں کے قدیم علوم کو محفوظ کرنے میں البیرونی کا بڑا کردار ہے جو محمود غزنوی کے دور حکومت میں ہندوستان آیا تھا ، اس نے ملک کا دورہ کر کے ہندوستانی علوم و فنون کا مطالعہ کیا ،اس نے ’’کتاب الہند‘‘ لکھ کرہندوؤںاور غیر ہندوؤں کو ہندوستانی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن سے آشنا کیا۔ اس نے ہندی علوم و فنون کے فروغ میں کا فی کوششیں کیں ۔ البیرونی کے ذریعہ برہمنوں نے عربوں کی تحقیقات اور علوم و فنون سے استفادہ کیا۔
تمدن ہند کا فرنچ مصنف’’ موسیولیف‘‘ شہادت دیتا ہے کہ’’گیارہویں صدی کے بعد سے کہنا چاہئے کہ ہندی علوم سے مراد عربی علوم ہیں ،بس ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندی علوم جن کی ابتداء پانچوی صدی عیسوی کی ریاضیات سے ہوئی اور پھر ساتویں صدی میں برہم گپت نے ان میں اضافہ کیا ان ہی مسائل سے بحث کرتے ہیں جو ہند میں یونانی اور مسلمان ان دونوں کے ذریعے آئے‘‘۔(۲۷)
علم طب کی تجدید : ہندوستان قدیم دور سے علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے ،علم ہیئت، علم نجوم ،اور علم حساب میں ہندوستان کو ایک خاص مقام حاصل تھا یونانیوںکی طب کے بعد یہاں کی آیور وید کا نمبر آتا تھا ،چنانچہ ۷۷۱ء میں ایک ہندو پنڈت کی علم ہیئت پر تصنیف ’’سدھانت‘‘ جب بغداد پہنچی تو مسلمانوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا ، اس کا تر جمہ کیا ،اس پر مزید تحقیقات کیں ،۔مشہور ہے کہ عربوں نے’’ ہندسے‘‘ ہندوستان سے لئے ہیں اسلئے انھیں ’’ارقام ہندیہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ خلیفہ ہارون رشید بیمار ہوا تو ہندوستان کے’’ منکہ‘‘ نامی طبیب نے اس کا کامیاب علاج کیا، جس کے بعد ہارون نے اسے دارالترجمہ میں سنسکرت کتابوں کے عربی ترجمہ کی ذمہ داری دی ۔ کئی کتابیں جیسے ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ ’’بوداسف ‘‘ ’’بلوہراہم‘‘ عربی میں منتقل کی گئیں۔
مسلمانوں نے یہاں کی قدیم طبی کتابوں جیسے ’’سدھانت‘‘ اور چرکا اورششتروغیرہ پر تحقیق کی اور ایک جدید طب کی بنیاد رکھی ۔سکندر لودھی نے طب ہندی کو فارسی میں منتقل کروایا اور اس کا نام ’’معدن الشفاء سکندرشاہی‘‘ رکھا۔مسلمانوں سے قبل یہاں کے لوگ صرف ہندوستانی جڑی بوٹیوں سے واقف تھے جبکہ طب اسلامی بشمول ہندوستان و یونان دنیا بھر کی جڑی بوٹیوں پر تجربات کر چکی تھی اور اندلس میں ایک جدید طب کی بنیاد دالی جاچکی تھی مسلمانوںنے ان تمام تجربات و مشاہدات کو یہاں عملی جامہ پہنایا اور ہزاروں نئی جڑی بوٹیوں کو متعارف کرایا،انھوں نے یہاں کے طریقۂ علاج کو ترقی دی اوردواؤں کی ترتیب عرق،معجون اور سفوف کوطب ہندی میں شامل کیا ۔چیچک وغیرہ متعد بیماریاں جن کو یہاں دیوتاؤں اور بھوت پریت کا اثر سمجھا جاتا تھا ان کا علاج متعارف کرایا ۔مسلمانوں کی انھیں کوششوں کی بدولت ہندوستان کا علم طب یونان کے علم طب پر بازی لے گیا ۔(۲۸)
قومی و علاقائی زبانوںکی ترقی: مسلمانوں نے ہندی اور سنسکرت کو فروغ دیا اور علاقائی زبانوں کو ترقی کے مواقع فراہم کئے۔مسلمانوں نے ہندی شاعری کی حوصلہ افزائی کی ۔ہری داس ،ہرمانند،چھیت سوامی،جے بھگت ، جیسے نامور شعراء مسلمانوں کے دور میں بام عروج کو پہنچے۔ اکبر نے ہندی پر خاص توجہ دی اس نے اپنے دربار میں فارسی شعراء کی طرح ہندی شعراء کو بھی بڑا مقام دیا۔ وہ خود بھی ہندی اشعار کہا کرتا تھا اس نے اپنا تخلص کرن رکھا تھا۔(۲۹)
ہندوستان کی علاقائی زبانوں کے بڑے شعراء وادباء کا تعلق مسلمانوں کے دور سے ہے ۔جیسے پشتو کے باوا آدم خوشحال خان کٹک ۱۱۰۰ھ۔پشتو کے عظیم شاعررحمان بابا۱۱۱۸ھ۔پنجابی کے مشہور شعراء گرونانک ،سلطان باہو۱۶۹۱ء ۔بھلے شاہ ۱۷۸۵ء اور وارث شاہ۔سندھی کے شاعراعظم عبد اللطیف۱۶۸۹ء۔بنگالی کے مشہور شعراء دولت قاضی اور ہلاول۔ بنگالی کے عظیم ادباء کاشی رام اور مکنند۔گجراتی کی مشہورشخصیت پرمانند۱۷۳۴ء۔مرہٹی عظیم شاعرراموداس۱۶۸۱ء۔ اور دیگر مقامی زبانوں کے سینکڑوں شعراء و ادباء مسلمانوں کی زیر سرپرستی پروان چڑھے۔(۳۰)
نئے اسالیب : مسلمانوں کے بدولت ہندوستان کو وسعت خیالی،ندرت فکر اور شعر و ادب کے اسالیب ملے ۔ مسلمانوں کے اثر سے یہاں عربی فارسی زبانیں متعارف ہوئیں اور فارسی حکمرانوں کی دفتری زبان بنی تو ہندو بھی بکثرت اسے سیکھنے لگے اور اس میں حد کمال تک جا پہنچے ۔ فارسی کے بڑے شعراء و ادباء میں اورفارسی کے علماء عقلیہ،مؤرخین، لغت نویس اور مترجمین میں ہندؤوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے(۳۱)۔فارسی کے ساتھ مسلمانوں نے ملک کو ایک نہایت حسین اور وسیع زبان کی جو ہندوستان کی مختلف قوموں میں تبادلۂ خیال کا ذریعہ بنی۔اس سے مراد اردو زبان ہے ،جس کی وسعت اور شیرینی محتاج تعارف نہیں،اردو آج دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔
تعلیم کی سرپرستی: مسلمانوں نے ملک میں تعلیم کو عام کیا اس کے فروغ کے لئے کوشش کی ہندوؤں میں نام نہاد نچلی ذاتیں تعلیم سے محروم تھیں ان کومواقع فراہم کیے۔ تعلیم کو مفت کردیا ۔طالب علموں کی حوصلہ افزائی کی اور وظائف مقرر کئے۔ملک میں علمی ماحول پیدا ہوا اور نچلی ذاتیں بھی تعلیمی میدان ترقی کرنے لگیں۔ مسلمانوں نے کتب خانے بنوائے ان میں ہندی ،عربی اور یونانی علوم و فنون کی کتابیں جمع کی گئیں،جس سے ہندوستانیوں کو ایک نئی علمی پرواز ملی۔(۳۲)
تہذیب و تمدن
اس ملک کی تہذیب و تمدن ،صنعت و حرفت اور زندگی کے طور طریقوں پر مسلمانوں کی چھاپ گہری نظر آتی ہے۔انھوں نے ملک میں انقلاب برپا کیا۔ ڈاکٹر بی این پانڈے کہتے ہیں:’’ مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالا مال کر دیا ہے اور ہمارے نظم و کلچر کو مضبوط و مستحکم بنا یا ہے۔نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے سے قریب کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس ملک کی اجتماعی زندگی مین ان کی چھاپ نہایت گہری نظر آتی ہے‘‘۔(۳۳)
مسلمانوں نے ہندوستانیوں کو نئے لباس دیئے۔ دھوتی ،پاجامہ، دستار ، کلاہ اور شیروانی کا مردوں میں اورشلوار،غرارہ،قمیص دوپٹے کا عورتوں مین رواج ہوا۔جسم کو مکمل ڈھانکنے کا رواج ہوا۔طرح طرح کے چپل اور جوتے متعارف ہوئے۔مسلمانوں نے کھانے پینے کی تہذیب کو بھی تبدیل کیا ۔یہاں عام طور سے سبزی ترکاریاں اور چاول کا رواج تھا انھوں نے پلاؤ،زردہ،قورمہ،بریانی ،مختلف انواع کے گوشت اورانواع واقسام کے کھانے ایجاد کئے۔انھوں نے ایک دسترخوان پر بیٹھنے کا رواج دیا۔پلیٹ رکابیاں اور برتن ایجاد کئے۔ہاتھ دھونے کے لئے لوٹے اور آفتابے رائج کئے۔یہاںنیچی چھت کے اور بغیر صحن کے مکانوں کا رواج تھا جن میںروشنی اور ہوا مناسب مقدار سے نہیں آیا کرتی تھی۔انھوں نے اونچے دروازوں اور اور بڑے دالانوں کا رواج دیا۔مکانوں میں ہوا و روشنی کا خاص اہتمام کیا ، مردانہ اور زنانہ حصوں کو علیحدہ کیا ،بارہ دری،خانہ،باغ،حوض،فوارے،اور چمن ایجاد کئے۔لاہور اور کشمیر کے شالی مار باغ اور نشاط باغ اس کی بہترین نظیر ہیں(۳۵)۔سولہویں اور سترویں صدی میں دنیا کا کوئی بھی ملک اس لحاظ سے ہندوستان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔
فن مصوری : ہندوستان فن مصوری میں بڑا مقام رکھتا تھا اور اس معاملے میں مصر سے پیچھے نہیں تھا۔ یہاں کے فن کار اپنے فن سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے مسلمانوں نے اس فن کو ایک نئی شکل دی انھوں نے فن کا اظہار تصاویر اور مجسمات کے بجائے نقش و نگار،بیل بوٹوں ،پھول پتیوں،اور قدرت کے حسین مناظر کے ذریعے کرنا سکھایا ۔مسلمانوں سے پہلے تصاویر دیواروں پر بنا نے کا رواج تھا ۔ مسلمانوں نے کاغذی تصاویر کی ابتداء کی جس کے ذریعہ سے ایسا فن پیدا ہوا کہ بقول جدوناتھ سرکار ــ’’رنگ آمیزی،باریکی،نزاکت،مرصع کاری اور فطرت نگاری میں بڑا کمال پیدا کیا‘‘انھوںنے ملک کے کونے کونے میں جدید قسم کے آرٹ اسکول قائم کروائے جن میں جدید طرز کے فنون سکھائے جاتے تھے۔(۳۶)
ہندوستانی صنعت: آج سے گیارہ سو سال قبل گجرات کے ایک حکمراں سلطان محمد بن شاہ گجراتی نے ہندوستان کی بنی اشیاء میک ان انڈیا کا نظریہ متعارف کرایا اور اس خاکہ میں عملی رنگ بھی بھر کے دکھا یا ۔ ایران و ترکستان کے معماروںاور صنعت و حرفت کے ماہرین کو ہندوستان بلواکر ہندوستانی صنعت کو ترقی دی تھی۔ عمدہ وباریک کپڑوں کی صنعت کو فروغ دیا ۔ کارخانے لگوائے اوررنگائی،چھپائی اور ڈیزائن تیار کرنے کاکام شروع کرایا جس سے ہندوستان عالمی بازار میں صف اول کے ممالک میں شامل ہوگیا ۔
صنعت و حرفت میں ترقی
مسلمانوں نے اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں سے ایک بنا دیا بلکہ کپڑے ،کاغذ اور چمڑے کی صنعتوں میںاسے درجۂ امامت تک پہنچا دیا ۔ چمڑے کی رنگائی،مختلف انواع کی شکر ،سوتی اونی اور ریشمی کپڑے دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔مسلم حکمرانوں نے سمرقند و ایران سے نئے کاریگروں کو بلوا کر نئی صنعتیں شروع کیں ۔ دہلی،آگرہ،سرینگر،لاہور،احمدآباد،اورنگ آباد،بنگال اور ڈھاکہ دنیا کے بڑے مرکز بن گئے۔یہاں ۲۰ سے زائد قسم کے سوتی اور ۲۴ سے زائد قسم کے اونی کپڑوں کے کارخانے بنا ئے گئے۔اورنگ زیب کے زمانے میںڈھاکہ کی مشہور ململ تیار ہونے لگی جو اتنی نرم ہوتی تھی کہ ایک انگوٹھی کے اندر سے پورا ایک تھان نکل جاتا تھا ۔ انگریز سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں ہندوستانی کپڑوں کو دنیا کے بہترین کپڑے بتا یا ہے۔یہ کپڑے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پہلی پسند بن گئے۔ (۳۷)
کاغذ کی صنعت: البیرونی کے بیان کے مطابق ہندوستان میں کاغذ نہیں ہوتا تھا ۔لکھنے کے لئے بھوج پتر (تاڑ کے پتوں ) کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ہندوستان میں کاغذ کا تعارف مسلمانوں کے ذریعہ ہوا جب عہد عباسی میں دوسری صدی ہجری میں عرب تاجرسندھ میں کاغذ لیکر آئے ۔پھر بتدریج سے چھٹی صدی ہجری تک ہندوستان کاغذسازی کا بڑا مرکز بن گیا ۔کشمیر۔دولت آباد ۔عظیم آباد۔ہرش آباد ۔ اورگجرات سمیت بڑے مراکز تھے جہاں سے کا غذ عرب شام اور ایشیائے کوچک تک جایا کرتا تھا ۔ کاغذسازی میں ہندوستان کا شمار صف اول کے ممالک میں ہونے لگا۔ اس سے علوم کو ترقی ہوئی ۔ کتابیں بکثرت لکھی اور چھاپی جانے لگیں اور علم کا حصول آسان ہوگیا ۔(۳۸)
فن تعمیر کی تجدید
مسلمانوں نے فن تعمیر کو عروج کمال تک پہنچا دیا۔ہندوستانی معمار چونے کے استعمال سے تقریبا نابلد تھے مسلمانوں نے انھیں چونے کا استعمال سکھایا اورعمارتوں کو جوڑنے والے مصالحوں سے آشنا کیا ۔ اسی طرح مینار،محراب،گنبد،لداؤ والی چھتیں اور خطاطی ،یہ تمام خصوصیات مسلمان معماروںاور فنکاروں نے پیدا کیں ۔ انھوںنے ہندو طرز تعمیر کی بعض خصوصیات بھی اختیار کیں اور ان کو اپنے فن میں ایسا سمویا کہ وہ اسی فن کا جزء لاینفک ہوکر رہ گئیں۔چنانچہ یہ مشترکہ فن تعمیر مسلم فن تعمیر قرار پایا اور ماہرین فن نے اس کو دنیاء اسلام کے فن تعمیر میں سے ایک خاص اسکول کی حیثیت سے جگہ دی۔ (۳۹)
تعمیرات: مسلمانوں نے فن تعمیر کے جو نمونے چھوڑے انھوں نے دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کیا ۔ آج ہر ہندوستانی ان پرفخر کرتا ہے اور ان کے معماروںکو عزت سے یاد کرتا ہے۔تاج محل جو دنیا کی ممتاز عمارت ہے اور اعجب العجائب کہلاتی ہے۔ دہلی کا لال قلعہ،آگرہ کا قلعہ،قطب مینار،دہلی کی جامع مسجد،لاہو ر اورسری نگر کے قلعے،ہمایوں کا مقبرہ اور فتحپور سیکری کی مسجد کے علاوہ عمارتوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جو مسلمانوں کے فن تعمیر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
شہروں کا قیام: شہروں کو آباد کرنے اور انھیں تجارتی و عملی مرکز بنانے میں مسلمانوں کو مہارت حاصل تھی۔مسلمانوں میںاس کی ابتداء حضرت عمر ؓنے کی انھوں نے دور خلافت میں کئی نئے شہر آباد کئے۔اس کے بعد خلافت راشدہ،خلافت امویہ،خلافت عباسیہ میں بھی نئے شہروں کی آبادکاری ہوتی رہی ۔وہ علاقے جو مسلمان کے زیر نگیں آجاتے ان کو ترقی کا پروانہ مل جاتا ۔اسی طرح ہمارے ملک میں مسلمانوں نے جو شہر آباد کئے ان میں شاہجہان آباد(دہلی)۔ فتحپور سیکری۔اورنگ آباد۔ ڈھاکہ ۔ گجرات وغیرہ شامل ہیں۔
رفاہی خدمات: مسلمانوں نے ملک میں رفاہی کاموں کا جال بچھا دیا۔انھوں نے تالاب اور نہریں کھدوائی ،نہروں اور دریائو ں پر پل تعمیر کروائے ،بڑی شاہراہیں بنوائیں،سڑکوں کے دونوں جانب سایہ دار درخت لگوائے۔،سڑکوں اور گلیوں کی صفائی کا اہتمام کیا، حمام بنوائے، سرائے تعمیر کرائے،محتاجوں ،بیواؤں اور یتیموں کے وظیفے مقرر کئے،طالب علموں کی تعلیم کا بوجھ برداشت کیا ، ملک میں تعلیم کو مفت کردیا،بڑے بڑے شفا خانے قائم کئے جن مین مفت علاج ہوتا تھا۔محتاج خانے قائم کئے۔ ملک کے گوشے گوشے میںلنگر خانوں کا جال پھیلادیا گیاکہ ملک کا کوئی شہری بھوکا نہ رہے۔(۴۰)
فارغ البالی
خوشحالی کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اشیاء ضروریہ ہر کس و ناکس کو بآ سانی میسر ہوسکیں۔مسلمانوں کادور حکومت اس اعتبار سے کامیاب رہا ،انھوں نے بیروزگار ی کے خاتمہ کے لئے حکمتیں اپنائیں، اشیاء کی قیمتوں کی تعیین کی،سودی قرضوں پر پابندی لگا ئی ،دنیا کی سب سے سستی چیزین ہندوستان میں ملا کرتی تھیں ۔اس کا اندازہ اورنگ زیب کے زمانے کی بعض چیزوں کی قیمتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔اس کے دور میں مچھلی تین آنے کی دس سیر۔مکھن دو آنے سیر۔اور نمک ساڑھے تین روپے ٹن ملا کرتا تھا۔ اسی دور کاایک یورپی سیاح فرانسس لکھتا ہے کہ ’’شہر ڈھاکہ میں ضرورت کی چیزیں اس قدر کثرت سے اور اس قدر سستی ملتی ہیں کہ اس وقت اس کا یقین کرنا مشکل ہوتا ہے۔موسم سرما میں چاول ایک روپے میں ۵۸۰ پونڈ ملتا ہے‘‘۔(۴۱)
یہ وہ حقائق ہیں جن کا انکار کرنا تاریخ کا انکار ہے کوئی بھی حق پسند انسان تاریخ کے مسخ کیے جانے کو گوارا نہیں کرے گا یہ عمل ملک کی تخریب کا باعث ہوگا ۔اس تحریر کا مقصدیہ ہے کہ ملک سے نفرتوں کو دور کیا جائے اور انسانیت اور رواداری کو عام کیا جائے، تبھی ہمارا ملک ہندوستان امن کا گہوارہ بنے گا،اور اقتصادی اعتبار سے ترقی کے منازل طے کرے گا۔
حواشی
(۱)ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی روا داری؛ص۳۱۳
(۲)بحوالہ سابق (۳) بحوالہ سابق :ص۳۱۵
(۴) تاریخ فیروز شاہی : ص ۲۹۰ (۵) تاریخ طبری:۱ ؍۱۱۸
(۶)الکامل فی التاریخ ۱؍۲۲ (۷) البدایہ والنہایہ ۱؍۸۴
(۸)مقالہ سید عبداللہ طارق۔ہندو مذہبی کتب اوراسلام ص:۶۹۔۱۴۴
(۹)تاریخ فرشتہ:ص۱؍۲۰۔مزید دیکھئے :ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک ڈاکٹر تارا چند کا مقالہ ــبعنوان ’’ہندوستان کے اصلی مبلغین اسلام‘‘ ص۳۵۶
(۱۰) تاریخ فرشتہ :۱؍۲۸۔۲۶ (۱۱) آب کوثر:ص ۱؍۵۵
(۱۲)ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک ڈاکٹر تارا چند کا مقالہ ــ:ص۳۶۸
(۱۳) A Survey Of Indian History P:104 (۱۴) منواسمرتی : ۸: ۲۸۲
(۱۵) منو اسمرتی ،۸:۲۷۰
(۱۶) Discovery Of India:P.232 (۱۷) ہندوستانی مسلمان:ص۳۱
( ۱۸) ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ:۲؍۳۷۲
(۱۹)بھارتی سمویدھان بنام ہندو دھرم شاستر:ص۳۰ (۲۰) وقائع سیر و سیاحت:ص۲؍۱۷۲
(۲۱) ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک
(۲۲)ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ۲؍۳۲۴ تا ۳۲۸
(۲۳) مسلم حکمرانوں کی مذہبی روا داری ۲؍۲۰ تا ۲۸
(۲۴) منواسمرتی : ۴: ۸۱
(۲۵) ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری جلد دوم
(۲۶)تمدن ہند کتاب سوم ہندوستان کی تاریخ:ص۱۴۶۔بحوالہ ہندوستانی مسلمان:ص۳۶
(۲۷) ہندوؤںکی علمی ترقی میںمسلمان حکمرانوںکی کوششیں۔ص۴۸
(۲۸) بحوالہ سابق:ص۵۴
(۲۹) ہند کے مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری:۲؍۳۱-۳۴ (۳۰)بحوالہ سابق:ص۳۵ْ۔۴۰
(۳۱) سید سلیمان ندوی میںاپنی کتاب ہندوؤں کی علمی و تعلیمی ترقی میں مسلم حکمرانوں کی کوشش میںان سب کی فہرست پیش کی ہے۔نیز مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی کارنامے میںمولاناعبدالسلام ندوی کا ایک جامع مقالہ’’تعلیم کی ترقی‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔
(۳۲) ان کتب خانوں کی فہرست جاننے کے لئے دیکھئے:مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی کارنا مے ص۲۶۳تا۳۱۶،مقالہ سید ابو ظفر ندوی بعنوان’’کتب خانے‘‘
(۳۳)ہندوستانی مسلمان ص۳۴ (۳۴) ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ۲؍۳۲۵
۳۵) بحوالہ سابق۔مزید دیکھے :مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے کا باب لباس ، خوردو نوش ، سازوسامان
(۳۶)مسلم حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے:ص۴۷۴تا۵۲۳
(۳۷)دیکھئے ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی ایک جھلک ص:۳۵۶ مقالہ ڈاکٹر تارا چند بعنوان ’’ہندوستان کے اصلی مبلغین اسلام‘‘
(۳۸)تفصیل کے لئے دیکھئے ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ص۲۴۰۔ مقالہ سید ابو ظفر ندوی بعنوان ’’کاغذ سازی‘‘
(۳۹)بحوالہ سابق ص۴۔مقالہ پروفیسر حبیب صاحب بعنوان’’فن تعمیر‘‘
(۴۰ )بحوالہ سابق ص۳۷تا۱۰۷ مقالہ عبد السلام ندوی بعنوان’’رفاہ ِعام کے کام‘‘
(۴۱)ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ۲؍۳۲۹-۳۳۰
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018