سورۃ الانفطار کی ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن پیش آنے والے تین واقعات کا ذکر فرمایا ہے : ﴿۱﴾ ’’جب آسمان پھٹ جائے گا‘‘ ﴿۲﴾ ’’جب سیارے جھڑپڑیں گے‘‘ ﴿۳﴾ ’’جب سمندر اُبل پڑیں گے۔‘‘ پہلے دو واقعات صرف قیا مت ہی کے دن پیش آئیں گے اور تیسرا واقعہ بھی قیامت ہی کے دن پیش آئے گا ،لیکن اس کی ہلکی ہلکی جھلکیاں اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے ہی سونامی (Tsunami)کی شکل میں دکھاتے چلے آئے ہیں۔
سمندروں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی منفعت کے لیے پیدا فرمایا ہے اور جیسا کہ سورۃ الجاثیہ کی آیت نمبر۱۲ میں مذکور ہے ’’اللہ ہی نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا ہے۔ تاکہ اس کے حکم سے اُس میں کشتیاں ﴿جہاز﴾ چلیں اور تم اُس کا فضل ﴿روزی﴾ تلاش کرو۔‘‘ روزی چاہے مچھلیوں کے حصول کی شکل میں ہو، چاہے بندرگاہوں میں، کشتیوں اور جہازوں میں کام کرنے کی شکل میں یا جہازوں کے ذریعے تجارت کی شکل میں۔ جہاز روزی کے حصول کے علاوہ جنگی اغراض کے لیے بھی چلتے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی۔ اس کے علاوہ سمندر انسان کی اہم ترین ضرورت پانی کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں۔ کیوں کہ سمندروں ہی کی وجہ سے بادل بنتے ہیں، بارش ہوتی ہے اور پانی انسان تک پہنچتا رہتاہے۔
پانی انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی اتنی اہم اور اس قدر قیمتی نعمت ہے کہ جس کے بغیر انسان کی زندگی کا تصور ہی محال ہے۔ پیاس بجھانے کے لیے پکوان کے لیے برتنوں کی صفائی کے لیے جسم کی پاکی کے لیے ، کپڑوں کی دھلائی کے لیے اور اسی طرح کی بہت ساری ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر ہر انسان پانی کا حاجتمندہوتا ہے۔ انسان کی غذا پانی کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اناج ترکاریاں، پھل اور جانوروں کا چارہ پانی کے بغیر نہیں اُگائے جاسکتے۔ ماحول کو خوبصورت بنانے کے لیے باغات، لکڑی کے حصول کے لیے درخت پانی ہی کے محتاج ہوتے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے بھی پانی ایک اہم ذریعہ ہے۔ سمندر کے ساحل انسان کو بہترین تفریح فراہم کرتے ہیں۔ وہاں اٹھنے والی اونچی اونچی موجوں سے بھی وہ لطف اندوز ہوتا ہے اور اُن موجوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بھی۔لیکن جب رب کائنات کا تکوینی حکم آپہنچتا ہے تو وہی راحتیں بانٹنے والا پانی انتہائی خطرناک، جان لیوا اور ناقابل بیان تباہی مچانے والا بن جاتا ہے۔
سونامی دراصل جاپانیوں کا دیاہوا نام ہے، جس کے معنی ہیں ساحلی تموج (Harbor Wave) اور جس سے مراد سمندر کی بپھری ہوئی اور تیز وتند موجیں ہیں۔ جاپانی علاقے سب سے زیادہ سونامی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اسی لیے سونامی کا نام بھی انھی کا دیا ہواہے۔
دراصل پانی، مایع (Liquid) ہونے کی وجہ سے کسی بھی بیرونی قوت کے زیر اثر آجاتا ہے۔ تیز ہوا پانی میں موجیں پیدا کردیتی ہے۔ پانی کا ذخیرہ جتنا بڑاہوتا ہے موجوں کی بلند ی اور تندی بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ تالابوں اور جھیلوں کے مقابلے میں سمندروں میں موجوں کی بلندی بھی زیادہ ہوتی ہے اور تندی بھی ۔ کبھی کبھی ایسی موجیں عصری ساختہ یا دورِ جدید کے تیار کردہ جہازوں کو بھی ڈگمگانے پرمجبور کردیتی ہیں اور کبھی کبھی ڈبو بھی دیتی ہیں۔ لیکن پانی کی مذکورِ بالا صفت سے تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ سمندروں میں پیداہونے والی بھیانک اور ہلاکت خیز موجوں کاسبب خود پانی نہیں ہوتا بلکہ کوئی اور ہی بیرونی طاقت ہوتی ہے، جس کے زیر اثر پانی کی ایسی کیفیت ہوجاتی ہے۔ اس لیے سونامی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ پانی کس طاقت کے زیر اثر اس قدر بھیانک اور کنٹرول سے باہر ہوجاتاہے۔
عام طور پر سمندر کی سطح پرہی ہواؤں کے تیز رفتاری کے ساتھ چلنے کی وجہ سے اونچی اونچی موجیں اٹھتی ہیں۔ سمندر کے نچلے حصے میں بھی موجیں پیدا ہوتی ہیں لیکن وہ بلند نہیں ہوتیں۔ سمندر کی تہہ کے قریب تموج تقریباً نہیں ہوتا۔ لیکن سمندر کی تہہ میںزلزلے کی وجہ سے آتش فشاں کے پھٹنے کی وجہ سے یا کسی اور قسم کے انفجار کی وجہ سے یاپھر تہہ کی زمین کے کسی حصے کے کھسک جانے کی وجہ سے سمندر کے اُس حصے کاپانی بُری طرح آتش فشاں پھٹ پڑتا ہو یا جتنی طاقت کے انفجار سے سمندر کے پانی کو سابقہ پڑتا ہو یا جس قدر زور اور شدت سے زمین کاکوئی حصہ کھسک جاتاہو، اُسی قدر شدت سے پانی متاثرہ حصے کی جانب کھنچتا ہے اور پھر وہاں اپنے لیے کوئی جگہ نہ پاکر سمندر کے کھلے حصوں کی جانب دوہری طاقت کے ساتھ لوٹ جاتاہے۔
جاپان میں ۱۸۹۶ ہی سے سونامی کی تباہی سے بچاؤ کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جانے لگیں اور سونامی دیواریں (Trunami Walls) سیلابی دروازے (Flood Gates) اور پانی کے رُخ کو موڑنے کے لیے ۲ ہی راستے Water Channels)﴾ بنائے گئے لیکن اس قسم کی احتیاطی تدابیر کے باوجود جب ۱۲ جولائی ۱۹۹۳ء کو ’’ہوکائیڈو‘‘ (Hokaido) کاجزیرہ ’’اوکوشری‘‘ (oku shri) صرف دوسے پانچ منٹ تک کے زلزلے کے سبب پیداہونے والی سونامی کی زد میں آگیا تو سونامی کی وجہ سے پیدا ہونے والی۳۰ میٹر یعنی کسی دس منزلہ عمارت جیسی اونچی لہروں نے ساری رکاوٹوں کے باوجود ’’اوکوشری‘‘ میں داخل ہوکر ہر طرف تباہی مچادی۔ ساحلی شہر آونے(Aonae) کو مکمل طور پر سونامی دیواروں سے گھیر دیاگیا تھا۔ لیکن سونامی کی وجہ سے پیدا ہونے والی انتہائی طاقتور اور بہت زیادہ بلند لہروں نے اُن دیواروں کو پھاند کر ساری لکڑی کی عمارتوں کو خس وخاشاک کی طرح بہادیا۔ سونامی دیواریں املاک کو تباہی سے اور انسانوں کو ہلاکت سے بالکل نہیں بچاپائیں۔اس قدر بھیانک انداز میں تباہی مچانے والی سونامی کا سبب صرف چند منٹوں کا زلزلہ ہوسکتا ہے یہ بات تو ابتدا میں ناقابل تصور ہی رہی ہوگی۔ لیکن ۴۲۶ قبل مسیح کے یونانی مورخ تھیوسی ڈائیڈس(Thucy Dies) نے سمندر کی تہہ میں واقع ہونے والے زلزلوں کو سونامی سے منسوب کرنے میں پہل کی۔ اس طرح یونان جو کہ زمانہ قدیم میں علم نجوم، سائنس، ریاضی، فلسفہ اور دوسرے علوم کاگہوارہ ہوا کرتا تھا۔ اس معاملے میں بھی سبقت لے گیا۔ پھر ۳۶۵ عیسوی میں اسکندریہ سونامی کا شکار ہوا تو روم کے مورخ امِّیانَس مارسلینس(Ammia nus Marcellinus) نے اس بارے میں تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچاکہ سونامی کی دیوہیکل اور تباہی مچانے والی لہروں کا سبب سمندر کی تہہ میں برپا ہونے والا زلزلہ ہی ہوسکتا ہے۔ اب دورِ جدید کی تحقیقات نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے کہ سونامی کے لیے زیادہ ترسمندر کی تہہ میں واقع ہونے والے زلزلے ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔
لیکن زلزلہ بھی اپنے آپ یا بطور خود واقع نہیں ہوجاتا۔ دراصل ہماری زمین ساری کی ساری ٹھوس نہیں ہے ۔ بلکہ چار مختلف طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ مرکزی طبقہ ٹھوس لوہے اور جست کا ہوتا ہے۔ اس کے بعد والا طبقہ لوہے اور جست کی پگھلی اور کھولتی ہوئی حالت میں ہوتاہے۔ اس کے اوپر مختلف موٹائی اور لمبائی کی چٹانوں پر مشتمل پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹانک پلیٹیں (Tectonic Plates) کہا جاتاہے۔ ان پلیٹوں کی لمبائی چند سوکلو میٹر سے چند ہزار کلو میٹر تک ہوسکتی ہے اور موٹائی ۱۵ کلو میٹر سے ۲۰۰ کلو میٹر تک ہوسکتی ہے۔ چٹانوں کے اوپر مٹی کی پرت ہوتی ہے یا سمندروں کاپانی۔ چٹانی پلیٹیں مسلسل حرکت میں ہوتی ہیں اگر چہ ان کی رفتار نہایت ہی کم ہوتی ہے۔ سال بھر میں صرف دو انچ، ان میں سے بعض چٹانی پلیٹیں ایک دوسرے کی جانب حرکت کرتی ہیں اور آپس میں ملنے کے بعد بھی ان کی حرکت جاری رہتی ہے۔ جس کی وجہ سے نہایت شدید تناؤ کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تناؤ شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ چٹانی پلیٹوں کے کچھ حصے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یاپھر ایک چٹانی پلیٹ دوسری چٹانی پلیٹ کو نیچے دبنے پر مجبورکردیتی ہے۔ اس کا اثر سطح زمین پر یا سمندر کی تہہ میں زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ چٹانی پلیٹیں جس قوت کے ساتھ ٹوٹتی ہیں یا جس قوت کے ساتھ ایک چٹانی پلیٹ دوسری کو دبادیتی ہے، اُسی شدت کازلزلہ بھی ہوتاہے۔ زلزلہ خشکی پر ہو تو زمین میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، عمارتیںکھنڈر میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور اگر سمندر کی تہہ میں ہو تو سونامی کی خوفناک لہریں تباہی مچانے کے لیے ساحلی علاقوں کی جانب دوڑ پڑتی ہیں۔
۱۱/مارچ ۲۰۱۱ جمعہ کے دن جاپان سونامی کی زد میں آگیا۔ اس کا سبب جاپان کے شمال مشرق میں واقع ٹوہوکو (Tohoku)کا زلزلہ تھا جس کی شدت ریکٹراسکیل پر ۹ء۰ ریکارڈ کی گئی۔ اس سونامی کی وجہ سے اتنی بلند اور اتنی طاقتور لہریں پیدا ہوئیں کہ اُن لہروں نے ایک چھوٹے جہاز کو سمندر سے نکال کر کافی دور خشکی پر واقع ایک دو منزلہ عمارت کے اوپر پہنچادیا۔ ۱۵/مارچ ۲۰۱۱ منگل کی صبح جاپان میں زلزلے کا ایک اور جھٹکا محسوس ہوا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر ۶ ریکارڈ کی گئی۔ اس کے نتیجے میں عمارتوں اور لوگوں کا جو بھی حال ہوا ہو، جاپان کے لیے سب سے زیادہ بری اور تشویشناک صورتحال یہ ہوئی کہ فوکو شیما ایٹمی پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر ۲ کی چھت اُڑگئی اور تابکاری کا اخراج ہونے لگا۔ ری ایکٹرنمبر۴ میں بھی آگ لگ گئی اور تابکاری کے باعث اُس آگ کو بجھانا بھی مشکل ہوگیا۔ تابکاری کے اثرات دارالحکومت ٹوکیو تک بھی پہنچ گئے۔ ان پلانٹس کے اردگرد ۲۰ کلومیٹر تک لوگوں کا تخلیہ کروایا گیا۔ اور ۳۰ کلو میٹرکے حدود میں رہنے والوں کو اپنے گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت جاری کردی گئی۔ لیکن پھر بھی ایٹمی پلانٹ کے اطراف تقریباً ایک ہزار افراد اپنے آپ کو موت کے پنجے سے نہ بچاسکے۔ جاپانی اہلکاروں نے اُن کی لاشوں کو اٹھانے سے صاف انکار کردیا۔
دسمبر ۲۰۰۴ء میں بحر ہند میں پیش آنے والا ایک ہی زلزلہ تھا اور ایک ہی سونامی اس علاقے میں واقع ہونے والے دیگر زلزلے اُنھی کا نتیجہ تھے۔ یہ اپنے ساتھ جس طرح کی لرزہ خیز اور رونگٹے کھڑا کردینے والی تباہیاں لے آئے تھے وہ پتھروں کو بھی پگھلانے کے لیے کافی تھیں۔ چھ سال بعد مارچ ۲۰۱۱ء میں بحرہند سے بہت دور واقع جاپان کو زلزلوں کے جھٹکوں اور سونامی سے سابقہ پڑا اور وہاں انسانوں اور املاک کا جو دلخراش انجام ہوااور جاپانی معیشت کو جس طرح کا زبردست دھکا لگا وہ بھی دلوں کی دنیا میں بھونچال لے آنے کے لیے کافی تھا۔ یہ کچھ اللہ تعالیٰ کے ہلکے سے اشارے پر ہوا تھا۔ شاید اس لیے ہوا تھا کہ وہ انسان جواکثر اکڑفوں میں مبتلا رہتا ہے، اس حقیقت کو اپنے دل میں جذب کرسکے کہ اس کائنات کاایک رب ہے جس کے آگے کسی انسان کی کچھ نہیں چل سکتی۔ انسان بے بس اور لاچار ہوکر رہ جاتاہے حتی کہ اپنی املاک کو تباہی سے اور خود کو اور اولاد کو موت کے پنجے سے بچانے تک کی سکت نہیں رکھتا۔ قیامت سے پہلے یہ انتہائی معمولی سی قیامت جیسی آفتیں انسان کے لیے وارننگ تھیں کہ ابھی بھی وقت ہے اللہ وحدہ، لاشریک لہ، کو مان لینے کا۔ ابھی بھی وقت ہے اپنے معبود حقیقی کی طرف رجوع ہوجانے کا۔ ابھی بھی وقت ہے معبودان باطل سے منہ موڑ کر ایک اللہ کی عبادت شروع کردینے کا۔ ابھی بھی وقت ہے قیامت سے پہلے قیامت کی تیاری کرلینے کا۔انسان کی سائنس میں بے انتہا ترقی اس کے کسی کام نہ آسکے گی۔ اُس کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ اس کے مہلک ترین ایٹمی ہتھیار، اس کے تیز رفتار جٹ طیارے اس کے قلعوں جیسے جنگی جہاز اس کو موت سے کسی طرح بھی بچا نہیں پائیں گے نہ ہی اس دنیا سے فرار کا اس کو کوئی موقع مل سکے گا۔
فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ۔ پھر کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2012