بین السطور
مصنف : جناب رونق افروز
صفحات : ۲۴۰ ٭ قیمت=/۲۰۰روپے
پتا : ۶۵۹، بدرمنزل، بی ونگ، پٹیل نگر، بھیونڈی ﴿مہاراشٹر﴾
جناب رونق افروز کا آبائی تعلق تو اُترپردیش سے ہے، خطّہ اودھ کی مردم خیز بستی بابو گنج ضلع پرتاب گڑھ ان کا وطن ہے، لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے وہ مہاراشٹر کے صنعتی شہر بھیونڈی میں مقیم ہیں۔ وہاں تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ لیکن تجارت تو محض ان کا ذریعہ معاش ہے، وہ مزاجی وطبعی طور پر ادب کے آدمی ہیں اور ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا سا ہوکر رہ گیا ہے۔ وہاں کی علمی ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور عملی اور قلمی طور پر بھی ان سرگرمیوں کا حصہ رہتے ہیں۔
جناب رونق افروز نے ادب کی دنیا میں شاعری کے راستے سے قدم رکھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اپنے ہم وطن شاعر حضرت قمر پرتاب گڑھی کی شاگردی اختیار کی۔ استاد کی خصوصی توجہ نے انھیں خوب سنوارا اور نکھارا۔ بھیونڈی اور اس کے قریب کے مشاعروں میں بھی وہ ایک شاعر کی حیثیت سے شریک بھی ہونے لگے تھے۔ یہ سلسلہ کم وپیش دس برس تک چلتا رہا۔ لیکن اسی دوران میں ان کی طبیعت نثر کی طرف مائل ہوگئی۔ وہ افسانے اور ادبی وتنقیدی مقالات بھی لکھنے لگے۔ پھر پورے طور پر نثر ہی کے ہوکر رہ گئے۔ آئے دن ان کے ادبی، تنقیدی اور تحقیقی مقالے اور مضامین رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک تحقیقی کارنامہ ’تذکرۂ شعراے بھیونڈی‘ کے نام سے منظر عام پر آیا تھا۔ ’زندگی نو‘ کے ان صفحات میں اس پر تبصرہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ نثر نگاری میں انھوں نے ہمارے حلقے کے نام اوراہل قلم ڈاکٹر محمود حسن الٰہ آبادی کو اپنا رہ نما بنایا ہے، جو اُردو کے ساتھ عربی، فارسی اور انگریزی ادبیات پر بھی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔
زیر نظر کتاب ’بین السطور‘ جناب رونق افروز کے اُن تنقیدی ،تحقیقی اور تجزیاتی مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے، جو مختلف اوقات میں رسائل وجرائد کی وساطت سے نگاہ سے گزرتے رہے ہیں۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں موضوعاتی مضامین ہیں جب کہ دوسرے حصے میں وہ مضامین اور مقالے ہیں، جن میں ہم عصر شعرائ کی شاعری کوموضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ پہلے حصّے کے دو مضامین، مشہور ومعروف شعرا کے متنازع اور ناقابل قبول اشعار، اور ایک بھاشا، دو لکھاوٹ دو ادب، خصوصیت کے ساتھ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے رونق افروز صاحب نے اپنے مضمون ،مشہور ومعروف شعرائ کے متنازع اور ناقابل قبول اشعارمیں ان اشعار کو موضوع گفتگو بنایا ہے، جو دین پسند اہل علم کے نزدیک ہمیشہ ناپسندیدہ رہے ہیں۔ رونق افروز نے ان شعروں کی دینی وفکری قباحتوں کو کسی قدر تفصیل سے اُجاگر کیا ہے۔ اِس ذیل میں انھوں نے میر ، غالب اور اقبال سے لے کر قیصر الجعفری تک کے اشعار کی نشان دہی کی ہے اور ان پر کلام کیا ہے۔ان میں سے چند اشعار یہ ہیں:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
﴿غالب﴾
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
﴿غالب﴾
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
﴿اقبال﴾
شبیر حسن خاں نہیں لیتا بدلا
شبیر حسن خاں سے بھی چھوٹا ہے خدا
﴿جوش﴾
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
﴿فیض﴾
گھر سے مسجد ہے بہت دُور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوے بچےّ کو ہنسایا جائے
﴿ندافاضلی﴾
اگر دشوار ہو جائے خدائی
مجھے آواز دے لینا خدایا!
﴿قیصرالجعفری﴾
جی خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
﴿عبدالحمیدعدم﴾
جناب رونق افروز نے محمد علوی کے اس شعر کو بھی نظریاتی طور پرموضوع گفتگو بنایا ہے:
ترے نیک بندے ہیں اب بھی بہت
کسی پر تو یا رب! وحی بھیج دے
حالاںکہ یہ شعر ساقط الوزن ہے۔ لفظ ’وحی‘ ، ’وہی‘، اور’کبھی‘ کے وزن پر پڑھنے سے یہ شعر بحر پر پورا اُترتا ہے۔ جب کہ صحیح لفظ وَحی بروزن قدر، فجر، فخر، بحر ہے۔ جس کو اتنی سی معمولی بات نہ معلوم ہو، اسے بڑا شاعر سمجھ کر اس کے شعروں کو موضوع گفتگو بنانا محض سعی لاحاصل ہے۔
رونق افروز کا مضمون ’ایک بھاشا‘ دو لکھاوٹ، دو ادب، دراصل نام ور محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر گیان چند جین کی اس کتاب ’ایک بھاشا‘ دولکھاوٹ، دوادب، کے جائزے پر مشتمل ہے، جس میں انھوں نے اُردو زبان وادب اور مسلم شعرائ کے سلسلے میں زہر افشانیاں کی تھیں۔ گیان چند جین کی یہ کتاب جس وقت شائع ہوئی تھی، علمی وادبی حلقوں میں اس کا کافی چرچا تھا ۔ ہمارے عہد کے نام ور ناقد ودانشور شمس الرحمن فاروقی نے اس کے مشتملات کا بڑا فاضلانہ جائزہ لیا تھا۔ جناب شمیم طارق ، ساقی فاروقی اور دوسرے کئی اہل علم نے بھی اس کا تعاقب کیا تھا۔
دوسرے حصّے میں پچیس ﴿۲۵﴾مشہور اور زیادہ تر غیر مشہور شعرا کی شاعری کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ اکثر مضامین ان شعرا کے حادثۂ وفات کے مواقع پر لکھے گئے ہیں۔ علی سردار جعفری کے سلسلے میں رونق افروز کی یہ بات کم زور ہے کہ چوںکہ وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے۔ اس لیے مارکسزم سے متاثر تھے۔ مجروح سلطان پوری ، ساحر لدھیانوی اور قیصر الجعفری پر ان کے مضامین مختصر مگر قابل مطالعہ ہیں۔ انھوں نے بہ جا طور پر مجروح کو مہذب شاعر قرار دیا ہے۔ البتہ جناب قیصر الجعفری کو عہد ساز شاعر قرار دینا محتاجِ دلیل ہے۔ جناب انجم رومانی کا یہ شعر پڑھ کر طبیعت وجد میں آگئی:
جب لکھا میں نے ترا ریشم سا نام
کھردرا کاغذ بھی چکنا ہوگیا
رونق افروز نے اِنھیں ایک ’اچھے شاعر اور ایک سچے صحافی ، کی حیثیت سے یاد کیا ہے۔ منقول بالا شعر پڑھ کر ہر قاری اُنھیں ’ایک سچا شاعر اور ایک اچھا صحافی‘ کہنے پر مجبور ہوگا۔
’بین السطور‘میں ایک مضمون حافظ بشیر احمد بسمل پرتاب گڑھی پر بھی ہے۔ یہ بڑا البیلا اور بانکا شاعر تھا۔ افسوس کہ اس کی شہرت ونام وری صرف بھیونڈی اور احمد آباد تک محدود ہوکر رہ گئی۔
بلاشبہ ’بین السطور‘ ایک اچھی اور قابل مطالعہ کتاب ہے۔ اس سے ہندستان خصوصاً بعض صنعتی شہر وں کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور مختلف نظریوں اور رویوّں کا بھی تعارف حاصل ہوتا ہے۔
نجات کی راہ ﴿ایمان اور عمل صالح﴾
مصنف : محمد رفیع الدین فاروقی
صفحات : ۳۷۶ ٭ قیمت=/۲۰۰روپے
ملنے کا پتا : مدھرسندیش سنگم، ای ۲۰، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی ۱۱۰۰۲۵
اسلام کی بنیاد ایمان اور عمل صالح پر ہے۔ انسان کے دل میں ایمان جاگزیں ہو تو اس کا مظاہرہ نیک اعمال کی صورت میں ہوتا ہے۔ دونوں لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کا کوئی اعتبار نہیں اور انسان کے دل میں ایمان ہو، لیکن اس کی ذات سے اچھے اعمال کا صدور نہ ہو، یہ ناممکن ہے۔ دونوں کا باہمی تعلق بیچ اور درخت کا سا ہے۔ اگر بیج اچھا ہو تو درخت خوب تناور ہوگا اور اگر بیج خراب ہو تو درخت ناکارہ ہوگا۔ اسی اہمیت کی بنا پر قرآن کریم میں بہ کثرت مقامات پر ایمان اور عمل صالح دونوں کا تذکرہ ایک ساتھ کیاگیا ہے۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع سے بحث کرتی ہے۔
یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں توحید ، رسالت اور آخرت کے مباحث ہیں۔ اسلام کے ان بنیادی عقائد کی توضیح وتشریح کے ساتھ بعض ان غلط فہمیوں کو بھی دُور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،جو اس سلسلے میں رائج ہیں۔ دوسرا حصہ بھی تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ابتدا میں عبادات سے بحث کی گئی ہے۔ پھر حقوق العباد سے ۔آخر میں اخلاقیات کے ضمن میں بتایاگیا ہے کہ اچھے اخلاق کیاہیں، جنھیں اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور برے اخلاق کیا ہیں جن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔
کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں عام فہم اور سادہ و شگفتہ انداز میں ایمان اور اس کے تقاضوں کو واضح کیاگیا ہے۔ اصلاً یہ نماز جمعہ کے موقعے پر دیے گیے خطبات کا مجموعہ ہے۔ چوں کہ ان کے مخاطب عام مسلمان تھے، اس لیے افہام وتفہیم کا اسلوب اختیار کیاگیا ہے۔ بعد میں انھی خطبات کو افادۂ عام کے لیے کتابی صورت میں بھی شائع کردیا گیا ہے۔
مصنف نے اسلام کے تصور نجات سے کچھ بھی بحث نہیں کی ہے، لیکن کتاب کے نام سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک ایمان اور عمل صالح ہی نجات کی راہ ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2012