سیرت ہادیٔ اعظمؐ
مؤلف : مولانا عبدالبراثری فلاحی
ناشر : العلم سوسائٹی، بدلاپور گائوں، امبرناتھ، تھانہ، مہاراشٹر
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۴ء، صفحات: ۶۴، قیمت: ۵۰/-روپے
سیرتِ نبویؐ پر چھوٹی بڑی ہر سطح کی کتابیں دنیا کی تمام زبانوں میں برابر شائع ہورہی ہیں۔ اردو زبان بھی اس اعتبار سے مالامال ہے۔ زیرِنظر کتاب بچوں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر آسان اور عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔
اس کتاب کے مؤلف مولانا عبدالبر اثری فلاحی فیروس ایجوکیشنل فائونڈیشن ممبئی کے ناظم اعلیٰ ہیں۔ فائونڈیشن کے زیرِنگرانی کوکن کے علاقے میں سرکاری وغیرسرکاری اسکولوں میں بچوں کی دینی تعلیم کاخوش گوار تجربہ کیاجارہا ہے اور اس کےبڑے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں۔ فائونڈیشن کے تحت ان اسکولوں کےبچوں کا سالانہ کوئز مقابلہ بھی منعقد کیاجاتا ہے۔ اب تک قرآنیات، حدیث، سیرت، فقہ، تاریخِ اسلام، خلفائے راشدین اور دیگر دینی موضوعات پر مقابلے ہوچکے ہیں اور ان کتابچوں کی اشاعت بھی عمل میں آئی ہے۔
تھانہ کے علاقے بدلاپور گائوں میں دینی حمیت رکھنے والے کچھ اصحاب نے العلم سوسائٹی کے تحت طالبات کو منظم کرنے کے لیے زہرا اسلامک گرلس گروپ تشکیل دیا ہے اور اس کےتحت دینی، تعلیمی اوررفاہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کتابچہ کی اشاعت اسی سوسائٹی کے تحت عمل میں آئی ہے۔
اس کتاب میں بہت اختصار کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مکی اور مدنی عہد کے اہم واقعات پیش کیے گئے ہیں۔ غزوات کی طرف محض اشارہ کردیاگیا ہے، جو بہت مناسب ہے۔ جابجا آں حضرت ﷺکی تعلیمات اور پیغام بھی بیان کردیاگیا ہے۔ آپؐ کے اخلاق و کردار، عادات و اطوار، رہن سہن، معمولات کا بھی تذکرہ کیاگیا ہے۔ آخر میں خلفائے راشدین کے مختصر احوال کا بھی بیان ہے۔
سیرت نبویؐ پر یہ کتاب بچوں کے ساتھ عام مسلمانوں کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔
غلبۂ اسلام کی بشارتیں
مصنف : علامہ یوسف القرضاوی
مترجم : مولاناعبدالحلیم فلاحی
ناشر : الفلاح پبلی کیشن، نئی دہلی
تقسیم کار : مدھرسندیش سنگم، E-20، ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی۔۲۵
سنۂ اشاعت : ۲۰۱۴ء صفحات: ۱۶۸، قیمت: ۱۰۰/-روپے
علامہ یوسف القرضاوی موجودہ دور میں فکراسلامی کے علم برداروں میں سے ہیں۔ انھیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے۔ ان کی ایمان افروز تحریریں ان کی شناخت بن گئی ہیں۔ ان کی قابل قدر تصانیف کا دنیا کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہوگیا ہے۔ اردو داں حلقہ میں بھی ان کی تصانیف کے اردو تراجم متداول ہیں اور انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی گراں قدر تصنیف المبشّرات بانتصار الاسلام کا اردو ترجمہ ’غلبۂ اسلام کی بشارتیں‘ کے نام سے مولانا عبدالحلیم فلاحی نے بہت پہلے کیاتھا۔ اب اس کا دوسراایڈیشن الفلاح پبلی کیشن، نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔
اس کتاب میں علامہ یوسف القرضاوی نے مسلمانوں میں رواج پانے والے اس عام تصور کا رد کیاہے کہ خیرالقرون کے بعد آنے والا ہر دور اپنے پچھلے دور کے مقابلے میں بدتر ہوگا۔ انھوںنے قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ سے ایسی بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جن سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ انھوںنے ان احادیث اور روایات پر بھی مفصل اور مدلل بحث کی ہے جن کے حقیقی مفہوم اور منشا کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور ان کا صحیح مفہوم واضح کیا ہے۔
علامہ یوسف القرضاوی کا تعلق موجودہ دور میں غلبۂ اسلام کی جدوجہد کرنے والی عظیم اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے ہے۔ وہ اس کے بانی امام حسن البنا شہیدؒ سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ انھوںنے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ امام حسن البنا کے سینے میں مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی امید کی شمع روشن رہتی تھی۔ وہ اسلام کے روشن مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ ان کی تحریروں کا مطالعہ کرنے والے کے دل میں رجائیت پیدا ہوتی ہے اور وہ مایوسی اور قنوطیت کی گھٹاٹوپ تاریکی سے باہر نکل آتا ہے۔ اسی طرح زیرِ نظر کتاب بھی راہِ دعوت میں کام کرنے والوں کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کرتی اور ان کے اندر ہمت اور حوصلہ پیدا کرتی ہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے، جو اپنے دلوں میں اسلام کے مستقبل کو روشن اور تاب ناک دیکھنا چاہتے ہیں۔ امید ہے، اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا اور اسے مشعل راہ بنایا جائے گا۔ مولانا عبدالحلیم فلاحی شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوںنے اس قابل قدر کتاب کا بہت سلیس اور شگفتہ زبان میں ترجمہ کیا۔
فقہ السنۃ
مؤلف : علامہ السید سابقؒ
مترجم : مولانا ولی اللّٰہ مجید قاسمی
ناشر : المنار پبلشنگ ہائوس، N-5B، ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۴ء، صفحات: ۵۱۴، قیمت: ۳۵۰/-روپے
فقہ کی جن جدید تصنیفات کو موجودہ دور میں قبول عام حاصل ہوا ہے، ان میں مصر کے نام ور عالم دین اور فقیہ سیدسابق (۱۹۱۵۔۲۰۰۰ء) کی کتاب ’فقہ السنۃ‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ سید سابق جامع ازہر کے کلیۃ الشریعۃ سے فارغ تھے۔ زمانۂ طالب علمی سے وہ اخوان المسلمون کے کارواں میں شامل ہوگئے تھے۔ ان کی اس کتاب کا شمار اخوان کے اہم مراجع میں رہا ہے اور اس کا اخوان کی فقہی تربیت میں اہم کردار رہا ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں مثلاً انگریزی، فارسی، ترکی، روسی، ازبکستانی، بوسنی، تھائی لینڈی اور ملیالم وغیرہ میں ہوچکا ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ اب اس کا اردو ترجمہ شائع ہورہا ہے۔ یہ خدمت جامعۃ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ کے استاد حدیث و فقہ مولانا ولی اللّٰہ مجید قاسمی نے انجام دی ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مختلف فقہی مسلکوں کے بارے میں عدمِ تعصب کاموقف اختیار کیاگیا ہے۔ کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل پیش کیےگئے ہیں۔ احکام شریعت بیان کرنے کے ساتھ ان کی حکمتوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مسائل کی وضاحت عام فہم اور آسان عبارت میں کی گئی ہے۔فقہ السنۃ کا عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ زیرِ نظر کتاب پہلی جلد کے ابتدائی دو ابواب کتاب الطہارۃ اور کتاب الصلوٰۃ کے ترجمہ پر مشتمل ہے۔ فاضل مترجم نے جابجا ضروری حواشی کا بھی اضافہ کیا ہے، جس سے افادیت بڑھ گئی ہے۔ تدوین کے دوسرے کام بھی انجام دیے ہیں۔
امید ہے، اس کتاب کو مقبولیت حاصل ہوگی اور اگلے اجزا کا ترجمہ بھی جلد ازجلد شائع ہوگا۔
اسفارِ مجیب (مولانا مجیب اللّٰہ ندوی کے سفرنامے)
مرتب : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی
ناشر : مولانا مجیب اللّٰہ ندوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، رشاد نگر، اعظم گڑھ
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۴ء، صفحات:۲۹۶، قیمت:۳۰۰/-روپے
دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے رفقا میں ایک اہم نام مولانا مجیب اللّٰہ ندوی (۱۹۱۸ء۔ ۲۰۰۶ء) کا ہے۔ ان کے قلم سے تقریباً دو درجن بلند پایہ علمی وتحقیقی کتابیں نکلی ہیں۔ ان میں اہل کتاب صحابہ وتابعین، تبع تابعین، اجتہاد اور تبدیلیٔ احکام، فتاویٰ عالمگیری اور اس کے مؤلفین، اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات اور اسلامی فقہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی ایک اہم خدمت جامعۃ الرشادکے نام سے ایک دینی مدرسہ کا قیام اور وہاں سے الرشاد کے نام سے ایک علمی ودینی ماہ نامہ کا اجرا ہے۔ اس رسالہ کے ذریعے وہ ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے، مسلمانوں کے متنوع مسائل میں ان کی رہ نمائی کرتے رہے اور تعلیمی میدان میں بیداری لانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔
مولانا مجیب اللّٰہ ندوی نے ملک و بیرون ملک کے متعدد سفر کیے۔ انھیں متعدد مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت کاموقع ملا۔ بعض اسفار تعلیمی اجلاسوں اور علمی کانفرسوں یا اسلامی فقہ اکیڈمی، ملی کونسل یا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے ہوئے تھے۔ مولانا ان اسفار کی روداد ماہ نامہ الرشادمیں لکھاکرتے تھے۔ ان ہی کو زیرِ نظر کتاب میں جمع کردیاگیا ہے۔
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی مولانا مرحوم کی حیات میں ان کے علمی کاموں میں ان کے دست راست رہے ہیں۔ انھوں نے ان کی وفات کے بعد ان کی منتشر تحریروں کو جمع کرنے کا ایک منصوبہ بنایاتھا، جس کے تحت بہت پہلے وفیات مشاہیر پر ان کی تحریروں کا مجموعہ ’کاروانِ رفتگاں‘ کے نام سےشائع ہواتھا۔ اب یہ دوسری کتاب منظرعام پر آئی ہے۔
اس کتاب کی اشاعت اس انسٹی ٹیوٹ سے ہوئی جسے مرحوم کے بڑے صاحب زادے ڈاکٹرعبداللّٰہ عمار رشادی نے ان کے علمی کاموں کی اشاعت کے لیے قائم کیا ہے۔ امید ہے، منصوبہ کے تحت تیار ہونے والی دیگر کتابیں بھی جلد منظرعام پر آئیںگی۔
(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)
روہنگیا کے مسلمان: بہتا لہو، جلتے بدن
مصنف : یوسف عبدالرحمن
ترجمہ : ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی
سنۂ اشاعت: ستمبر ۲۰۱۴ء، صفحاتَ: ۱۶۰
ملنے کا پتہ : المنار پبلشنگ ہائوس، N-5B ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر نئی دہلی۔۲۵
زیرنظر کتاب ’روہنگیا کےمسلمان، بہتا لہو، جلتے بدن‘ کویت کے مشہور صحافی یوسف عبدالرحمن کی کتاب مسلموروہنجیامذبحۃ العصرکا اردو ترجمہ ہے۔ ترجمہ کی خدمت ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی نے انجام دی ہے۔ یہ کتاب ان بیانات وواقعات پر مبنی ہے جن کا مشاہدہ مصنف موصوف نے بنفس نفیس برما جاکر بچشم خود کیاتھا اور میانمار کی صورت حال کا بلاواسطہ معلومات حاصل کرکے دیانت دارانہ اور منصفانہ تجزیہ کیاتھا۔ ان جائزوں ، تاثرات اور مشاہدات کی قسط وار اشاعت ۱۹۹۱ء، اس کے بعد ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء میں کویت کے روزنامہ عربی اخبار ’الانباء‘ میں ہونی شروع ہوئی تو ان کو کافی سراہا گیا۔
برما میں میانمار کے کرب ناک، انسانیت سوز دہشت گردانہ مظالم نے وہاں کی پوری مسلم تاریخ کو تہس نہس کرکے رکھ دیاہے۔ وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ان پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔حکومت برماشروع ہی سے روہنگیا کے مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنا چاہتی ہے، اس کے لیے وقتاً فوقتاً ان کی نسل کشی اور قتل عام کرتی رہتی ہے۔ ان پر ایسی ایسی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن کا تصور بھی کسی آزاد ملک میں نہیں کیاجاسکتا، مثلاً صنعت و تجارت پر پابندی، سیاست وجمہوریت پر پابندی، نئی مسجد یا مدرسہ تعمیر کرنے پر پابندی، مذہبی جلسوں پر پابندی، حج اور قربانی پر پابندی، اسلامی نام رکھنے پر پابندی، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر پابندی، اسلامی طریقے سے شادی بیاہ کرنے پر پابندی، جبری محنت اور بندھوا مزدوری، ڈاڑھی رکھنے پر پابندی، بغیر اجازت اور پرمٹ ایک بستی سے دوسری بستی میں جاکر رات گزارنے پر پابندی، کسی قسم کا اسلحہ رکھنے پر پابندی، سرکاری ملازمت پر پابندی وغیرہ ۔ وقتاً فوقتاً گھروں میں رات کو چھاپہ مارکر بے پردگی کےساتھ شناختی کارروائی، مسلم خواتین کی تصویریں کھینچ کر لے جانا وغیرہ۔ ان مظالم اور پابندیوں کی وجہ سے وہاںکے مسلمان حیوان سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں بدھسٹوں نے جس بے دردی سے اراکانی مسلمانوں کو قتل کیا، مسلم بستیاں جلائیں اور عورتوں اور بچوں کو تہہ تیغ کیا وہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے، بلکہ سفاکیت و بربریت اور حیوانیت کے الفاظ بھی اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اس کے مقابلے میں اقوام متحدہ اور عالم اسلام کی بے بسی بھی انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس کتاب میں وہاں کی صحیح صورت حال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
عزیزِ جہاں قاضی حسین احمد
مرتب : جمال عبداللّٰہ عثمان
ناشر : CDS، ادارۂ فکرو عمل، 722،ایف، 1/10ناظم الدین روڈ، اسلام آباد
سنۂ اشاعت: ۲۰۱۴ء، صفحات : ۴۰۰ ، قیمت:۱۲۰۰روپے، غیرمجلد 780/-
جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین احمد (م۲۰۱۳ء) ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی ولادت ۱۲؍جنوری ۱۹۳۸ء کو صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع نوشہرہ کے ایک مردم خیز گائوں زیارت کا کاخیل میں ہوئی۔ ان کے والدِ محترم قاضی عبدالرب ایک معروف عالم دین اور جمعیت علمائے ہند کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ انھوںنے مولانا حسین احمد مدنیؒ سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طورپر اپنے چھوٹے بیٹے کا نام انہی کے نام پر رکھا۔ یہ ہونہار بچہ قدیم اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر ۴۹ سال کی عمر میں امام عصر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قائم کردہ تحریک جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب ہوا اور پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دعوتِ دین کی عالم گیر جدوجہد میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوںنے جماعت اسلامی پاکستان کے تیسرے امیر کی حیثیت سے بائیس (۲۲) برس تک تحریک کی قیادت کی اور ملک کے طول و عرض ہی میں نہیں، بلکہ دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے سرگرم رہے۔ ۲۰۰۹ء میں جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے باوجود وہ جوانوں کی طرح سرگرم عمل رہے۔ بالآخر ۶؍جنوری ۲۰۱۳ء کو انھوںنے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
زیرِنظرکتاب میں مرحوم کی شخصیت کےمختلف پہلوئوں سے جائزہ لینے اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے: قاضی مرحوم۔ اپنے اہل خانہ کی نظر میں‘ اسی میں ان کی اہلیہ محترمہ ام کلثوم، صاحب زادے آصف نعمان قاضی، ڈاکٹر انس فرحان قاضی، صاحب زادی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، خولہ احمد قاضی کے تاثرات ہیں۔ باب دوم ’قاضی مرحوم عالمی رہنمائوں اور قائدین کی نظر میں‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں رجب طیب اردگان، علامہ یوسف القرضاوی، انورابراہیم، ڈاکٹر محمد بدیع، ڈاکٹر عوض بن محمد القرنی، ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبداللّٰہ، علی اکبر صالح، ڈاکٹر عبدالعزیز بن محمد ابراہیم الغدیر، ڈاکٹر مہدی عاکف، شیخ راشد الغنوشی اور ڈاکٹر مصطفی کمالک کے علاوہ متعدد عالمی رہ نمائوں، قائدین اور علما و فضلا کے تاثرات ہیں، جن میں انھوںنے مرحوم کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ باب سوم میں جماعتی رفقاء کے تاثرات کا احاطہ کیاگیا ہے۔ اس میں تئیس (۲۳) مضامین و مقالات شامل ہیں۔ باب چہارم پاکستانی سیاست دانوں اور قائدین کی آراء و تاثرات پر مشتمل ہے۔ اس میں کل تیس (۳۰) مضامین و مقالات اور تاثرات شامل ہیں۔ باب پنجم میں پاکستان کے اہل علم، مختلف اداروں اور جامعات کے سربراہان و ذمہ داران، قلم کاروں، کالم نگاروں، صحافیوں، مصنفین، اسکالرس اور ایڈیٹرس کے مضامین و مقالات اور تعزیتی پیغامات شامل ہیں۔
قاضی حسین احمد مرحوم کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھاہےکہ ’’ان سے مل کر ایسا لگتاہے کہ جیسے قرون وسطیٰ کا کوئی تاریخی شخص ہمارے زمانے میں آگیا ہو۔ ان کا پاکیزہ مزاج، ان کی وجاہت، ان کا جلال اور ذوق جمال قرآن سے تعلق، عشقِ رسولؐ، مطالعہ کا شوق، جرأت اور ثابت قدمی، تحمل اور صبر، نرم خوئی اور ہمدردی، مشقت اور محبت، تحریک، جہد مسلسل اور داعیانہ تڑپ، بے ساختہ حسِ مزاح اور بے تکلفی، ہر انسان کے ساتھ دوستی کا انداز، وسیع المشربی اور ہرگھڑی اللہ کی بندگی کا احساس اور اس طرح کی ان گنت خوبیوں کا ان کی شخصیت کے اندر جمع ہوجانا اللّٰہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا۔‘‘ سابق امیر جماعت اسلامی ہند جناب سراج الحسن صاحب نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’اگر علامہ اقبال ان کو دیکھ لیتے تو کہہ اُٹھتے کہ جس مرد مومن کا تصور میں پیش کرتاتھا، یقیناً یہ وہی شخص ہے۔‘‘
اس کتاب میں قاضی مرحوم کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بڑی قیمتی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ ان سے مرحوم کے علم و تقویٰ، سادگی، اخلاص، فہم و فراست ایمانی، تحمل ودوراندیشی اور دیگر اخلاق کریمانہ کا اظہار ہوتا ہے اور ان کی عظمت کا گہرا نقوش قائم ہوتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ تحریک اسلامی سے وابستہ اور اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کو کرنا چاہیے۔ اس سے ایمان میں حرارت اور اللّٰہ کی راہ میں صبرو استقامت کاجذبہ پیدا ہوتاہے۔
فکر کی غلطی (وحیدالدین خاں صاحب کے افکار کا تنقیدی جائزہ)
مصنف : مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی (استاد دارالعلوم ندوۃالعلما لکھنؤ)
ناشر : معھدالشریعۃ لکھنؤ، تقسیم کار: مکتبہ احسان، ندوہ روڈ،ڈالی گنج، لکھنؤ
سنہ اشاعت: مئی ۲۰۱۴ء صفحات: ۵۵۲ قیمت:۳۰۰/- روپے
مولانا وحیدالدین خاں کثیرالتصانیف مصنف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سادہ، سلیس اور دل نشیں پیرائے میں تحریر و تصنیف کاملکہ عطا فرمایا ہے۔ عصری اسلوب میں افکار وخیالات پیش کرنے کا سلیقہ اور معمولی واقعات سے مفید نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا اعتراف اہل علم نے کیا ہے۔ ان کی بعض تصنیفات شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں، جن میں ’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کافی شہرت رکھتی ہے، جو مفکر اسلام مولانا سیدابوالحسن ندوی کی سرپرستی میں لکھی گئی تھی اور اس کی پہلی اشاعت مجلس تحقیقات و نشریات اسلام دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے ہوئی تھی۔ بعد میں ان کے قلم سے اور بھی مفید اور قابل قدر کتابیں نکلیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کی جانب سے بعض متنازعہ افکار و خیالات ظاہر ہوئے ۔ انھوںنے بعض علمائے سلف اور مفکرینِ اسلام پر بے جا اور ناروا تنقیدیں کیں اور ان سے بعض علمی و فکری لغزشیں سرزد ہوئیں۔ ان کی ان تحریروں کا علماء کی جانب سے علمی و تنقیدی جائزہ لیاگیا اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی جاتی رہی۔
زیرنظر کتاب اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس کے مصنف مولانا عتیق احمد بستوی دارالعلوم ندوۃ العلماء میں استاد ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے سرکردہ رہ نمائوں میں سے ہیں۔ ان کے قلم سے متعدد اہم کتابیں نکلی ہیں۔ مثلاً زکوٰۃ کے مصارف، زکوٰۃ اور مسئلہ تملیک، ہندوستان اور نظام قضا ، اسلامی سزائیں اور جرائم کی روک تھام، عیسائی مشنریز کی سرگرمیاں اور مسلمان وغیرہ۔
یہ کتاب پہلی بار ۱۹۹۰ء میں مکتبہ الارشاد نئی دہلی کے زیراہتمام شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہندوستان و پاکستان سے اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوتے رہے، اب مصنف کی نظرثانی اور اضافہ کے ساتھ اس کی اشاعت عمل میںآئی ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے مولانا وحیدالدین خاں کے دینی افکارو نظریات کامفصل علمی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے، اسلام کی تعبیروتشریح، آیات قرآنی کی تفسیر، اسلامی احکام و تعلیمات کی تبئین میں خاں صاحب کے فکری انحرافات اور ان کے تصور دین کا تجزیہ کیا ہے اور مختلف ملی مسائل میں موصوف کے فکرو فہم کی غیرموزونیت کی نشان دہی کی ہے۔کتاب کے مباحث کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ مقدمۂ کتاب کے بعد سب سے پہلے مولانا کے ان افکارو آراء کا جائزہ لیاگیا ہے جن میں انھوں نے امتِ مسلمہ کے اجماعی مسائل سے خروج کیا ہے۔ اس کے بعد وہ مباحث ہیں جن کاتعلق ان کے پیش کردہ تصور دین سے ہے۔ کتاب کاپہلا ایڈیشن شائع ہونے کے بعد مولانا وحید الدین خاں اور مصنف کے درمیان کچھ خط وکتابت ہوئی تھی، اس سلسلے کے تمام خطوط بھی شامل کتاب کردیے گئے ہیں۔ اسی طرح کتاب پر چند دیگر اصحاب علم کے تبصرے اور تاثراتی خطوط بھی شامل ہیں۔
مولانا وحیدالدین خاں کی فکر پر نقد وجائزہ کے سلسلے میں ماضی قریب میں متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان میں زیرنظرکتاب بہتر ہے، اس میں بہت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تمام موضوعات پر بحث کی گئی ہے، البتہ کہیں کہیں اسلوب کسی قدر سخت ہوگیا ہے۔
(زبیرعالم اصلاحی)
مشمولہ: شمارہ فروری 2015