نقد و تبصرہ

 نام كتاب    :   دعوہ گائیڈ

`مصنف            :            عبدالسلام پتیگے (منگلور)

ناشر      :      ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس ، F-155، فلیٹ نمبر204، شاہین باغ ،

    جامعہ نگر، نئی دہلی ۔ ۱۱۰۰۲۵

سنہ اشاعت     :   ۲۰۱۷، صفحات: ۱۶۰، قیمت:۱۲۰؍روپے

دعوتِ دین کی اہمیت اور اصول و آداب پر اردو زبان میں چھوٹی بڑی متعدد کتابیں موجود ہیں ، لیکن عبد السلام صاحب (منگلور) کی کتاب’ ‘دعوہ گائیڈ‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔  _ اس کتاب میں بہت آسان او ر سلیس زبان میں دعوت پیش کرنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں بہت مفید رہ نمائی کی گئی ہے  ۔

دعوت اسلامی کیا ہے؟ ہم دین کی دعوت کیوں دیں؟ ہم دعوت کہاں دیں؟ ہم دعوت کس طرح دیں؟ دعوت دیتے وقت کن آداب کی رعایت کی جانی چاہیے؟ داعی کی زندگی میں کون سے اوصاف پایا جانا ضروری ہے؟ موجودہ دور میں دعوت کے امکانات کس حد تک وسیع ہوگیے ہیں؟ انبیاء نے اپنی قوموں کو کس طرح دعوت پیش کی؟ قرآن مجید سے ہمیں دعوت کے معاملے میں کیا رہ نمائی ملتی ہے ؟ اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ کیا تھا؟ ان سوالات کا اس کتاب میں بہت شرح و بسط کے ساتھ جواب دیا گیا ہے ۔

یہ کتاب بہت پہلے انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی۔ ڈاکٹر عصمت جاوید  نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا ، جس کی اشاعت بھی ہوئی تھی۔ بعد میں جناب _  ابو الاعلیٰ سید سبحانی نے ترجمہ پر نظر ثانی کی اور اس کی زبان و بیان کو درست کیا  ۔ اب اسے ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ ہدایت پبلشرز ابھی چند سال قبل قائم ہوا ہے۔ مختصر عرصے میں  اس نےبہت عمدہ کتابیں شایع کی ہیں _ اس کا طباعتی معیار بھی اعلی ہے۔

امید ہے ، دعوت سے دل چسپی  رکھنے والے حلقے میں اس کتاب کو قبول عام حاصل ہوگا۔  _

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب   :  فکر اسلامی کے حجابات

مصنف   :    ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی

ناشر      :            منشورات پبلشرز اینڈ دسٹری بیوٹرز، E-88A، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، 

  نئی دہلی ۔ ۱۱۰۰۲۵

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸ء ، صفحات : ۲۶۵، قیمت/-۲۲۵؍روپے

زیر نظر کتاب موجودہ دور کے ایک اہم موضوع سے بحث کرتی ہے ۔فکر اسلامی کیا ہے ؟ اس کی امتیاز خصوصیات کیا ہیں؟ موجودہ دورمیں اسلام کے احیاء کے لیے کام کرنے والوں کو کن موضوعات پر فوکس کرنا چاہیے؟ وہ کیا ایشوز (ISSUES) ہیں جن میں بعض مسلم شخصیات یا گروہوں کی جانب سے اختیار کردہ نقطہ ہائے نظر صحیح اسلامی فکر کی ترجمانی نہیں کرتے؟ اس کتاب میںان سوالات سے بحث کی گئی ہے اوراسلامی نقطۂ نظر سے ان پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔

مصنفِ کتاب ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی معروف محقق ومصنف ہیں۔ ان دنوں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے چیر مین ہیں ۔ علوم اسلامیہ کے مختلف پہلوؤں پر ان کی تصانیف اور تراجم کی تعداد پانچ درجن سے متجاوز ہے ۔ فکر اسلامی اوراس کی تاریخ پران کی گہری نظر ہے ۔ ملک و بیرون ملک کے سمیناروں میں برابر شرکت کرتے ہیں اورعصری اہمیت کے حامل موضـوعات پر اپنے نتائج فکر پیش کرتے ہیں۔ زیر نظر کتب بھی در اصل مختلف سمیناروں میں پیش کیے گئے ان کے مقالات کا مجموعہ ہے۔

اس کتاب کواصلاً تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے باب کا عنوان ہے : فکر اسلامی اوراس کے امتیازات ۔ فاضل مصنف نے فکر اسلامی کی چھ خصوصیات بیا ن کی ہیں : توحید کی ترجمانی، تدبر اورتدبیر کا باہم رشتہ، خلافت اور تسخیر کا لزوم ، ثبات کے ساتھ تبدیلی، حریّت فکر کی پاسبانی اوراسلامیت و انسانیت کے درمیان اعتدال۔ باب دوم’ اسلامی تحریکوں کی فکری ترجیحات ‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے یہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں عالمی اسلامی تحریکات نےکس طرح اپنے روایتی موقف میںتبدیلی کی اوروہ آرا اختیار کیں جو عہدجدید سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ تیسرا باب، جو کتاب کے مرکزی موضوع سے بحث کرتا ہے، فکری وعلمی حجابات پر ہے۔ اس میں دس عناوین کے تحت فاضل مصنف نے مختلف مثالیں پیش کرکے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح پیش آمدہ مسائل میں درست اور معتدل اسلامی موقف اختیار نہیں کیا گیا ۔ پیش کردہ مثالوں میں سزائے رجم ، حجاب ، حرمتِ مصاہرت، خواتین کی مساجد میں حاضری، افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمہ کا انہدام، تکفیری رجحانات، صوفی اسلام اوروہابی اسلام کی تفہیم، خلیج میں شیعہ سنی کش مکش ، مسلکی منافرت، ارتداد اورتوہینِ رسالت کی سزائیں وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

یہ کتاب عصری اہمیت کے حامل موضوع سے بحث کرتی ہے۔ امید ہے ، علمی حلقوںمیں اسے قبول عام حاصل ہوگا اوراس سے بھر پور استفادہ کیا جائےگا۔

(محمد رضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            عصر حاضر اور نظریۂ جہاد۔ تنقیدو استدراک

مصنف               :            پروفیسر محسن عثمانی ندوی

ناشر                       :            نیوکریسنٹ پبلیشنگ کمپنی ،۲۰۳۵۔گلی قاسم جان ، بلی ماران ، دہلی۔۶ 

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸ء ، صفحات : ۱۴۴۰، قیمت/-۸۰؍روپے

جہاد موجودہ دورِ کا ایک نہایت حساّس موضوع ہے ۔ اسے دشمنانِ اسلام جہاں ’دہشت گردی ‘ کے مترادف قرار دیتے ہیں ،و ہاں اہلِ اسلام میں سے متعدد افراد ایسے ہیں جنہوںنے اس کےبارے میں  بعضـ ایسی باتیں کہی ہیں جو اب تک کے علمائے اسلام کے علمی سرمایہ میں مذکور باتوں سے مختلف ہیں ۔ اس موضوع پر ماضی قریب میں کچھ کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں اوررسائل ومجلات میں شائع ہونےوالے مقالات میںبھی اس پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے ۔ بعض علماء نے ان آرا کا تعاقب کیا ہے اوردلائل کے ساتھ ان کورد کیا ہے۔

پروفیسر محسن عثمانی کی عالم اسلام کے موجودہ حالات پر گہری نظر ہے ۔ وہ وہاں کے سیاسی  اتھل پتھل پر مسلسل لکھتے رہتے ہیں اوران میں پنپنے والے منحرف افکار کا بھی انہوںنے کام یابی کے ساتھ تعاقب کیا ہے ۔ انہوںنے زیر نظر کتاب میں جہاد کے موضوع پر شائع ہونے والی چند منتخب تحریروں کوجمع کردیاہے ، جن میں جہاد کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر نہ پیش کرنے والی بعض کتابوں یا مقالات کارد کیا گیا ہے ۔

یہ کتاب دس مضامین پر مشتمل ہے ۔ مولانا وحید الدین خاں نے جہاد کوصرف دفاعی قرار دیا ہے اور اس کے لیے بعض ایسی شرائط عائد کردی ہیں جن کا یکجا  ہونا ناممکن نہیںتو دشوار ترین ضرور ہے ۔ مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنے مضمون میں اس پر تنقیدی نظر ڈالی ہے۔

مولانا یحییٰ نعمانی کی کتاب ’الجہاد‘ کے نام سے چند سال پہلے شائع ہوئی تھی ۔ پھر اس کے کچھ حصے ماہ نامہ افکار ملی کے بعض شماروں میں شائع ہوئے۔ اس کے بعض مباحث کے ردمیں پانچ مضامین (مضمون نگار: محمد نصیر الدین ، مولانا عبدالعلیم اصلاحی (دومضامین)، سید نور العارفین، ڈاکٹر ظلّ ہما) شامل کتاب ہیں۔ مولانا نعمانی کی کتاب پر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے مقدمہ اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پیش لفظ لکھا تھا ۔ مولانا سنبھلی اورمولانا رحمانی کی بعض آرا پر مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے  اپنے مضامین میں نقد کیا ہے ۔ ابھی چند ماہ قبل مولانا عنایت اللہ سبحانی کی کتاب’ جہاد اوروح جہاد‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے ، جس میں انہوںنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جہاد کبھی کفر یا غلبۂ کفر کے خلاف نہیں کیاگیا ، بلکہ ہمیشہ صرف ظلم کے خلاف کیا گیا ۔ مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے اپنے مضمون میں کتاب کی بنیادی فکر سے اختلاف کیا ہے اوراس کے دلائل دیے ہیں۔

کتاب کا آخری مضمون خود مرتب کتاب کا ہے ۔ اس میں انہوںنے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ایک مضمون میں شائع شدہ بعضـ باتوں سے اختلاف کیا ہے۔ مولانا رحمانی نے لکھا تھا کہ مسلم ممالک کے موجودہ حکم رانوں کے خلاف مسلح بغاوت کی تحریکیں چلانا جائز نہیں ہے ۔ پروفیسر عثمانی نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ظلم کے خلاف احتجاج اورظالم حکم رانوں کےخلاف خروج جائز ہے ۔ انہوں نے آیات قرآنی ، احادیث نبوی، عہدِ صحابہ وتابعین کے واقعات اور ائمہ وعلما کے اقوال سے استدلال کیا ہے ۔

اس تبصرہ میں جہاد کے بارے میں پیش کی گئی آرا اوران کے رد میںلکھے جانے والے مضامین کا محاکمہ ممکن نہیں ہے ۔ قارئین کتاب کے مطالعہ کے بعد فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سی آرا کتاب وسنت سے قریب تر ہیں اورکون دینِ حنیف کی غلط ترجمانی کرتی ہیں۔

امید ہے، اس کتاب کوعلمی حلقوں میں مقبولیتِ حاصل ہوگی اورجہاد کے بارے میں پیش کی گئی آرا کو بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جائے گا۔

(محمدرضی الاسلام ندوی)

نام كتاب           :            آسان ترجمہ وتفسیر قرآن مجید

مفسرہ                   :            محترمہ محمود النساء بیگم

ناشر                       :            محترمہ خیرالنساء بیگم مع آل واولاد ۔ حیدرآباد (Mob:9177316073) 

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۷ء ،  جلد اوّل ،صفحات : ۶۸۶،جلد دوم،صفحات : ۹۹۵۰، قیمت درج نہیں

ملنے کا پتہ :     جامعہ ریاض البنات ۔ حیدرآباد (موبائل :040-24540291)

قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں سینکڑوں تراجم اورتفاسیرموجودہیں ، لیکن وہ عام طور سے مردوں ہی کے رشحات قلم کا نتیجہ ہیں۔ قرآن کے ترجمہ اورتفسیر کی خدمت انجام دینے والوں میں خواتین کا نام خال خال ہی نظر آتا ہے ۔ اردو زبا ن میں خواتین کے قلم سے قرآن کی بعض جزوی تفسیر یں موجود ہیں، لیکن محترمہ محمود النساء بیگم کومکمل قرآن کا ترجمہ اورتفسیر کرنے کا شرف حاصل ہے ۔ یہی تفسیر اس وقت پیش نظرہے ۔

یہ کتاب دو  جلدوں پر مشتمل ہے ۔ پہلی جلد میں سورۂ فاتحۃ سے سورۂ کہف (پندرہ پارہ) تک کی تفسیر اورترجمہ کیا گیا ہے ۔ دوسری جلد میں سورۂ مریم سے ختم قرآن تک کی تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ کتاب پرمقدمہ  مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے تحریر کیا ہے ۔ ان کے علاوہ کتاب پر دس علماء کے تاثرات اور تقریظات ہیں۔

یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ اس سے پہلے یہ تقریباً ۷۷ سال پہلے ۱۳۶۲ ھ/ ۱۹۴۳ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ اس میں طبع اوّل کے ابتدائی وآخر ی  دو صفحات کی نقل (فوٹو کاپی ) عکس تحریر کے عنوانات سے شامل کی گئی ہے ، جس سے پتا چلتا ہےکہ طبع اوّل حامل متن نہیں تھا ۔لیکن اس ایڈیشن میں متنِ قرآن کوبھی شامل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

مفسّرہ محمود النساء بیگم کا تعلق حیدرآبادسے تھا ۔ ان کی ولادت ۱۸۹۸ء میں اور وفات ۱۹۶۵ء میں ہوئی۔ ان کے والد دین دار اورباوقار عہدہ پر فائز تھے۔ انہوںنے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی تھی۔ محمود النساء دین دار خاتون تھیں۔ انہیں فنِ طب سے بھی اچھی واقفیت تھی۔ وہ غریب بیماروں کا مفت علاج کرتی تھیں ۔ جلد ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد انہوںنے اپنی زندگی قرآن کریم کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ وہ لاولد تھیں۔ انہوںنے اپنی ایک بھتیجی کو اپنے ساتھ رکھا، جن کا نام خیر النساء تھا۔ انہوں نے ہی تفسیر کے اس دوسرے ایڈیشن کومنظر عام پر لانے میں اپنا گراں قدر تعاون پیش کیا ہے۔ اس ترجمہ وتفسیر کولکھنے کے پیچھے محترمہ کا خاص مقصد یہ تھا کہ جولوگ عربی زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے قرآن کریم کےاصل پیغام سے ناواقف رہ جاتے ہیں ، ان کے سامنے ان کی مادری زبان میں قرآن کے احکام ومسائل رکھے جائیں ، تاکہ وہ اس کتابِ ہدایت کے فیض سے محروم نہ رہ جائیں۔

تفسیر کا انداز عام فہم، سادہ اور آسان ہے ۔غیر ضروری باتوں سے بچتے ہوئے  آیاتِ قرآنی کی مختصر تفسیر بیان کی گئی ہے۔ کسی بھی سورہ کی تفسیر بیان کرنے سے پہلے عٰلیحدہ صفحہ پر سورہ کا ترتیبی نمبر ، نزولی نمبر، پارہ نمبر، منزل، رکوع، آیات کے علاوہ اس میں موجود کلمات وحروف کی تعداد درج کی گئی ہے اور اس کے مکی یا مدنی ہونے کی نشان دہی کی گئی ہے ۔ اس کے بعد ’تعارف‘ کے عنوان سے سورہ کا مختصر تعارف کرایا گیا ہے ، پھر ترجمہ وتفسیر قلم بند کی گئی ہے۔ اس ترجمے اورتفسیرمیں بنیادی طور پر شاہ عبدالقادر دہلوی اورمولانا محمود حسن دیوبندی کے تراجم وتفاسیر سے استفادہ کیا گیا ہے ، لیکن ساتھ ہی صحاح ستہ اوردیگر مشہور قدیم تفاسیر ، مثلاً جلالین، تفسیر ابن کثیر ،تفسیر رازی، اورتفسیر عثمانی سے بھی مدد لی گئی ہے۔ احادیث اوراقتباسات مع حوالہ درج کیے گئے ہیں۔ غرض یہ تفسیر قدیم وجدید میں ہم آہنگی کی عمدہ مثال ہے ۔ آیات کی تفسیر میںدیگر آیات  واحادیث پیش کی گئی ہیں۔

اس تفسیر کا ابتدائیہ مولانا محمد سراج الہدیٰ  ندوی ازہر ی، استاد دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد نے قلم بند کیا ہے ۔ انہوںنے باریک بینی سے پوری تفسیرکا مطالعہ کیا ہے اوراس کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔ انہوںنے حسب ضرورت اس میں تحقیق وتعلیق اورحذف واضافہ سے بھی کام کیا ہے ۔ فرق کرنے کے لیے موصوف نے اپنے اضافہ کردہ مواد کے ذیل میں حاشیہ میں بین القوسین (ابویحییٰ) لکھ دیا ہے۔ موصوف کی علمی دیانت داری یہ ہے کہ انہوںنے ترجمہ میں جوبھی مداخلت کی ہے اس کا اعتراف اپنے ابتدائیہ میں کیا ہے ۔

غرض یہ کہ عمدہ اردو زبان میں یہ قرآن مجید کا بامحاورہ ترجمہ اورتفسیر ہے ۔ترجمہ میں کہیںکہیں حسب ضرورت بین القوسین وضاحت کی گئی ہے ۔ آسان اورعام فہم ترجمہ اورمختصر تفسیر بیان کی گئی ہے ۔ کسی خاتون کے قلم سے یہ خدمت قرآن کی ایک عمدہ اورقابل قدر کوشش ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس تفسیر کوعام کرے اوراس کو زیر طبع سے آراستہ کرانے والوں اورعلمی حلقوں میں تعارف کرانے والوں کو بہترین اجر سے نوازے ۔ آمین۔

(ڈاکٹر ندیم سحر عنبرین)

اوکھلا گاؤں ، جامعہ نگر ، نئی دہلی (موبائل :9811706797)

نام كتاب           :            اردو نصاب اورمدارس : ایک مشاہداتی اورتجزیاتی مطالعہ

مصنف               :            توقیر راہی

زیر اہتمام         :            براؤن بک پبلی کیشنز ، نئی دہلی 

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۷ء ،  صفحات :۲۴۴،قیمت:۳۹۹؍روپے

ماضی میںمدارس اسلامیہ کا کردار بہت تاب و ناک اورناقابل فراموش رہا ہے اورکسی قدر آج بھی ہے۔ مدارس کے فارغین نے ہر میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں، خواہ سیاست کا میدان ہو یا قیادت کا میدان ، تعلیم وتعلم کا میدان ہو یا تقریر وتحریر کا ہو۔ آج بھی دانش گاہوں میں صالح، باکردار اور اچھے مدرس مدارس کے فارغین ہی ہوتے ہیں۔

یوں توہندوستان میں مدارس ومکاتب کا جال بچھا ہوا ہے ، ان میں زیادہ تر وہ ہیں جوگھر کی چھتوں اوربند کمروں میں چلائے جاتے ہیں ، جن میں طلبہ کی تعداد سو اورپچاس کے آس پاس ہوتی ہے  اور مدرس بھی ایک سے پانچ کی تعداد میں ہوتے ہیں اوران کا باضابطہ کوئی نصاب بھی نہیں ہوتا۔ بس ان میں قرآن ، حفظ، ناظرہ اورقاعدہ کی تعلیم ہوتی ہے ۔ آج بھی پورے ملک میں قابلِ قدر اوربڑے مدارس کی کمی ہے ۔ مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے مدارس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ۔ ان میں کچھ ہی مدارس ایسے ہیں جن کے نصاب کومعیاری اور بہتر کہا جاسکتا ہے ، ورنہ زیادہ تر مدارس میں محض روایتی تعلیم ہی ہوتی ہے ۔ اب چوںکہ سائنس اور ٹکنالوجی کا زمانہ ہے، اس اعتبار سے تقریباً  ہربڑے مدرسے میں عربی ، فارسی کے علاوہ انگریز ی ، ہندی اورکمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جانے لگی ہے ۔ باوجود اس کے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مدارس کے نصاب میںتبدیلی کی جائے اورزیادہ سے زیادہ مدارس کا یونی ورسٹیوں سے الحاق بھی کیا جائے، تاکہ فارغین مدراس عملی زندگی میں کام ران ہوسکیں۔جہاں تک مدارس میں اردو نصاب کی بات ہے تو سبھی جگہوں پر اردو کی اچھی تعلیم دی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کا لجز، اور یونی ورسٹیز کے طلباکے مقابلے میں اچھی اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔

زیر نظر کتاب جناب توقیر راہی کی تحقیقی کتاب ہے ۔ یہ کتاب مدارس کے تعلق سے اب تک لکھی گئی کتابوں سے مختلف اورنئے زاویے کی حامل ہے ۔ کیوں کہ مدارس پر معروضیت کے ساتھ اب تک کوئی قابل ذکر تحقیقی کام نہیں ہوا ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع اورمواد کے اعتبار سے جدّت وندرت لیے ہوئے ہے ۔ اس کتاب کو معیاری تحقیق کی عمدہ مثال کہا جاسکتا ہے ۔ فاضل مصنف نےتحقیق کے دوران میں اصولِ تحقیق کی باریکیوں اور فن وتحقیق کے ضوابط کا پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ کتاب کا بالا ستیاب مطالعہ کرنے سے  واضح ہوتا ہے کہ محقق نے بے حد عرق ریزی ، جاں فشانی اوردیدہ وری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا ہے۔یہ کتاب پانچ ابواب میںمنقسم ہے ۔ باب اوّل کا عنوان ہے ’ ہندوستان میں مدارس کا تعلیمی نظام: عام خصوصیات ‘ ۔اس میںتاریخی طورپر مدارس کی اہمیت ، ان کا ابتدائی نظام، پھر مدارس کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ اورتاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی سلاطین کے عہد میں نظام تعلیم کا جوتصوّر تھا اس پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس باب میں ہندوستان میں چلنے والے کئی طرح کے مدارس کا مفصل تعارف کرایا گیا ہے،جیسے وہ مدارس جہاں صرف قرآنِ کریم کے حفظ وتجوید کا انتظام ہے ، درسِ نظامی کےتحت چلنے والے مدارس، وہ مدارس جو رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں ، وہ مدارس جن کا الحاق مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ وہ مدارس جن کا یکساں نظام تعلیم اورنصاب ہے ۔ پھر نصاب تعلیم ، طریقۂ تدریس ، طریقۂ امتحان، اساتذہ، آمدنی وغیرہ پر جامع اورمدلل گفتگو کی گئی ہے۔

باب دوم ’اردو نصاب اورملحقہ وامدادی مدارس،کے عنوان سے ہے ۔ اس میں مختلف ماہرین تعلیم کے ذریعہ کی گئی نصاب کی تعریف کو ذکر کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ  نصاب کی تشکیل  تعلیمی مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے ۔ ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف صوبوں میں پڑ ھائے جارہے اردو نصاب کا مفصل ذکر صوبوں کے حوالے سے کیا گیا ہے اور ہر صوبے کے نصاب کو جزئیات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

باب سوم میں ملحقہ مدارس میںاردو نصاب کے تعلق سے تفصیلی ذکر ہے کہ کس مدرسہ کا نصاب کیا ہے ؟  اس ضمن میں کچھ مدارس کا ذکر چھوٹ گیا ہے ، جیسے جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ، جوکہ ہندوستان میں دینی و عصری علوم کا بڑا مرکز ہے ، اس کا ذکر نہیں ہے ۔ ہر مدرسے کے ضمن میں یہ بھی ذکر کرنا چاہیے تھا کہ یہ مدرسہ کب قائم ہوا؟ باب چہارم ’ مدارس میںا ردو طریقۂ تدریس ‘ پر ہے ۔ اس میں مدارس میں رائج طریقۂ تدریس کے تعلق سے اچھی گفتگو کی گئی ہے ،جیسے پڑھنا سکھانا ، لکھنا لکھانا ، سمجھنا سکھانا ، اور مڈل منزل ، ثانوی منزل، اعلیٰ اورثانوی درجات وغیرہ کے تعلق سے تفصیلی ذکر ہے ۔

کتاب کے آخر میں ’ماحصل‘ کے عنوان سے ’قومی وبین الاقوامی سطح پر فروغِ اردو کی موجودہ صورت حال اورامکانات ‘ پر مصنف نے اچھی گفتگو کی ہے ۔ اس کا آغاز انہوںنے عہد نبویؐ سے کیا ہے اور ہر  بار عہد کی تعلیمی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے دور حاضر میں کالجوں اوریونی ورسٹیوں کی صورت حال کا تجزیہ کیا ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کی اہم کتاب ہے۔ امید کہ علمی حلقوں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

(خان محمد رضوان)

Mob:9810862283

Email:[email protected]

نام كتاب           :            کودرا (شیعہ سنّی مفاہمہ کی ایک تقلیب انگریز روداد )

مصنف               :            راشد شاز

ناشر                       :            ملی پبلی کیشنز ، جامعہ نگر، نئ دہلی ۔۲۵

سنہ اشاعت     :            ۲۰۱۸، صفحات: ۲۳۹، قیمت ۔؍ 

’کودرا‘ ڈاکٹر راشد شازکی نئی تصنیف ہے، جو دراصل ان کے بوسنیا کے نواح کے گیارہ روزہ سفرکی روداد ہے۔ طباعت خوب صورت، کاغذ عمدہ اور ٹائٹل عمدہ ترین ہے۔ اولِ وہلہ میں ذوقِ مطالعہ رکھنے والے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، نام بادی النظر میں کچھ عجیب سا لگتا ہے، مگر درونِ کتاب میں جھانکنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام کتاب کے مرکزی کردار ’علی کودرا ‘سے مستعار ہے۔ علی کودرا بوسنیائی عالم، مختلف مسالک و مشارب بالخصوص سنّی و شیعہ مراکزِ علمی کے فیض یافتہ، سابق بوسنیائی صدرعزت بیگووچ کے خوشہ چیں اور اتحادِ اسلامی کاجذبۂ بے تاب رکھنے والے، مگر ساتھ ہی اُس اتحادکے امکان سے مایوس بھی ہیں۔

اس کتاب میں اور بھی کئی کردار ہیں، جن کی زبانی حسبِ موقع مصنف نے یا تو اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا ہے، یا پارسی فال کے اساطیری قلعہ ’کاسل بورل‘ کے مختلف حصوں میں ان کرداروں کے ساتھ برپا ہونے والی مجلسوں کی کہانی سنائی ہے۔ کتاب کا بنیادی تھیم شیعہ سنی اختلافات کے حل یا خاتمے کے امکان و عدمِ امکان کے گردگردش کرتا ہے۔ ٹائٹل پر ہی ’شیعہ سنی مفاہمہ پر ایک تقلیب انگیز روداد‘ درج ہے، جس سے موضوع کی نشان دہی ہوتی ہے۔ راشد شاز بقول خود اُسی اتحادِ اسلامی کے لیے متحرک ہیں، سو ان مجلسوں میں ہونے والی گفتگو میں وہ بڑے چاؤ سے نہ صرف شریک ہیں،بلکہ جگہ جگہ اپنی تمام تر ’مفکرانہ شان‘ کے ساتھ اظہارِ خیال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کتاب کے دیگر کرداروں میں شیخ حسن فولادی، شیخ الحذیفی، کشمیری طالب علم عبدالحمید، باسم البنا، محمدفالح، شیخ سلیمان، المینہ، ڈاکٹرپیا، مارلن وارنر، پروفیسرپریووک وغیرہ قابلِ ذکرہیں اور اس سفرنامے کازیادہ ترحصہ انہی لوگوں کی باہمی بات چیت پر مرکوز ہے۔

کتاب کے مطالعے کے دوران میں ذہن میں خیالات وافکار کی کئی لہریں آتی اور چلی جاتی ہیں۔ فاضل مصنف کہیں خوب صورت لفظوں میں اپنی بات بھی بڑی خوب صورتی سے کہہ جاتے ہیں، جب کہ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہيں اپنے خیال کی تعبیر کے لیے مناسب یا واضح الفاظ نہیں مل سکے۔ آمد اور آورد کی کیفیت پوری کتاب میں جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ اتحادِ اسلامی کے داعی ہیں اور کاسل بورل کی مختلف مجلسوں میں جن ’اصحابِ فکر و نظر‘ سے ان کی گفتگو ہوتی ہے، وہ بھی اسی نہج پر سوچ رہے ہیں۔ علی کودرا، جیسا کہ مصنف نے ان کے علمی و فکری جغرافیہ کا تعارف کروایا ہے، ایک کثیر المطالعہ انسان ہونے کے ساتھ ہرلمحہ سوچنے والے اور ڈوب کرسوچنے والے انسان ہیں۔ شیعہ سنی مراکزِ علمیہ سے راست وابستگی اوران دونوں فرقوں کی امہاتِ مصادرِ علمیہ کے مطالعے نے ان کی شخصیت کو عجیب سی پیچیدگی اورثنویت سے دوچار کردیا ہے۔ بات کرتے کرتے ان پر دورہ پڑنے لگتا اور وہ ’اللہم عجل لولیک الفرج ‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ انہيں اس بات پر بہت دکھ ہے کہ سنی اور شیعہ فرقے اپنی اصل سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان دونوں کا اتحاد اسلام اور مسلمانوں کے روشن مستقبل کی دریافت کے لیے ضروری ہے، مگر ساتھ ہی انہيں اس سے مایوسی بھی ہے۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک دونوں فرقوں کے علمی ذخائر میں پائی جانے والی تاریخی روایات، باہم متعارض احادیث کی کتابیں اور مختلف فقہی مکاتب ہیں، جنہیں دونوں فرقوں نے قرآن کی اصل تعلیمات کو چھوڑ کر اپنے لیے پیمانۂ عمل بنا رکھا ہے۔

ان کے علاوہ ایک دل چسپ کردار شیخ سلیمان کا بھی ہے، جو پیشے سے ریسٹورنٹ کے مالک ہیں۔ کاسل بورل کی کانفرنس میں مہمانوں کے خورد و نوش کا انتظام انہی کے سر ہے۔ نسلاً نصیری ہیں، مگر گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ کئی فکری مسالک کو پڑھا، سمجھا اور ان کے یہاں پائے جانے والے فکری و علمی تضادات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کی باتیں بھی بڑی دل چسپ ہیں۔ شیعہ سنی مراجع کی تہوں میں گھس کر دونوں کی خامیوں کو کھوج نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں، البتہ عالمِ اسلام یا مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کا کوئی واضح حل ان کے پاس بھی نہیں ہے۔

’کودرا‘ میں ایک دل چسپ کتاب (کتاب البدع) کا بھی تذکرہ ہے اور اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب مصنف کو بورل کی لائبریری میں ، نہایت بوسیدہ حالت میں ملی، اتنی کہ مصنف کا نام تک نہیں پڑھا گیا۔ تلاشِ بسیار کے بعد صرف اتنا پتا چل سکا کہ اس کے مصنف کوئی نیشاپوری عالم ہیں اور یہ سلجوقیوں کے عہدِ حکومت میں لکھی گئی ہے۔ نمی کی وجہ سے کتاب کے صفحات باہم پیوست ہوگئے تھے۔ اس کے ایک ذیلی عنوان نے شازصاحب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ’’اللہ نے شریعت نازل کی ہے، علما نے نہیں‘‘۔ پھر وہ اسلام کے علمی طبقات، فقہی مسالک، اہل الحدیث، اصحابِ رجال کے بارے میں کچھ چونکانے والی باتوں کو اس کتاب کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔ شہادتِ عثمان کی ایک بالکل الگ توجیہ پیش کی گئی ہے۔ مصنف کومسلمانوں کے فکری انتشار پر بڑی حیرت ہے۔ وہ لکھتا ہے ’’حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے زمانے میں دینِ حنیف کی شکل کیا سے کیا ہوگئی ہے؟ کوئی معتزلی ہے تو کوئی اشعری، کوئی حنبلی ہے تو کوئی شافعی، کوئی ظاہری ہے توکوئی حنفی، نہ جانے دین کی اتنی مختلف اور متحارب شکلیں کہاں سے نکل آئیں؟ اہلِ تصوف کی تو دنیا ہی الگ ہے، انہوں نے اپنے مختلف طرق نہ جانے کہاں سے کشید کرلیے ہیں، درگاہیں، خانقاہیں اور زاویے، جن کاصدرِ اول میں کوئی وجود نہ تھا، آج اطراف واکناف میں قائم ہورہے ہیں اور انہيں سلاطین کی پشت پناہی حاصل ہے، ان کے متولیان کے لیے بڑے بڑے اقطاع کے فرمان جاری ہوتے ہیں۔ دین کے نام پر طلبِ دنیا کے اس سے مکروہ مظاہرے اور کیا ہوسکتے ہیں؟‘‘۔ (ص: ۱۴۷۔ ۱۴۸)

کتاب کا مرکزی موضوع شیعہ سنی مفاہمہ کے امکانات کی جستجو ہے۔ اس ضمن میں مصنفِ کتاب اور جن اشخاص کے اقوال و افکار انہوں نے نقل کیے ہیں، ان کی فکر یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے واحد سرچشمہ قرآن پر انحصار کرنا چاہیے، وہ روایات اور تاریخ پر اعتماد کرنے کے روادار نہیں ہیں، حتیٰ کہ قراءت ِقرآن کے مختلف طرق بھی ان کے نزدیک ’التباسِ فکر و نظرکی فتنہ سامانیاں‘ ہیں۔ اتحادِ امتِ اسلامی کا قیام عصرِ حاضر میں نہایت ضروری، بلکہ مسلمانوں کا اولین سماجی اور فکری نصب العین ہونا چاہیے اور اس کے لیے جو بھی جماعت یا فرد کوششوں میں مصروف ہے، ہم ان کی تحسین و تائیدکریں گے، ان کی جدوجہد کو سراہنا مسلمانوں کی ذمے داری اور ان کی دعوت پر لبیک کہنا ایک ملّی فریضہ ہوگا، مگر اس اتحاد کے لیے بنیاد کیسی فراہم کی جارہی ہے؟ اس پر توجہ دینا بھی ازحد ضروری ہے۔

قرآنِ کریم اسلامی احکام کا اوّلین سرچشمۂ اور مسلمانانِ عالم کا قبلۂ مقصودہے، مگر کیا پوری دنیا اس کتاب کو براہِ راست بغیر کسی شرح و توضیح کے سمجھ سکتی ہے؟ احادیث میں تعارض ایک حقیقت ہے، تاریخی روایات میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے، مگر کیا اس کی وجہ سے تمام تر ذخائرِعلمی و فکری و تاریخی پر خطِ نسخ پھیر دیا جائے؟ کیا ہر انسان براہِ راست قرآن سے استفادہ کرنے، اس کے مرادات و معانی کو سمجھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ضرور اسے کسی تفسیرو تشریح کی ضرورت ہوگی،پھر وہ کس کی تشریح پر اعتماد ے؟

اس کتاب میں جا بجایہ تو محسوس ہوتا ہے کہ مصنفِ واقعتاً امت کے انتشار و پراگندگیِ فکر و عمل پر رنجیدہ وغمگین ہے اور وہ اس کوشش میں ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، امت کو جوڑنے اور ربطِ باہمی کی کوئی مضبوط اساس فراہم کی جائے، مگر کتاب کے اخیر تک پہنچتے پہنچتے یہ تاثر قائم ہوتا ہے، کہ جس ذہن و فکر اور طرزِ عمل کے ساتھ عالمی اتحادِ اسلامی کی یہ بانگ بلند کی جارہی ہے، اس کے ہوتے ہوئے شایدہی عالمِ حقیقت میں ظہور پذیر ہوسکے۔

کتاب کا ظاہری سراپا تو لاجواب اور مصنف و ناشرکے حسنِ ذوق کا نمونہ ہے، اندرون کا  مواد بھی دل چسپ ہے۔ مصنف کے مرکزی خیال سے عدمِ اتفاق کے باوجود اس کتاب سے کئی اہم تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہیں، سوچ کی نئی جہت اور فکر کے نئے دروا ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اسلوب افسانوی رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، مگر حقیقت میں ایسا ہو نہیں پایا ہے۔ لفظیات کو برتنے میں بھی کئی جگہ چوک ہوئی ہے۔ کتاب میں جگہ جگہ ’’مشائخیت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، حالاں کہ اگراس کی لفظی تحلیل کی جائے تو یہ کوئی درست مستعمل لفظ نہیں۔ مشائخ عربی زبان میں شیخ کی جمع ہے، اس کے اخیر میں ’ی اور ت‘ کے اضافے کے ساتھ استعمال سمجھ میں نہیں آتا۔ ’علامیہ‘ بھی جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے،  حالاں کہ ’اعلامیہ‘ رائج ہے۔ اذان خانہ یا مینار کے لیے عربی کا لفظ ’مئذنہ‘ درست اور مستعمل ہے، مگر کتاب میں جگہ جگہ’ماذنہ‘(ص:۹۶،۱۸۵ وغیرہ) لکھا گیا ہے۔ ’آلایش‘ کی جمع ’آلایشات ‘ (ص:۱۹۲) بھی عجیب لگی ۔ اختلافِ قراتِ قرآن کے سلسلے میں ’سبعۃ أحرف‘ ایک جانی پہچانی علمی اصطلاح ہے اور اعداد کے عربی قاعدے کے اعتبار سے بھی یہی درست ہے، مگر اسے ہر جگہ’سبع احرف‘ لکھا گیا ہے۔ مولانا روم کے ایک شعر کا معروف مصرع ہے  ؎ ایں خیال است و محال است و جنوں ۔ اس میں ایک مخصوص شعری آہنگ و موزونیت ہے، لیکن کتاب میں اسے نقل کرتے ہوئے درمیان سے دونوں’واؤ‘ کو حذف کردیے گئے ہیں۔ اس سے اس مصرع کا مزاج بگڑگیا ہے اور درمیان میں سکتے پیدا ہوگئے ہیں۔ عربی و فارسی اشعار وعبارات میں کئی مقامات پر فاش غلطیاں ہیں۔

بہرحال، یہ سفرنامہ بڑی حد تک دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔

(نایاب حسن)ـ

مدیر اعلیٰ قندیل ڈاٹ ان

Mob:9560188574

مشمولہ: شمارہ جولائی 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223