نئی تعلیمی پالیسی

اندیشے اور مواقع

ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی دستاویز 29؍ جولائی 2020ء کو پیش کی گئی۔ پالیسی کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کا جائزہ مختلف زاویوں سے لیا جا رہا ہے۔ یہاں ہم اس پالیسی کا جائزہ ملی تناظر میں پیش کر رہے ہیں۔

پالیسی کی دستاویز ویب سائٹ پر صرف انگریزی اور ہندی میں دستیاب ہے۔ انگریزی کی دستاویز 65 صفحات پر مشتمل ہے۔ انسانی کاوشوں میں کم زوریاں ہوتی ہیں۔ سو اس دستاویز میں بھی ہیں۔ کم زوریوں کے ساتھ چند تضادات بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔

پالیسی کی چند خصوصیات

۱۔ آئندہ بیس برسوں میں ملک کو تعلیمی میدان میں ’سُپر پاور‘ بنانے کا عزم کیا گیا ہے۔

۲۔ آنے والے برسوں میں دنیا کو جس طرح کے انسانی وسائل کی ضرورت ہے، ویسے افراد تیار کرنے کا منصوبہ ہے۔

۳۔ اب تک تعلیم کا مقصد معلومات کا حصول بن کر رہ گیا تھا، لیکن اب معلومات کے ساتھ ساتھ معلومات کا تجزیہ، تحلیل اور شخصیت کی تعمیر پر بھی زور دیا جائے گا۔ جسے’ہولسٹک ایجوکیشن‘ کہا جاتا ہے۔

۴۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسکولوں کے لیے جس انداز کا انفراسٹرکچر (مادّی سہولیات) دستیاب ہیں اس معیار کی سہولیات ہمارے اسکولوں اور کالجوں کو بھی فراہم کرنے کا عزم ہے۔

۵۔ درس و تدریس میں کمپیوٹر ٹکنالوجی کا نفاذ اور اس کے بھرپور استعمال کا نشانہ ہے۔

۶۔ اساتذہ کی تربیت کے میدان میں بی ایڈ کورس کی میعاد کو دو سال سے بڑھا کر چار سال کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پالیسی کے مطابق اب اساتذہ کا انتخاب ایک مسابقتی امتحان کے ذریعے کیا جائے گا۔

۷۔ تعلیمی نظام کے مدارج کو بدل دیا گیا ہے۔ ابھی 10+2 (دسویں اور پھر گیارہویں اور بارہویں) کا نظام رائج تھا، اب پانچ سال فاؤنڈیشن ایجوکیشن ہوگی۔ یعنی نرسری، ایل کے جی، یو کے جی، جماعت اوّل اور دوم۔ جماعت سوم تا پنجم پریپ ریٹری (preparatory) جماعت ششم تا ہشتم مڈل(middle) اور پھر نہم تا بارہویں سیکنڈری (secondary)۔ اس کے بعد ہائیر اور یونی ورسٹی کی تعلیم۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں بھی چند اصلاحات تجویز کی گئی ہیں۔ اب بیشتر گریجویشن کورس چار سال کے ہوں گے، بہت کم تین سال کے۔

۸۔ جماعتِ نہم سے طلبا کو مضامین کے انتخاب کی آزادی ہوگی۔ موجودہ نظام عام طور پر گیارہویں اور بارہویں کو تین مضامین کے گروپوں میں تقسیم کرتا ہے۔ سائنس، کامرس اور آرٹس۔ نئی پالیسی کے تحت جماعت نہم سے طلبا اب مضامین کے انتخاب میں آزاد ہوں گے۔ یعنی سائنسی مضامین کے ساتھ آرٹس یا کامرس کے مضامین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک لازمی زبان کے ساتھ مزید چار مضامین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ کوئی طالب علم ان میں فزکس، کیمسٹری، بایولوجی کے ساتھ ریاضی کے بجائے سائیکولوجی (نفسیات) کا مضمون لے سکتاہے۔ اس کے علاوہ چند اور مضامین میں سے بھی انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

۹۔ جماعت نہم سے کسی ایک غیر ملکی زبان کو بھی سیکھنے کی گنجائش رہے گی۔

۱۰۔ جماعت نہم سے کسی ایک ہنر کو بحیثیت مضمون پڑھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کارپینٹری، ٹیلرنگ، الیکٹریشین وغیرہ۔ اگر طالب عالم ان ہی پیشوں میں سے کسی ایک پیشے کو اختیار کر کے مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس ہنر میں گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ہوں گے۔

۱۱۔ کوئی طالب علم اگر بارہویں کے بعد یونی ورسٹی یا کسی بھی گریجویشن کے کورس میں ایک سال کی تعلیم مکمل کرتاہو تو’سرٹیفیکٹ کورس‘ کی تکمیل سے اسے نوازا جائے گا۔ دو سال مکمل کرنے پر ڈپلوما کا سرٹیفیکٹ دیا جائے گا۔

۱۲۔ تحقیق کے لیے ایم فل کا سسٹم ختم کر دیا گیا ہے۔ اب دو سال پوسٹ گریجویشن کی تکمیل کے بعد کسی بھی مضمون میں تحقیق (ریسرچ) کےلیے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا جا سکتا ہے۔

۱۳۔ موجودہ حق تحصیل علم (آر ٹی ای) قانون کے تحت چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کی مفت تعلیم کا انتظام حکومت پر لازم ہے۔ اب یہ عمر تین سال سے اٹھارہ سال تک کر دی جائے گی۔

۱۴۔ عرصہ دراز سے تعلیمی نظام میں جاری امتحانات کے طریقۂ کار پر گفتگو ہو رہی ہے۔ نئی پالیسی نے امتحانات کے انداز کو بدل دیا ہے۔ نشانات کے حصول کی جانچ نہیں ہوگی بلکہ طالب علم کی شخصیت سازی کو پرکھا جائے گا۔ اس میں اس کی سمجھ اور علم کو برتنے کی صلاحیت کا جائزہ لیا جائے گا۔ موجودہ جاری نظام کو مجموعی جائزے پر مبنی نظام (summative system) کہا جاتا ہے اب تشکیلی یا ڈھالنے والے نظام (formative system) کو اختیارکیا جائے گا۔ اس نظام کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ طالب علم اس میں از خود اپنا جائزہ لیتا ہے۔ اپنے دوست کی صلاحیتوں کو پرکھتا ہے اور اساتذہ کی قابلیت اور صلاحیتوں کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے۔

طلبا کو امتحانات اپنی سہولت سے دینے کا اختیار ہوگا، اور کسی وجہ سے اگر کوئی طالب علم کسی امتحان میں غیر حاضر رہتا ہے تو اسے دوبارہ امتحان دینے کی اجازت ہوگی۔

۱۵۔ اعلیٰ درجے کی سو بین الاقوامی شہرت یافتہ یونی ورسٹیوں کو اپنے کیمپس یہاں ہندستان میں قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

۱۶۔ تعلیمی میدان میں سرگرم رضا کاروں، رضا کارانہ تنظیموں، غیر سرکاری اداروں اور مختلف مضامین کے ماہرین کو اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کا موقع دیا جائے گا۔

۱۷۔ ہر سطح پر تعلیمی معیار اور اسکولوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے اسپیشل ایجوکیشن زون (SEZ) قائم کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے علاوہ یہ منصوبہ بھی ہے کہ مختلف کم زور اسکولوں کو ضم کر کے بڑے وسیع تعلیمی کیمپس بنائے جائیں گے۔

۱۸۔ مختلف سطحوں کے تعلیمی اداروں کے معیارات پر نظر رکھنے اور ان کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لینے کے لیے مرکزی سطح پر ایجنسی ہوگی جس کی صدارت وزیر تعلیم فرمائیں گے۔

۱۹۔ ملک میں اب تعلیم سے جڑے معاملات وزارتِ تعلیم دیکھے گی۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔

۲۰۔ پالیسی یہ عزم کرتی ہے کہ دس برسوں کے اندر پرائمری ایجوکیشن سے لے کر سیکنڈری ایجوکیشن یعنی بارہویں تک کےداخلوں کی شرح 100 فیصد کر دی جائے۔ واضح رہے کہ بارہویں میں ابھی شرح داخلہ صرف 56.5% ہے۔ اس میں ایک سروے کے مطابق مسلمانوں کی شرح محض تقریباً 26 فیصد ہے۔

۲۱۔ طلبا کو عملی میدان سے جوڑنے اور علم کو تجربات، مشاہدات اور محسوس کیے جانے والی اشیا کے استعمال کے ذریعے پڑھایا اور سمجھایا جائے گا۔

۲۲۔ پالیسی کے بعض نکات وفاقیت (federalism)کے بجائے مرکزیت (unionism)یا حکومت کی مطلق العنان (totalatirian) رویّے کو ظاہر کرتے ہیں۔ پالیسی کئی اداروں کو تشکیل دینے کا منصوبہ پیش کرتی ہے۔ ان اداروں کی نگرانی مرکزی حکومت کرے گی،جب کہ تعلیم ریاستوں کے اختیار کا بھی شعبہ ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی ایک جانب یقین دلاتی ہے کہ اس کے ذریعے معاشی اور سماجی اعتبار سے پچھڑے طبقات کو تعلیمی اعتبار سے اونچا اٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس ضمن میں واضح نکات اس پالیسی میں شامل نہیں ہیں۔ شمولیت (inclusiveness) کی بات کہی گئی ہے لیکن اس کا اظہار بھی بعض اہم نکات میں نہیں ہوتا، چناں چہ اس حوالے سے چند نکات مندرجہ ذیل ہیں۔

تضادات

۱۔ پالیسی کو پڑھنے کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ مرکزی حکومت تعلیم کے شعبہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ حالاں کہ تعلیم دستورِہند کی بیک وقت نافذ العمل فہرست (concurrent list) میں شامل ہے، یعنی مرکز اور ریاستیں دونوں تعلیم کے متعلق پالیسی اور قوانین وضع کر سکتی ہیں۔ جب کہ اس پالیسی کو مرکزی حکومنت نے ریاستوں سے مشورے اور پارلیمنٹ میں بحث کیے بغیر منظور کر لیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قانون نہیں ہے، لہٰذا پارلیمنٹ کی توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ روایات رہی ہیں کہ اہم پالیسی دستاویز کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا نہ کیے جانے سے سوالات کا پیدا ہونا فطری ہے۔ اس رویّے سے حکومت کا غیر جمہوری طرز اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے کی روش کا بھی اظہار ہو اہے۔

ہمارے ملک میں ریاستوں کی تعلیمی پالیسیاں مختلف ہیں۔ گذشتہ 1986ء کی پالیسی رہ نما خطوط فراہم کرتی تھی۔ ان خطوط پر ریاستیں اپنا تعلیمی پروگرام وضع کرتی رہی ہیں۔ چناں چہ بعض ریاستوں میں نالج کمیشن بھی قائم کیے گئے تھے۔ اب ان کا کیا ہوگا؟ چند ریاستوں میں دلت، پچھڑی ذاتوں اور اقلیتوں کے لیے مختلف پروگرام ہیں۔ بعض ریاستوں میں اقلیتی امور کی وزارتیں قائم ہیں جن کے تحت تعلیم کے میدان میں بڑی حد تک اچھے کام ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اقلیتی کمیشن بھی ہیں۔ ان کمیشنوں کے حدود کار میں تعلیمی اداروں کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہے۔ اب ان سب کا کیا ہوگا ، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیا یہ بھی مرکزی حکومت کی جانب سے تشکیل دیے جانے والے مرکزی اداروں کے تحت کام کریں گے یا آزاد ہوں گے؟

۲۔ پالیسی میں ایک جانب کہا گیا ہے کہ یہ پالیسی شمولیت کی خصوصیت لیے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے افتتاحی کلمات ہی میں اس کی نفی ہوتی ہے۔ پالیسی ترتیب دینے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی قدیم ہندستان کے ’عظیم الشان‘ کلچر کو اپنا رہ نما مانتی ہے۔ قدیم تہذیب کے تعلیمی سرمائے میں چار اداروں کا ذکر ہے۔ پہلاتکششیلا (Takshashila) قدیم یونی ورسٹی جو کسی عہد میں اس علاقے میں قائم تھی جو اب پاکستان میں واقع ہے۔ مزید یہ کہ اس یونی ورسٹی کو بدھ مذہب کے پیروکار بادشاہوں نے قائم کیا تھا۔ دوسرا نالندہ، تیسرا وکرم شیلا اور چوتھا ولّبھی۔ صرف ان یونی ورسٹیوں کا ذکر ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان اداروں سے فارغین کے بھی چند نام درج کیے گئے ہیں ۔مثلاً چَرک، آریہ بھٹ، ناگ ارجنا، مئیتری، چانکیہ وغیرہ۔ ملک کے شاندار ماضی پر کسی کو ئی شک نہیں ہے، لیکن جب پالیسی کے لیے رہ نمائی حاصل کرنے کی بات ہوتی ہے تو کیوں کر ہندستان کے قرون وسطیٰ اور آزادی کے بعد کے دور کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ پالیسی میں بہت سارے نکات ایسے ہیں جو قرونِ وسطیٰ اور جدید تاریخ کا تسلسل محسوس ہوتے ہیں۔ پھر کیوں مدارس کا ذکر نہیں ہے؟کیوں انگریزوں کے دور میں ہوئی تعلیمی سرگرمیوں کا ذکر نہیں ہے ، چاہے وہ مشنری طاقتوں اور اداروں کے ذریعہ ہی سے کیوں نہ کی گئی تھیں؟پالیسی میں کہا گیا ہے کہ طلبا میں جذبۂ حب الوطنی کو فروغ دیا جائے گا۔ حب الوطنی کے جذبے کا اظہار قدیم مدارس نے جس معیار اور مرتبہ کا کیا تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ تحریکِ آزادی کاصور پھونکنے والوں میں بڑی تعداد مدارس سے فارغ علما کی تھی۔ ریشمی رومال تحریک علما کی جانب سے برپا کی گئی تھی۔ جمعیت علمائےہند کا قیام 1919ء میں ہوا تھا۔ جمعیت نے ملک کی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔ آزدی سے قبل مسلمانوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، عثمانیہ یونی ورسٹی کو قائم کیا تھا جن کی تعلیمی میدان میں زبردست خدمات رہی ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں بیدر میں قائم شدہ مدرسہ محمود گاوان (1411ء) کی تحریک آزادی کے لیے خدمات کونظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

آزادی کے بعد IIMs، IITs اور اہمیت کے حامل تقریباً سو ادارے قائم کیے گئے ہیں، ان کا بھی ذکر پالیسی میں موجود نہیں ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پالیسی سازوں نے اسے ایک خاص نظریہ و فکر کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ شاید وہ یہ بھی تاثر دینا چاہتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں کام دورِ قدیم میں ہوا ہے اور اب اس کا احیا ہو رہا ہے۔ اس کے درمیان کا عرصہ گویا تاریک رہا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے تئیں ان کی تنگ نظری بھی ظاہر ہوتی ہے۔

اتنا ہی نہیں وزارت تعلیم نے ، اپنی پارٹی کے سوا، آزادی کے بعد سے جتنی سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار رہی ہیں ان کی تعلیمی خدمات کو بھی نہ سراہا ہے اور نہ ہی ان کے ذکر کی ضرورت محسوس کی ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا زمانہ قدیم سے چھلانگ لگا کر ہمارا تعلیمی نظام 2020ء تک پہنچ گیا ہے۔

۳۔ اختتامیہ کے بعد زندگی کے ان اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔ جو اس پالیسی کے بنیادی اصول ہیں۔ اسی کے تحت پالیسی جس نظامِ تعلیم کی متمنی ہے اس کے مقاصد بھی بیان کیے گئے ہیں۔ بڑے اعلیٰ اصول بیان کیے گئے ہیں۔ ہم ان اصولوں کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور انھیں طلبا کی شخصیتوں میں پیدا کرنے کے خواہاں ہیں اور اس سمت کوششیں جاری ہیں۔ جن صفات کاذکر ہے ان میں سے چند یہ ہیں: حقیقت پسندی، عقلیت پسندی (rational thought)، تحقیقی و تنقیدی ذہن، اختلاف کو برداشت کرنا، دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنا وغیرہ۔ یہ اصول کسی بھی زندہ و ترقی پذیر تہذیب و معاشرہ کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن یہ صفات صرف ضبط تحریر میں لانے سے پیدا نہیں ہوتیں، بلکہ انھیں پروان چڑھانے کے لیے سازگار معاشرے کا وجود ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا معاشرہ اتنا سڑ چکا ہے کہ یہ صفات اب صرف امتحان میں کسی سوال کے جواب کے تحت تحریر کر کے نمبرحاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہیں۔ اگر ہم ان صفات کو اپنے معاشرے میں جاری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے درکار ماحول تشکیل دینا ہوگا۔ آج اختلاف کو جرم سمجھا جا رہا ہے۔ تنقید کو ملک سے بغاوت قرار دیا جاتا ہے۔ عقلیت پر اندھی تقلید کے تالے پڑ گئے ہیں۔ پتھر کی مورتیاں دودھ پیتی ہیں، چراغوں اور ڈھولوں سے وائرس کو بھگایا جاتا ہے اور انصاف کے نام پر فیصلےشہادتوں کے بجائے آستھا کی بنیاد پرہوتے ہیں، تو ہم کیسے توقع کریں کہ اس تعلیمی نظام کے ذریعہ نئی نسل کو ہمارے ہی عقائد پر ضرب لگانے کے لیے تیار کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے یہ دکھانے کے دانت ہوں۔

۴۔ پالیسی کا ایک اہم پیراگراف ’’وژن‘‘ کے عنوان کے تحت ہے۔ یہ گویا پالیسی کا نچوڑ ہے۔ یہ ہدف ہے۔ اس پیراگراف کو بھی بڑے سلیقہ سے تحریر کیا گیا ہے۔ ہندستانی تعلیمی نظام کے رہ نما اصول، مقاصد اور اہداف، ان تمام کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہاں بھی رہ نما اصول وہی بیان کیے گئے ہیں جنھیں ہم پچھلی سطور میں بیان کر چکے ہیں۔ اس قدیم نظام کے بجائے یہاں فقرہ استعمال کیا گیا ہے ہندستانی اخلاقیات (Indian ethos)۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہندستانی اخلاقیات کیا ہیں؟ جب کہ گذشتہ پالیسیوں میں اخلاقیات کے حوالے سے زیادہ گفتگو دستور میں درج اخلاقیات کے حوالے سے ہوتی رہی ہے۔ اس لفظ کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات ہیں۔ کیا ہندستانی اخلاقیات سے مراد وہ اخلاقیات ہیں جو ویدوں میں ہیں، یا وہ جو منوسمرتی میں ہیں؟ منوسمرتی کے اخلاق میں کیا طبقاتی نظام’وَرَن‘ کو بھی شامل کیا جائے گا، کیوں کہ اگر منو سمرتی کے طبقاتی نظام کو بنیاد بنایا جاتا ہے تو اس سے اخلاقیات کا جو مجموعہ سامنے آئے گا وہ سماج میں انصاف پیدا نہیں کر سکتا۔

’وژن‘ میں ایک اور بات یہ کہی گئی ہے کہ طلبا میں شہریوں کے فرائض کے تئیں شعور بیدار کیا جائے گا اور اس کی پاسداری کا شدید احساس ان کے اندر اجاگر کیا جائے گا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شہریوں کے فرائض کے ساتھ ان کے حقوق کا تذکرہ بھی ہونا چاہیے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت میں ملک کے باشندے شہری (citizens) ہوتے ہیں نہ کہ رعایا (subjects)۔ رعایا کے حقوق پر فرائض مقدم ہوتے ہیں جن کی ادائیگی انھیں ہر حال میں کرنی ہوتی ہے۔ جمہوریت میں فرائض اور حقوق کے درمیان اعتدال ضروری ہے۔ اگر شہری اپنے حقوق سے واقف نہیں ہوتےہیں اور اپنے حقوق کی پاسداری کے لیے ہمیشہ چوکنا نہیں رہتے ہیں تو وہ خود ملک میں مطلق العنانی کی راہ برسرِ اقتدار ٹولے کے لیے ہموار کر رہے ہیں۔اس لیے اگر ملک کو جمہوری اقدار پرعروج حاصل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں تو طلبا کو شہریوں کے حقوق اور جمہوری انداز سے ان حقوق کے حصول کا طریقہ سکھانا چاہیے۔ ورنہ خدشہ ہے کہ وہ غیر جمہوری طریقوں کو استعمال کرنے پر اتر آئیں گے اور ملک میں انارکی پیدا کر دیں گے۔

۵۔ پینسٹھ صفحات پر مشتمل پالیسی کی دستاویز میں صرف ایک مقام پر لفظ اقلیتیں (minorities) پایا جاتا ہے۔ پیراگراف 6.2.4 میں کہا گیا ہے کہ پالیسی اقلیتوں اور دیگر طبقات کی، جن کی تعلیم کے میدان میں نمائندگی کم زور ہے، بہتری کے لیے کیے جانے والے پروگراموں کی معترف ہے۔یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کیا یہ پالیسی ابھی تک کے پروگراموں میں بہتری لائے گی، انھیں اور موثر بنائے گی یا صرف اعتراف کر نے پر اکتفا کرے گی۔ پالیسی کو اس حوالے سے چند متعین پروگرام تجویز کرنے چاہئیں تھے۔

۶۔ ہندستانی تعلیمی نظام میں ریزرویشن ایک اہم نکتہ ہے۔ دستور میں اس کا تذکرہ ہے۔ ریزرویشن سسٹم نے سماج میں انصاف قائم کرنے کی جانب اہم پیش رفت کی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس اہم موضوع پر پالیسی خاموش ہے۔ یقیناً لیاقت (merit)کو اہمیت حاصل ہوگی، لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب کہ تمام طلبا کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔

۷۔ ایک تشویش کا پہلو یہ ہے کہ پالیسی میں کہیں بھی’سیکولرزم‘ کا ذکر نہیں ہے۔ کیا اب اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری پالیسی اور تعلیمی نظام کا کوئی مذہب بھی ہوگا،یا نظام تعلیم کسی ایک مذہب کو فروغ دے گا، یا اس کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی؟یہ خدشہ اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ پالیسی کے پیراگراف 11.8 میں مبنی بر اخلاق تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے پالیسی کہتی ہے کہ دھرما(dharma) کی تعلیم دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ دھرما کی توجیہ کیا ہے، کیوں کہ لفظ دھرما کا استعمال بنیادی طور پر بدھ مذہب میں ہوتا ہے۔ یہاں اس کے معنی کچھ ہیں ، جب کہ ہندو مت کے تناظر میں اسے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی کچھ اور تشریح ملتی ہے۔ ہندستان میں عیسائی حضرات بھی اپنے لٹریچر میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ اب کس مفہوم کو پالیسی قبول کر رہی ہے، اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ ایسے ہی سوالات اور شکوک بعض حضرات کو یہ کہنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ یہ پالیسی زعفرانی رنگ سے تعلیمی نظام کو رنگنا چاہتی ہے۔

۸۔ پالیسی کے پیراگراف 1.8 میں کہا گیا ہے کہ ’آشرم شالہ‘ اور دیگر متبادل اسکولوں (alternative schools) میں مرحلہ وار پرائمری کی تعلیم کا انتظام جاری کیا جائے گا۔یہاں آشرم شالہ کا ذکر تو ہے، متبادل اسکولوں کے ذیل میں مدرسوں کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس عدم ذکر کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ گذشتہ چند برسوں سے بالخصوص موجودہ حکمراں پارٹی اور ان کی ذیلی تنظیموں کی جانب سے مدرسوں پر نکتہ چینی بھی ہوتی رہی ہے اور ان کے نظام میں تبدیلی کی باتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اس اسکیم کو مدرسوں کے حوالے سے اپنا موقف واضح کرنا چاہیے تھا۔ موقف کی عدم وضاحت مدارس کے ذمہ داران کے ذہنوں میں اندیشے پیدا کر رہی ہے۔

۹۔ ہر سطح کے تعلیمی اداروں کے معیارات کو ایک مرکزی ادارہ وضع کرے گا۔ اگر ان معیارات پر کوئی ادارہ کھرا ثابت نہیں ہو رہا ہے تو اسے دوسرے اداروں میں ضم کر دیا جائے گا۔ پالیسی کا یہ خیال اقلیتوں کو خوف زدہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہ اقلیتوں کی جانب سے چلائے جا رہے بیشتر تعلیمی ادارے معیارات کی نچلی سطح پر ہوتے ہیں۔

۱۰۔ پالیسی میں ایک اہم تضاد زبان کے حوالے سے ہے۔ یعنی پرائمری تعلیم کس زبان میں دی جائے۔ پالیسی ایک جانب کہتی ہے کہ کم سے کم درجہ ششم تک مادری زبان میں تعلیم ہو۔ لیکن مادری زبان کو ایک اور لفظ کے اضافے سے ہلکا کر دیا گیا اور وہ ہے home language یعنی گھر میں بولی جانے والی زبان۔اس سے گنجائش نکال لی جاتی ہے۔ اب والدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری مادری زبان تو ہندی ہے لیکن ہم گھر میں انگریزی بولتے ہیں۔ اس ایک جملے سے بچے کو انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ مل جائے گا۔

۱۱۔ پالیسی ملک میں آباد مختلف اکائیوں کوتسلیم کرتی ہے، لیکن یہ تشویش کا امر ہے کہ کسی مقام پر بھی تکثیری سماج (pluralistic society) کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لفظ کو شامل کیے جانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ البتہ پیراگراف 6.20 میں ایک لائق ستائش بات کہی گئی ہے، وہ یہ کہ ایسی کتابیں ترتیب دی جائیں جس کے ذریعہ طلبا ملک میں آباد مختلف اکائیوں کی عزت کرناسیکھیں اور اس کی حساسیت کا انھیں شعور ہو۔ آج کے سماجی تناظر میں یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ملک میں آئے دن ہونے والے مذہبی و طبقاتی تشدد کے معاملات پر قابو پانے کے لیے یہ بنیادی اقدام ہوسکتا ہے۔

ملت کا پروگرام

اس اجمالی جائزے کے بعد ہم نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ملت کے مطلوبہ رویّے پر چند نکات پیش کر رہے ہیں۔

۱۔ پالیسی کا معروضی اور تنقیدی پہلوؤں سے جائزہ لیا جائے: اس سلسلے میں اسٹڈی گروپ قائم کیے جائیں ۔ اس عمل کی ابتدا مرکزی تعلیمی بورڈ، جماعت اسلامی ہند کر چکا ہے۔ اس گروپ میں تعلیم کے ماہرین، سیاسی بصیرت رکھنے والے دانش وران، اساتذہ، طلبا، تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اور دانش وران موجود ہوں۔ اس گروپ میں مِلت کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے نمائندے بھی ہوں تو بہتر ہے۔ مثلاً عیسائی برادری، اس لیے بھی کہ آج ملک میں پرائیوٹ شعبہ میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے عیسائیوں ہی کے ہیں۔ ان کے علاوہ سکھ، جین اور پارسی بھی ہو سکتے ہیں۔ ملت اپنے طور پر علاحدہ بھی غور کرے اس لیے کہ بعض نکات پر تمام اقلیتوں کے ساتھ مل کر گفتگو نہیں کی جا سکتی مثلاً مدارس کی پوزیشن۔ پالیسی میں ان نکات کو نشان زد کیا جائے جو اقلیتوں اور ملک کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ پالیسی میں استعمال کی گئیں بعض اصطلاحات اور فقروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پالیسی نے آخر میں چند مخففات کی تفصیل دی ہے، اچھا ہوتا کہ بعض اصطلاحات کی تعریف بھی بیان کر دی جاتی۔ مثلاً Indian ethos، Indian culture، alternative schools وغیرہ ایسے الفاظ اور فقروں کو جمع کیا جائے اور وزارتِ تعلیم سے وضاحت طلب کی جائے، ایسا نمائندگی کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے یاپھر آر ٹی آئی کے ذریعے بھی۔ ممکن ہو تو کوئی ادارہ پالیسی کا ترجمہ اردو میں کرے، یا حکومت سے اس کے اردو ترجمے کا مطالبہ کیا جائے۔

۲۔ مطالعہ کے بعد اس کا رداظہار (response): ملت کا اس پالیسی پر تاثر ترتیب دیا جائے اور اسے وزیر تعلیم اور صدر جمہوریہ کو پیش کیا جائے۔ ملت کے رداظہار کا لہجہ باوقار ہو۔ کہا جائے کہ ملت کی بھی خواہش ہے کہ ملک عزیز دنیا بھر میں’علمی سپر پاور‘ بن کر ابھرے، لیکن یہ کام نعروں سے نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ سنجیدگی چاہتا ہے، اور تمام طبقات کی شمولیت چاہتا ہے۔

۳۔ ملت تعلیم کے حوالے سے اپنا جائزہ لے: یہ عمل ہر سطح پر ہونا چاہیے۔ ملت کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اب بھی علم کی دوئی کو لے کر دنیا میں عروج حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا علم کے میدان میں اس تقسیم کو دور کر کے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت آگے چل کر تفصیلات آئیں گی۔ ملت کے لیے دو اہم چیلنج ہیں۔ اوّل کیا ہم اپنے بچوں کو صرف ’دنیاوی‘ تعلیم دیں گے۔ دوم کیا ہم دینی محاذ پر رہ نمائی کا فریضہ انجام دینے والے علمائے کرام کے حوضِ علم کو عصر جدید کے علوم سے دور رکھیں گے۔ اگر ہمارا موجودہ رویّہ برقرار رہے گا تو ہم اس دور میں کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دے سکیں گے۔

ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس اسکیم پر غور کرنا ہوگا کہ ملت کے بچے بارہویں جماعت تک بنیادی تعلیم عصری مضامین میں حاصل کریں۔ اس کے بعد طلبا تخصص (specialization)کے لیے’اسلامیات‘ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس نظام کی تفصیلات ہیں، اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت سے گفتگو کی جانی چاہیے۔

نئی پالیسی میں کئی ریگولیٹری ادارے (نظر رکھنے کے ادارے) قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے مدارس کو بھی کسی ایک ادارے کے تحت لایا جائے۔

’مدارس، مسلم طلبا کی تعلیم اور تکثیری سماج میں مسلمانوں کا تعلیمی نظام‘جیسے موضوعات پر مولانا مناظر احسن گیلانی سے لے کر ملیشیا کے محمد نقیب العطاس نے مقالے اور کتابیں تصنیف کی ہیں۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ایسی کوئی کانفرنس ہو جو ملت کی تعلیمی پالیسی وضع کرنے کے لیے منعقد کی جائے۔ ویسے وقفہ وقفہ سے اقلیتوں کی تعلیم پر کانفرنسیں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کا مقصد خواندگی بڑھانے یا طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم سے آراستہ کرنے سے آگے نہیں بڑھتا ۔ ایک ہمہ جہت (holistic) اپروچ اختیار کی جائے ، یعنی علم کی وحدت ہندستانی تناظر میں کیسے ممکن ہے اس پر غور ہونا چاہیے۔

۴۔ چند نکات پر حکومت سے گفتگو ہونی چاہیے: اول یہ کہ بیرونی زبانوں میں ان زبانوں کو شامل کیا گیا ہے جنھیں بہت کم طلبا پڑھتے ہیں جیسے کوریائی، جاپانی وغیرہ۔ ان زبانوں سے زیادہ عربی زبان پڑھنے والوں کی تعداد ہے۔ حکومت کو باور کرایا جائے کہ وہ عربی زبان کو بھی ان زبانوں میں شامل کرے جنھیں طلبا نویں جماعت سے پڑھ سکتے ہیں۔

۵۔ اسلامی علوم کو شامل کرنے کا مطالبہ کریں: ترقی یافتہ ممالک میں مضامین کے انتخاب کا جو طریقہ ہے اسے یہاں بھی رائج کیا جائے گا۔ نہم جماعت سے ایسی سہولت ہوگی۔ کئی مضامین کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ہم مطالبہ کریں کہ’اسلامک اسٹڈیز‘ والا مضمون بھی اس میں شامل ہو جائے۔ ویسے اسلامک اسٹڈیز میں آج پوسٹ گریجویشن کی سہولت بعض یونی ورسٹیوں میں حاصل ہے۔

۶۔ ملی ادارے عصری تعلیم کی طرف توجہ دیں: پالیسی میں کہا گیا ہے کہ غیر سرکاری ٹرسٹ اور سوسائٹیوں کی جانب سے چلائے جانے والے تعلیمی اداروں سے معاندانہ رویہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ نجی شعبے کو تعلیم کے میدان میں اب پہلے سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ لہذا ملت کے ادارے—بشمول وہ ادارے اور ٹرسٹ جو مدارس چلا رہے ہیں —عصری تعلیم کے ادارے اور یونی ورسٹیاں قائم کرنے کی جانب توجہ فرمائیں۔

۷۔ نئی اسکیموں میں اقلیتوں کی شمولیت کے لیے مطالبہ کیا جائے: حکومت کے ساتھ گفتگو کریں اور پالیسی کے بعض اجزا کو موثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کریں اور بعض شعبہ جات میں اپنا حق حاصل کرنے کی بات منوائیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بین الاقوامی یونی ورسٹیوں کی شاخیں یہاں قائم ہوں گی تو ان میں اقلیتوں ، دلتوں اور پس ماندہ طبقات کےلیے کم سے کم 25فیصد سیٹیں مختص ہوں۔ اسے حق تحصیل علم قانون کا حصہ بنایا جائے۔ ان سیٹوں پر داخلے کی فیس حکومت ادا کرے۔

۸۔ خصوصی تعلیمی زون مسلم علاقوں میں بھی قائم کیے جانے کا مطالبہ کیا جائے: حکومت نے خصوصی تعلیمی زون بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ہم یہ مطالبہ کریں کہ یہ زون ان 60 اضلاع میں بھی قائم ہوں جہاں مسلمانوں کی آبادی معتدبہ تعداد میں ہے۔

۹۔ تعلیمی رضاکاروں کی کھیپ تیار کریں: پالیسی میں ایک ایسے پروگرام کا ذکر ہے جسے ملت سنجیدگی کے ساتھ قبول کرے تو اس کے حق میں ہے ورنہ ملت کی نئی نسل کا ملی تشخص بھی اس سے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ حکومت تعلیمی والنٹیرس(volunteers)کے ذریعہ تعلیمی معیار کو اونچا اٹھانا چاہتی ہے۔ یہ والنٹیرس آج بھی کام کر رہے ہیں۔ بیشتر رضاکاروں کا نظریاتی لگاؤ دائیں بازو کی شدید نظریات کی حامل جماعتوں سے ہے جو ملک میں ایک ہی کلچر چاہتی ہیں۔ اگر ان سے آنے والی نسل کو بچانا ہے تو پھر ہمیں بھی تعلیمی رضا کاروں کی بڑی کھیپ تیار کرنا ہوگی جو بلا لحاظ مذہب و ملت طلبا کی خدمت کر یں اور ملک میں صاف ستھرا معیاری تعلیمی نظام پروان چڑھانے میں اپنا رول ادا کر سکیں۔ اس کے خد و خال اس مضمون نگار کے پاس موجود ہیں۔

۱۰۔ اخلاقیات کے فروغ کے لیے غیرسرکاری تعلیمی تنظیمیں بنائیں: پالیسی چاہتی ہے کہ طلبا میں اخلاق فروغ پائیں۔ اخلاق کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بیشتر اچھی، آفاقی اور انسان دوست صفات کا ذکر ہے۔ مختلف طبقات کی عقائد کے حوالے سے حساسیت کا ذکر ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان صفات کو صرف پڑھانا نہیں ہے بلکہ مختلف متنوع پروگراموں کے ذریعے ان کی زندگیوں میں داخل کرنا ہے۔ اس کے لیے غیر سرکاری اداروں سے تعاون کی بات بیان کی گئی ہے۔ اس ضمن میں ملت ایسی غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) قائم کرے جو طلبا میں اخلاق کو عام کرنے کا کام کریں۔ ایسی تنظیمیں غیر مسلم دانش وران کے ساتھ مل کر تشکیل دی جا سکتی ہیں۔ اس کا خاکہ بھی مضمون نگار کے پاس موجود ہے۔ اس کےذریعےبڑھتی ہوئی تنگ نظری اور نفرت کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔

۱۱۔مرکزی و ریاستی تعلیمی کونسلوں میں شامل ہونے کی کوشش کی جائے: نئی پالیسی کے تحت اب قومی نصابی فریم ورک (national curriculum framework) تیار کیا جائے گا۔ یہ نصاب ہوگا، اس کے تحت کتابیں تدوین کی جائیں گی۔ مرکزی سطح پر یہ کام حکومت کا ادارہ قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت (NCERT)کرتا ہے۔ ہم وزارت تعلیم سے مطالبہ کریں کہ اس میں تمام طبقات کی بھرپور نمائندگی ہو تا کہ نصابی کتب میں ایسا مواد نہ شامل ہو جس سے منافرت کو فروغ ملتا ہے اور سماج میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔ ریاستوں کی سطح پر یہ کام ریاستی کونسلیں (SCERTs)کرتی ہیں۔ ان میں ایک نصابی کمیٹی ہوتی ہے، جس میں غیر سرکاری تنظیموں کے ایک یا دو نمائندوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ کسی رجسٹرڈ این جی او کی جانب سے ریاستی حکومتوں میں نمائندگی کی جائے اور اچھے تعلیم یافتہ افراد کو اس میں شامل کرنےکی کوشش کی جائے۔

۱۲۔ دین پسند اساتذہ کی کھیپ تیار کی جائے: ملت میں معیاری اساتذہ کی بہت کمی ہے۔ آنے والے برسوں میں اساتذہ کا انتخاب ایک مسابقتی امتحان کے ذریعہ ہوگا۔ موجودہ صورت حال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر ملت اساتذہ سازی پر توجہ نہیں دیتی ہے تو آئندہ برسوں میں ادارے تو ملت کے ہوں گے البتہ اساتذہ ملت کے نہیں ہوں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے ذہین لڑکوں اور لڑکیوں کو پیشہ تدریس سے بھی جوڑنے کی کوشش کریں۔ اس میدان میں دین پسند جماعتوں سے وابستہ افراد کو چاہیے کہ وہ توجہ فرمائیں۔ گھر کی خواتین یا تو رضاکارانہ طور پر تدریسی کام انجام دیں یا باضابطہ ٹیچر بنیں۔ اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

۱۳۔ فیتھ اسکولوں کے طرز پر ملی ادارے قائم ہوں: ترقی یافتہ ممالک میں مذہبی اسکولوں (faith schools) کا ایک ماڈل موجود ہےجنھیں حکومتوں نے قبول کیا ہے۔ ہندستان تناظر میں ایسے ماڈل تیار کریں۔ گذشتہ دنوں ایک عیسائی تنظیم نے صدر جمہوریہ کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں اس طرح کے ایک ماڈل کا تذکرہ ہے۔

۱۴۔ ماہرین تعلیم کی تیاری : ملت نے طویل عرصے سے کوئی ماہر تعلیم پیدا نہیں کیا ہے۔ ہم اسکول قائم کرنے اور اس کا انتظام کرنے والے فرد کو ایجوکیشنسٹ یا ماہر تعلیم کے القاب سے نواز دیتے ہیں۔ ہمیں اس سے باہر نکلنا ہے۔ مولانا افضل حسین صاحب کے بعد ان کے معیار کا ماہر تعلیم شاید ملت پیدا نہیں کر سکی۔ اگلے دس برسوں میں ہمیں ملکی سطح پر کم سے کم دس ماہرین تعلیم پیدا کرنے کا عزم کرنا ہے۔

تعلیم ایک وسیع اور تغیر پذیر موضوع ہے۔ اس پر مسلسل غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223