اسلامی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ ان قدروں پر مشتمل ہے جو عموماً تمام ہی مذاہب اور روایات میں موجود ہوتی ہیں البتہ ان قدروں کے متعلق تصور کے حوالے سے توازن، اعتدال اور ہمہ گیریت کی وجہ سے اسلامی نقطہ نظر بہت ممتاز اور بہت واضح اور دو ٹوک ہوتا ہے۔ گویا بنیادی طور سے ان کی حیثیت مشترکہ قدروں کی ہوتی ہے البتہ اسلامی ورلڈویو ان میں ایک مخصوص رنگ نمایاں کردیتا ہے۔ ساتھ ہی اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ ان قدروں پر بھی مشتمل ہوتا ہے جن کی موجودگی صرف اسلام کے یہاں نظر آتی ہے۔ ایسی قدریں اس وجہ سے بہت اہم ہوجاتی ہیں کہ وہ انسانی معاشرے کو خوبصورت بنانے کی کوششوں میں ایک بڑا اضافہ کرتی ہیں ۔ ایسی ہی ایک قدر رفق یا نرمی ہے۔ نرمی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم اور بنیادی جز ہے اور اس کا تعلق انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان سے بہت گہرا ہے۔ انفرادی اور عائلی معاملات سے لے کر سیاسی سماجی اور قانونی معاملات میں ہر جگہ اسلام کی یہ قدر اپنی غیر معمولی معنویت اور اہمیت رکھتی ہے۔
رفق اور نرمی پر قرآن و سنت میں بہت تاکید اور اس سے متعلق بھرپور رہنمائی اور ہدایت ملتی ہے۔ قرآن میں اللہ کے رسول ﷺ کی ایک اہم صفت اور ایک بڑا کارنامہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگوں پر سے بوجھ اور بھاری چیزوں کو ہٹا دیں گے چناں چہ قرآن کہتا ہے: وَیضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِی كَانَتْ عَلَیهِمْ۔ سورةالأعراف: ۱۵۷۔ (اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو وہ دور کرتے ہیں )۔ قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کی رفق اور نرمی کی صفت کو بہت زور دے کر بار بار پیش کیا ہے۔ ایک جگہ فرمایا: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ یحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ۔ سورة آل عمران: ۱۵۹۔ (اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشوره ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ اراده ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)
ایک دوسری جگہ فرمایا: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیكُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ۔ سورۃ التوبة: ۱۲۸۔ (تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں اور ایمان والوں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں )
احادیث نبوی میں بھی اس سلسلے میں اسلام کے عام مزاج میں رفق اور نرم خوئی کی اہمیت سے متعلق واضح ہدایات موجود ہیں ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ان اللہ یحب الرفق ویعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف۔ بلا شبہہ اللہ نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ سب کچھ نوازتا ہے جو شدت پر نہیں نوازتا۔ ایک دوسری حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان الرفق لا یکون فی شیء الا زانه ولا ینزع من شیء الا شانه۔ بلا شبہہ رفق اور نرمی جس چیز میں بھی ہو اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز میں سے اس کو نکال دیا جائے اس کو بدصورت بنا دیتی ہے۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: من أعطی الرفق أعطی الخیر کله ومن حرم الرفق فقد حرم الخیر کله۔ جس کسی کو رفق کی دولت نصیب ہوگئی اس کو خیر کی پوری دولت مل گئی۔ جس کسی کو رفق سے محرومی ہوئی اس کو پورے خیر سے محرومی ہوگئی۔
قرآن و حدیث میں ایک طرف تو رفق اور نرمی سے متعلق بہت تاکید کی گئی اور اس کو بہت اہم اصول اور قدر کے طور پر پیش کیا گیا ساتھ ہی رفق کی اس قدر کو یا اس اصول کو عملی شکل دینے کے لیے زندگی کے مختلف میدانوں اور شعبوں سے متعلق رفق اور نرمی کی متعدد مثالیں بھی پیش کر دی گئی ہیں تاکہ یہ قدر محض ایک تجریدی اصول بن کر نہ رہ جائے بلکہ اس کی عملیت اور عملی معنویت بھی پوری طرح سے سامنے آجائے۔ کچھ مثالیں قرآن مجید میں دیکھی جاسکتی ہیں، بہت سی مثالیں سنت نبوی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں اور متعدد مثالیں خلفاء راشدین کی سیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔
نرمی اور رفق سے متعلق قرآنی مثالیں
رفق خاندانی معاملات کی بنیاد
اسلام نے عائلی معاملات کا ذکر کرتے ہوئے نرمی اور مودت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا معاملہ کرنے کی سخت تاکید کی ہے۔ اف تک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ شوہر بیوی کے معاملات کو رحمت اور مودت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نان نفقہ کے معاملات میں کشادگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ معروف کے ساتھ آپس کے معاملات طے کرنے کا حکم دیا گیا (واتمروا بینکم بمعروف)۔ یہاں تک کہ طلاق سے متعلق معاملات میں بھی نرمی اور احسان کی تلقین دی گئی (فامساك بمعروف او تسریح باحسان)۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے بھی نرمی اور رحم کی تاکید کی گئی۔ گویا خاندانی معاملات میں رفق کو ایک اہم اصول اور بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
سزاوں کے سیاق میں توبہ کے ذکر کی تکرار
قانون یا عدالت کے حوالے سے ہمیشہ یہ تصور رہا ہے کہ وہاں کسی رو رعایت اور نرمی کا معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ قانون تو اندھا ہوتا ہے۔ چناں چہ اگر کسی نے کوئی جرم کیا اور وہ ثابت بھی ہوگیا تو ایسے میں اس پر سزا کا ہونا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں بہت ہی انوکھا اور نرم رویہ پیش کیا ہے۔ عموما جہاں بھی سزاؤں کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے وہاں اس بات کا ذکر بھی ہوا ہے کہ اگر جرم کا مرتکب تائب ہوجائے اور اپنی اصلاح کرلے تو ایسے میں ان کو مہلت دی جائے اور ان کو معاف کردیا جائے۔ چناں چہ بے حیائی اور فحش میں مبتلا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کے بارے میں ارشاد ہوا: وَاللَّذَانِ یأْتِیانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیمًا۔ سورۃ النساء: ۱۶۔ (تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کر لیں (فاحشۃ) انھیں ایذا دو۔ اگر وه توبہ اور اصلاح کر لیں تو ان سے منھ پھیر لو، بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)
یہاں اس بات کی بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ توبہ کا مفہوم بھی پیش کر دیا جائے تاکہ کوئی توبہ کو ڈھال بنا کے سزاؤں کا مزاق نہ بنالے۔ چناں چہ اس کے فوراً بعد فرمایا گیا: إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّـهِ لِلَّذِینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِن قَرِیبٍ فَأُولَـٰئِكَ یتُوبُ اللَّـهُ عَلَیهِمْ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِیمًا حَكِیمًا۔ سورۃالنساء: ۱۷۔ (اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے)
چناں چہ اس بات کی گنجائش ختم کردی گئی کہ کوئی شخص جب بھی کسی جرم میں گرفتار ہو فورا یہ کہہ کے کہ میں توبہ کرتا ہوں اپنے آپ کو بچالے۔
اسی طرح چوری کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد فورا فرمایا گیا: فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّـهَ یتُوبُ عَلَیهِ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔ سورۃ المائدۃ: ۳۸۔ (جو شخص اپنے گناه کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ اس کی طرف لوٹتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مہربانی کرنے والا ہے)۔
عبد القادر عودہ سورۃ المائدۃ کی آیت محاربہ کے فورا بعد توبہ سے متعلق آئی آیت (إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَیهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ) پر گفتگو کرتے ہوئے بہت اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ توبہ کے اعتبار کے لیے ایک اہم شرط یہ ہے کہ توبہ گرفتاری اور سزا سے پہلے ہی کر لی گئی ہو۔
معاشی قانونی حوالے سے رفق کا حکم
ہر زمانے کی ایک بہت بڑی لعنت اور برائی کے پیچھے قرض اور سود کا نظام ہے۔ قرض ہمیشہ سے ضرروت مندوں کی مجبوری اور مالداروں کے ہاتھ میں استحصال کا ذریعہ رہا ہے۔ قرض لینے والا غریب شخص اگر وقت مقررہ پر قرض کی رقم واپس نہ کرسکے تو اس پر دوہرا وبال آتا ہے۔ ایک طرف قرض دینے والا رقم کو تیزی سے بڑھاتا جاتا ہے دوسری طرف قانونی طور سے بھی اس کو سختی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن مجید نے رفق کی بہت ہی پیاری اور انوکھی تعلیم کے ساتھ اس مسئلے کا حل پیش کیا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَیسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَیرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ سورۃالبقرۃ: ۲۸۰۔ (اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم میں علم ہو)۔ چناں چہ سود حرام کرکے معاشی استحصال کا تو سرے سے راستہ ہی بند کردیا گیا اور ساتھ ہی قانونی طور سے بھی اس کو آسانی اور مہلت فراہم کرنے کا حکم آیا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کہا گیا کہ اگر کوئی تنگی میں ہے تو اس کے قرض کو صدقہ کردینا اور معاف کردینا بہت بہتر ہوگا۔
شراب کی حرمت اور احکام میں تدریج
شراب ایک بڑی سماجی برائی ہے اور اخلاقی برائیوں کی جڑ بھی ہے۔ لیکن اس کی حرمت کے حوالے سے بھی قرآن نے تدریج کا رویہ اپنایا جو دراصل رفق اور نرمی ہی سے عبارت ہے۔ چناں چہ تین مرحلوں میں جاکر کے شراب کو بالآخر حرام اور سختی سے ممنوع کیا گیا۔
سنت نبوی میں رفق کے انوکھے واقعات
فتح مکہ اور رسول ﷺ کا معاملہ
ایک لمبی مدت تک اپنے وطن سے دور رہنے اور اپنے وطن کے لوگوں کی بے انتہا زیادتیوں اور ظلم وستم کے بعد جب مسلمان رسول ﷺ کی قیادت میں مکہ واپس تشریف لائے اور فتح مکہ کا عظیم واقعہ پیش آیا تو اہل مکہ بہت پریشان اور ڈرے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورتحال میں کسی بھی قوم کا اپنے دشمنوں سے بدلہ لینا بہت ممکن اور فطری تھا لیکن اس موقعے پر اللہ کے رسولﷺ نے رفق کی غیر معمولی مثال پیش کرتے ہوئے ایک عام ندا لگائی اور کہا اذھبوا انتم الطلقاء۔ لاتثریب علیکم الیوم۔ جاؤ تم سب بالکل آزاد ہو۔ تم سے کسی طرح کا کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔
طائف والوں کے ساتھ معافی کا واقعہ
لوگوں کی خیرخواہی میں اور ان کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز بتانے نبی کریم ﷺ طائف تشریف لے گئے لیکن وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ تاریخ میں پوری طرح محفوظ ہے۔ آپ پر پتھر برسائے، گالیاں دیں اور طرح طرح سے اذیتیں دیں ۔ فرشتوں کا ایک وفد آیا اور آپ کی خدمت میں یہ پیش کش رکھی کہ اگر آپ کہیں تو اس پوری وادی کو دو پہاڑوں کے بیچ میں پیس دیا جائے۔ اس موقعے پر بھی آپ نے نرمی اور رفق کا ایک خوبصورت نمونہ پیش کیا اور ان کے حق میں مزید دعائیں کیں ۔
پیشاب کرنے والا بدو اور مسجد نبوی
ایک بار اللہ کے رسولﷺ اپنے دوستوں کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک دیہاتی کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر پیشاب کرنا شروع کردیا۔ صحابہ کرامؓ کو برا لگا اور اس کو منع کرنے اور ڈانٹنے کھڑے ہوگئے۔ آپ ﷺ نے دوستوں کو روکا، اس دیہاتی کو پیشاب کرنے دیا اور پھر اپنے دوستوں سے وہاں پانی ڈلوایا۔ اس کے بعد اس دیہاتی کو بلایا اور اس کو سمجھایا۔ ساتھ ہی اپنے دوستوں کو بھی سنہری الفاظ میں ایک نصیحت کی: فانما بعثتم میسرین، ولم تبعثوا معسرین۔ تم کو تو آسانی پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے نہ کہ سختی پیدا کرنے۔
خلفاء راشدین کے زمانے کے واقعات
حضرت عمر کا چوری کی سزا کے تعلق سے حکم
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں قحط سالی کا سانحہ پیش آیا۔ بھوک مری بڑھ گئی۔ غلہ اناج کم پڑ گیا۔ ایسے میں حضرت عمرؓ نے قانون کی اس قدر یعنی رفق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بڑا تاریخی فیصلہ کیا اور یہ اعلان کردیا کہ بھک مری کے اس ماحول میں چوری کی سزا معطل کی جاتی ہے۔
قانونی لچک، جدید ڈسکورس اور اسلام
مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں قانون اور عدالت کی اسلامی نقطہ نظر سے جو تصویر سامنے آتی ہے وہ کچھ ایسی ہے جہاں قانون میں بہت لچک (flexibility) ہوتی ہے، قاضی کو قانونی اختیار (judicial discretion) حاصل ہوتا ہے۔ قاضی یا جج کا کام محض کچھ لکھے ہوئے قوانین کو بلا سوچے سمجھے نافذ کرنا نہیں ہوتا۔ قاضی بننے کے لیے قانون میں غیر معمولی مہارت اور اہلیت درکار ہوتی ہے۔اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہر نئے مقدمے کے مخصوص تناظر اور وجوہات کی روشنی میں اس کے لیے مناسب ترین فیصلہ لے جو عدل اور انصاف کی روح سے ہم آہنگ ہو ۔ بعد میں مسلمانوں میں اور عمومی سطح پر ہر معاشرے میں قانون اور عدالت کا ایک ایسا تصور غالب ہوگیا جس کو تعین (certainty) سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یعنی ایسا عدالتی نظام جہاں ہر فیصلہ پہلے سے متعین ہو اور جج کا کام محض متعلق مقدمے میں اس فیصلے کو نافذ کرنا رہے۔ اسی نظام اور تصور نظام سے نکلا ہوا یہ مشہور محاورہ ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں نہ قانون بنانے والے اندھے ہوتے ہیں نہ قانون کو نافذ کرنے والے، اس لیے قانون کے اندھا ہونے کا بھی سوال نہیں ہے۔
جدید قانون اور عدالتی نظام میں بھی جو تصور غالب ہے وہ تعین (certainty) ہی والا ہے۔ البتہ بیسویں صدی کے اوائل سے اس سلسلے میں ایک متبادل تصور کی پیشکش کی کوشش بھی جاری ہیں جس کو موجودہ اصطلاح میں لچک (flexibility) سے تعبیر کرتے ہیں ۔ کئی مشہور ماہرین قانون نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ قانون کے نفاذ کو جج کی قانونی صوابدید (judicial discretion) پر چھوڑ دیا جائے۔ قانون کی تفصیلات طے کرنے کے بجائے صرف بنیادی کچھ اصول اور ضوابط متعین کر دیے جائیں اور بقیہ فیصلے جج کے اوپر چھوڑ دیے جائیں ۔ مختصر یہ کہ قانون میں زیادہ سے زیادہ لچک رکھی جائے۔ اس تصور کو پیش کرنے والوں میں تھیوڈر ویہ ویگ (Theodor Viehweg)، ڈیوڈ کیور (David F. Caver)، برینرڈ کری (Brainerd Currie)، ولس ریز (Willis Reese) اور کرمٹ روزولٹ (Kermit Roosevelt)وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ امیرکن لاء انسٹی ٹیوٹ سے چھپنے والی قانونی رہنما سیریز کا دوسرا حصہ جس کو second restatement of law کہتے ہیں اسی تصور کی نمائندگی کرتا ہے۔ جدید قانونی ڈسکورس میں لچک کے تصور کو پیش کرنے والوں میں کافی تنوع دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ کے یہاں لچک کے نام پر قانون کو بالکل ہی غیر متیعن اور غیر منظم کردینے کا تصور ہے، کسی کے یہاں قانون کے مشمولات (content) میں تو لچک یا جج کے کردار کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ قانون کے نفاذ میں جج کو کسی قدر صاحب اختیار بنایا گیا ہے۔ کچھ کے یہاں قانونی نظام اور قانونی لچک کے درمیان ایک توازن کا تصور ہے۔
اسلام کا تصور قانون و عدالت بہت جامع، متوازن اور ہمہ جہت (multi-dimensional) ہے۔ عمومی طور سے اسلام میں دو طرح کے قوانین ہیں ۔ قوانین کا ایک حصہ وہ ہے جہاں نصوص ہی میں قوانین کی تمام یا بیشتر تفصیلات طے کر دی گئی ہیں اور اس کی ایک مثال سزاؤں میں حدود یا عائلی قوانین میں طلاق کا نظام ہے۔ دوسری قسم ان قوانین کی ہے جہاں نصوص نے کوئی متعین چیز فراہم نہیں کی ہے بلکہ عمومی اور اصولی ہدایات اور ایک وسیع فریم ورک فراہم کردیا ہے اور اس کے اندر پوری آزادی کے ساتھ قوانین بنانے کی آزادی دی ہے اور اس کی ایک مثال سزاؤں میں حدود اور قصاص کے علاوہ تمام سزائیں ہیں جن کو تعزیرات کہتے ہیں ۔ جہاں تک ان سزاؤں یا قوانین کا معاملہ ہے جو براہ راست شریعت نے طے کر دی ہیں تو ان کے تعلق سے عدالت ہو یا قانون ساز مجلس یا سربراہ مملکت خود بھی کوئی تصرف نہیں کرسکتا۔ البتہ اس کے نفاذ سے پہلے شرائط کو مکمل طور سے یقینی بنالینا قاضی کی ذمہ داری ہے۔ چناں چہ ان قوانین خصوصا حدود کے تعلق سے دو بڑے اہم اور اصولی قاعدے ہیں جن کا خیال رکھنا ایک قاضی کے لیے ضروری مانا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی طرح کا بھی شبہہ باقی ہو تو سزا کو دفع کردیا جائے گا اور دوسرا قاعدہ یہ کہ غلطی سے معاف کرنا غلطی سے سزا دینے سے بہت زیادہ بہتر ہے (تفضیل الخطأ فی العفو)۔ البتہ اگر نصوص میں کچھ تفصیلات متعین نہ ہوں یا کسی طرح کا غموض ہو تو قاضی کو اختیار ہے کہ وہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں نصوص کا مفہوم و مدعا طے کرے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسی بڑی مصیبت آتی ہے جس کا تعلق پورے معاشرے اور ریاست سے ہے تو ایسے میں حکومت کو یہ اختیار ہوگا کہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان قوانین کو موقوف کردے البتہ یہ اختیار صرف حکومت کا ہوگا، قاضی کو اس سلسلے میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ لیکن وہ قوانین جو شریعت میں باقاعدہ متعین نہیں ہیں اور جن کی ایک مثال تعزیرات کی ہے تو اس سلسلے میں اسلام کا موقف بہت ہی لچکدار اور قاضی کو بہت با اختیار بنانے کا ہے۔ چناں چہ اسلامی شریعت اور جدید قوانین پر گہری مہارت رکھنے والے مشہور مصنف عبد القادر عودہ اپنی شہرہ آفاق کتاب التشریع الجنائی الاسلامی میں لکھتے ہیں :’’اور جہاں تک تعزیرات کی بات ہے تو اس میں قاضی کو بہت وسیع اختیارات ہوتے ہیں کہ کس طرح کی سزا وہ طے کرے گا اور اس کی کیا مقدار متعین کرے گا۔ اس کو اس کا بھی اختیار ہوگا کہ وہ بہت سخت سزا دے اور اس کا بھی اختیار ہوگا کہ بہت ہلکی سزا دے، جرم اور مجرم کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے۔ اس کا یہ اختیار بھی ہوگا کہ سزا نافذ کرنے کا حکم دے اور یہ بھی اختیار ہوگا کہ سزا موقوف کردے۔‘‘
گویا اسلام میں قانونی اختیارات کو تین مراتب میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ پہلا مرتبہ وحی اور نصوص کا ہے جہاں کسی بھی سطح پر کسی انسان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔
دوسرا مرتبہ قانون ساز مجلس کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں اصولی یا عمومی نوعیت کی چیزوں کو باقاعدہ طے کر دیا جائے اور ایسی چیزوں سے متعلق قوانین بنا دیے جائیں جن کا تعلق لوگوں کے انفرادی احوال سے نہ ہو اور قاضی کو اس میں تصرف کی گنجائش نہ ہو۔
تیسرا مرتبہ قاضی اور عدالت کی سطح کا ہو جہاں تفصیلات کے حوالے سے ایک بڑے فریم ورک میں رہتے ہوئے قاضی کو مخصوص حالات اور متعلق صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ لینے کی پوری آزادی ہو۔
گویا اسلام میں قاضی یا جج کی حیثیت محض قانون نافذ کرنے والے کی نہیں بالکہ ایک مجتہد اور بابصیرت اور با اختیار ذمہ دار کی ہوتی ہے۔ چناں چہ امام ماوردی جو فقہ شافعی کے ایک بڑے امام مانے جاتے ہیں قاضی کی شرائط ذکر کرتے ہوئے اجتہاد کی شرط کو لازمی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی قاضی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے مسلک کے علاوہ بھی کسی مسلک کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے اپنے اجتہاد کی روشنی میں ۔
خلاصہ
اسلام نے رفق کو ایک بہت ہی اہم اور ہمہ گیر اصول کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ صرف اسلام کا امتیاز ہے کہ اس نے شریعت کو اور دین کے احکام کو انسانوں کی استطاعت سے جوڑ دیا ہے اور یہ اصول بنا دیا ہے کہ: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ اسی طرح احکام میں تدریج بھی رفق سے نکلنے والا ایک بہت ہی اہم اصول ہے جس کا تعلق پوری شریعت اور دین کے تمام احکام سے ہے۔رفق اور نرمی کا تعلق انسان کی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو سے ہے۔ عائلی معاملات میں بار بار معروف کا حکم دراصل رفق ہی پر تاکید ہے۔ رفق اور نرمی جہاں ایک طرف خاندان اور معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے وہیں یہ سیاست اور قانون کی بھی ایک لازمی تعلیم ہے۔ موجودہ زمانے میں سیاست و معاشرت سے متعلق مسائل کے حل کے لیے رفق کا ایک اہم اصول اور قدر کے طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔
مراجع
التشریع الجنائی الاسلامی مقارنا بالقانون الوضعی. عبد القادر عودة
أدب القاضی. أبو الحسن علی الماوردی
System and Flexibility in Law by Katharina Sobota
Flexible Choice-of Law Rules: Panacea or Oxymoron by Wolff
Certainty vs Flexibility in the Conflict of Laws by Kermit Roosevelt III
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021