مرکز جماعت اسلامی ہند میں محترم مولانا ابواللیث ندوی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر مولانا سید جلال الدین عمری، محترم مولانا محمد یوسف صاحبؒ ، محترم مولانا سراج الحسن صاحب اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری تک سبھی امرائے جماعت کے تحت کبھی امیر حلقہ آندھرا پردیش کبھی امیر حلقہ یوپی، کبھی معاون قیم جماعت ، کبھی قیم جماعت اور کبھی نائب امیر جماعت غرض کہ مختلف ذمے داریوں کے ساتھ تحریک کی خدمت کرنے والے مولانا محمد شفیع مونس صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ہر دل عزیز اور مشفق و مہربان شخصیت اب ہمارے درمیان نہیں رہی ۔
مولانا محمدشفیع مونسؒ سے میری پہلی ملاقات دفتر حلقہ، پرانی حویلی، حیدرآباد میں ہوئی تھی ۔ یہ اگست۱۹۶۹کی بات ہے۔ جون ۱۹۶۹کے درمیانی ہفتے میں میری رکنیت منظور ہوئی تھی اور جولائی میں سدرن ریلوے نے میرا تبادلہ مدراس سے بہت دور آندھرا پر دیش کے پسماندہ علاقے رائل سیما کے ریلوے ڈیویژن گنتکل میں کر دیا تھا ۔ میں اس وقت ریلوے کی الکٹریکل برانچ میں ڈرافٹس مین تھا ۔ گنتکل میں چارج لینے کے بعد والدین سے ملنے بیلم پلی گیا تھا اور گنتکل جاتے ہوئے حیدرآباد ہی سے گزرنا تھا ۔ بیلم پلی کی ٹرین سکندرآباد علیٰ الصباح پہنچتی تھی اور گنتکل جانے والی ٹرین شام کو سات بجے چلتی تھی۔ اس لیے میں نے طے کیا تھا کہ دن کا وقت دفتر حلقہ میں گزاروں اور اس طرح مدراس سے آندھرا پر دیش کو میری رکنیت کی تبدیلی کی اطلاع بھی بالمشافہ دے دوں اور نئے امیر حلقہ محترم محمد شفیع مونس صاحب سے ملاقات بھی کر لوں ۔
میں دفتر حلقہ پہنچا تو کسی صاحب نے بتا یا کہ وہ کونے والے کمرے میں امیر حلقہ بیٹھے ہوے ہیں ۔ میں نے مونس صاحب کو کبھی دیکھا نہیں تھا ۔ کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ کوئی صاحب کرسی پر بیٹھے اخبار دیکھ رہے ہیں۔ چہرہ اخبار کے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ ایک نظر میں اندازہ ہو ا کہ قدرے پستہ قد ہیں ’’ گول مٹول جسم ہے ۔ میں نے دروازے پر کھڑے ہوکر سلام کیا تو جواب دیتے ہوئے اخبار ہٹایا ۔ میرا ندازہ صحیح تھا۔ کہا: ’’ آئیے ’’ تشریف لائیے۔ ’’ کرسی کی طرف اشارہ کیا اور خود کھڑے ہو گئے ۔ چھوٹا کمرہ تھا ۔ میں اندر پہنچا۔ مصافحہ اور معانقہ کیا۔ پھر کرسی پر بیٹھ کر اپنا تفصیلی تعارف کرایا۔ ملازمت کی تبدیلی کا ذکر کیا ۔ سفر کی غایت اور نوعیت بتائی ۔ خوش ہوئے ۔ کچھ ایسا لگاکہ دوران گفتگو وہ میرے سراپا کا ظاہر اور باطن کا جائزہ بھی لے رہے ہوں۔
’’میں نے ناشتہ نہیں کیا ہے ،آپ نے کر لیا؟‘’مولانا مونس صاحب نے پوچھا ۔ میں نے کہا جی نہیں۔اسٹیشن سے سیدھے آرہاہوں ’’ ۔ وہ اٹھے پا جامہ اور شروانی پہن کر نکل پڑے ۔ میں نے کہا آپ کہاں زحمت کر تے ہیں۔ میں ابھی جاکر ناشتہ لاتا ہو ں۔ آپ تشریف رکھیے۔ مجھے اتنی بات سمجھ میں آگئی تھی کہ مولانا کے لیے دفتر میںناشتے ، کھانے کا کوئی نظم نہیں ہے ۔ مولانا کے اصرار پر ہم ان کے ساتھ باہر نکلے تو ایک صاحب ملے۔لمبے دبلے پتلے سے کھڑے تھے ۔ مولانا نے موصوف کو مخاطب کیا اور کہا ’’ یوسف علی صاحب‘’ یہ ایس ایم ملک ہیں۔رکن جماعت ہیں۔ مدراس سے منتقل ہو کر آئے ہیں ۔ ہم لوگ ناشتہ کر نے جارہے ہیں۔ آپ نے تو‘’کھانا‘’ کھا لیا ہو گا۔ یو سف علی صاحب بھی اور مولانا بھی ہنس پڑے اور میں بھی بے اختیار مسکرایا۔ پھر میری طرف پلٹ کر کہا: یہ یوسف علی صاحب ہیں ہمارے ساتھی اور جماعت کے بیت المال کے محاسب۔ ہم دونوں چل پڑے۔ میں تو بس مولانا کے ساتھ ساتھ ان کے سوالات کے جوابات دیتا ہوا چل رہا تھا۔ مولانا چھتہ بازار سے آگے نکل کر مدینہ ہو ٹل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دریافت کیا ۔آپ نے کبھی مدینہ ہو ٹل میں کچھ کھایا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں‘’ بہت پہلے ’’ جب میں کسی امتحان کے سلسلے میں حیدرآباد آیا تھا تو کھایا تھا۔ یہاں کی بریانی تو بہت مشہور ہے ۔فرمایا: چلیے آج ہم آپ کو ایک اور اچھی چیز کھلاتے ہیں۔ ہوٹل میں ایک بہت ہی اندر والی میز پر بیٹھ کر مولانا نے پائے کی نہاری کا آرڈر دیا۔ ’’ مجھے یہاں کے پائے کی نہاری بہت پسند ہے۔‘’ مولانا نے کہا اور میں صرف جی کر کے رہ گیا۔ ناشتہ چائے کے بعد مولانا نے بیرے کے ہاتھ میں روپے تھمادیے۔ میں نے گزارش کی کہ مجھے موقع دیتے تو خوشی ہو تی۔ مگر مولانا نے کہا: میں جب گنتگل آؤںگا تو یہ کسر پوری کرلینا۔
مدینہ ہوٹل آتے اور واپس جاتے ہوئے مولانا مدراس میں میری تحریکی سرگرمیوں کے بارے میں تفصیلات پوچھتے رہے ۔ اس کے علاوہ جب میں نے بتا یا کہ ’’ گنتکل تبادلہ ہو نے کے بعد میں نے فوراً کس طرح کام ا ٓغاز کیا تھا تو بہت خوش ہوئے۔ چارج لینے کے بعدمیں نے ایک ہفتہ وہاں قیام کیا تھا۔ اس دوران وہاں ایک عربک اسکول کے موجود ہو نے کی اطلاع پا کر وہاں کے کرسپانڈنٹ اور اساتذہ سے ملاقات کر لی۔ کرسپانڈنٹ جماعت کو پسند کرنے والوں میں سے تھے۔ اساتذہ سے میں نے دو تین دن تک تفصیلی گفتگو کر لی۔ ان میں سے تین اساتذہ نے میرا ساتھ دینے کا وعدہ کرلیا۔ پھر کیاتھا، پانچ افراد پر مشتمل ایک حلقہ ہمدرداں قائم ہو گیا تھا۔ اب کے جب جائوں گا تو با قاعدہ اس کا کام شروع ہو گا۔ مولانا یہ سب سن کر بہت خوش ہوئے۔
واپس دفتر حلقہ پہنچنے کے بعدمیں نے یوسف علی صاحب سے بھی بات چیت کی۔ انھوں نے بتایا :‘’ آج چوںکہ آپ آئے ہیں اس لیے مولانا ہو ٹل گئے ہیں‘’ ورنہ روزانہ ان کا ناشتہ تو بَن اور چائے کے سوا کچھ نہیں ہو تا‘’۔اکثر دوروں پر جاتے تھے۔ تلنگانہ میں زیادہ تر بسوں میں سفر ہو تا اور بعض جگہوں پر ٹرینوں کے ذریعے بھی جاتے تھے ۔ آندھرا کے ساحلی اور رائل سیما کے دور دراز علاقوں میں ٹرینوں کے ذریعے سفر ہو تا تھا۔ ریزرویشن کا اس زمانے میں آجکل کی طرح زیادہ چلن نہیں تھا ۔ رات بھر کا سفر ہو تا تھا تو ریزرویشن کرایا جاتا تھا ’’ ورنہ نہیں ۔ ان سب باتوں سے مجھے اندازہ ہو ا کہ مولانا کس قدر سخت کوش اور محنت کیش شخصیت کے حامل ہیں ۔ آں محترم کے ڈیل ڈول کے ساتھ یہ تفصیلات میرے لیے عبرت انگیز تھیں ۔
گنتکل میں مکان تلاش کر کے اپنی فیملی کو وہاں لے جانے کے سلسلے میں دو ایک بار مزید مجھے دفتر حلقہ میں مولانا کے ساتھ اسی طرح وقت گزارنے کا موقع ملا تھا ۔ ان مواقع سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ فکری اور ذہنی تربیت کے کئی مراحل طے کیے۔ اُسی زمانے میں ستمبر کے مہینے کی بات ہے، میں دفتر سے گھر جارہا تھا کہ راستے میں ایک شخص ملا ۔ اپنا تعارف کراتے ہوئے بتا یا کہ وہ SB کا آدمی ہے اور میر ے متعلق معلومات چاہتا ہے۔ ہم ایک چائے خانے میں بیٹھ گئے اور میں نے اس کے سوالات کے جوابات دیے ۔ آخر میں اس نے کہا آپ ایک بات مجھ سے چھپارہے ہیں ۔ مجھ سے نہ رہا گیا میں نے کہا آپ کیا بات کر رہے ہیں۔یوں تو الحمدللہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن پھربھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اب جب کہ تمام باتیں میں آپ کو بتا چکاہوں تو کوئی بات کیوں چھپائوں گا۔
وہ ذرا گھبرایا اور پھر کہا ۔ آپ کے نام ایک خط میں دیکھ چکا ہوں، جس میں آپ کو ضلع اننت پور کے صدر کے طور پر مقرر کیا گیا ہے ۔میں چکرا گیا ۔ پھر سنبھل کر کہا‘’ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ خط آپ کے پاس ہے تو یہ بات میرے علم میں کیسے آئے گی؟ اُس نے کہا کیا واقعی آپ کے علم میں نہیں ہے ۔ آپ سے تو پوچھا گیا ہو گا ۔؟ میں نے کہا:‘’جی نہیں ہمارے ہاں پوچھ کر رضامندی لے کر مناصب تقسیم نہیں ہو تے ۔ ذمے دار جس کو مناسب سمجھتے ہیں، اس کا تقرر کر دیتے ہیں ۔ ہم لوگ ڈسپلن کے پابند ہیں۔ جو ذمے داری بھی دی جاتی ہے، حتی المقدور اُسے ادا کر نے کی نیت سے قبول کر لیتے ہیں۔ ویسے اس خط میں صدر (President) کا لفظ نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں ’’ ضلع کا ناظم Organiser ہو تا ہے‘’ ۔اُس نے بتایا: ’’ہمارے مترجم نے یہی لکھا تھا۔
میں اس واقعے سے جھنجھلا گیا تھا۔ اسی حالت میں عربک اسکول گیا، جس کے پتے پر میری ڈاک آ تی تھی ۔ وہاں میرے نام ایک پوسٹ کارڈ موجود تھا ۔ جس میں محترم امیر حلقہ مولانا محمد شفیع مونس صاحب کی تحریر میں ’’ ناظم ضلع اننت پور کی حیثیت سے میرے تقرر کی اطلاع تھی اور ساتھ ہی جناب عبد الرحیم صاحب نندیال‘’ ناظم علاقہ ’’ کا پتا بھی درج تھا ۔ مولانا مونس صاحب جو بھی کام کر تے تھے، وہ ضابطوں کے تقاضے پورے کر تے ہوئے کر تے تھے ۔ اسی سال اکتوبر کے مہینے میں دفتر حلقہ پرانی حویلی میں اے پی کے ارکان کا ایک سہ روزہ اجتماع ہوا ۔ جس میں میں شریک تھا ۔ اننت پور ضلع کی مختصر رپورٹ بھی میںنے سنائی تھی ۔ مولانا حسب موقع گنتکل میں کام کے بارے میں پوچھتے رہے ۔ میں نے جب بتا یا کہ ۰۲، ۵۲/ افراد ہفتہ واری اجتماع میں آتے ہیں، جن میں دو ایک مخالفین بھی شامل ہیں، سات افراد نے متفق کا فارم بھر دیا ہے اور الحمد للہ یہ دائرہ مزید پھیلتا ہی جا رہا ہے، تو موصوف نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔
اجتماع ارکان کے چند دنوں کے بعد مولانا مونس مرحوم کا خط آیا کہ وہ گنتکل کے دورے پر فلاں تاریخ کی شام کو آرہے ہیں ۔ رات کو جو پروگرام چاہوںمیںرکھ لوں۔ اور یہ بھی لکھاتھاکہ دوسرے دن بھی وہ ساتھ رہیں گے۔﴿۱﴾ پھر اسی دن شام کو حیدرآباد واپسی ہو گی اورساتھ ناظم علاقہ عبدالرحیم صاحب بھی ہوں گے۔ اس وقت تک گنتکل میں ۳۱ متفقین ہو گئے تھے جن میں میری اہلیہ اور چھوٹا بھائی بھی شامل تھے۔ خط ملتے ہی میں نے متفقین کی نشست بلائی ۔رات کو اجتماع عام اور دن میں متفقین سے ملاقات اور جائزے کا پروگرام بنایا گیا ۔ اجتماع کے لیے شہر سے ذرا ہٹ کر ایک ہال کا انتخاب کر لیا گیا تھا۔ تمام متفقین اور دوسرے حضرات سے یہ گزارش کی گئی تھی کہ مولانا کی آمد پر زیادہ سے زیادہ افراد کو جمع کر نے کی کوشش کریں ۔ الحمد للہ ۴‘’ ۵ دنوں میں اجتماع کا اچھاٹیمپوبن گیا تھا۔ بڑی کامیابی کے امکانات واضح ہو رہے تھے ۔ میں بے حد مسرور تھا ۔ میری نظامت میں یہ پہلی کوشش تھی، وہ بھی گنتکل جیسے بنجرعلاقے میں۔ اچانک اجتماع سے دو دن قبل یہ اطلاع ملی کہ مجوزہ ہال میں اجتماع کرنا خطرے سے خالی نہیں رہے گا۔ مخالفین جماعت نے اس اجتماع میں ہنگامہ کرنے کی غرض سے غلط پروپگنڈا شروع کر رکھا ہے ۔بد عقیدگی اور رسول اللہ ﷺ ’’ صحابہ کرامؒ ’’ بزرگان دین ؒ سے محبت اور عقیدت مندی کے فقدان کا ذکر بڑے اونچے پیمانے پر شروع کر دیا گیا ہے ۔ میں نے فوراً رفقا کی نشست کی پوری صورتِ حال ان کے سامنے رکھی اور باہم مشورہ کیا۔ کافی دیر تک مشورے اور گفت و شنید کے بعد بڑے اطمینان سے نشست ہوئی ۔ طے پایا کہ اُس ہال کی بجائے عربک اسکول کے ہال ہی میں اجتماع کر لیا جائے۔ چنانچہ اسی طرح انتظام کر لیا گیا۔ اس ہال میں دوسو افراد کے بیٹھنے کی گنجایش تھی ۔
مولانا محمد شفیع مونس مرحوم صاحب جب تشریف لائے تو میں نے ناظم علاقہ کی موجودگی میںانھیں صورت حال سے واقف کرایا۔ اُنھیں پروپیگنڈے کی تفصیلات سنائیں اور جگہ کی تبدیلی کا بھی ذکر کیا۔ مولانا نے کہا کہ جگہ کی تبدیلی کی ضرورت نہیں تھی۔ مزید کہا کہ پریشان ہو نے کی کوئی ضرورت نہیں، اِن شائ اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ لوگ اطمینان سے اپنے کام پر لگے رہیں۔مگر جب آپ حضرات نے جگہ بدلنا طے کر ہی لیا ہے تو ایسے ہی سہی۔ مولانانے بہت ہمت دلائی اس لیے کہ وہ پوری طرح مطمئن تھے۔ گویا مولانا کے حساب سے سب کچھ صحیح ہو رہا تھا۔
جب اجتماع کا وقت ہوا تو لوگ آنے لگے۔ بعض حضرات اپنے ساتھ پانچ پانچ فٹ چھ چھ فٹ کے ڈنڈے بھی لیے آرہے تھے ، جو لوگ ڈنڈا بردار تھے، ہال کے چاروں طرف دیواروں سے لگ کر بیٹھ گئے۔ پندرہ بیس منٹ میں ہال بھر گیا۔پروگرام کا آغاز ناظم علاقہ کی تذکیر سے ہوا۔ میں نے ۵،۷ منٹ میں جماعت اورمولانا کا تعارف کرایا ۔ اس کے بعد مولانا کی تقریر ہوئی ۔ پورے ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر تھی۔ رسول کریم ﷺکی اور صحابہ کرامؒ کی دعوتی زندگیوں کی جھلکیاں اور کئی بزرگوں کی قربانیوں کا تذکرہ ہوا۔ پھر تفصیل سے دنیا کے حالات، کمیونزم اور کیپٹلزم کی اسلام پر یلغار کی داستان سنائی گئی۔ آخر میں ہندستان کے حالات میں مسلمانوں کی ذمے داریاں یاد دلائی گئیں۔ اتحاد، اتفاق، دعوتی جدو جہد اور دین سے لگائو کی تلقین کی گئی اور دعا پر اجتماع کا اختتام ہوا ۔
پروگرام میں جو لوگ ڈنڈے لائے تھے، وہ ڈنڈے وہیں فرش پر رکھ کر مولانا سے ملنے آئے۔ ان کے انداز سے صاف طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ اُ نھیں سخت شرمندگی محسوس ہو رہی ہے۔ بعض حضرات نے مولانا کے ہاتھ بھی چومے ۔رفقاءکی ایک تربیتی نشست رکھی گئی تھی۔ تاثرات کے ساتھ انفرادی ملاقاتیں بھی رہیں۔تاثرات میں لوگوں نے اس بات کاخصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیاکہ مولانا کی تقریر کے اثرات کافی مرتب ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث ندوی رحمتہ اللہ علیہ کا تمل نا ڈو کا دورہ ہوا تھا۔ دورے کے موقعے پر امیر محترم سے جمیل بھائی کی پتا نہیں کیا گفتگو ہوئی تھی، جمیل بھائی نے فوراً آنے کے لیے خط لکھا تھا۔ چنانچہ میں مدراس گیا تھا۔ مدراس میں محترم امیر جماعت نے ایک طرح سے میرا انٹر ویو لیا اور مرکز آنے کے لیے کہا ۔ میں نے بھی رضامندی کا اظہار کر دیا تھا۔
جس دن مولانا مونس صاحب گنتکل تشریف لائے تھے، اسی دن مرکز سے مولانا افضل حسین صاحب کی تحریر موصول ہوئی تھی، جس میں امیر جماعت کے حوالے سے لکھا گیا تھا کہ ایک ماہ کی رخصت لے کر میں آزمایشی طور پر مرکز جا کر رہوں ۔ وہ خط میں نے مولانا مونس صاحب کو دکھایا۔ خط پڑھنے کے بعد تفصیلات معلوم کر کے مونس صاحب نے کہا: ’’ ارے میں نے تو تمھارے بارے میں کچھ اور سوچ رکھا تھا اور ایک دوسرا پروگرام بنا رہا تھا ۔ اب تم نے وعدہ کر لیا ہے تو مرکز ہو آئو۔ تمھاری واپسی کے بعد گفتگو ہو گی ۔‘’
شام کو مولانا کو واپس ہوناتھا،بنگلور حیدرآباد ایکسپرس میں ریزرویشن کی کوشش کی گئی، مگر ریزرویشن مل نہ سکا۔ مجھے ذاتی طور پر کافی تکلیف ہوئی۔ میرے علاوہ دو ایک اور متفقین ریلویز میں تھے۔ مگر ریزرویشن حاصل نہ کراسکے ۔میں نے مولاناسے لاکھ کہا کہ آپ ایک دن اور رک جائیے، کچھ کوشش کرلیں گے، شاید کل کی ٹرین میں ریزرویشن مل جائے ۔لیکن مولانا نہیں مانے ۔ عام ڈبے میں بیٹھنے کی کوشش بھی مشکل ہوگئی ۔ ڈبے کا دروازہ بند تھا اور لوگ سامان رکھ کر بیٹھ چکے تھے۔ دروازہ کھولنا نا ممکن تھا ۔ مولانا کا سامان بس ایک ہولڈال تھا۔وہ بڑی مشکل سے کھڑکی میں سے اندر ڈالدیا گیا۔ ڈبے والوں نے ہولڈال لے کر سیٹ کے نیچے رکھ دیا ۔ اب مولانا نے کہا کھڑکی کے ذریعے اندر پہنچنے میں اب میری مدد کیجیے ۔ اس زمانے میں کھڑکیوں میں سلاخیں لگی ہوئی نہیں ہو تی تھیں۔ واقعی ایسا ہی کرنا پڑا ۔ انھیں کھڑکی سے اندراتارنے کی کوشش کی گئی۔ جب مولانا اندر پہنچ کرکھڑے ہوکر مسکرانے لگے تو میں رو پڑا۔ مجھے بڑی شرم آرہی تھی ۔
جو رفقاءاسٹیشن تک چھوڑنے آئے تھے وہ امیر حلقہ کی یہ سادگی دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے تھے۔ اس طرح کے لیڈر اب کہاں نظر آتے ہیں۔ ان لوگوںنے جب واپس جا کر شہر میں اجتماع عام کے شرکائ سے ملاقاتیں کر کے بتایا کہ مولانا کا ٹرین کا سفر کس طرح شروع ہوا ۔تو لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آ ہی نہیں سکی کہ مولانا کھڑکی کے اندر کس طرح گھس سکے تھے۔ وہ مولانا کو دیکھے ہوئے تھے ۔ وہ لوگ تو یہی کہتے رہے کہ یہ ایک کرامت سے کم نہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ واقعی اللہ والوں کی جماعت ہے ۔
محترم مولانا محمد شفیع مونس رحمۃ اللہ علیہ بلند ہمتی، بلند حوصلگی، پرامیدی، مستقل مزاجی، اعلیٰ ظرفی اور خر دنوازی کی ایک بہت اونچی مثال تھے ۔ ۱۹۷۱ء کی ہند پاک جنگ‘’ نتیجۃً پاکستان کے دو لخت ہو نے تک جو ٹینشن ملک بھر میں پیدا ہو چکا تھا اور جس طرح مسز اندرا گاندھی نے دلی میں کانگریس پارٹی کی ریلی میں جماعت اسلامی ہند کو متہم کیا تھا اور جن حالات میں جماعت کے ذمے داروں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی، اس وقت جماعت کے تمام ذمے داروں کے صبر و تحمل ، اطمینان، حوصلہ، استقلال کو کم سے کم الفاظ میں بے مثال کہا جاسکتا ہے ۔ ان ایام میں میں ان بزرگوں سے بہت ہی قریب رہا ہوں۔ محترم مولانا ابواللیث ندوی، مولانا محمد یوسف صدیقی، مولانا افضل حسین، مولانا محمد شفیع مونس، مولانا سید حامد علی، مولانا سید حامد حسین اور مولانا عبدالعظیم خان۔ ان سب کو عام عام دنوں میں تو دیکھتا ہی رہا ہوں مگر ان سخت ایام میں بھی ان بزرگوں کے اونچے کردار کا میں شاہدرہاہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نور سے بھر دے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
یہ لوگ صرف تحریک ہی کے لیے نہیں پوری ملت کے لیے ایک نمونہ چھوڑ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے قابل فخر ہیں۔ ان ایام میں مولانا مونس کی زبان پر ایک ہی کلمہ ہمیشہ رہا کر تا تھا۔ ان شا ء اللہ! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان دنوں مرکز سے لے کر تہار جیل اور پھر جیل سے واپسی کے بعد مرکز ہر جگہ کی محفلوں میں محترم مونس صاحب کے ’’ان شائ اللہ‘’ کا خوب ذکر ہوا کر تا تھا اور تمام بزرگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں پھیل جاتی تھیں۔
مرکز میں میرے قیام کے ڈھائی سال ﴿۱۹۷۲-۱۹۶۹﴾ مولانا مونس صاحب سے استفادے کا خوب موقع ملا۔ مرکز میں کلر یکل اسٹاف میرے سوائے کوئی نہیں تھا۔ مولانا محمدشفیع مونس اورمولانا افضل حسین صاحب یہ دونوں حضرات رات دیر گئے تک کام میں مصروف رہتے تھے اور مجھے تحریک کی خدمت کا جذبہ کچھ نہ کچھ حاصل ہو سکا ہے تو بس انھی بزرگوں کی ہم نشینی کا اثر ہے ۔ میرے تو خیر جوانی کے دن تھے یہ ادھیڑ عمر کے حضرات بھی جب اس طرح رات دن کام میں لگے رہتے تو میں کیسے بیٹھا رہ سکتا تھا
مشمولہ: شمارہ اگست 2011