کیا آپ نے سوچا ہے کہ جس مسکراہٹ سے آپ اپنے بچے کو سکون دینا چاہتے ہیں، وہ زخم خوردہ مسکراہٹ خود کسی مرہم کی محتاج ہے؟
والدین بننا زندگی کا سب سے شاندار مگربے حد مشکل کردار ہے۔ ایک طرف بچے کی دل کش ہنسی آپ کی تھکن مٹا دیتی ہے، دوسری طرف روزمرہ کی ذمہ داریاں، مالی دباؤ، سماجی توقعات اور وقت کی کمی آپ کے ذہن کو پریشان رکھتی ہے۔ زندگی کی رفتار تیز اور خوابوں کا بوجھ بھاری ہوتا ہے، ذہنی دباؤ، بے چینی اور تھکن اکثر آپ کے دل و دماغ کو گھیرے رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں والدین کی ذہنی صحت پر کم بات ہوتی ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ والدین کو مضبوط رہنا چاہیے، چاہے اندر سے وہ کتنے ہی ٹوٹ رہے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک تھکا ہوا اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ذہن والدین کے بلند مرتبے کے اہم تقاضے پورے نہیں کرسکتا ہے۔ وہ نہ خود خوش رہ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے بچے کی پرورش بہترین انداز میں کر سکتا ہے۔ اس لیے، والدین کی ذہنی صحت نہ صرف ان کی اہم ضرورت ہے بلکہ آنے والی نسل کی کام یابی بھی اس سے وابستہ ہے۔اس مضمون میں ہم اُن مسائل پر بات کریں گے جو عام طور پر والدین اپنی روزمرہ زندگی میں محسوس کرتے ہیں، مگر اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہ وہ عوارض ہیں جن کے لیے عام طور سے کسی پیچیدہ علاج یا کلینیکل مدد کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ اپنے طور سے ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ والدین اپنی ذہنی صحت کے بارے میں آگاہ ہوں، اپنی روزمرہ کی عادتوں پر نگاہ رکھیں اور چھوٹے چھوٹے بدلاؤ کے ذریعے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ایک پُرسکون اور خوشگوار ماحول پیدا کریں۔
ذہنی صحت کی خرابی پہلے پہل خیالات وجذبات کو متاثر کرتی ہے پھر یہ روزمرہ کی عادتوں کو متاثر کرتی ہے۔ بعض اوقات ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہماری معمولی سی عادتیں دراصل کسی گہرے ذہنی عارضے کی علامت ہیں۔ اگر ان عادتوں کو وقت پر پہچان کر درست نہ کیا جائے تو یہ ہماری شخصیت کی پہچان اور کردار کا حصہ بن جاتی ہیں اور ہمارے زندگی کے معیار، تعلقات اور مستقبل پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں۔
ذہنی صحت کی خرابی کےنتیجے میں انسان کی شخصیت پر گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ والدین کے حوالے سے ہم نیچے کچھ عادتیں اور رویے ذکر کریں گے جو دراصل ذہنی صحت کی خرابی کا نتیجہ ہوتے ہیں:
چڑچڑاپن (Irritability)
تعریف: معمولی باتوں پر جلد غصہ آ جانا اور ذرا ذرا سی باتوں پر جھنجھلاہٹ ظاہر کرنا۔
وجہ: نیند کی کمی، کام کا دباؤ، بچوں کی ضد،شور شرابہ اور کاموں کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑاپن آجاتاہے۔
اثرات: گھر میں تناؤ کا ماحول ہو جاتا ہے، بچے والدین سے دور ہوجاتے ہیں اور خوف زدہ رہنے لگتے ہیں۔
ذہنی تھکن (Mental Fatigue)
تعریف: دماغ کا بوجھل ہو جانا، سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کی صلاحیت میں کمی آنا
وجہ: مسلسل ٹینشن میں رہنا، منفی رویوں اور باتوں پر سوچتے رہنا،ذمہ داریوں کا دباؤ محسوس کرنا اور آرام کے لیے وقت نہ نکال پانا۔
اثرات: والدین کسی ایک فیصلے پر جلدی نہیں آپاتے، چھوٹے چھوٹے مسئلے میں تذبذب میں پڑجاتے ہیں، لمبے عرصہ تک سر درد رہتا ہے۔
نیند کا خلل (Sleep Disturbance)
تعریف: وقت پر نہ سونا، بار بار نیند ٹوٹ جانا، ڈراؤنے خواب آنا، نیند پوری نہ ہونا۔
وجہ: چھوٹے بچوں کی ضروریات کے لیے والدین (خاص طور پر والدہ) کی نیند کا باربار ٹوٹنا۔
سونے سے پہلے موبائل یا اسکرین کا زیادہ وقت تک استعمال کرنے سے بھی بے خوابی بڑھتی ہے۔
کسی ایسی چیز کے بارے میں مسلسل سوچنا جس سے ذہن پر دباؤ بڑھتا ہو اور دل دکھتا ہو تو یہ بھی نیند کے معمول کو متاثر کرتاہے۔
اثرات: رات میں نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے دن بھر تھکن محسوس ہوتی ہے۔ اب چاہے رات کتنی ہی پریشانی میں گزرے لیکن دن کی کچھ ذمہ داریاں ایسی ہیں جنھیں پورا کرنا لازم ہوتا ہے۔ ساری تھکن بھلا کر سارے کام کرنے ہی پڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں جسمانی صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ نیند کی کمی کی وجہ سے قوتِ مدافعت میں بھی کمی آتی ہے۔
توجہ میں کمی (Lack of Focus)
تعریف: کسی ایک کام پر دیر تک توجہ نہ دے پانا یا بار بار ذہن بھٹک جانا۔
وجہ: دماغ پر تناؤ، نیند کی کمی، بھوک یا مسلسل شور شرابے کی وجہ سے اکثر فوکس برقرار نہیں رہتا۔
اثرات: توجہ کی کمی کی وجہ سے کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور بچوں کی تعلیم یا ضروری امور میں کوتاہی ہوجاتی ہے۔
یادداشت کی کمی (Memory Lapses)
تعریف: چھوٹی چھوٹی باتیں یا چیزیں بھول جانا، جیسے کسی چیز کا رکھنا یا وعدہ یاد نہ رہنا۔
وجہ: منفی خیالات و رجحانات کی وجہ سے یاداشت متاثر ہوتی ہے۔ طویل عرصے تک ٹینشن میں رہنے سے بھی بہت سی باتیں ذہن میں ٹک نہیں پاتیں۔
اثرات: اکثر لوگ چیزیں رکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں پھر انھیں تلاش کرنے میں وقت اور توانائی لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے دوسرے کاموں پر اثر پڑتا ہے۔
یاداشت کی کمی کی وجہ سے بچوں کی اکثر اہم چیزیں ذہن سے نکل جاتی ہے جیسے اسکول کا ہوم ورک، پروجیکٹ کی تیاری یا ان کی کوئی دوا۔
ٹالنا (Procrastination)
تعریف: ضروری کاموں کو بار بار مؤخر کرنا یا کوئی چھوٹا سا بھی کام جس میں کم وقت اور کم توانائی صرف ہوتی ہو ’’کل کر لیں گے‘‘ کہہ کر کل پر چھوڑ دینا۔
وجہ: بہت سے کاموں کا بوجھ لینے سے تھکان ہوتی ہے کہ جو آسان کاموں کو بھی کرنے نہیں دیتی۔
بعض اوقات لوگوں کی تنقید اور منفی رویے اتنا متاثر کردیتے ہیں کہ آسان سے کام کے لیے بھی انسان خود کو توانا محسوس نہیں کرپاتا۔
لوگوں کے دباؤ میں بعض لوگوں پر پرفیکشنزم کا بھوت سوار ہوجاتا ہے وہ ہر کام کو پرفیکٹ طریقےسے کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی ان کے کام میں کیڑے نہ نکالے۔ ایسے لوگ اپنے کام تو بہتر طور پر کرتے ہیں لیکن وقت پر نہیں کرپاتے اور بسا اوقات ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔
بعض لوگوں میں کسی نئے کام کو شروع کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔
اثرات: کاموں کو ٹالنے سے کاموں کا ڈھیر لگ جاتا ہے اور پھر دباؤ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر انسان ڈر کی کیفیت میں مبتلا ہوکر خود پر شک کرنے لگتا ہے اور پراعتماد نہیں رہ پاتا۔
بے چینی (Mild Anxiety)
تعریف: معمولی باتوں پر غیر ضروری فکر مندی یا پریشانی محسوس کرنا۔
وجہ: ماضی کے کسی تجربے سے ڈر کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈرتے رہنا،بچوں کے مستقبل کی فکر، اپنا اور اپنے بچوں کا دوسروں سے موازنہ کرنا ۔
اثرات:بے چینی اور گھبراہٹ کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور بلڈ پریشر متوازن نہ ہونے کی وجہ سے سکون سے بیٹھا نہیں جاتا۔
حوصلے میں کمی (Low Motivation)
تعریف: کسی بھی کام کو شروع کرنے یا جاری رکھنے کے لیےاپنے اندر حوصلہ نہ پانا۔
وجہ: اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے نہ کرنا، خوداپنی ذات سے کوئی خوشی نہ محسوس کرنا، مسلسل تناؤ اور دباؤ میں رہنا۔
اثرات: حوصلے کی کمی کی وجہ سے سستی اور کاہلی آتی ہے۔ روزمرہ کے معمولات سے دل چسپی کم ہوجاتی ہے اور اداسی و مایوسی گھیر لیتی ہے۔
اپنی ذات کو نظرانداز کرنا (Self-Neglect)
تعریف: اپنی صحت، خوراک،دل چسپیوں اور مشغلوں کو مسلسل نظرانداز کرنا۔
وجہ: بچوں اور گھر کو ہمیشہ ترجیح دینا اور ان کے کاموں میں اتنا مصروف رہنا کہ خود کے لیے وقت نہ نکالنا۔
اثرات: اپنی ذات کو بھول جانے سے انسان اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔ ایسا انسان سکون اور خوشی نہیں محسوس کرپاتا۔ بظاہر تو وہ اوروں کے کاموں میں خود کو وقف کرکے خوشی محسوس کرتا ہے لیکن اندر سے وہ ٹوٹ جاتا ہے۔
بھوک میں کمی یا زیادتی (Appetite Changes)
تعریف: بہت زیادہ کھانے کی خواہش ہونا یا بھوک میں کمی آنا۔
وجہ: جذباتی کیفیت میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بھوک بھی متاثر ہوجاتی ہے۔
اثرات: بھوک کا نظام درست نہ ہونے کی وجہ سے جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ زیادہ کھانا کھانے سے انسان موٹا بھدا اور سست ہوجاتا ہے جب کہ کم کھانا کھانے سے دبلا پتلا اور لاغر ہوجاتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سماج سے ناتا توڑنا (Social Withdrawal)
تعریف: دوستوں، خاندان یا سماجی سرگرمیوں سے الگ تھلگ ہو جانا۔
وجہ: منفی رویوں، تنقید، طعنہ کشی اور عیب جوئی انسان کو اتنا دکھی کرتی ہے کہ وہ دوسروں سے ملنا ہی نہیں چاہتا اور اپنا گروہ چھوٹا کرتے کرتے بالآخر اکیلا ہی رہ جاتا ہے۔
اثرات: کوئی انسان اکیلا رہنا نہیں چاہتا لیکن کچھ لوگ ناقابل فراموش زخموں کی وجہ سے اکیلے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکیلا پن انسان کو خوشیوں سے دور اداسی اور مایوسی کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیتا ہے۔
گھبرائیں نہیں
انسان اپنی فطرت میں جسمانی اور جذباتی طور پر کم زور ہے۔”وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیفًا‘‘۔
اداسی محسوس کرنا، مایوس ہونا، رونا آنا، غصہ آنا، کم زور پڑجانا، کسی بات سے دل ٹوٹ جانا یہ سب بالکل نارمل ہے۔ لیکن انہی حالات میں مسلسل رہنا انسان کو ابنارمل بنادیتا ہے۔ کم زوری کا مطلب ناکامی نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہےکہ اس طرح ہم اس کی مدد اور رحمت کی ضرورت کو محسوس کرتے اور اس کی طرف پلٹتے ہیں۔ جس طرح گھر کی مشینیں جیسے فریج، واشنگ مشین اور اے سی وغیرہ کو مخصوص مدت میں صفائی اور ریپیرنگ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بعد وہ دوبارہ اور اچھے سے کام کرنے لگتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارا کم زور پڑنا ہماری مرمت کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے جس سے ہمارا ورژن اور بہتر ہوجاتا ہے۔ جس طرح ہمارا موبائل کچھ کچھ عرصے میں اپڈیٹ کی نوٹیفکیشن دیتا ہے ہماری کم زوریاں بھی ہمیں بہتر ورژن میں ڈھلنے کے لیے الارم دیتی ہے۔ اگر ہم موبائل کی اپڈیٹ نوٹیفکیشن کو ٹال دیتے ہیں تو موبائل کی رفتار اور کارکردگی وغیرہ پر اثر پڑتا ہے، اسی طرح اگر ہم اپنے اندر کی ان علامتوں پر دھیان نہیں دیتے تو اپنے لیے خراب کارکردگی کا راستہ چنتے ہیں۔
کم زوری کو طاقت میں بدلنے کا پہلا قدم ہے اسے سمجھنا اورتسلیم کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ نے مشکل کے ساتھ آسانی بھی رکھی ہے۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: ’’فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یسْرًا‘‘ (بے شک ہر تنگی کے ساتھ کوئی آسانی ہے)۔ اس آسانی اور رحمت کو پہچاننے اور حاصل کرنے کی تدبیریں اختیار کرنا انسان کا کام ہے۔
ہم یہاں چند تدابیر کا ذکر کریں گے، امید ہے کہ انھیں اپنے معمولات کا حصہ بنانے سے والدین اپنے حالات میں بہتری لاسکتے ہیں۔ ان ساری ہی تدابیر کو اپنے روٹین میں شامل کرنا ضروری نہیں ہے۔ پہلے جو آسان لگے اسے اپنائیں، ایک مخصوص مدت تک اس کے نتائج نوٹ کریں، نتائج متاثرکن ہو تو اسے اپنی عادت بنالیں۔ آپ تدابیر بدل بدل کر اپنی عادت کو مزین کرسکتے ہیں۔
شکر ادا کریں
روزانہ صبح آنکھ کھلتے ہی اللہ کی دی ہوئی چار پانچ نعمتوں کو یاد کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا۔ آپ چاہیں تو ایسی چیزوں کی ایک فہرست بناسکتے ہیں جن پر آپ خوشی محسوس کرتے ہیں اور صبح اس لسٹ کو ایک بار پڑھ کر ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ دن کی ابتدا شکر اور مثبت توانائی سے ہو تو قوی امید ہے کہ دن بابرکت ہوگا۔
لسٹ بنائیں
ان کاموں کی لسٹ تیار کریں جو آپ کو آج کرنے ہیں جنھیں آپ to do listکہہ سکتے ہیں۔ اسے آپ فریج، الماری یا دیوار پر چسپاں کیا کریں۔ تاکہ دن منظم طریقے سے گزرے، ضروری کام انجام پاجائیں اور آپ کو معلوم رہے کہ کون سے کام ہوچکے ہیں کون سے باقی رہ گئے ہیں۔
غذائیت پر توجہ دیں
اپنے کھانے اور دوا کی خوراک کا اوقات مقرر کریں اور موبائل میں الارم لگائیں۔ لذیذ لیکن متوازن غذا کھائیں اور اپنی خوراک سے وہ اشیاکم کریں جن سے آپ کی صحت متاثر ہوتی ہو۔ کھانا کھاتے وقت بحث نہ کریں، نہ ہی کسی ٹینشن کے ساتھ کھانا کھائیں، کھانا بالکل سکون سے اچھی طرح چبا کر اور اس کا لطف لے کر کھایا کریں۔
ورزش کیا کریں
روزانہ ورزش کریں چاہے وہ پندرہ منٹ کی چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح دوران خون بہتر ہوتا ہے، جسم میں توانائی بھرتی ہے اور جسم ایکٹیو رہتا ہے۔
گھر سے باہر نکلیں
سارا دن گھر میں نہ رہیں۔کم سے کم پندرہ سے تیس منٹ گھر سے باہر نکلیں۔ کھلے آسمان کو دیکھیے، پیڑ پودے دیکھیے، بازار ہو آئیے۔ تازہ ہوا اور آکسیجن دماغ کو تروتازہ کرتی ہے۔سورج کی روشنی وٹامن ڈی فراہم کرتی ہے جو ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
سیر و تفریح کریں
ہفتے میں ایک مرتبہ ایسی جگہ کی سیر کا انتظام ضرور کریں جہاں آپ کو قدرت کے نظاروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے اور آپ فطرت کے قریب ہو کر ذہنی دباؤ اور بے چینی کو ہلکا محسوس کرسکیں۔ ماحول کی تبدیلی تخلیقی صلاحیت اور مثبت سوچ کو بڑھاتی ہے۔
پانی پیا کریں
پانی بے چینی کو دور کرتا ہے اور جسم کو ایکٹیو رکھتا ہے۔ آپ کو دن بھر میں کتنا پانی پینا چاہیے یہ طے کریں اور موبائل میں پانی پینے کے اوقات کا الارم لگائیں۔
غصہ نکالتے رہیں
اگر آپ کو کسی سے کوئی ناراضی ہے جس کا آپ اظہار نہیں کرپاتے ہیں تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک صفحہ پراپنی ناراضی کو تحریر کریں اور پھر پھاڑ کر پھینک دیں۔ یہ مشق بار بار کرنی پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ ڈرائینگ،پینٹگ، شاعری یا کوئی کہانی بنا کر بھی اپنے غصہ کو خوب صورت انجام دے سکتے ہیں۔ اپنے غصے سے اپنے ہی کو نقصان نہ پہنچائیں، اسے اپنا ایندھن بنائیے اور اچھے کاموں میں لگائیے۔
اپنی خوبیوں کوثابت کریں
بہت بار لوگوں کے منفی رویوں اور باتوں سے دل کو چوٹ پہنچتی ہے اور اس کے نتیجے میں مایوسی اور اداسی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ آدمی کو احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ ناکام اور خوبیوں سے عاری ہے۔ اس احساس سے خود کو بچانا ضروری ہے۔ ایک ڈائری یا نوٹ بک میں ایک صفحہ لیں اس پر اپنا نام لکھیں اور کم سے کم اپنی پانچ خوبیاں لکھیں۔ پھر ایک ایک خوبی کے سامنے لکھیں کہ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ یہ خوبی آپ کے اندر ہے۔ مثلاً: آپ غصہ پر کنٹرول کرسکتے ہیں یہ آپ کی خوبی ہے تو لکھیں کہ آپ نے کب غصہ پر کنٹرول کیا ہے یا آپ گفتگو کرنے میں ماہر ہیں تو آپ نے کب دل چسپ گفتگو کی ہے، یا آپ بزنس کرنے میں ماہر ہیں تو اس کی کیا مثالیں ہیں، یا آپ ذہین ہیں تو اس کے کیا ثبوت ہیں، آپ کھانا بنانے میں یا پڑھانے میں ماہر ہیں یا آپ اچھے آرٹسٹ ہیں، غرض جو بھی ہیں وہ مثالوں سے ثابت کریں۔ ان خوبیوں پر اللہ کا خوب شکر ادا کریں۔ اس سے آپ کے اندر سے احساس کم تری دور ہوگا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کی تعریف کے جھانسے میں آکر اپنی واقعی خامیاں بھول جاتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کی تنقیدوں سے دھوکہ کھاکر اپنی واقعی خوبیوں کو بھول بیٹھتے ہیں۔
دو منٹ والے کام
بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو صرف دو منٹ میں یعنی بہت ہی مختصر سے دورانیے میں انجام دیے جاسکتے ہیں ان کو نہ to do list میں ڈالنا ہے نہ الگ سے ان کی لسٹ بنانی ہے بلکہ یہ کام فوری طور پر کرنے ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ذہن کو تیار رکھیں کہ وہ کون سے کام ہیں جنھیں بہت کم وقت لگتا ہے بس اسے کردینا ہے جیسے ای میل چیک کرنا، مسیج ڈالنا، کافی کا کپ دھونا، واشنگ مشین میں کپڑے ڈالنا، کچرا پھینکنا، پانی پینا، کوئی فالو اپ کرنا وغیرہ۔ ہر ایک کے پاس ایسے بہت سے کام ہوں گے جنھیں وہ ٹالتے ہوں گے جب کہ نہ ان کاموں میں زیادہ توانائی لگتی ہے نہ ہی زیادہ وقت لگتا ہے تو ان کاموں کو فوری طور پر کرنے کی عادت بنالیں۔ اس سے بہت سے کام کرلینے کا ایک راحت بخش احساس ہوتا ہے اور کاموں کے بوجھ میں دبا ہوا ذہن ہلکا محسوس ہوتا ہے۔
اپنے آپ کا خیال رکھیں
اپنے آپ سے محبت کریں، اپنے آپ کو پہچانیں اور اپنا خیال رکھیں۔ اپنی صحت کا خیال، اچھی غذا کا انتظام، آرام کے لیے مناسب وقت کی فراہمی، ذاتی مطالعہ کے لیے وقت، سیر وتفریح کے پروگرام، سب سے بڑھ کر اپنے اعمال نامے کو نیکیوں سے بھرنے کی کوششیں۔
خود کو آرام دیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کم زور بنایا ہے وہ تھک جاتا ہے آرام کرتا ہے پھر تروتازہ ہو کر دوبارہ کاموں پر لگ جاتا ہے۔ اپنی نیند مکمل کریں اور آرام کے اوقات کا خیال رکھیں۔ اپنے آرام کے کمرے کو صاف اور آرام دہ بنائیں وہاں روشنی کم رکھا کریں۔ رات میں سونے سے قبل وضو کا اہتمام کریں اور دعائیں پڑھیں اور صبح بھی اٹھتے ہی دعا پڑھ لیا کریں۔
جب کبھی کسی دن بہت سستی ہو اور کام نہ کرنے کا دل چاہے تو چھوٹا گیپ لیا کریں۔ خود کے ساتھ سختی برت کر اور کاموں کا بوجھ لے کر اپنے اوپر ظلم نہ کریں۔ ساتھ ہی مسلسل سستی، کاہلی اور عجز سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگیں۔
اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَمِنْ غَلَبَةِ الدَّینِ وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ
اے اللہ میری حفاظت فرما، فکرمندی اور غمگینی سے، بے بسی اور کاہلی سے، کنجوسی اور بزدلی سے، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے قہر سے۔
اپنے آپ کو انعام دیں
جب آپ کا کوئی ہدف پورا ہو تب خوشی منائیں، اپنا پسندیدہ پکوان بنائیں، اپنا پسندیدہ لباس پہنیں، اپنے آپ کو اچھے نمبرات دیں، اوروں کی تعریف کو قبول کریں، اپنی محنت کا اعتراف کریں، اپنے معاملے میں نرم بنیں اور اپنے وجود کی خوشیاں مناتے رہیں۔ لیکن غرور و تکبر اور خود پسندی ونرگسیت کے فتنے سے یک سر دور رہیں۔ اللہ کی نعمتوں کے اعتراف میں اور غرور و تکبر میں بڑا فرق ہے۔
اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے آپ اپنی طرف سے کوئی گول بطور انعام طے کرسکتے ہیں مثلاً یہ کام ہوجائے تو میں یہ خرید لوں، میں یہاں جاؤں وغیرہ اور اپنے مقصد کو پورا کرکے اپنا مقرر انعام جیت کر یا آپس میں ایک دوسرے کو انعام دے کر توانا رہیں۔ شکر انے کی دو رکعتیں بھی بہترین انعام ہے جو آپ اپنے آپ کو دے سکتے ہیں۔
یادداشت تیز کریں
اپنی یادداشت کو بہتر کرنے کے لیے معمے (puzzles) حل کیا کریں۔ یہ معمے آپ کو اخبار، میگزین یا موبائل فون پر گیم کی شکل میں مل سکتے ہیں۔ قرآنی سورتیں یاد کرنے اور تلاوت کرنے کے لیے وقت نکالا کریں۔ ڈائری کی عادت بنائیں۔ اور اپنی غذا میں ایسے سپلیمنٹ شامل کریں جن سے یادداشت تیز ہوتی ہو۔
آپ کوئی چیز کہیں رکھ کر بھول جانے کے عادی ہو تو ان چیزوں کو رکھنے کے بعد کہیں لکھ دیں یا ان کی تصویر کھینچ لیں۔
صفائی ستھرائی پر توجہ دیں
گھر کی صفائی ستھرائی اور ذاتی حفظان صحت پر توجہ دیں۔ صفائی کی وجہ سے بہت سی منفی توانائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور انسان تر و تازگی محسوس کرتا ہے۔
رابطہ بنائیں
انسان نہ اکیلا رہ سکتا ہے نہ اسے اکیلا رہنا چاہیے۔ اپنے اطراف میں لوگوں سے تعلقات اچھے رکھیں۔ آس پاس ہم خیال لوگ نہ ملیں تو سوشل گروپوں اور کمیونٹی کا حصہ بنیں، ایسے لوگوں کے ساتھ ہوجائیں جن سے آپ کو حوصلہ ملتا ہو، کچھ اچھا کرنے کا جذبہ ملتا ہے، جہاں لوگوں کے تجربات سے کچھ سیکھنے کو ملتا ہو۔ اپنے خیالات اور تجربات قابل اعتماد لوگوں سے شیئر کریں اور ان کی رائے سے اپنی اصلاح اور ان کی ہمت افزائی سے اپنی ترقی کی راہیں بنائیں۔
باغبان بنیں
ایک مالی بیج بوتا ہے، پانی ڈالتا ہے اور کھاد ڈالتا ہے لیکن پودے کے اگنے کے لیے اور اس کے پھل توڑنے کے لیے وہ کلی طور پر اللہ پر بھروسا کرتاہے۔ آپ بھی ایک باغبان کی فکر اپنائیں، اپنا کام پوری لگن اور ایمانداری سے کریں لیکن نتیجہ اللہ حوالے کردیا کریں۔ اس طرح آپ کے کاموں میں برکت ہوگی، نتائج کارآمد ہوگے اور نتیجے امید کے برعکس آنے پر صبر آسان ہوگا۔
صبح و شام کے اذکار کا اہتمام کریں
ذہنی سکون کے لیے روحانیت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فرض نمازوں کے علاوہ صبح و شام کے اذکار کا اہتمام کریں۔ جب بھی بے چینی یا گھبراہٹ ہو درود، قرآنی دعائیں اور دیگر اذکار پڑھا کریں۔ یہ دعائیں ہمارے ایمان کو تازہ کرتی ہیں، وسوسوں سے ہمیں محفوظ رکھتی ہیں اور ہمیں اللہ کا قرب دیتی ہے۔
خیر بانٹیں
اگر آپ چاہتے ہیں آپ کے ساتھ خیر ہو تو آپ بھی خیر کا معاملہ کریں۔ غیبت، تجسس، حسد، چغلی، طعنہ زنی، عیب جوئی، فحش گوئی اور ایسی برائیاں جنھیں معمولی سمجھا جاتا ہے ان سے گریز کریں۔ دوسروں کی تعریف کریں، حوصلہ افزائی کریں اور دوسروں کی مدد کریں اور ان کی کام یابی کی کہانی میں اپنا حصہ درج کریں۔ دوسروں کی خوشیوں پر خوش ہوا کریں اور انھیں مبارک باد اور دعائیں دیا کریں۔ تحائف، صدقہ و خیرات دینے میں ہمیشہ دل بڑا رکھیں۔ عیادت اور تیمارداری کے معمولات اپنائیں۔ کوئی لذیذ پکوان ہو پڑوسیوں کو شریک کریں۔ دوستوں اور رشتے داروں کو دعوت دیا کریں۔
جو حسد کرے اس کی کسی خوبی کا تذکرہ کرکے اس کی آگ کو ٹھنڈا کریں۔ جو غصہ کرے اسے پانی پلا کر نرمی کا سلوک کریں۔ جو تنقید کرے تو ٹھنڈے دل سے سنیں اور اس میں اپنے لیے مفید پہلو تلاش کریں۔
استقامت کیسے حاصل ہو ؟
ان تدابیر پر عمل کے لیے استقامت درکار ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ کچھ دنوں کے لیے کچھ ترکیبیں الٹ پلٹ کرلیں اور نتیجہ چاہنے لگے۔ زندگی میں والدین بننے کے بعد ہزاروں موڑ آسکتے ہیں جب آپ کو لگے گا کہ آپ گرگئے ہیں لیکن آپ کو اٹھنا ہوگا۔ اگر آپ کچھ اچھی تدابیر کو اپنی عادت بنالیتے ہیں تو آپ کو زیادہ چوٹیں نہیں آتیں۔ کچھ لوگ برے سے برے حالات میں بڑے سے بڑے کام کرجاتے ہیں کیوں کہ وہ استقامت اپناتے ہیں، استقامت ایک عادت نہیں، بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے جو درج ذیل تین بنیادی ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔
صبر (Patience)
کام یابی کا سفر ہمیشہ ہم وار راستے پر نہیں طے ہوتا، بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔صبر وہ قوت ہے جو ہمیں وقتی ناکامی یا سست رفتار نتائج کے باوجود آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ صبر کا مطلب خاموشی نہیں ہے۔ گھر میں آگ لگی ہو، تو آگ کو لگنے دینا اور بجھانے کے لیے نہ دوڑ پڑنا، صبر نہیں ہے۔ صبر ایک ایسا جذبہ ہے جو حکمت کے ساتھ میدان عمل میں لے جاتاہے۔گھر میں آگ لگی ہے تو نہ تو اس پر واویلا مچانا ہے اور نہ اسے جلنے دینا ہے، بلکہ اس آگ کو بجھانے کی ترکیبیں لگانا ہے۔ یہی صبر ہے۔ جیسے حضرت نوح کا صبر جو ان کی طویل عمر کے ساتھ برقرار رہا۔ مخالفت جاری رہی اور وہ مایوسی اور جھنجھلاہٹ کے بغیر اپنا کام کرتے رہے۔ہار نہیں مانی۔
یاد رکھیں اگر آپ غم گین رہنے کے بجائے اپنی ذہنی صحت کی خاطر چند مفید ترکیبیں اپنا کر اپنی توانائی کارآمد سرگرمیوں میں لگاتے ہیں تو صبر کا میٹھا ثمر آپ کا منتظر رہے گا۔
خود اعتمادی (Self-Belief)
اپنی صلاحیتوں اور قوتوں پر یقین نہ ہونے کی صورت میں انسان جلد ہمت ہار دیتا ہے۔ کوئی آپ کے بارے میں کیا کہتا ہے یہ اہم نہیں ہے آپ اپنے آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ اہم ہے۔ کبھی کبھی بے بضاعتی کا احساس ہوسکتا ہے، یہ احساس برا نہیں ہے، بے بضاعت رہنا برا ہے۔ اپنی شخصیت کے ارتقا کے بارے میں فکرمند رہنا چاہیے۔
اپنی اقدار کی معرفت (Perceived Values)
جب اپنی قدروں کی آگہی ہو، جب یہ واضح ہو کہ ہماری زندگی میں سب سے زیادہ اہم کیا ہے، تو ہماری فکر کوبلندی اور جذبے کو توانائی ملتی رہتی ہے۔ ہماری اعلی قدریں ہمیں اچھی سمت دیتی ہیں اور مشکل وقت میں ہمیں ہارنے نہیں دیتیں۔
ہر ناکامی سے کام یابی کے گرسیکھنا ہے۔ سنگ میل اتفاق سے نہیں ملتا، سنگ میل تک پہنچنا ہوتا ہے اور پہنچنے کے لیے اپنا سفر مسلسل جاری رکھنا ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے لیے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اور اگر اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
زندگی میں کبھی کبھی اداسی، تھکن یا اکتاہٹ کے لمحات آ سکتے ہیں، لیکن ان لمحات کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ مت بننے دیں۔ذہنی صحت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ غم کو محسوس نہ کریں، ٹینشن نہ لیں، درد کو سرے سے نظر انداز کریں بلکہ ذہنی صحت پر توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان پہلوؤں پرماہرانہ کنٹرول حاصل کرنا جو آپ کی شخصیت، آپ کی صلاحیت اور آپ کی پوری زندگی کو دھیرے دھیرے زہر آلود (slow poisoning)کررہی ہوں۔ کیوں کہ آپ کی ذہنی صحت کی خرابی صرف آپ کی ہی نہیں آپ کے بچوں کی شخصیت کو بھی متاثر کرتی ہے، اس لیے اپنے لیے ایک ایسا لائف اسٹائل چنیں جو تمام تر پریشانیوں اور مشکلوں کے باوجود آپ کو قوی اور توانا رکھتا ہو۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025






