والدین اپنے اہداف طے کریں

جب کوئی شخص اپنی تعلیمی اسناد اور تجربات کا ریکارڈ لے کر کسی نوکری کے سلسلے میں انٹرویو کے لیے جاتا ہے تو اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اس جاب کو لے کر آپ کا مقصد کیا ہے؟ آپ یہ جاب کیوں چاہتے ہیں؟ اور اس سوال کا جواب انٹرویو دینے والے کی متانت اور سنجیدگی پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ بالکل، اسی طرح والدین بننا بھی ایک ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کے بھی اہداف و مقاصد ہونے چاہئیں۔ ہر ماں اور ہر باپ کے مقاصد مختلف ہوں گے، بڑے ہوں گے، چھوٹے ہوں گے، بہرصورت ان مقاصد کا ہونا اور ان مقاصد کو ذہن میں تازہ رکھنا اور ان مقاصد کے تحت تربیت کرنا والدین کے کردار کو بامعنی بنادیتا ہے۔

پیرنٹنگ گول (Parenting Goal)سے مراد وہ اہداف یا مقاصد ہوتے ہیں جو والدین اپنے بچوں کی تربیت اور ترقی کی خاطر طے کرتے ہیں۔ والدین کے سامنے واضح مقصد ہوگا تو پرورش کا پورا عمل منظم و منضبط ہوگا لیکن اگر والدین بچوں کے متعلق اپنے کسی مقصد سے لاعلم اور لا پروا رہے تو پرورش بنا کسی جہت اور ضابطے کے ہوگی اور اس کے نتائج بھی کبھی ناقابل تعریف اور غیر مسرت بخش ہوں گے۔ آئیے ہم یہ جانیں کہ والدین کے پاس مقاصد کیوں ہونے چاہئیں، والدین کے اہداف کیا ہونے چاہئیں، ان کی مدت کیا ہونی چاہیے اور ان اہداف کے واضح اپلیکشن کیسا ہو۔

پیرنٹگ گول کیوں ہونے چاہئیں

والدین کے شعور یا تحت الشعور میں بچوں کی تربیت کے سلسلے میں ایک خاکہ ہوتا ہے۔ اس خاکہ میں بچوں کے لیے کیے جانے والے کام، ان کے لیے دیکھے جانے والے خواب اور تربیت کے تئیں طے کیے گئے اصول ہوتے ہیں۔ یہ خاکہ پیرنٹنگ کا راستہ طے کرتا ہے۔ جس سے گزر کر والدین اپنے بچوں کو وہ مثالی انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا خاکہ ان کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اگر والدین کے ذہن میں ایسا کوئی خاکہ نہ ہو تو بچوں کی صرف نگہبانی اور نگرانی ہوسکتی ہے البتہ تربیت نہیں ہوپاتی اور ایسی پرورش سے کسی خواب کی تعبیر اور کسی تمنا کی تکمیل کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔

اسلام میں نیت (ارادے) کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہمارے اعمال کی قبولیت کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اگر نیت خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو تو معمول کے اعمال بھی عبادت بن جاتے ہیں اور اگر یہ نیت نہ ہو تو خالص عبادت کے بڑے بڑے اعمال رائیگاں ہو سکتے ہیں۔

لائف کوچنگ کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کسی انسان کو زندگی میں کامیاب ہونا ہو تو اسے ماضی میں جینے اور مستقبل کے بارے میں بلاوجہ متفکر رہنے کے بجائے اپنے حال میں جینا ہوگا۔ ہمارے روزمرہ کے کام ہماری روٹین کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم لاشعوری طور پر بھی بہت سے کام کرلیتے ہیں جیسے صبح صبح پوری آنکھ نہ کھلی ہو تب بھی دانتوں کو برش کرنا، دروازہ کھولنا، کھڑکی کھولنا، کھانا کھانا، دستخط کرنے کی عادت ہو تو بنا دیکھے دستخط کرنا، کسی سڑک سے روزانہ کا گزر ہو تو خود بخود دائیں بائیں مڑ جانا وغیرہ۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اگر حال میں جینا ہو تو انسان کو ہر کام سے پہلے نیت کرنی ہوگی، ہر کام سے پہلے خود کو یاد دلانا ہوگا کہ یہ کام ہورہا ہے اور جتنی آگہی حال کے متعلق ہوگی اتنا ہی انسان بے دار اور کامیاب ہوگا۔ غرض ہر کام کو شعور وارادے کے ساتھ کرنا چاہیے۔

بچوں کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی والدین کے پاس مقاصد ہونے چاہئیں۔ وہ بطور والدین اپنے رول کو کس طرح دیکھتے ہیں اس کا جواب ان کے پاس ہونا چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کی کیسی تربیت کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ان کا ذہن تیار ہونا چاہیے۔ اپنے بچوں کے لیے ان کے پاس خواب ہونے چاہئیں۔ والدین کو اپنے مقاصد کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا اور اپنے آپ کو یاد دلاتے رہنا ہوگا مبادا ان کے اہداف کہیں نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں۔

پیرنٹگ گول کے لیے مطلوبہ تیاری

بامقصد والدین بننے کے لیے دو جہتوں میں تیاری مطلوب ہے۔

اول تو ان کے رول کی مناسبت سے کہ وہ اپنی شخصیت کو ترقی دیں اور خود کو بہتر سے بہتر سانچے میں ڈھالیں اور دوم یہ کہ اپنی نسلوں کی بہتر تربیت کے لیے درکار تیاری۔

(الف ) والدین کی خود اپنی تربیت

بعض والدین کو ایسا لگتا ہے کہ والدین بننے کے بعد وہ بالکل کامل ہوگئے ہیں اور بس اب انھیں بچوں کی تربیت پر توجہ دینی ہے۔ جب کہ ہر انسان کو ہوش سنبھالنے سے لے کر آخری سانس تک اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔ والدین کو اس بات کا شعور ہونا لازمی ہے کہ ان میں کیا اچھائیاں ہیں اور کیا خامیاں ہیں۔ اپنے رول کو لے کر ان کا ذاتی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی کمیوں کی اصلاح کرتے رہیں اور اپنی خوبیوں کو بڑھاتے رہیں۔

والدین کو دوسرے فرائض اور رول کے ساتھ اپنی اس خاص ذمہ داری کو نبھانے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ اس کام میں اور باقی گھریلو زندگی میں توازن قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے جس کے لیے اپنی شخصیت کو تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وقت کی بہتر منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ فضول کاموں اور لغویات میں وقت ضائع نہ ہو۔

والدین کو اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ اچھی خوراک کھانا، اچھی نیند لینا، ورزش کرنا، ضروری اضافی غذائیں لینا، اپنا طبی معائنہ کراتے رہنا اور حسب ضرورت علاج پر توجہ دینا، وغیرہ۔

والدین کو اپنے بچوں کے لیے بنے گئے خواب کے علاوہ اپنے مقصد حیات کو بھی یاد رکھنا ہوگا۔ اپنے مشغلے کو اپنے ساتھ زندہ رکھنا ہوگا تاکہ وہ اپنی زندگی میں تازگی اور توانائی محسوس کرتے رہیں۔

والدین کو آپس میں اپنے تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ماں باپ کے باہمی تعلقات اور دیگر رشتے داروں سے تعلقات بچوں کی ذہنی صحت پر منفی یا مثبت اثر ڈالتے ہیں لہذا ان کو بہتر سے بہتر کرنا والدین کی کوششوں کا ہدف ہونا چاہیے۔

(ب) بچوں کی تربیت کے حوالے سے

بچوں کے لیے والدین کے اہداف مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہو سکتے ہیں:

  • اخلاقی اور دینی تربیت
  • تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا
  •  جسمانی و ذہنی صحت
  •  خود اعتمادی پیدا کرنا
  •  سماجی ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرنا
  •  مختلف صلاحیتوں کو پروان چڑھانا اور قابلیت بڑھانا۔

پیرنٹگ گول کی مدت

پیرنٹنگ گول کی مدت یا دورانیہ وقت کے اس حصہ کو کہتے ہیں جس میں والدین ایک مخصوص مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جو والدین نے بچوں کی پرورش سے متعلق طے کیا ہو۔ یہ دورانیہ مقصد کی نوعیت، بچے کی عمر، اور حالات کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔

والدین کے پاس مختلف قسم کے مقاصد ہوتے ہیں، کچھ مقاصد چھوٹے ہوتے ہیں اور یہ مختصر سی مدت کے لیے ہوتے ہیں۔

  •  بچہ کو عمر کی مناسبت سے کام سکھانا
  • کوئی اچھی عادت متعارف کروانا
  • کوئی عادت چھڑوانا

کچھ مقاصد بڑے ہوتے ہیں جن کے لیے والدین کو دیر تک محنت کرنی پڑتی ہے۔

  • تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی
  • شخصیت میں اعلی قدروں کی شمولیت

اہداف کو مؤثر طریقے سے حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے ایک مناسب مدت (Duration)کا تعین کیا جائے۔ مدت کا انحصار مقصد اور ہدف کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ اگر والدین کے سامنے مقصد کے ساتھ ان کے حصول کی مدت واضح ہو تو تربیت کے اہداف اپنے درست وقت پر حاصل ہوسکتے ہیں، ورنہ تاخیر کبھی بہت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ بچے کس عمر میں نماز پڑھنا سیکھ لیں، کس عمر میں قرآن پڑھنا سیکھ لیں، کس عمر میں اپنے کون سے کام خود کرنا سیکھ لیں۔ تربیت کے اہداف کا درست وقت پر حصول بہت اہم ہے۔

جس طرح الارم لگانے سے وقت پر بیدار ہونے میں مدد ملتی ہے اسی طرح مختلف اہداف کی مدت طے کردینا اپنے آپ میں ایک محرک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے والدین پر ایک پریشر بنا رہتا ہے جو انھیں چست رکھتا ہے اور ان کا فوکس برقرار رہتا ہے۔

  • والدین کے لیے چند کارآمد تدابیر
  • اچھے ناموں کا انتخاب کریں

آپ اپنے بچے کو کیا بنانا چاہتے ہیں اور کس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں اس مناسبت سے بچے کے لیے نام کا انتخاب کریں۔ یا تو نام کا معنی ایسا ہو جو مقصد وجود کی عکاسی کرتا ہو یا اس نام کی کوئی عظیم شخصیت آپ کے خوابوں کی عکاسی کرے۔ اس طرح کے ناموں کے انتخاب سے بچوں پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے اور والدین اور بچوں کے لیے تا عمر یادہانی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

اچھا گمان رکھنا (Manifesting)

ایک مشہور حدیث قدسی ہے: ’یقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بِی، فَلْیظُنَّ بِی مَا شَاءَ‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں، پس وہ میرے بارے میں جیسا گمان کرے، ویسا ہی پائے گا۔‘‘

انیسویں صدی میں ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت نے Manifesting کے عمل پر زور دینا شروع کیا۔ Manifesting کا مطلب ہے کہ آپ اپنی سوچ، یقین اور ارادے سے کسی خواہش یا خواب کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کریں۔ یہ تصور اس بات پر مبنی ہے کہ “جیسا آپ سوچتے ہیں، ویسا ہی آپ کی زندگی میں ہوتا ہے۔” مثلاً اگر آپ کسی چیز ( گھر، گاڑی، بلند مقام، شہرت، پیسہ ) کے بارے میں بار بار سوچتے ہیں، دل سے یقین رکھتے ہیں اور اس کے لیے عملی اقدامات کرتے ہیں، تو وہ چیز آپ کو مل جاتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جب انسانی دماغ کوئی خواہش مسلسل کرتا ہے تو دماغ سے ایک توانائی کا اخراج ہوتا ہے جو اس خواہش کو پورا کرنے میں موثر ہوتی ہے۔ اس لیے بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں یا خواہش کرتے ہیں اور وہ چیز ہمیں مل جاتی ہے۔ ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت سے یہ تصور پاکر بہت لوگ بڑے نامور ہوئے۔ یہ تصور تو بس حال کی ایجاد ہے جب کہ حدیث قدسی تو ہمیں اللہ پر یقین واثق کا درس دیتی ہے کہ ہم جس طرح کا گمان کریں گے ہمارے ساتھ وہی ہوگا۔ یہاں ہمیں امام مالک رحمہ اللہ کی والدہ ماجدہ کو یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح اپنے فرزند مالک کو کبوتر بازی اور گانے بجانے کے شوق سے دور رکھنے اور دینی علم سے جوڑنے کے لیے علمائے کرام کے لباس پہنایا کرتیں اور ان کے سامنے ادب سے بیٹھ کر اپنے سوالات پوچھا کرتیں۔ بچے کے ساتھ یہ چھوٹی سی اداکاری آخر کار مؤطا امام مالک کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ Manifestation کے عمل میں یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ انسان اپنے خواب اور اپنے مقصد کو سوچے، یاد کرے، اسے تصور کرے، اس کی حصولیابی کی خوشی محسوس کرے، اس کی اداکاری کرے (مثلاً متعلق لباس پہن کر اپنے آپ کو وہی تصور کرنا، مخصوص انداز میں بیٹھ کر اپنے مقام کا تصور کرنا) اور اس مقام تک پہنچنے کی تدبیر کرے۔

والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لیے جو انھوں نے خواب دیکھے ہیں وہ انھیں یاد دلاتے رہیں اور اس مرتبہ کی حیثیت سے انھیں پکارا بھی کریں مثلاً مولانا صاحب، حافظ صاحب، ڈاکٹر صاحب، خطیب صاحب، مصنف صاحب، جج صاحب، پروفیسر صاحب وغیرہ اور نہ صرف پکارا کریں بلکہ ان کے مقام کے مطابق انھیں عزت بھی دیں، ان کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں جو اس مرتبہ کو جچتا ہو۔ کوشش کریں کہ ان کے لباس کا چناؤ بھی ان کے لیے چنے گئے کیریر سے مناسبت رکھتا ہو۔ بچوں کے ساتھ مل کر ان کی فیلڈ کے متعلق تصاویر اور اشیا اکٹھا کیا کریں جیسے فیلڈ کے ماہرین کی تصاویر، کھلونے (ڈاکٹر سیٹ، بلڈنگ بلاکس، گاڑیاں)، کتابیں (بچوں کی وہ کتابیں جن سے انھیں اپنے مقصد کی طرف رہ نمائی ملتی ہو)۔

والدین کو ڈائری بنانی چاہیے

والدین اگر اپنے ساتھ ایک ڈائری کا انتظام کرتے ہیں تو یہ یقیناً ان کی آسانی کے لیے ہی ہے۔ اس ڈائری کو پیرنٹگ ڈائری کہا جاسکتا ہے جس میں والدین اپنی تربیت کی تحت مقاصد اور ان مقاصد کے لیے جانے والے اقدامات درج کرسکتے ہیں۔ ڈائری سے ہوتا یہ ہے کہ والدین اپنے اصولوں کو درج کرکے اس کا بہتر خلاصہ اور خاکہ بناسکتے ہیں علاوہ ازیں والدین ان اصولوں کو نافذ کرنے کی تراکیب بھی لکھ سکتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر بچوں کے لیے نت نئے نسخے بتائے جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ مواد دست یاب ہونے کی وجہ سے والدین تذبذب میں پڑجاتے ہیں کہ کس تدبیر کو اپنائیں اور کیا ان کے بچہ کے لیے غیر مناسب ہے۔ چناں چہ اس ڈائری میں وہ مختلف تدابیر کا اندراج کرسکتے ہیں تاکہ صریح طور پر وہ سمجھ سکیں کہ ان کے لیے کس ترکیب پر عمل کرنا اور عمل کروانا مفید، آسان اور پرلطف ہوگا۔ والدین ان کی روشنی میں خود بھی اپنے گھر کے ماحول کے مطابق نئی تدبیریں سوچ سکتے اور بروئے کار لاسکتے ہیں۔

وژن بورڈ

وژن بورڈ کسی ایک ادارہ یا شخص کی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس کا تصور آہستہ آہستہ بہت سی شخصیات کی مختلف تحقیقات کا نتیجہ ہے۔

بیسویں صدی میں کارل جنگ جیسے ماہر نفسیات نے اپنی تحقیق پیش کی کہ تصاویر اور علامتیں ہمارے ذہن کو کیسے متاثر کرتی ہے۔

نصف صدی گزرنے کے بعد شکتی گاوین کی کتاب Creative Visualization نے قیاس کی قوت پر ایک جامع تحقیق پیش کی۔

اکیسویں صدی میں Law of Attraction کا تصور مقبول ہوا۔

اور ان سارے تصورات نیز تحقیقات کے مقبول ہونے کے نتیجے میں وژن بورڈ ایجاد ہوا۔

یہ ایک ایسا بورڈ ہے جسے اپنے خواب اور مقاصد کو تصاویر، جملوں اور لفظوں کی مدد سے مزین کرکے گھر کے کسی حصے میں آویزاں کیا جاسکتا ہے۔ یہ بورڈ یادہانی کے لیے لگایا جاتا ہے۔ والدین پیرنٹگ وژن بورڈ کسی چارٹ یا موٹے کارڈ پر تیار کرکے گھر کی کسی دیوار یا الماری پر آویزاں کرسکتے ہیں۔ اس بورڈ پر والدین ان تصاویر کا استعمال کرسکتے ہیں جو بچوں کو مقصد حیات کی یاد دلاتا رہے۔ اپنے خاندان میں جن خوبیوں کو آپ دیکھنا چاہتے ہیں انھیں جلی حرفوں میں لکھ سکتے ہیں مثلاً صبر، توجہ، محنت، اپنی مدد آپ، ملنساری، عاجزی وغیرہ۔ اسی طرح ان اچھائیوں اور خوبیوں کا تذکرہ لفظوں، جملوں، کسی تاریخ یا تصویر کے ذریعے کرسکتے ہیں جسے دیکھ کر خوشی اور مثبت توانائی ملے اور جو خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب کردے۔ والدین چاہیں تو معنی خیز پرکشش سلوگن بھی لکھ سکتے ہیں مثلاً

  • صبر کا پھل میٹھاہوتا ہے
  • دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے
  • معافی مانگنے سے عزت بڑھتی ہے
  • سلام کرتے رہو محبت بڑھاتے رہو
  • جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو

اسی طرح قرآن کریم کی آیات، احادیث دعائیں اور اقوال بھی لکھ سکتے ہیں اور جن شخصیات کو وہ رول ماڈل بنانا چاہتے ہیں ان کی تصاویر یا نام یا اقوال بھی اس بورڈ پر درج کرسکتے ہیں۔

شکر گزاری

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ

لائف کوچنگ کے ماہرین gratitude list بنانے پر زور دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی فہرست ہے جس میں ہمیں ان نعمتوں کا نام درج کرنا ہوتا ہے جن کے بارے میں ہم خدا تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں روزانہ نئی چیزیں درج کرنی ہوتی ہیں۔ روزانہ اس فہرست کو پڑھنے سے مثبت توانائی ملتی ہے، کیوں کہ یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی نعمتوں سے بھرپور ہے۔ والدین اگر وقت نکال کر ہفتے میں یا مہینے میں ایک مرتبہ ہی سہی اپنے بچوں سے جڑی، اپنے اور اپنے خاندان سے جڑی ایسی فہرست تیار کرتے ہیں تو والدین کے نظریے میں مثبت تبدیلی آئے گی اور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے انھیں توانائی ملتی رہے گی۔

وقت کا مؤثر استعمال

دن رات تو کل ملا کر چوبیس گھنٹے کے ہی ہوتے ہیں۔ اتنے گھنٹے بھی ایک کارآمد دن گزارنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن والدین بننے کے بعد خصوصاً ایک ماں کے روٹین میں بہت تبدیلیاں آتی ہیں اور وقت بچوں میں اتنا بٹ جاتا ہے کہ ذاتی اور بنیادی کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ والدین کے لیے وقت کا مؤثر استعمال (Effective Time Management) بہت اہم ہے، کیوں کہ وہ بیک وقت بچوں کی پرورش و نگہداشت، گھریلو ذمہ داریاں اور بعض اوقات پیشہ ورانہ فرائض بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے وقت کا صحیح استعمال کرنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا لازم ہے۔

ترجیحات کا تعین کریں۔ ان کاموں کو ضرور کریں جن کا کرنا مفید تر ہو اور بچوں کو بھی اہم تر کاموں کو ترجیح دینے کی تربیت دیں۔

غیر ضروری کاموں کو یا وہ کام جن سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو (مثلاً بہت زیادہ موبائل یا سوشل میڈیا) کم سے کم وقت دیں۔

شیڈول بنائیں

روزانہ کا ایک سرسری شیڈول بنائیں کہ کون سا کام کب کرنا ہے۔ کچھ کام صرف چھٹی کے دن ( اتوار) کے لیے مخصوص ہوتے ہیں، امتحانات کے دنوں کا شیڈول الگ ہوگا نیز جمعہ کے دن کا بھی خاص شیڈول ہوتا ہے۔ اسی طرح تہوار کا معاملہ ہے، امتحان کا ہے، چھٹیوں کا ہے۔ اہداف کے حصول کے لیے شیڈول ہونا چاہیے‌۔

کوالٹی ٹائم دیں

اپنے بچوں کے ساتھ جو بھی وقت گزاریں اس میں ان کی طرف پوری توجہ دیں، انھیں محبت اور اپنائیت کا احساس دیں۔ اپنے کام اور اپنے معاملات کچھ وقت کے لیے بھلا کر بچوں کو مکمل وقت دیں۔ ضروری نہیں کہ کوالیٹی ٹائم کے طور پر کئی گھنٹے دیے جائیں۔ کم وقت ہو مگر توجہ سے بھرپور ہو وہ زیادہ وقت سے بہتر اور مفید تر ہے جس میں توجہ منتشر ہو۔

اپنے لیے وقت نکالیں

یہ ضروری ہے کہ والدین اپنے ذاتی کاموں (کھانا، پینا، سونا، غسل کرنا) کو وقت دیں۔ خود اپنے کاموں کو وقت دینے سے تازگی و توانائی برقرار رہتی ہے اور چڑچڑاپن اور تھکان میں کمی رہتی ہے۔

مدد مانگیں، مدد دیں

مدد مانگنے سے ہچکچائیں نہیں۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچوں کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دوسروں کی مدد لینی پڑتی ہے یا بہت سی ذمہ داریوں کے بوجھ کی بہتر ترتیب کے لیے مدد چاہیے ہوتی ہے۔ ایسے میں مدد ضرور مانگیں۔

والدین آپس میں ایک دوسرے کی مدد کیا کریں، دونوں کو ایک ٹیم بن کر بچوں کی پرورش کرنی ہے کسی ایک انسان پر پرورش کا بوجھ مت ڈالیں۔

دعا مانگیں

اپنے بچوں کے لیے آپ کے جو جائز مقاصد ہوں ان کے حصول کے لیے اللہ سے خوب دعا کیا کریں۔ نابینا ہونے کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے بڑے بڑے مقاصد رکھنے والی ماں نے اللہ سے اس قدر دعائیں مانگیں کہ قرآن مجید کے بعد سب سے زیادہ مستند مانی جانے والی اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بخاری شریف ہے۔ یہ واقعہ یہی سبق دیتا ہے کہ دل میں جذبہ ہو اور نیت میں پختگی ہو اور اللہ کی مدد مانگی جائے تو کسی قسم کی کوئی کم زوری بھی منزل تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔

والدین کے ذہن میں اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے خواب تو ہونے ہی چاہئیں۔ ان خوابوں کی تحریک سے ہی شخصیت سازی ہوسکتی ہے۔ نہ صرف والدین کو اہداف کی ضرورت ہے بلکہ ان اہداف کو پورا کرنے کے لیے کارآمد تدابیر کی بھی ضرورت ہے۔ اگر بہتر تدابیر اپنائی جائیں گی تو ان شاءاللہ بچوں کو بچپن سے ہی روشن راہ ملے گی اور ان کی زندگی سنورتی جائے گی۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2025

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223