دین و دنیا کی کام یابی صبر اختیار کرنے والوں کے لیے ہے۔ جو لوگ صبرکریں گے انھیں دین و دنیا دونوں کے فوائد حاصل ہوں گے۔ دین و دنیا کے حسنات صرف صبر کرنے والوں کا مقدر ہیں۔
’جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کرگئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کااجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم جنھوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کررہے ہیں کہ کیسا اچھا انجام ان کا منتظر ہے۔‘ ﴿النحل:۴۱،۴۲﴾
صبر اختیار کرنے والوں کو دونوں جہاں کی بھلائیاں حاصل ہوںگی۔ فلاح و کام رانی صبر کرنے والوں کے حصے میں آئے گی۔
’اے لوگوجو ایمان لائے ہو! صبر سے کام لو باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو اُمید ہے کہ فلاح پاؤگے۔‘ ﴿اٰل عمران:۲۰۰﴾
قرآن وحدیث کامطالعہ یہ ظاہر کرتاہے کہ صبر کے لیے شمار دنیوی فوائد ہیں گو آخرت کے بھی فائدے حاصل ہوتے ہیں لیکن دنیوی فوائد زیادہ ہیں۔ اِس مختصر مضمون میں سارے دنیوی فوائد کا تذکرہ تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن اس میں سے کچھ کاتذکرہ ہی ممکن ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا ادراک
آفاق وانفس میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں موجودہیں، مگر اس کاادراک کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو ان نشانیوں کا ادراک ہوجاتاہے وہ اس کے ذریعے اُن کے خالق تک کاادراک کرلیتے ہیں۔ جو لوگ صبر اختیار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں افاق و انفس میں پھیلی ہوئی اپنی نشانیوں کاادراک کرادیتا ہے:
’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والاہو۔‘ ﴿لقمان:۳۱﴾
’ہم اس سے پہلے موسیٰ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم نے حکم دیاتھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لااور انھیں تاریخ الٰہی کے سبق آموز واقعات سناکر نصیحت کر، اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔‘ ﴿ابراہیم:۵﴾
’اے ہمارے رب! ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے۔ انھوں نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا آخر ہم نے انھیں افسانہ بناکر رکھ دیا اور انھیں بالکل تِتربِتر کرڈالا۔ یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شاکر ہو۔‘ ﴿سبا:۱۹﴾
’البتہ جو شخص صبر سے کام لے اور درگزرکرے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں سے ہے‘﴿الشوریٰ:۴۳﴾
اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت
صبر اختیار کرنے والے اللہ کو اتنے پسند ہیں کہ وہ اُن پر نظرِ کرم رکھتاہے۔
’اے نبیﷺ! اپنے رب کا فیصلہ آنے تک صبر کرو تم ہماری نگاہِ میں ہوتم جب اُٹھو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔‘ ﴿الطور:۴۸﴾
ہر مسلمان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اسے خالق کائنات کا قرب حاصل ہوجائے۔ تقرب حاصل کرنے کے لیے صابر ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم صبر کا رویہ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ سے قریب ہوجائیں گے:
’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز سے مدد لو ۔اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘ ﴿البقرۃ:۱۵۳﴾
ہر مسلمان اللہ کی رحمت کاامیدوار ہوتاہے مگر اس کی رحمت اسے حاصل ہوتی ہے جو صابر ہوتے ہیں:
’ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ ﴿البقرۃ:۱۵۶﴾
دنیادار لوگوں کو ہمیشہ حزن وملال کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ مبارکباد کے مستحق وہ لوگ ہیں جو حزن و ملال میںمبتلا نہیں ہوتے۔ یہ نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو ملاکرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صبر اختیار کرتے ہیں:
’اے نبی! صبر سے کام کیے جاو اور تمھارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ اُن کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔‘ ﴿النحل:۱۲۷﴾
ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم سلامت رہیں۔ ہم سلامتی اس وقت تک حاصل کرسکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ ہمیں سلامتی کے ساتھ قائم رکھے۔ جو لوگ صابر ہیںاللہ تعالیٰ ان پر سلامتی نازل کرتا ہے۔
تقویٰ حاصل ہوتا ہے
آخرت کی ساری بھلائیاں اور انعامات صرف اور صرف متقین کو حاصل ہوںگی۔ غیرمتقی کاآخرت میں کوئی حصہ ہی نہیں۔ اس کا مؤثر ذریعہ صبر ہے۔ صبر کے ذریعے ہم تقویٰ کے اعلیٰ مدارج طے کرسکتے ہیں اور آخرت کی ساری بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں:
’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کرلیے یا مغرب کی طرف۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخراور ملائکہ اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر مسکینوں اور مسافروں پر مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے۔ نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیںکہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں اور تنگی مصیبت کے وقت اور حق وباطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔‘ ﴿البقرۃ:۱۷۷﴾
قرآن میں صادقوں کے لیے بڑے انعام واکرام کے وعدے ہیں۔ صادقین میں شامل ہونے کے کئی ذرائع ہیں۔ صبر ایک ذریعہ ہے، جسے اپناکر ہم صادقین میں شامل ہوکر اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل کرسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی مدد
اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوجائے تو دنیا کا سارا مرحلہ ہمارے لیے آسان ہوجائے۔ ہم ہر وقت اس کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی مدد کا وعدہ کرتے ہیں:
’صبر اور نماز سے مدد لو بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے۔ ﴿البقرۃ:۴۵﴾
’تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاچکے ہیں مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتوں پر جو انھیں پہنچائی گئیں، انھوں نے صبر کیا یہاں تک کہ انھیں ہماری مدد پہنچ گئی، اللہ کی باتوں کو بدلنے کی کسی میں طاقت نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمھیں پہنچ چکی ہیں۔‘ ﴿الانعام:۳۴﴾
خیر اور بھلائی ہر انسان کی طلب ہے۔ مختلف انداز میں ہم خیر اور بھلائیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ صبر اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خیر اور بھلائیاں عطا کرتا ہے:
’اور اگر تم لوگ بدلہ لوتو بس اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یقینا یہ صبر کرنے والوں ہی کے حق میں بہتر ہے۔‘ ﴿النحل:۱۲۶﴾
اللہ تعالیٰ اپنے بندوںسے اس کے گمان کے مطابق ہوتاہے۔ اگر ہم کسی چیز کی اس سے امید وابستہ کرلیں تو ہماری امیدوں کے مطابق ہمارے حق میں فیصلہ کردیتاہے۔ اس لیے اس سے ہمیشہ اچھی امیدیں وابستہ رکھنا چاہیے۔ صبر کرنے والوں کی امیدیں اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہوتی ہیں۔ صابرین اللہ تعالیٰ سے بہت پُرامید ہوتے ہیں:
’باپ نے یہ داستاں سن کر کہا: دراصل تمھارے نفس نے تمھارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنادیااچھا اس پر بھی صبر کروںگا اور بخوبی کروںگا کیا بعید کہ اللہ اُن سب کو مجھ سے لاملائے وہ سب کچھ جانتاہے اور اس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں۔ ﴿یوسف:۸۳﴾
عزم اور حوصلے کا حصول
صبر اختیار کرنا بڑے عزم اور حوصلے کاکام ہے۔ جتنا زیادہ صبر کا مادہ کسی کے اندر پایاجائے اتنا ہی وہ پُرعزم اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ پُرعزم ہونا اور حوصلہ اختیار کرنا دنیا میں کام یابی کی ضمانت ہے۔ صابرین اولوالعزم ہوتے ہیں:
’پس اے نبی! صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے کیاہے اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو جس روز یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انھیں خوف دلایاجارہاہے تو انھیں یوں معلوم ہوگاکہ جیسے دنیا میں دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے تھے بات پہنچادی گئی اب کیا نافرمان لوگوں کے سوا اور کوئی ہلاک ہوگا۔‘﴿الاحقاف:۳۵﴾
’بیتا! نماز قائم کر، نیکی کاحکم دے ، بدی سے منع کر اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔‘ ﴿لقمان:۱۷﴾
’مسلمانو! تمھیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آکر رہیںگی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔‘ ﴿اٰل عمران:۱۸۶﴾
صابرین کو اللہ تعالیٰ دوہرا اجر عطا فرمائے گا۔ ایک اجر اس وجہ سے کہ صبر کے ذریعے انھوں نے بُرائی کو نیکی سے بدل دیا اور دوسرا اجر اس وجہ سے کہ وہ صبر کرتے ہیں جو رزق اللہ تعالیٰ نے انھیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ رزق سے مراد صرف روپیہ پیسہ ہی نہیں ہے۔ بل کہ ساری صلاحیتیں اور نعمتیں مراد ہیں۔ وہ صبر کیہتھیار سے لیس ہوکر منجملہ صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں:
’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اِن کا اجر دوبار دیاجائے گا۔ اس ثابت قدمی کے بدلے جو انھوں نے دِکھائی وہ بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘ ﴿القصص:۵۴﴾
دشمنوں سے بچاؤ
دوست اور دشمن کا پایاجانا ایک فطری عمل ہے۔ دشمن ہمیشہ نقصان پہنچانے کے لیے تگ ودو کرتے رہتے ہیں۔ بعض دشمن واضح ہوتے ہیں اور بعض دشمن چھپ چھپ کر دشمنی کاحق ادا کرتے ہیں۔ چھپے دشمن زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ان کی دشمنی سے بچنا مشکل ہوتاہے۔ صابرین کے دشمنوں کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ ناکام کردیتاہے اور اس کے نقصان سے بچالیے جاتے ہیں۔
’اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کم زور بناکر رکھے گئے تھے اس سرزمین مشرق و مغرب کا وارث بنادیا جسے ہم نے برکتوں سے مالامال کیاتھا، اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کاوعدہ خیرپوراہوا ہے کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیاتھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کردیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔‘
دشمنوں کی بری تدبیروں سے بچنے کی کوشش کے باوجود بسااوقات نقصان کا اندیشہ رہتا ہے ۔جو لوگ صبر کرنے والے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ دشمنوں کے نقصان سے بچالیتاہے:
’تمھارا بھلاہوتاہے تو اُن کو بُرا معلوم ہوتاہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمھارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرکر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ اس پر حاوی ہے۔‘ ﴿اٰل عمران:۱۲۰﴾
صابرین کو دشمنوں کے زک سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو استعمال کرتاہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انھیں بچاتے ہیں:
’بیشک اگر تم صبرکرو اورخدا سے ڈرتے ہوئے کام کروتو جس آن دشمن تمھارے اوپر چڑھ کر آئیںگے اُسی آن تمھارا رب تین ہزار نہیں پانچ ہزار صاحب نشان فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔‘ ﴿اٰل عمران:۱۲۵﴾
صبر کرنے والوں کی حسن تدبیر سے دشمن اپنی غلطی پر قائل ہوجاتے ہیں اور اپنی دشمنی ترک کردیتے ہیں اور ان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں:
’اور اے نبی! نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیاہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔‘ ﴿حم سجدہ۳۴،۳۵﴾
دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتاہے
دشمن طاقت اور تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود صابرین پر غالب نہیںہوتے۔ صابرین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی مدد کرتا ہے، انھیں غلبہ عطا کرتا ہے:
’اے نبی! مومنوں کو جنگ پر ابھارو اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔‘ ﴿الانفال:۶۵﴾
’اچھا اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کیا اور اُسے معلوم ہواکہ ابھی تم میں کم زوری ہے پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سواور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔‘ ﴿الانفال:۶۶﴾
’پھر جب طالوت لشکر لے کر چلاتو اس نے کہا َ: ایک دریا پراللہ کی طرف سے تمھاری آزمائش ہونے والی ہے جو اس کا پانی پیے گا وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے تو پی لے مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریاسے سیراب ہوگئے اور پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی مسلمان دریا پارکرکے آگے بڑھے تو انھوں نے طالوت سے کہہ دیاکہ آج ہم میںجالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے انھوں نے کہا :بارہا ایسا ہواہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیاہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھی ہے۔ ﴿البقرۃ:۲۴۹﴾
قوموں کی امامت
مختلف اقوام کے درمیان امامت کامسئلہ سب سے اہم مسئلہ سمجھاجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ قوموں کی امامت انھیں عطا کرتاہے جو قوم اس کی شاکر اور صابر ہوتی ہے۔ صبر اختیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ قوموں کی امامت ہے:
’اور جب انھوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو اُن کے اندر ہم نے ایسے پیشوا کیے جو ہمارے حکم سے رہ نمائی کرتے تھے۔‘ ﴿السجدہ:۲۴﴾
گناہوں کی معافی
گناہوں کی معافی ہی اصل مسئلہ ہے۔ بشری کم زوری، شیطان کی وسوسہ اندازی اور دنیا سے بے جا محبت کی وجہ کر گناہوں کا صدور ہوتارہتاہے۔ ہم اس بات کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو بھی ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کردے۔ صبرکرنے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف کردیتاہے:
’پس اے نبی! صبرو کور اللہ کا وعدہ برحق ہے اپنے قصور کی معافی چاہو اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘ ﴿المومن:۵۵﴾
’پس اے نبی! صبرکرو اللہ کا وعدہ برحق ہے اب خواہ ہم تمہارے سامنے ہی اُن کو اُن بُرے نتائج کا کوئی حصہ دکھادیں جن سے ہم انھیں ڈرارہے ہیں یا اس سے پہلے تمھیں دنیا سے اٹھالیں پلٹ کر آنا تو انھیں ہماری ہی طرف ہے۔‘ ﴿المومن:۷۷﴾
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی مغفرت کرتاہے اور انھیں اپنی جوار رحمت میںجگہ دیتا ہے۔ آخرت کی بھلائیاں انھیں ہی مل سکے گی جنھیں اس کی رحمت ڈھانپ لے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ہر شخص محتاج ہے اور آخرت میں تو اس کی رحمت ہی کے طفیل ساری بھلائیاں ہیں:
’پھر جن لوگوں کاحال یہ ہے کہ جب ایمان لانے کی وجہ سے وہ ستائے گئے تو انھوں نے گھر بار چھوڑدیے، ہجرت کی، راہ ِ خدا میںسختیاں جھیلیاں اور صبر سے کام لیا، ان کے لیے تیرا رب غفورو رحیم ہے۔‘ ﴿النحل:۱۱۰﴾
مغرفت سے وہاں جہنم سے نجات اور اجر کبیر کے ساتھ جنت کاداخلہ ممکن ہے۔ صبر کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے گا اور اجر عظیم سے بھی نوازے گا۔ مغفرت اور اجر کبیر سے وہاں کی نعمتوں سے متمع ہونے کا موقع بھی ملے گا:
’اس عیب سے کوئی پاک اگر ہیں تو پس وہ لوگ جو صبر کرنے والے اور نیکوکار ہیں اور وہی ہیں جن کے لیے درگزر بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔‘ ﴿ہود:۱۱﴾
جتنا عظیم اجر کسی کے حصے میں آئے گا اتنا ہی اس کادرجہ بلند ہوگا اور جس کا جتنا درجہ بلند ہوگا اتنا ہی اللہ کے انعام و اکرام کا مستحق ہوگا۔ وہاں جو چیز انسانوں کے کام آئے گی وہ انسانوں کا اجر ہی ہوگا۔ دنیا کی ساری چیزیں یہیں رہ جائیںگی، صرف اس کا اجر اس کے ساتھ جائے گا۔ صبر کرنے والے اجر عظیم سے نوازے جائیں گے اور اس کے صلے میں وہاں کی ابدی راحت پائیں گے:
’اے نبی! جو لوگ تھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں اگر وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔‘ ﴿الحجرات:۵﴾
بہت سے لوگ بغیر و کتاب کے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اُن خوش نصیب لوگوں میںصابرین بھی ہوں گے۔ قیامت کے مشکل ترین مرحلوں میں سے ایک مرحلہ حساب وکتاب کا مرحلہ بھی ہے۔ صبر کرنے والوں کو اس مرحلے سے نجات دے کر جنت میں داخل کیاجائے گا:
’اے نبی! کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے رب سے ڈرو جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیاہے ان کے لیے بھائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے۔ صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘ ﴿الزمر:۱۰﴾
دنیاکی راحت تو چند دنوں کی مہمان ہے ۔ مگر آخرت میںجسے راحت نصیب ہوگی وہ کبھی ختم نہیں ہونے والی نہیں ہے۔ راحت تو صرف آخرت میں ہی مل سکتی ہے۔ دنیا کی زندگی تو مشکلات سے پُرہے۔ آخرت کی ابدی راحت صابرین کے حصے میں آئیں گی:
’او ر جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔‘ ﴿النحل:۹۶﴾
اچھا ٹھکانا ہر شخص کی دلی خواہش ہوتی ہے۔ دنیا میں اگر اچھا ٹھکانا مل بھی جائے تو پائیدار نہیں ہے۔ اچھا ٹھکانا تو صرف وہی ہے کہ ایک بار اگر مل جائے تو پھر ختم نہ ہو۔ یہ صرف اور صرف آخرت میں ہی تصور کیاجاسکتا ہے۔ آخرت میں اچھا ٹھکانا صبر کرنے والوں کو ملے گا:
’ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں اور بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھرا نھی لوگوں کے لیے ہے۔‘ ﴿الرعد:۲۲﴾
جنت بذاتِ خود اعلیٰ مقام ہے اور جنت میں بھی اعلیٰ مقام تو بڑے نصیب والوں کاحصہ ہے۔ یہ خوش نصیب حضرات صبر کرنے والے ہوں گے۔ انھیں ان کا رب ذوالجلال والاکرام جنت سے نوازے گا اور جنت میںاعلیٰ مقام عطا کرے گا۔ وہ لوگ اپنے رب کی نوازشوں سے خوش ہوں گے اور ربِ دوجہاں ان کے صبر اور شکر سے راضی ہوگا۔ ان کا استقبال شاہانہ انداز میں کیاجائے گا:
’یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزلِ بلند کی شکل میں پائیںگے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔ ﴿الفرقان۷۵﴾
صبر کرنے والوں کو نہ صرف جنت دیاجائے گا، بل کہ انھیں ان کا رب جنت کے بالاخانوں میں اونچا مقام عطا کرے گا۔ کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو خوب اچھی جگہ اعلیٰ مقام اور اس کی بالائی منزل میں مقیم ہوں گے، جس کے نیچے نہریں جاری ہوںگی:
’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوںنے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیںگے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی وہاں وہ ہمیشہ رہیںگے کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے۔ اُن لوگوں کے لیے جنھوںنے صبر کیاہے اور جو اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔‘ ﴿العنکبوت:۵۸،۵۹﴾
آخرت میں عظیم نعمتیں جو جنتیوں کو عطائ کی جائے گی۔ اس کی خاص بات یہ ہوگی کہ وہ نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوںگی اور وہ ہمیشہ قائم و دائم ہوگی۔ جنتیوں کو اس کی خوش خبری بھی سنادی جائے گی کہ یہاں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ وہاں نہ جنت ختم ہوگی نہ جنتی ختم ہوں گے اور نہ وہاں کی نعمتیں ختم ہوںگی، یہ اعزاز صرف کرنے والوں کے حصے میں آئے گا:
’تم پر سلامتی ہے تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس کے مستحق ہوئے ہو۔‘ ﴿الرعد۲۴﴾
کام یابی اسے کہتے ہیں کہ اگر ایک بار مل جائے تو کبھی ختم نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جہنم سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا ہی کام یابی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کتنا ہی کام یاب سمجھاجاتاہو لیکن آخرت میں جنت حاصل نہ کرسکا تو وہ وہاں کاناکام و نامراد شخص ہوگا۔ دنیا کاناکام شخص اگر جنت کا مستحق قرار دے دیاگیا تو وہ انتہائی کام یاب شمار کیاجائے گا۔ جنت کا حصول ہی اصل کام یابی ہے:
’آخرکار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو۔ کام یاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کردیاجائے۔ رہی یہ دنیا تو یہ محض ایک ظاہری فریب چیز ہے۔‘ ﴿آل عمران:۱۸۵﴾
’آج ان کے اس صبر کا میں نے یہ پھل دیاہے کہ وہی کام یاب ہیں‘﴿المومنون:۱۱۱﴾
حاصل کلام
مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ صبر کے بے شمار فوائد ہیں۔ بیشتر فوائد کا تعلق دنیوی فائدوں سے ہے۔ آخرت کے فوائد سے بھی وہ سرفراز ہوں گے۔ صبر اختیار کرنے والے اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہوں گے۔ وہ انھیں دنیا کے فائدوں سے بھی نوازے گا اور آخرت کے فائدوں سے بھی۔ جو لوگ ان فائدوں سے تمتع حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ صبر کی زندگی گزارنا شروع کردیں۔ جب ہم صبر اختیار کریںگے تو اللہ تعالیٰ ہمیں دونوں جہاں کے فائدوں سے نوازنا شروع کردے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ ہمیں صبر اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں صابروں میں شمار کرکے دونوں جہاں کے فائدوں سے نوازے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2011