کسی بھی دینی تحریک و تنظیم کے استحکام اور اس کے اعلیٰ مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ارکان و متوسلین تربیت و تزکیہ کے اعلیٰ معیار پر ہوں اور اخلاقیاتِ عالیہ کا حظِّ وافر انھیں حاصل ہو۔ جماعت اسلامی ہند نے شروع ہی سے اس مقصد کو اہمیت دی ہے اور اس کے لیے تدابیر اختیار کی ہیں۔
طریقۂ تربیت
جماعت اسلامی ہند نے اپنی تاسیس کے مختصر عرصہ کے بعد ہی اپنے مرکز رام پور میں یکم ذی قعدہ ۱۳۶۹ھ؍۵؍اگست ۱۹۵۰ء میں مرکزی تربیت گاہ کا انعقاد کیا۔ اس میں تربیت کے لیے آنے والے رفقا کے سامنے مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحیؒ نے جو خطاب کیا اس میں جماعت کے نظامِ تربیت پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے فرمایا :’’ ہمارے بعض رفقا ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے ہیں کہ جماعت کس طرح کی تربیت چاہتی ہے؟ اور اس سے اس کا مقصد کیا ہے؟ چنانچہ اس کے ضمن میں لوگوں نے جو سوالات کیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ جن کا مزاجِ خانقاہی ابھی پوری طرح نہیں بدلا ہے وہ اجراے تربیت کی خبر سن کر شاید اس پہلو سے خوش ہیں کہ جماعت میں ان کے چھپے ہوئے ذوق کی تسکین کا سامان ہونے جا رہا ہے ۔‘‘[تحریک اسلامی کا نظامِ تربیت،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی،۲۰۱۱ء،ص۱۲]
مولانا نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’ہم خانقاہی طرز کی تربیت و تزکیہ کا کوئی انتظام نہیں کرنے جا رہے ہیں، اس لیے جو لوگ اس پہلو سے خوش ہو رہے ہیں انہیں پہلے قدم پر ہی مایوس ہو جانا چاہیے۔ ہم اس طرز کی تربیت کے قریب بھی نہیں جانا چاہتے، کیوں کہ اس کی خرابیوں سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ خانقاہوں میں عام طور پر جو تربیت دی جاتی ہے اس کے موٹے موٹے خدّوخال یہ ہیں:(۱)انسان کے لیے ترک و تجرد اور انعزال کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے، کیوں کہ اس سے انسان دنیا کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔(۲) شریعت دین و دنیا کے دو حصوں میں تقسیم ہے، اس لیے دنیا دنیا والوں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے اور اپنے لیے دین کا حصہ پسند کر لینا چاہیے۔(۳)دین سے مراد ایک مخصوص قسم کی ،اوراد و وظائف سے گھری ہوئی زندگی ہے، جس میں اگر ان کے علاوہ کوئی چیز اہمیت رکھتی ہے تو وہ چند ظاہری وضع قطع سے متعلق باتیں ہیں اور کچھ نہیں۔‘‘[حوالہ سابق،ص۱۳]
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خانقاہی نظامِ تربیت میں سے کوئی بھی چیز لینے کے قابل نہیں ہے۔ مولانا نے اس موقع پر اس کی بھی وضاحت بہت صاف الفاظ میں کردی تھی۔ انھوں نے فرمایا تھا:’’ ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم تزکیہ و تربیت کے طرح طرح سے محتاج ہیں۔ہمیں اپنی اصلاح کی فکر مقدّم رکھنی چاہیے۔ اس کی خاطر اگر بالفرض ہمیں اہلِ خانقاہ سے کچھ اچھی بات لینے کی ضرورت محسوس ہو اور ہمارے پاس کسی چیز کے جانچنے کا جو حقیقی معیار ہے ، یعنی کتاب و سنت، اس پر وہ پوری طرح اترتی ہوں تو ان کے لینے سے بھی ہمیں اجتناب نہیں کرنا چاہیے۔ اور یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خانقاہ کی تربیت اس طرح کی باتوں سے خالی ہے۔‘‘[حوالہ سابق،ص ۱۵۔۱۶]
مقاصدِ تربیت
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلسِ شوریٰ نے اپنے اجلاس مؤرخہ ۹۔۱۹؍ نومبر ۱۹۵۶ء میںاپنے ارکان، کارکنان اور منتسبین کی تربیت کے جو مقاصد طے کیے تھے وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ایمانیات ، بالخصوص ایمان باللہ و ایمان بالآخرۃ کی پختگی، نیز تصوّرِ خدا و آخرت کا استحضار
۲۔ فکری ہم آہنگی
۳۔انفرادی و اجتماعی کردار کی تعمیر
۴۔داخلی نظم کا استحکام
۵۔دعوتی کام کرنے کے لیے صلاحیت و استعداد اور عملی جذبے کی نشو و نما
[ تحریک اسلامی کا نظام تربیت،ص۲۱]
مقاصدِ تربیت کے حصول کی ایک اہم تدبیر۔ قرآن مجید سے استفادہ
جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے کہ جماعت اپنے کارکنوں کی اصلاح و تربیت کے لیے کیا تدابیر اختیار کرتی ہے؟اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلی تدبیریہ بتائی ہے کہ قرآن مجید سے گہرا ربط و تعلق رکھا جائے اور اس سے بھر پور استفادہ کیا جائے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’جماعت سب سے پہلے قرآن و سنت کی طرف آدمی کو متوجہ کرتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات کی طرح تربیت کے معاملے میں بھی ان ہی دو سر چشموں سے راہ نمائی حاصل کرے۔ اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کو جو اعمالِ خیر اور جو اعلیٰ اوصاف مطلوب ہیں ان ہی دو ذرائع سے ان کی تفصیل معلوم ہو سکتی ہے اور خوبیوں کے پیدا کرنے اور خامیوں کے دور کرنے کا صحیح جذبہ بھی ان ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ جماعت اسلامی اپنے رفیقوں، ہم دردوں اور تعلق رکھنے والوں کو اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ وہ کتاب و سنت سے بہ راہ راست اپنا رشتہ استوار کریں، ان کی روشنی میں اپنی سیرت و کردار اور جذبات کا برابر جائزہ لیتے رہیں، جو کم زوریاں اور خامیاں نظر آئیں ان کو دور کرنے کی اور جن خوبیوں سے زندگی تہی دامن ہے ان سے اپنا دامن بھرنے اور اپنی سیرت کو آراستہ کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔‘‘[مولانا سید جلال الدین عمری ، جماعت اسلامی ہند:پس منظر، خدمات اور طریقۂ کار،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی،۲۰۱۳ء، ص۴۲۔ ۳ ۴ ]
مطالعۂ قرآن
مولانا عمری نے اپنے ایک مضمون میں تربیت سے متعلّق کارکنانِ تحریک کو کچھ مشورے دیے تو اس ضمن میں انھیں قرآن و حدیث کے مسلسل مطالعہ کی طرف راغب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ قرآن و حدیث کا مطالعہ محض معلومات میں اضافہ کے لیے نہیں ، بلکہ اپنی اصلاح و تربیت کے لیے ہو تو اس کا ہر ورق اصلاح و تربیت کا سامان فراہم کرے گا۔ قرآن و حدیث کے مطالعے سے اگر کوئی خوبی آدمی اپنے اندر دیکھے تو اللہ کا شکر بجا لائے اور مزید توفیق طلب کرے۔ جن خامیوں کی وہ نشان دہی کریں، بغیر کسی توجیہ کے انھیں تسلیم کرے، غلطی و خامی کا اعتراف کرے، توبہ و استغفار کرے اور اصلاح کا جو نسخہ وہ تجویزکریں اسے اختیار کرنے کے لیے فوراً آمادہ ہو جائے۔‘‘ [جماعت اسلامی ہند: پس منظر،خدمات اور طریقۂ کار،ص۶۰]
جماعت کے شعبۂ تربیت کے موجودہ سکریٹری مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے ارکان و متوسّلینِ جماعت کے لیے جو تزکیہ خاکہ تیار کیا ہے اس میں بھی مطالعۂ قرآن پر زور دیا گیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’ تزکیہ کے حصول کا بنیادی ذریعہ اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید سے استفادہ ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام اور بندوں کی ہدایت کا سامان ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور تدبر کے ذریعے بندے کا ایمان پختہ تر ہوتا ہے اور اس پر عمل کے ذریعہ اس کا اخلاق و کردار نکھرتا ہے۔ قرآن مجید میں تزکیہ کا پورا سامان موجود ہے، بہ شرطے کہ بندہ اس سے شغف پیدا کرے اور اس کی تلاوت و تدبر کو حرزِ جان بنائے رکھے۔‘‘[تزکیہ خاکہ برائے ارکان و متوسلین جماعت اسلامی ہند، ناشر شعبۂ تربیت جماعت اسلامی ہند،نئی دہلی، ۲۰۱۵ء،ص۲۰]
مختلف کتبِ تفسیر سے استفادہ
بعض لوگوں کی جانب سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ جماعت اسلامی کے وابستگان صرف مولانا مودودی کی تفسیر سے استفادہ کرتے ہیں، حالاں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے ۱۹۵۰ء میں تربیت کے جس میقاتی منصوبے کو منظوری دی تھی اس میںیہ بھی درج تھا:’’ قرآن پاک کے مطالعہ کے سلسلے میں مستند عربی تفاسیر کے علاوہ حسب ذیل تراجم و تفاسیر کی سفارش کی جاتی ہے:’’ مجموعۂ تفاسیر فراہی، تیسیر القرآن( مولانا صدر الدین اصلاحی)، تفہیم القرآن( مولانا مودودی)، ترجمہ و تفسیر مولانا اشرف علی تھانوی، ترجمہ و تفسیر حضرت شیخ الہند و مولانا شبیر احمد عثمانی، ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر صاحب۔‘‘[ماہ نامہ زندگی رام پور،فروری ۱۹۵۷ء ، ص ۸۰]
نصابِ مطالعہ
جماعت نے اپنے ارکان و کارکنان کے لیے مطالعۂ قرآن کا ایک نصاب طے کیا ہے۔ مولانا سید جلال الدین عمری نے ارکان و متوسلین کے لیے جو تربیتی خاکہ تیار کیا تھا اس میں جماعت کے ذمے داران( امرائے حلقہ،حلقوں کی مجالس شوریٰ کے ارکان ، نظمائے اضلاع، نظمائے علاقہ اور مقامی امراء) مشورہ دیا تھا کہ وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک بار مطالعہ کرلیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جن رفقاء پر درس و تدریس کی ذمے داری آتی ہو ، یا جنھیں تقریر و خطاب کے مواقع حاصل ہوں وہ موضوع سے متعلق آیات کے ترجمہ و تشریح کے لیے مولانا امین احسن اصلاحیؒ کی تفسیر’تدبر قرآن‘ اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کا ترجمۂ قرآن اور اس پر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے حواشی بھی دیکھ لیں۔ بعض دوسری تفاسیر موجود ہوں تو ان سے بھی استفادہ کریں۔جو رفقاء عربی زبان سے واقف ہوں وہ ضروری کتبِ تفسیر کا خود ہی انتخاب کر سکتے ہیں۔تربیتی خاکہ میں متعلقات قرآن میں مقدمہ تفہیم القرآن(مولانا مودودیؒ)، مقدمہ تدبر قرآن( مولاناامین احسن اصلاحیؒ)، قرآن مجید کا تعارف(مولانا صدر الدین اصلاحیؒ)، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں( مولانا مودودیؒ) اور قرآنی اصطلاحات اور علمائے سلف و خلف( مولانا سید حامد علیؒ) کے مطالعہ کا مشورہ دیا گیا ہے۔[تربیتی خاکہ برائے ارکان و متوسّلین جماعت اسلامی ہند، ۲۰۰ء ، ص۷۔۸،۱۰۔۱۱)
جماعت کے موجودہ سکریٹری شعبۂ دعوت مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی نے جو ’تزکیہ خاکہ‘ تیار کیا ہے اس میںنصابِ مطالعہ میں کچھ اور کتابوں کا اضافہ کیا ہے ۔ انھوں نے نصاب کے دو اجزا بنائے ہیں: ایک ضروری ، دوسرا اختیاری۔ضروری شق کے تحت درج کتب کا مطالعہ تمام رفقا کے لیے ترجیحی بنیاد پر لازمی ہے۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اختیاری شق کے تحت درج کتابوں کے مطالعہ کا مشورہ دیا گیاہے۔قرآنیات کے تحت اوپر درج کتابوں کے علاوہ اس میں درج ذیل کتابوں کا اضافہ ہے: تفسیر’ تیسیر القرآن‘ الفاتحہ و البقرہ( مولانا صدرالدین اصلاحیؒ)،تجلیاتِ قرآن( مولانا جلال الدین عمری) ، قرآن اور حدیث( مولانا مودودیؒ)،قرآن فہمی کے بنیادی اصول( مولانا مودودیؒ)، قرآن کی معاشی تعلیمات( مولانا مودودیؒ) اور قرآن کا نظام خاندان( مولانا جلال الدین عمری)،قرآن مجید کا تصورِ تزکیہ (مولانا جلال الدین عمری)، قرآن کا فلسفۂ اخلاق( مولانا سید احمد عروج قادریؒ)، اہلِ مذاہب کو قرآن کی دعوت( محمد رضی الاسلام ندوی)۔[ تزکیہ خاکہ برائے ارکان و متوسّلین جماعت اسلامی ہند،۲۰۱۵ء، ص۳۳۔۳۵]
ماہ نامہ زندگی/زندگی نو میں قرآنیات پر مضامین کی اشاعت
جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے’تربیتی خاکہ‘ تیار کرتے وقت ہی طے کیا تھا کہ’’ اس کے ترجمان ماہ نامہ زندگی میں قرآن مجید کے منتخب اجزا کی وقتاً فوقتاً ایسی تفسیر شائع کی جائے گی جو قرآن سے تعلق پیدا کرنے اور اس سے تذکّر حاصل کرنے کا موجب بنے۔‘‘[ماہ نامہ زندگی رام پور،فروری ۱۹۵۷ء،ص۷۴]
اسی زمانے میں تیار کردہ تربیت کے میقاتی پروگرام میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی تھی:’’قرآن کے منتخبات کی تفسیر اس طرح ’زندگی‘ میں شائع کی جائے گی کہ ایمانیات کی پختگی کے ساتھ قرآن فہمی کی راہ آسان ہو اور قرآن پاک سے تعلق زیادہ ہو۔‘‘[ زندگی ،حوالہ سابق،ص۷۷]
اس فیصلے کے مطابق ماہ نامہ’زندگی‘ میں برابر قرآنیات سے متعلق مضامین شائع کیے جاتے رہے۔مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے ’تیسیر القرآن‘ کے نام سے سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی تفسیر لکھی جو بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئی۔مولانا سید حامد علیؒ نے ’دعوۃ القرآن‘ کے نام سے سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف کی تفسیر لکھی۔اس کے علاوہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ،مولانا سید احمد عروج قادریؒ،مولانا جلیل احسن ندویؒ، مولانا محمد سلیمان قاسمیؒ،جناب سید حامد عبد الرحمٰن الکاف اور مولاناوحید الدین خان کی ، منتخب سورتوں اور آیات کی تفسیربرابر شائع ہوتی رہی۔قرآن سے متعلق علوم، اسالیب ،مفردات و اصطلاحات،قصص، اعجاز اور دیگر موضوعات پر مقالات شائع ہوئے۔ زندگی کے تیار کردہ اشاریہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دسمبر ۲۰۱۵ء تک سرسٹھ(۶۷) برسوں میںنکلنے والے آٹھ سو چھ(۸۰۶) شماروں میں قرآنیات سے متعلق دو سو ستانوے(۲۹۷) مضامین شائع ہوئے ہیں۔ [ زندگی کا خزانہ، اشاریہ ماہ نامہ زندگی رام پور/زندگی نو نئی دہلی، مرتب: محمد رضی الاسلام ندوی، طبع ۲۰۱۶ء]
اجتماعات
جماعت اسلامی ہند کے اجتماعات ، خواہ ہفتہ وار، ماہانہ اور سہ ماہی ہوں، یا مقامی یا حلقہ اور مرکز کی سطح کے ہوں،وہ اس کے ارکان و کارکنان اور منتسبین و متوسّلین کی تربیت کا اہم ذریعہ ہیں۔ان اجتماعات کا لازمی جز تذکیر بالقرآن یا درس قرآن ہوتا ہے۔ یہ دروس محض دینی معلومات میں اضافہ کا ہی سبب نہیں بنتے، بلکہ روحانی تربیت بھی کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ مولانا سید احمد عروج قادریؒ نے یہی بات جماعت کے ہفتہ وار اجتماعات کا تعارف کراتے ہوئے فرمائی تھی:
’’ہم اپنے اجتماعات میں اصلاً اضافۂ معلومات کے لیے نہیں ،بلکہ اپنی تربیت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔۔۔ تلاوتِ قرآن، مطالعۂ حدیث، مجالسِ ذکر و تذکیر ہماری روح کو ایندھن اور غذا مہیّا کرتی ہیں۔‘‘[ماہ نامہ زندگی ،رام پور، نومبر ۱۹۶۴ء،ص۴۴]
اجتماعی مطالعۂ قرآن
جماعت نے اپنے ارکان و کارکنان کو انفرادی طور پرقرآن مجید کے مطالعہ کی طرف راغب کرنے کے ساتھ اجتماعی مطالعۂ قرآن کو بھی رواج دیاہے ۔ اس کے لیے اس نے ابتدا ہی میں طے کیا تھا کہ ’’ ترجموں اور تفاسیر کی مدد سے قرآن پاک کے انفرادی و اجتماعی مطالعہ کے پروگرام بنائے جائیں گے۔‘‘[ماہ نامہ زندگی رام پور،حوالہ سابق، ص ۷۰] قرآن کے اجتماعی مطالعہ کا مطلب یہ ہے کہ شرکائے پروگرام منتخب آیات کا الگ الگ تفسیروں سے مطالعہ کرکے آتے ہیں۔ کسی شخص کی نگرانی میں مطالعہ ہوتا ہے ۔پروگرام میں کئی تراجم پڑھے جاتے ہیں۔ پھر ایک ایک آیت کا مطالعہ ہوتا ہے۔ شرکاء اپنا حاصل ِمطالعہ پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ منتخب آیات کی مختلف مفسّرین نے کیا تفسیر کی ہے؟
ارکانِ جماعت اجتماعی مطالعۂ قرآن کے مخصوص حلقے قائم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ معمول کے ہفتہ وار، ماہانہ یا سہ ماہی پروگراموں میںبھی کبھی کبھی اس کا نظم کیا جاتا ہے اورمضان المبارک، بالخصوص اس کی طاق راتوں میں اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
مرکزی تربیت گاہ
جماعت نے اپنے کارکنوں کی تربیت کے لیے ’تربیت گاہ‘ کا تصوّر اپنی تاسیس کے ابتدائی زمانے میں ہی پیش کیا تھا۔ اس کے تحت مختلف علاقوں سے منتخب ارکان مرکزِ جماعت میں جمع ہو تے تھے اور ہفتہ عشرہ وہاں رہ کراپنی فکری و روحانی تربیت کی تدابیر کرتے تھے۔ بعد میں اس پر عمل نہ ہو سکا۔لیکن کچھ عرصہ قبل اسے پھر شروع کیا گیا ہے اور مرکز جماعت میںپابندی سے تربیت گاہ منعقد ہو رہی ہے۔ اس میں ملک کی تمام ریاستوں سے منتخب ارکان، جن کی تعداد تقریباً ساٹھ(۶۰)ستّر(۷۰) ہوتی ہے،ایک ہفتے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
تربیت گاہ کا جو نصاب مرتب کیا گیا ہے اس میں قرآن مجید کو اہم مقام دیا گیا ہے۔روزانہ نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل تجوید (تصحیح ِتلاوت) کے لیے مخصوص ہے۔ شرکاء کو کئی گروپس میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ہر گروپ کی نگرانی ایک قاری کرتا ہے، جو ہر شخص سے قرآن کا کچھ حصہ سن کر حسب ضرورت تصحیح کرتا ہے۔تمام شرکائے کیمپ کے لیے لازم کیا گیا ہے کہ وہ تربیت گاہ میں رہنے کے دوران میں کم از کم ربع پارہ حفظ کرنے کا اہتمام کریں۔ترجیحی بنیاد پر تیسواں پارہ طے کیا گیا ہے، البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کو یہ حصہ حفظ ہو وہ اپنی سہولت سے غیر حفظ شدہ حصہ یا کوئی دوسرا ربع پارہ منتخب کر لیں۔
پورے ہفتہ روزانہ صبح ڈیڑھ گھنٹہ اجتماعی مطالعۂ قرآن کے لیے خاص کیا گیاہے۔ شرکاء منتخب و متعیّن آیات کا مطالعہ کرکے آتے ہیں، پھر اجتماعی طور سے ان آیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مولانا نعیم الدین اصلاحی ، شیخ التفسیر جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ اس کی نگرانی کرتے ہیں۔
تربیت گاہ میں ہونے والے پروگراموںکا ایک اہم جزمشقی ’دروسِ قرآن‘ ہیں۔ منتخب شرکاء سے متعین آیات کا مختصر درس دلوایا جاتا ہے اور پروگرام کے نگراں آخر میں ان پر تبصرہ کرتے ہیں اور درس کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے مفید مشورے دیتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کے نظامِ تربیت کے اس مختصر سے تعارف سے یہ بات بہ خوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں قرآن مجید کی تعلیم کو نمایاں مقام دیا گیا ہے اور اسے ارکان و متوسلین کی تربیت کے لیے ایک اہم ذریعہ کے طور پر اختیار کیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جون 2018