دین کی ناقص پیروی

محرکات اور اثرات

انسانی زندگی پر جس طرح باطل افکار اور جھوٹے مذاہب کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور آدمی راہ راست سے بھٹک جاتا ہے اور اس کی زندگی تضادات کا شکار ہوجاتی ہے، اسی طرح اس پر سچے اور برحق مذہب کی ناقص پیروی کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی زندگی تضادات کا شکار ہوجاتی ہے۔ پہلی قسم کی مثال دنیا کے عام مذاہب کے پیروؤں کی ہے اور دوسری قسم کی مثال موجودہ دور کے مسلمانوں کی۔

اسلام ایک سچا اور برحق دین ہے انسانیت کی فلاح ونجات اس کے اتباع اور پیروی میں ہے۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا ایمان ویقین ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے دین کی مکمل پیروی اختیار نہیں کی ہے ۔ بلکہ عملاً واعتقاداً اس میں تبدیلیاں کی ہیں۔ فروعیات کی بنیاد پر دین محمدﷺ  کو مسالک کے خانوں میں بانٹا ہے اور بزعم خود اپنے کو برحق اور دوسرے مسلک کے ماننے والوں کو برسرباطل ٹھہرانے کی روش مسلمانوں میں عام ہے۔ دین کے اتباع اور اس کے تقاضوں سے غافل اور بے پروا ہیں۔ دنیا کے حالات اور نزاکتوں کی طرف سے بے حسی عام ہے۔ نتیجے کے طور پر آج مسلمان ’’بجھی ہوئی آگ کی راکھ کا ڈھیر ہے۔‘‘ ذیل میں قرآن کی ان آیات کا مطالعہ پیش کیا جاتا ہے، جن میں مذہب کی ناقص پیروی کے اثرات ونتائج بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ زیر مطالعہ آیات میں سابقہ امتوں کی مثالیں پیش کی گئی ہیں یا منافقوں کے کردار کی نشان دہی بھی کی گئی ہے، تاہم ان میں کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ یہود ونصاریٰ کے اندر مذہب کی ناقص پیروی کے جو نتائج ہوئے وہی مرض آج مسلمانوں میں پیدا ہوگیا ہے۔ نتیجۃً وہ بھی وہی نتائج دیکھ رہے ہیں۔ مذہب کی ادھوری پیروی کی بہترین مثال منافقین ہیں۔ قرآن مجید نے مومنین اور منافقین کے کرداروں میں نمایاں فرق بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ دعویٰ ایمانی کے باوجود اگر ہمارا کردار منافقین کے کردار جیسا ہوجائے گا تو یہی کہاجائے گا کہ ہم دین کی ناقص پیروی کررہے ہیں اور اس کے جو مجموعی اثرات ونتائج ہیں وہ ہمارے اندر بھی ظاہر ونمایاں ہیں۔

دین کی ناقص پیروی کا اوّلین مظہر یہ ہے کہ اس کی بنیادی باتوں کو چھوڑ کر فروعی اور ضمنی باتوں کو اہمیت دے دی جاتی ہے۔ جیسا کہ آج مسلمانوں نے مخصوص مسلک کی پیروی کو اصل دین سمجھ لیا ہے اور حقیقی معنی میں دین کے اصولوں اور تعلیمات کو ترک کردیا ہے۔ ارشاد ہے:

أَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰ مَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَجَاہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَو،نَ عِندَ اللّٰہِ ۔﴿التوبہ:۱۹﴾

’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کوپانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرالیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روز آخرت پر اور جس نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں ۔ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔

دین کے نام پر ایسی ایسی باتیں پیدا کی جاتی ہیں جو باہمی اختلاف وتنازع کا باعث ہیں۔ لیکن باوریہ کیا جاتا ہے کہ دین کا کام کیا جارہاہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِداً ضِرَاراً وَکُفْراً وَتَفْرِیْقاً بَیْْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَاداً لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُولَہ، مِن قَبْلُ۔﴿التوبہ:۱۰۷﴾

کچھ اور لوگ ہیں جنھوں نے ایک مسجد بنائی۔ اس غرض کے لیے کہ ﴿دعوت حق کو﴾ نقصان پہنچائیں اور خدا کی بندگی کرنے کی بجائے کفر کریں اور اہل ایمان میں پھوٹ ڈالیں اور اس کو اس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اس کے رسول کے خلاف برسرپیکار ہوچکا ہے۔

دین کے نمایندوں کو علما اور قائدین ملت کے اندر مال ودولت کی حرص اور دُنیوی زندگی سے لگاؤ وبائے عام کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ دین کے معانی ومفاہیم میں اُلٹ پھیر کرنے میں بھی عارمحسوس نہیں کرتے۔ ارشاد ہے:

وَتَریٰ کَثِیْراً مِّنْہُمْ یُسَارِعُونَ فِیْ الاثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُونَ oلَوْلاَ یَنْہَاہُمُ الرَّبَّانِیُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِہِمُ الاِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُواْ یَصْنَعُونo﴿المائد:۶۲،۶۳﴾

تم دیکھتے ہو کہ ان میں سے بکثرت لوگ گناہ اور ظلم وزیادتی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں۔ بہت بری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں۔ کیو ں ان کے علما اور مشائخ اُنھیں گناہ پر زبان کھولنے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے۔ یقینا بہت ہی برا کار نا مہ زندگی ہے جو وہ تیار کررہے ہیں۔

قوم کے عام افراد میں عزم وحوصلہ سے مصائب ومشکلات کامقابلہ کرنے کی بجائے شکوہ وشکایت کی سوچ بیدار ہوجاتی ہے اور ہمت وشجاعت کے مظاہرے کی بجائے ایک دوسرے کو کوسا اور قسمت کا رونا رویا جانے لگتا ہے۔ ارشاد ہے:

قَالُوْآ اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَن تَأْتِیْنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۔ ﴿اعراف:۱۲۹﴾

اس کی ﴿موسیٰ کی﴾ قوم کے لوگوں نے کہا ’’تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے جاتے تھے اور اب تیرے آنے پر بھی ستائے جارہے ہیں۔

صبر اور برداشت کا مادہ باقی نہیں رہتا۔ کام کے ولولے پیدا نہیں ہوتے اور اگر کوئی کام شروع بھی کیا تو ثابت قدم رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہے:

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍط فَمَن شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْْسَ مِنِّیْ وَمَن لَّمْ یَطْعَمْہُ فاِنَّہ، مِنِّیْٓ الاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہٰ فَشَرِبُوْا مِنْہُ ااَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہُ ہُوَ وَالَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ مَعَہ، قَالُوْا لاَطَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنودِہِ۔          ﴿البقرہ:۲۴۸﴾

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمھاری آزمایش ہونے والی ہے۔ جو اس کاپانی پیے گا ’’وہ میرا ساتھی نہیں۔ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے اپنی پیاس نہ بجھائے۔ ہاں ایک آدھ چلّو کوئی پی لے تو پی لے مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ پھر جب طالوت اور اس کے ساتھی دریا پار کرکے آگے بڑھے تو انھوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

لوگوں میں علوم وفنون کے حصول کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے اور ذہن ودماغ کی ساری قوتیں اور صلاحیتیں جمود وتعطل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بصیرت اور صحیح سوچ وفکر اور وجدان بھی باقی نہیں رہتا ۔چنانچہ سب کچھ دیکھنے اور سننے کے باوجود پیش آمدہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیںہوتی ہے۔ ارشاد ہے:

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوبٌ یَّعْقِلُونَ بِہَآ اَوْ اٰ ذَانٌ یَسْمَعُونَ بِہَا فَاَّنہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُورِ o ﴿الحج:۴۶﴾

کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

فرقہ بندی اور گروہ بندی دینی سرگرمیوں کاحاصل قرار پاتی ہے۔ حق پرستی کی جگہ گروہ پرستی آجاتی ہے نیکی اور بدی کو پرکھنے کے لیے عقیدہ وعمل کوکسوٹی نہیں بنایا جاتا۔ بلکہ اس چیز کو معیار قرار دیاجاتا ہے کہ فلاں ہماری جماعت وگروہ میں شامل ہے یا نہیں ؟ اگر شامل ہے تو وہ ہر طرح اچھا ہے اور شامل نہیں ہے تو وہ برا ہے خواہ وہ حقیقت میں کتنا ہی متقی اور دین دار ہو۔ ارشاد ہے:

وَلَن تَرْضیٰ عَنکَ الْیَہُودُ وَلاَ النَّصَاریٰ حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ ۔ ﴿البقرہ:۱۲۰﴾

یہودونصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہ ہوں گے یہاں تک کہ آپ ان کے مذہب ﴿ملت﴾ کی پیروی کریں۔

چنانچہ اس صورت حال میں تعمیری سوچ باقی نہیں رہتی۔ بلکہ ہر جماعت دوسری جماعت کی تحقیر وتذلیل کو دین ومذہب کی سب سے بڑی خدمت قرار دینے لگتی ہے اور تعمیری کام ثانوی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ارشاد ہے:

وَقَالَتِ الْیَہُودُ لَیْْسَتِ النَّصَاریٰ عَلَیَ شَیْْئٍ وَّقَالَتِ النَّصَاریٰ لَیْْسَتِ الْیَہُودُ عَلَی شَیْْئٍ وَہُمْ یَتْلُونَ الْکِتَابَ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ۔  ﴿البقرہ:۱۱۳﴾

یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی کا دین کچھ نہیں ہے۔ عیسائی کہتے ہیں یہودی کا دین کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں۔ ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو علم نہیں رکھتے ہیں۔

لوگ گروہی کشمکش میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مفت خوری اور عیش پسندی عام ہوجاتی ہے۔ محنت ومشقت کے بغیر آرام وسکون کی زندگی گزارنے کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ ارشاد ہے:

یٰآَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْآ اِنَّ کَثِیْراً مِنَ الأَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ۔           ﴿التوبہ:۳۴﴾

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ان اہل کتاب کے اکثر علما اور درویشوں کاحال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے اور انھیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔

چنانچہ ایسے لوگوں میں دنیوی فائدے اور اقتدار کے لیے آپس میں ایک دوسرے کی تکذیب وتنقیص کی بیماری عام ہوجاتی ہے، جو مخالفت، ضد، ہٹ دھرمی اور پھر بغض وعناد اور عداوت وجدال پر منتج ہوتی ہے۔ ارشاد ہے:

وَمَااخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ الاَّ مِن بَعْدِ مَاجَآئ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ ۔      ﴿آل عمران: ۱۹﴾

اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے، جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا۔

جہاں مفت خوری اور عیش وعشرت کی سوچ ہووہاں سستی ،کاہلی اور کام چوری بھی ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ حصول مال کے لیے ناجائز طریقے رشوت ، نذر انہ لے کر جھوٹے فتوے دینا اور احکام خداوندی کی خریدوفروخت کا معاملہ پیش آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہے:

سٰمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ أَکلّٰونَ لِلسُّحْتِ فَاِن جَآؤُوکَ فَاحْکُم بَیْْنَہُم أَوْ أَعْرِضْ عَنْہُمْ وَاِن تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَن یَضُرُّوکَ شَیْْئاً۔﴿المائدہ:۲۴﴾

یہ جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ تمھارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمھیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کردو۔ انکار کردو تو یہ تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

مزید یہ کہ مال ودولت حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی چال بازیاں اور تدبیریں اختیار کی جاتی ہیں۔ ارشاد ہے:

وَمِنْہُم مَّن یَلْمِزُکَ فِیْ الصَّدَقَاتِ فَاِنْ اُعْطُواْ مِنْہَا رَضُواْ وَاِن لَّمْ یُعْطَوْا مِنہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُونَ۔       ﴿التوبہ:۵۸﴾

اے نبی ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں اگر اس مال میں سے انھیں کچھ دے دیاجائے تو خوش ہوجائیں اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔

لوگوں میں اخلاقی گراوٹ آجاتی ہے، کردار کی اہمیت جاتی رہتی ہے اور معاصی کے ارتکاب میں وہ جری ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف عمل کی جگہ تمنائیں اور آرزوئیں لے لیتی ہیں۔ ترقی کے جذبات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں بلند حوصلگی ، بہادری اور اولعزمی وغیرہ، صفات معکوس میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور بحیثیت مجموعی یاس اور قنوطیت پوری قوم پر چھا جاتی ہے اور عافیت اور سکون کا گوشہ تلاش کیاجانے لگتاہے۔ چاہے وہ ذلت وحقارت کی ہی قیمت پر ہو۔ ارشاد ہے:

وَمِنْہُمْ أُمِّیُّونَ لاَ یَعْلَمُونَ الْکِتَابَ آ أَمَانِیَّ وَاِنْ ہُمْ ااَّ یَظُنُّونَ ۔﴿البقرہ:۷۸﴾

ان میں ایک دوسرا گروہ اُمیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم وگمان پر چلے جارہے ہیں۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

قَالُوْا یَا مُوسٰیٓ انَّ فِیْہَا قَوْماً جَبَّارِیْنَ وَاَا لَن نَّدْخُلَہَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْہَا فَانْ یَخْرُجُوْا مِنْہَا فَانَّا دَاخِلُونَo             ﴿المائدہ:۲۲﴾

ان میں ایک دوسرا گروہ اُمّیوں کاہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بنیاد امیدوں اور آرزؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم وگمان پر چلے جارہے ہیں۔

واضح مقصد زندگی سامنے نہیں رہتا۔ اس کی وجہ سے محنت ومشقت کی عادت پیدا نہیں ہوتی بلکہ تن آسانی ، حیلہ سازی اور مصلحت کوشی پیدا ہوجاتی ہے۔ ارشاد ہے:

لَوْکَانَ عَرَضاً قَرِیْباً وَسَفَراً قَاصِداً لاَّتَّبَعُوکَ وَلٰ کِن بَعُدَتْ عَلَیْْہِمُ الشُّقَّۃُ ۔  ﴿التوبہ:َ۴۲﴾

اے نبیﷺ  اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمھارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے، مگر ان پر تویہ راستا بہت کٹھن ہوگیا۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَمِنْہُم مَّن یَقُولُ ائْذَن لِّیْ وَلاَ تَفْتِنِّیْٓ أَلاَ فِیْ الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا۔ ﴿التوبہ:۴۹﴾

ان میں سے کوئی کہتا ہے کہ ’’مجھے رخصت دے دیجیے اور مجھ کو فتنے میں نہ ڈالیے‘‘ سن رکھو فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں۔

عام لوگوں کی زندگیاں تضادات کا مجموعہ ہوجاتی ہیں۔ ان کے ظاہروباطن میں یکسانی باقی نہیں رہتی۔ ذاتی اغراض ومقاصد کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ ایثار وقربانی کے جذبات بے کار سمجھے جاتے ہیں آپس میں ایک دوسرے کی بدخواہی کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں:

اِن تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَاِن تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَقُولُوْا قَدْ أَخَذْنَا ٓ أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَیَتَوَلَّواْ وَّہُمْ فَرِحُون۔﴿التوبۃ:۵۰﴾

تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انھیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کرلیا تھا۔

اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان واعتماد نہیں رہ جاتا اور طبیعتیں طرح طرح کے توہمات وخرافات کا شکار ہوجاتی ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں بھی بدگمانی ہونے لگتی ہے۔ ارشاد ہے:

لَوْ یَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلاً لَّوَلَّوْاْ الَیْْہِ وَہُمْ یَجْمَحُونَ۔﴿التوبہ:۵۷﴾

اگر وہ کوئی جائے پناہ پالیس یا کوئی کھوہ یا گھس بیٹھنے کی جگہ تو بھاگ کر اس میں جا چھپیں۔

دین کے اتباع کی روح فنا ہو جاتی ہے اور احکام دین پر انتہائی بے دلی اور بدذوقی کے ساتھ عمل کیاجاتا ہے۔ ارشاد ہے:

وَاِذَا قَامُوْآ اِلَی الصَّلاَۃِ قَامُواْ کُسَالَی یُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُونَ اللّہَ الاَّ قَلِیْلاً۔      ﴿النساء  ۱۴۲﴾

جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں توکسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیں اور خدا کو کام ہی کے وقت یاد کرتے ہیں۔

نظم اور اجتماعیت باقی نہیں رہتی اور سمع وطاعت اور اتحاد واتفاق کا جذبہ مفقود ہوجاتا ہے۔ ہر شخص اپنی چلانے کی فکر میں پڑجاتا ہے۔ انتشار ذہنی اور آپسی میں چھینٹا کشی شروع ہوجاتی ہے۔ ارشاد ہے:

وَاِذَا دُعُوْآ اِلیٰ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٰ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِنْھُمْ مُّعْرِضُوْنَ۔   ﴿النور:۴۸﴾

جب ان کو بلایاجاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ الصَّدَقَاتِ وَالَّذِیْنَ لاَ یَجِدُونَ تِلاَّ جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللّہُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌo     ﴿التوبہ۷۹﴾

﴿اللہ ان کے حال سے واقف ہے﴾ جو برضا وغبت دینے والے اہل ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپرمشقت برداشت کرکے دیتے ہیں۔ اللہ ان مذاق اڑانے والوں کامذاق اڑاتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

قوم حقائق کو اختیار کرنے کی بجائے اعجوبہ پرستی میں مبتلا ہوجاتی ہے کہ ذرا سی کوئی عجیب بات نظر آئی اسی کی معتقد ہوگئی۔ جادو، ٹونے، ٹوٹکے اور دوسرے وہمی خیالی باتوں پر یقین کرنے لگتی ہے۔ ارشاد ہے:

فَأَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلاً جَسَداً لَہ، خُوَارٌ فَقَالُوا ہَذَآ الَہُکُمْ وَاِلَہُ مُوسیٰ فَنَسِی۔ ﴿طٰہٰ:۸۸﴾

﴿سامری ﴾ ان کے لیے ایک بچھڑے کی مورت بنا کر نکال لایا، جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ لوگ پکار اٹھے ، یہی ہے تمھارا خدا اور موسیٰ کا خدا موسیٰ ﴿علیہ السلام ﴾اُسے بھول گیا۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّیَاطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْْمَانَ ۔﴿البقرہ:۱۰۲﴾

اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین سلیمان کی سلطنت کا نام لے کر پیش کرتے تھے۔

بدعملی اور بے عملی عام ہوتی ہے، اس کے باوجود یہ خوش فہمی اور خود فریبی پیدا ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی انھیں خوشنودی حاصل ہے۔ لہٰذا وہ ہرحال میں جنت کے مستحق ہیں اور جہنم کی آگ ان پر حرام ہے۔ ارشاد ہے:

وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَاریٰ نَحْنُ أَبْنَآئ اللّہِ وَأَحِبَّآؤُہ، ۔ ﴿المائدہ:۱۸﴾

یہود ونصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ آ أَیَّاماً مَّعْدُودَۃً ۔﴿البقرہ:۸۰﴾

وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں ہے۔ الا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔

ذہن ودماغ معطل ہوجاتے ہیں اور قومی وملی ترقی کی راہیں واہونے کے باوجود اُنھیں ان پر چلنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ دوسری طرف شیطان اعمال کو مزین بنا کر پیش کرتا ہے اور اس خوش گمانی میں مبتلا کردیتا ہے کہ قوت وغلبہ ہماری وراثت ہے۔ اسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ ارشاد ربانی ہے:

وَاِذْ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لاَ غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَانِّیْ جَارٌ لَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآئ تِ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلیٰ عَقِبَیْْہِ وَقَالَ انِّیْ بَرِیْٓئ ٌ مِّنکُمْ انِّیْٓ أَرَی مَا لاَ تَرَوْنَ اِّیْٓ أَخَافُ اللّہَ وَاللّہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔   ﴿الانفال :۴۸﴾

ذرا خیال کرو اس وقت کاجب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوش نما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمھارا ساتھ نہیں ہے، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔

حق بولنے اور حق پر قائم رہنے والوں کی تذلیل کی جاتی ہے اور ان سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو فروغ نہیں مل پاتا اور جرائم پیشہ افراد لوگوں پر حاوی ہوجاتے ہیں ۔ارشاد ہے:

وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُولُ اللَّہِ لَوَّوْا رُؤُوسَہُمْ وَرَأَیْْتَہُمْ یَصُدُّونَ وَہُم مُّسْتَکْبِرُونَ ۔          ﴿المنافقون:۵﴾

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمھارے لیے مغفرت کی دُعا کرے تو سرجھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رُکتے ہیں۔

علماء  اور قائدین ملت دوہرے کردار کے حامل ہوجاتے ہیں۔ ان کے قول وعمل میں تضاد پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے قوم میں ان کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔ بلکہ وہ خود ہدف تنقید بننے لگتے تھے۔ ارشاد ہے:

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ o         ﴿البقرہ:۴۴﴾

بھول جاتے ہو دراں حالیکہ تم کتاب ﴿توریت ، انجیل﴾ کی تلاوت کرتے ہو۔ تو تم کیوں نہیں عقل سے کام لیتے۔

علماء  اور قائدین ملت دین کے نام پر دُنیا کمانے کا پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور احکام دین پر من مانی طریقے سے عمل کرتے ہیں۔ بسااوقات خود ساختہ آرائ ومسائل کو کتاب اللہ سے ماخوذ ثابت کرتے ہیں اور اس سے سستی دولت وشہرت کماتے ہیں۔ ارشاد ہے:

فَوَیْْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْْدِیْہِمْ ثُمَّ یَقُولُونَ ہَ ذَا مِنْ عِندِ اللّہِ لِیَشْتَرُواْ بِہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَوَیْْلٌ لَّہُم مِّمَّا کَتَبَتْ أَیْْدِیْہِمْ وَوَیْْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُونَ ۔ ﴿البقرہ:۷۹﴾

ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں۔ پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔

عوام اور خواص دونوں میں قساوت قلبی پیدا ہوجاتی ہے۔ بڑے بڑے واقعات وحادثات سے بھی عبرت حاصل کرنے اور نصیحت پکڑنے کی صلاحیت ان میں مفقود ہوجاتی ہے۔ اجتماعی طور پرملت اپنی تباہی اور بربادی پر قانع اور مطمئن ہوجاتی ہے۔ پھر اس کے بعد بیداری اور ترقی کی گنجایش ہی کہاں رہتی ہے۔ ارشاد ہے:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُم مِّن بَعْدِذَلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَۃً ۔

پھر اس کے بعد بھی تمھارے دل سخت ہوگئے تو یہ پتھر کے مانند ہیں یااس سے بھی زیادہ سخت ۔     ﴿البقرہ:۷۴﴾

مجموعی طور پر لوگ مذہب کی افادیت سے انکاری ہوجاتے ہیں اور دین کو محض رسم ،رواج یا باپ دادا کے طور طریقے کی حیثیت سے اختیار کیاجاتا ہے ۔ ارشاد ہے:

وَلَیْْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوْاْ الْبُیُوتَ مِن ظُہُورِہَا وَلَ کِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقیٰ وَأْتُوْاالْبُیُوتَ مِنْ أَبْوَابِہَا وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ﴿البقرہ:۱۸۹﴾

یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہو۔ نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہوجائے۔

مذہب کی ناقص پیروی کے یہ اثرات جو قرآن مجید میں یہودونصاری اور منافقین کے تعلق سے بیان کیے گئے ہیں، آج بڑی حد تک مسلم امت کے افراد اور علما ودانش ور ان ملت کے اندر موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی اصلاح اور اسلام کی سچی نمایندگی کی توفیق عطا فرمائے۔

مشمولہ: شمارہ مارچ 2012

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223