تمام تعریفیں، حمد و ثنا اورشکر و احسان رب کائنات کا کہ آج ارکان جماعت کا یہ عظیم اجتماع، عدل وقسط اجتماع ارکان 2024 بخیر و خوبی شروع ہوچکا ہے۔ میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے اس اجتماع میں استقبال کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے مقاصد میں کام یابی عطا فرمائے اور یہ اجتماع ہندوستان کی سرزمین میں اسلامی تحریک کو نئی حرارت و توانائی، صحیح سمت اور تیزی و سرعت عطا کرنے کا ذریعہ بنے۔ آمین
اس اجتماع میں ایک بڑی تعداد، ہمارے اندازے کے مطابق ساٹھ فی صد سے زیادہ ارکان جماعت بالکل نئے ہیں جو پہلی بار کسی کل ہند اجتماع میں شرکت فرمارہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی آنکھیں یہ دیکھ کر یقیناً ٹھنڈی ہورہی ہوں گی کہ ان نئے ارکان میں ایک بڑی تعداد جواں سال مرد و خواتین ارکان کی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اطمینان اور مسرت کی ہے کہ جن ریاستوں میں افرادی قوت میں کمی پرہم سب فکر مند تھے اُن ریاستوں میں بھی تیزی سے افرادی قوت بڑھی ہے اور وہاں سے بھی خاصی تعداد اس اجتماع میں شریک ہے۔ ہم ان باتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام پہلوؤں سے اور ہر پہلو سے تحریک کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ اس دوران خواتین ارکان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دلی کے 2002 کے اجتماع میں ملک بھر میں ارکان کی جو جملہ تعداد تھی اس کے مساوی اس وقت صرف خواتین ارکان ہیں۔ میں ان نئے ارکان کا، نوجوان ارکان کا، خواتین ارکان کا خاص طور پر استقبال کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ اسی طرح یہ اجتماع آئندہ اور بہت سے نئے محاذوں اور نئے علاقوں میں پیش رفت کے لیے مہمیز کا کام کرے گا۔
اس اجتماع میں جہاں ہم اس کاروانِ دعوت و عزیمت کے بہت سے نئے اور تازہ دم رفیقوں کا استقبال کررہے ہیں وہیں اپنے بہت سے بزرگوں اور تحریک کی صف اول کے رہ نماؤں کی کمی شدت سے محسوس کررہے ہیں۔ سابق امرائے جماعت مولانا محمد سراج الحسن اور مولانا سید جلال الدین عمری، جناب نصرت علی، پروفیسر کے اے صدیق حسن، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، جناب ٹی کے عبد اللہ، مولانا محمد یوسف اصلاحی، مولانا محمد فاروق خان، ڈاکٹر محمد رفعت، مولانا محمد رفیق قاسمی، جناب محمد اشفاق احمد، جناب خواجہ عارف الدین، جناب سید عبد الباسط انور اور ان کے علاوہ بھی بہت سے بزرگ اور عزیز رفقا اس دوران اللہ کو پیارے ہوگئے۔ میں ان سب کے حق میں، تمام مرحوم ارکان جماعت کے حق میں، فلسطین اور لبنان کے شہیدوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
محترم ارکان جماعت، ہماری تحریک کا مقصد اقامت دین ہے۔ اللہ کا دین ہی حقیقی اور مکمل معنوں میں عدل و قسط کے قیام کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس اجتماع ارکان کا مرکزی موضوع بھی عدل و قسط ہے۔ یہ قرآن مجید کا بہت اہم موضوع ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔ عدل و قسط كے الفاظ میں، عدل اور اعتدال دونوں پہلو شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے۔ قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِیمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (کہہ دو، کہ اللہ نے تو ہر معاملے میں قسط کا حکم دیا ہے۔ اور یہ کہ ہر مسجد کے پاس اپنا رخ اسی کی طرف کرو اور اسی کو پکارو اسی کے لیے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے جس طرح اس نے تمھارا آغاز کیا اسی طرح تم لوٹو گے۔)
اس آیت میں لفظ قسط کی تشریح میں مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ عمل ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو اور یہ کہ یہ پوری اسلامی شریعت کی روح ہے۔ قسط کا یہ معنی عدل اور اعتدال دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔بلکہ عدل اور اعتدال بھی اصلاً ایک ہی لفظ ہے۔ جب اجتماعی زندگی میں اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں اعتدال کا متعین راستہ چھوٹ جاتا ہے اور افراط و تفریط کے رویے ظہور پذیر ہوتے ہیں تو ظلم کا ظہور ہوتا ہے یعنی عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں اور جب انسانی فکر، مزاج، رویے اور نفسیات میں یہ متعین راستہ چھوٹ جاتا ہے تو بے اعتدالی ظہور پذیر ہونے لگتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ نظامِ توازن بگڑنے لگتا ہے۔ وَأَقِیمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی پالیسی کا عنوان اگر عدل ہے تو اسلامی فکر اور مزاج کا عنوان اعتدال ہے۔ فکر کا اعتدال ہی عمل اور پالیسی میں عدل پیدا کرسکتا ہے۔ عدل کے قیام کے لیے جہاں ظلم کے خاتمے اورعدل کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے جدوجہد ضروری ہے وہیں فکر کا اعتدال بھی ایک لازمی شرط ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو امت وسط کا نام بھی دیا ہے۔
اس وقت دنیا جس فکری بحران سے گزررہی ہے وہ اصلًا عدل واعتدال ہی کا بحران ہے۔ فکرمیں قسط سے انحراف نے طرح طرح کی فکری بے اعتدالیوں کو جنم دیا ہے اور ان فکری بے اعتدالیوں نے ظلم و استحصال کی نت نئی شکلوں کو ایجاد کرکے انسانی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ معیشت میں، سیاست میں، تہذیب و تمدن میں، خاندان اور معاشرت میں، سائنس و ٹکنالوجی میں ہرجگہ یہ طرح طرح کی فکری بے اعتدالیاں ہی ہیں جنھوں نے دنیا کو ظلم و جور سے بھردیا ہے۔ اس اجتماع کا اصل پیغام عدل واعتدال ہی ہے۔ ہم یہاں سے اسلام کی معتدل فکر لے کر جائیں گے۔ عدل و اعتدال پر مبنی صاف اور سیدھی شاہراہ کا شعور لے کر، معتدل مزاج لے کر، معتدل جذبات کی سوغات لے کر لوٹیں گے۔ پھر اس سرمائے کو، اس معتدل فکر کو ہم صرف خود تک محدود نہیں رکھیں گے۔ اسے ملک میں عام کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی اساس پراس ملک کی رائے عامہ بنانے کی کوشش کریں گے کہ یہ اس میقات میں ہمارا میقاتی مشن ہے۔ یہی پائیدار عدل و قسط کے قیام کا راستہ ہے۔
محترم ارکان جماعت، یہ اجتماع اسلام اور ملت اسلامیہ کی تاریخ کے ایک بڑے اہم اور فیصلہ کن موڑ پر منعقد ہورہا ہے۔ تاریخ کا ایک ایسا موڑ جب دنیا ظلم وجور کے اعتبار سے اور بے اعتدالی اور عدم توازن کے اعتبار سے ایک تباہ کن انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مشرق وسطی میں تاریخ کے فیصلہ کن دھارے پورے شباب پر ہیں۔ ایک طرف وحشت و بربریت اور قتل و غارت گری چنگیزخان اور ہلاکو خان کی تاریخ کو پیچھے چھوڑرہی ہے تو دوسری طرف بے حسی، نفاق اور دین کے نام پر اوراس کے حوالے سے مداہنت اور اخلاقی پستی کے ایسے نمونے سامنے آرہے ہیں جن کی نظیر شاید اسلامی تاریخ میں مشکل ہی سے ملے۔
محترم ارکان جماعت، لیکن تیسری طرف ان حالات کا ایک تابناک اور روشن پہلو یہ بھی ہے کہ عزم، حوصلہ، ہمت و استقامت، شجاعت و دلیری اور شہادتوں اور قربانیوں کی جو لازوال داستانیں رقم ہورہی ہیں وہ بھی بے نظیر ہیں اور بلاشبہ پوری اسلامی تاریخ کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔
ہمارے ملک کی صورت حال میں بھی عالمی صورت حال کی جھلکیاں موجود ہیں۔ یہاں بھی ظلم وناانصافی اس قدر عریاں روپ اختیار کرچکی ہے اور ایک ایسی حد کو پہنچ چکی ہے جس کی کوئی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے جواب میں ایک طرف بے حسی و لاتعلقی ہے دوسری طرف خوف و ہراس اورمایوسی ہے، تیسری طرف نقصان دہ شدت پسندی اور جذبات کا ہیجان ہے، چوتھی طرف ایسے بے معنی یا ہیجانی اقدامات ہیں جو بجائے حالات کو بہتر بنانے کے اور زیادہ خراب کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں اسلامی تحریک کو عدل و قسط کی منزل کی طرف، اقامت دین کے نصب العین کی سمت اپنا سفر آگے بڑھانا ہے۔ ایسے حالات بظاہر مشکل اور پریشان کن ہوتے ہیں لیکن کام یابی و عروج کے مواقع ایسے حالات ہی کی تہہ میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو لعل و گہر قوموں کی قسمت کو اچانک چمکاکر نئی بلندیاں عطا کرسکتے ہیں وہ ایسی طغیانیوں ہی سے نکل آتے ہیں۔
محترم سامعین، ایسے حالات میں ہر قدم فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایک غلط قدم منزل کھوٹی کردیتا ہے اور صحیح سمت میں ایک قدم منزل کو اچانک قریب لاکھڑا کرسکتا ہے۔ تحریک اسلامی کے ہر رکن کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان حالات میں وہ خود صحیح رخ پر تیزی سے آگے بڑھے اور پوری ملت کو بھی اپنے ساتھ عروج و افتخار کی راہ پر چلانے کی کوشش کرے۔
محترم سامعین، ان حالات میں ہم نے طے کیا ہے کہ ملک کی رائے عامہ کو متاثر کرنا اس میقات کا مشن ہوگا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جماعت کے دستور میں ہمارا مستقل طریق کار ہی یہ بتایا گیا ہے کہ رائے عامہ کی تربیت کے ذریعے اس ملک میں ہم اپنے نصب العین کی سمت آگے بڑھیں گے۔ روداد میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پہلے دن سے رائے عامہ پر اثر اندازی کو جماعت نے اپنا ایک اہم ہدف قرار دیا۔ لیکن محترم دوستو، اسلاموفوبیا کی موجودہ فضا میں اس ہدف کی اہمیت کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کی فضا اور تیزی سے مسموم ہوتے ہوئے عام ذہن ایک بڑا چیلنج اور بڑا خطرہ ہے۔
لیکن یہ فضا اس ہدف کے تیز رفتار حصول کے مواقع بھی ساتھ ہی ساتھ پیدا کردیتی ہے۔ ہر طرف اسلام پر، اسلام کی تعلیمات پر گفتگو اور بحث و مباحثہ۔۔ یہ ایک زریں موقع ہے کہ اس فضا کو رائے عامہ کی درست رخ پر تربیت کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ اجتماع اس حوالے سے سیکھنے اور مختلف تجربات کو جاننے اورسمجھنے کا شاندار موقع فراہم کرتا ہے۔
سامعین محترم، اس ہدف کو حاصل کرنا اور چیلنجوں سے بھرپور موجودہ حالات میں دعوت دین کا فریضہ انجام دینا اور فضا کو اسلام کے حق میں بدلنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے، ہر رکن جماعت کی شخصیت میں بہت سے اعلیٰ اوصاف درکار ہیں۔ ان حالات میں حکمت و بصیرت درکار ہے۔ استقامت و پامردی درکار ہے۔ اپنے مقصد و نصب العین سے انتہائی گہرا تعلق (unwavering commitment)درکار ہے۔ اپنے فکر و فلسفے پر، نظریے اور اصول پر ڈٹے رہنے کی صلاحیت درکار ہے۔ توازن و اعتدال درکار ہے۔ اجتماعیت سے گہری جذباتی وابستگی اور کامل وفاداری (Absolute loyalty) درکار ہے۔ آپس میں گہری رفاقت اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی کیفیت درکار ہے۔ نظم و ڈسپلن اور سمع واطاعت کا اعلیٰ ترین معیار درکار ہے۔
رفقائے محترم، اس اجتماع کے ذریعے انھی سب اوصاف کی افزائش مطلوب ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کی مدد سے اور ایک دوسرے کی برکت سے ہم سب اور ہمارا پورا قافلہ اُس زادِ راہ سے مالا مال ہوجائے جو ہمارے تاریخی سفر کے اس مشکل مرحلے میں اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ہم سب کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ارکان جماعت کا یہ قافلہ جو آج ان خوب صورت پہاڑوں کے درمیان وادی ہدیٰ میں خیمہ زن ہے، اس قافلے میں ایک سے بڑھ کر ایک مثالی کردارموجود ہیں۔ ان مثالی کرداروں پراپنی نگاہوں کوجمادیجیے۔ وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ(اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اس کی محبت میں سرشار ہیں تو ان کی صحبت پر ان کی رفاقت پر خود کو مطمئن رکھو اور تمھاری نگاہیں ان سے ہٹنے نہ پائیں) اس مجمع میں ایسے بزرگ موجود ہیں جو اپنے تقویٰ، للہیت، تعلق بااللہ اور اخلاص میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اور ان کی صحبت میں گزرنے والے یہ تین دن ہم سب کے دلوں کی دنیا بدل دیں۔ اس مجمع میں ایسے نوجوان ہیں جو اپنی سرگرمی، رات دن محنت وجدوجہد، قربانیوں، جانفشانیوں اور تحریک کے لیے اپنے غیر معمولی کنٹری بیوشن کی وجہ سے مجاہدین اسلام کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ جنھوں نے اللہ کے دین کے لیے اپنے مفادات قربان کیے، اپنے کیریر قربان کیے، گھر کا آرام چھوڑ کر، بیوی بچوں سے اور خاندان سے دور رہنا گوارا کیا۔ جو اللہ کے دین کی خاطر برپا اس اجتماعیت کو اپنے خون پسینے سے سینچ رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے یہ ولولے اور یہ مبارک جذبے سورج کی روشنی کی طرح اس مجمع میں عام ہوجائیں۔ اس مجمع میں وہ چند مبارک روحیں بھی ہیں جو آزمائشوں کے طوفان میں استقامت کا کوہ ہمالہ بنی رہیں۔ جنھیں رات دن دھمکیوں اور خوف و ہراس کے نرغے میں رکھا گیا، مقدمات میں الجھایا گیا، میڈیا اورسوشل میڈیا میں جن کے خلاف پروپیگنڈے کے گئے، طوفان برپا کیے گئے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، لیکن وہ نہ صرف اپنے اصولوں پر اور اپنے مقصد و نصب العین پر ڈٹے رہے بلکہ قدم قدم بلاؤں کی فضا میں بھی ہزاروں مظلوموں کا سہارا بنے رہے۔ جیلوں میں بھی دعوت و خدمت کا کام کرتے رہے۔ ہرحال میں maximum contribution کی روایت پوری دلیری اور ہمت کے ساتھ قائم رکھے رہے۔ یہ مبارک روحیں اس قافلہ سخت جان کا سرمایہ افتخار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس اجتماع میں ان کا حوصلہ، ان کی ہمت، ان کا صبر، ان کی استقامت اور ان کے مبارک جذبات کی لہریں ان کے وجود سے نکل کر ہم سب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔ میرے دل کی دھڑکنیں اور ہر رکن جماعت کے دل کی دھڑکنیں ان حوصلہ مند دوستوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہوجائیں۔ اس اجتماع میں ہمارے بہت سے قابل قدر دوست ہیں جنھوں نے مشکل حالات میں نئے راستے ڈھونڈے۔ حالات کا رونا رونے کے بجائے، بلیم گیم اور ایک دوسرے پرالزام تراشی کے بجائے اپنے حصے کی شمع جلائے رکھنے پر توجہ دی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں راستے دکھائے۔ انوکھی تدابیر سجھائیں۔ انھوں نے نئے طریقے اختیار کیے اور نئی منزلیں سر کیں۔ ان کے تجربات، ان کی کام یاب داستانیں(success stories)، ان کی یافتیں اور کارنامے (achievements) ہم سب کا اثاثہ ہیں۔ اس اجتماع کے ذریعےاثاثوں کی یہ دولت ساڑھے اٹھارہ ہزار ارکان جماعت میں تقسیم ہوگی۔ اس اجتماع میں ایسے مبارک نفوس موجود ہیں جن کی اجتماعیت سے وابستگی، سمع و طاعت اور ڈسپلن کی کیفیت کو دیکھ کر مجھے یعنی امیر جماعت کو شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ جو امیر کے ایک اشارے پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ حقیر مفاد کی خاطر، انا کی لڑائی میں اجتماعیت کو فتنہ و فساد کا شکار بنانا انھیں اتنا ہی ناگوار ہے جتنا اپنے جسم پر اپنے ہاتھ سے خنجر چلانا۔ سید مودودیؒ کی تحریک میں، اس کے گراں قدر لٹریچر اور اعلیٰ روایات سے اجتماعی قدروں کا جو سبق انھوں نے سیکھا ہے اس کو پوری وفاداری اور دل داری کے ساتھ وہ نباہتے ہیں۔ یہ ارکان ہی ہماری جماعت کی اصل قوت و طاقت ہیں۔ ؏
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
تو آیئے، ان چراغوں سے ہم سب روشنی حاصل کریں۔ چراغ سے چراغ جلیں اوریہ مبارک روشنی ہر جگہ پھیل جائے۔
بزرگواور دوستو، اجتماع کا اصل مقصد اور فائدہ یہی ہے۔ یہاں اسٹیج سے کوئی نئی بات نہیں کہی جائے گی۔ اصلًا ہمارے مقصد و نصب العین کی، ہمارے منصوبے اور پالیسی کی، ہمارے اصولوں کی، ہماری روایات کی یاددہانی ہوگی اور اپنے ہزاروں ساتھیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر، ان کے جذبات میں شریک بن کر ان سب اچھی باتوں کو عام کرنے کی کوشش کریں گے۔ اجتماع کا پروگرام اسی اسپرٹ کے ساتھ تشکیل دیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ تمام بنیادی باتوں کی یاددہانی ہو۔ زیادہ سے زیادہ اچھے نمونے سامنے آئیں۔ تجربات شئیر ہوں۔ تعاون و اشتراک کا ماحول بنے اور جذبات اور حوصلوں کو مہمیز ملے۔ یہ مقاصد اس اجتماع کے مختلف اجزا کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اس آڈیٹوریم سے مختلف موضوعات پر تقریریں ہوں گی۔ ان تقریروں کو ہم سب مل کر سنیں گے۔ ان میں ہمارے مقاصد کی، فکر کی، لائحہ عمل کی یاددہانی ہوگی۔ کل کچھ پروگرام متوازی ہوں گے۔ ان متوازی پروگراموں میں الگ الگ میدانوں اور صلاحیتوں سے تعلق رکھنے والے ملک بھر کے لوگوں کو جمع ہونے اور اپنے اپنے میدانوں میں کام کے مختلف تجربات سے واقف ہونے کا، مل جل کرنئی تدابیر سوچنے کا اور اپنے میدانوں میں آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ ادراک تحریک شوکیس، ہمارے بہت سے اہم تجربات اور اہم کاموں کی تفصیل آپ کےسامنے لائے گا۔ اس خوب صورت وادی کے ایک مختصر ٹور سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارے ارکان جماعت کتنے مختلف اور متنوع میدانوں میں گراں قدر انجام دے رہے ہیں اور ملک کے طول و عرض میں اللہ کے دین کی قولی و عملی شہادت کے لیے کتنی الگ الگ جہتوں سے بڑے بڑے کام ہورہے ہیں۔ دعوت، اصلاح، تربیت اور خدمت ہمارے بنیادی اور لازمی کام ہیں۔ ان کاموں کی اہمیت بھی اس اجتماع سے ان شاء اللہ پوری قوت کے ساتھ ہمارے قلب و دماغ پر نقش ہوگی اور ہمارے سامنے مختلف طریقوں سے نمونے بھی سامنے آئیں گے کہ موجودہ حالات میں کس طرح ان محاذوں پر گراں قدر خدمات انجام دی جارہی ہیں۔ تحریک شو کیس میں بھی ان نمونوں کو اہمیت دی گئی ہے۔
سامعین محترم، یہاں آنے سے پہلے آپ سب نے جماعت کے اجتماعات کی ایمان افروز اور حوصلہ بخش تاریخ پڑھی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی وہ نصیحتیں پڑھی ہیں جو ایسے اجتماعات کے موقعوں پردی جاتی رہی ہیں۔ اس اجتماع کے ماحول کو تقویٰ کا، للہیت کا، خلوص کا، محبت و احترام کا، وقار کا، نظم و ڈسپلن کا مثالی نمونہ بنائے رکھیے۔ اس اجتماع کو اُس مثالی دنیا کا عملی نمونہ بنائیے جو ہم اللہ کے دین کو قائم کرکے برپا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اجتماع پر اپنی رحمتوں کا سایہ کرے اور ہم میں سے ہر ایک کے اندر اور پوری جماعت کے اندر صالح مثبت تبدیلی کا اسے ذریعہ بنائے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2024