سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں جیلوں کی مجموعی تعداد ۱۱۴۰ہے۔ مرکزی جیلوں کی تعداد ۷۰۱ اور دوسرے جیلوں کی ۱۰۳۳۔ دہلی میں واقع تہاڑ جیل کو دنیا کا سب سے بڑا جیل تصور کیا جاتا ہے۔اس جیل میں۶۲۵۰ قیدیوں کو رکھنے کی گنجایش ہے۔ لیکن اپریل ۲۰۰۸کے اعداد و شمارکے مطابق ۱۱۳۰۱قیدی جیل کے اندر موجود ہیں۔ملک کے مختلف جیلوں میں رہنے والے قیدیوں کی تعداد تقریباً ۹۱۵،۶۲،۳ہے۔ملک کے ان مختلف جیلوں میں ہر روز ہزاروں کی تعداد میں قیدی آتے ہیں اورسینکڑوں رہا کیے جاتے ہیں۔
جیل یا قید خانہ حقیقت میں ایک ایسا مقام ہے، جہاں قیدی اپنی زندگی کے قیمتی اور بہترین ایام گزار دیتا ہے۔ جیلوں میں قید ہو کر آنے والوں میں تقریبا ۹۵فیصد لوگ اپنی معینہ سزا کاٹنے کے بعد سماج میں واپس آجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک مجرم جوانی کی عمر میں جیل جاتا ہے اور اس وقت واپس آتا ہے، جب اس کی جوانی بالکل ختم ہو چکی ہوتی ہے یا جب وہ واپس آتا ہے تو سماج میں ہونے والی بتدریج علمی ترقی سے جیل کی زندگی میں محروم رہنے کی وجہ سے وہ سماج سے پچھڑ جاتا ہے۔ اسے جیل سے باہر آجانے کی خوشی کے ساتھ اس بات کا غم اور افسوس بھی رہتا ہے کہ وہ اب زمانے کے ساتھ نہیں ہے۔مجرمانہ ریکارڈ رکھنے کے باوجود قیدیوں کی بڑی تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے، جو کسی نہ کسی حد تک لکھنے پڑھنے کی صلاحیت یا شوق رکھتے ہیں۔ جیل کی تنہائی میں کوئی معقول مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے قیدی کا بیش تر وقت برباد ہوجاتا ہے یا جیل کی فضا اسے افسردگی اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے۔ یہ نہ ہو تب بھی پہلے سے موجود مجرمانہ ریکارڈ والے قیدیوں کے ربط میں رہنے سے اس کا رجحان بھی جرم کی طرف زیادہ ہوجاتا ہے۔ نتیجۃً بیش تر قیدی جیل کے اندر رہتے ہوئے منشیات اور دوسری غیر اخلاقی عادتوں کے عادی بن جاتے ہیں۔ خاص طور سے ہندستانی جیلوں کا ماحول ایک غیر عادی مجرم کو بھی عادی مجرم بنا دیتا ہے۔ ہندستان کے جیلوں میں اس منفی ماحول کو ختم کرنے اور جیلوں کی اصلاح کرنے کے لیے بعض قابل ذکر اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔ان اقدامات کی سب سے بڑی مثال تہاڑ جیل کی سابق انسپکٹر جنرل کرن بیدی کی کوشش ہے۔ انھوں نے اپنے دور میں جیل کی اصلاح کرکے تہاڑ جیل میں علمی اور مذہبی فضا پیدا کر دی تھی۔اس طرح کے اصلاحی اقدامات نے قیدیوں کے لیے جیل میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے اور اوپن اسکولوں سے مختلف قسم کے مراسلاتی کورس مکمل کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ کم عمر اور نوجوان قیدیوں کے لیے یہ اقدامات بہت ضروری اور اہم ہیں۔ اس لیے کہ جیل سے باہر آنے کے بعد ان کے لیے یہ موقع رہتا ہے کہ وہ اپنی تعلیم مزید آگے جاری رکھ سکیں یا سماج کے دوسرے افراد کے شانہ بہ شانہ معاشی تگ و دو کر سکیں۔لیکن جیلوں میں موجود ایسے معمر لوگوں کے لیے جوجوانی کے دور سے گزر چکے ہیں اوررہائی کے بعد اپنا وقت اپنی ذاتی اصلاح و تعمیر کے لیے وقف کرنا چاہتے ہیں ، یہ تعلیمی اقدامات زیادہ مفید نہیں ہو پاتے۔
تنہائی میں کتابوں سے بہترکوئی دوست نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں کے لیے جیل کی لائبریری ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کر سکتی ہے۔لائبریریاں قیدیوں کو نفسیاتی آسودگی فراہم کرتی ہیں اور جیل کے ماحول کے منفی اثرات سے اُنھیںمحفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اچھی لائبریری جیل کی زندگی کو بہتر اور کارآمد طریقے سے گزرنے کا مثبت جذبہ قیدی کے اندر پیدا کرسکتی ہے اور اسے اپنی زندگی تاریک نظر آنے کی بجائے مستقبل میں روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے۔قیدی اگر قید کے دوران میںلائبریری اور کتابوں کی دنیا سے و منسلک رہے تو جیل میں رہتے ہوئے بھی جیل سے باہر کی دنیاسے اس کا ربط رہتا ہے۔ جیلوں کے اندر مقید قیدیوں کو اگر لائبریری یا کتابوں تک رسائی کا موقع نہ حاصل ہو تو وہ جیل سے باہر کی دنیا میں واپس آنے پر ناخواندگی ،ا علی تعلیم سے محرومی، مطلوبہ پیشہ و رانہ صلاحیتوں کے فقدان یا ذہنی بیماری﴿مایوسی ، افسردگی وغیرہ﴾ کی وجہ سے سماج کے لیے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور یہ نئی دنیا ان کے لیے جیل کی زندگی سے بھی بد تر بن کر رہ جاتی ہے۔اس لیے قیدی بھی کتابوں اور لائبریریوں کے اتنے ہی ضرورت مند ہیں جتنے سماج میں آزادی سے رہنے والے لوگ ہیں۔قیدیو ں کی بہت سی ایسی ضرورتیں ہوتی ہیں جو پوری نہیں ہو پاتیں۔ وہ اپنی معلومات بڑھانا چاہتے ہیں ، وہاں رہ کر کچھ سیکھنا چاہتے ہیں یا جرم کی دنیا سے توبہ کرکے اپنی ذاتی اصلاح (Self Improvement) کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام ضرورتو ں کو پورا کرنے میںایک اچھی لائبریری ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
ہندستانی جیل
دنیا کا شاید ہی کوئی جیل ایسا ہو جہاں قیدی اتنی طویل مدت تک رہتے ہوں، جتنی انھیں ہندستانی جیلوں میں گزارنی پڑتی ہے۔مزید ستم یہ ہے کہ ا ن میں سزا یافتہ قیدی بہت کم ہوتے ہیں ۔ زیادہ تعداد،تقریبا۰۶ فیصد ایسے قیدیوں کی ہوتی ہے، جو عدالتی کارروائی سے گزر رہے ہوتے ہیں۔جیل کی یہ طویل مدت کی زندگی قیدی کو جن ذہنی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے، ان سے نجات پانے کے لیے قیدی منشیات کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی قیدی منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس تشویشناک صورت حال کے باوجود صرف ہندستانی جیلیں ہی ایسے ہیں جہاں قیدیوں کی ذہنی و فکری اصلاح کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ بعض غیرسرکاری ادارے اور جماعتیں البتہ قیدیوں کے لیے کتابیں یا دوسری اشیا فراہم کرتی ہیں، لیکن جیل کے عملے میں کرپشن کی وجہ سے بہت سی چیزیںقیدیوں تک پہنچ نہیں پاتی ہیں یا پہنچتی ہیں توضبط کر لی جاتی ہیں۔
امریکا، یوروپ ،﴿خاص طور سے برطانیہ﴾ میں ایک بھی جیل ایسا نہیں ہے جہاں قیدیوں کے لیے لائبریری کا معقول نظم نہ ہو۔ ایک ادارہ قیدیوں کی تعلیم و رہ نمائی سے متعلق Offenders Learning And Skills Unit کے نام سے قائم ہے، جس کا ہدف ہے کہ ہرجیل میں ایک لائبریری ہونی چاہیے اور قیدی کسی بھی نوعیت کا ہو، اس کو لائبریری میں آنے اور اس سے استفادہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔اس ادارے کا مقصد زیر حراست مجرموں کو وہ تمام سہولتیںاسی سطح پر مہیا کرانا ہے، جس سطح پر جیل سے باہر کے لوگوں کوحاصل ہیں اورجن سے فائدہ اٹھا کر وہ رہائی کے بعد سماج میں میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔یہ ادارہ نیشنل آفینڈرس منیجمنٹ سروس(National Offendrs Management service)کی ایک اکائی کے طور پر کام کرتا ہے۔ اِس کا مقصد مجرموں کے لیے دوبارہ جرم کرنے کے محرکات کو کم سے کم کرنے کی کوشش ہے۔ اس مقصد کے لیے ادارہ لائبریری کو سب سے بہترین ذریعہ سمجھتا ہے۔ عملی تجربہ بھی اس خیال کی تائید کرتا ہے۔اسی ادارے نے اپنے ایک ڈرافٹ The Offenders Library, Learning and Information Specification -2005 میں بتایا ہے :
’’یہ بات عام طور پر تسلیم شدہ ہے کہ مجرموں کے لیے لائبریری اپنی تعلیمی اور معلوماتی خدمات کے ذریعے صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا بنیادی اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ جیلوں میں لائبریری خدمات بہم پہنچانا اس ادارے کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔‘‘﴿ص:۴﴾
آسٹریلیا میں بھی حکومت کی جانب سے جیلوں میں لائبریری کی سہولتیں برسوں سے فراہم کی جارہی ہیں۔آسٹریلین لائبریری اینڈ انفارمیشن ایسوسی ایشن(ALIA) نے جیل لائبریری کی ضروریات و مقاصد اور ان کے نظم و انصرام سے متعلق درج ذیل ہدایات دی ہیں:
۱-جیل لائبریریوں کا مقصد قیدیوں کی تفریحی ، تعلیمی اور دوسری معلوماتی و علمی ضروریات کی تکمیل اور انھیں ایسی معلومات فراہم کرنا ہے، جو ان کو سماج میں اپنی زندگی نئے سرے سے گزارنے میں معاون ہوں۔
۲-کسی بھی جیل یا اس کے مماثل ادارے میں، جس میں اوسطاً ۵۲ یا اس سے زیادہ قیدی رہ رہے ہوں ، ایک ایسی لائبریری ہونی چاہیے جو قیدیوں کے لیے مخصوص ہو۔ یہ لائبریری لوکل پبلک لائبریری کے معیار کی ہونی چاہیے۔
۳-بہت ہی چھوٹا جیل ہونے کی صورت میں قیدیوں کو لائبریری کا مناسب متبادل فراہم کیا جانا چاہیے، جس سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کر سکیں۔ یہ متبادل لوکل پبلک لائبریری تک جانے کی اجازت ، جیل میں موبائیل لائبریری کی آمد ورفت یا معینہ مدت کے لیے کسی لائبریری کے ذریعے جیل میں کتابیںفراہم کرنے کی شکل میں ہو سکتا ہے۔
امریکا میں قیدیوں اور جیل لائبریریوں تک کتابیں پہنچانے کا کام ایک رفاہی ادارہ بُکس تھرو بارس(Books Throgh Bars)انجام دیتا ہے۔ یہ ادارہ مختلف ناشرین کے تعاون سے امریکا اور کینڈا کے جیلوں میں مفت کتابوں کی فراہمی کا نظم کرتا ہے۔ اسی طرح کا ایک ادارہ ’جیل لائبریری پروجیکٹ‘۳۷۹۱ سے جیل لائبریریوں کو کتابیں فراہم کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز(IFLA)بین الاقوامی سطح کا معروف ادارہ ہے، جو پوری دنیا میں لائبریری اور لائبریری سے متعلق امور کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس کا قیام۱۹۲۷میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت دنیا کی بڑی بڑی لائبریریاں اس کی ممبر ہیں۔ ۰۲تا ۸۲اگست ۹۹۹۱ میں بینک کاک میں اس کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی ۔ اس میں جیل لائبریریوں سے متعلق بھی ایک مقالہ پیش کیا گیا تھا۔یہ مقالہ امریکا، کینڈا اور مغربی یوروپ میں جیل لائبریریوں کی صورت حال پر مشتمل تھا۔ اس مقالے کے مطابق ان ممالک میں بیش تر جیلوں میں انتہائی منظم لائبریریاں ہیں جن کی حیثیت کسی پبلک لائبریری سے کم نہیں ہے۔صرف امریکا کی مختلف جیلوں میں ایسی ۹۰۰ منظم لائبریریاں ہیں۔
مطالعہ قیدیوں کابنیادی حق ہے
قیدی اگرچہ آزادی سے محروم ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجودچوںکہ وہ انسان ہے اس لیے اسے بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں۔ قیدیوں کے حقوق کے لیے جد جہد کرنے والوں کا یہ مشاہدہ ہے کہ جیلوں میں عام طور پر قیدیوں کو ابتدائی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ عزت و آبرو کی حفاظت، خوراک اور طبی سہولتوں کی فراہمی،مذہبی عبادات کی ادائی کے علاوہ اظہار رائے اور مطالعے کی آزادی بھی ان کا بنیادی انسانی حق ہے، جس سے انھیں جیل کے اندر بھی محروم نہیں کیا جا سکتا۔
ہندستانی جیلوں میں لائبریری
ہندستانی جیلوں کے بارے میں مجموعی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہاں کے جیلوں میںاچھی لابریری قائم کرنے کا باقاعدہ نظم نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی اسیی کوئی تجویز زیر غور یا زیر عمل نہیں ہے۔البتہ بعض جیلوں میں متعلقہ عہدے دارون نے اپنے طور پر کوشش کرکے اس طرح کا نظم کیا ہے۔ لیکن یہ نظم بھی ابتدائی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ تہاڑ جیل کی سابق انسپکٹر جنرل کرن بیدی نے اپنے زمانے میں جو اصلاحات کی تھیں، ان کے نتیجے میں تعلیم اور لکھنے پڑھنے کا ماحول پیداہوا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اس جیل میں تقریباً ۵۲عددچھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم ہو گئی تھیںاوربہت سے تعلیمی ادارے، ناشرین اور تنظیمیں وغیرہ ان لائبریریوں کے لیے کتابیں بطور عطیہ پیش کرتی تھیں۔اس سلسلے میں دہلی پبلک لائبریری سے بھی تعاون حاصل کیا گیا اور چلتے پھرتے کتب خانے (Moblie Libraries)قائم کیے گئے۔تہاڑ جیل کی ویب سائٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاںہر جیل میں اب بھی ایک لائبریری قائم ہے۔ لیکن ان لائبریریوں میں ناول اور افسانوں کی کتابوں کے علاوہ دیگر کارآمد کتابیں محض برائے نام ہی ہیں۔
اسی طرح امرتسر جیل میں بھی گزشتہ دو برسوں کے اندر کچھ اچھی تبدیلیوں کے نتیجے میں پڑھنے لکھنے کا ماحول بنا ہے۔ ایک لائبریری بھی قائم کر دی گئی ہے۔انڈومان نکوبار جیل میںکبھی قیدیوں کو اخبار تک پڑھنا نصیب نہیں ہوتا تھا، لیکن اب انھیں اخبارات، کتابیں اور رسالے فراہم کیے جانے لگے ہیں۔ایک لائبریری بھی قائم ہے۔ لیکن ملک کے ۱۱۴۰ جیلوں میں محض چند لائبریریوں کا قیام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جن جیلوں میں لائبریریاں قائم بھی ہیں، وہ بھی تفریحی کتابوں کے کلیکشن تک ہی محدود ہیں۔ مختلف موضوعات پر کتابیں،خاص طور سے قانونی کتابیں (Legal Books)، جن کے ذریعے قیدی اپنے حقوق سے واقف ہو سکیں ، جیلوں میں ممنوع ہیں۔ گوا جیل کے قانون ﴿۱۹۶۸﴾کی دفعہ﴿۶﴾۷۱کی رو سے جیل کے عہدے داروں کو اس بات کا مطلق اختیار حاصل ہے کہ وہ قیدیوں کو کسی بھی کتاب کے مطالعے سے باز رکھ سکتے ہیں۔ بلکہ وہ چاہیں تو کتاب انھیں کسی بھی ذریعے سے حاصل ہی نہ ہونے دیں۔ خواہ وہ کتاب قید ی کے لیے کتنی ہی مفید کیوں نہ ہو۔۱۹۹۸میں ایک خاتون وکیل کیرولین کولاسو(Caroline Collasso)نے اس دفعہ کے خلاف عدالت میں اپیل بھی دائر کی تھی، جس کے بعد بمبئی ہائی کورٹ کی پاناجی برانچ نے جیل میں ایسی اصلاحات نافذ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا، جن سے قیدیوں کے حالات بہتر بنائے جا سکیں۔۱۹۹۸ میں انڈین ایکسپریس نے ان حالات کے سلسلے میں ایک فیچر شائع کیا تھا اور بتایا تھا کہ جیل میں ایک شخص سدھیر شرما کو کتابیں پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ہندستانی جیلوں میں قیدیوں کو ایسی کتابیں پڑھنے سے خاص طور سے روکا جاتا ہے، جو قیدیوں کے حقوق سے بحث کرتی ہیں۔اس کی دلیل اگواڈا جیل کے سپرنٹنڈنٹ بی ایس ماشیلکر یہ دیتے ہیں:قیدیو ں کے حقوق سے متعلق کتابیں پڑھنے کے بعد قیدی جیل میں ہنگامی صورت حال پیدا کر سکتے ہیں جس سے جیل کی سیکوریٹی اور نظم و نسق متاثر ہوسکتا ہے۔
﴿انڈین ایکسپریس ۲۹/اکتوبر۱۹۹۸﴾
یوروپی اور امریکی جیلوں میں لائبریری کے کامیاب تجربات اور ان سے حاصل ہونے والے فائدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے انڈین لائبریری ایسوسی ایشن اور حکومت ہند کو جیلوں میں لائبریریوں کے قیام پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ۔اس کام کے فائدوں کو محسوس کرتے ہوئے اسے ایک بڑے پروجیکٹ کے تحت انجام دینا چاہیے تاکہ جیلوں میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارنے والے افراد جب رہا ہو کر سماج میں واپس آئیں تو انھیں احساس کمتری، کم علمی یا علمی بے مایگی کا احساس نہ ہو اور اپنی زندگی کو مثبت انداز سے گزارنا ان کے لیے نا ممکن نہ ہوجائے۔ اس کام میں ملک کی غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں NGOsکو بھی آگے آنا چاہیے ۔
اس سلسلے میں ایک کو شش ۹۵۹۱ میں مدراس میں ہوئی بھی تھی۔ ہندستان میں لائبریری سائنس کے بابا آدم سمجھے جانے والے ماہر فن جناب ایس۔ آر۔رنگاناتھن کی صدارت میں مدراس لائبریری ایسوسی ایشن نے لوکل لائبریری اتھارٹی سے دخواست کی تھی کہ وہ مقامی جیلوں کا معائنہ کرکے وہاں لائبریری سروس قائم کرنے کا انتظام کرے۔لیکن اس کے بعد شاید کسی دوسری ریاست میں با قاعدہ اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔چنانچہ اب ایسے باقاعدہ اقدامات ناگزیر ہیں۔
یہ کوشش بھی ہونی چاہیے کہ جیل میں رہنے والو ں کے لیے لائبریریاں ایک مکمل معلوماتی سینٹربن جائیں۔ محض درسیاتی کتابوں یا تفریحی لٹریچر تک ہی ان کا کلیکشن محدود نہ ہو۔ قانونی، ادبی، تاریخی اور فنی و تکنیکی کتابوں کے علاوہ مذہبی و اخلاقی لٹریچر بھی بڑی تعداد میں رہنا چاہیے ۔تاکہ قیدیوں کی اصلاح میں مدد مل سکے۔ ایک کوشش یہ بھی ہو کہ کتابیں تمام اہم ملکی زبانوں میں ہوں۔کیوں کہ ہر جیل میں ہر زبان بولنے والے قیدی موجود ہوتے ہیں۔امید ہے کہ ذمہ داران حکومت اور سماجی کارکنان اس جانب توجہ کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2010