اسلامی تحریک کے وقار کی حفاظت

سوشل میڈیا پر گفتگو کے تناظر میں

 اسلامی تحریک ملک و ملت کے لیے بڑی نعمت ہے۔ وہ تحریک اسلامی جماعت و تنظیم کی شکل میں ہو، اسلامی مرکز کی شکل میں ہو یا میدان عمل میں سرگرم اسلامی شخصیت اور اس کے حلقہ وابستگان کی شکل میں ہو۔

 اسلامی تحریک عام انسانی سماج کے لیے رحمت کا پیغام ہے۔ وہ بندوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی راہ دکھاتی ہے، انسان کی عزت وشرف کے لیے جدوجہد کرتی ہے، زمین کی تعمیر و تزئین کا اعلی تصور پیش کرتی ہے، انسانوں کو ان کے حقیقی مسائل اور ان کے درست حل کی طرف متوجہ کرتی ہے اور دونوں جہاں میں کام یابی کا راستہ دکھاتی ہے۔

 اسلامی تحریک مسلم امت کو غفلت سے بیدار کرتی ہے، اسے اس کی منصبی ذمے داری یاد دلاتی ہے، مشکل حالات میں اسے حوصلہ دیتی ہے، روشنی بن کر اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے، صحیح حکمت عملی اور درست رہ نمائی کا مشکل کام اپنے ذمے لیتی ہے، دین کا صحیح تصور پیش کرتی ہے،انحراف کی طرف امت کے قدم بڑھیں تو روکتی ہے، امت پر فکری و تہذیبی یلغار ہو تو اس کے سامنے آہنی دیواربن جاتی ہے، امت کے کرنے کے بہت سے کام آگے بڑھ کر خود کرتی ہے، تعلیمی بیداری، معاشی ترقی، سماجی بہتری اور سیاسی شعور بڑھانے میں حصہ لیتی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اسلامی تحریک اس وقت امت کی قیادت کرتی ہے، جب امت قیادت کے فقدان سے بری طرح جوجھ رہی ہوتی ہے۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ خلافت راشدہ کے بعد جب مسلم امت قیادت کے بحران سے گزر رہی تھی، تو بصرہ کے عوام نے وقت کے بہت بڑے عالم حضرت حسن بصری ؒ کو اپنا قائد و سردار تسلیم کرلیا تھا۔ انھیں قائد بنانے کی بنیاد یہ تھی کہ وہ ان کی رہ نمائی کا حق ادا کرتے تھے، اس کے باوجود کہ وہ غلام خاندان سے تھے۔ بیان کیا جاتاہے کہ کچھ لوگوں کا بصرہ سے گزر ہوا۔ انھوں نے بصرہ والوں سے پوچھا: تمہارا سردار کون ہے؟ انھیں جواب ملا : حسن ہمارے سردار ہیں۔ انھوں نے حیرت سے پوچھا: وہ کس بنا پر تمہارے سردار بنے؟ جواب ملا: ہم ان کے علم کے محتاج ہیں اور وہ ہماری دنیا سے بے نیاز ہیں۔ اسلامی تحریک بھی شعور و آگہی اور بے لوثی و بے نیازی کے ساتھ امت کی قیادت کا فریضہ انجام دینے کے لیے وجود میں آتی ہے۔

 قدر شناسی کا تقاضا ہے کہ ملک و ملت کے تمام افراد اسلامی تحریک کی قدر کریں اورفرض شناسی کا تقاضا ہے کہ ملک و ملت کے تمام افراد اس کےمشن میں شریک ہوجائیں، کیوں کہ یہ مشن تمام بندوں کا بنیادی فریضہ ہے۔ غرض اسلامی تحریک کے دست و بازو مضبوط کرنا اور اس کے وقار کی حفاظت کرنا ان تمام مردوں اور عورتوں کی ذمے داری ہے، جو زمین میں بگاڑ کو ناپسند کرتے ہیں اور اصلاح کی اہمیت پر یقین رکھتے ہیں۔

 کردار کی بلندی سے وقار قائم ہوتا ہے

 اسلامی تحریک کا مقصد بہت بلند ہوتا ہے۔ اس کے افراد کا کردار بھی اتنا ہی بلند ہونا چاہیے اور اس تحریک کی شان بھی بہت اونچی ہونی چاہیے۔جس طرح چراغ راہ اور منارہ نور بلندی پررہ کر دور تک راہ روشن کرتے اور بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتے ہیں، اسلامی تحریک کی جڑیں سماج میں پیوست ہوں اور اس کا قد بلند رہ کر پورے انسانی سماج کی رہ نمائی کا کام کرے۔تحریک کی بے لوث جدوجہد اسے سماج میں وقار عطا کرے اور قابلِ اعتماد بنائے۔ اسلامی تحریک کا وقار و اعتماد انسانی سماج کا قیمتی سرمایہ ہے، اس سرمایے کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

 خرم مرادؒ اسلامی تحریک کےتعلق سےاپنے احساسِ ذمے داری کو بڑے حسین پیرائے میں بیان کرتے ہیں:

 ‘‘جماعت اسلامی میرے نزدیک ایک مسجد کی طرح محترم ہے۔ اس کی کسی اینٹ کا بھی سرکانا یا اس میں دراڑ ڈالنا ایسا کام ہے، جس کی ذمہ داری نہ میں نے پہلے کبھی لی ہے اور نہ اب لینا چاہوں گا۔ عمر بھر یہی کوشش کرتا رہا ہوں کہ جماعت کو اگر کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں تو کم از کم میری ذات سے، میرے کسی قول اور فعل سے اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔’’ (لمحات ص ۲۹، ۳۰)

 خرم مراد کی یہ بات ذرا بھی تعجب خیز نہیں ہے۔ اسلامی تحریک سے محبت اور اس کا احترام اسی درجے کا ہونا چاہیے۔

 اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی اور اپنی جماعت کی شبیہ بچانے کو خاص طور سے پیش نظر رکھا۔

 حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ وہ مہم پر نکلے ہوئے تھے، مہاجرین اور انصار کے درمیان کچھ کہا سنی ہوگئی، اللہ کے رسول ﷺ نے دونوں کو سمجھایا کہ جاہلیت کے بڑ بول چھوڑ دو یہ بدبودار چیز ہے۔ اس پر منافقوں کے سرغنہ عبداللہ بن ابی نے سخت نازیبا بات کہی کہ جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو جو زبردست ہوگا وہ ذلیل کو نکال باہر کرے گا۔ یہ بات اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچی، حضرت عمرؓ نے کہا: اللہ کے رسول، اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑادوں۔ نبی کریم ﷺ نے کہا: جانے دو، لوگ یہ باتیں نہ کریں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ (بخاری)

 سیرت کی کتابوں میں اس کے علاوہ بھی کچھ واقعات ملتے ہیں، جب اللہ کے رسول ﷺ نے یہ کہہ کر منافقوں کو قتل کرنے سے روک دیا کہ لوگوں کو آپ کی شبیہ خراب کرنے کا موقع نہ مل جائے۔

 تحریک سے زیادہ قیادت نشانے پر ہوتی ہے

 اسلامی تحریک خدائی تعلیمات کی ٹھوس اور محکم بنیادوں پر تشکیل پاتی ہے۔ اس لیے اس کے مقصد و نصب العین اور طریقہ کارکو نشانہ تنقید بنانا اور اس حوالے سے تحریک کی ساکھ کو نقصان پہنچانا آسان کام نہیں ہے۔

 لیکن تحریک کی قیادت چوں کہ انسانوں پر مشتمل ہوتی ہے اور انسانوں میں بہت سی کم زوریاں ہوتی ہیں، اس لیے کیڈر اور قیادت پر نشانہ سادھنے کے بہت سے مواقع ہاتھ آتے ہیں۔

 یہ بات اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ اسلامی تحریک پر حملہ زیادہ تر قیادت کے حوالے سے ہوتا ہے۔ مقصد تو تحریک کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے مگر ضرب قیادت پر لگائی جاتی ہے۔ اس لیے جو حسّاسیت تحریک کے وقار کو لے کر پائی جاتی ہے، ویسی ہی حسّاسیت قیادت کے وقار کو لے کر بھی رہنی چاہیے۔

 باوقار تحریک کی پر وقار قیادت

 یہ کھلی ہوئی غلط فہمی ہے کہ قیادت الگ چیز ہے اور تحریک الگ چیز ہے، اور یہ کہ ضروری نہیں ہے کہ قیادت کے مجروح ہونے سے تحریک بھی مجروح ہوجائے۔ قیادت تحریک کا چہرہ ہوتی ہے، وہ تحریک کی آواز ہوتی ہے، وہ تحریک کے تعارف کا سب سے نمایاں ذریعہ ہوتی ہے۔ اس کی ساکھ گرتی ہے تو پوری تحریک کی ساکھ گرتی ہے۔ اس لیے ایک طرف قیادت کو بہت زیادہ محتاط اور باعزیمت رہنا چاہیے اور دوسری طرف قیادت کے تئیں دوسروں کا اور خاص طورسے افرادِ تحریک کا رویہ عزت واحترام کا ہونا چاہیے۔

 اخوان المسلمون کے قائد اول امام حسن البنا کے خلاف کچھ لوگوں نے شورش برپا کی۔ اس موقع پر شیخ حامد عسکریہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا: ‘‘ان میں ذرا بھی خیر نہیں ہے، یہ تحریک کی بلندی کا ادراک کھوبیٹھے ہیں اور قیادت کی اطاعت پر ان کا یقین نہیں رہا۔ جو شخص ان دو باتوں سے ہاتھ دھوبیٹھا ہو اس کا ہماری صف میں کوئی کام نہیں ہے۔’’(مذكرات الدعوة والداعیة)

 قائد و مربی کی تکریم و احترام کے بارے میں سید قطب لکھتے ہیں:

‘‘ مربی کا وقار دل میں ہونا ضروری ہے۔قائد کی عظمت کا احساس لازم ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ قائد و مربی خود خاکساری پسند ہو، ملنسار اور نرم مزاج ہو اور یہ بالکل دوسری بات ہے کہ لوگ یہ فراموش کردیں کہ وہ ان کا مربی و قائد ہے اور اس سے اسی طرح مخاطب ہوں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں۔ تربیت پانے والوں کے دل میں مربی کا خاص مقام ہونا چاہیے، ان کے شعور کی گہرائی میں اس کا مقام ان کی اپنی ذات سے بلند رہے اور اس احساس کے ہوتے انھیں اس کے سامنے ادب کی حدیں توڑتے ہوئے شرم آئے۔ ’’(فی ظلال القرآن)

 سوشل میڈیا کا نجوی زیادہ خطرناک ہے

 اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے لیے نجوی کا استعمال ہوتا تھا۔ جھوٹی باتیں گھڑ کرکے، یا صورت واقعہ کو بگاڑ کرکے ایک کان سے دوسرے کان تک باتوں کو منتقل کیا جاتا تھا۔ اس کے لیے بڑی محنت درکار ہوتی تھی۔ ایک دوسرے سے تنہائی میں ملاقات کرنی ہوتی تھی۔ پردہ فاش ہوجانے اور جھوٹ پھیلانے والے کی شناخت ظاہر ہوجانے کا ہمیشہ ڈر لگارہتا تھا۔

 جدید ٹکنالوجی نے نجوی کے عمل کو بہت آسان کردیا ہے۔ دور دور رہنے کے باوجود اور اپنی شناخت کو فرضی پروفائل کے پیچھے چھپاکر جھوٹ اور دروغ کو آسانی سے پھیلایا جاسکتا ہے۔

 اسلامی تحریک اور اس کی قیادت سے محبت کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس قسم کی نجوی کے تعلق سے محتاط رہیں اور بے شعوری میں اس کا حصہ نہ بن جائیں۔ یاد رہے کہ مدینہ میں جب منافقین نجوی کے ذریعے پروپیگنڈا پھیلاتے تھے تو بعض سچے مسلمان بھی نادانستہ اس کا حصہ بن جاتے تھے۔

 سنسنی خیز باتوں کو آگے بڑھاناعام انسانی کم زوری ہے۔ نجوی کے عمل میں اس انسانی کم زوری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا میں یہ کم زوری بڑی شدت کے ساتھ استعمال میں آتی ہے۔ کوئی نامعلوم فرد کسی گروپ میں اسلامی تحریک یا اس کی قیادت کے بارے میں کوئی سنسنی خیز پوسٹ ڈال دیتا ہے اور لوگ مزے لیتے ہوئے اسے دوسرے گروپوں میں بھیجتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس پوسٹ میں کس کا وقار مجروح کیا جارہا ہے اور اس میں شریک ہونا کتنا بڑا جرم ہے۔

 اپنی تحریک کو غیبت سے بچائیں

 اسلامی تحریک کے وقار کو نقصان پہنچانے والی سب سے خطرناک چیز غیبت ہے۔ یہ وہ دھیما زہر ہے جو آہستہ آہستہ تحریک کی ساکھ کو بگاڑتا جاتا ہے۔

 یہ زہر مخالفین سے زیادہ، تحریک کے اپنے متعلقین اور خیرخواہوں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ بعض لوگ بدگمانیوں کا شکار ہوتے ہیں، پھر وہ دوسروں کو ان بدگمانیوں میں شریک کرتے ہیں۔ اس طرح بدگمانی کی قبیح بیماری غیبت کے قبیح تر مرض میں تبدیل ہوجاتی ہے۔گفتگو کی مجلسوں میں تحریک کے افراد اور قیادت پر تیز و تند تبصرے ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت پر طنز کسےجاتے ہیں۔ ان کی نیتوں پر حملے ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ مختلف افراد کے درمیان موازنہ کرکے کسی کو اوپر اٹھایا تو کسی کو نیچے گرایا جاتا ہے۔

 بدگمانی اور غیبت و بہتان کی یہ مجلسیں پہلے چھوٹے پیمانے پر ہوتی تھیں۔ سوشل میڈیا نے غیبت کے عمل کو وسیع تر کردیا ہے۔ غیبت کی مجلسوں میں لوگ دور دور رہ کر شریک ہوتے ہیں اور وہاں بیان کی جانے والی برائیوں کو بڑے پیمانے پر نشر کرتے ہیں۔

 غیبت چھوڑیں نصیحت کا راستہ اختیار کریں

 غیبت وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی غلطیوں سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ جو لوگ اصلاح چاہتے ہیں وہ پیٹھ پیچھے برائی بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ سامنے جاکر نصیحت کرتے ہیں۔

 غیبت اور نصیحت دونوں بالکل جداگانہ راستے ہیں۔ غیبت کرنے والوں کو اس سے ذرا مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ جس کم زوری کا ذکر کررہے ہیں وہ حقیقت میں پائی جاتی ہے یا نہیں۔ غیبت کرنے والوں کے اندر یہ خواہش بھی نہیں ہوتی ہے کہ وہ جس کی برائی بیان کررہے ہیں اس کی اصلاح ہوجائے۔بلکہ برائیوں کے ہونے سے ہی تو انھیں غیبت سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے غیبت کی مجلس سے اٹھ کر اگر کوئی شخص متعلقہ فرد کے پاس نصیحت کرنے پہنچ جائے تو انھیں یہ بات غیبت کے آداب کے خلاف لگتی ہے۔

 جو لوگ برائی سے نفرت کرتے ہیں وہ کسی شخص کی برائی کو دیکھ کر اس کی اصلاح کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ کبھی غیبت کا راستہ اختیار نہیں کرتے ہیں، کیوں کہ اس طرح تو وہ خود ایک بڑی برائی میں ملوث ہوجائیں گے۔ برائی کی اصلاح کا راستہ نصیحت کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔

 رفقائے تحریک میں یا تحریک کی قیادت میں کسی برائی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کرنا بھی غلط رویہ ہے۔ کیوں کہ اگر تحریک میں کوئی برائی یوں ہی چھوڑ دی جاتی ہے تو وہ امر بیل کی طرح بڑھتی، پھیلتی اور پوری تحریک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس طرح تحریک کا وقار ہی مجروح نہیں ہوتا ہے، تحریک کی جڑیں بھی سوکھنے لگتی ہیں۔

 تحریک کو ہر نقصان سے بچانے والا بہترین رویہ نصیحت کا ہے۔ اسے قرآن میں تواصی بالحق کہا گیا ہے۔ یعنی ہر شخص دوسرے شخص کو نصیحت کرے اور خود کو کی گئی نصیحت پر کان دھرے۔ نصیحت اور فضیحت میں فرق ہے۔ نصیحت بڑی دھیمی آواز میں دل سے دل میں پہنچائی جاتی ہے، جب کہ فضیحت کے لیے شہر کا بڑا چوراہا یا سوشل میڈیا کا بڑا گروپ تلاش کیا جاتا ہے۔

 پرسنل پر توجہ دلانے کو اپنا شیوہ بنائیں

 سوشل میڈیا میں گروپ کو مخاطب کرنے کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ جوبات پرسنل پر ہونی چاہیے وہ بھی گروپ پر کی جاتی ہے۔بعض لوگوں کو افراد کی غلطی کی طرف برسرعام متوجہ کرنے کا چسکہ لگ جاتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھوں نے کسی کی غلطی کا جو انکشاف کیا ہے، اس کی گونج دور تک بہت سے گروپوں میں سنائی دے۔ اس کے لیے وہ اپنی بات کو جھوٹ کی آمیزش سے سنسی خیز اور نمک مرچ ڈال کر چٹخارے دار بناتے ہیں۔ اس طرح کبھی چھوٹی بات کا اور کبھی بے بات کا بتنگڑ بنتا ہے۔

 اللہ کے رسول کی تربیت کا فیض تھا کہ صحابہ کرام اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کون سی باتیں متعلق فرد کو تنہائی میں بتانے کی ہیں، برسر عام کہنے کی نہیں ہیں۔

 حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو ایک مرتبہ ایسا محسوس ہواکہ اللہ کے رسول ﷺ سے کچھ بھول ہورہی ہے۔ انھوں نے سب کے سامنے اپنا احساس نہیں رکھا۔ بلکہ چپکے سے اللہ کے رسول ﷺ کےکان میں اپنی بات رکھی۔

 حضرت سعدؓ اپنا واقعہ اس طرح سناتے ہیں: ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ لوگوں کو نوازا اور انھی میں سے ایک صاحب کو کچھ نہیں دیا۔ جب کہ میں ان صاحب کی دین داری سے سب سے زیادہ متاثر تھا۔ میں اٹھ کر اللہ کے رسول کے پاس گیا، اور چپکے سے کہا: آپ نے فلاں صاحب کو کچھ نہیں دیا، اللہ کی قسم میرا خیال تو یہ ہے کہ وہ ایمان والے ہیں۔ یہ کہہ کر میں کچھ دیر تک تو خاموش رہا، مگر ان صاحب کے بارے میں میری واقفیت نے پھر مجھے مجبور کیا اور میں نے دوبارہ آپ سے وہی بات کہی، اسی طرح تیسری بار یہی بات کہی۔ تب پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں کسی شخص کو مال و زردیتا ہوں، جب کہ اس سے زیادہ جو مجھے محبوب ہوتا ہے،اسے نہیں دیتا۔ میرے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ کہیں وہ اس مال کے فتنے میں گرفتار ہوکر جہنم میں اوندھے منھ نہ ڈال دیا جائے۔ (بخاری)

 اس واقعہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کے ذہن میں اشکال آیا، اس نے چپکے سے ذاتی رابطے کے ذریعے وضاحت چاہ لی اور اشکال دور ہوگیا، اس کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ جب کہ یہ اشکال اگر چرچے میں آجاتا تو وضاحت کرنے کے باوجود اس کا کہیں نہ کہیں اثر باقی رہتا۔

 چپکے سے بات کرنے کا ایک اور ذرا مختلف نوعیت کا واقعہ ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے طریقے کے مطابق کچھ مال تقسیم کیا، تو انصار کے ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں تھی۔ میں نے دل میں ٹھان لیا کہ اللہ کے رسول سے جاکر یہ بات بتاؤں گا۔ میں آپ کے پاس آیا، تو آپ اپنے صحابہ کے درمیان تھے، میں نے چپکے سے آپ سے وہ بات بتادی۔ نبی کریم ﷺ پر وہ بات بہت شاق گزری۔ آپ کو غصہ آیا اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ میں نے سوچا کاش میں نے آپ کو وہ بات نہیں بتائی ہوتی۔ پھر آپ نے فرمایا: موسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی تھی پھر بھی انھوں نے صبر کیا تھا۔ (بخاری)

 ان دونوں واقعات میں بڑا سبق ہے۔ منفی باتوں کا چرچا اپنے آپ میں تحریک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک غلط بات کا جنم ہوتا ہے، پھر اس کا چرچا ہوجاتا ہے۔ تحریک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ بعد میں وہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات سب تک نہیں پہنچ پاتی ہے اور غلط بات کے پھیل جانے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی نہیں ہوپاتی۔

 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی منفی بات کہی گئی اور وہ ایک چھوٹے سے گروہ تک محدود رہی، اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ وہیں سمٹی رہے گی، لیکن اگر اسے برا بتانے کے لیے سہی، دوسری مجلسوں میں ذکر کیا جائے تو وہ پھیل جائے گی۔

 اگر تحریک کے خیرخواہ افراد ایسی باتوں کی تشہیر میں شامل ہونے کے بجائے شروع ہی سے اسے محدود سے محدود تر دائرے میں رکھنے کی کوشش کریں تو تحریک کو بہت سے زخموں سے راحت مل سکتی ہے۔

 سوشل میڈیا پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی دیوار پر تحریک یا تحریک کی قیادت سے متعلق بے سروپا تہمتوں پر مشتمل پوسٹ جاری کرتا ہے۔ اس کی دیوار کو پڑھنے والے چند افراد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن تحریک کا کوئی خیرخواہ اس کی تردیدکے ارادے سے اس کی پوسٹ پر کمنٹ کرتا ہے اور اس کمنٹ کی وجہ سے اس پوسٹ کی رسائی بہت لوگوں تک ہوجاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حکمت عملی میں سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں کے لیے عمدہ رہ نمائی ہے۔

 تنقید ضروری ہے، مگر تنقید کا اعلان ضروری نہیں ہے

 ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت اسامہؓ سے کہا: کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ فلاں (بعض روایات میں وضاحت ہے کہ حضرت عثمانؓ) کے پاس جاتے اور ان سے بات کرتے (ان کے طریقہ حکومت کی غلطیاں ان پر واضح کرتے اور انھیں امور خلافت کے سلسلے میں صحیح مشورے دیتے)۔ حضرت اسامہؓ نے کہا: تم لوگ سمجھتے ہو کہ اگر میں تم کو سنا نہیں رہا ہوں تو میں ان سے بات ہی نہیں کرتا ہوں۔ دراصل میں ان سے تنہائی میں بات کرتا ہوں، اس کے بجائے کہ میں وہ دروازہ کھول دوں کہ جسے سب سے پہلے کھولنے کا الزام میرے سر آئے۔ (بخاری، فتح الباری)

 تحریک افراد کا مجموعہ ہے اور قیادت تحریک میں موجود افراد سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ افراد غلطیوں سے پاک نہیں ہوتے، خواہ وہ قیادت میں ہوں یا قیادت سے باہر۔ ان کی غلطیوں کی اصلاح صحت مند تنقید کے ذریعے بہتر طور پر ہوتی ہے۔ اس لیے قیادت پر تنقید کو ہرگز برا نہیں سمجھنا چاہیے۔ قیادت کو بھی وسعت ظرفی اورخندہ پیشانی کے ساتھ تنقیدوں کو سننا اور انھیں وزن دینا چاہیے۔ البتہ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ متعلق فرد یا پلیٹ فارم تک اپنی بات پہنچادینے سے تنقید و اصلاح کی ذمے داری ادا ہوجاتی ہے۔ تنقید کا ڈھنڈورا پیٹنا اور ساری دنیا میں اس کا اعلان کرنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری اور غیر مفید عمل ہے، بلکہ اس کا راست نقصان تحریک کو پہنچتا ہے۔ تنہائی میں کی جانے والی تنقید سےتحریک کو قوت پہنچتی ہے۔ علانیہ تنقیدوں سے تحریک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔

 یہ خونی سازش ہوسکتی ہے، ہوشیار رہیں

 عبداللہ بن عکیم جہنیؒ کے احساس ندامت میں اسلامی تحریک کے ہر فرد کے لیے نصیحت کا سامان ہے۔ وہ حضرت عثمانؓ سے محبت کرتے تھے، لیکن حضرت عثمانؓ کی خلافت کے زمانے میں انھوں نے کسی مجلس میں ان کی کم زوریوں کا تذکرہ کیا تھا۔ بعد میں جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو وہ اپنے آپ کو بہت ملامت کیا کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے کہا : میں عثمان کے بعد کسی خلیفہ کے قتل میں ساتھ نہیں دوں گا۔ لوگوں نے پوچھا : کیا آپ نے سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں کا ساتھ دیا تھا؟ انھوں نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ کسی آدمی کی خامیوں کو بیان کرنا اس کے قتل میں ساتھ دینا ہے۔ (تاریخ کبیر للبخاری، تہذیب التہذیب)

 اسلامی تحریک اور اس کی قیادت بے شمار مخالفوں کے نشانے پر ہوتی ہے۔ وہ موقع کی تاک میں اور ذرا سی بات کا بتنگڑ بنانے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر تحریک کے اپنے خیرخواہ بھی اپنی مجلسوں میں غیر ذمے دارانہ تبصرے کریں گے اور سوشل میڈیا پر تحریک اور تحریکی قیادت کے خلاف لکھی جانے والی تحریروں کو پھیلانے کا کام کریں گے، تو کہیں کل انھیں بھی اپنے دامن پر اسلامی تحریک کے خون کی چھینٹیں نہ ملیں۔ دانائی یہ ہے کہ حسرت و ندامت کی گھڑی آنے سے پہلے اپنے رویے کو درست کرلیا جائے۔ لاپرواہی اور بے احتیاطی کے نتیجے میں حفیظ میرٹھی کا شکوہ کسی پر صادق نہ آجائے۔

سب ہماری خیر خواہی کے علم بردار تھے

سب کے دامن پر ہمارے خون کی چھینٹیں ملیں

 بات رکھنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم کا انتخاب کریں

 اسلامی تحریک میں فکری آزادی ہونی چاہیے۔ تحریکی فکر فکری تحریک کو مہمیز دینے والی ہو نہ کہ اس پر قدغن لگانے والی۔تحریک میں فکری آزادی صرف ضابطے کی رو سے نہ ہو، بلکہ اس کے لیے قیادت کی طرف سے ہمت افزائی بھی ہو اور حوصلہ افزا ماحول بھی فراہم کیا جائے۔ہونا یہ چاہیے کہ تحریک میں اپنی بات رکھنے کے لیے آسانی سے میسر آنے والے مناسب پلیٹ فارم ہوں جہاں پوری آزادی کے ساتھ کسی موقف سے اختلاف کیا جاسکے، غلطی کی نشان دہی کی جاسکے اور صحیح بات دلائل کے ساتھ پیش کی جاسکے۔ قیادت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے افراد کے لیے مناسب پلیٹ فارم فراہم کرے، ان پر ہونے والی گفتگو کو اہمیت دےاور افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ مناسب پلیٹ فارم پر ہی اپنی بات رکھیں۔

 کتنا ہی قیمتی مشورہ ہو اور کیسی ہی وزن دار تنقید ہو، اگر وہ ایسے پلیٹ فارم پر پیش کی جائے جہاں اسے لوگ ٹھیک سے سمجھ نہ سکیں، جہاں اسے غلط معنی پہنانے میں دیر نہ لگے اور جہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے بات کچھ سے کچھ ہوجائے، تو ایسے میں وہ قیمتی مشورے اور وزن دار تنقیدیں اپنی قیمت اور وزن کھودیتے ہیں اور بسا اوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کم فہم اور کم ظرف لوگوں کے ہاتھ میں جب ایسے مشورے اور تنقیدیں پہنچتی ہیں تو وہ اسے تحریک کے خلاف پروپیگنڈے کا سامان بنالیتے ہیں۔ اس طرح تحریک کا وقار مجروح ہوتا ہے۔

 حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کے دل میں اللہ تعالی نے یہ حکمت روشن کی اور انھوں نے یہ تحفہ حضرت عمر ؓکی خدمت میں پیش کیا۔ 

 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر ؓنے آخری بار حج کیا تو حج کے دوران حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا کہ اگر عمر ؓکی موت ہوجائے تو میں جھٹ سے فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا۔ (اس کے بعد تو سب اس کے ہاتھ پر بیعت کرہی لیں گے) اللہ کی قسم ابوبکرؓ کی بیعت بھی جھٹکے ہی سے ہوگئی تھی، (جس کے بعد وہ خلیفہ بن گئے تھے)۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓنے یہ بات حضرت عمر ؓکو بتائی۔ حضرت عمر ؓکو سخت غصہ آیا اور انھوں نے کہا میں آج ہی شام میں لوگوں کو جمع کرکے خطاب کروں گا اور انھیں ایسے لوگوں سے خبردار کروں گا جو مسلمانوں کے معاملات کو کسی طرح غصب کرنا چاہتے ہیں۔

 حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ نے ان سے کہا: ایسا مت کیجیے۔ حج کے موسم میں ہر طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں، جب آپ تقریر کرنے کھڑے ہوں گے تو کم فہم عوام آپ کے قریب زیادہ اکٹھا ہوجائیں گے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ تقریر کریں اور لوگ اسے لے اڑیں اور بے سمجھے بوجھے غلط جگہ چسپاں کریں۔ آپ مدینہ پہنچنے تک انتظار کرلیں۔ وہ ہجرت و سنت کا گہوارہ ہے، وہاں خاص طور سے سمجھ دار اور ذمے دار افراد آپ کو ملیں گے۔ وہاں اطمینان کے ساتھ اپنی بات کہیے گا۔ اہل علم آپ کی بات کو سمجھیں گے اور صحیح جگہ منطبق کریں گے۔

 حضرت عمرؓ نے اس مشورے کو بہت سراہا۔ اور کچھ دنوں بعد مدینہ پہنچ کر وہاں لوگوں کو جمع کیا اور تقریر کی۔ تقریر کے شروع میں کہا: میں ایسی بات کہنے جارہا ہوں جسے کہنا ضروری ہوگیا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ میری آخری بات ہو۔ تو جو اسے اچھی طرح سمجھ لے اور جوں کا توں محفوظ کرلے وہ اسے وہاں تک پہنچادے جہاں تک اس کی رسائی ممکن ہو۔ اور جسے یہ اندیشہ ہو کہ اس نے اسے سمجھا نہیں تو میں اسے اس کی اجازت نہیں دوں گا کہ جو بات میں نے کہی نہیں ہے وہ میری طرف گھڑ کر منسوب کرے۔ (بخاری)

 اسلامی تحریک کے مفاد میں یہی ہے کہ ہر اہم اور حسّاس بات مناسب پلیٹ فارم پر کہی جائے اور ہر اہم بات کہنے کے لیے مناسب پلیٹ فارم موجود ہو۔ قیادت بھی اس کا لحاظ کرکھے اور کارکن بھی اس میں احتیاط کریں۔

 سوشل میڈیا کے زمانے میں حسّاس قسم کی باتوں کو مخصوص پلیٹ فارم تک محدود رکھنا اور انھیں عام نہ ہونے دینا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل لیکن پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔

 اس سے پہلے انسانوں کے درمیان بات پھیلنے کے مواقع بہت کم تھے، پھر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل جانے کا محاورہ استعمال ہوتا تھا۔ اب تو باتیں اتنی تیزی سے اتنی دور تک پھیل جاتی ہیں کہ یہ محاورہ بھی ناکافی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اب اگر کوئی حسّاس معاملہ عوام کے ہاتھ میں پہنچے گا تو کہیں زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی رو میں بہہ جانے کے بجائے اپنے اوپر کنٹرول کیا جائے اور اپنی حد تک ذمے داری کارویہ اختیار کیا جائے۔

 تحریک سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے متعلق انھی باتوں کو عام کرنے میں حصہ لیا جائے جن کا مفید ہونا یقینی ہواور جن باتوں سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو انھیں عام ہونے سے روکا جائے۔

 خاص مشورے

 اسلامی جدوجہد میں مصروف افراد، اداروں نیز تنظیموں کا نام لے کر سوشل میڈیا میں تنقید کرنے میں احتیاط کریں۔

 کسی اسلام پسند شخصیت، ادارے یا تنظیم پر سوشل میڈیا میں کوئی تنقید آپ کی نظر سے گزرتی ہے تو اسے مزید آگے شیئر کرنے سے سختی سے پرہیز کریں۔

 اسلامی تحریک کے کسی فرد کی کوئی کم زوری علم میں آئے تو کسی دوسرے فرد یا گروپ کو اس کی خبر دینے کے بجائے راست متعلق فرد سے رابطہ کریں اور اسے اس کی کم زوری کی طرف توجہ دلائیں۔

 اسلامی شخصیات، اداروں اور تنظیموں کو مشورے اور تجاویز ضرور دیں، ان کی پالیسیوں اور فیصلوں پر بھی تنقید کریں لیکن اس کے لیے مناسب پلیٹ فارم کا انتخاب کریں تاکہ مشورے زیادہ سے زیادہ مفید ہوسکیں اور کسی طرح کے نقصان کا باعث نہ بنیں۔

 سوشل میڈیا میں جب کسی اسلامی شخصیت یا تنظیم پر کوئی تنقید شائع ہو تو سب سے پہلے حقیقت واقعہ سے آگاہی ہونی چاہیے۔ اگر وہ بات درست نہ ہو تب تو ہرگز کہیں شیئر نہیں کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ بات درست ہو تو بھی یہ دیکھیں کہ اسے شیئر کرنے سے کس کا فائدہ ہوگا اور کس کا نقصان ہوگا۔

 جب کسی بات کا غلط اور جھوٹ ہونا ثابت ہوجائے تو پھر ہرگز اسے کہیں نہیں بھیجنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو تو اس بات کو کہنے والے اصل فرد سے رابطہ کیا جائے، اسے حقیقت بتائی جائے اور ایسی حرکت سے باز آنے کی نصیحت کی جائے۔

 یاد رکھیں غیبت اپنے آپ میں بہت گھناؤنا عمل ہے، غیبت کے ہر عمل سے گھن آنی چاہیے۔ نیز اگر غیبت اسلامی تحریک سے وابستہ افراد اور قیادت کے بارے میں ہو تو اس کی قباحت بہت بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ عام فرد کی شبیہ خراب ہونے سے صرف اس ایک فرد کا نقصان ہوگا، لیکن اسلامی تحریک سے وابستہ افراد کی غیبت سے اسلامی تحریک کے عظیم مشن کو نقصان ہوگا۔

 نوٹ: اسلامی تحریک کے وقار کی حفاظت میں تحریکی قیادت کا رول بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ فی الوقت ہمارے پیش نظر تحریک کا کیڈر اور ملت کے افراد ہیں، اس لیے انھیں خاص طور سے ان کی ذمے داریاں یاد دلائی گئی ہیں۔ قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کو خود محسوس کرے گی۔ خود اس مضمون کے اندر کہیں عبارت میں اور کہیں بین السطور اس کے لیےتذکیر کا سامان موجود ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ سب کو اپنی ذمے داریوں کے سلسلے میں سنجیدگی عطا کرے۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223