قربانی وکردار کا معیار

تحریکی تاریخ کے حوالے سے

ہماری اس گفتگو کی نوعیت علمی نہیں بل کہ Motivationalہے۔ یعنی ترغیب کے ذریعے جذبہ ومحرک عمل کو ابھارنا۔ اس مقصد کے لیے کچھ واقعات کے حوالے سے بات کروںگا۔اس لیے کہ قصے اور واقعات انسان کو متوجہ کرتے ہیں اور سننے کی رغبت پیدا کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے میں قربانی اورکردار کے سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہوںگا۔

قربانی

انسان جو کچھ ظاہرمیں کرتادکھائی دیتاہے، اس کے پیچھے باطن میںایک محرک ہوتاہے، جسے Driving forceیا Drive Stateکہاجاتاہے۔ مثلاًبھوک ایک حیاتیاتی محرک ہے، جو کھانے پر آمادہ کرتاہے، پیاس کا احساس ایک محرک ہے جو پانی پینے پرآمادہ کرتاہے۔ یہ محرکات سرد پڑجائیں یا آسودہ ہوجائیں تو نہ بھوک لگے گی نہ پیاس۔ اس کے برعکس اگر محرک بپا ہوجائے تو آدمی کے اندر بے قراری پیداہوجاتی ہے تاآنکہ وہ چیز حاصل ہوجائے۔ جماعت سے وابستگی بھی ایک محرک ہے، اسی طرح اپنی صلاحیتوں کااظہار، خدا سے قربت، بندوں کی خدمت، جماعت اورسماج میں عزت واحترام کامقام یہ سب سماجی محرکات ہیں۔ ان کے حصول سے فرد نفسیاتی اطمینان ، روحانی سکون، اطمینان قلب، سعادت مندی، خوداعتمادی اور خوش نصیبی محسوس کرتاہے۔

بعض دفعہ دو محرکات کے درمیان کشمکش ہوجاتی ہے۔ ایک طرف معاش کی راہ میں ترقیاں، دوسری طرف روحانی مسرتیں اور خذمت دین کے مواقع۔ ایسے میں ایک طرف قوت سے آگے بڑھ جانا، دوسرے محرک کو حداعتدال میںرکھتے ہوئے قربانی کہلاتاہے۔ اس کو ایک تاریخی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:

‘‘آخرکار مجھ پر یہ عیاں ہوگیاکہ آخرت کی سعادت اگر ہے تو اس میں کہ انسان دنیا سے اپنے قلب کا تعلق منقطع کرلے، ہمیشہ کے گھر کی طرف رجوع کرے اور عزم صمیم اور ہمت بلند کے ساتھ اللہ کے راستے پر گامزن ہوجائے اور یہ سب کچھ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک جاہ وعمل سے اعراض اور دنیا کے مشاغل و علائق سے اپنے آپ کو کاٹ نہ لیاجائے۔ میں نے اپنے احوال پر نظرڈالی تو اپنے آپ کو علائق میں چاروں طرف سے گھِرا اور ان کے اندر ڈوبا ہوا پایا۔میںاپنی اس حالت پر ایک مدت تک مسلسل غور کرتارہا۔ میرے دل میں شدید کشمکش پیداہوگئی۔ ایک روز میں ہر نشے سے دست کش ہوکر بغداد چھوڑدینے کا اِرادہ باندھتاہوں اور اگلے روز اس ارادے کو توڑدیتاہوں۔ ایسا بھی ہواکہ میں نے قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ مگر پھر کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ صبح طلب آخرت کی رغبت دل میں پیدا ہوتی اور شام خواہشوںکا لشکر اس پر حملہ کردیتا اور یہ رغبت ان کی یلغار میں تہس نہس ہوکر رہ جاتی۔ حالت یہ ہوگئی کہ شہوانیت دنیا مجھے اپنی زنجیروںسے اپنی جانب کھینچتی اور ایمان کا منادی پکارتا الرحیل الرحیل- چلو چلو، عمر تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے اور درپیش سفر لمبا ہے۔ علم وعمل کی جس دنیا میں تم کھڑے ہو وہ ریا اور خیال کی دنیا ہے۔ آخرت کی تیاری اب نہیںکروگے تو کب کروگے۔ یہ علائق اب نہیں کاٹوگے تو کب کاٹوگے۔ دنیوی خواہشیں اور آخرت کے دواعی کے درمیان یہ کشمکش تقریباً چھ مہینے جاری رہی۔

ہر طرف سے عاجز ومایوس اور ہر سعی میں ناکام ہوکر میں نے اپنے اللہ سے التجا کی، ایسی التجا جو ایک مضطرانسان سارے سہارے ٹوٹ جانے کے بعد کرتا ہے اور اللہ نے جو ہر دل مضطر کی التجا قبول کرتاہے، میری التجا قبول کرلی۔ مجھ پر مشکل آسان ہوگئی۔ بغداد چھوڑدینے کا عزم ہر دوسری خواہش پر غالب آگیا…‘   ﴿ امام غزالی،ازآبادشاہ پوری،ص:۸-۱۰﴾

کردار

جس طرح کسی چمن کا حُسن اُس کے رنگ برنگ کے خوشنما پھولوں سے وابستہ ہے، اُسی طرح اِنسان کا حسن اُس کاکردار ہے۔ کردار پھول ہے تو افکار اس کے بیج ہیں۔ افکار وخیالات زندگی کے مقاصد متعین کرتے ہیں، مقصد محرک عمل بن کر ہمیں عمل پر آمادہ کرتاہے۔ اعمال کی تکرار کو عادت کہتے ہیں اور بہت سی خوشگوار عادتوں کی ترتیب سے حسن کردار پیداہوتاہے۔ یہاں کردار سے ہماری مراد حسنِ کردار ہے۔

تحریکی قافلے میں ایسے بے شمار قائد ہمیں میسر آئے ہیں، جن کی زندگی اس قافلے کے راہی کے لیے مشعل راہ اور مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان بزرگوں کی کاوشوںاور قربانیوں سے تعارف کی دو ہی شکلیں ہیں یا تو اُن کے بیچ رہاجائے اور ان کی زندگی کامشاہدہ کیاجائے یا ان کی پر امنگ اور حوصلہ مند زندگی کامطالعہ کیاجائے۔ جو ہستیاں اب ہمارے درمیان نہیں رہیں، ان کے بہت کم ہی شخصی خاکے دستیاب ہیں۔ ہندستان کی جماعت کو اس پہلوسے سوچنا چاہیے۔ شخصیتوں کا تعارف شخصیتوں کی قدردانی بھی ہے اور ان کے افکار، اقدار اور روایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا بھی۔ ہم اپنے بزرگوںکی قدردانی نہیں کرتے تو نتیجے میں ہماری بھی قدردانی نہیں ہوتی۔ ہم شخصیتوں سے دلچسپی نہیں لیتے تو ہم سے بھی کسی کو غرض نہیں ہوتی۔ ہماری خواہش دعا کی شکل میں یوں ڈھلنی چاہیے:

‘اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سہی ناموری عطاکر’

جب ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ آنے والے لوگ ہمارا ذکر خیر کریں تو قرآن کاحکم یہ بھی ہے کہ ہم اپنے گزرے ہوئے لوگوں کو دعا اور نیک نامی سے یاد کریں۔

‘اور جوان کے بعد آئے کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی، جنھوں نے ایمان لانے میں ہم پر سبقت کی اور ہمارے دلوں میں اُن کے لیے جو ایمان لائے کینہ نہ رکھ۔ ہمارے رب یقیناتو بڑا شفیق اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔’

اِس فرصت میں میں تحریکی تاریخ سے تین افراد کی زندگی کی کچھ جھلکیاں پیش کروںگا، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ وہ تین نام اس طرح ہیں:

۱-مولانا افضل حسین ،                ۲-ایم-اے-جمیل ،                ۳-عذرا بتول صاحبہ

مولانا افضل حسین

۹۲ سال قبل ۱۹۸۱میں ضلع بستی، یوپی میں مولانا افضل حسین کی پیدایش ہوئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے B.Aاور M.Aکیا۔ پھر L.T کی سند حاصل کی۔ ۴۸-۱۹۳۹ تک Teachers Traning Collegeجھانسی میں لکچرار کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ دریں اثنا ۴۴ میں رکن جماعت بن گئے۔ ہندستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد ۸۴۹۱ میں ملیح آباد میں منعقد شوریٰ کے اجلاس میں طے پایاکہ ان کی ہمہ وقتی خدمات درس گاہ اسلامی رام پور کے لیے لی جائیں۔ یہاں سے ان کی زندگی کی کایا پلٹ ہوتی ہے۔ یہاں میں مرحوم کی زندگی کے تین اہم کارناموںکا ذکر کرنا چاہوںگا۔

پہلا کارنامہ

قیام جماعت کے روزاول سے تعلیم کاایک منصوبہ تھا۔اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درس گاہ اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ اس کی نظامت سنبھالنے کے لیے اُن سے خواہش کی گئی کہ اپنی ملازمت ترک کرکے وہ اُس خاکے میں رنگ بھریں۔ انھوںنے بلاعذر اوربلاجھجک اپنی خدمات پیش کردیں۔ کہنے کو تو وہ ناظم تھے، مگر بیک وقت استاد بھی تھے اور صدر مدرس اور اتالیق (Warden)بھی ۔ درس گاہ ۰۲*۵۱ کی گھاس پھوس کے عارضی چھپر کے نیچے درس گاہ ملیح آباد کے باغ میں شروع کی گئی۔ افضل حسین صاحب نے کمال سادگی کے ساتھ لنگی اور قمیص پہنے، مٹی کے تودے پر بیٹھ کر پڑھانا شروع کیا، جو ان کی ’کُرسی ‘تھی۔۲۰،۲۵ بچے بورے پر بیٹھے ہوئے۔ بعد میں رام پور میں عالی شان عمارت تعمیر ہوگئی۔ یہاں انھوںنے ایک نئی نفسیات کی بنیاد پرمدرسہ کی اٹھان اٹھائی اور بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کاعملی مظاہرہ کیا۔

جب پہلا مہینا اختتام کو پہنچا تو امیرجماعت مولاناابوللیث ندویؒ کو تشویش ہوئی کہ ایک لکچرار جس کی تنخواہ اُس زمانے میں ۴۰۰ یا ۵۰۰ روپے تھی، اُس کو جماعت کیا کفاف عطا کرسکتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے لکھاہے کہ امیر جماعت نے سوسو کے چار پانچ نوٹ ٹیبل پر رکھ دیے اور افضل حسین صاحب سے کہاکہ آپ بقدر کفاف اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے جو چاہیں اٹھالیں۔ افضل حسین صاحب نے تردد کے ساتھ ایک نوٹ اٹھالیا۔ یہی ان کا مشاہرہ تھا۔

دوسرا کارنامہ

ان کا دوسرا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے فیلڈ میں ایسا زبردست کارنامہ پیش کیاکہ بہت کم لوگوں کو ایسی سعادت ملتی ہے۔ نرسری سے آٹھویں جماعت تک کی تمام درسی کتابوں کو نئے اسلوب سے مرتب کیا۔ بچوں کی ذہنی سطح اور نفسیات کو پیش نظر رکھا۔بڑی بڑی باتوں کو آسان ترین زبان اور غیرمحسوس طریقے سے دلو ں میں راسخ کردیا۔ ان کے مضامین میں توحید، توکل، دعوت دین، اقامت دین، دینی اور تنظیمی دورے وغیرہ کا ذکر ملتاہے۔ دوسری اور تیسری جماعت میں جو مضامین میں نے پڑھے ہیں، آج بھی یہاں میں انھیں سناسکتاہوں۔ وہ نصاب کی یہ کتابیں رات میں لال ٹین جلاکر تیارکیاکرتے تھے۔ یہ کارنامہ اکیلے انھوں نے انجام دیا، جو پوری ایک اکیڈمی کے کرنے کاہے۔۶۵ سے زائد کتابیں انھوں نے لکھی ہیں، للہ، فی اللہ اور لوجہ اللہ کاجذبہ تھاکہ انھوں نے اپنی کتابوں کی رایلٹی نہیں لی۔

 تیسرا کارنامہ

ان کاتیسرا عظیم کارنامہ ان کی کتاب ’فن تعلیم و تربیت‘ ہے۔ یہ کتاب مولانا مودودیؒ کے نظریہ تعلیم کے مطابق تیار کی گئی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے نظریات کو ۳ نکتوں میں یوںبیان کیاجاسکتا ہے: ﴿الف﴾ دنیا میں امامت و قیادت کا مدار علم پر ہے ﴿ب﴾ انقلاب امامت کے لیے انقلاب تعلیم ناگزیر ہے ﴿ج﴾اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے معلمین کی تربیت کی جائے۔

یہ کتاب ایک لاجواب کتاب ہے، جس کے بارے میں احباب نے لکھاہے کہ افضل حسین صاحب کو Noble Prise Awardہوناچاہیے۔ یہ کتاب بہت سے ٹیچرس ٹریننگ کالجوں میں شامل نصاب نہیں مگر کالج کے اساتذہ اُس کو پڑھ کر آتے ہیں۔اس عظیم شخصیت کے کردار کی بلندی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ قیم جماعت تھے۔ مولانا محمدسراج الحسن صاحب ۱۹۸۶ء  ؁میں جب قائم مقام امیر جماعت بنے تو اُس وقت ان کی بے نفسی اوراعلیٰ اخلاق کا یہ عالم تھا کہ مولانا محمدسراج الحسن صاحب فرماتے ہیں:

‘اُس دوران ان کے سمع وطاعت کے انداز نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا۔ اس کے باوجود کہ افضل حسین علم، تقویٰ، تحریک سے لگاؤ اور ایثار و قربانی میں ہراعتبار سے مجھ سے بہت اونچے اور افضل تھے، انھوں نے اس موقع پر جس سمع وطاعت کے جذبے کے تحت میری اس عارضی امارت میں بحیثیت قیم میرا تعاون کیا، وہ میرے لیے حد درجہ متاثر کن تھا۔ حالاں کہ اس سے پہلے خود میں بحیثیت سکریٹری جماعت ان کے تحت معاون کے طورپر کام کرتارہا۔ ان کی زندگی کے یہ پہلو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ بے نفسی، اعلیٰ ظرفی اور تواضع کی یہ صفات کتنے اونچے درجے پر مرحوم میں موجود تھیں اور اہل نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مذکورہ صفات عالیہ کاحصول کتنے ریاض وسعی کا طالب ہوتاہے۔’ ﴿ مولانا افضل حسین نمبر،ص: ۲۷، شائع کردہ رفیق منزل دہلی﴾

﴿۲﴾عذراء بتول مرحومہ

ڈاکٹر عذریٰ بتول ۱۹۵۹ میں پاکستان میں پیداہوئیں۔ لاہور سے میڈیکل پاس کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے اسلام کے لیے متحرک و فعال تھیں۔ ۷۷۹۱ میں ۸۱ برس کی عمر میں Political Agitationمیں حصہ لیا، پولیس کا گھیرا توڑکر اسمبلی ہال تک پہنچ گئیں۔ آخرکار Arrestبھی ہوگئیں۔ مولانا مودودیؒ نے پولیس کے ذمے داروں کو انتباہ کردیاتھاکہ ’ہماری ہر لڑکی اور خاتون شام ہونے سے قبل اپنے اپنے گھر پہنچائی جائے‘ الحمدللہ رہاہوگئیں۔ منصورہ سے تفہیم القرآن کا کورس مکمل کیا۔ دعاؤں کاالتزام کرتیں اور دوسروں کو بھی مسنون دعائیں سکھاتیں۔

محترمہ عذرا بتول جمعیت الطالبات کی ناظمہ صوبہ پنجاب بھی ہوئیں اور اُس کی مرکزی مجلس شوریٰ کی رکن بھی تھیں۔

۱۹۸۵ میں ان کی شادی ہوئی، ۶ ماہ کے اندر سرکاری ملازمت کو اوکاڑہ گاؤں میں منتقل کرلیا۔ سسرالی خاندان بڑا تھا۔ شوہر لیاقت بھی ڈاکٹر تھے۔ ان کے دو بڑے بھائیوں نے بڑی قربانیاں دے کر انھیں پڑھایاتھا۔ عذرا نے ہمیشہ ان کا یہ احسان یاد رکھا اور ہمیشہ ان کے حقوق ادا کیے۔ گوشت، کھانا ، کپڑا ہی نہیں اپنی کمائی سے حاصل شدہ زمین بھی ان کے نام لکھ دی۔

شادی کی رات کا واقعہ ڈاکٹر لیاقت لکھتے ہیں کہ عذرا ءنے پوچھاکہ کیا آپ نے شکرانے کی نفل نماز پڑھ لی۔ ڈاکٹر لیاقت نے جواب دیاکہ آج مصروفیات میں مغرب اور عشا چھوٹ گئی۔ کل پڑھ لوںگا۔ عذرا ءنے کہاکہ نئی زندگی کاآغاز بے برکتی سے نہیں ہونا چاہیے۔‘ لہٰذا وہ اٹھے ، وضول کی، نماز ادا کی۔ پھر بیوی سے بات چیت کی۔ دونوں میاں،بیوی نے ایک کلینک کھولا، پھر رفتہ رفتہ وہ گاؤں کا سب سے بڑا اور خوبصورت ہسپتال بن گیا۔ مریضوں سے حسن سلوک کرنا، دین کی تلقین کرنا، کبھی فیس معاف کردینا یہ سب ان کا شعار رہا۔

ان کی گھریلو زندگی بھی مکمل رہی۔ ۱۰ بچوں کو جنم دیا۔ ایک بچی کا انتقال ہوگیا۔ بڑا لڑکا ۱۷ سال کا تھا، چھوٹی بیٹی ۱۰ ماہ کی۔ ساتھ میں جیٹھ کے ۵ بچوں کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ شوہر کے کپڑے خود تیار کرتیں، جوتے خود پالش کرتیں۔ بل کہ کبھی کبھار جیٹھ صاحب گھر آجاتے تو ان کے جوتے بھی پالش کردیتیں۔ گھر سے باہر جانا ہوتا تو شوہر سے اجازت لیتیں۔ خود ماہانہ لاکھوں روپیہ کماتیں مگر شوہر سے پوچھ کر خرچ کرتی تھیں۔

مرحومہ بڑی مہمان نواز تھیں۔ اکثر جماعت کے اجلاس ان کے گھر میں ہوتے تھے۔ اُس وقت وہ خود باورچی خانے جاکر کھانا پکاتیں۔ بیٹے کو بلاکر سورۂ یٰسین پڑھ کر دم کرتیں اور کہتیں کہ بیٹے ابوتو ۱۵ آدمی کا کھانا کہہ کر گئے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ ۲۵-۳۰ لوگ آجائیں، اس لیے کھانا کم نہیں پڑنا چاہیے۔

گاؤں میں غریب مزدور خواتین میں زیادہ کام کرتی تھیں۔ وہ Strright forwardتھیں۔ ہیر پھیر کی باتوں کو حکمت نہیں منافقت سمجھتی تھیں۔ ۴۴ سال کی عمر میں ایک کار حادثے کا شکار ہوکر شہید ہوگئیں۔ ان کی موت کے بعد ان کے شوہر جو جماعت کی کئی ذمے داریوں پر فائز ہیں، مرکزی شوریٰ کے بھی رکن ہیں، دردو سوز میں ڈوبی ہوئی رقت آمیز تحریر رقم کی ہے:

‘عذرا ۱۸سال قبل اس گھر میں بہوبن کر چوتھے نمبر پر آئی تھیں۔ آج گئیں تو صرف اس خاندان کی شفیق ماں نہ گئیں، بل کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے سر سے شفقت کا سایہ اٹھ گیا۔ آج سات ماہ سے اوپر ہونے کو آئے ہیں، عذرا مرکرزندہ ٔجاوید ہوگئی۔ وہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے زندہ ہے اور اپنے بچوں کی شکل میں زندہ ہے۔ اپنی بے پناہ خوبصورت یادوں میں زندہ ہے۔ بے شمار مریضوں اور لوگوں کی دعاؤں میں زندہ ہے۔ وہ تو ہر وقت ہر جگہ اپنے حسنات میں زندہ ہے۔ اگر نہیں اب ملتا تو لوگوں کو وہ لیاقت نہیں ملتا جو کبھی عذرا بتول کا شوہر ہوا کرتا تھا۔ بچوں کا گِلہ ہے کہ ان کا باپ بدل گیاہے۔ مریضوں کو شکایت ہے کہ ان کا طبیب وہ نہیں رہا اور جماعت کے کارکنوں کو یہ گِلہ ہے کہ ان کے امیر کو نہ جانے کیا ہوگیاہے۔ خود مجھے یوں لگتاہے کہ وہ لیاقت مر گیاہے جو کبھی عذرا کا جیون ساتھی ہواکرتاتھا۔ میں اس کے لیے کوئی تاج محل تو شاید کبھی نہ بناسکوں، مگر خدا کے فضل سے اس کے لیے میں اور میری اولادنیکوں کا تاج محل ضرور بنائیں گے۔‘﴿’عذرا بتول سعادت کی زندگی، شہادت کی موت‘ص:۳۷۶﴾

کسی نے محترمہ عذرا بتول کے شوہرسے پوچھاکہ عذرا کی سب سے بڑی نیکی کون سی تھی جو اللہ کے ہاں مقبول ہوئی ہوگی۔ جواب میں دیاکہ نیکیاں تو اس کی بے شمار ہیں، مگر ایک نیکی اس کی ایسی تھی جو لازماً سب سے زیادہ درجہ لے گئی ہوگی کہ ’اس کی زبان سے پوری زندگی کسی کا دل نہ دکھا۔’

اس نیک مثالی خاتون کے بارے میں پروفیسر غفور احمدصاحب پرنم آنکھوں کے ساتھ تعزیت ادا کرتے ہوئے کہنے لگے: ’ڈاکٹر صاحب انھوں نے زیادہ عرصہ زندہ رہ لیا ایسے لوگ تو اتنا عرصہ زندہ نہیں رہاکرتے۔’

﴿۳﴾ایم اے جمیل احمد مرحوم

ایم اے ایم جمیل احمد صاحب شہر وانمباڑی ریاست تامل ناڈو کے ایک متمول خاندان میں ۷۲۹۱ میں پیداہوئے۔ تعلیم اوسط تھی۔ گڑ اور اِملی کا کاروبارکرتے تھے۔ غالباً ۳۶ یا ۴۶ میں اُس وقت کے امیرحلقہ نے جمیل صاحب کو تامل دارالاشاعت کی ذمے داری سونپ دی۔ جب کہ وہ خود تامل زبان کے ماہر نہیں تھے۔ معمولی بول چال کرلیاکرتے تھے۔ تحریک نے ذمے داری ڈال دی تو انھوں نے اس میں یدطولیٰ حاصل کرلیا ہے۔جماعت کے کاموں میں اتنا شوق لگن سے کام کرن لگے کہ آخرکار اپنی تجارت کو خیربادکہنا پڑا۔

جمیل صاحب منفرد آدمی تھے۔ وہ منفرد سوچ رکھتے تھے۔ تخلیقی صلاحیت سے مالامال تھے۔ ان کے لگائے ہوئے انوکھے پودے آج تامل ناڈومیں شجرہاے سایہ دار بنے ہوئے ہیں۔ اس نوعیت کے بے شمار ادارے اور حلقوں میں بھی پائے جاتے ہیں، مگر جمیل صاحب کے پروان چڑھائے ہوئے ادارے آج بھی منفرد ہیں۔

(ii) Islamic Foundation Tmt:IFTتامل دارالاشاعت کا نام ہے۔ یہاں وہ مترجم بھی تھے، مترجموں کے سردار بھی اور ادارے کے ذمے دار بھی۔ زبان و بیان کی نوک پلک درست کرنے سے لے کر کاغذ، پرنٹنگ اور بائنڈنگ کی تکنیکی باریکیوں تک سے وہ واقف تھے۔ ضرورت کے تحت وہ خود ماہرین سے کتابیں لکھواتے بھی تھے جیسے ‘‘التبیان’’وغیرہ۔ طباعت وغیرہ میںاعلیٰ ترین کوالٹی کا اہتمام کرتے تھے۔ آج یہ ادارہ مختلف Book fairsمیں حصہ لیتا ہے اور اس کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی ہیں۔

قرآن کاترجمہ بڑی عرق ریزی سے جمیل صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ تامل زبان کے ایک ایک ماہر تک پہنچتے اور اس سے پڑھواتے اور چیک کرواتے تھے۔ چونکہ وہ PRکے بھی آدمی تھے۔ ان کے تعلقات اعلیٰ صلاحیت کے لوگوں میں تھی۔ وہ بلاجھجک بڑے سے بڑے آدمی کے پاس پہنچ جایا کرتے تھے۔

(ii) سمرسم: سمر سم تامل زبان میں تحریک کاترجمان ہے۔ قرآن مجید اور دوسری کتابوں کے ترجمے میں اس میں قسط وار اس میں شائع ہوتے تھے۔ ایک زمانے تک جمیل صاحب اس کے ذمے دار رہے۔ اس کی زبان کی فصاحت تامل ادیبوں میں مسلم ہے، اس مقام تک سمرسم کو پہنچانے میں جمیل صاحب کی کاوشوں کا دخل ہے۔

(iii) Islamic Centre Vellore :ICV نومسلموں کی تربیت کاایک انوکھا ادارہ ہے، جس کے بانیوں میں ایم اے جمیل صاحب بھی تھے۔ ۸۷۹۱ میں یہ ادارہ قائم ہوا اور آج تک اس ادارے سے ہزاروںنومسلم حضرات و خواتین فارغ ہوچکے ہیں۔ یہ اپنے انداز کا منفرد ادارہ ہے۔ یہاں تعلیم مردوں کوبھی دی جاتی ہے اور عورتوں کو بھی۔ پڑھے لکھے لوگ بھی آتے ہیں اور دہقانی بھی۔ کوئی ایک سال فارغ کرسکتاہے تو کوئی ایک ہفتہ پڑھنا چاہتاہے۔ کوئی بوڑھاہے تو بچے بھی اس Centreمیں پڑھتے آتے ہیں۔ یہ ادارہ بھی جمیل صاحب کی تخلیقی صلاحیت کا مظہر ہے۔

(iv) Manude vasantan: تحریک اسلامی کی صفوں میں یہ بھی ایک منفرد پروگرام ہے جو ہر ہفتہ باقاعدہ Tvسے نشرہوتاہے۔ اس کے بھی جمیل صاحب ذمے دار تھے۔

(v)دعوت: دعوت کاجذبہ ان کے سینے میں موجزن تھا۔ وہ اس دردکو دوسروں کو کے سینوں میں منتقل کرنے کے گر سے بھی واقف تھے۔ آج ہندستان میں کئی داعیوں کی خدمات ان کی مرہون منت ہیں۔

جمیل صاحب فرد شناس اور افراد ساز تھے۔ بے شمار باصلاحیت نوجوانوں کو انھوں نے تیار کیا۔ ان کے شاگردوں میں دو نسلیں بیک وقت شامل ہیں۔ ایسا وہ اس لیے کرسکے کہ وہ Genration Gap کے قائل نہیں تھے۔ البتہ اُن کے ساتھ کام کرتے ہوئے بعض لوگوںکوGen Gap محسوس ہوا۔ وہ انتہائی متحرک انسان تھے۔ میں نے ان کو IFTمیں کام کرتے کرتے میز پر ہی سررکھ کر سوجانے اور صبح دنماز کے بعد پھر کام وہیں سے جاری رکھتے ہوئے دیکھاہے۔

آخرکے زمانے میں اپنے گھر وانمباڑی لوٹ کر آنا پڑا۔ اس دوران میں نے ان میں تین باتیں نوٹ کیں۔

﴿الف﴾ کسی کی شکایت نہیں۔ اپنی زندگی کا گلہ یا کسی ذمے دار کے سلوک اور رویے کی شکایت تو دور کی بات اُس کا اشارہ تک ان کی گفتگو سے نہیں ملتاتھا۔

﴿ب﴾ نوجوانوں کو بال و پر عطا کرنے، ان سے نوجوان ملاقات کو جاتے تو ان کی صلاحیتوں کے وہ معترف ہوتے اور ان کو مزید نکھارنے کی ترغیب دیتے۔ ان کو دعائیں سکھاتے اور یہ بات بتاتے کہ بچے باپ کے کندھے پر بیٹھ کر کبھی کبھی باپ سے اونچا ہوجانے کااحساس انھیں ہوجاتاہے حالاں کہ باپ انھیں کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ بیٹا جب بڑا ہوجانے کاذکر کرتاہے تو باپ خوش ہوتاہے، سراہتاہے یہ نہیں کہتاکہ تم میرے کندھوں پر سَورہو، خودنگہی کی بیماری سے بچنے کی تلقین کرتے اور اس کے لیے دعائیں سکھاتے۔

﴿ج﴾ قرآن فہمی: قرآن پر غورو فکر کرنا ان کاپسندیدہ مشغلہ تھا۔ وہ آیتوں کو نئے نقطۂ نظر سے دیکھتے اور اس فن کو سکھاتے بھی تھے۔ تقریباً ۸۰ برس کی عمر میں وفات پائے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے منور کرے۔ امیر جماعت مولانا سیدجلال الدین عمری نے ایک مرتبہ ان کے بارے میں فرمایاتھاکہ ُمیں نے تحریک میں بہت ہی کم لوگوں کو جمیل صاحب جیسا پایا جو ہمیشہ تحریک کی ترقی کی فکر کیا کرتے تھے۔’

مشمولہ: شمارہ فروری 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223