فروری ۲۰۱۰ء کے زندگی نو میں جناب غلام حقانی کا ایک مضمون ’’تفسیر قرآن میں سائنس سے استفادہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہواہے۔ اس مضمون میں قرآن کی چند آیتوں کی سائنٹفک پہلوئوں سے تشریح کی گئی ہے۔ حقانی صاحب نے سورہ قیامہ کی دو آیتوں کو نقل کیاہے:
وَخَسَفَ الْقَمَرُo وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُo ﴿القیامہ:۸،۹﴾
اور گہہ جاوے چاند اور اکٹھے ہوں سور ج اور چاند
پھر جناب غلام حقانی نے ان دو آیتوں کی اس طرح سائنٹفک انداز میں تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے: ’’چاند کے بے نور ہوجانے کا ایک سبب تو سورج کا بُجھ جانا ہے، لیکن چاند کے بے نور ہونے کاایک اور سبب بھی ہوسکتاہے، جس کی جانب آیت نمبر ۸ میں واضح اشارہ ملتاہے اور وہ یہ کہ چاند کو گہن لگ جائے۔ مکمل چاند گہن ہوتو چاند پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی، اس لیے وہ بے نور ہوجاتاہے۔ چاند گہن کے موقعے پر زمین، سورج اور چاند کے درمیان اس طرح آجاتی ہے کہ سورج، زمین اور چاند ایک سیدھ میں آجاتے ہیں اور چاند زمین کے پیچھے چھُپ جاتاہے، جس کی وجہ سے سورج کی روشنی چاند پر نہیں پڑنے پاتی اور وہ بے نور ہوجاتاہے۔ سورج، زمین اور چاند کے ایک سیدھ میں جمع ہوجانے کے تعلق ہی سے اللہ رب العزت نے فرمایا: وجمع الشمس والقمر ’’سورج اور چاند جمع کردیے جائیںگے‘‘ اور یہ واقعہ خسف القمر یعنی مکمل چاند گہن کے موقع پر پیش آئے گا۔ اسی ضمن میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ جب سورج بجھ جائے گا تو اس کی کشش بھی جاتی رہے گی، جس کی وجہ سے اس کے زیراثر سارے سیارے اور ان کے چاند سورج کی مخالف سمت میں جاگریںگے۔ ان میں زمین بھی شامل ہوگی اور زمین کا چاند بھی جیساکہ سورہ الانفطار میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاِذالکَواکِبُ انتَشرَت ‘اور جب کواکب ﴿سیارے﴾ جھڑپڑیں﴾۔ کس طرح چاند سورج سے جاملے گا۔ اس کے علاوہ چاند زمین کے زیراثر گردش کرنے والا ایک نہایت ہی چھوٹا سیارہ ہے۔ اس میں اتنی طاقت کہاں سے آجائے گی کہ وہ ایک سو پچاس ﴿۰۵۱﴾ ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے سورج سے جاملے گا۔‘‘ ﴿زندگی نو، فروری ۲۰۱۰، ص:۲۹،۳۰﴾
آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسرے مفسرین نے ان آیتوں کی کیا تشریح کی ہے۔
مولانا شمس پیرزادہؒ نے ان آیتوں کی تفسیر مختصر اور جامع انداز میں اس طرح بیان کی ہے:
’’قیامت کے دن چونکہ سورج کی چادر لپیٹ دی جائے گی، جیساکہ سورہ تکویر میں ارشاد ہوا ہے: اذالشمسُ کورت ‘جب سورج لپیٹ دیاجائے گا’ تو چاند بے نور ہوکر رہ جائے گا گویاکہ اسے گہن لگ گیاہے۔ اس وقت چاند اور سورج اپنے اپنے مدارپر ہیں۔ لیکن قیامت جب برپاہوگی تو یہ توازن برقرار نہیں رہے گا۔ سورج اور چاند دونوں اکٹھے ہوجائیںگے۔ ان کے اکٹھے ہونے کی کیا صورت ہوگی؟ اللہ ہی بہتر جانتاہے۔‘‘ ﴿دعوۃ القرآن، ج:۲،ص:۸۶۰﴾
سیدقطب شہیدؒ کا موقف
سید قطب شہیدؒ رقمطراز ہیں: ’’قرآن کے عام اشارات کو سائنس کے نت نئے اور بدلتے رہنے والے نظریات سے جوڑنے کی ہرکوشش ، بلکہ ان کو اُن سائنٹفک حقائق سے جوڑنا بھی جن کے بارے میں ہم اوپر بتاچکے ہیں کہ وہ مطلق نہیں ہوتے، اولاً تو مہناج (Method)کے اعتبار سے غلط ہے۔ مزید برآں اس طریق کار کے تین پہلو اور بھی ہیں، جو قرآن کے مقام بلند سے کسی طرح مناسبت نہیں رکھتے۔
۱-یہ داخلی شکست خوردگی ہے، جو بعض لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کیے ہوئے ہے کہ اصل چیز سائنس ہے اور قرآن کاکام اس کے پیچھے چلنا ہے۔ لہٰذا وہ سائنس کے ذریعے قرآن کو قوت بخشنا چاہتے ہیں یا سائنس سے قرآن کے حق میں دلیل فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں حقیقت یہ ہے کہ قرآن اپنے موضوع پر ایک مکمل کتاب ہے اور وہ جو حقائق بیان کرتاہے وہ آخری حقائق ہیں۔ سائنس کا اپنے موضوع میں یہ حال ہے کہ وہ جس بات کو ثابت کرچکی ہے، اسے آج ردکردیتی ہے اور جن حقائق کو وہ دریافت کرتی ہے، وہ نہ آخری ہوتے ہیںنہ مطلق۔ کیوں کہ سائنس کا واسطہ انسان، اس کی عقل اور اس کے ذرائع و آلات ہیں، جن کی ماہیت ہی ایسی ہے کہ وہ ایک بھی آخری اور مطلق حقیقت نہیں عطا کرسکتے۔
۲-قرآن کے مزاج اور اس کے کام کی نوعیت کوٹھیک طرح نہ سمجھ سکنا۔ یعنی یہ بات نہ سمجھ سکناکہ قرآن آخری اور مطلق حقیقت ہے جس کا مشن انسان کی ایسی تعمیر ہے جو جس حد تک انسان کا اپنا مزاج اس بات کی اجازت دے کائنات اور قوانین الٰہی سے ہم آہنگ ہو ، تاکہ انسان اپنے چار طرف پھیلی ہوئی کائنات اور اس کے بعض قوانین اور تجربے و تطبیق کے ذریعے اس حد تک معلوم ہوتے ہیں جس حد تک اس کی خدا داد عقل جاسکتی ہے۔ وہ عقل جو اسی لیے دی گئی کہ اس سے کام لیاجائے ۔ نہ صرف اس لیے کہ جو مادّی معلومات بالکل عیاں ہوکر سامنے آجائیں ، ان کو مان لے اور بس!
۳-نصوص قرآنی کی قدرے تکلف اور حیلے کے ساتھ ہربار نئی تاویل کی جائے۔ تاکہ ہم ان نظریات اور مفروضات سے ان کی مطابقت ثابت کرسکیں جو ناپائیدار اور بدلتے رہنے والے واقع ہوئے ہیں اور جن میں ہر آن نئی باتوں کاضافہ ہوتارہتاہے۔ یہ باتیں قرآن کے شایان شان نہیں اور جیساکہ ہم نے پہلے لکھاہے کہ یہ طریقہ بطور طریقہ کے بھی غلط ہے۔
اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ سائنس کائنات، حیات اور انسان کے بارے میں جو نظریات اور حقائق سامنے لائے ، ان سے ہم قرآن کے فہم میں کوئی فائدہ نہ اٹھائیں، ہرگز نہیں۔ مذکورہ باتوں سے ہمارا یہ منشا ہرگز نہیں تھا اور ہوبھی کیسے سکتاہے، جب کہ اللہ سبحانہ خود فرماتاہے :
سَنُرِیْہِمْ اٰیَاتِنَا فِیْ الْاٰفَاقِ وَفِیْ أَنفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَق ﴿حٰم السجدہ: ۳۵﴾
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیںگے اور ان کے اپنے نفس میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھُل جائے کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔‘‘
اس اشارے کا تقاضا ہے کہ سائنس آفاق و انفس میں اللہ کی جو نشانیاں بھی دریافت کرسکے ہم ان پر مسلسل غورو فکر کرتے رہیں اور اپنے فکر میں قرآن کے معانی کو ان علمی اکتشافات کے مطابق وسیع کرتے رہیں۔ یہ کام کیسے کیاجائے؟ بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ ہم قرآن کے آخری اور مطلق نصوص کو ایسے معانی کاپابند نہیں بناناچاہتے، جو نہ آخری ہوتے ہیں نہ مطلق؟ اس سوال کا جواب بعض مثالوں کے ذریعے دینا مفید ہوگا۔ قرآن کریم کہتاہے:
وَخَلَقَ کُلَّ شَیْْئ ٍ فَقَدَّرَہ’ تَقْدِیْراً ﴿فرقان:۲﴾
’’اور اس نے ہر چیز کو پیدا پھر اسے ایک خاص اندازے پر رکھا‘‘
اب سائنٹفک تحقیقات یہ انکشاف کرتی ہیں کہ اس کائنات میں بڑی باریکی کے ساتھ ہم آہنگی اور نظم کااہتمام پایاجاتاہے۔ زمین کی یہ مخصوص شکل، سورج کا اس سے اس قدر فاصلے پر ہونا، چاند کااس سے ایک مخصوص فاصلے پر واقع ہونا، سورج اور زمین اور چاند اور زمین کے حجم کے درمیان مخصوص نسبتوں کاپایاجانا، زمین کی حرکت کی یہ مخصوص رفتار، پھر اس کا ایک محور ہر ایک خاص حد تک جھکاہواہونا، اس کی بالائی سطح کی یہ مخصوص نوعیت اور اسی طرح کی ہزاروں خصوصیات جو زمین کو زندگی کے لیے سازگار اور موزوں بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز نہ ایک عارضی حادثہ ہوسکتی ہے نہ ایسا اتفاقی امر قرار دی جاسکتی ہے، جس کے پیچھے کوئی مقصد نہ ہو۔ یہ تحقیقات وخلق کل شیٔ فقد رہ تقدیراًکے معانی میں وسعت اورہمار ے فکر کے اندر اس کے مفہوم میں گہرائی پیداکرتی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ مفہوم کی گہرائی اور معانی کی وسعت کی خاطر ان جیسی معلومات کااحاطہ کیاجائے۔ مگرجوچیز نہ تو جائز ہے، نہ علمی اعتبار سے درست قرار دی جاسکتی ہے وہ وہ باتیں، جو حسب ذیل مثالوں کے ذریعے سامنے آتی ہیں۔ قرآن کریم فرماتاہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِیْنo ﴿مومنون:۱۲﴾
ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا
پھروالاس اور ڈارون کانظریۂ نشووارتقا سامنے آتاہے، جو یہ مفروضہ قائم کرتاہے کہ زندگی ایک خلیے کی صورت میں شروع ہوئی اور یہ خلیہ پانی میں پیداہوا اور پروان چڑھا۔ پھریہی خلیہ مختلف مراحل سے گزرکر بالآخر انسان کی تخلیق پر منتج ہوا۔ اب ہم اس نص قرآنی کو لے کر اس نظریے کے پیچھے لپکنے لگے۔ تاکہ یہ کہہ سکیں کہ یہی قرآن نے بھی کہاہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریہ آخری نہیں، کیوں کہ ایک صدی سے کم مدت میں بھی اس میں اتنی ترمیمیں ہوئی ہیں، جنھوںنے اسے تقریباً یکسر بدل کر رکھ دیاہے۔ وراثت کی اکائیوں (Genes)کے بارے میں جوہر نوع کی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں اور ایک نوع کے دوسرے میں تبدیل ہونے میں مانع ہوتی ہیں، ناقص معلومات پر مبنی ہونے کے سبب اس نظریے میں ایک ایسی کمزوری ظاہر ہوچکی ہے،جو اس کو تقریباً غلط ٹھہرادیتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کے معنیٰ یہی ہوں۔ آیت صرف انسان کے آغاز کی بنیاد بتاتی ہے۔ وہ صرف ایک بات کی حد تک آخری ہے جو اسے بیان کرنا مقصود ہے، یہ کہ انسان کی اٹھان کہاں سے ہوئی۔آخر میںمولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں:
’’اس میں شک نہیں کہ انسان کا علم دنیا اور اس کے حقائق کے متعلق جتنا زیادہ بڑھے گا، اس کو قرآن میںاتنی ہی زیادہ بصیرت حاصل ہوگی۔ لیکن اس سے نہ تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے براہ راست شاگردوں سے بھی زیادہ قرآن کو سمجھنے لگے گا اور نہ یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جو شخص بھی علم ہیئت، طبیعات اور کیمیا وغیرہ کے ذریعے سے دنیا کا خوب علم حاصل کرلے وہ لازماً قرآن کو بہتر سمجھنے والا قرار پائے۔ قرآن کے صحیح فہم کے لیے ہر چیز سے مقدم یہ شرط ہے کہ آدمی اس کو خدا کی کتاب مانے، اس کو سرچشمۂ ہدایت تسلیم کرے، ان ضروری علوم سے واقف ہو جو قرآن کو سمجھنے کے لیے درکارہیں اور پھر اپنا کافی وقت قرآن اور اسلامی نظام فکر و حیات پرغورو فکر کرنے میں صرف کرے۔ لیکن اُس کے باوجود کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ وہ اس پیغمبر سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا ہے، جسے خود خدا نے اپنی کتاب کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیاتھا۔‘‘ ﴿رسائل ومسائل، حصّہ سوم، ص:۲۷﴾
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2010