کھیل کے مقابلوں میں فیس کے ذریعے انعامات
سوال: ہم نے طلبا کے درمیان کھیل کے ایک کمپٹیشن کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے رجسٹریشن فیس متعین کی۔ شرکت کرنے والے ہر طالب علم سے دو سو(۲۰۰) روپے وصول کیے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ جمع ہونے والی رقم کو انتظامات اور ریفریشمنٹ پر خرچ کریں گے۔ کچھ رقم بچے گی تو اس سے جیتنے والی ٹیم کو انعامات دیے جائیں گے۔ ایک ٹرافی بنوانے کا بھی پروگرام تھا۔
اس موضوع پر ہمارے درمیان اختلاف ہوگیا ہے۔ ہمارے بعض ساتھی کہہ رہے ہیں کہ یہ جوا ہے، جو اسلام میں حرام ہے۔
براہِ کرم وضاحت فرمادیں کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جوا کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا (البقرۃ: ۲۱۹)
’’(اے پیغمبر) لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ آپ کہہ دیجیے: ان دونوں میں بڑی خرابی ہے، اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
عربوں میں جوئے کے بہت سے کھیل معروف تھے۔ ان میں سے ایک کھیل کا نام ’نرد شیر‘ تھا۔ اس کے بارے میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من لعب بالنرد شیر فکأنما صبغ یدہ فی لحم الخنزیر ودمه (مسلم: ۲۲۶۰)
’’جس شخص نے نرد شیر کھیلا اس نے گویا اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون سے لت پت کرلیا۔‘‘
جوا کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ کسی کھیل میں حصہ لینے والے تمام افراد سے کچھ رقم وصول کی جائے، پھر کھیل کا مقابلہ کروایا جائے، اس کے بعد جیتنے والے کو وہ رقم دے دی جائے۔
آپ نے کمپٹیشن کی جو صورت لکھی ہے، اس کے مطابق جمع شدہ رقم کو انتظامات اور ریفریشمنٹ پر خرچ کیا جائے گا اور اسی سے جیتنے والی ٹیم کو ٹرافی اور انعامات بھی دیے جائیں گے۔ ان میں اول الذکر مصرف تو درست ہے کہ فیس کے نام پر جن لوگوں سے رقم وصول کی جائے گی، انھی پر خرچ کی جائے گی، لیکن مؤخر الذکر مصرف درست نہیں۔ یہ جوا کی صورت ہوجاتی ہے کہ فیس تو کھیل کے تمام شرکا سے وصول کی جائے، لیکن بعد میں اس کا مالک جیتنے والی ٹیم کو بنا دیا جائے۔
یہ صورت اختیار کی جا سکتی ہے کہ فیس سے وصول ہونے والی رقم کو صرف انتظامات اور ریفریشمنٹ پر خرچ کیا جائے اور ٹرافی اور انعامات کے لیے منتظمین اپنی طرف سے یا کسی تیسرے فریق کی اسپانسرشپ کے ذریعے رقم مہیا کریں۔
مرد کو دوسرے نکاح کا حق
سوال: ایک صاحبِ استطاعت شخص دوسرے نکاح کا خواہش مند ہے۔ پہلی بیوی حیات ہے۔ بہت بیمار رہتی ہے۔ پوشیدہ نسوانی امراض کے سبب تین آپریشن ہو چکے ہیں۔ شوہر کی خدمت کرنے سے قاصر ہے۔ گھر کے کاموں کو انجام نہیں دے سکتی۔ برتن دھونے، جھاڑو پوچھا کرنے کے لیے ایک خادمہ کا انتظام ہے۔ بیوی سے ایک لڑکا اور تین لڑکیاں ہیں۔ لڑکے اور دو لڑکیوں کا نکاح ہو چکا ہے۔ لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہتا ہے۔ ایک لڑکی کا نکاح ابھی کرنا ہے۔ شوہر ریٹائرڈ ٹیچر ہے۔ گھر کا خرچ پینشن کی رقم اور ایک فلیٹ سے حاصل ہونے والے کرایے سے پورا ہوتا ہے۔ شوہر صحت مند ہے اور جنسی تقاضے رکھتا ہے۔
کیا ایسا شخص نکاحِ ثانی کر سکتا ہے؟ یا اس میں کوئی شرعی عذر مانع ہے؟
جواب: اسلام میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ (النساء: ۳)
’’جو عورتیں تم کو پسند آئیں، ان میں سے دو دو، تین تین اور چار چار سے نکاح کر لو۔‘‘
ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت اس سے مشروط نہیں ہے کہ پہلی بیوی بیمار ہو، یا کسی اور وجہ سے وظیفۂ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔ تعدّدِ ازواج عورت کی ضرورت نہیں، بلکہ مرد کی ضرورت ہے۔ آپ نے جو عذر ات بیان کیے ہیں وہ اگرنہ بھی ہوں، پہلی بیوی بالکل صحت مند ہو، پھر بھی شوہر اپنے لیے ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ دوسرا نکاح کر سکتا ہے۔
اسلام نے دوسرے نکاح کو عدل کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ اسی لیے مذکورہ بالا آیت کا اگلا ٹکڑا ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء: ۳)
’’لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے ساتھ عدل نہ کر سکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔‘‘
بیویوں کے درمیان عدل کا تذکرہ قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں بھی آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ (النساء: ۱۲۹)
’’بیویوں کے درمیان پورا پورا عدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے۔ تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا (قانونِ الٰہی کا منشا پورا کرنے کے لیے یہ کافی ہے کہ) ایک بیوی کی طرف اس طرح نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر لٹکتا چھوڑ دو۔‘‘
اس آیت میں ’عدل‘ سے مراد رغبت، محبت اور دلی تعلق میں برابری نہیں ہے، کیوںکہ انسان اس پر قادر نہیں۔ اس لیے اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ مطالبہ یہ ہے اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ظاہری معاملات میں ان کے درمیان فرق نہ کرے، بلکہ دونوں کا یکساں خیال رکھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:
’’ مطلب یہ ہے کہ آدمی تمام حالات میں، تمام حیثیتوں سے دو یا زائد بیویوں کے درمیان مساوات نہیں برت سکتا۔ ایک خوب صورت ہے اور دوسری بد صورت، ایک جوان ہے اور دوسری سن رسیدہ، ایک دائم المرض ہے اور دوسری تندرست، ایک بد مزاج ہے اور دوسری خوش مزاج اور اسی طرح کے دوسرے تفاوت بھی ممکن ہیں، جن کی وجہ سے ایک بیوی کی طرف نسبتاً آدمی کی رغبت کم اور دوسری کی طرف زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایسی حالتوں میں قانون یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ محبت و رغبت اور جسمانی تعلق میں ضرور ہی دونوں کے درمیان مساوات رکھی جائے، بلکہ صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جب تم بے رغبتی کے باوجود ایک عورت کو طلاق نہیں دیتے اور اس کو اپنی خواہش یا خود اس کی خواہش کی بنا پر بیوی بنائے رکھتے ہو تو اس سے کم ازکم اس حد تک تعلق ضرور رکھو کہ وہ عملاً بے شوہر ہوکر نہ رہ جائے۔ ایسے حالات میں ایک بیوی کی بہ نسبت دوسری طرف میلان زیادہ ہونا تو فطری امر ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ دوسری یوں معلّق ہوجائے، گویا کہ اس کا کوئی شوہر نہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد اول، ص ۴۰۳)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عام حالات میں بھی مرد کو ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ بس لازم یہ ہے کہ وہ دونوں کے درمیان عدل کو ملحوظ رکھے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے۔
سسرالی رشتے داروں سے تعلق
سوال: براہِ کرم میرے چند سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:
۱۔ کیا کوئی شخص اپنے بیٹے کے ہوتے ہوئے اپنے داماد سے وہ تمام کام کروا سکتا ہے جو بیٹے سے کروانے چاہئیں۔
۲۔ کسی شخص کے لیے اپنے ماں باپ کے رہتے ہوئے ساس سسر کی خدمت کرنا کیسا ہے، جب کہ ساس سسر کا اپنا بیٹا ہو؟
۳۔ اسلام میں کیا کسی پر احسان کرکے گھر داماد رکھا جا سکتا ہے؟
جواب: قرآن مجید میں رشتوں کا احترام اور ان کی پاس داری کرنے اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء: ۱)
’’اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘
سورۃ الرعد میں اولو الالباب (دانش مندوں) کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ وصف بھی ہے:
وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ (الرعد: ۲۱)
’’اُن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انہیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت حساب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:
’’اس سے مراد رشتہ رحم کا پاس و احترام ہے۔ یعنی جس طرح وہ اللہ کے حقوق کا دل سے احترام کرتے ہیں اسی طرح بندوں کے جو حقوق ان پر بر بنائے رشتہ رحم عائد ہوتے ہیں ان کو بھی پوری فیاضی سے ادا کرتے ہیں۔ وہ رشتہ رحم کو کاٹتے نہیں، بلکہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کو جوڑتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ کسی نمود و نمائش یا غرض کے لیے نہیں، بلکہ خدا کے ڈر سے اور اس کی رضا جوئی کے لیے کرتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن)
احادیث نبوی میں بھی رشتے داروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
قَالَ اللَّهُ أَنَا الرَّحْمَنُ وَهِيَ الرَّحِمُ شَقَقْتُ لَهَا اسْمًا مِنَ اسْمِي مَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ۔ (سنن أبی داود، کتاب الزکاۃ)
’’اللہ فرماتا ہے: میں رحمان ہوں اور وہ رحم (رشتہ) ہے۔ میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جس نے اسے جوڑا میں اسے جوڑوں گا، جس نے اسے کاٹا میں اسے کاٹ دوں گا۔‘‘
حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ليس شيءٌ أُطيعُ اللهَ فيه أعجَلَ ثوابًا من صِلةِ الرحِمِ (صحيح الجامع: 5391، بيهقي: 20364)
’’اللہ کی اطاعت کے کاموں میں سے صلہ رحمی سے زیادہ جلد کسی اور کام پر ثواب نہیں ملتا‘‘
اللہ تعالی نے رشتوں کے دو سلسلے چلائے ہیں: ایک کا تعلق نسب سے ہے اور دوسرے کا سسرال سے۔ دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (الفرقان: ۵۴)
’’اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا، پھر اس سے نسب اور سسرال کے دو الگ سلسلے چلائے تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے‘‘
اس آیت کی تشریح میں مولانا سید ابوالاعلی مودویؒ نے لکھا ہے:
’’یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بناکر کھڑی کرتا ہے، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں، بلکہ دو الگ الگ نمونے (مرد و عورت) بنائے، جو انسانیت میں یکساں، مگر جسمانی ونفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں اور اس اختلاف کی وجہ سے وہ باہم مختلف ومتضاد نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں۔ پھر ان جوڑوں کو ملاکر وہ عجیب توازن کے ساتھ (جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنی دخل بھی نہیں ہے) دنیا میں مرد بھی پیدا کرتا ہے اور عورتیں بھی، جن سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے۔ جو دوسرے گھروں سے بہویں لاتے ہیں اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے، جو دوسرے گھروں کی بہویں بن کر جاتی ہیں۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن)
صلہ رحمی کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ نسبی اور سسرالی دونوں رشتوں کا احترام کیا جائے اور ان رشتوں سے جڑنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور حسب توفیق ان کی خدمت کی جائے۔
شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے حقیقی ماں باپ کی طرح اپنے سسر اور ساس کا بھی احترام کرے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسی طرح بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ساس اور سسر کو اپنے حقیقی ماں باپ کا درجہ دے۔ان کے ساتھ احترام اور محبت سے پیش آئے اور حسب توفیق ان کی خدمت کرے۔ دوسری طرف گھر کے بزرگوں (مرد اور عورت) کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بہو کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں۔ اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں اور اس کی طرف سے خدمت ملنے پر اظہار تشکّر کریں۔ اسی طرح داماد سے بھی الفت ومحبت کا رشتہ رکھیں، وقت ضرورت اس کے کام آئیں اور اس کو اپنی خوشی اور غم میں شریک کریں اور اپنےخاندان کا حصہ سمجھیں۔
نسبی اور سسرالی دونوں طرح کے رشتوں کی پاس داری سے مضبوط اور مستحکم خاندان وجود میں آتا ہے، جس کے تمام افراد باہم شیر و شکر ہوکر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ خوشیوں میں شریک ہوتے اور مصیبت میں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ باپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو سعادت مند بیٹے کو آگےبڑھ کر اسے پورا کرنا چاہیے۔ اس کی توجہ نہ ہوسکے تو باپ حکم دے کر بیٹے سے وہ کام کرواسکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا وہ کام نہ کرسکے، یا کسی وجہ سے باپ بیٹے سے وہ کام کرنے کے لیے نہ کہہ سکے تو وہ داماد سے اس کام کو کرواسکتا ہے۔ اسی طرح داماد اپنی ساس سسر کا کوئی کام خوش دلی سے کرسکتا ہے، چاہے ان کے اپنے بیٹے موجود ہوں۔
کسی شخص کا کوئی بیٹا نہ ہو یا اس کے بیٹے ہوں، وہ اپنی آسانی کے لیے یا داماد کو سہولت پہنچانے کی غرض سے اپنے گھر رکھ سکتا ہے۔ وراثت میں داماد کا کوئی حصہ نہیں ۔ لیکن بیٹوں کو محروم کیے بغیر کوئی شخص کسی رواج وغیرہ کے جبر کے بغیر اپنے دل کی خوشی سے حسب ضرورت داماد کو کچھ ہبہ کرسکتا ہے یا ایک تہائی حصہ تک اس کےحق میں وصیت کرسکتا ہے۔
مذکورہ بالا تمام سوالات پر صلہ رحمی کے پس منظر میں غور کیا جائے تو کوئی اشکال وارد نہیں ہوگا اور رشتے داروں کا ایک دوسرے کا تعاون کرنا مطلوب ومحمود عمل قرار پائے گا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2021