آپ کی رائے

محترمی ومکرمی                                             السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ’

اکتوبر کے زندگی نو کا ایک حصّہ انتخابات، سیاست اور جماعت اسلامی پرمنحصر رہا۔ ایس ایم ملک صاحب نے ایک فکرانگیز موضوع کاآغاز کیا۔ جمہوریت اور سیکولرزم کی تشریح بھی کی۔ ’’حلف‘‘ کی حیثیت کو مختلف علماء  دین کی رایوں کے ذریعے پیش کیا اور ساتھ ہی دستور ہند و دستور جماعت کی تشریحات کو پیش کرتے ہوئے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی۔ ہوسکتا ہے میرا ناقص خیال غلط ہو۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی کسی موضوع پر لکھاجاتاہے تو پہلے ہی سے اس کے لیے ذہن کو تیارکرلیاجاتاہے۔ اِس طرح غیرجانبدارانہ غوروفکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ جس سمت پیش قدمی ہورہی ہے ، اس سفر کے لیے زاد راہ کی تیاری بھی تو ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی افرادی قوت سے زیادہ اس راہ میں بلند پایہ اخلاق وکردار کے غازی درکار ہیں نہ کہ گفتار کے غازی۔ اس طرف کم ہی توجہ دیکھنے کو ملی۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے اپنے مضمون میں کچھ نہ کچھ سمت سفر کی راہیں بھی بتائی ہیں۔ ساتھ ہی فرد کی اصلاح اور اپنے اخلاق وکردار کو بلند کرنے یا دوسرے الفاظ میں ایمان کو مستحکم کرنے پر بھی توجہ دلائی ہے۔ جب کہ ملک صاحب نے صرف اور صرف سیاست اس کی تعریف، افادیت اور ضرورت پر زوردیا اور یہی ان کے موضوع کا مرکزی نقطہ رہا۔

ہمیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ہمارے وسائل اور قوتیں محدود ہیں اور اس بات کا بھی کہ ہمیں کس قسم کی مشکلات سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ یہی بات ملک صاحب لکھتے ہیں کہ‘’یہ صحیح ہے کہ الیکشن راست جماعت اسلامی جیسی بااصول تحریک کے لیے آسان نہیں ہے، بلکہ گوناگوں مشکلات اس کی راہ میں حائل ہیں۔ نہ اس کے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ اپنے کارکنوں کی ذہن سازی اس لحاظ سے کرپائی ہے کہ وہ میدان میں کود جائے۔ جو کچھ سرمایہ جماعت کے پاس ہے وہ اس کے کارکنوں کا اخلاقی وزن اور امت اور دیگر برادران وطن کا اعتماد اور یقین ہے’’۔ بالکل سچ کہا ملک صاحب نے کہ سب سے پہلے ہمیں کارکنوں کے اخلاقی وزن کو بلند کرناہوگا اور ساتھ ہی قول وفعل کے تضاد سے بچنا ہوگا۔ تبھی برادران وطن کااعتماد حاصل ہوسکے گا۔ اب یہ بالکل متضاد بات ہوگی کہ ایک طرف تو ہمیں اپنی کمزوریوں کااچھی طرح احساس ہو اور دوسری طرف ہم یہ بھی چاہتے ہوں کہ سیاست میں جلد سے جلد حصہ لیں۔

مسلمانوں میں جو عالمِ دین، مفتیان کرام ہیں، ان کا دینی شعور عام مسلمانوں سے بہتر ہوتاہے۔اس کے باوجود کسی بھی بات کو وہ اپنے ذہن سے سمجھنا نہیں چاہتے بلکہ عموماً ذمہ داران ﴿مدرسہ و مسجد﴾ کے ذہنوں سے سوچتے سمجھتے ہیں، جہاں درس قرآن و حدیث کی بھی اجازت نہ ہو کیا ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اطمینان سے کام کرنے دیںگے اور ہماری بات کو تسلیم کرلیں گے۔

زیربحث موضوعات میں کہیں کہیں اقلیت واکثریت کاذکر بھی آیا ہے۔ میں مؤدبانہ عرض کروںگا کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر ’’اسلامی سیاست، مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصّہ سوم کا مطالعہ کرلینا چاہیے۔ اس میں اسلامی تحریکات کی حقیقی حیثیت و ماہیت اور مطلوبہ فکر وعمل کی وضاحت کی گئی ہے۔ بہت سے شبہات کا ازالہ خود بخود ہوجائے گا۔

یہ بات ذہنوںمیں رہنی چاہیے کہ ہم آج جو بورہے ہیں آیندہ نسلیںاسی فصل کو کاٹیںگی۔ یہی فطری ترتیب ہے۔ اگر عجلت سے کام لے کر ہم خود اس فصل کو کاٹنے کی فکر کریں تو بہت ہی کمزور فصل ہوگی۔ ہمیں اس سے بچنا چاہیے ۔ تحریک کا ہر کام دوراندیشی پر مبنی ہوتاہے۔ ذمہ داروں کو بھی کسی دبائو کے تحت نہیں بلکہ آزادانہ فیصلہ کرنا چاہیے ۔ انتخابات منزل تک پہنچنے کا یقینا ایک ذریعہ ہیں۔ مگر بہت زیادہ غور و فکر کرکے اور اپنی استعداد و طاقت کااندازہ لگاکرقدم بڑھانا ہے ورنہ

راہ طلب میں ایک اُٹھا تھا غلط قدم

منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی

ہم جانتے ہیں کہ M.P.J ابھی اپنے سفر کے ابتدائی مرحلے طے کررہی ہے۔ اس کو خود مکتفی ہونے دیں اور اپنے پیروں پرکھڑا ہونے دیں۔ تاکہ وہ خود کو سنبھال سکے۔ اُس کو صحت مندانہ خطوط پر اپنی منزل کی طرف بڑھنا ہے۔ اس کے لیے کچھ وقت تو بہرحال لگے گا۔

مہرالدین صاحب نے جو انٹرویو لیاہے۔ یہاں اختلاف رائے صاف سامنے آیا۔ مہرالدین صاحب کا اپناخیال چونکادینے والا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں ’’یہ دبائو اقتدارِ وقت کادبائوتھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کاانکار ممکن نہیں ہے‘‘۔ اگر یہ فیصلہ کسی دبائو کے تحت ہی ہواہو تو تحریک کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے اور آیندہ مستقبل میں بھی ہمارے فیصلوں کے آزادانہ ہونے پر سوالیہ نشان لگاسکتا ہے۔

محترم نجات اللہ صدیقی صاحب کی طرح میں بھی اس بات پر زور دوں گا کہ تحریک کو سب سے پہلے خدمت خلق کے کام کو کافی وسیع کرنا اور پھیلانا ہوگا۔ مائیکرو فائنانس کے ذیعے غریب سے غریب افراد تک پہنچناہوگا۔ ایسے ہی کاموں سے ہم عوام میں نفوذکرسکتے ہیں۔ تبدیلی تو عوام ہی کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام کا بہتر تعارف بھی ہوگا۔ شہرحیدرآباد میں متوسط اور غریب افراد کی کثیر تعداد سود کی لعنت میں مبتلا ہے۔ اس کو چلانے والے بھی مسلمان اور لینے والے بھی مسلمان۔ تحریک کو ایسے حالات پر نظررکھنا ہے۔ اس سلسلے میں دعوت کے خصوصی شمارہ ’’زکوٰۃ کااجتماعی نظم‘‘ کے مطالعہ سے بہت سی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔ ’’حرف ِآخر‘‘ میں صدیقی صاحب نے جو کچھ کہا اور جن معیار و صفات کاذکر کیا اُن کا حصول ہمارے لیے ضروری ہے۔ ہمیں جذبات سے زیادہ شعور سے کام لینا ہے اور مستقبل کے لحاظ سے بہتر فیصلہ کرناہے۔ کسی کے دبائو میں آکر کوئی فیصلہ نہیں کرنا ہے۔

ڈاکٹر عبدالخالق راشد

محبوب نگر، اے پی

 

میں جماعت اسلامی ہند کاالیکشن میں حصّہ لینا مناسب سمجھتاہوں۔لیکن اس کے لیے بہت پہلے سے ضروری تیاری کرنا لازمی ہے۔ مثلاً:

v    دہلی سے انگلش اور ہندی کے روزناموں کااجراء

v    ٹی وی کے ذریعے تشہیر۔

v    ابتدائ میں اسلام پسند اور قابل اعتماد اصحاب کوجن کا جماعت اسلامی سے تعلق نہ ہو۔ مگر جو جماعت کے مقاصد سے اتفاق رکھتے ہوں، جماعت کی تائید کے ساتھ الیکشن میں کھڑا کیاجاناچاہیے۔

v    گرام پنچایت کے انتخابات میں جماعت اسلامی آسانی سے حصّہ لے سکتی ہے۔

v    اضلاع میں بھی جماعت اسلامی مناسب اشخاص کو تعاون دے سکتی ہے۔

v    فی الحال پارلیمنٹ یا کسی بھی اسمبلی کے انتخابات میں براہ راست جماعت اسلامی کاحصّہ لینا میری رائے میں مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ جماعت کے پاس نہ اتنے وسائل ہیں اور نہ جماعت کو اتنی عام مقبولیت حاصل ہے۔

v    جماعت اسلامی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کسی آل انڈیا یا علاقائی پارٹی کو تعاون دینے کے بارے میں بھی غور کرسکتی ہے۔

v    جماعت اسلامی صوبائی یا پارلیمنٹ کے الیکشن میں ہندوستان کی اُن ریاستوں میں جہاں قابلِ لحاظ مسلم آبادی ہو، کسی مسلمان آزاد امیدوار کی تائید کرسکتی ہے یا پھر کسی غیرمسلم باکردار اور قابل اعتماد امیدوار کی تائید کرسکتی ہے۔

v    مختصر یہ کہ صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے الیکشن میں براہ راست حصّہ لینے کے لیے جماعت اسلامی کو کافی عرصے تک منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ ضروری تیاری کرنی ہوگی۔ الیکشن کی پلاننگ کرنی ہوگی۔ روزناموں کااجرائ اور جماعت اسلامی کے خیالات ومقاصد کی تشہیر کرنی ہوگی۔ عوام کا ذہن بنانا ہوگا۔ اگر یہ سب بنیادی کام تیزی سے شروع ہوجائیں تو امید ہے کہ مستقبل قریب میں ایک دن ضرور آئے گا، جب جماعت اسلامی الیکشن میںحصّہ لے کر اسلامی مقاصد میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکے گی۔

محمد حمایت المقیت صدیقی

حیدرآباد

 

زندگی نوکے دسمبر ۲۰۰۹؁ءکے شمارے میں ’’آپ کی رائے‘‘ کے تحت برادرم محمد جلال الدین صاحب کا مراسلہ اِس وقت سامنے ہے۔ انہوں نے نظام آباد کے اجتماع کے موقع پر اُس وقت کے امیر جماعت اِسلامی ہند کی تقریر ’’سیکولرزم ، جمہوریت اور انتخابات ‘‘ کے حوالے سے لکھاکہ امیر جماعت نے دوران تقریر کہاکہ ’’جن لوگوں کو ہمارے خیال سے اختلاف ہو، وہ جماعت سے نکل جائیں‘‘۔ میرے ناقص خیال میں امیرجماعت کا اس طرح کہنا صحیح نہ تھا۔ ذمہ داران جماعت کی تقاریر کا ہر جملہ جماعت کا تعارف کراتاہے۔ اگرکبھی کوئی جملہ جماعتی مزاج اور شان سے میل نہ کھائے تو توجہ دلانے پر معذرت کرنی چاہیے۔ ورنہ جماعت بدنام ہوتی ہے اور کام متاثر ہوتا ہے۔ دلائل کے ذریعے بات سمجھانے کے بجائے جماعت سے نکل جانے کی بات کہنا جماعتی مزاج کے مطابق نہیں۔ جماعت میں لوگ سوچ سمجھ کر آتے ہیں اور بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ عزیمت کی راہوں پر چلنے کا عہد کرتے ہیں۔ انھیں اپنے سے دور کرنا یا دور ہونے کی بات کرنا دلی صدمہ اور تکلیف والی بات ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے ’’اگر کہیں تم تنُد خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے۔ ﴿آل عمران: ۱۵۹﴾ ایک ذمّے دار جماعت نے ایک شہر کے جماعتی اجتماع میں ایک رکن جماعت کے اختلاف پر دوران تقریر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاتھا “Kick him out” ﴿اُسے لات مارکر نکال دو﴾۔ اس جملہ کو میں ذہن سے نکال نہیں سکاتھاکہ نظام آباد والے اجتماع کی بات نے اسے تازہ کردیااور دُکھ میں اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح کہنے، سننے اور حق کو تسلیم کرنے کی توفیق اورصلاحیت دے اور کبھی غلطی ہوجائے تو معذرت کی توفیق دے۔ تاکہ ساتھیوں کو ہم سے شکایت نہ رہے۔ وَباللہ التوفیق۔ والسلام

﴿نام نہیں پڑھاجاسکا﴾

جدّہ

 

‘زندگی نو’ جنوری ۰۱۰۲ئ میں ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کے قلم سے سیدقطب شہیدؒ کی قیمتی تحریر ’’افراح الروح‘‘ کا ترجمہ ’’رُوح کے نغمے‘‘ کے عنوان سے شائع ہواہے۔ موصوف نے یہ تاثر دیاہے کہ سب سے پہلے انھوں نے  ہی اس تحریر کو اردو خواں قارئین کی خدمت میں پیش کیاہے، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ ’’رُوح کی خوشیاں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری کے قلم سے ۲۰۰۶؁ء میں ادارہ معارف اسلامی لاہور سے کتابچے کی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ سید قطب کی زندگی کے آخری ایّام کی تحریر ہے۔ یہ تحریر پہلی مرتبہ تیونس کے مجلہ الفکر ﴿جلد ۴، شمارہ ۶، مارچ ۱۹۵۹؁ء﴾ میں ‘اضوائ من بعید’ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ سید قطب کو پہلی مرتبہ اکتوبر ۱۹۴۵؁ء میں جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیاگیاتھا۔ ۳۱/جولائی ۱۹۵۵؁ء کو انھیں پندرہ سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ دس سال کے بعد ۱۹۶۴؁ء میں انھیں رہائی ملی۔ یہ تحریر قید وبند کے انھی ایام میں کسی موقع پر انھوں نے لکھی تھی اور اسے اپنی بہن اور معروف ادیبہ امینہ قطب کے نام خط کی صورت میں بھیجاتھا۔ نام نہاد آزادی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزراتھاکہ ۱۹۶۵؁ء میں انھیں پھرگرفتار کرلیاگیا اور بغاوت کاالزام لگاکر اور ایک ڈھونگ نما عدالت سے فیصلے کرواکے ۲۹/اگست ۱۹۶۶؁ء کو تختۂ دار پر چڑھادیاگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔

عبدالحیّ، مکّی

دعوت نگر،ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵

میرے مضمون ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں‘‘ ﴿شائع شدہ زندگی نو مبر ۹۰۰۲ئ﴾ کے بارے میں جناب فیروزاحمدنے اپنے مراسلہ ﴿جنوری ۲۰۱۰؁ء﴾ میں یہ اشکال ظاہر کیاہے کہ ’‘مضمون میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی مصروفیات کاذکر کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ آپﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیاکرتے تھے۔ یہ کام آپ ﷺکی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتاہے۔ آپ تو صفائی ستھرائی کانمونہ تھے۔ اس لیے حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہورہی ہے‘‘۔

اس سلسلے میں دوباتیں عرض کرنی ہیں۔ اول یہ کہ معتبراور ثابت شدہ روایات کے بارے میں تاویل وتوجیہ کاذہن بناناچاہیے ، اس کے بجائے اوّل وہلہ میں اس پر اشکال وارد نہیں کردینا چاہیے ۔ دوم یہ کہ کسی واقعے پر غور وخوض اپنے زمانے کے حالات کو پیش نظر رکھ کر نہیں ، بلکہ اس کے زمانۂ وقوع کی روشنی میں کرناچاہیے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ سرزمین عرب کا موسم بہت گرم ہوتاہے۔ عہد نبوی میں مدینہ میں صرف چند کنویں تھے، جن سے پوری آبادی پانی حاصل کرتی تھی، گھر میں پانی کاذخیرہ کرنے کے لیے صرف دو ایک مٹکے ہوتے تھے۔ اس لیے آج کل کی طرح ممکن نہ تھا کہ روزانہ صبح و شام غسل کیاجائے، پہننے کے کپڑے بھی بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے کہ روزانہ انھیں تبدیل کیاجائے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ  کی روایت میں زور اس بات پر ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی اپنے ہاتھ سے کیاکرتے تھے۔ دوسروں پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ بہ طور مثال انھوںنے دوکام بیان کردیے کہ آپﷺ اپنی بکری کا دودھ خود دوہتے تھے اور اپنے کپڑوں سے جوں خود ہی نکال لیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب نہ یہ ہے کہ آپ گھر میں صرف یہی دو کام انجام دیتے تھے، بقیہ دیگر خانگی کام دوسرے لوگوں کے حوالے تھے اور نہ اس سے یہ مطلب نکلتاہے کہ آپ ہر وقت یہی دونوں کام یا ان میں سے کوئی ایک کام کرتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کبھی غسل کرنے کے بعد آپﷺ کے پاس دوسرے دُھلے ہوئے کپڑے نہیں ہوئے تو آپﷺ نے وہی کپڑے پہن لیے اور انھیں پہننے سے پہلے پلٹ کر دیکھ لیاکہ کہیں کوئی جوں تو نہیں ہے۔ آپﷺ کی طبعی نظافت اور صفائی ستھرائی کے معمول کو ﴿جس کا تذکرہ احادیث میں کثرت سے ملتاہے﴾ دیکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ یہ صورت حال شاذ و نادر ہی پیش آتی ہوگی۔

حضرت عائشہؓ  کی یہ روایت ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتی ہے۔ دین دار گھرانوں میں بھی اس کااہتمام نہیں کیاجاتا۔ بیویاں گھروں میں خادمائوں کی طرح اپنے شوہروں کے چھوٹے بڑے تمام کام انجام دیتی ہیں اور اگر کبھی ان سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو شوہرانِ نام دار کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کااسوہ اختیار کرتے ہوئے انھیں گھریلو کاموں میں اپنی بیویوں کاہاتھ بٹانا چاہیے اور اپنے نجی کام خود کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

محمد رضی الاسلام ندوی

ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ

 

ملک کے موجودہ نظام اور اس کے اصولوں کے بارے میں جماعتی موقف کا اظہار و نیز اس نظام کے تحت پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا مسئلہ کوئی پیچیدہ امرنہیں تھا، مگر بانی تحریک اسلامی نے آزادی ہند سے قبل جو اظہارخیالات ان امور کے سلسلے میں کیاتھا، اس سے سرموانحراف کوکفرو ایمان کامسئلہ بنالیاگیاہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آزادی ہند کے فوری بعد جماعت اسلامی ہند کی قیادت نے بدلے ہوئے حالات میں تحریک کے لائحہ عمل پر نظرثانی شروع کردی تھی اور ملک کے نظام، اس کے اصولوں اور انتخابات عام وغیرہ امور پر اپنے موقف کے تعین اور حسب ضرورت سابقہ موقف پرنظرثانی کرنے کا آغاز کردیاتھا جماعت کی مجالس شوریٰ کی رودادوں میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔ اِن کا مطالعہ جماعت میں فکری ہم آہنگی کے حصول کا ایک موثر ذریعہ ہے۔ تحریک کی صف اول کے قائدین نے اپنی تحریروں میں ان امور پر کافی وشافی روشنی ڈالی ہے۔ مسئلہ انتخابات پر اپنی بدلی ہوئی رائے کا جو اظہار مولانا ابواللیث ندوی امیر جماعت اسلامی ہند نے نے فرمایاتھا، اس کا کامل اقتباس احقر نے اپنے مراسلے میں پیش کیاہے، جو موقر ماہ نامہ زندگی نو کی اشاعت بابتہ جنوری ۲۰۱۰؁ء میں شائع ہوا ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی کی وقیع رائے اس سلسلے میں ملاحظہ فرمائیں:

‘‘پارلیمانی انتخابات کی راہ سے اسلامی نظام کے قیام کا تصور یقینا ایک ایسا تصور ہے، جس کا انبیائی دعوتوں کی تاریخ میں کوئی نشان نہیں مل سکتا۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ان زمانوں میں جمہوریت اور پارلیمانی انتخاب کا سسٹم موجود توتھا۔ مگر حضرات انبیا(ع)ئ نے اس سسٹم کو ہرحال میں ناقابل اختیار سمجھ کر اسے مکمل طورپر رد کردیاتھا، بلکہ یہ ہے کہ ان دنوں اس سسٹم کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ اس لیے اس کے بارے میں ان کا کوئی اسوہ بھی نہیں پایاجاسکتا۔ ایسی حالت میں آج اگر اس کے متعلق ہم کوئی راے قایم کرنا چاہیںگے تو اس کے لیے ہمیں تمام تر انحصار اجتہادفکر ہی پرکرنا ہوگا اور وہی راہ قابل اختیار ٹھیرے گی، جو زمانے کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوے دین کے اصول اور دینی مصالح کا تقاضا نظرآے گی۔ جمہوریت کے اس دور میں جب کہ کسی بھی فکری اور عملی انقلاب کے لیے انتخابات کاراستہ کھلاہوا ہے اور دوسرا ہر راستہ رد کردیاگیا ہے۔ دینی بصیرت کافیصلہ یہی ہوگا کہ اسلامی انقلاب کے لیے بھی اس راستے کو اپنایاجانا چاہیے اور لازماً اپنایاجانا چاہیے‘‘۔

﴿تحریک اسلامی ہند صفحہ ۲۷۶مطبوعہ مئی ۱۹۷۰؁ء﴾

اگر ملکی انتخابات میں حصہ لینے کا تعلق لازماً عقیدہ سے ہوتا اور ملک کے مختلف قانون ساز اداروں کی رکنیت ہرحال میں عقیدہ توحید کے مغائر ہوتی تو مولانا محترم کیونکر اسے اجتہادی مسئلہ قرار دیتے؟ مولانا امین احسنؒ  فرماتے ہیں:

‘‘ہردعوت کو کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ان تینوں مراحل ﴿دعوت و تبلیغ، ہجرت اور جنگ وجہاد﴾ سے گزرنا لازمی نہیں ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ عام طورپر یہ تینوں مرحلے پیش آتے ہیں، ورنہ اس جمہوریت کے زمانے میں اس بات کابھی امکان ہے کہ صرف پہلا مرحلہ ہی دعوت کو کامیابی سے ہم کنارکردے‘‘۔ ﴿دعوت دین اور اس کا طریق کار، صفحہ: ۲۷۴

بانی تحریک نے جہاں حاکمیت جمہور کے کلی تصور پر تنقید کی ہے، وہیں انھوںنے جمہوری آزادیوں ، جمہوری طریقِ فیصلہ، فیصلے اور جمہوری طرزِانتخاب کی تائیدفرمائی ہے اور ان امور کو جمہوریت کی روح اور اس کاجوہر (Spirit and Essence of Democracy) قرار دیا ہے۔ موصوف کئی بار اپنے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک کی سربراہی بھی کرچکے ہیں۔

ملک میں فسطائیت کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور اس کے پھیلتے ہوئے دائرہ اثر پر روک لگانے کے لیے یہاں کی جمہوریت کو مضبوط کرنا اور یہاں کے جمہوری طرز حکمرانی کی بقائ کے لیے سعی کرنا اور اس مقصد کے لیے ان عناصر کی الیکٹورل تائید کرنا ،جو اس معاملے میں اہم کردار نبھاسکتے ہیں، دینی اصول اور مصالح کاہی تقاضہ ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان میں سیکولرزم کا مفہوم خلاف مذہب (Anti Religious)یا الحادی نظریہ (Atheism)کا نہیں ہے، جِس پرکہ بانی تحریک نے تنقید کی ہے۔جماعت اسلامی ہند کی مجالس شوریٰ نے اس بارے میں قراردادوں میں اپنے جِس نقطۂ نظر کااظہارکیا ہے۔ وہ اس کے صائب الراے ہونے کا مظہر ہے۔ جو حضرات ان امور کے سلسلے میں بدگمانی سے کام لے رہے ہیں، وہ جماعتی قیادت پر بالواسطہ مداہنت کاالزام لگارہے ہیں۔ ہماری ماضی کی قیادت میں سے بیشتر مرحومین ہیں اور وہ کئی مرتبہ قید وبند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کرچکے ہیں اور خود جماعت پربھی دو مرتبہ پابندی لگ چکی ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہوگی کہ اس کی قیادت کے سلسلے میں سرکاری دبائو میں آکر فیصلے کرنے کی بات کہی جائے یا کسی بندش وغیرہ سے خوف کھاکر قراردادیں منظور کرنے کا الزام لگایاجاے۔ والسلام

سیدشکیل احمد انور

۴۹۹،پرانی حویلی حیدرآباد۵۰۰۰۰۲

 

جولوگ دعوت اور اصلاح کے کام میں زیادہ وقت نہیں دیتے، ان کے پاس الیکشن میں حصہ لینے اور نہ لینے کی بحث میں پڑنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے۔ جس چیز کو الیکشن میں حصہ لینے سے زیادہ ضروری سمجھتے ہیں ، اس پر غورو خوض اور بحث زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ ’’زندگی نو‘‘ میں الیکشن کے موضوع پر مضامین کاموافقت اور مخالفت میں بار بارا ٓنا اور سوال و جواب کا سلسلہ چل پڑنا میرے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ اصل کام سے فارغ رہنے کی علامت ہے۔ یہ گھسی پٹی باتیں میری سمجھ سے بے نتیجہ ہیں۔ حالانکہ میں یہ بھی سمجھتاہوں کہ تحریک کے اصولی اور بنیادی تصورات اور مقصدِتحریک پر سب لوگ متفق، مخلص اور یک رنگ ہیں۔

میں نہیں سمجھ سکاکہ الیکشن میں حصہ لینے کے مسئلے کو ’’پالیسی‘‘ ﴿حکمت عملی﴾ کا مسئلہ کیوں نہیں سمجھاجاتاہے۔ عقیدہ اور پالیسی میں فرق ہے۔ پالیسی وقتی مصالح کے تحت بھی اختیارکی جاتی ہے، جس میں بڑے مفاد کے حصول، ضرر سے بچنے کی تدابیر، اصل منزل کی راہ پر چلن اور پہنچنے میں کسی رکاوٹ کو دور کرنے کے مقصد سے وقتی اقدام وغیرہ کو شمار کرنا چاہیے۔ یہ پالیسی اور حکمت عملی دین میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس کو وقتی مسئلے میں اجتہاد کی حیثیت سے لینا چاہیے۔ جس میں اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ اختلاف کی صورت میں اہل الراے ﴿علما اوردانشوروں﴾ کی کثرت کو پیش نظررکھ کر شوریٰ کے فیصلے کو بروے کار لانے کی کوشش ہونی چاہیے۔ اگرایسا نہ ہوتو انتشار کی صورت پیدا ہوگی، جس سے خود مقصدِ تحریک خطرے میں پڑجائے گا۔

اس بات پر سب کااتفاق ہے کہ دعوت اور اصلاح کے دونوں محاذوں پر کام میں ہر شخص کو اپنے اندر مستعدی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی فیصلے کے مطابق کوئی ووٹ دیتا ہے تو دے۔ اگر ہمیں ووٹ دینا پسند نہیں ہے تو ہم اپنے اصل کام میں لگے رہیں۔ اگر ووٹ دینے کا پابند بنادیاجائے تب ہی بحث کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ کم از کم میں اسی موقف کا حامل ہوں۔ دعا کرتاہوں کہ مجھے اصل کام میں لگے رہنے کی توفیق اور صلاحیت میسر ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ میں اس کام کامعمولی حق بھی ادا نہیں کرپایاہوں۔ شاید دوسرے تحریکی بھائیوں کابھی یہی احساس ہو۔

مقصودعالم صدیقی

پورنیہ، بہار،موبائل: 09430263263

‘‘زندگی نو‘‘ میں جوامور زیربحث ہیں، ان کے بارے میں میرے تاثرات یہ ہیں:

﴿۱﴾       جماعت کا روزاوّل سے یہ متفقہ فیصلہ رہاہے اور آج بھی ہے کہ دین اسلام ہی وہ واحد خدائی نظام اطاعت ہے، جو خداکاپسندیدہ اور تمام بندگان خدا کے لیے اس کا ارسال کردہ ہے۔ یہ ہر دور اور ہرجگہ کے لیے قابل عمل ہے۔ اس روے زمین پر یہی برحق ہے اور دنیا اور آخرت میں یہی دین فلاح اور رضاے الٰہی کے حصول کاضامن ہے۔ اس کے سوا جتنے نظریات اور نظام ہاے اطاعت ہوئے ہیں۔ آج ہیں اور آیندہ ہوسکتے ہیں، وہ سب باطل اور دنیاے انسانیت کے لیے تباہ کن ہیں۔ رائج الوقت سیکولر جمہوری نظام بھی باطل ، غیراسلامی اورخلاف حق ہے۔ اس سے کبھی کسی خیرکی توقع نہیں کی جاسکتی۔ جماعت اسلامی ہند کے قیام کامقصد ہی احقاق حق اور ابطال باطل ہے۔

﴿۲﴾      مگر جماعت کی مجلس شوریٰ نے یہ بھی طے کردیاہے کہ موجودہ حالات میں سیکولرزم اور لادینی جمہوری نظام اس ملک کے باشندوں کے لیے غنیمت ہے۔ جماعت اس کی الیکٹورل تائیدبھی کرتی ہے اور جمہوریت کے استحکام کے لیے کوشاں بھی ہے۔ تاکہ فسطائیت کو ابھرنے سے روکاجاسکے اور مسلمانوں کے جن حقوق و مراعات کی دستور میں ضمانت دی گئی ہے، انہیں حاصل کیاجاسکے۔ جماعت نے یہ بھی فیصلہ کیاہے کہ دین اور ملّت کے مفادات اگر متقاضی ہوں تو جماعت براہ راست یابالواسطہ ان مفادات کے حصول کے لیے الیکشن میں حصہ لے۔

﴿۳﴾      لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ الیکشن نظریہ و نظام اور دستور کی تبدیلی کاذریعہ ہرگزنہیں ہے۔ دین و ملت کے مفادات کی بنیادپر بھی الیکشن میں حصہ نہیں لیاجاسکتا۔ چنانچہ اندیشہ یہ ہے کہ جماعت الیکشن میںحصہ لے گی تو وہی سبز باغ باشندگان ملک کو دکھائے گی، جو دیگر سیاسی پارٹیاں دکھاتی ہیں۔ مثلاً: غربت کومٹانا، تعلیم کو فروغ دینا، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور انہیںحاصل کرنا، امن ، انصاف، بھائی چارہ وغیرہ کو فروغ دینا وغیرہ۔

﴿۴﴾      ۵۸۹۱ئ کے بعد عملاً جماعت اسلامی ہندکے اندر جو انحراف محسوس ہوتاہے وہ یہ ہے:

﴿الف﴾ ملک کی سیکولرتنظیموںاور شخصیتوں سے قرب ان کا تعاون حاصل کرنا اور انہیں اپنا تعاون دینا۔ ﴿ب﴾ ایسی مہمات چلانا جس سے محسوس ہوکہ جماعت اسلامی ہند ایک بے ضرر تنظیم ہے۔ سیکولرقدروں کو فروغ دیتی ہے، قومی یکجہتی کی داعی ہے، ہندومسلم اتحاد کی علمبردار ہے، ملک کی مختلف سیاسی اور سیکولرپارٹیوں کو ووٹ دیتی ہے۔ ﴿ج﴾جماعت اسلامی ہند ایک روشن خیال تنظیم ہے، اس نے ملک کے اندر بہت سی این جی اوز مختلف ناموں سے قائم کی ہیں۔ کسی میں اسلام کانام نہیں آتا۔ ذیلی تنظیم آئی ٹا میں اسلامک کی جگہ آئیڈیل کردیا ہے۔ ملک میں کہیں کوئی کانفرنس کااہتمام کرتا ہے یا کوئی پروگرام رکھتا ہے تو اس کی دعوت پر غیرمشروط طورپر ذمے دارانِ جماعت شریک ہوتے ہیں۔ سرکاری افطار پارٹی میں اور مختلف سفارت خانوں میں دعوت طعام میںہمارے اکابرشرکت کرتے ہیں۔ مرکز کے میٹنگ ہال میں مخلوط پروگرام تک ہوئے ہیں۔

جماعت میں وسائل کا غیرمتوازن استعمال ہورہاہے۔  اگر یہ زمینی حقائق ہیں تو کیا مرکزی شوریٰ اِس طرزعمل پر نظرثانی کرے گی؟ ان مناظرکو دیکھ کر اگر تشویش پیداہورہی ہو اور لوگ جمود اور مایوسی کاشکارہوں تو کیا اِس کا ازالہ درس قرآن و احادیث، تقاریر اور تربیتی اجتماعات کے ذریعے ہوسکے گا۔ احتساب کاعمل نیچے کی سطح پر کیاجاسکتا ہے۔ ضرورت اوپر کے احتساب کی ہے۔

ثمینہ مظہرفلاحی

سیدھاسلطان پور، سرائے میر،ضلع اعظم گڑھ﴿یو۔پی﴾

مشمولہ: شمارہ فروری 2010

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223