اسلام مردوں اور عورتوں کو مساوی طور پر ایمان لانے اور اُس پر جم جانے کا تاکیدی حکم دیتا ہے۔ دین کے قیام کی جدوجہد کے لیے دونوں کو یکساں طور پر متوجہ کرتا ہے۔ ایمان لانے، اس پر عمل کرنے اور اپنے رب کے حضور اعمال کی جواب دہی کے لیے دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں سے نہ کوئی ایک دوسرے کے لیے نجات کا باعث بن سکتا ہے، نہ ہی کسی کی خدمات کا حوالہ دے کر راہِ فرار حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔ یہی وہ فرض عین ہے جس کی طرف محمد ﷺ نے اپنی عزیز ترین بیٹی اور بہن کو مخاطب کیا:
‘‘اے محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ،اور اے محمد ﷺ کی پھوپھی صفیہؓ دوزخ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرو۔ کیوں کہ میرا رشتہ خدا کے یہاں تمہارے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ ’’ [1]
اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے آخری حج میں تاکید کی تھی کہ وہ تمام لوگ جو یہاں موجود ہیں، اپنے قول وعمل کے ذریعے اللہ کا پیغام ان تک (جو موجود نہیں) بالکل اسی طرح پہنچائیں، جس طرح خود محمدﷺ نے ان تک پہنچایا ہے۔ دعوت دین کا کام پوری اُمت کا ہے۔ یہ داعی اُمت ہے، جسے خود کو اور تمام انسانوں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچانے اور جنت کی دائمی زندگی کی طرف لے جانے کی سعی و جہد کرنی ہے۔ قرآنِ مبین میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہے:
‘‘دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو۔ بدی سے روکتے ہو۔ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔’’[ سورہ آل عمران :110]
اس گروہ کی کوئی واضح شکل متعین نہیں کی گئی، اس میں مرد و زن دونوں شامل ہیں۔ اس صالح گروہ میں وہی لوگ ہوں گے جو کلمۃ اللہ کا پرچم بلند کرنے والے ہیں۔ داعی وہ ہے جو لوگوں کو بلا تخصیص مذہب، رنگ و نسل اور جغرافیائی حدود سے آگے بڑھ کر اللہ کی طرف دعوت دے اور اس کارِ خیر میں مدعو کی خیرخواہی اور بھلائی کی چاہت میں بھلائی کا حریص بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ داعی کے لیے قرآن میں ناصح، خیرخواہ اور امین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ دین کے داعی دو احساسات کے تحت یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ اول: انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خدا کے دین کے امانت دار ہیں۔ اس امانت کی ادائیگی کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری اور احساسِ جواب دہی سے لرزاں رہتے ہیں۔ دوم: انسانوں کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ ان کو مہمیز لگاتا ہے کہ تمام مخالفتوں کو سہتے ہوئے اور تمام مشکلات کو انگیز کرتے ہوئے مدعو کو اللہ کی رحمتوں کے سایے میں لانے کی کوشش کرتے رہیں۔ قرآن مجید میں اللہ انسانوں کومخاطب کرتا ہے:
‘‘مومنو! اللہ کے مدد گار ہوجاؤ۔ جیسے عیسٰی ؑ ابن مریم ؑ نے حواریوں سے کہا کہ (بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف (بلانے میں) میرے مدد گار ہوں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں’’[سورہ الصف: 41]
مسلم خواتین کی خوش بختی یہ ہے کہ وہ اقامتِ دین میں مصروف ہوجائیں۔ دعوت الی اللہ ایک پیغمبرانہ مشن ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوا اور اس کی تکمیل حضرت محمد ﷺ پر ہوئی۔ نبیوں کے ساتھ ان کی ازواج بھی معاشرے میں اصلاح و تربیت کا کام انجام دیتی تھیں۔ یہ سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے اور مسلم خواتین کو بھی تمام جدید وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اسی کام کو انجام دینا ہے، تاکہ صحیح و سالم حالت میں یہ دین تمام انسانوں بالخصوص ہندوستانی بہنوں تک پہنچ جائے۔
دعوت وتبلیغِ اسلام میں داعی کے سیرت و کردار کو بہت دخل ہے۔ عورتوں کے اعلی ترین اخلاق سے متاثر ہوکر کئی صحابہ کرام مشرف بہ اسلام ہوئے۔ خواتین گھر گھر جاکر دعوت اسلام پیش کرتیں۔ وہ بہن کتنی عظیم تھی جس نے حضرت عمرؓ کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔ خالد بن ولیدؓ، عمرو بن عاصؓ، عبدللہ بن زبیرؓ، موسی بن نصیرؒ، محمد بن قاسمؒ، طارق بن زیادؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ جیسے بیٹوں کی تربیت کی۔ جنھوں نے اسلام کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ لہٰذا مسلم خواتین کو چاہیے کہ ان کی تقلید کریں۔ قرآنی تعلیمات پر عمل کریں:
‘‘تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو۔’’[ سورہ الاعلیٰ: 9]
نصیحت کرنے والے والوں میں مرد و زن دونوں شامل ہیں۔ ایسے کئی احکامات بلاتفریق جنس تمام مسلمانوں کو دیے گئے ہیں۔
کارِ دعوت میں خواتین کی شمولیت ضروری کیوں؟
موجودہ صورت حال میں انسانی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو زندگی کا ہر پہلو مکمل طور پر بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے۔ کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جسے اصلاح کی ضرورت نہ ہو۔ خواتین کو خواتین کے درمیان ہی کام کرنا ہے اس لیے انھیں سماج کی دوسری خواتین کو بتانا نہایت ضروری ہے کہ عورت سماج کا لازم جزو ہے۔ اپنے حقوق و اختیارات کے لیے سماج کو بہتر سمت میں لے جانا ضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی خواتین کے حقوق کی بات ہوتی ہے مساوات (equality) کے نام پر یکسانیت (similarity) کی بات کی جاتی ہے۔ اس بات کو سمجھانا نہایت ضروری ہے کہ اسلام نے جسے جتنی ضرورت ہے اتنا دیا۔ اُمت کی اصلاح اسی صورت میں ممکن ہے جب ہر محاذ پر انصاف کیا جائے۔ بدی کو بھرپور نیکی سے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایسے افراد کی کوششوں کو سراہا جائے جو امت کی اصلاح میں اپنا نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر خواتین پوری تیاری کے ساتھ اقامتِ دین کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو انقلاب کا راستہ ہم وار کیا جاسکتا ہے۔
پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہ ؓ کے حوصلہ بخش جملے خواتین کو دعوتِ دین کے میدان میں عملی شہادت پیش کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘اللہ آپ ﷺ کو رسوا نہیں کرے گا۔ آپ کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، لوگوں کو کمانے کے قابل بناتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق کی باتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ ’دخترانِ اسلام پر فرضِ عین ہے کہ وہ اپنی عظیم ماں کی تقلید کریں۔ حکمِ قرآن ہے کہ:
‘‘تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم دے اور بُرے کاموں سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔’’ [سورہ آل عمران: 104]
محمد ﷺ سے دین کی تعلیمات سننے، انھیں محفوظ کرنے، ان سے احکام مستنبط کرنے اور انھیں دوسروں تک پہنچانے میں ازواج مطہراتؓ نے اہم اور نمایاں رول ادا کیا۔ ان کے ساتھ صحابیاتؓ نے بھی بے مثال خدمات انجام دیں۔ بعد کے دور میں بھی خواتین یہ بلند فریضہ انجام دیتی رہی ہیں۔ لہذا داعیات دین کو اس کار عظیم میں سرگرم رہنا ہے۔ دعوت دین میں خواتین کی شرکت کے تعلق سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
‘‘میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا ایمان والی عورتیں فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالتِ استطاعت عورتوں پر مردوں کے مانند امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے۔’’[2]
بعض خواتین یہ سوال کرتی ہیں کہ ہم دعوت کا کام کیسے کریں؟ میرے خیال میں خواتین کی اسلامی تحریک میں فعال شرکت کے لیے اولاً ریاستی سطح پرماحول و مسائل اورامکانات پر توجہ دینی ہوگی۔ اس پر خواتین کے ساتھ مل کر ان کے مشورے کو بھی عمل میں لاتے ہوئے منصوبہ بند طریقے سے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اس کے لیے خواتین و طالبات پر مشتمل ایسی ٹیم تیار کرنی ہوگی جو اعلی تعلیم یافتہ، جدید تکنیک کے مثبت استعمال سے واقف، ایک سے زائد زبانیں جانتی ہوں۔ توانا، مخلص، باصلاحیت، تصنیف و تالیف اور تراجم میں ماہراور تحریکِ اسلامی کے لیے تڑپ رکھتی ہوں۔ ان کے مشاہدات و تجربات سے بھی استفادہ کیا جائے۔ خواتین و طالبات کے معاشرتی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل پر تحریک کی توجہ ضرور ہے لیکن اس کے لیے وہ کوششیں ناگزیر ہیں جو خواتین کو تحریک سے محبت کرنے کے لیے آمادہ کریں۔ دینی و دعوتی شعور کی کمی کے باعث زیادہ تر خواتین کے نزدیک دینی اور وطنی بہنوں کو عبادات سے جوڑ دینا اقامتِ دین سمجھا جاتا ہے۔ عبادات دین کا اہم ترین حصہ ہے مگر معاملات بھی درست کرنے ہوں گے۔ ہندوستانی خواتین کو ظلم و استحصال سے نجات دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلسل سعی و جہد کرنا ہے۔ ملک کے نامساعد حالات کو دیکھتے ہوئے تحریک سے جڑنے والی نئی خواتین اندر سے تحریک کو لے کر خوف زدہ ہیں۔ ان کے شکوک و شبہات دور کیے جائیں۔ اس کے سدباب کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں۔ وابستگان تحریک کو معلوم ہو کہ داعی حق اور سماجی کارکن (social activist) میں فرق ہے۔ تحریکِ اسلامی سے وابستہ طالبات کی اگر مکمل طور سے ایشو پر مبنی رہ نمائی کی جائے، ان کو بطور ٹاسک کچھ اہداف میقات میں دیے جائیں، توامکان ہے کہ تحریک اسلامی کو خواتین سے جس فعال شرکت کی امید ہے وہ پوری ہو۔
اسلام ایک مکمل راہِ نجات ہے۔ اسے عملی طور پر پیش کریں۔ اسلام نے جو عزت وعظمت، تحفظ و سکون اور آرام خواتین کو عطا کیا ہے وہ کسی مذہب میں نہیں ہے۔ اس لیے مسلم خواتین صالحیت و صلاحیت کے مظاہرے کے لیے ضرور آگے آئیں۔ اپنی آواز، کردار، لباس، شخصیت اور اعمال و افعال سے ثبوت دیں۔ صرف اس لیے کہ اقامتِ دین کے ذریعے خدا کو راضی کرنا ہے۔ اس محاذ پر داعیات اپنے مخالفوں کو مثبت سوچ دینے کے لیے فکری پختگی کے ساتھ آگے بڑھیں۔
اپنی تربیت
جس طرح دعوتِ دین میں مرد و زَن مخاطب کار ہیں۔ اسی طرح دونوں کو اپنے اپنے فرض کی ادائیگی کی خصوصی تیاری کرنی ہے۔ گھر کا اندرونی نظام پوری طرح عورت پر منحصر ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم خواتین اپنے دین سے زیادہ سے زیاہ واقفیت حاصل کریں۔ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھیں، ساتھ ہی ساتھ حدیث و فقہ میں بھی اپنے علم میں اضافہ کریں۔ دین اسلام کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ مطالعہ ہے۔ اپنے اندر creative readingکو پروان چڑھائیں۔ خواتین نہ صرف دین کی بنیادی باتوں اورایمان کے تقاضوں کو جانیں، وہ یہ بھی معلوم کریں کہ ان کی ذاتی زندگی،خاندانی زندگی اور عام معاشرتی زندگی کے بارے میں دینی احکام کیا ہیں۔یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جس کے ذریعے خواتین اپنی ذاتی و سماجی زندگی میں دعوت و اصلاح کا کام انجام دے سکتی ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں میں جو غیر شرعی طریقے رائج ہیں، اسے دفع کرنے کی ذمہ داری بھی انھیں پر ہے۔ غیر مذہبی رسومات کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی ورنہ زندگی جہنم بن جائے گی۔ دعوت و اصلاح کے میدان میں اولین فرض فرد کا ہمہ جہت ارتقا ہے۔ یہ ارتقا سماجی سطح کے مطابق قرآن و حدیث کی روشنی میں پروان چڑھے۔ اس کار عظیم میں عورت فکری و عملی تیاری کرے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بہترین اخلاق سے لوگوں کے دلوں کو فتح کرلے۔ اپنی مکمل زندگی کو اپنے بچوں کے سامنے بہ طور آئیڈیل پیش کرے۔ والدین کے عقائد، عبادات، اخلاق، عادات، گفتار و کردار بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنے۔ وہ اگر خاموش ہوں تو ان کی خاموشی بھی با مقصد ہو۔ ایک عورت کے اندر جب کہ وہ داعی حق ہو، مطلوبہ صفات کا پایا جانا لازمی ہے۔
مسلمان عورت کے کردار میں اتنی مضبوطی ہونی چاہیے کہ وہ جس شے کو خدا اور رسول ﷺ کے خلاف سمجھے اس کے خلاف ڈٹ جائے، جس بات کو حق سمجھے اس کی تائید کرے، جس بات کو ناحق جانے اس کی تردید کرے۔ خواہ اس کے مقابل شوہر، بیٹا یا باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ اپنی بات کو قرآن و حدیث کے حوالے سے استدلالی انداز میں پیش کرے۔ انھیں سمجھائے کہ حق ہمیشہ حق رہے گا اور باطل حق نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی سمجھ بچوں میں بھی پیدا کرے۔ مخاطب کی باتوں میں وزن ہو تو سامنے والے کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ عمومی طور پر ایک کم زوری یا کوتاہی طالبات کی شادی کے بعد نظر آتی ہے۔ وہ یکسر اپنی تحریکی سرگرمیوں سے لا تعلق ہو جاتی ہیں۔ ایسی خاموشی دعوت و اصلاح کے میدان میں تشویش کا باعث ہے۔ لہذٰا طالبات اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ زندگی کے مختلف محاذوں میں توازن برقرار رہے۔ کیوں کہ اللہ کو جوانی میں کی گئی عبادت زیادہ پسند ہے۔
گھر کے محاذ پر دعوت
عموماً ایک گھر میں شوہر، بیوی، بچے، خسر اور خوش دامن ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اکائی ہے جس کے ذریعے سماج وجود میں آتا ہے۔ اگر یہ اکائی بگڑ جائے تو پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا۔ ان کے علاوہ بھی کچھ قریبی رشتہ دار ایک ہی مکان میں رہ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں داعیہ کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ساتھ رہنے والوں کو دین کی طرف بلائے۔ ان کے سامنے حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرے۔ ان کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ خاندان کے مستحکم ہونے سے اسلامی خاندان کو تقویت ملے گی۔ گھر اور خاندان کی بقا اور تحفظ میں عورت کا بڑا رول ہوتا ہے۔ گھر کی نگراں ہونے کی حیثیت سے عورت کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ گھر کے اندر عورت خود کو ایک مسلم عورت، ایک بیوی، ایک ماں، ایک بہو اور ایک اچھے فرد کی حیثیت سے پیش کرے۔ اس طرح دیکھا جائے تو عورت کو بیک وقت متعدد رول پوری مستعدی سے ادا کرنے ہیں۔ مسلم معاشرہ میں عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورت نیک ہے مگر اس کے آس پاس کا ماحول اس کے برعکس ہے۔ اس وجہ سے بعض عورتیں بھی اسی ماحول میں ڈھل جاتی ہیں اورغلط کاموں میں اپنا وقت ضائع کردیتی ہیں۔ ایسی خواتین کو چاہیے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کریں۔ گھر والوں کو اسلام کی اصل تعلیمات سے واقف کراتی رہیں۔ عورت سماجی برائیوں کا جائزہ لیتی رہے۔ زبان کو قابو میں رکھے۔ صرف نماز روزے سے مومنانہ کردار کی تکمیل ممکن نہیں۔ اس لیے بحیثیت فرد عورت خود اپنا جائزہ و احتساب لیتی رہے۔ افراد کے ملنے سے سماج وجود میں آتا ہے۔ اچھے لوگوں سے سماج اچھا بنے گا اور برے لوگوں کے ملنے سے سماج برا بنے گا۔ صالح معاشرہ کی تشکیل میں خواتین کی کارکردگی، اہمیت و کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انفرادی سطح پر عورت خود پر توجہ دے گی تو اس کے ذریعے انجام پانے والا اجتماعی کام بھی عمدہ اور کام یاب ہوگا۔
اہلِ خاندان کے درمیان دعوت
عورت کے لیے دوہری ذمہ داری یہ ہے کہ اسے میکے میں بھی اصلاح کا کام کرنا ہے اور سسرال میں بھی۔ گھر کے بڑوں میں دین سے دوری اور غفلت باعثِ ہلاکت ہے۔ داعیات کو چاہیے کہ وہ اپنے حسنِ اخلاق اور محبت سے لوگوں کے دلوں کو نرم کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور ادب و احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔ لیکن اس معاملے میں ہر وقت کی نصیحت لوگوں کو زچ کرسکتی ہے۔ اس لیے وقت کا خیال اور موقع کی نزاکت کو سمجھنے کی عادت ڈالیں۔ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ کریں۔ ان کی غلط فہمیوں کو ڈسکشن کے ذریعے دور کریں۔ کبھی دینی و اصلاحی موضوعات پر مبنی بہترین کتابیں تحفتاً دی جائیں۔ اس سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ ان میں دینی و اخلاقی کم زوریاں ہوں تو انھیں نرمی سے سمجھائیں، فوری طور پر نتیجے کی امید نہ کریں۔
مذکورہ محاذ کے علاوہ جن امور پر دعوتی کام انجام دینے ہیں، ان کا شعور اور فہم داعیات کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہر دور کے مسائل الگ الگ رہے ہیں۔ اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے داعیات اپنی سرگرمی انجام دیں۔ خواتین کے ایشوز میں فی زمانہ وہ سارے امور شامل ہیں جو ملک میں زیرِ بحث ہیں۔ اس ضمن میں داعیات یہ پہلے ہی سمجھ لیں کہ دین کی دعوت میں معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا شامل ہے۔ خواتین اپنے درمیان کی خواتین کو ہی دعوت دیں تو اس میں اسے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے ان کے مقام و مرتبہ کو بلندی دی۔ انھیں عزت و تکریم بخشی۔ حسنِ سلوک کا معاملہ کیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستانی خواتین خودکشی، پژمردگی، مایوسی اور ڈپریشن کی شکار ہیں۔ ان حالات سے نکلنے کے لیے ان کے اندر ہمت پیدا کرنی ہوگی۔ جہیز، زنا بالجبر، گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، قتل اطفال، فرسودہ رسومات، نشہ، سود خوری، نشیلی ادویات، اوہام پرستی کے خاتمے کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ عملی اقدام ضروری ہے۔
رشتے داروں و قرابت داروں میں کام
ہمارے دوست اور اعزا و اقارب اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی جاہلیت کی بنا پر ان سے نفرت کرنے کے بجائے ان کی اصلاح کی جائے۔ ان کی نافرمانی کو فرماں برداری میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان سے محبت کی جائے، ادب اور لحاظ کیا جائے، لیکن پہلا حق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہے۔ اِتباع دین میں خواتین کے اندر بعض معاملوں میں نرمی تو بعض معاملوں میں سختی بھی ضروری ہے۔ اس کا اثر سارے ماحول پر پڑے گا۔ دین دار خواتین کی یہ حکمت عملی انھیں ہر دل عزیز بنائے گی اور عزت بخشے گی۔ اس کا اثر انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہوگا۔ رفتہ رفتہ اس اصلاح کے جو اثرات مرتب ہوں گے، ان سے فرد کا ضمیر مطمئن ہوگا اور دل کو تقویت ملے گی۔ ماؤں کے لیے یہ ایک سخت ترین آزمائش ہوگی، لیکن ان کے سامنے مثالی صحابیاتؓ اور بہادر خواتین کی مثالیں آنی چاہئیں۔ اس سے یقیناً فائدہ ہوگا۔ ایمان اور اخلاص میں اضافہ ہوگا۔ جن خواتین کے شوہر دینی مزاج رکھتے ہیں ان کی مشکل ایسے ہی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ شوہر کی مدد کریں۔ ان کے نیک کاموں کو سراہیں۔ چند سچے حوصلہ افزا جملے ان کی ہمت، ارادے اور عزم میں مضبوطی پیدا کردیں گے۔ مشکلات میں صبر کی تلقین کریں۔ تنگی و فراخی میں اللہ کا شکر کریں۔ طالبات یہی کام تھوڑی تبدیلی اور مواقع کی مناسبت سے اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ انجام دے سکتی ہیں۔ دعوتی واصلاحی کاموں کے لیے وقتاً فوقتاً ان کو کتابیں بطور تحفہ پیش کریں۔ یہ مؤثر ذریعہ ہے۔ اس سے آپس کی دوری جاتی رہے گی اور دلوں میں محبت پیدا ہوگی۔ بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے ان کے درمیان عمدہ طریقے سے کارِ دعوت انجام دینے کی حتی الامکان سعی و جہد ضروری ہے۔ اس محاذ پر بہت سے ایسے مواقع آئیں گے جب اعزا و اقارب کی حرکتیں تکلیف پہنچائیں گی۔ ایسے میں میں صبر و شکر کے ساتھ اللہ سے خصوصی مدد کی دعا کرنی چاہیے۔
معاشرے میں دعوت
فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور معاشرے سے فرد کی کام یابی کا براہ راست تعلق ہے۔ اس میں پیدا ہونے والی اچھائیاں اور برائیاں دونوں فرد کو متاثر کرتی ہیں۔ سب سے زیادہ اثر بڑھتے بچوں پر ہوتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثلث کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں فرد، عمل اور اثرات شامل ہیں۔ اس لیے ماحول کو بہتر، پُر امن اور گناہوں سے پاک رکھنے کی خود کوشش کریں نیز اوروں کو اس کی طرف متوجہ کریں۔ دوسروں کے انتظار میں نہ رہیں کہ کوئی آگے بڑھے تب ہم ساتھ دیں گے۔ ہمیں اپنی روش خود بنانی ہے۔ بنے بنائے راستوں پر چلنا آسان ہے، لیکن ایک ایسی دنیا، ایک ایسا معاشرہ جسے ہم اسلامی معاشرے کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اس کی تشکیل میں توقعات سے زیادہ اقدامات ضروری ہیں۔
مدارس و جامعات میں دعوت
ملک عزیز میں لڑکیوں کی کفالت و تعلیم کے لیے کئی بڑے بڑے مدارس ہیں۔ اعلی تعلیم کے حصول کے لیے جامعات بھی قائم ہیں۔ خود کفیل مدارس اور اہل خیر کے ذریعے چل رہے مدارس میں لڑکیوں کو بنیادی اسلامی تعلیمات تو مل جاتی ہیں لیکن اسلام کا گہرا شعور پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ان کے سامنے زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔ لہٰذا جب وہ فارغ ہوکر گھروں کو لوٹتی ہیں تو ان کے اندر اسلام کی دی گئی تعلیمات کا کوئی عنصر شاید ہی موجود رہتا ہے۔ بند چہار دیواری سے جب یہ باہر نکلتی ہیں تو خود کو آزاد تصور کرتی ہیں۔ یہ آزادی انھیں مدارس کے ماحول سے بھلی لگتی ہے۔ سماج میں یہ دیگر لڑکیوں کے ساتھ اپنے آپ کو دیکھنے لگتی ہیں اور جس خاص مقصد کے تحت وہ علم سے بہرہ ور ہوتی ہیں، وہ مقصد نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ میری شناسائی کچھ ایسی لڑکیوں سے ہے، جنھوں نے ڈگری تو عالمہ کی لی ہے لیکن عادات و اطوار، اخلاق و سیرت میں سماج کی عام لڑکیاں بھی ان سے بہتر ہیں، الا ماشاء اللہ۔ اگر مدارس میں ہی ان کے اندر زندگی کا مقصد پیدا کردیا جائے، سماجی ذمہ داریوں کا احساس کرایا جائے، دعوت و اصلاح کا جذبہ پیدا کیا جائے، انھیں اس لائق بنایا جائے کہ مدارس سے فارغ ہوکر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اپنا وقت صرف کریں، تو یہ امت اور دعوت کا قیمتی سرمایہ بن سکتی ہیں۔
حوالہ جات
- عورت اور اسلامی انقلاب،سید اسعد گیلانی،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،اپریل،1999،ص: 13
- نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری، پروفیسر فضل الٰہی، اگست 2008، ص:51۔52
مشمولہ: شمارہ جولائی 2021