فجر کی اذان کا کلمہ ، اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنْ النَّوْم
فجر کی اذان کاایک کلمہ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِنَ النَّوْمہے،ترجمہ :( یعنی نماز نیند سے بہتر ہے)، اگر چہ یہ کلمہ فجر کی اذان کے ساتھ مخصوص ہے ، ابودائود شریف کی روایت میں صحابی رسولؐ حضرت ابو محذورہ ؓ سے منقول ہے کہ انہیں نبیﷺ نے اذان کے کلمات سکھلائے تو فرمایا۔ (پس اگر صبح کی نماز ہوتو ، توکہہ نماز بہتر ہے نیند سے، نماز بہتر ہے نیند سے) مطلب یہ کہ حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ کے کلمہ کے بعد فجر کی اذان میں دو مرتبہ مذکورہ کلمہ دہرانے کا حکم ہے، اور اس موقع پر اس کلمہ کی ضرورت و مصلحت واضح ہے ،وہ یہ کہ یہ وقت نیند کا وقت ہوتا ہے، اور نیند کو توڑنا ذرا مشکل ہوتا ہے، اور نفس کو نیند بہتر معلوم ہوتی ہے، لیکن فجر کی اذان کے ذریعہ مزید یہ اعلان سنایا گیا کہ نماز نیند سے بہتر ہے، مطلب یہ کہ اس وقت سونابہتر نہیں ہے، بلکہ بیدار ہو کر نماز ادا کرنا بہتر ہے ، اور اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ کلمہ دو مرتبہ رکھا گیا ہے، تاکہ مسلمان اس کلمہ کی طرف خصوصی توجہ دے اور نماز کو نیند سے بہتر سمجھے اور اس کا عملی ثبوت بھی دے ، یعنی نیند سے بیدار ہوکر فجر کی نماز ادا کرے، یہی وجہ ہے کہ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِنَ النَّوْم کا جواب، قَدْ صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ کے الفاظ کو قرار دیا گیا ہے،( یعنی تونے سچ کہا اور نیکی کی دعوت دی)۔
مسلمانوں كی غفلت:
افسوس ہے کہ ابھی بہت سے مسلمان فجر کی نماز کو چھوڑ کر نیند میں مصروف رہتے ہیں۔ یوں تو پانچ وقت کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعدادبھی کم ہے، لیکن فجر کی نماز ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے لحاظ سے جو سرسری جائزہ ہے وہ یہ کہ فی الحال شاید صرف دس فیصد مسلمان پانچ وقت کی نماز ادا کرنے والے ہیںاس نافرمانی كے ساتھ مسلمانوں پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہو سکتی، دنیا میں اللہ کے عذاب کی ایک شکل یہ ہے کہ ظالم حکمراں مسلط ہوں۔ یقینا دور ماضی کی تاریخ میں انبیاء اور ان کے پیرو کاروں پر ظالم حکمرانوں نے طرح طرح کے ظلم کئے ہیں ، لیکن انبیاء اور ان کے پیروکاروں نے کبھی ان کی رضاکارانه اطاعت كو جائز قرار نهیں دیابلكه اللہ ہی کی حکمرانی کی دعوت دیتے رہے۔ اللہ کے عذاب اور اللہ کی آزمائش میںبنیادی فرق یہ ہے کہ دین پر استقامت کے نتیجہ میں باطل پرستوں کی طرف سے جو پریشانیاں آئیں وہ اللہ کی آزمائش ہیں۔ اور جو پریشانیاں اللہ کے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے آئیں وہ عذاب هیں۔ اللہ كا عذاب ذلت و رسوائی كا باعث هے۔
خیر اورشر:
اذان کے چھٹے کلمہ اَلْصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنَ النَّوْمِ سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کے نزدیک خیر اور شر کا پیمانہ کیا ہے،نیندانسان كی ضرورت ہے ،لیکن یہی عمل اگر نماز چھوڑنے کا ذریعہ بن جائے تو پھر یہی نیند ایک ایمان والے کے لئے شر ہو جائیگی۔ خیر کی ضد شر ہے ، اسی پر تمام ضروریات زندگی کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ ضروریات زندگی کا جائزتقاضہ اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر عمل کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ دین میں ممنوع ہے ، چاہے وہ تقاضہ کھانے پینے کا ہو، یا سونے جاگنے خرید و فروخت تجارت و سیاست کا ہو۔ وہ نفل اعمال و عبادات بھی پسندیده نهیں هوسكتے جو فرض اعمال و عبادات کے چھوڑنے کا ذریعہ بنیں۔
افسوس ہے کہ آج بهت سے مسلمان ضروریات زندگی میں منہمک ہو کر اللہ اور اس کے رسولؐ کے واضح احکام کو چھوڑے ہوئے ہیں تو ظاہر ہے، ان کے لیے یہ انہماک شر ہی کا باعث ہوگا، چنانچہ آج مسلم معاشرہ ضروریات زندگی کی چیزوں کی بہتات کے باوجود چین و سکون و خیر سے محروم ہے، بلکہ بہت سے ایمان والوں کے لیے یہ چیزیں شر و فتنہ کا باعث بنی ہوئی ہیں۔سورئہ جمعہ کے دوسرے رکوع میں ایمان والوں کو خطاب كیا گیا ہے یَایُّھاَ الَّذِینَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّومِ الْجُمْعَۃِ فَاسْعوْا اِلٰی ذِکْراللَّہِ وَ ذَرُوا الْبَیغ ذٰلِکُمْ خَیْرُ لَّکُمْ اِنْ کُنتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ ( سورئہ جمعہ آیت ۸) ترجمہ :( ائے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دیدی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف کوشش کرو، اور خرید و فروخت چھوڑدو، یہی تمہاری لئے بہتر ہے اگر تم جانو)۔
ذكر كا مفهوم:
مذکورہ آیت میں جہاں جمعہ کی اذان ہونے کے ساتھ ہی اللہ کے ذکر یعنی خطبہ اور نماز کی طرف جلدی جانے کا حکم ہے، وہیں خیر کا مطلب و مفہوم بھی بتلادیا گیا ہے، وہ یہ کہ اذان ہونے کے بعد تمام کاروباری مصروفیتوں کو چھوڑ کر اللہ کے ذکر اور نماز کی طرف جانے کو خیر کہا گیا ہے، آنحضورﷺ جمعہ کے خطبہ میں قرآن کی آیات اور سورتیں ہیں پڑھ کر سناتے تھے ، اس لئے اسے ذکر اللہ کہا گیا ہے، اور نمازکو بھی ذکر اللہ کہا جاتا ہے، اس میں بھی قرآن پڑھا جاتا ہے۔قرآن کا صفاتی نام ذکر ہے ذکر کے حقیقی معنیٰ نصیحت کے ہیں۔ قرآن مجید نصیحت کا سرچشمہ ہے ، افسوس ہے کہ آج ذکر کے متعلق قرآن کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے، جب کہ اصل اور حقیقی ذکر قرآن ہے، قرآن میں فرمایا گیا ، وَاذْکُرُوْا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیرْاً واضح رہے کہ قرآن کے پڑھنے اور اس کی تلاوت میں سمجھ کر پڑھنے کا مفہوم بھی شامل ہے۔افسوس ہے کہ آج بهت سے عبادت گزاروں میں قرآن کی تلاوت کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، اور جو تلاوت کو کرتے ہیں ان میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جس کی وجہ سے برسوں کے عبادت گزار قرآن کے پیغام سے یکسر نابلد ہیں۔
ترجیحات:
سورئہ جمعہ کی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اللہ کا حکم جائز ضروریات زندگی پر بھی مقدم ہے، یہی وجہ ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد خرید و فروخت کو چھوڑنے کا حکم ہے جب کہ خرید و فروخت جائز عمل ہے، لیکن اگر یہ عمل اللہ کے حکم میں رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ عمل ممنوع ہو جاتا ہے، مطلب یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم دنیا کی تمام چیزوں پر مقدم ہے ، چاہے وہ چیزیں جائز درجہ میں آتی ہوں، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان ناجائز ضروریات اور مصروفیتوں کو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم پر مقدم رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو مقدم رکھنے کا انعام دنیا میں بھی ملتا ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو موخّر رکھنے کا عذاب دنیا میں بھی ملتا ہے، چنانچہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب تک مسلمانوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو مقدم رکھا تھا، تب تک اللہ نے انھیں دنیا میں بھی مقدم رکھا تھا، اور جب سے مسلمانوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کو پیچھے رکھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھی پیچھے کر دیا۔
اَلْصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنَ النَّوْمِ کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ رات میں عشاء کی نمازکے بعد جلد سونے کا معمول بنایا جائے کیونکہ رات میں اگر دیر سے سویا جائے تو صبح کی اذان کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے ، اور نیند کے غلبہ میں فجر کی نماز ادا بھی کر لی جائے توہ بے دلی اور سستی میں ادا ہوتی ہے، جب کہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہے، اور فجر کی نماز بہت اہم نماز ہے ،اسلئے کہ اس میں قرآن کی تلاوت دیگر نمازوں سے زیادہ رکھی گئی ہے، اس نماز سے دن کا آغاز ہوتا ہے ، اور دن میں قرآن کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج امت میں عشاء کی نماز کے بعد زیادہ دیر تک جاگنے کا معمول سا ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے فجر کی نماز کی ادائیگی میں کوتاہی اور سستی عام ہوگئی ہے ، جب کہ عشاء کی نماز کے بعد صرف دین کا علم حاصل کرنے یا جائز گفتگو کے لئے جاگا جا سکتا ہے۔ صبح کے متعلق ایک اور خرابی امت میں عام ہو گئی ہے، اور وہ ہے صبح کے وقت سونا، اور یہ معمول بہت سے فجر کی نماز پڑھنے والوں نے بھی بنالیا ہے، جب کہ یہ صحیح نہیں ہے ، اور اس میں بہت سے جسمانی و معاشی فوائد سے محرومی ہے، صبح کے وقت ہوا ٹھنڈی اور تازہ ہوتی ہے، اور صبح کے وقت کے کاموں میں برکت ہوتی ہے، اور سونے کی صورت میںصبح کی تازہ و ٹھنڈی ہوا سے محرومی ہو جاتی ہے، اسی طرح کاموں میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔
آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا، نَوْمُ الصُّبْحَۃِ یَمْنَعُ الْرِّزْقَ (یعنی صبح کے وقت کا سونا رزق کو روکتا ہے) بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنبیہ و نصحیت فجر کی نماز کو چھوڑ کر سونے والوں کے لئے ہے، جب کہ یہ تنبیہ و نصیحت عام ہے، اور یہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے ، جو فجر کی نماز ادا کرکے سوتے ہیں، فجر کی نماز چھوڑ کر سونے والوں کے لئے اتنی ہلکی تنبیہ و نصیحت نہیں ہو سکتی، آنحضورﷺ کے دور میں منافقین کو بھی پانچ نمازیں ادا کرنی پڑتی تھیں، اور ان میں فجر کی نماز بھی ہوتی تھی، اور یہ اس لئے تھا کہ جو فرض نماز ادا نہیں کرتا تھا اس کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہو تا تھا۔ یہ تو امت مسلمہ کے دور زوال کی علامت اور خلافت اسلامیہ کےموجود نہیں ہونے کا سبب ہے کہ آج برسوں کے نماز چھوڑنے والے بھی مسلمان کہلاتے ہیں، اب تو باطل کے غلبہ کی وجہ سے صورت حال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ جو بے نمازی ہیں، وہ رہنما بنے ہوئے ہیں۔
رزق كا مفهوم:
رزق سے بہت سے مسلمان صرف کھانے پینے کی چیزیں مراد لیتے ہیں، جب کہ قرآن و حدیث اور عربی زبان میں رزق کا لفظ بہت وسیع ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ تمام انسانی صلاحیتوں اور نعمتوں کو شامل ہے، اس لحاظ سے دماغی و جسمانی صلاحیت بھی رزق ہیں داخل ہے، کسی نیک عمل کی توفیق بھی رزق میں داخل ہے۔ دعاء ختم القرآن کے الفاظ اس طرح ہیں۔ وَارْزُقْنیِ تِلاَوَتَہ اٰنَآئَ الَّیلِ وَ اٰنَآئَ الْنَّھَارِ (یعنی ائے اللہ مجھے رزق عطا کر اس کی تلاوت کا رات اور دن کے اوقات میں) ۔
مذکورہ دعا میں قرآن کی تلاوت کو رزق سے تعبیر کیا گیا ہے، ظاہر ہے قرآن کی تلاوت سے کھانے پینے کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ البتہ قرآن کی تلاوت سے ہدایت کی ضرورت پوری ہوتی ہے، اور یہ رزق کھانے پینے کے رزق سے بڑا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خطاب کرکے فرمایا کہ ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو،تو اس میں مالی خرچ کے ساتھ تمام صلاحیتوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم بھی شامل ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی فرمایا ۔
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
صلاحیت سے كام لینا:
علامہ اقبالؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں بہت اعلیٰ صلاحیت نہیں ہے بلکہ ٹوٹی پھوٹی صلاحیت ہے تو وہ اسی ٹوٹی پھوٹی صلاحیت کو اللہ کی راہ میں لگا دے تو یہ بھی اللہ کی نگا ہ میں بہت عزیز ہے ، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج امت مسلمہ کےبهت سے قابل اور با صلاحیت افراد دنیا کے لئے اپنی پوری صلاحیتیں اور قابلیتیں لگا رہے ہیں، لیکن دین کے کاموں سے غافل هیں۔یه نہیں بھولنا چائیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیتیں صرف اس لئے نہیں دی ہیں کہ انہیں دنیا کے کاموں میں لگایا جائے اور اللہ كی راه میں نہ لگایا جائے، اللہ تعالیٰ موت کے بعد ہر صلاحیت کا حساب لینے والا ہے۔
بہر حال فجر کی اذان کے کلمہ اَلْصَّلٰوۃُ خَیْرُ مِّنَ النَّوْمِ کا لازمی تقاضہ ہے کہ ہر مسلمان نیند سے بیدار ہو کر فجر کی نماز ادا کرے، اورجہاں تک ہو سکے فجر کی نماز ادا کرکے سونے سے پرہیز کرے۔ امت میں تفہیم اذان کی تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ اذان کے پیغام کو قبول کرنے کی تحریک بھی چلانے کی ضرورت ہے، اور اسی کے ساتھ اذان کے انداز کی اصلاح کی ضرورت ہے ، دیکھا یہ جارہا ہے کہ مساجد میں جو اذان دینے پر مامورہیں، ان میں سے بهت سے افراد كا لهجه آواز و اندازدرست نهیں ۔ انہیں اذان سکھائے بغیر اذان دینے کی عظیم ذمہ داری پر فائز کر دیا گیا ابھی مساجد کے متولی اور ذمہ دار افرادنے اذان کی اہمیت و عظمت کو نہیں سمجھا ۔ اذان کی اہمیت و عظمت کو سمجھنے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ اس کا حکم اللہ اورا س کے رسولؐ سے ثابت ہے، اس کے جواب دینے کو بھی واجب یا سنت قرار دیا گیا ہے، ساتھ ہی اذان کے بعد دعا کی بھی تلقین کی گئی ہے ۔قرآن میں ارشاد خدا وندی ہے، وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْ لاَ مِمَّنْ دَعَا اِلٰی اللَّہِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَ قَالَ اِنّنی مِنَ الْمُسْلِمیْنَ (یعنی اُس شخص سے بہتر اور کس کی بات ہو سکتی ہے، جو اللہ کی طرف بُلائے اور نیک عمل کرے اورکہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں)۔ اس سے مراد مفسرین نے سب سے پہلے موذنین کو لیا ہے، کیونکہ اذان کے بعد کی دعا میں اذان کو دعوتِ تامّہ یعنی مکمل دعوت کہا گیا ہے، تو ظاہر ہے سب سے بڑے اور سب سے پہلے داعی اذان دینے والے ہی شمار ہوں گے، حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں لمبی ہوں گی یعنی ان کا مرتبہ اونچا ہوگا،اذان کی آواز جہاں تک پہونچی وہ تمام چیزیں اذان دینے والوں کے حق میں گواہی دینگی ، اور جس شخص نے سات سال تک ثواب کی نیت سے اذان دی تو اس کے لئے دوزخ سے چھٹکارہ لکھ دیا جاتا ہے۔
موذن كی فضیلت:
اذان دینے والے دعوت کے سلسلہ میں پوری امت مسلمہ کے نمائندے اور وکیل ہیں، جو روزانہ پانچ مرتبہ دین کی مکمل دعوت کے متعلق امت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لئے امت کے نمائندےكو سب سے بہتر ہونے چاہیئے، ہم دنیا میں کسی کو کسی کام کے متعلق اپنا نمائندہ بناتے ہیں تو بہتر فرد تلاش كرتے هیں۔ افسوس ہے کہ آج اذان دینے کے لئے ایسے موذن کو تلاش کیا جاتا ہے، جو معاشرہ میں کوئی کام نہ کر سکتا ہو، مساجد کے ذمہ داران اور مصلیان سے ضرور سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا آپ اپنے اہم کاموں کو انجام دینے کے لئے ے بطور نمائندہ اور وکیل ایسے افراد کو مقرر کر سکتے ہیں، جنہیں معاشرہ میں کوئی کام نہیں آتا اور جنہیں نہ دینی سمجھ ہے اور نہ دنیوی سمجھ ہے، ظاہر ہے کوئی بھی اپنے ذاتی کاموں کو انجام دینے کے لئے ایسے فرد کو رکھنے پر راضی نہیں ہوگا، تو کیا یہ صورت حال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ابھی دینی کاموں کی اہمیت نہیں سمجھی گئی۔ شاید اسی وجہ سے مسلمان ذلیل و رسوا ہیں
کچھ اس سے ملتی جلتی صورت حال مساجد کے ائمہ کے تقرر کے متعلق پائی جاتی ہے، مساجد کے ذمہ داران کم سے کم كفاف پر امامت کرنے والے ائمہ تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ائمہ مساجد کے ذمہ داران کی مرضی کا خیال رکھیں، گویا کہ ذمہ داران نہیں چاہتے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کی نمائندگی اور وکالت کرنے والے ائمہ مساجد میں رکھے جائیں، اس میں مساجد کے ائمہ کا بھی قصور ہےکہ بڑی آسانی کے ساتھ مساجد کے ذمہ داران کی بے جا شرائط کو مان لیتے ہیں، ورنہ اگر ائمہ اس بات پر قائم رہیں کہ وہ مسجد کے منبر و محراب سے صرف قرآن و حدیث ہی کی نمائندگی کریں گے، تو نہیں چاہتے ہوئے بھی انہیں ایسے امام رکھنے پڑیں گے ۔
تجاویز:
ذیل میں مسلم معاشرہ میں اذان کے نظام کو درست کرنے کی کچھ تجویزیں دی جا رہی ہیں، اگر ان تجویزوں کو عملی جامہ پہنایا جائے تو اس بات کی قوی امید ہے کہ اذان کے نظام میں ضرور اصلاح ہوگی۔
ایك تجویز یہ ہے کہ ہر شہر میں اذان کے سکھانے کی کلاس قائم کی جائے جس میں لڑکے اور بڑے افراد اذان سیکھنے کے لئے آئیں، کسی اچھے قاری کو اذان سکھانے کے لئے مقررکیا جائے، اور اسے تنخواہ بھی دی جائے ، قاری صاحب اذان سیکھنے والوں کو تجوید کے ساتھ اذان کے کلمات کو یاد کرائیں اور انہیں اذان دینے کا طریقہ اور لہجہ بھی سکھائیں،جو افراد صحیح اذان دینا سیکھ جائیں انہیں سند دی جائے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ ہر مسجد میں مئوذّن کے تقرر کے لئے یہ شرط رکھی جائے کہ وہ کسی اچھے قاری سے اذان کے کلمات سیکھ چكا ہو، اس کا اذان دینے کا انداز اور آواز بھی بہتر ہو، اور امام کی غیر حاضری میں نماز بھی پڑھا سکے۔
موجودہ بے حسی اور غفلت کو دیکھتے ہوئے مذکورہ تجویزوںپر عمل ذرا مشکل ہے، لیکن اگر اس سلسلہ میںمعاشرہ کے چند افراد بھی فکرمند ہو ں تو اذان کے عمل میں بہتری لائی جا سکتی ہے، مسجد میں قابل اور با صلاحیت موذن رکھنے کے لئےكفاف بھی زیادہ ہوگا۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ مساجد کے ذمہ داران اور مصلیان اپنا دل اور ہاتھ ذرا کشادہ کریں، مساجد کے ذمہ داران اور مصلیان ائمہ اور موذنین کی تنخواہ کے متعلق اپنے دل اور ہاتھ تنگ کئے ہوئے ہیں، جب کہ مساجد کے دیگر انتظام کے خرچ میں ، ان کے دلوں اور ہاتھوں میں کشادگی پائی جاتی ہے ، جیسے مسجد کی عمدہ تعمیر ، عمدہ ٹائلس اور چٹائیاں، جب کہ سادہ تعمیر سے بھی کام چل سکتا ہے، جب تک مساجد کی عمارتیں کچی اور سادہ تھیں ، تب تک یہاں سے پکے مومن تیار ہوتے تھے ، ائمہ اورمئوذنین کی معقول تنخواہ دینے کا منصوبہ بنائیں تو اس کی وصولی آسان ہے۔
تعاون كی فراهمی:
وصولی کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان یہ دیکھے کہ اسلام نے اس کا کتنا وقت مسجد میں لازمی قرار دیا ہے ، اس سلسلہ میں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھنے کو لازمی قرار دیا ہے۔ پانچوں نمازوں کو ادا کرنے کے میں سوا گھنٹہ وقت لگتا ہے، گویا دن و رات کے چوبیس گھنٹوں كا پانچ فیصد۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کی پانچ فیصد زندگی مسجد میں گزرتی ہے۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کا اپنے ذاتی مکان کی تعمیر میںجتنا مال لگا ہے اس کا پانچ فیصد حصہ اللہ کے گھرمسجد کی تعمیر میں بھی لگنا چاہیئے،اگر یه كشادگی هو تو کسی بھی مقام اور محلہ والوں کو مسجد کی تعمیر کی وصولی کے لئے باہر نہیں جانا پڑے گا، چاہے بستی غریب ہو یا مالدار۔
ہم مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اس نبیؐ کی امت ہیں اور اُن صحابہؓ کے نام لیوا ہیںجنهوںنے اپنے ذاتی مکانات کی تعمیرسے پہلے مسجد تعمیر کی، اور خود نبیﷺ بھی اس تعمیر میں شریک تھے۔
یقیناً مساجد کی انتظامی ضروریات میں ائمہ اورمئو ذنین کی تنخواہ بھی شامل ہے ، اس کے لئے بھی اپنے ذاتی مکان کے پانچ فیصد انتظامی خرچ کو پیمانہ بنانا چاہئے ، ذاتی مکان کے ساتھ جو انتظامی ضروریات كا خرچ جڑا ہوا ہے، وہی انتظامی ضروریات اور خرچ مسجد سے بھی جڑا ہوا ہے، کسی کے مکان کا انتظامی خرچ ماہانہ ایک ہزار روپئے ہے تو اسے ہر ماہ اپنے مقام کی مسجد میں پچاس روپئے تعاون دینا چاہیے۔
مذکورہ پیمانہ کے مطابق اگر ہر مسلمان مسجد کی تعمیر اور اس کے انتظام میں مالی تعاون دے تو کسی بھی مقام پر مسجد کی تعمیر اور انتظام میں مالی دشواری پیش نہیں آئے گی، اور مسجد کے امام و موذن کو معقول تنخواہ دی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائے گا، کسی مصلی کو مسجد کی تعمیر اور انتظام میں پانچ فیصد رقم کے تعاون کو بڑا تعاون نہیں سمجھنا چاہیئے اور نہ اس پر احسان جتلانا چاہئے اور نہ فخر کرنا چاہئے ایک غیور اور صاحب حیثیت مقتدی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ کے گھر مسجد سے تو فائدہ اٹھائے لیکن مسجد کو اپنے مال سے فائدہ نہ پہنچائے۔
مركز تعلیم وتربیت:
مساجد سے مصلیوں کو تعلیم و تربیت بھی حاصل ہوتی ہے چاہے وہ ا مام صاحب کی تقریروں و دروس کے ذریعہ ہو یا اور کسی اجتماع و جلسہ کے ذریعہ ہو، اس لئے مصلیوں کو اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ خود مصلیو ں کی تعلیم و تربیت میںمالی تعاون بھی لگے، یہ بات کتنی افسوس کی ہوگی کہ جہاں سے انہیں دینی و ایمانی غذا مل رہی ہے وہ اس مد میں اپنا مالی تعاون نہ دے، مصلیوں کے سامنے بطور تجویز و مشورہ رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی کل آمدنی کا کم از کم ایک فیصد حصہ مسجد کی تعلیم و تربیت کی مد میں ضرور دیں، اس طرح مسجد کو تعلیم و تربیت کا مرکز بنایا جا سکتا ہے، اور مسجد میں بہتر معلم ،مربی ،مئوذن و امام رکھے جا سکتے ہیں۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جون 2019