جہاد کی اہمیت گھٹانے کے لئے اور اسلام دشمنوں کو بے جا خوش کرنے کے لئے کچھ علماء نے کہنا شروع کردیا ،کہ اسلام میں ،اقدامی جہاد نہیں ہے بلکہ صرف دفاعی جہاد ہے، اور پھر اس فیصلہ کو نبیﷺ کی جہادی سرگرمیوں پر بھی چسپاں کر دیاکہ آپؐ نے جتنے بھی جہاد کئے ہیں وہ سب کے سب دفاعی تھے، آپؐ نے ایک بھی جہاد اقدامی نہیں کیا، حالانکہ قرآن و حدیث اور سیرت رسولؐ سے اقدامی جہاد بھی ثابت ہے اور دفاعی جہاد بھی ثابت ہے، قرآن مجیدکی دو آیتیں پیش کی جا رہی ہیں۔ اِنَّ اﷲَ یُحبُّ الّذِینَ یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیلِہِ صَفَّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانُ مَّرْصُوصُ (سورئہ صف آیت ۴)ترجمہ : ’’بیشک اللہ محبت کرتا ہے ان لوگوں سے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں ، گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے‘‘۔ اسی طرح سورئہ توبہ کی آیت ہے ۔ اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ۰ۣ وَعْدًا عَلَيْہِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ۰ۭ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَہْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِہٖ۰ۭ وَذٰلِكَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۔(سورئہ توبہ آیت ۱۱۱)ترجمہ ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے خرید لیا ہے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے وہ لڑتے ہیں، اللہ کی راہ میں ، پس وہ قتل کرتے ہیں، اور قتل کئے جاتے ہیں، یہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، توریت اور انجیل اور قرآن میں، اور اللہ سے بڑھ کر وعدہ کو پورا کرنے والا کون ہے؟ پس خوش ہو جائو اپنی بیع سے جوتم نے اس سے کی ہے اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔
کیا ان آیتوں میں محض دفاعی جنگ کا ذکر ہے؟ مذکورہ دونوں ہی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے ان میں اقدامی جنگ کا تذکرہ ہے ، مومنین کے نزدیک اپنی جانوں سے زیادہ دین عزیز ہے ، اور اس کا ثبوت مومنین نے ہر دور میں دیا ہے، بے شمار مومنین نے جنگ کے مرحلہ سے پہلے دعوتی مرحلہ میں ہی اپنی جانیں قربان کی ہیں۔
انبیاء کی دعوت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش کا آغاز انبیاء کی دعوت ہی سے ہوا ہے، جب تک انبیاء نے دعوت نہیں دی، تب تک حق و باطل کی کشمکش شروع نہیں ہوئی تھی، حضرت محمدﷺ نے جب تک مکہ والوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت نہیں دی ، تب تک پورے مکہ میں آپ کی کوئی مخالفت نہ تھی۔ اس کا ثبوت حجر اسود کے رکھنے کے تنازعہ کے وقت بھی مکہ کے تمام قبیلوں کی طرف سے ملا۔ یہی بات واضح ہوئی کہ اس کشمکش میں اقدام آپؐ کی طرف سے ہوا، پھر سرداران مکہ نے آپ پر مختلف جھوٹے الزامات لگائے، اور آپؐ کو بھی اور آپؐ کے ساتھیوں کو مختلف اذیتیں پہنچائیں، اور پھر یہی حق وباطل کا معرکہ ہجرت کے بعد جنگوں میں تبدیل ہوگیا، جس کے نتیجہ میں جنگ بد ر، جنگ احد، جنگ احزاب اور دیگر معرکہ پیش آئے قیامت تک حق و باطل کی کشمکش جاری رہے گی، جس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کامیاب کرے گا۔اور اہل باطل کو ناکام کرے گا۔
اسلام کے غلبہ کی جدوجہد سے روکنے کے لئے کچھ نام نہاد نیم علماء نے ایک غلط بات گڑھ کے مسلمانوں میں پھیلادی ہے، وہ یہ کہ اسلامی حکومت واقتدار ایک عطائی و وہبی چیز ہے، کسبی نہیں ہے ، مطلب یہ کہ اسلامی حکومت و اقتدار کے لئے کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ خود بخود بغیر کوشش کے اللہ کی طرف سے عطا ہو جاتی ہے، کاش کہ یہ نام نہاد نیم علماء یہ غلط بات کہنے سے پہلے ذرا بھی سوچتے تو یہ بات زبان سے نہیں نکالتے، چیز صرف وہبی اور عطا ئی نہیں ،بلکہ ہر چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کسب یعنی کوشش کی شرط رکھی ہے ، یقینا ہر چیز کا عطا کرنے والا اللہ ہی ہے، لیکن یہ بھی یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ طلب اور کسب کی شرط رکھی ہے ،ہر عقیدہ و عمل کسبی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اچھے عقیدہ و عمل کی بنیاد پر انعام پاتا ہے، اور غلط عقیدہ و عمل کی بنیاد پر عذاب پاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح اسلامی حکومت بھی اللہ کی قدرت و نصرت سے قائم ہوتی ہے، لیکن اس کے لئے خود اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی نصرت کی شرط لگائی ہے ۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے۔ یَایُّھاَ الّذِینَ اٰمَنُوآ اِنْ تَنْصُرُوْا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِتْ اَقْدَامَکُمْ۔(سورئہ محمد آیت ۷) ترجمہ (ائے ایمان والوں اگر تم اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا)۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے مدد کے لیے کہا ۔ یہ اللہ کی کوئی ذاتی مدد نہیں ہے بلکہ اللہ کے دین کی مدد ہے، جس میں خود اہل ایمان ہی کا فائدہ ہے ساتھ ہی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد کے نتیجہ میں اہل ایمان کے قدم مضبوط جمانے کی بھی خوشخبری دی ہے، اس میں اسلامی حکومت و اقتدار بھی شامل ہے اسلئے کہ یہ بھی قدموں کی مضبوطی کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی طرح سورئہ نور کی آیت۵۵ میں اللہ تعالیٰ نے اسلامی حکومت و اقتدار کے وعدہ میں ، ایمان اور اعمال صالحہ کی شرط لگائی ہے ۔ ظاہر ہے اعمال صالحہ کا دائرہ بہت وسیع ہے، اس میں اسلامی حکومت و اقتدار کی جدوجہد بھی شامل ہے، آخری نبی امام الانبیاء والمرسلین حضرت محمدﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کو اس کے لئے خون و پسینہ بہانا پڑا اور پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، تب مدینہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی، اور پھر پورے عرب میں اس کے اثرات پڑے، ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے طشت میں رکھ کر آپؐ کو اسلامی حکومت عطا کی ہو، جب مکہ میں، سرداران قریش کی مخالفت اور ظلم و ستم کے باوجود آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والوں کی تعداد بڑھ رہی تھی تو ایک مرتبہ سرداران مکہ نے آپؐ کو اپنا بادشاہ ماننے کی پیشکش اس شرط کے ساتھ کی کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں ، اور ایک خدا کی بندگی کی دعوت چھوڑ دیں، لیکن آپؐ نے ان کی یہ پیشکش یہ کہہ کررد کردی کہ اگرمیرے سیدھے ہاتھ میں سورج رکھدیا جائے، اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیا جائے، تب بھی میں یہ دعوت نہیں چھوڑوںگا چاہے میں ہلاک ہو جائوں، یا پھر یہ دعوت غالب آجائے۔اس واقعہ کی روشنی میں سوچنا چاہیے آنحضورؐ نے تو ایسی بادشاہت کی پیشکش کو پورے طور پر ٹھکرایا، جس میںاللہ کے علاوہ معبودوں کی حمایت ہو رہی تھی، اور دین کی دعوت چھوٹ رہی تھی، جب کہ باطل بادشاہوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بعض لوگ خود بھی اسلام کے غلبہ کی جدوجہد سے رک رہے ہیں، اور دوسروں کو بھی روک رہے ہیں، قرآن میںاللہ نے اپنے اُصول کے طور پرفرمایا ۔ وَاَنْ لّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلّاَ مَا سَعٰیoوَ اَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرٰی o ثُمَّ یُجْزٰہُ الْجزَائَ الْاَوفٰیo (سورئہ نجم آیات ۳۹،۴۰،۴۱) ترجمہ : ’’اور نہیں ہے انسان کے لئے مگر وہی جو اس نے کوشش کیا ،اور اس کی کوشش ضرور کچھ مدت کے بعد اسے دکھائی جائیگی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے قوموں کے متعلق اپنے طریقہ کارکو یوں بیان فرمایا۔ اِنَّ اﷲ لَا یُغیَّرُ مَا بِقَوْمِ حَتِّی یُغیَرُّ وا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ (سورئہ رعد ۱۱) ترجمہ ( بیشک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں)۔ قرآن مجید میں سورئہ بقرہ کے پانچویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے اپنے طریقہ کار کو یوں بیان فرمایا، ۔یٰبنیٓ اِسْرآئیلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتیِ الَّتِیْ ٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِیٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ وَ اِیَّا یَ فَارْھَبوْنَ (سورئہ بقرہ آیت ۴۰) ترجمہ :’’ ائے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی ہے اور میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرو‘‘۔ دوسرے پارے کے دوسرے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خطاب کرکے فرمایا۔ فَاذْکُرُوْنیِٓ اَذْکُرْکُمْ وَ اشْکُرُوالِیَ وَلاَ تَکْفُرُوْن(سورئہ بقرہ آیت ۱۵۲) ترجمہ : (پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر کرو، اور میرا کفر مت کرو)۔
بارہویں پارے کی شروع کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام جانداروں کے رزق کے متعلق اپنی سنت کو بیان فرمایا: وَمَا مِنْ دَآبّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلّاَ عَلی اللہِ رِزْقُھاَ (سورئہ ہود آیت نمبر۶)ترجمہ’’ اور نہیں ہے زمین میں کوئی جاندار ،مگر اُس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے ‘‘مطلب یہ کہ روئے زمین پر جتنی بھی جاندار مخلوقات ہیں ،اُن تمام مخلوقات کو رزق پہنچانے کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے،لیکن اس کے باوجود رزق کے حصول کے لیے تمام جانداروں کو کچھ نہ کچھ محنت کرنی پڑتی ہے،چنانچہ اسی رزق کے حصول کے لیے روزانہ لاکھوں کروڑوں پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر رزق تلاش کرتے ہیں،یہاں تک کہ پرندوں کے وہ بچے جو اپنے گھونسلوں سے نہیں نکل سکتے، انھیں بھی اپنی ماں کے چونچ میں کا رزق حاصل کرنے کے لئے اپنا منہ کھولنے اور نگلنے کی محنت کرنی پڑتی ہے، اور اسی رزق کے حصول کے لیے روزانہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کو محنت کرنی پڑتی ہے، اسی رزق کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورئہ جمعہ میں ایمان والوں کو جمعہ کی نماز کے بعد زمین میں پھیلنے کا حکم دیا، اسی رزق کے حصول کے لیے آنحضرت محمدﷺنے تجارت کی۔
اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے،اگر اللہ کی طرف سے کوئی چیز صرف عطائی اور وہبی ہوتی، اور اس کے ساتھ محنت کی شرط نہ ہوتی، توبغیر محنت کے رزق مل جاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ لوگ رزق کے حصول کے لئے محنت و مشقت کو ضروری سمجھتے ہیں ،لیکن اسلامی حکومت کے متعلق سمجھتے ہیں کہ اس کے لئے محنت و مشقت کی ضرورت نہیں ہے، شیطان نے انھیں غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے ، اس لئے کہ شیطان کو شکست دینے کے لئے صرف عبادات کافی نہیں،بلکہ دین کی سمجھ بوجھ ضروری ہے ، حدیث میں حضور ﷺ نے فرمایا: وَلَفَقِیہُ وَاحِدُ اَشَّدُّ عَلیَ الْشَیطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ(ترمذی ،ابن ماجہ، مشکوٰۃ) ترجمہ ’’ اور ضرور دین کا ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے‘‘۔مطلب یہ کہ ہزار عابدوں کو بہکانا شیطان کے لیے آسان ہے ، لیکن دین کے ایک فقیہ کوبہکانا شیطان کے لیے مشکل ہے ، آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا،مَنْ یُّرِدِاللہُ بِہِ خَیراً یُفَقَّھْہُ فِی الدِّینِ(بخاری و مسلم) ترجمہ ’’ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے‘‘ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے ،اسے دین کا گہرا اور پختہ علم عطا کرتا ہے،جس سے وہ شیطان کے حربوں اور حیلوں کو سمجھ لیتا ہے،اور اس سے بچنے کی تدبیر کر لیتا ہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ دین کا گہرا اور پختہ علم قرآن و حدیث کے تحقیقی اور تفصیلی مطالعے سے حاصل ہوتا ہے، مگر افسوس ہے کہ آج سب سے زیادہ بے توجہی قرآن و حدیث کے تحقیقی و تفصیلی مطالعے کی طرف سے ہی ہے، یہاں تک کہ بہت سے علماء نے بھی قرآن وحدیث کے صرف سرسری علم کو ہی کافی سمجھ لیا ہے۔
مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں اور اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اور فیصلہ ان کی کوششوں اور اعمال کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جنت اور دوزخ کو صرف وہبی و عطائی نہیں رکھا، بلکہ اس کے لیے بھی کچھ کوشش کی شرط رکھی ہے ، چنانچہ قرآن میں جہاں کہیں بھی اہل ِ جنت اور اہل دوزخ کا تذکرہ آیا ہے ، اس تذکرہ میں خصوصیت کے ساتھ جَزٓائََ بِمَا کُنْتُمْ تَعمَلُونَ اور جَزَٓائََ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبوُنَ)کے الفاظ آئے ہیں،یعنی یہ جنت اور دوزخ تمہارے اعمال اور تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کیا مذکورہ آیات پر ایمان رکھنے والا کوئی فرد یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت و اقتدار صرف ایک عطائی اور وہبی چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اپنے طریقہ کار کو وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بے عمل لوگوں کے حق میں بس ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے، اور انہیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی جاسکتی ہے ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
لیکن افسوس ہے کہ آج دنیا میں زیادہ ترمسلمان سیاسی لحاظ سے غیر اسلامی نظریات اور حکومتوں کی محکومیت قبول کئے ہوئے ہیں، جس کی بناء پر میدان سیاست میں ذلت و رسوائی کی صورت میں مسلمانوں پر اللہ کا عذاب بھڑکا ہوا ہے، اور آخرت کا عذاب اس سے شدید تر ہے اس لیے اس گناہ عظیم سے مسلمان جتنے جلد توبہ کرلیں، اور باز آجائیں اور اپنی اصلاح کر لیں ، ان کے لیے دنیا و آخرت میں اتنا ہی بہتر ہے۔
آج سے تقریباً ڈھائی سو سال پہلے جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت مضبوط ہو رہی تھی اور مسلمانوں کی حکومت کمزور ہو رہی تھی تو اس وقت علماء کرام کو اس بات کی فکر ہوئی تھی کہ مسلمانوں کو انگریز حکومت کی سیاسی غلامی سے بچانے کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک نصاب بنایا جائے، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدثؒ کی قیادت میں اسلام کے پانچ کلموں کے نام سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک نصاب ترتیب دیا گیا تھا جو ایک طرح سے اسلام کے پہلے کلمہلَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہُ مُحَّمَدُ رَسُولُ اللہِ کی تشریح و تقاضہ پر مشتمل تھا، مطلب یہ کہ جو ،ان پانچ کلموں کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے اور جو ان پانچ کلموں کو نہ مانے وہ مسلمان نہیں ہے ، معاشرتی سطح سے ان پانچ کلموںکی اشاعت و تفہیم بھی کرائی جاتی تھی، اس کے لئے خاص طور سے نکاح کی مجلسوں کو استعمال کیا جاتا تھا، اسی طرح دینی مکاتب و مدارس کے ذریعہ بھی ان پانچ کلموں کی اشاعت ہوتی تھی،لیکن اس سلسلہ میں جو کمی رہ گئی وہ یہ کہ ان پانچ کلموںکی اشاعت پر جتنا زور دیا گیا اس کی تفہیم پر اتنا زور نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ان پانچ کلموں کو پڑھنے اور ماننے کے باوجود بہت سے مسلمانوں نے غیر اسلامی حکومت کی محکومیت اور غلامی پر قناعت کرلی۔ ان پانچ کلموں کی تفہیم و اشاعت کی شدید ضرورت ہے، ان پانچ کلموں میں سے چوتھا کلمہ اسلامی سیاست و حکومت کی وضاحت ا ور دعوت لیے ہوئے ہے، اور پانچواں کلمہ غیر اسلامی سیاست و حکومت کی تردید ہے۔ پنجم کلمہ کا نام ہی ردِ ّکفر ہے ، یعنی کفر کو ردکرنا، ان میں سے چوتھے کلمہ کا نام توحید ہے، اور اس کے الفاظ اس طرح ہیں، چہارم کلمہ توحید ٰلَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحَدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمدُ یُحْیِ وَ یُمِیْتُ بِیَدَہِ الْخَیْرِ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَی ئِ قَدِیْرُ۔ ترجمہ ’’ نہیں کوئی معبود مگر اللہ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے اقتدار ہے اور اسی کے لئے حمد ہے وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے بھلائی اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
مذکورہ کلمہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا نام ہی توحید رکھا گیا ہے مطلب یہ کہ اس کلمہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ توحید کا لازمی تقاضہ ہے، ان باتوںکو مانے بغیر کسی کی توحید ہی مکمل نہیں ہوتی ، اس کلمہ میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں اللہ ہی کے لئے اقتدار و حکومت کی بات کہی گئی ہےاس کا واضح مطلب یہی ہے کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی غیر اسلامی سیاست و حکومت کو صحیح سمجھے، اور اللہ ہی کے لئے اقتدار کو ماننے کا لازمی تقاضہ یہ اس کے مخالف اقتدار کا رد کرے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2018