اسلام اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ پہلا اورآخری دین ہے۔ یہ دین پہلے انسان اور پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوا۔ دنیا کے تمام انبیاء اور صالحین کا یہی دین رہا ہے۔ جغرافیائی حالات اور زمانہ کے اختلاف کے باوجود اس دین میں کوئی اختلاف نہیں ہوا بلکہ تمام انبیاء کرام نے اسی دین کی دعوت دی۔جو کچھ فرق ہوا وہ شریعتوں میں ہوا اور دین کے نفاذ کے عملی طریقہ کار میں ہوا۔ دین کی جوہری تعلیمات ہمیشہ یکساں رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
قُلْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ عَلَیْنَا وَمَا أُنزِلَ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَالنَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ، وَمَن یَبْتَغ غَیْرَ الإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْن (آل عمران: ۸۴-۸۵)
’’کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس تعلیم پر جو ہمارے اوپر نازل ہوئی اور جو نازل ہوئی ابراہیم ؑ، اسماعیل ؑ، اسحاق ؑ، یعقوب ؑ اور ان کی اولاد پر اور ہم اس تعلیم پر بھی ایمان لائے جو موسی ؑ،عیسی ؑ اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی، ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی ایک خدا کے فرماں بردار ہیں۔ اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں ناکام ونامراد ہوگا‘‘۔
آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نئے دین کی بنیاد نہیں ڈالی اور نہ کسی اجنبی دین کی دعوت دی بلکہ اسی دین کی اشاعت کی جو تمام انبیائے کرام کا دین تھا اور جسے سارے رسولوں نے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس تاریخی صداقت کا اعلان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحاً وَالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوسَی وَعِیْسَی أَنْ أَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیْہِ (الشوریٰ: ۳۱)
’’اللہ نے تمہارے لیے دین کی وہی راہ متعین کی ہے جس کا حکم اس نے نوح ؑکو دیا تھا۔ اور جسے تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ بھیجی ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیمؑ اور موسی ؑ اور عیسی ؑکو کی تھی یہ کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ‘‘۔
اسلام کی صداقت اور حقانیت کو ہر وہ شخص تسلیم کرتا ہے اللہ نے جس کے دل میں وسعت اور نگاہ میں بصیرت ودیعت کی ہے۔ جولوگ حق وباطل میں فرق کرسکتے ہیں، جو فطرت کی رہنمائی سے کام لے سکتے ہیں اور حق کے متلاشی ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
أَفَمَن شَرَحَ اللَّہُ صَدْرَہُ لِلإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِّن رَّبِّہِ (الزمر: ۲۲)
’’جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی پر ہے‘‘۔
آج بھی ہدایت اور نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان کا دل اسلام کے لیے کھل جائے اور وہ اس کی پاکیزہ، روشن تعلیمات کو اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں میں اتارلے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔
فَمَن یُرِدِ اللّہُ أَن یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن یُرِدْ أَن یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَاء (الانعام: ۱۲۵)
’’جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے۔ اس کا دم اس طرح گھٹنے لگتا ہے جیسے کہ وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہے‘‘۔
اگر یہ بات مسلم ہے کہ ہمیشہ سے تمام انبیا کا دین اسلام ہی تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دین کو از سر نو انسانوں کے سامنے پیش کیا تو سوال یہ ہے کہ دوسرے انبیاء کے ماننے والوں بعض افراد اور گروہوں نے اس دین کو قبول کیوں نہیں کیا اور اس کی مخالفت پر کیوں آمادہ ہوگئے؟ قرآن پاک نے اس کا جواب اس طرح دیا ہے۔
إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْنَہُمْ وَمَن یَکْفُرْ بِآیَاتِ اللّہِ فَإِنَّ اللّہِ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (آل عمران:۱۹)
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اہل کتاب نے اختلاف نہیں کیا مگر علم کے آجانے کے بعد ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کی خاطر۔ اور جو اللہ کی آیات کا انکار کرے گا تو جان لو کہ اللہ جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔
قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اسلام کے اصول واحکام اور قوانین کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے ساتھ دوسرے مذاہب سے بھی واقفیت حاصل کریں۔ ان کی حقیقت سے باخبر ہوں اور ان کے اختیار کردہ عقیدہ اور عمل سے آگاہ ہوں۔ شریعت کی اصل تعلیمات میں انسانوں کی طرف سے کیے گئے اضافوں اور تحریفات سے واقف ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ دوسرے مذاہب مثلاً یہودیت، عیسائیت کے عقائد ،اعمال اور تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ابتدائی عہد میں مسلمانوں نے کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر افریقی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حبشہ ایک اجنبی ملک تھا،عیسائیت جس کا مذہب تھا۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی عیسائی مذہب کا پیروکار اور سرپرست تھا۔ ہجرت حبشہ سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مریم نازل ہوئی تاکہ مسلمان جس ملک میں ہجرت کرکے جارہے تھے اس کے مذہب سے آگاہ ہوجائیں اور عیسائیت کی حقیقی تعلیمات ان کے ذہن نشین ہوجائے۔
مسلمانوں کی ہجرت کے بعد کفار مکہ کے نمائندے ان مہاجرین کو واپس لانے کے لیے نجاشی کے دربار میں پہنچے۔ ان مسلمانوں کو عیسائی مذہب کا مخالف قرار دیا تاکہ نجاشی کی ہمدردی ان مہاجرین سے ختم ہوجائے اور بادشاہ ان کو ملک سے نکل جانے کا حکم دے۔ نجاشی انصاف پسند تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو موقع دیا کہ وہ کفار مکہ کے نمائندوںکے الزامات کا جواب دیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی شخصیت اور عیسائی مذہب کے بارے میں اپنا موقف بیان کریں۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے حضرت جعفر طیار ؓ نے وہ صحیح بات بیان کردی جو قرآن پاک میں نازل ہوئی تھی۔ پھر وزیروں، مشیروں اور پادریوں سے بھرے سرکاری دربار میں سورہ مریم کی تلاوت فرمائی جس میں نہ صرف حضرت مریم ؑ کا بلکہ حضرت عیسیؑ، حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم السلام یعنی حضرت عیسی ؑکے پورے خاندان کا ذکر جمیل تھا اور بطور خلاصہ یہ فرمایا گیا تھا۔
ذَلِکَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُونَ مَا کَانَ لِلَّہِ أَن یَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبْحَانَہُ إِذَا قَضَی أَمْراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُن فَیَکُون (مریم: ۳۴،۳۵)
’’یہ عیسی بن مریم ؑ کے بارے میںسچی بات ہے جس میں لوگ شک کررہے ہیں۔ اللہ کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ پاک ہے اس کی ذات جب وہ کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے‘‘۔
حضرت جعفرطیّاررضی اللہ عنہ کا بیان اور قرآنی آیات سن کر نجاشی زارو قطار رویا۔انھوں نے کہا کہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے وہ اور حضرت عیسی ؑ جو تعلیم لے کرآئے تھے ایک ہی منبع نور سے نکلی ہے اور زمین سے ایک تنکا اٹھا کر بولا کہ تم نے جو کچھ بیان کیا ہے حضرت عیسی اس سے اس تنکہ کے برابر بھی زیادہ نہ تھے۔ ۱؎
ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہونے والی یہ سورہ عیسائی مذہب کے بارے میں صرف تاریخی حقیقت کا اظہار ہی نہیں کرتی بلکہ مسلمانوں کو سبق دیتی ہے کہ وہ جس ملک میں رہیں وہاں کے باشندوں کے مذہب اور عقیدہ کے بارے میں حقیقی اور مستند معلومات حاصل کریں۔غیر مسلموں کے سامنے اپنا عقیدہ حکمت اور معقولیت کے ساتھ پیش کریں۔
قرآن نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات سے صرف واقف ہی نہ ہوں بلکہ ان کے حاملین میں جو خوبیاں اور خصوصیات پائی جاتی ہیں ان کا برملا اعتراف کریں ۔ چنانچہ یہود ونصاری کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی مسلسل مخالفت ہورہی تھی اس کے باوجود ان کی بعض خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قرآن میں فرمایا گیا۔
لَیْسُواْ سَوَاء مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ أُمَّۃٌ قَآئِمَۃٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اللّہِ آنَاء اللَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُونَ، یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَأُوْلَـئِکَ مِنَ الصَّالِحِیْنَ (آل عمران: ۱۱۳،۱۱۴)
’’اہل کتاب میں سب لوگ یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، جو راتوں کو اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نیک کاموں میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ لوگ بہت نیک ہیں۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی نیکی کا کتنا کھلا اعتراف کیا گیا ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی‘‘۔
کسی بھی مذہب میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے۔ اگر کچھ لوگ شدت پسند ہوتے ہیں تو کچھ لوگ انصاف پسند بھی ہوتے ہیں۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ معقول باتوں کو سنیں گے، سمجھیں گے اور ان پر غور وفکر کریں گے۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان اس زمینی حقیقت کو سمجھیں اور اس موقع کو غنیمت شمار کریں۔ غیرمسلموں کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کریں اور اخلاص اورحکمت کے ساتھ اسے قبول کرنے کی دعوت دیں۔چنانچہ یہودی جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے ان سے خطاب کرتے ہوئے قرآن پاک نے کہا ہے:
یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَأَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ ، وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ(البقرہ: ۴۰،۴۱)
’’اے بنی اسرائیل!یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔ اور جو عہد مجھ سے کیا تھا اسے پورا کرو۔ میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور مجھ سے ڈرو۔ اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے نازل کی ہے تمہارے پاس پہلے سے نازل شدہ کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور تم اس کے سب سے پہلے منکر نہ بنو۔ اور تھوڑی قیمت کے بدلے میری آیات کو نہ بیچو اور میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘۔
دوسرے مذاہب پیروں کے بارے میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ ان کو نہ تو نظر انداز کیا جائے، نہ ان سے دوری اختیار کی جائے اورنہ ان کے معبودوںپر سب وشتم کیاجائے بلکہ ان کے ساتھ ربط رکھا جائے۔ ان سے خیرخواہانہ معاملہ کیا جائے اور ان سے بات جاری رکھی جائے۔ قرآن پاک میں جابجا دیگر مذاہب کے حاملین کو خطاب کیا گیا ہے ۔ اسلام چاہتا ہے کہ اہل مذاہب کے سامنے ان کی کھوئی ہوئی میراث توحید کو پیش کردیا جائے اور اس قدر مشترک کی بنیاد پرحق کی وضاحت کی جائے۔ چنانچہ یہودیوں اور عیسائیوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْاْ إِلَی کَلَمَۃٍ سَوَاء بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہِ شَیْئاً وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْہَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران: ۶۴)
’’کہو اے اہل کتاب!آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے علاوہ کسی کو اپنا رب نہ ٹھہرائے۔ پس اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں‘‘۔
دیگر مذاہب کے حاملین اگر اس پیش کش کو ٹھکرا دیں اور مباحثہ ومجادلہ کی نوبت آپڑے تو قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ احسن طریقے پر مباحثہ ومذاکرہ کیا جائے اور حق وصداقت کا اظہار معقولیت کے ساتھ کیا جائے۔ یہ مباحثہ شریفانہ طریقہ پر ہو اور ادب وتہذیب کے دائرہ میں ہو ۔ دل آزاری اور دشنام طرازی میں نہ تبدیل ہوجائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِیْ أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلَہُنَا وَإِلَہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (العنکبوت: ۴۶)
’’ اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں۔اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور اس پر بھی جو تمہاری طرف نازل ہوئی ہے اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے۔ اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں‘‘۔
قرآن چاہتا ہے کہ دعوت کے جواب میں اہل مذاہب کی طرف سے ضد اور عناد کے باعث مسلمانوں میں رد عمل کی ناروا نفسیات پیدا نہ ہو۔ وہ دیگر مذاہب کے معبودوں پر رکیک حملے نہ کریں اور ان کو نازیبا کلمات سے نہ نوازیں۔ اسلام کی دعوت معقولیت اور حکمت کے ساتھ دیں، سب وشتم سے گریز کریں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذَلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ أُمَّۃٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِم مَّرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُم بِمَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ (الانعام:۱۰۸)
’’جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسری چیزوں کو پکارتے ہیں ان کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو مبادا وہ زیادتی کرتے ہوئے نادانی میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ اسی طرح ہم نے ہر قوم کے لیے اس کے عمل کو خوش نما بنادیا ہے۔ پھر ان کے رب کی طرف ان کو پلٹ کرجانا ہے۔پس وہ اس کو بتادے گا کہ وہ کیا عمل کرکے آئے ہیں‘‘۔
علامہ شبیر احمد عثمانی نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ کسی مذہب کے اصول وفروع کی معقول طریقہ سے غلطیاں ظاہر کرنا یا اس کی کمزوری پر تحقیقی والزامی طریقوں سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے۔ لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت بغرض تحقیر وتوہین دلخراش الفاظ نکالنا قرآن نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا‘‘۔ ۲؎
مباحثہ اور مکالمہ میں شرافت اور متانت کی روش اختیار کرنا اس لئےبھی ضروری ہے کہ اس طرح امن قائم رہناہے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ مستقبل میں قبول حق کا دروازہ کھلا رہے۔ اور فریق ثانی کو اپنی کمزور یوں کو محسوس کرنے اور اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے کا موقع ملے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(النحل :۱۲۵)اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور ان سے احسن طریقہ سے بحث کرو۔اس آیت میں دین کی دعوت کے تین مرحلے بتائے گئے ہیں۔ پہلا مرحلہ حکمت کا، دوسرا مرحلہ عمدہ نصیحت کا اور تیسرا مرحلہ بہتر مباحشے کا۔
قرآن پاک نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ انصاف کے اصولوں پر مضبوطی سے عمل پیراہوںاور دوسرے مذاہب کے پیروں معاملہ میں بھی انصاف کا رویہ اپنائیں۔ دوسرے مذاہب کے حاملین سے دشمنی ہوتب بھی ان کے ساتھ انصاف ہی کو معاملات کا معیار بنائیں۔ ان کی عداوت ومخاصمت کی وجہ سے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدہ:۸)
’’اے ایمان والواللہ کے لئے راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی قوم کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو یہ تقوی سے زیادہ قریب ہے‘‘۔
اس تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ انصاف اسی طرح کیا جائے جس طرح اپنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ انصاف کے معاملہ میں اللہ کا خوف پیش نظر رہے۔ محبت وعداوت کے جذبات اگر انصاف پسندی پر غالب آجائیں گے تو اسلام کی حقانیت متاثر ہوگی اور دوسرے لوگ اسے قبول کرنے سے گریز کریں گے۔
قرآن کریم نے تاکید کی ہے کہ جولوگ اللہ، رسول اورآخرت کا انکار کرتے ہیں اورا پنے مشرکانہ عقائد پر اصرار کرتے ہیں، ان کو حق کی دعوت یقیناً دی جائے مگر اسے قبول کرنے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ ارادہ واختیار کی آزادی سلب نہ کی جائے۔ مشرکانہ عقیدہ کے باوجود رواداری کا معاملہ کیا جائے۔ ان کے انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے اور حساب اللہ پر چھوڑ دیا جائے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
قُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّہُ مِن کِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَیْنَکُمُ اللَّہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ لَا حُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ اللَّہُ یَجْمَعُ بَیْنَنَا وَإِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (الشوری :۱۵)
َ’’کہہ دوکہ میں ایمان لایا اس کتاب پر جواللہ نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہمارا رب اور تمہارا بھی رب ہے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک دن ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔
تمام مذاہب کے حاملین اور متبعین کے درمیان جو چیز قدر مشترک ہے وہ رشتہ انسانیت ہے، یہ رشتہ عقیدہ کے اختلاف کے باوجود باقی رہتا ہے۔ اسلام اس کو باقی رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔ انسانوں کے بارے میں عیسائی مذہب کا خیال یہ ہے کہ انسان پیدائشی مجرم ہے۔ کیونکہ حضرت آدمؑ نے شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر جو گناہ کیا تھا وہ اس کی اولاد میں سرایت کئے ہوئے ہے ۔ اسی گناہ کا کفارہ حضرت عیسیؑ نے سولی پر چڑھ کردیا تھا۔اس عقیدہ کے برخلاف اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طور پر محترم ہے۔ یہ اکرام واحترام اسے خالق کائنات نے عطاکیا ہے۔ لہٰذا اس سے یہ پیدائشی حق چھینا نہیں جاسکتا۔ قرآن میں وارد ہے۔
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً (بنی اسرائیل:۷۰)
’’بے شک ہم نے بنی آدم کو محترم بنایاہے اور اسے خشکی اور دریا میں سواری عطاکی ہے، اور اسے پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اسے فضیلت بخشی ہے‘‘۔
اسلام نے دیگر مذاہب کے حاملین کے ساتھ صرف انصاف اورانسانوںکے اکرام کا حکم نہیں دیا بلکہ حق کی مخالفت نہ کرنےوالوں کے ساتھ حسن سلوک، اچھا برتاو اور احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے تا کہ دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریفانہ رویہ اور حسن سلوک سے متاثر ہوکر اسلام کے اصولوں کو سمجھ سکیں اور ان کو اختیار کرنا آسان ہوجائے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَاء ذِیْ الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (النحل:۹۰)
’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف اور احسان کا اور قرابت داروں کے حق اداکرنے کا اور روکتا ہے، برائی ، منکر اور ظلم سے۔ وہ تم کو نصیحت کرتا ہے تا کہ تم کو یاد دہانی ہو‘‘۔
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللہ من احسنھم لعیالہ‘‘ ۳؎مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کو محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
انصاف اور احسان بنیادی انسانی قدریں ہیں جن کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ ان سے تمام انسانوں کو فیض یاب کرنا چاہئے۔ جس طرح سورج کی شعائیں تمام انسانوں کو روشنی پہنچاتی ہیںاور جس طرح باران رحمت تمام لوگوں کو سیراب کرتی ہے اسی طرح انصاف اوراحسان کا معاملہ ہے کہ ان سے تمام لوگوں کو راحت ملنی چاہئے۔ اختلافِ شرائع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنکُمْ شِرْعَۃً وَمِنْہَاجاً وَلَوْ شَاء اللّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلَـکِن لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَا آتَاکُم فَاسْتَبِقُوا الخَیْرَاتِ (المائدہ:۴۸)
’’تم میں سے ہرگروہ کے لئے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہ مقرر کی اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنادیتا۔ لیکن وہ تم کو اپنی عطاکردہ چیزوں میں آزمانا چاہتا ہے۔ اس لئے اعمالِ خیر میں سبقت کرو‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ (الممتحنہ:۸)
’’اللہ تم کو اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں سے نیکی اور انصاف کا برتاو کرو جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
علامہ شبیراحمد عثمانی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر کافروں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسر پیکار ہے تو تمام کافروں کو بلا تمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں، ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔ ضروری ہے کہ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان اور معاندومسالم میں ان کے حالات کے اعتبار سے فرق کیا جائے۔ ۴؎
قرآن کریم تمام مستحقین کی ر احت رسانی اور امداد کرنے کی بھی تلقین کرتا ہے اور اسے ایمان باللہ کے بعد بڑا کا ر ثواب قرار دیتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ فَکُّ رَقَبَۃٍ أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃٍ ، ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ ، أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃِ (البلد:۱۱-۱۸)
’’اس نے دشوار گذار گھاٹی پار نہیں کی اور تمہیں کیا معلوم کہ کیا ہے وہ دشوار گذار گھاٹی، کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا اور فاقہ کے دن کسی قریبی یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا ۔ پھر ان لوگوں میں شامل ہو نا جو ایمان لائے اور صبر کی اور رحم کی تلقین کی، یہی لوگ دائیں بازو والے ہیں‘‘۔
قرآن پاک کی ایک سورہ الانسان ہے۔ اس میں انسانوں کی خدمت کا پیغام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً ، إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً (الدہر:۸-۹)
’’وہ اللہ کی محبت میں یتیموں، مسکینوں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ہم تو اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلاتے ہیں ہم تم سے بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے‘‘۔
قرآن پاک کی ایک سورہ الفجر ہے جس کے معنی ہیں صبح صادق کا نمودار ہونا۔ اس سورہ میں عاد وثمود اور فرعون جیسے اصحاب اقتدار کے ظالمانہ کردار پر روشنی ڈالنے کے بعد ارشاد ہے۔
کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُونَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّمّاً (الفجر:۱۷-۱۸)’’ہر گز نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور مسکین کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو آمادہ نہیں کرتے‘‘۔
اسی طرح ایک دوسری کا نام ہے الضحیٰ جس کے معنی ہیں سورج کے بلند ہونے یعنی چاشت کے۔ اس سورہ میں کہا گیا ہے۔
فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَر،وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَرْ، وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ:۹تا۱۱)
’’بے شک یتیم پر سختی نہ کرو اور مانگنے والے کو نہ جھڑکو اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو‘‘۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017