قرآن مجید میں عدل وقسط کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اسے اللہ تعالی کے خاص حکم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ [الأعراف: 29]
(کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔)
إِنَّ اللَّهَ یأْمُرُ بِالْعَدْلِ [النحل: 90]
(بے شک اللہ عدل کا حکم دیتا ہے۔)
وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ یحِبُّ الْمُقْسِطِینَ [الحجرات: 9]
(اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)
قرآن مجید میں میزان یعنی عدل کے پیمانے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
میزان کے سلسلے میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ اس میں کسی طرح کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ میزان کاپوراپورا حق ادا کرنا چاہیے۔
وَلَا تَنْقُصُوا الْمِكْیالَ وَالْمِیزَانَ [هود: 84]
(اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو۔ )
وَأَوْفُوا الْكَیلَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ [الأنعام: 152]
( اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو)
میزان ترازو کو کہتے ہیں، ترازو کے لفظ سے وزن کرنے والے آلے یا مشین کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ لیکن قرآن ترازو کے تصور کو پھیلاکر کائنات کی وسعتوں کے برابر کردیتا ہے۔
سورہ رحمان میں آسمان کے ذکر والسماء رفعھا اور زمین کے ذکر والأرض وضعھا کے درمیان میزان کا ذکر ہے۔معلوم ہوا کہ یہ کائنات میزان کی اساس پر استوار کی گئی ہے اور اس کائنات کی بقا میزان کی بقا پرمنحصر ہے۔ آسمان سے لے کر زمین تک ہر چیز میزان کی موجودگی اور عمل داری کی گواہی دیتی ہے۔ میزان کی کارفرمائی کے بغیر ہر چیز کے اندر یہ توازن نہیں ہوسکتا ہے۔
عدل ہے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور (اقبال)
اللہ نے میزان وضع کیا ہے اور اللہ کے منتخب بندے اس میزان کے نگراں بنائے گئے ہیں۔
میزان کا ایک تکوینی پہلو ہے جو کائنات کی ہر چیز میں نظر آتا ہے اور میزان کا ایک تشریعی پہلو ہے جس کا مشاہدہ قرآن کی ہر آیت اور دینِ قرآنی کی ہر شاخ میں کیا جاسکتا ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ رسولوں کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ [الحدید:25]
(ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں)
یہاں لفظ میزان کتاب ہی کے ایک پہلو کو بیان کرتا ہے۔اللہ کی کتاب اللہ کا میزان بھی ہے۔ اس کتاب میں جو دین پیش کیا گیا ہے وہ بھی میزان ہے اور اپنے ہر جزو میں عدل وقسط سے عبارت ہے۔
اللہ نے کتاب اتاری رسولوں کا کام اس کتاب کو قائم کرنا تھا۔ اللہ نے میزان اتارا رسولوں کا کام اس میزان کو قائم کرکے دکھانا تھا۔ رسولوں کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مسلم امت کا کام کتاب کو قائم کرنا بھی ہے اور میزان کو قائم کرنا بھی ہے۔
عدل و قسط کا حکم دینے والوں کی جان کی حرمت اللہ کے یہاں نبیوں کی جان کی حرمت کے قریب ہوتی ہے۔ دونوں حرمتوں کی پامالی کاایک ساتھ ذکر کرکے اللہ تعالی نے دونوں کے لیے سخت وعید ذکر کی ہے۔
إِنَّ الَّذِینَ یكْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّهِ وَیقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ حَقٍّ وَیقْتُلُونَ الَّذِینَ یأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ [آل عمران: 21]
(جو لوگ خدا کی آیتوں کو نہیں مانتے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں اور جو لوگ عدل وانصاف کی بات کہیں انہیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں ان کو درد ناک سزا کی خوش خبری سنا دو ۔)
قیامِ قسط سے متعلق دو اہم آیتیں:
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَبِینَ إِنْ یكُنْ غَنِیا أَوْ فَقِیرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا [النساء: 135]
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ کی خاطر انصاف کے پیکر اور اس کے علم بردار بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔)
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [المائدة: 8]
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر انصاف کے پیکر اور اس کے علم بردار بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں کے ابتدائی جملےترتیب کے فرق کے ساتھ یکساں الفاظ پر مشتمل ہیں۔
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ
یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ
اس فرق کا فائدہ یہ ہوا کہ عدل کی اقامت اور عدل کی شہادت دونوں پر الگ الگ زور ہوگیا۔
دونوں آیتوں کے آخری جملے بھی ترتیب کے فرق کے ساتھ ایک جیسے ہیں:
فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا [النساء: 135] اور إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [المائدة: 8]
ترتیب کے اس فرق کا فائدہ یہ ہوا کہ عمل پر بھی زور ہوگیا اور اللہ کے باخبر ہونے پر بھی زور ہوگیا۔ دونوں آیتوں میں یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ باخبر ہوتاہے تمھارے اعمال سے جب وہ انجام پارہے ہوتے ہیں ۔
شروع اور آخر کی اس یکسانیت کے علاوہ درمیانی جملوں میں نمایاں فرق ہے۔ لیکن یہ فرق تکمیلی نوعیت کا ہے اور دو الگ الگ پہلوؤں سے مرکزی بات کو مکمل کرتا ہے۔
پہلی آیت میں اپنوں کی طرف جھکنے سے روکا گیا: وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَبِینَ [النساء: 135] اور دوسری آیت میں دشمنوں کے خلاف جھکنے سے منع کیا گیا۔ وَلَا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا[المائدة: 8]
پہلی آیت میں خواہش نفس کی اتباع سے روکا گیا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا [النساء: 135] اور دوسری آیت میں تقوی کی تاکید کی گئی۔ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ [المائدة: 8]
پہلی آیت کی ابتدا میں قسط کو قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے، كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ [النساء: 135] اور دوسری آیت کی ابتدا میں قسط کی گواہی دینے پر زور دیا گیا ہے: كُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ[المائدة: 8]
ابتدائی دونوں جملوں کو سامنے رکھیں تو دونوں ہی آیتوں میں قیام بالقسط اور شہادت بالقسط کا حکم دیا گیا ہے اور دونوں ہی آیتوں میں یہ دونوں کام اللہ کے لیے کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی بالقسط کا تعلق قوامین سے بھی ہے اور شہداء سے بھی ہے اور للہ کا تعلق بھی قوامین اور شہداء دونوں سے ہے۔
اس طرح گفتگو کے تین اہم پہلو ہوسکتے ہیں:
- قیام بالقسط کی اہمیت
- شہادت بالقسط کی اہمیت
- اور ان دونوں کاموں کےلیے للہیت کی اہمیت۔
سب سے پہلے للہیت پر گفتگو ہونی چاہیے ، کیوں کہ قیام ِقسط اور شہادتِ قسط کی سرگرمی اور جدوجہد کا محرک یہی ہے۔ محرّک سے غفلت ساری محنتوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔
عدل وقسط کے باب میں للہیت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ صفت للہیت صفت قسط کی حفاظت کرتی ہے۔
جب آدمی اللہ والا ہوجاتا ہے، اس کی زندگی اللہ کے لیے گزرنے لگتی ہے اور وہ اپنی ہر سرگرمی کا مقصود رضائے الٰہی کو بنالیتا ہے ، تو عدل کے تقاضے پورا کرنا اس کے لیے آسان بھی ہوجاتا ہے اور وہ عدل کو اپنے اوپر لازم بھی کرلیتا ہے۔ للہیت بہت بڑی طاقت ہے۔ اس کے بغیر مفادات کا ہلکا سا جھونکا ترازو کو ایک طرف جھکا دیتا ہے اور عدل قائم کرنے والا عدل کا سودا کرنے والا بن جاتا ہے۔
للہیت کا التزام نظامِ عدل کی نوعیت متعین کردیتا ہے۔ قرآن کی یہ دونوں آیتیں اہل اسلام پر واجب کرتی ہیں کہ وہ نظامِ عدل قائم کریں اور یہ بھی ضروری قرار دیتی ہیں کہ وہ نظامِ عدل اللہ کے دین کے عین مطابق ہو ۔ دوسرے لفظوں میں وہ صرف نظامِ عدل نہ ہو بلکہ اسلامی نظامِ عدل ہو۔ اس کا مرجع بھی اللہ ہو اور اس کی غایت بھی اللہ ہو۔ اللہ سے بے نیاز ہوکرکے نظامِ عدل قائم کرنے کی کوئی بھی کوشش درست نہیں ہوسکتی ہے۔ دعوتِ عدل اور دعوتِ توحید ساتھ ساتھ ضروری ہیں۔ جو لوگ دعوتِ توحید پر اکتفا کرکے نظامِ ظلم کو قابلِ قبول قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اور جو نظامِ عدل کے قیام کے لیے جدوجہد کو کافی سمجھتے ہیں اور دعوتِ توحید سے لاپرواہی برتتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔
للہیت کا تقاضا ہے کہ عدل وانصاف کا الٰہی پیمانہ اختیار کیا جائے۔ عدل وانصاف کی کسوٹی اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت قرار پائے۔ مثال کے طور پر مردوں اور عورتوں کے درمیان عدل اس طرح کیا جائے گا جس طرح اللہ نے بتایا ہے۔
للہیت نہ ہو تو انسان اپنی اولاد کے درمیان عدل نہیں کرتا ہے اور للہیت ہو تو انسان اس وقت بھی عدل کا دامن تھامے رہتا ہے جب ایک طرف اس کےاپنے ہوں اور دوسری طرف دشمن ہو۔
للہیت نہ ہو تو انسان عدل پر مبنی فیصلے کو نہیں مانتا اگر وہ فیصلہ اس کے مفادات کے خلاف ہو اور اگر للہیت ہو تو انسان کو قاضی عدل کی ضرورت پیش نہیں آتی وہ خود اپنے معاملے میں عدل سے کام لیتا ہے۔
قیام قسط اور شہادت قسط میں فرق ہے۔
قیام قسط کا مطلب ہے عدل کو قائم کرنا۔ اپنے تمام معاملات کو عدل کا پابند بنانا۔ قائم بالقسط سے بھی عدل کو قائم کرنے کی بات ادا ہوجاتی لیکن یہاں قوّام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ قوّام میں مبالغہ اور تکرار ہے۔ یعنی ہر موقع اور ہر معاملے میں عدل قائم کرنے والے۔ دوسرے لفظوں میں عدل کا پیکر بن جانا۔
شہادت قسط کا مطلب ہے عدل کی گواہی دینا، دوسرے لفظوں میں عدل کا علم بردار بننا۔ عدل کے سلسلے میں بیداری لانا۔ دنیا بھر میں قیامِ عدل کی مہم چلانا۔ قیامِ عدل کے لیے انسانوں کی ذہن سازی کرنا۔
قوّام بالقسط اپنے دائرہ اختیار میں عدل قائم کرتا ہے اور شہید بالقسط پوری دنیا میں قیام عدل کی کوشش کرتا ہے۔
انسان تنازعات کے درمیان زندگی گزارتا ہے اس لیےعدل اس کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ عدل ہو تو یہ دنیا جنت بن جائے اور عدل نہ ہو تو جہنم بن جائے۔
انسانوں کے مشترک مصالح اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے درمیان نزاعات کاہونا معمول کی بات ہے۔ اگر نزاعات کاتصفیہ ہوتارہے تو ان نزاعات سے انسانی سماج کو زیادہ نقصان بھی نہیں پہنچے۔ نزاعات کے تصفیے کو یقینی بنانے والی چیز عدل پر مبنی فیصلے اور فیصلوں کا عادلانہ نظام ہے۔ اگر عادلانہ نظام کے ذریعے نزاعات کا تصفیہ نہ ہوتارہے، تو نزاعات سنگین شکل اختیار کرلیں گے اور ان کےتصفیے کی کوئی شکل نہیں رہے گی۔
وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَینَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [النساء: 58]
(اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو)
وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَینَهُمْ بِالْقِسْطِ إِنَّ اللَّهَ یحِبُّ الْمُقْسِطِینَ [المائدة: 42]
(اور فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)
عدل و قسط کامعاملہ ہر سطح پر مطلوب ہے۔ اگر کسی طریقہ کار سے عدل و قسط کا پہلو مجروح ہورہاہو تو طریقہ کار کو بدلنا لازم ہے۔
یتیموں کے ساتھ عدل و قسط کا تقاضا ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے نکاح کرلیا جائے۔
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ [النساء: 3]
(اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔)
بیویوں کے ساتھ عدل و قسط ضروری ہے، وہ نہ ہوسکے تو ایک پر اکتفا کرنے کا حکم ہے
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً [النساء: 3]
(لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔)
گویا زندگی کے سفر کے لیے رہنما عدل و قسط ہے۔ اسی کے مطابق زندگی کے سفر کی سمت طے ہوگی۔
بیویوں کے درمیان عدل، اولاد کے درمیان عدل، رعایا کے درمیان عدل، کمرہ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان عدل، ہر معاملے میں عدل مطلوب ہے۔
مسلم امت کا مقام حصولِ انصاف کے لیے کاسہ لیسی کرنا نہیں ہے۔ یہ تو مجبوری کی ایک کیفیت ہے۔ انصاف کی بھیک مانگنا کسی ناگزیر صورت حال میں ایک وقتی کیفیت ہوسکتی ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ مسلم امت کا اصل مقام ومنصب جو قرآن میں بتایا گیا ہے وہ انصاف قائم کرنا ہے، انصاف کا نظام استوار کرنا ہے ، سب کے ساتھ انصاف کرنا اور عام انسانوں کو انصاف دلانا ہے۔
لیکن افسوس:
اب صاحب انصاف ہے خود طالب انصاف
مہر اس کی ہے، میزان بدست دگراں ہے(فیض احمد فیض)
انصاف مانگنے والوں کی کیفیت اور انصاف قائم کرنے والوں کی کیفیت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
اگر آپ کو انصاف قائم کرنے والا بننا ہے تو اس کے لیے جدا گانہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہوں گے۔ خود کو مفادات کی کشمکش سے اوپر اٹھانا ہوگا۔ اپنی ذہنی سطح بہت بلند کرنی ہوگی۔
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف (اقبال)
انصاف قائم کرنے کے لیے قوت و تمکین بھی ضروری ہے۔ جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے، کم زور قومیں کاسہ لیسی ہی کر سکتی ہیں وہ بھی اتنی ہی جتنی کی اجازت ملے۔
جو ضعیف و علیل ہوتا ہے
عشق میں بھی ذلیل ہوتا ہے (جوش ملیح آبادی)
اللہ تعالی کم زور اقوام کے ہاتھ میں میزان نہیں تھماتا۔ میزان مضبوط ہاتھوں میں دیا جاتا ہے جو اس کا حق ادا کرسکیں اور اس کی لاج رکھ سکیں۔
عدل قائم کرنے میں شدید دشواریاں اور بڑی رکاوٹیں درپیش ہوسکتی ہیں۔ خاص طور سے تکثیری سماج میں۔ بہت ممکن ہے کہ فریقین میں سے ایک کا تعلق آپ کی قوم سے ہو اور دوسرے کا تعلق کسی اور قوم سے ہو اور کبھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی دشمن قوم ہو۔ انصاف کا تقاضا کچھ اور ہو اور قومی مفاد وجذبے کا تقاضا کچھ اور ہو۔ ایسے امتحان میں کامیابی یہی ہے کہ آپ انصاف کے تقاضے پورے کریں۔
انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ صورت حال کو بلا کم وکاست پیش کریں۔ آپ کے فریق کی جتنی غلطی ہو وہ بھی سامنے لائیں اور دوسرے فریق کی جتنی غلطی ہو وہ بھی سامنےلائیں۔ فرقہ وارانہ تناؤ اور ٹکراؤ کے موقع پر ہر فریق ناقص رپورٹنگ کرنا چاہتا ہے کہ جس سے وہ مظلوم اور فریق مقابل ظالم نظر آئے۔ یہ رویہ میزان کو مجروح کرتا ہےاور مسلم امت کو جو کہ میزان کی نگراں و پاسبان ہے ، ہرگز زیب نہیں دیتا ہے۔
دوسری اقوام کی عملی برائیوں کے مقابلے میں اسلام کی نظریاتی خوبیوں کو پیش کرنا اور مسلمانوں کے عملی رویے سے اغماض برتنا بھی انصاف کے خلاف ہے۔ عملی صورت حال کا موازنہ عملی صورت حال سے ہونا چاہیے اور نظریے کا موازنہ نظریے سے ہونا چاہیے۔
ناانصافی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ کسی قوم یا فرقے کی خرابیوں کو خوب اچھالا جائے اوراس کی خوبیوں کو چھپایا جائے۔ یہ غیر منصفانہ رویہ بہت سی خرابیوں کا ذمے دار ہوتا ہے۔ کسی قوم کی طرف وہ برائیاں منسوب کرنا جو اس میں نہ ہوں یا ہوں مگر بہت محدود پیمانے پر ہوں نا انصافی نہیں بلکہ کھلی ہوئی زیادتی ہے۔
اقامت عدل کے لیے مطلوب امور و صفات
عدل قائم کرنے کے لیے علم اور خاص طور سے انسان کے متعلق علم ہونا ضروری ہے۔ جو انسان کو نہیں سمجھتا وہ انسانوں کے درمیان عدل بھی نہیں کرسکتا ہے۔
عدل قائم کرنے کے لیے وحی کی آگہی ضروری ہے، اصل میں تو کتابِ الٰہی میں ہی اقامتِ عدل کے اصول ملتے ہیں۔
عدل قائم کرنے کے لیے بصیرت ضروری ہے، کبھی عدل اور نا انصافی کے درمیان اتنی باریک لکیر ہوتی ہے کہ عام نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ اہلِ بصیرت کے سوا کسی کو نظر نہیں آتی۔
عدل قائم کرنے کے لیے مشاورت مفید ہوتی ہے۔ مشورے سے بعض پوشیدہ پہلو اجاگر ہوجاتے ہیں۔
عدل قائم کرنے کے لیے تحقیق ضروری ہے۔ عدم تحقیق کے نتیجے میں انسان نادانستہ ناانصافی کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
عدل قائم کرنے کے لیے دل کو نفرت سے پاک کرنا ضروری ہے۔ نفرت قیامِ عدل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
عدل قائم کرنے کے لیے صبر (جذبات پر قابو) ضروری ہے۔ جذبات میں بہہ جانے والے عدل قائم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
یاد رہنا چاہیے کہ چاہ کے باوجود عدل نہ کرپانا ایک کم زوری ہے لیکن جان بوجھ کر عدل نہ کرنابہت بڑی برائی ہے۔
جو عدل کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ ایسی ذمے داریوں سے خود کو دور رکھے جہاں قیامِ عدل کے زیادہ مواقع درپیش ہوتے ہیں۔ خاص طور سے اسے قاضی اور حکم نہیں بننا چاہیے۔
جہاں مکمل عدل قائم کرنا ممکن نہ ہو وہاں مکمل نا انصافی کی اجازت نہیں ہوگی۔ بلکہ جتنا عدل قائم کرنا ممکن ہو اتنا کرنا بہرحال لازم ہوگا۔ درج ذیل آیت میں اس اصول کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔
وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَینَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیلُوا كُلَّ الْمَیلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِیمًا[النساء: 129]
(اور تم خوا ہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا ادھر ہوا میں لٹک رہی ہے اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور پرہیزگاری کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔)
خود غرضی اور مفاد پرستی قیامِ عدل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا [النساء: 135]
حضرت داؤد کو بھی یہی تاکید کی گئی:
یادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَینَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَیضِلَّكَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ [ص: 26]
(اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکا دے گی۔)
حضرت عمرؓ کا درج ذیل واقعہ بتاتا ہے کہ ذاتی جذبات پر اتنا کنٹرول ہونا چاہیے کہ وہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ حضرت عمر ؓکے پاس ایک مسلم سپاہی اپنا مشاہرہ لینے گیا۔ اس نے زمانہ جاہلیت میں حضرت عمر کے بھائی کو قتل کیا تھا۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور انھوں نے کہا میں تم سے کبھی محبت نہیں کرسکتا، اس نے کہا کیا اس کی وجہ سے آپ مجھے میرا حق روک لیں گے، انھوں نے کہا ، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، تمھیں پورا حق ملے گا۔ (أخبار القضاة، الوكیع)
مسلم امت کی تاریخ کا اولین دور عدل و قسط کا بہترین نمونہ تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک یہودی نے حضرت علیؓ کے خلاف شکایت درج کرائی، حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ سے کہا: ابوالحسن آپ اپنے فریق کے برابر میں کھڑے ہوجائیے۔ وہ کھڑے ہوئے۔ ناراضگی ان کے چہرے پر نمایاں تھی۔ خلیفہ نے انصاف کے ساتھ نزاع کا تصفیہ کیا۔ اس کے بعد حضرت علیؓ سے کہا: کیا آپ اس وجہ سے ناراض ہوگئے تھے کہ میں نے آپ کو اس شخص کے برابر میں کھڑے ہونے کو کہا تھا؟ حضرت علیؓ نے کہا : امیر المومنین خدا کی قسم بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ نے مجھے نام کے بجائے (احترامًا) کنیت سے پکارا تھا، مجھے ڈر ہوا کہ آپ میرا احترام کریں گے اور یہ یہودی کہے گا کہ مسلمانوں میں عدل نہیں رہا۔
دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
(اقبال) عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
اک زلف کی خاطر نہیں انصاف کی خاطر
ٹکرائے ہیں ہر دور میں ہم کوہِ گراں سے
خلاصہ
قرآن مجید کی آیتیں اہل اسلام کا فریضہ قرار دیتی ہیں کہ وہ عدل و انصاف کے پیکر بنیں اور عدل وانصاف کے علم بردار بنیں۔ اس دنیا میں نظامِ عدل قائم کرنے کی جدوجہد اہلِ اسلام کا دینی فریضہ ہے۔
صاحب ایمان کو میزان کامحافظ ہوناچاہیے۔ وہ میزان کی طرح سدا عدل کا پابند رہے۔ وقت کے پابند مسلمان کو دیکھ کر اگر لوگ اپنی گھڑی درست کریں تو عدل کے پابند مسلمان کو دیکھ کر لوگ اپنے زاویہ فکر اور نقطہ نظر کو درست کریں۔
میزان کی طرح ہمیشہ خط مستقیم پر رہیں، انصاف کے معاملے میں دشمنوں کے خلاف نہ جھکیں، وَلَا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا۔ انصاف کی قربانی دے کراقربا کی طرف نہ جھکیں، وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَبِینَ خواہش نفس (جس میں ہر طرح کے جذبات شامل ہیں) میزان کی درستگی پر اثر انداز نہ ہو، فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا۔
اسلام میں عدل کا محدود تصور نہیں ہے ۔ اسلام عدل کی ضرورت کو نزاعات تک محدود نہیں کرتا ہے۔ عدل صرف عدالتوں تک سمٹا ہوا نہیں ہے۔ قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ [الأعراف: ۲۹] کا حکم زندگی کے تمام امور و معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ کی تعلیم بتاتی ہے کہ عدل کرنا سب کی ذمے داری ہے اور ہر حال میں سب کی ذمے داری ہے۔ غرض اسلام کے پیش نظر محض انصاف کی وزارت قائم کرنا نہیں بلکہ انصاف کی ریاست قائم کرنا ہے۔ قیام عدل کی جدوجہد کو سماجی انصاف کے حصول تک محدود رہنا نہیں چاہیے بلکہ انصاف پر مبنی سماج کے قیام تک جاری رہنا چاہیے۔ یہ کام تبھی ہوگا جب اقامتِ عدل کی ایک زبردست تحریک برپا ہوگی۔
مولانا مودودی کے اس قیمتی اقتباس پر گفتگو کا اختتام کیا جاتا ہے:
‘‘تمھارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کا جھنڈا لےکر اٹھناہے۔ تمھیں اس بات پر کمر بستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل وراستی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے، مومن ہونے کی حیثیت سے تمھارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم ہو۔’’(تفہیم القرآن)
مشمولہ: شمارہ مئی 2025