سولہویں لوک سبھا کا انتخاب اور اس کے نتائج نے ہندستان میں سیکولر جمہوریت کے تجربے پر کئی نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ تمام باشندگان ملک کے ساتھ ملت اسلامیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سوالات پرتوجہ کرے اور اس پر معروضی ڈھنگ سے غور کرے۔حالیہ انتخابی نتائج نے ملت اسلامیہ کو اس وقت جس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ،اس سے صاف نظر آرہا ہے کہ ملک کے اقتدار میں ملت پارٹنر نہیں رہ گئی ہے بلکہ محض تماشائی بن گئی ہے ۔ کھیلنے والوں کی ٹیم میں میاں جمن ،بی بی نجمہ،مولانابفاتی،مسٹر سلّواگر نظر آرہے ہیں ،تو وہ در اصل کسی سیاسی پارٹی کی نظر کرم کی وجہ سے ہیں۔ ملت کے کسی باشعور طبقے یا ادارے کی منصوبہ بند کوششوں کا نتیجہ نہیں ہیں۔ پھر موجودہ صورت حال میں ان کے ہونے یا نہ ہونے کی بہت زیادہ معنویت بھی نہیں ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ موجودہ پارلیمانی انتخاب نے بہت سارے بھرم کھول دیے۔اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ہم اسی طرح آہستہ آہستہ سیاسی بے وقعتی کا شکار ہوتے ہوئے اپنے ملک ہی کی ایک کمیونٹی کی سیاسی غلامی میں مبتلا ہو جائیں گے اور ملت کا اجتماعی سیاسی وجود اکثریت کے سیاسی عزائم میں گم ہو جائے گا۔ ہم مذہبی اور سماجی گروہ کی حیثیت سے تو باقی رہیں گے،لیکن ہماری آزاد سیاسی امنگوں کے لیے راہیں مسدود ہوتی چلی جائیں گی۔ اس کا تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم ہندستانی کی حیثیت سے آزاد ہوں گے لیکن مسلم ملت کی حیثیت سے سیاسی غلام۔دونوں سے مل کر ہماری جو شناخت بنتی ہے اس میں ہم نصف آزاد اور نصف غلا م ہوں گے۔ اب یہاں دوسرا اہم سوال سامنے آتاہے کہ اس کی وجہ موجودہ سیکولر جمہوری نظام اور اس کا طریقۂ انتخاب ہے یا ملک کے حکمراں طبقے اور گروہ کی عیاری اور چالاکی ہے یا پھرملت کی سیاسی سادہ لوحی ونادانی۔ غور کیجیے تو اس کی وجوہات میں یہ تینوں چیزیں شامل ہیں۔ سرِ دست مذکورہ تینوں باتوں میں دو باتوں پر گفتگو نہیں کرنی ہے۔ بلکہ خود اپنا احتساب اور جائزہ پیشِ نظر ہے۔
اس پہلو سے ہماری سیاسی نادانی اور سادہ لوحی یہ ہے کہ ہم موجو دہ طرز انتخاب First Past The Post سسٹم (سبقت بہ معنی فتح) کو نہیں سمجھتے۔ دوسرے حلقۂ انتخاب کے تعین میں مسلمانوں کو بے اثر کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں ،وہ بھی ہمارے غورو فکر کے ایجنڈے میں کبھی نہیں رہیں۔ مزید یہ کہ مسلم اکثریتی علاقے کو ریزرو کر کے مسلمانوں کو بے اثر کرنے کی جو کوشش ہوتی رہی ہیں۔ اُن پر بھی ہم نے کبھی توجہ نہیں دی۔اس طرح ہندستان میں الیکشنی سیاست کا جو Space (میدانِ کار) ہے ،وہ بہت محدود ہو گیا ہے۔ اس محدود اسپیس کی مخصوص نوعیت کے فہم اور اس کے استعمال کے لیے درکار ہوش مندی پر بھی ہم توجہ نہیں دیتے۔ہمارا پورا مسلم سماج ملوکیت ،خانقاہیت اور جاگیر دارانہ ماحول کاہنوز پروردہ معلوم ہوتاہے ، بڑے پیمانے پر رائے عامہ کی ہمواری، عامۃ المسلمین کی جمہوری سیاسی امنگوں کی تربیت ،ہندستان جیسے تکثیری سماج میں مختلف سماجی گروہوں کے درمیان افہام و تفہیم اور سوشل انجینیرنگ (سماجی رابطہ بندی) اور انتخابی سیاست کی حکمت عملی کی تشکیل میں ہم بری طرح ناکام ہوتے رہے ہیں۔پورے ہندستان میں مسلم ملت کے اکابرین اور لیڈران کی انتخابی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو صاف محسوس ہوگا کہ کچھ لوگ مسلم حلقۂ انتخاب کے تئیں حلقہ مریدین جیسا سلوک کرتے ہیں۔بعض کچھ حلقوں کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور کچھ طبقے غریب مسلمانوں کی آبادی کو اپنی رعایا سمجھتے ہیں۔ جو کسر رہ جاتی ہے ،اس کو مسلم ووٹ بینک کے کچھ سیکولر ،کچھ مذہبی ٹھیکے دار پورا کردیتے ہیں۔ جب تک مسلم سماج کے یہ چاروں نمائندہ عناصر اپنا رویہ نہیں بدلیں گے،یا خود ملت ان کا احتساب کر کے نئی عوامی بیدار مغز قیادت نہیں اُبھارے گی ،اس وقت تک مسلم انتخابی سیاست میں ملت شکست کھاتی رہے گی۔
مسلمانوں کوسمجھ لینا چاہیے کہ موجودہ صورتِ حال میں الیکشنی سیاست میں جو جگہ (space) ہے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے نئی سوجھ بوجھ درکار ہے۔ اس کے داو پیچ اور جوڑتوڑ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ نپی تلی زبان اور نئے سیاسی گرامر وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ الیکشنی فیصلے میں عوامی شرکت اور جمہوری مزاج کی کارفرمائی کو یقینی بنانااور اس کے لیے مسلسل کوشش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔حالیہ انتخابی نتائج ہی نہیںبلکہ 1952ء سے آج تک انتخابی سیاست میں جو اُتار چڑھاو اور نرم گرم حالات آتے رہے ہیں اُن سب کا نئے انداز سے تجزیہ کرناچاہیے،تاکہ ہم صحیح لائحۂ عمل بنا سکیں۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم ایک متفقہ ملی سیاسی منشور بنائیں۔ ملت کے اندر عوامی سیاسی شعور پیداکریں۔ نئے حالات میں ان کے سیاسی عزائم کو صحیح سمت دیں۔ کاسہ لیسی کی پالیسی کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا حوصلہ دیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملت کا متفقہ سیاسی منشور تیار کیا جائے،جس میں ’’کونو ا قوامین بالقسط‘‘ (ہو جائو انصاف کے علم بردار) کی روح کار فرما ہو۔سماجی انصاف ،حقوقِ انسانی ،سچی آزادی،امن،عوامی ترقی اور انسانی معروفات کے قیام کی طرف اس کا رخ ہو۔یہ سیاسی منشور کوئی ایک جماعت یا کوئی ایک حلقہ یا دانشوروں کا کوئی ایک گروہ نہ بنائے بلکہ ملت کے اندر عام بحث ہو،سب مل کر اسے بنائیں اور اس میں سب کی شمولیت ہو۔ اِس کام میں خوف، ڈر اور گھبراہٹ کی کوئی پرچھائیں نہ ہو۔اسے حوصلہ ،ہمت ،اپنے آپ پر بھروسہ ،عام ہندستانیوں کے ضمیر پر اعتماد اور توکل علی اللہ کی بنیاد پر بنایا جائے۔ کوئی ضروری نہیں کہ یہ کام آل انڈیا سطح پر کیا جائے ۔ علاقائی یا حلقے کی سطح پر اسے کرنا زیادہ مناسب ہوگا اور دوسری مصلحتیں بھی اسی کا تقاضہ کرتی ہیں۔اس ایجنڈے کے ذریعے مسلم ملت کے ساتھ عام انسانوں کی آواز کی ترجمانی بھی ہو۔ مسلمانوں کا ایک قوم ہونے کی حیثیت سے قومی ایجنڈے کو مطالبہ کے طور پیش کرنے اور انسانیت کو امن ،عدل اور جملہ معروفات کے لیے اُٹھانےنیزظلم وزیادتی سے بچانے کے لیے جدوجہد کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔اس طرح ہمارے ایجنڈے میں ہمارے داعیانہ کردار کا عکس بھی نظرآئے گا۔
منشور کی روشنی میں صحیح نمائندے کا انتخاب ہمارے لائحۂ عمل کا دوسرا نکتہ ہونا چاہیے ۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مسلم حلقے کی نمائندگی مسلمان ہی کریں ۔بلکہ جو بھی سیاسی ایجنڈا اور منشور ہم بنائیں ، اس کی وکالت کی اہلیت جس میں ہو،اس کو نمائندہ بنانا چاہیے ۔یعنی مسلم قوم کی سیاسی وکالت اور نمائندگی ہر حال میںمسلمان ہی کرے،یہ مسلم سیاست کا لازمی جزو نہ ہو۔البتہ جہاں تک جمہور مسلمین کی اجتماعی قیادت کا سوال ہے تووہ یقینا مسلم ملت کے صالح اور بہی خواہ افراد کوہی کرنی چاہیے لیکن ملی قیادت او ر سیاسی نمائندگی میں فرق کرنا چاہیے۔ اگر ہم یہ دو کام شروع کر دیں تو مسلم انتخابی سیاست کا پورا کردا ر بدل جائے گااور اس کے نتیجے میں انتخابی سیاست کا جو ایک محدود میدان ہے، اس میں وسعت کے نئے امکانات پیدا ہو سکیں گے۔ سیاست میں یہ نیا میدان تخلیق کرنا ہماری نئی سیاسی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ ہے، اس انتخابی منشور کو بنانے میںصر ف ملت کے عام مفادات ، اس کے مسائل ہی شامل نہیں ہوں گے بلکہ ہندستان جیسے ملک میں سماجی انصاف ، حقوق انسانی ، پالیسی سازی میں سب کی شرکت ، ترقی کے حصول میں سب کا حصہ ؛ یہ سب موضوعات شامل ہوں گے۔مسلمانوں کا سیاسی اتحادبھی اسی مثبت سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر ہوگا۔ جس میں اسلام کاتصور خیر و عدل شامل ہوگا۔یہ کوشش اس سے مختلف ہو گی جو صرف مسلم مسائل کے حل کے لیے حکمراں قوم کے سامنے ملت کی جماعتیں اور افراد وقتاً فوقتاً کاسۂ گدائی لے کر پیش کرتے رہے ہیں۔ مسلم ملت اسلامیہ کا یہ اسلامی مینی فیسٹو ایک طرف ملت کے اندر اتحاد کی عملی بنیاد بنے گااور دوسری طرف فرقہ پرستی کی زہریلی سیاست کا تریاق بن جائے گا۔ تیسری طرف یہ پالیسی ایک نیا سیاسی میدان بھی تخلیق کرے گی۔یہی منشور مسلم عوام کے سیاسی شعور کو پختہ تر کرنے کا بھی ذریعہ ہوگا۔ ہم مسلمانوں کے درمیان آزادی کے بعد اسلامی بنیادوں پر سیاسی تعلیم(Political Education) کا کام نہیں کر سکے ہیں۔بس ووٹ کے وقت کچھ مشورے، ہدایات دے کر تذکیر اور نصیحت کرکے رہ جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ مجلس مشاورت نے اس رخ پر کام شروع کیا تھا۔ مشاورت کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اس عوامی منشور کوغیر مسلم عوام کے سامنے بھی پیش کریں تاکہ ان میںسے ایک یا چند گروہ اس ایجنڈے پرہمارے سیاسی حلیف بن سکیںاور کچھ لوگ ہماری سیاسی نمائندگی کے لیے بھی آگے بڑھ سکیں۔یہی صحیح راستہ ہے جس کے ذریعہ ملک میں جمہوریت نے جو موقع اسپیس فراہم کیا ہے اس کو استعمال کرکے اپنا رول ادا کر سکتے ہیں اور اسی کے ذریعے ہی ایک نیا اور باوقار سیاسی مکالمہ ڈائلاگ بھی شروع کیا جا سکتاہے۔
مسلم اکثریتی حلقے کی نمائندگی لازماً مسلمان ہی کرے اس ذہنی سانچے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔وہیں جمہوریت کے حوالے سے جمہوریت کا یہ تقاضا بھی پر زور طریقے سے بیان کرنا چاہیے۔کہ عوام کے نمائندہ اداروں میں ہر فرقے ، قوم ،مذہب اور گروہ کے لوگ موجود ہوں۔ یہ سوال مسلم مسئلے کا سوال بن کر نہ آئے لیکن جمہوریت کا سوال بن کرضرور آنا چاہیے ۔ چنانچہ ہندو علاقے کی سیاسی وکالت مسلمان بھی کر سکتاہے اور یہ بات بھی وضاحت اور صراحت سے کہنی چاہیے۔ اس کا نفسیاتی اثر یہ ہوگاکہ جو مسلمان بھی سیاست کے میدان میں بنی نوع انسان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں میں شریک ہیں ،وہ کمزور آبادی ،مظلوم طبقہ اور عام انسانوں کے حقیقی مسائل کے وکیل بنیںگے اور صرف مسلمانوں کی ووٹ بینک کی سیاست میں اپنی پارٹیوں کے آ لہ کار نہ بنے رہیں گے۔
اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ مسلمان سیاسی پارٹیوں میں بھی وہ سیاسی رول ادا نہیں کرتے جو انھیں ادا کرنا چاہیے۔ مسلما نوں کا ایک مشترکہ منشور بن جائے تو مختلف سیاسی جماعتوں میں جو مسلمان اپنے سیاسی عزائم اور حوصلوں کی خاطر سرگرم عمل ہیں ان کے لیے بھی یہ چیز رہ نمائی کا ذریعہ ہوگی۔اس مشترکہ منشور کو ترتیب دینے میں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیاہے، ہر سطح پر تبادلۂ خیال کرنا چاہیے اور ان لوگوں کو شریک کرنا چاہیے جو اسلام کا واضح سیاسی شعور اور ملک و ملت کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اورایسے لوگوں کی ملت میںیقینا کمی نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ ملک میں وہ سیاسی پارٹیاں بھی موجودہیں جن کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے جنھیں آپ مسلم سیاسی پارٹیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اُن کے لیے بھی یہ مشترکہ منشور معاون ہو گا۔ اس طرح علاقائی بنیاد ،تاریخی روایات اوراپنے کیڈر و لیڈران (کارکنان اور قیادت) کے مزاج میں مختلف ہونے کے باوجود ان میں سیاسی سمت سفر کے سلسلے میں آپس میںیکسانیت پیدا ہوگی۔ہم اس وقت اس پوزیشن میں نہیںہیں کہ کچھ لو گ جو مسلم سیاسی پارٹیوں کے تجربے کر رہے ہیں ان کو متحد کر دیں یا مختلف سیاسی پارٹیوں میں جو مسلم سیاست داں ہیںاُن کو کسی ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں۔ یہ فی الحال نہ عملی بات ہے، نہ ممکن ہے۔اس وقت اصل کرنے کا کام یہی ہے کہ بسااوقات ہمارے سیاسی رویے سے فرقہ واریت کو ہوا دینے کا جو موقع مل جاتاہے،وہ کسی حال میں نہ ملے۔ مزید یہ حقیقت سامنے رہے کہ فرقہ پرست سیاسی پارٹیاں مسلمانو ں کے ایک طبقے کو اپنا ہم نو ا بنانا چاہ رہی ہیںاور مسلمانوں کے اندر سیاسی طالع آزما قسم کے لوگوں کو سیاسی فائدہ اور منصب کا لالچ دے کر اپنے دائرہ اثر فولڈ میں لانا چاہتی ہیں ، اگرہمارا سیاسی منشور عام ہوجائے اور ہماری اجتماعی سمت سفر درست ہو جائے تو مفاد پرست سیاسی جماعتوں کے لیے مسلم سماج کے اندر اپنا ہم نوا پید اکرنے کے راستے مسدود ہوجائیں گے۔
انتخابی سیاست کا میدان موجودہ انتخابی سیاسی سسٹم میںیقینا محدود ہے۔ اس محدود اسپیس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے جہاں مذکورہ بالا تدابیر اختیار کرنا چاہیے ،وہیں اپنے وسیع تر سیاسی مفادات کی خاطر سماج کے ایک بڑے (میدان) اسپیس میں اپنے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے۔ اور وہ غیر انتخابی سیاسی میدان ہے۔غیر انتخابی سیاسی میدان کی اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ جمہوریت کو سیاسی پارٹیاں چلاتی ہیں۔اس لیے جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کا وجود لازمی ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کے تعلق سے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عوام میں جو مختلف چھوٹی چھوٹی تہذیبی اور سماجی اکائیاں پائی جاتی ہیں یا مختلف اجتماعی مفادات پر مبنی گروپ(Interest Group) پائے جاتے ہیں ان سب کے سیاسی عزائم یا مفادات کی تکمیل ان سیاسی پارٹیوں کے ذریعے نہیں ہوتی ہے ۔ لہذا وہ اپنے اجتماعی مفادات یا سیاسی ایجنڈے کو سیاسی پارٹیوں کے پلیٹ فارم کے ذریعے نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ سِوِل سوسائٹی کی سطح پراُٹھاتے ہیں۔اس کے لیے وہ ایک سوشو پالیٹیکل آرگنائزیشن کے طرزپر یا مختلف پیشہ ورانہ انجمنوں کے ذریعے پریشر گروپ کے طرز پرکام کرتے ہیں۔ آج کی جمہوریت میں سول سوسائٹی کا یہ رول بہت اہم بن گیا ہے ۔ مسلم ملت کے اندر اس طرح کی سرگرمیاں تقریباً ناپید ہیں۔البتہ Solidarity کیرلا میں اس سمت میں تجربہ کر رہی ہے،(تحریک امین وانصاف) MPJ کا محدود تجربہ بھی مفید ہے ۔ UMF یونائیٹڈ ملی فورم کاتجربہ جھارکھنڈ میں محدود نوعیت کا ہے، جس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مسلم قوم اپنے ملی مفادات کے لیے کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا سہارا لینے کی عادی بن چکی ہے ان کی یہ سیاسی عادت مجبوری بن گئی ہے آج سولھویں پارلیمانی الیکشن کے نتیجے میں جو پارٹی بر سر اقتدار ہے اور جو شخص اس پارٹی کا سربراہ ہے،اس کو دیکھ کر وہ اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کر رہے ہیںاور اسی لیے ان کے اندر ایک تشویش اور اضطراب پایا جاتاہے ۔حکمراں گروہ کی سیاسی بیان بازی میں جو خوش نما الفاظ اب استعمال ہو رہے ہیں ،اُن کی تہہ داری کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ملت کے بعض افراد دلِ ناداں کو بہلاتے بھی ہیں۔ مسلم سماج کے پڑھے لکھے لوگ تک کسی پارٹی کے ایجنڈے، اس کے لیڈر کی زبان،ورکروں کا رویہ، پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان، کیبی نیٹ منسٹر اور وزیر اعظم کے اظہار خیال کے فرق کو نہیں سمجھتے اور اسی لیے اُن کی مختلف رنگ کی بولیوں کی تعبیر کرنے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ مسلمان حکمراں گروہ کی خوش نما بیان بازیوں سے اپنے دلوں کو بہلانے کے عادی ہو چکے ہیں،وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہی خوش نما جھوٹے بول اقوامِ غالب کی جادو گری کا ایک حصہ ہیں۔بہر حال یہ تشویش اور اضطراب اس پہلو سے تو صحیح ہے کہ جو لوگ اس وقت اقتدار میں آئے ہیں ان کا ایجنڈا سب کو معلوم ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات اب چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ عالمی صورت حال 9/11 کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک امتحان بن گئی ہے۔ ساوتھ ، ویسٹ ایشیا اورعرب ممالک، بلکہ سارا عالم اسلام ایک انتہائی آزمائشی اور نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ملک کے اندر سماجی انصاف کی جو قوت تھی،ہندستانی عوام میں سنگھرش کی جو عوامی روایت تھی وہ کمزور پڑ گئی ہے۔ فاسشٹ قوتیں جن کو اپنا حریف سمجھتی ہیں۔اُن میں لیفٹ اس ملک میں پہلے ہی کمزورہوچکاہے۔ عالمی کریشچن ورلڈ کے پیش نظر فاسشٹ قوتوں کا پہلا نشانہ اب کریسچن نہیں رہے ۔ سیاسی سطح پران کے درمیان نئی مفاہمت کی راہیں نکل سکتی ہیں،گووا کی مثال سامنے ہے ۔ مسلم قوم ہی فرقہ پرست قوتوں کے اصل نشانے پر ہے۔ اس پہلو سے مسلمانوں کا اضطراب اور پریشانی کچھ بیجا نہیں ہے۔
لیکن سکے کا دوسرا رخ بھی ہے، بی۔جے۔پی۔ 31% ووٹ کے ذریعے اقتدار تک پہنچی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سماج کا ایک بڑاحصہ بہر حال ان کا ہم نوا نہیں ہے۔ حکومت میں ہر جگہ ایسے لوگ موجود ہیں جو فاشزم کو اقلیتی فرقے اور ملک دونوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ جمہوریت کی روایت یہاں پختہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جمہوری ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔نیشن اسٹیٹ بھی عالمی قوت کے آگے کمزور ہواہے۔ قوت کے ذیلی مراکز اب پنچایت تک پھیل چکے ہیں۔ اور یہ ملک بھی ایک وسیع و عریض ملک ہے۔ اٹلی اور جرمنی کی طرح چھوٹا نہیں ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں ،اگر وہ دوسروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے توکل علی اللہ کی بنیاد پر اپنے آپ پر بھروسہ کرنا سیکھیںاور صحیح سمت سفر میں اقدامات کریں تو سولھویں انتخاب کانتیجہ اور اس سے پیدا ہونے والا مسلمانوں کااحساس بے وقعتی ملک و ملت کے ایک نئے اور روشن باب کا دیباچہ بھی بن سکتا ہے:
کانپتا ہے دِل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو ،بحر تو،کشتی بھی تو ساحل بھی تو
مشمولہ: شمارہ اگست 2014