خاندانی زندگی میں بکھراؤ: اسباب اور علاج

انسانی سماج کی پہلی اور بنیادی اکائی خاندان ہے۔خاندانوں کے مجموعے سے سماج وجود میں آتا ہے۔ ایک مہذّب اورپُرامن سماج کی تشکیل مضبوط، متّحد اور خوش حال خاندانوں پر منحصر ہوتی ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج خاندانی نظام تناؤ،بداعتمادی، بے سکونی اور بکھراؤ جیسے مسائل کا شکار ہے۔

خاندان مرد اور عورت کے درمیان رشتۂ نکاح سے وجود میں آتا ہے۔ اگرچہ اب بڑی تعداد میں ایسے لوگ بھی پائے جانے لگے ہیں جو نکاح کی ضرورت کا نکار کرتے ہیں اور مختلف اسباب سےمرداور عورت کے لیےبغیر نکاح کے ساتھ رہنے(live-in relationship)کوبہتر قرار دیتے ہیں، لیکن سماج کی اکثریت اب بھی نکاح کی قائل ہے۔  نکاح کے نتیجے میں زوجین کے درمیان قریبی تعلقات قائم ہوجانا فطری ہے۔ دونوں کے درمیان محبت و مودّت پائی جانی چاہیے اور انھیں ایک جان دو قالب ہوجانا چاہیے۔ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ زوجین کے تعلقات میں گرم جوشی باقی نہیں رہی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی انا کا اسیر ہے اورپوری آزادی سے ساتھ اپنی ذاتی زندگی جینا چاہتا ہے۔نکاح کا تحفہ اولاد کی شکل میں حاصل ہوتاہے۔ ان سے گھر کی رونق قائم رہتی ہے۔والدین اور اولاد کے درمیان مضبوط روابط استوار ہونا فطری ہے، لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ یہ مقدّس رشتہ بھی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور اولاد اپنے والدین سے بے پروا ہورہی ہے۔  خاندان کی مضبوطی اور استحکام میں رشتے دار اہم کردار سر انجام دیتے ہیں۔لیکن اب یک خلوی (unicellular) خاندان کے تصور نے وسیع اور مشترکہ خاندان کے تصوّر کو بری طرح مجروح کیا ہے اور یہ ادارہ شکست و ریخت سے دو چار ہے۔

اسلام نے نظام  خاندان کو خاص اہمیت دی ہے۔ اس نے خاندان کے ہر فرد کے حقوق و فرائض متعین کیے ہیں۔ وہ خاندان کو پھلتا پھولتا اور اس کے افراد کو باہم شیر و شکر دیکھنا چاہتا ہے۔  اس کے نزدیک خاندان کا بکھراؤ ایک بڑی اور مہلک سماجی برائی ہے، جس کا جلد از جلد علاج کرنے کی ضرورت ہے۔

اس مضمون میں خاندانی زندگی میں بکھراؤ کے مظاہر پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد اس کے اسباب بیان کیے گئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کا حل تجویز کیا گیا ہے۔

خاندانی بکھراؤ کے مظاہر

خاندانی زندگی میں انتشار کتنا شدید ہے اور اس کے تانے بانے کتنی بری طرح بکھر رہے ہیں ؟اس کا اندازہ درج ذیل مظاہر سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے:

زوجین کے درمیان تنازعات

ازدواجی زندگی کی رونق زوجین کے باہم پیار و محبت اور الفت و مودّت کے دم پر قائم ہوتی ہے، لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ اب ان کےدرمیان تنازعات ایک عام اور معمول کی بات ہوگئی ہے۔ تعلیم یافتہ جوڑا ہو یا جاہل، ملازمت اور تجارت پیشہ ہو یا نہ ہو، اعلیٰ سماجی حیثیت(Status) کا مالک ہو یا کم تر حیثیت کا، مال دار ہو یا غریب، ان کے درمیان تنازعات آسانی سے راہ پالیتے ہیں اور بسا اوقات سنگین صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

میرے پاس ایک خاتون آئیں اور انھوں نے اپنا دکھڑا سنایا۔  ان کے مطابق وہ ملازمت پیشہ ہیں اور ان کے شوہر کا اپنا کاروبار ہے۔ نکاح کو دو برس ہوئے ہیں۔  اس عرصے میں ان کے تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے کہ دونوں ایک دوسرے سے بات تک کرنے کے روادار نہیں۔ عورت کھانا پکاکر اپنی ملازمت پر چلی جاتی ہے۔ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے دونوں الگ الگ کمروں میں اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں۔

ابھی چند دن قبل ایک معصوم سی لڑکی آئی۔ اس نے بتایا کہ وہ L.L.B. اورL.L.M. کرچکی ہے اور اب Ph.D. میں داخلہ ہوا ہے۔ یہی تعلیم اس کے شوہر کی بھی ہے۔ دوران  تعلیم دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے، یہاں تک کہ نکاح کے عہد و پیمان ہوگئے۔ نکاح کو ابھی تین ماہ ہوا ہے، لیکن اس عرصے میں ان کے درمیان اتنے تنازعات ہوگئے ہیں کہ لڑکی نے شوہر کا گھر چھوڑ کر اپنی ایک سہیلی کے گھر پناہ لے رکھی ہے۔

ایک صاحب نے بتایا کہ ان کی ازدواجی زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ میاں بیوی دونوں ملازمت کررہے تھے۔کورونا کے زمانے میں ان کی ملازمت چھوٹ گئی، جب کہ بیوی کی ملازمت جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بیوی نے گھر کے باہر کا کام سنبھالا اور انھوں نے اندرون  خانہ تمام کام( گھر کی صفائی کرنا،کھانا پکانا، کپڑے دھونا، بچے کھلانا وغیرہ ) سنبھالے۔  دھیرے دھیرے ان کی حیثیت گھریلو ملازم کی، بلکہ اس سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ اس صورت حال نے تنازعات پیدا کیے اور اب وہ میاں بیوی ہوتے ہوئے الگ الگ زندگی گزار رہے ہیں۔

والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ

والدین بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ ان کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ انھیں دنیا کی آسائشیں فراہم کرتے ہیں۔ انھیں اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر ان پر خرچ کرتے ہیں۔ اس لیے بجا طور پر انھیں امید ہوتی ہے کہ اولاد ان کے بڑھاپے میں سہارا بنے گی اور اسی طرح ان کا خیال رکھے گی جیسے وہ ان کے بچپن کا سہارا بنے تھے۔  لیکن اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ اولاد بڑی ہوکر اپنے والدین سے لاتعلّقی کا اظہار کر رہی ہے۔ ان کے درمیان گہری خلیج حائل ہوجاتی ہے۔ اولاد اپنی دنیا میں مگن رہتی ہے اور والدین کی خیریت پوچھنے کی بھی روادار نہیں رہتی۔

ایک صاحب میرے دفتر تشریف لائے اور کہنے لگے: میری دو لڑکیاں ہیں۔  میں چاہتا ہوں کہ اپنی پوری جائیداد ان کے درمیان تقسیم کردوں، لیکن یہ بھی چاہتا ہوں کہ اس کا قبضہ اپنے پاس ہی رکھوں۔  میں نے عرض کیا: جب تک پراپرٹی پر دوسرے کا قبضہ نہ ہوجائے اس وقت تک ہبہ(gift) مکمل نہیں ہوتا۔ تب کھلے کہ ایک بیٹی بہت تیز ہے۔  جو پیسے لیتی ہے اسے من مانے طور پر اڑا دیتی ہے۔پوچھوں کہ کہاں خرچ کیا تو بہت زیادہ خفا ہوجاتی ہے اور الٹی سیدھی باتیں کہنے لگتی ہے۔

علی گڑھ میں میرےایک شناسا بزرگ تھے۔ان کے کئی بچے تھے۔  سب ساتھ میں رہتے تھے۔وہ بزرگ اپنے بچوں کی دین سے دوٗری پر بہت پریشان رہتے تھے۔ کہتے تھے : میں اپنے گھر میں بچوں کے درمیان اجنبی بن کر رہ گیا ہوں۔ یہ بچے یہ تک بتانے کے روادار نہیں رہتے کہ کہاں جا رہے ہیں؟ اور کب تک واپس آئیں گے ؟ ان کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں؟ مجھے کچھ نہیں معلوم۔

 بوڑھوں کا بے سہارا ہونا

موجودہ دور میں old-age homes کا تصوّر بہت خوش نما معلوم ہوتا ہے۔ان میں بوڑھوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں،بسا اوقات ایسی سہولیات بھی جو اچھی فیملی والوں کے گھروں میں بھی فراہم نہیں ہوتیں، لیکن ان کے پیچھے وہاں کے مکینوں کاجو درد چھپا ہوتا ہے اس کا کچھ اندازہ کسی اولڈ ایج ہوم کی وزٹ کرکے کیا جا سکتا ہے۔ والدین کی حیثیت محض ’ٹیشو پیپر‘ کی سی ہوجاتی ہے، جنھیں استعمال کرنے کے بعد کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ کسی اولاد کے دل میں محبت جاگی تو وہ تہوار کے موقع پر چند لمحات کے لیے اولڈ ایج ہوم جاکر اپنے والدین سے ملاقات کرکے مٹھائی کا ایک ڈبّہ پیش کرنا کافی سمجھتا ہے، ورنہ بہت سے لوگ تو اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ اولڈ ایج ہوم سے جب ان کے ماں یا باپ کے انتقال کی خبر جاتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ ہوم انتظامیہ کی جانب سے کفن دفن کا انتظام کرکے انھیں بل بھیج دیا جائے وہ آن لائن پے منٹ کردیں گے۔

 بچوں کی بے راہ روی اورارتکاب  جرائم کی ذہنیت

بچوں کے آزاد ہوجانے اور خاندان کے بزرگوں کی سرپرستی سے محروم ہوجانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرائم کی جانب ان کا میلان بڑھا اور وہ آوارہ گردی کرنے لگے۔ لڑائی جھگڑے، مارپیٹ، لوٹ کھسوٹ، یہاں تک کہ قتل و غارت گری کے جتنے واقعات پیش آتے ہیں ان کی تفصیل میں جائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے وہی نوجوان ہوتے ہیں جو اپنے گھروں کے بڑوں کی سرپرستی سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کے دن اور رات کے زیادہ اوقات بے راہ روی اور آوارہ گردی میں گزرتے ہیں۔

مشترکہ خاندان کا خاتمہ

مشترکہ خاندان کے بعض فائدے ہیں تو بعض نقصانات بھی ہیں۔اگر کوشش کی جائے تو نقصانات سے بچتے ہوئے فائدے اٹھائے جاسکتےہیں۔ مشترکہ خاندان کے فائدے یہ ہیں کہ ایک باپ کی کئی اولادیں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ یک جا رہتی ہیں تو انھیں ایک دوسرے کا سپورٹ حاصل رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں۔  کوئی معاشی طور پر کم زور یا بے سہارا ہو توخاندان کے دوسرے افراد کے تعاون سے وہ بہ آسانی بغیر کسی خاص پریشانی کے زندگی گزار لیتا ہے۔  ایک مختصر اور علیٰحدہ خاندان ان فوائد سے محروم رہتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مختلف اسباب سے لوگ علیٰحدہ خاندان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ اس بنا پر ان کے شب و روز اجنبیت کے ماحول میں گزرتے ہیں۔

بکھراؤ کے اسباب

خاندان کے انتشار کے واقعات پر غور کیا جائے اور ان کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے درج ذیل اسباب معلوم ہوتے ہیں:

مادیت کا غلبہ

خاندان کے بکھراؤ کا بنیادی سبب موجودہ دور میں مادیت کا غلبہ ہے۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرلینے، اونچا اسٹیٹس (Status)مینٹین کرنے اور اپنے لیے آسائشیں فراہم کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ہر طرف سے ھل من مزید کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ مہنگائی نے اوسط آمدنی والوں کی کمر توڑ دی ہے۔ مادّیت پرستی کے رجحان نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ رشتوں کو مالی حیثیت سے تولا جا رہا ہے۔ کسب  معاش کی مصروفیت نے رشتے داروں کی خبرگیری اور کے ساتھ حسن سلوک کا موقع ہی نہیں چھوڑا ہے۔

انا اور خود غرضی

خود غرضی خاندان کے بکھراؤ کا دوسرا بنیادی سبب ہے۔ ہر شخص اپنی ذات میں مگن اور اپنی انا کا قیدی ہے۔ اسے صرف اپنی بھلائی کی فکر ہے۔  دوسروں کو فائدہ ہو یا نقصان، اس کی مطلق پروا نہیں۔ قریب ترین رشتے داروں سے بھی بے توجہی برتی جاتی ہے۔

 برداشت اور سننے کی صلاحیت کا فقدان

خاندان میں بڑوں کے احترام اور چھوٹوں کی خبرگیری کی روایت قائم تھی۔ چھوٹے بڑوں سے ادب سیکھتے تھے۔  بڑے ان کی نگرانی کرتے تھے۔اگران سے کوئی ناشائستہ حرکت سرزد ہوجاتی تو انھیں ٹوکتے، ان کی سرزنش کرتے اور بسا اوقات انھیں سزا دیتے۔  چھوٹے ان چیزوں پر چیں نہ بولتے، بلکہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے۔  یہی معاملہ زوجین کے درمیان ہوتا تھا۔ بیوی شوہر کو اپنا سرپرست اور نگراں مانتی اور اس کی اطاعت میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ بہو اپنی ساس اور سسر کا حد درجہ احترام کرتی تھی اور ان کی روک ٹوک کا بُرا نہیں مانتی تھی۔ لیکن اب نئی نسل میں برداشت کرنےاور سننے کی قوّت بہت کم بلکہ ختم ہوگئی ہے۔ کوئی روک ٹوک کرے تو اس کی بات نہ ماننے اور پلٹ کر جواب دینے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔

دینی شعور کی کمی

دینی شعور کی کمی بھی خاندانی انتشار کا ایک سبب ہے۔اسلام میں اہل  خاندان کے حقوق اور فرائض تفصیل سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہر ایک کی ذمے داریوں کی تعیین کردی گئی ہے۔ والدین، رشتے داروں اور دوسرے اہلِ تعلّق کے ساتھ حسن  سلوک کو باعث  اجر عمل قراردیاگیا ہے۔ صلہ ر حمی پر جنّت کی خوش خبری اور قطع رحمی پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ ایثار، تعاون، ہم دردی،محبت، شفقت،مہمان نوازی وغیرہ کو اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن دینی شعور کی کمی نے لوگوں کوان بنیادی قدروں سے کوسوں دور کردیا ہے۔ اب اہل خاندان سے معاملہ کرنے میں ان چیزوں کا خیال بھی نہیں آتا۔

مشترکہ وقت نہ گزارنا

اہل  خاندان کو جوڑے رکھنے والی چیز ان کا میل جول،ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بات چیت کرنا اور وقت گزارنا ہوتا تھا۔ لیکن اب کسی کو ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارنے کی فرصت نہیں ہے۔ اگر گھر میں صرف میاں بیوی ہیں تو بھی انھیں مشترکہ وقت گزارنے کا موقع نہیں، اس لیے کہ دونوں ملازمت پیشہ ہیں۔ دونوں کے گھر سے باہر جانے اور واپس آنے کے اوقات الگ الگ ہیں۔بیوی جیسے تیسے کھانا پکا کر چلی جاتی ہے، لیکن دسترخوان پر انھیں ساتھ بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ دونوں کام سےواپس آتے ہیں تو اتنے تھکے ہوتے ہیں کہ چپ چاپ بستر  استراحت پر پہنچ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

سوشل میڈیا کا غلبہ

سوشل میڈیا نے آج کل تمام انسانوں کو تنہائی پسند بنا دیا ہے۔ وہ موبائل کے ذریعے سارے جہاں سے جڑے رہتے ہیں، لیکن اپنے جہاں کی انھیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اگر گھر میں پانچ افراد ایک جگہ بیٹھے ہیں تو بھی انھیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی، ہر ایک اپنی دنیا میں مست رہتا ہے۔ بچے موبائل چلا رہے ہیں، ماں نے کوئی کام کرنے کو کہہ دیا تو انھیں اتنا برا لگتا ہے کہ کوئی حد نہیں۔  وہ کام کرنے سے صاف منع کردیتے ہیں۔

 اولاد کی تربیت کی کمی

والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ابتدا ہی سےاپنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں، انھیں اچھے اخلاق سکھائیں اور انھیں ذمے دار اور مہذّب شہری بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن وقت کی کمی نے والدین کے لیے اس کا موقع ہی نہیں چھوڑا ہے۔ جب بچے بہت چھوٹے ہوں تو انّاؤں اور خادماؤں کے حوالے ہوتے ہیں اور جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں۔ ان کی پرورش خودرَو پودوں کے مثل ہوتی ہے، چناں چہ بڑے ہوکر وہ سماج کے لیے وبال  جان بن جاتے ہیں۔

اسلامی حل اور راہ نمائی

اسلام پُر امن اور ہم درد سماج قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ خوش گوار خاندان و جود میں آئے، جس کے افراد ایک دوسرے سے محبّت کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں اوران کے درمیان مضبوط تعلّقات استوار ہوں۔ خاندان کے استحکام اور استقرار کے لیے اس نے جو ہدایات دی ہیں انھیں درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے:

حقوق و فرائض کا شعور

اسلام نے خاندان کے تمام افراد کو حقوق اور فرائض کا پابند بنایا ہے۔عورتوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْھِنَّ بِالمَعْرُوْفِ (البقرة:۲۲۸)

’’ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔‘‘

عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض ہیں اور مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض ہیں۔ شوہر کے حقوق بیوی کے فرائض ہیں اور بیوی کے حقوق شوہر کے فرائض ہیں۔ اولاد کے حقوق والدین کے فرائض ہیں اور والدین کے حقوق اولاد کے فرائض ہیں۔ بہو کے حقوق ساس سسر اور سسرالیوں کے فرائض ہیں اور سسرالیوں کے حقوق بہو کے فرائض ہیں۔ اسلام حقوق کو حاصل کرنے کا نہیں بلکہ انھیں ادا کرنے کا تصوّر دیتا ہے۔  اگر ہر ایک کی توجہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف رہے تو کسی کو اپنا حق طلب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک

اسلام نے صلہ رحمی پر بہت زور دیا ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ سورۂ النساء کی پہلی آیت، جو خطبۂ نکاح میں شامل ہے اور ہر تقریب  نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے، اس میں ہے:

وَ اتَّقُوْا اللہَ الَّذِی تَسَآءَلُوْنَ بِہ وَ الاَرْحَامَ ( النساء:۱)

’’اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتۂ و قرابت کے تعلّقاتکو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘

قرآن مجید میں جہاں والدین کے ساتھ حسن  سلوک کی تاکید کی گئی ہے وہیں رشتے داروں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور انھیں بھی اچھے برتاؤ کا مستحق قرار دیا گیا ہے:

وَ بِالوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً وَّ بِذِی القُرْبیٰ (الالنساء:۳۶)

’’ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور اور رشتے داروں سے ساتھ حسن  سلوک سے پیش آؤ۔‘‘

 اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا

ضروری ہے کہ اہل خاندان کے ساتھ اچھا وقت گزارا جائے، ان سے رابطہ رکھا جائے اوران سے خوش گوار تعلقات استوار کیےجائیں۔زوجین ایک دوسرے کے ساتھ جتنا زیادہ ممکن ہو وقت گزاریں، آپس میں خوش طبعی سے پیش آئیں، پیارو محبت کی باتیں کریں۔اس طرح بھی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی اور دلوں میں پیدا معمولی کدورتیں دور ہوجاتی ہیں۔

اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

خیرکم خیرکم لأھلہ، و أنا خیرکم لأھلی (الترمذی:۳۸۹۵)

’’ تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں اور میں اپنے گھر والوں سے تعلقات کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘

آپؐ کا معمول تھا کہ روزانہ تمام ازواج مطہرات کے ساتھ کچھ وقت گزارتے تھے، پھر جس کی باری ہوتی اس کے یہاں شب باشی کے لیے چلے جاتے تھے۔

صبراور عفو و درگزر

خاندان کے استحکام میں عفو و درگزر کی بڑی اہمیت ہے۔  ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہوجانا اور تعلقات توڑ لینا مناسب نہیں۔ اہل  خاندان میں کسی کی جانب سے کوئی اذیت پہنچے یا کوئی بات بُری لگے تو صبر کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی ایک اآیت سے اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓأَیهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ مِنْ أَزْوَٰجِكُمْ وَأَوْلَٰدِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَٱحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُواْ وَتَصْفَحُواْ وَتَغْفِرُواْ  فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ( التغابن:۱۴)

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے جوڑوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔  اور اگر تم معاف کردو، درگزر سے کام لو اوربخش دو تو اللہ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اس آیت میں بیوی، شوہر اور اولاد کے دین کے راستے میں مزاحم بننے پر ہوشیار رہنے کی تاکید تو کی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی تین مرتبہ الگ الگ تعبیرات سے معاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

باہم مشورہ کرکے کوئی کام کرنا

خانگی معاملات میں افراد  خانہ کو شریک مشورہ کرنا ان کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔  خاص طور سے شوہر کوبیوی پر صرف حکم چلانا اور اس سے اطاعت کا مطالبہ کرنا زیب نہیں دیتا، بلکہ اس سے گھر کے چھوٹے بڑے معاملات میں مشورہ کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ یہی سکھاتا ہے۔آپ ازواج  مطہرات سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع کا واقعہ بہت مشہور ہے۔اس موقع پر آپؐ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓسے مشورہ کیا تھا، پھر ان کے مشورے پر عمل کیا تھا، جس سے بہت بڑی الجھن رفع ہوگئی تھی۔

نکاح سے قبل کونسلنگ

موجودہ دور میں کونسلنگ کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ کونسلنگ باقاعدہ ایک فن بن گیا ہے۔ خاندان میں استحکام اور مضبوطی لانے کے لیے اس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جمع کیا جائے، ان کے سامنے وہ امور و مسائل بیان کیے جائیں جن کا ازدواجی زندگی کے بعد انھیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ نکاح کے مقاصد کیا ہیں ؟ شریعت میں زوجین کے کیا حقوق اور فرائض بیان کیے گئے ہیں؟ خاندان کی خوش گواری کے لیے زوجین میں سے ہر ایک کو کن امور کا خیال رکھنا چاہیے؟ اگر تنازعات سر ابھارنے لگیں تو ان کے ازالے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے ؟ان موضوعات پر شرعی،قانونی اور نفسیاتی اعتبارات سے لیکچر کا اہتمام کرنا چاہیے۔

 خاندانی تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر

اگر افراد  خاندان کے درمیان شکایات پیدا ہونے لگیں تو قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے متعلقہ افراد خود انھیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر باوجود کوشش کے کام یاب نہ ہوں تو خاندان کے دوسرے افراد اپنا تعاون پیش کریں اور مل جل کر اختلافات کو دور کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَینِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ یرِیدَا إِصْلَاحًا یوَفِّقِ اللَّهُ بَینَهُمَاإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِیمًا خَبِیرًا(النساء:۳۵)

’’اگر تم لوگوں کو میاں بیوی کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتے داروں میں سے اور ایک حَکَم عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کردو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔‘‘

قرآن کہتا ہے کہ اختلافات کو باقی رکھنا اور ان کی وجہ سے رشتوں کو منقطع کرنے کی بات سوچنا دانش مندی نہیں ہے، بلکہ فریقین کو ہر حال میں صلح کی کوشش کرنی چاہیے :

وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاوَ الصُّلْحُ خَیْرٌ(النساء:۱۲۸)

’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضایقہ نہیں اگر میاں بیوی(کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں۔‘‘

خاندان پر توجہ دینا ضروری ہے

خاندانی نظام کا استحکام ہی فرد، خاندان اور سماج کی خوش حالی کا ضامن ہے۔ جب دین داری، محبت، اخلاق، ایثار وقربانی اور صبر پر خاندانی زندگی کی بنیاد ہو تو اس میں بکھراؤ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسلام نے ہمیں ایک مکمل خاندانی نظام دیا ہے، جس پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنے خاندان میں رشتوں، محبتوں اور مسرتوں کو بچا سکتے ہیں، بلکہ اسی راستے پر اور آگے بڑھ کر ایک صالح معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2025

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223