سائنس، مذہب اور سماج کی مثلث میں سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقی اقدار ایک جدید بحث ہے۔ اس اعتبار سے کہ اس سے قبل کبھی کسی فلسفی یا سائنس داں نے اخلاقی اقدار و عقائد کے لیے فلسفے اور سائنس کو بحیثیت ماخذ پیش نہیں کیا۔ حالاں کہ اس ضمن میں ابتدائی اشارے برٹرینڈرسل اور تھامس کہن کے یہاں ملتے ہیں اور بعض دیگر محققین کا نام بھی لیا جاسکتا ہے لیکن اتنے دوٹوک انداز میں سائنس اور سائنسی طریقہ کار سے حاصل معلومات کو اخلاقیاعتقادی اقدار کے ماخذ کے طور پر دیکھنے اور منوانے کی کوشش بالکل نئی ہے۔ اس کا سہرا عام طور پر سام ہیرس کے سر جاتا ہے۔ ان کی کتاب The Moral Landscape آج سے ایک دہائی قبل شائع ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے اس بات کو شدومد سے پیش کیا کہ سائنس کو بحیثیت ماخذ اخلاقی اقدار و عقائد دیکھنا چاہیے۔ قبل اس کے ہم اس دعوے کی تفصیل میں جائیں یہ سمجھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ سائنس، مذہب اور سماج کے بڑے بیانیے میں اس اہم زاویے کا ارتقا کیسے ہوا۔
سائنس اورفلسفہ کی تقسیم کے بعد (جسے اب بتدریج ماضی کی غلطی کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے) سائنس اور سائنٹزم کی بنیاد پر الحاد نے زور پکڑا۔ ابتداءً سائنس کو معلومات کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھا گیا۔ پھر اس کا ارتقا معلومات کے حقیقی ذریعے کے طور پر ہونے لگا۔ دھیرے دھیرے مذہب اور سائنس اور ان میں اختلافات کے بیانیے وجود میں آئے۔ پھر یہ رجحان جڑ پکڑنے لگا کہ سائنس بہت سارے ابدی سوالات کا جواب دے سکتی ہے اور اس کے لیے مذہبی کتابوں کی طرف دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر بالآخر سائنٹزم کے زیر اثر یہ کہا جانے لگا کہ حقیقی ذریعہ علم صرف طبعی سائنس کے اصولوں پر تشکیل پاسکتا ہے۔ اس لیے عقائد، قدریں اور اخلاقیات سب کو سائنس کے تابع ہونا چاہیے۔ بالکل اسی طرز پر سیکولرزم کو دیکھنا ضروری ہے کیوں کہ سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات کے بیانیے میں سیکولرزم کا زاویہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ سیکولرزم کی بالکل ابتدائی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ فلسفہ ابتداءً مذہب کی کلیۃً نفی پر مبنی تھا، بعد کے ادوار میں یہ تصور تحلیل ہونے لگا۔ پہلے مذہب کی کامل نفی کی بات کہی گئی۔ پھر جب یہ ثابت ہوگیا کہ سیکولرزم سے اخلاق اقدار حاصل نہیں کیے جاسکتے تو مذہب کو اخلاق و اقدار کے ماخذ تک محدود کردیا گیا۔ اس پر بات نہیں بنی تو یہ کہا گیا کہ مذہب اخلاق و اقدار کے ساتھ ‘‘ذاتی’’ رہے تو اچھا ہے۔ پھر جب سماجی سطح پر بالعموم اس کی پابندی نہ کی جاسکی تو یہ کہا گیا کہ معیشت اور سیاست و دیگر معاملات میں سائنسی طریقہ کار سے حاصل شدہ علم جو معلومات (ڈیٹا) اور استخراج و استنباط پر مبنی ہو وہ حرف آخر ہوگا۔ سیکولرزم اور سائنٹزم کے اس تعامل کی روشنی میں آپ اس دعوے کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات دراصل سیکولرزم کے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے جو اس کے اخلاق و اقدار و عقائد سے متعلق بیانیے میں پایا جاتا ہے۔ چوں کہ سیکولر بیانیے میں سب سےبڑی مشکل اخلاقی اقدار اور عقائد کے حوالے سے در آتی ہے کہ اخلاق، اقدار، اعتقادی نظام اگر مذہب سے نہیں تو پھر کن مآخذ سے حاصل کیے جائیں ؟ چناں چہ اگر سائنسی بنیادوں پر اخلاقی اقدار و عقائد اخذ کیے جاسکیں تو سیکولرزم کا مذہب کے رد کا پروجیکٹ مکمل ہوجائے گا۔ اس ضمن میں سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات ایک غیرمعمولی کاوش کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
سام ہیرس کی اس مشہور کتاب نے عیسائی امریکہ میں غیرمعمولی ہلچل مچائی ہے۔ نسبتاً ملحد یوروپ میں اسے یہ پذیرائی نہیں حاصل ہوئی کیوں کہ اس کا ماننا ہے کہ سام ہیرس کوئی نئی بات نہیں پیش کر رہے، بلکہ سیکولرفلسفہ کے ایک زوایے ہی کو سامنے لارہے ہیں۔
قارئین کی دل چسپی کے لیے یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سام ہیرس جدید الحاد کے بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ اصلاً وہ عصبیاتی سائنس کے ماہر ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عصبیاتی سائنس پر مبنی ‘‘عصبیاتی ٹکنالوجی’’ (جس کا تذکرہ پچھلے مضمون میں آچکا) اس بات کا ثبوت دے رہی ہے کہ اخلاقی اقدار کی عصبیاتی لچک (neuroplasticity) کی بنیاد پر تشریح کی جاسکتی ہے۔ یعنی انسان جب بچہ ہوتا ہے تو اسے اچھائی اور برائی کے لیےکنڈیشن کیا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر عصبیاتی شبکے (neuronal networks)اس طرح تشکیل پاتے ہیں جو اچھائی اور برائی کا منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں۔ چناں چہ اچھائی یا برائی ایک طویل عرصے کی نیوروپلاسٹک کنڈیشننگ کا نتیجہ ہے جسے مذہبی رنگ دیا گیا ہے۔
اسی طرز پر وہ انسانی فلاح و بہبود اور دیگر مثبت رویوں کی تشریح و تعبیر نیوروٹکنالوجی میں ہورہے حیران کن انکشافات کی بنیاد پر کرتے نظر آتے ہیں۔ سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات میں مرکزی نکتہ بالاصل مذہب مخالف ہے۔ لیکن ابھی اس کا اظہار اس دعوی کے حاملین نہیں کر رہے ہیں۔ سام ہیرس جیسے کٹر مذہب مخالف بھی کہتے ہیں کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ سائنس ہر اخلاقی قدرکی عصبیاتی توجیہ کردے گی۔ یا ارادہ و اختیار کے ہر پہلو کا فیصلہ عصبیاتی سائنس کے انکشافات کی بنیاد پر ہوگا، بلکہ ان کا کہنا صرف یہ ہے کہ سائنس کو بحیثیت ماخذ اخلاقیات کیوں نہیں مانا جاسکتا۔
اس ضمن میں اس دعوے کے قائلین دل چسپ متوازیت پیش کرتے ہیں۔ مثلاً:
مذہب | سائنس |
مذہب میں بھی اضافیت ہے۔ | سائنس میں اضافیت ہے۔ |
سائنسی انکشافات کی مختلف تعبیریں اور تشریح کی جاسکتی ہے۔ | مذہب کی تعبیر و تشریح بھی غیرمعمولی طور پر مختلف ہے۔ مثلاً سعودی اسلام اور ترکی اسلام (اسلام بشمول کلچر و دیگر) عیسائیت میں اختلاف۔ |
مذہب میں بھی یہی معاملہ ہے۔ کچھ اقدار پہلے تھیں اب نہیں ہیں۔ بعض اقدار وقت اور حالات کے اعتبار سے بدل جاتی ہیں۔ مثلاً قتل کے بدلے قتل (قتل ایک منفی قدر مانی جاتی ہے)۔ | سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات میں بھی اخلاقی اقدار ارتقا پذیر اور متغیر ہوں گی۔ |
حالاں کہ اس متوازیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور اس کے کماحقہ جوابات بھی آچکے ہیں۔ لیکن پھر بھی علمی حلقوں میں اس پر گفتگو جاری ہے۔ بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات کا مطلب کیا ہے۔ یعنی کن اخلاقی قدروں کو سائنسی بنیادوں پر اخذ کیاجائے گا۔ اس سوال کے جواب کو ایک بنیادی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً بائبل میں ایک جگہ بچوں کو سزا دینے کا حکم ہے۔
اب بچوں کو سزا کے لیے مذہبی جواز حاصل ہے، اور سزا دینے کی اس ‘‘قدر’’ کا ماخذ مذہب ہے، نیوروٹکنالوجی بتاتی ہے کہ سزا دینے کے عمل کے بعد عصبیاتی لچک تبدیل ہوتی ہے اور اس کا اثر بچے کے بہت سے عصبیاتی شبکوں پر پڑتا ہے۔ چناں چہ سزا کی وجہ سے اور، بنیاد خواہ کچھ ہو، عصبیاتی ماڈل کی بنیاد پر یہ ‘‘قدر’’ غلط ہے۔ بچوں کو کسی صورت جسمانی یا ذہنی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔
بالکل اسی طرز پر اسلام میں عورتوں کو ہلکی مار مارنے کے حکم کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ مار چاہے ہلکی ہو یا بھاری وہ عصبیاتی شبکوں کو متاثر کرتی ہے، اس لیے یہ ‘‘قدر’’ جو مذہب سے اخذ کی جاسکتی ہے کہ عورتوں کو مارا جاسکتا ہے، سائنسی اعتبار سے غلط قدر ہے کیوں کہ نیوروٹکنالوجی نے اس بات کو ثابت کیا ہے۔
سائنس کو اقدار کا ماخذ ماننے والے قدر اور شعائر دونوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہبی قدری کنڈیشننگ (religious values conditioning) دراصل نام نہاد ارادہ و اختیار کی ساری آزادی چھین لیتی ہے، اس لیے ارادہ و اختیار کی کسی اصل آزادی کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے مذہب کی سب سے اہم قدر یعنی ارادہ و اختیار کی آزادی نیورو سائنسی اعتبار سے بےبنیاد ٹھہرتی ہے، اسے ثابت کرنے کے لیے اس قدر کی بنیاد پر ہو رہے بہت سارے مظالم کا تذکرہ وہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اہانت مذہب کے تمام قوانین دراصل ارادہ و اختیار کی اسی قدر سے عبارت ہیں، یعنی کوئی شعوری طور پر ارادہ و اختیار کے ساتھ کسی مذہب کو اختیار کرتا ہے تو اس کو چھوڑنے کے گناہ میں اسے کیسے واجب القتل قرار دیا جاتا ہے، جب کہ اسے چھوڑنے میں بھی اس نے اسی ارادہ و اختیار کی آزادی کو استعمال کیا۔ عصبیاتی جینیاتی سائنس یہ بتاتی ہے کہ ارادہ و اختیار جیسی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ چناں چہ اگر سائنس بحیثیت ماخذ اخلاقیات ہوگی تو اس طرح کے مظالم کو بہ آسانی روکا جاسکے گا۔
اسی طرز پر جنگ و جدال کے جائز فیصلے کی توجیہ کے ضمن میں بحثیں ہیں۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذی شعور نوع یعنی انسان کی بہتری کے لیے سائنس کو ماخذ اخلاقیات ہونا چاہیے یہ اس فلسفہ کا آخری مقصد ہے۔ مثلاً عیسائی برتری کے لیے صلیبی جنگ، یا کسی اور مذہب کی بالادستی کے لیے جنگ و جدال، چاہے وہ حق کو غالب کرنے کے نام پر ہی کیوں نہ ہو۔ خالص سائنس کی رو سے جنگ بے سود ہے خواہ اس کے کتنے بھی فائدے گنوائے جائیں، خواہ وہ کسی بھی عظیم مقصد کے لیے لڑی جائے۔
اس نظریاتی جہت میں اخلاقی تشکیک (moral confusion) کا تذکرہ آجاتا ہے۔ اور اخلاقیات کا فلسفہ (moralistic philosophy) پر بھی طویل اور الجھن میں ڈالنے والی بحثیں ہیں۔ لیکن درج ذیل وجود سے سائنس ماخذ اخلاقیات نہیں ہوسکتی۔
۱۔ سائنس حتمیت کا دعوی نہیں کرتی۔ سائنس حتمیت یا اقتدار اعلیٰ کا دعوی نہیں کرتی وہ مختلف طبعی مظاہر اور دیگر کائناتی حقائق سے پردہ اٹھانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کانام ہے۔ اس لیے سائنس کو عام طور پر ‘‘سفر’’ کی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے، ‘‘منزل’’ کی حیثیت میں نہیں۔ حالاں کہ اب سائنٹزم کے دعوے دار اسے منزل کی حیثیت میں دیکھنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، لیکن بالعموم سائنس کے بنیادی فلسفہ میں اس کی حیثیت سفر کی ہی ہے۔
چناں چہ اس حتمیت کی غیرموجودگی میں اسے ماخذ اخلاقیات کے طور پر سمجھنا اصولی طور پر درست نہیں ہوسکتا۔
۲۔ سائنس اضافیت سے عبارت ہے۔ اضافیت سے عبارت ہونے کی وجہ سے ایک دوسری اصولی مشکل در آتی ہے۔ وہ یہ کہ قدریں آفاقی اور غیراضافی ہونی چاہئیں، تبھی وہ بحیثیت مجموعی انسانیت کے لیے سودمند ہوسکتی ہیں۔
اب چوں کہ سائنس بجائے خود اضافیت سے پُر ہے، اس لیے وہ ماخذ اخلاقیات کے سلسلے میں بھی اضافی ہوگی۔
لیکن اس نکتے پر سائنس کو ماخذ اخلاقیات ماننے والے یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ تمام تر مذاہب جو حتمیت اور غیراضافیت کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی تو اضافی اور غیرحتمی ہی ہیں۔ اور ان کے مذاہب کے ماننے والے پیروکار اپنے اپنے بیانیوں اور قدروں کی صداقت کے لیے ان مذاہب کی کتابوں سے مختلف تشریحات و تفسیر کے حوالے لے کر آتے ہیں۔ مثلاً متشدد عیسائی عیسائیت کے غلبہ کے لیے صلیبی جنگوں کو جائز سمجھتے ہیں۔ متشدد مسلمان (ان کی اصطلاح میں۔) حق کے غلبہ یا خلافت کے قیام کے لیے قوت اور جہاد کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہودی حضرات اپنی مذہبی پیش گوئیوں کو پورا کرنے کے لیے معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور ان سب قدروں کے لیے وہ اپنی مذہبی کتابوں سے جواز نکال کر لاتے ہیں۔ یہ بھی تو اضافیت کی سب سے بہترین مثالیں ہیں۔ تو مذہب اور اس کی کتاب کی تشریح و توضیح بھی اضافی اور سائنس بھی اضافی تو دونوں اضافی کاوشوں میں سائنس زیادہ بہتر نظر آتی ہے کیوں کہ ذی شعور نوع کی فلاح و بہبود و برتری کے لیے یہ قدر سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ‘‘جنگ’’ یا ‘‘ٹکراؤ’’ یا تہذیبی برتری کے لیے ‘‘شعوری کوششیں ’’ نہ ہوں۔
لیکن یہ محض خام خیالی ہے۔ بیک نظر بہت خوش نما اور قابل قبول نظر آنے والی اس دلیل میں سب سے کم زور پہلو انسانی تاریخ میں تواتر سے ‘‘قوت’’ اور ‘‘توازن’’ کےparadigm سے ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سائنس کے سب سے سنہرے دور میں جب کہ سیکولرزم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا (اور غالباً اب بھی ہے) اور جب کہ سائنس اب اپنے سنہرے دور میں ہے تب بھی وہ انسان کو اس بات پر مطمئن نہیں کر پائی کہ ‘‘قوت’’ کا استعمال اچھی چیز نہیں ہے۔ قوتی مساواتیں (power equations) ہر جگہ موجود ہیں۔ ہمارے داخل میں، ہمارےخارج میں، دو انسانوں کے بیچ رشتوں کے حوالے سے، سماج میں، سماج اور اس کے اداروں کے حوالوں سے، کائنات میں، الیکٹران سے لے کر کہکشاؤں کے حوالے سے، ہرجگہ۔ چناں چہ قوت کے استعمال کی قدر میں مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس کے کہاں، کب اور کیسے استعمال میں ہے۔
۳۔ سائنس تغیر پذیری کی صفت سے عبارت ہے۔ سائنس کا حتمی نہ ہونا اور اس کا تغیرپذیر ہونا دونوں ملتی جلتی نظر آنے والی صفات ہیں، لیکن اصولی اعتبار سے ان میں فرق ہے۔ سائنس کے حتمی نہ ہونے سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ سائنس یہ دعوی نہیں کرتی کہ جس طریقہ کار کا استعمال کرکے وہ کسی بھی طبعی مظاہر کی تہہ تک پہنچتی ہے وہ حرف آخر ہے۔ بلکہ وہ اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ طریقہ کار کے بدل جانے سے ہوسکتا ہے کہ نتائج میں تبدیلی آجائے۔ چند ایک استثنائیات کو چھوڑ کر سائنس کا یہ نقطۂ نظر آپ ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ سائنس کے تغیرپذیر ہونے کا عمومی مطلب یہ ہے کہ سائنس اپنے طریقہ کار سے حاصل شدہ علم کے نتائج کو بہتر طریقہ کار اور بہتر نتائج سے بدلتی رہتی ہے۔ پچھلے سو برسوں سے بہت سے طبعی مظاہر کی جو توجیہ ہم پڑھتے اور سنتے آئے ہیں اب وہ توجیہ اور تشریح بدل گئی ہے۔ مثلاً سو سال پہلے پروٹین کو وراثتی مادہ مانا جاتا تھا۔ اب ڈی۔ این۔ اے وراثتی مادہ ہے۔ پہلے یہ مانا جاتا تھا کہ ڈی این اے۔ اور جینز سب کچھ ہے، پچھلے 20 برسوں میں یہ پتا چلا کہ ان جین کا انضباط (regulation) سب کچھ ہے اور یہ لاکھوں ماحولیاتی عوامل کے زیراثر انجام پاتا ہے۔
چناں چہ ایک تغیرپذیر کاوش سے آفاقی اور غیر تغیرپذیر قدروں کا حصول کیسے ہوسکتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ تین بڑی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر سائنس کو ماخذ اخلاقیات کے درجے پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا سائنس کے ذریعے حاصل کردہ علم کو کسی بھی قسم کی قدر کے جائزہ و احتساب کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا؟ اس سوال پر آئندہ گفتگو کی جائے گی۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2021