چند ماہ سے ان صفحات میں امت مسلمہ کی تمکین و ترقی سے متعلق چند ایسے پہلوؤں کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کو عام طور پر زیر بحث نہیں لایا جاتا۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے، اس وقت تمکین و ترقی میں علم اور علمی ترقی کے کردار پر کچھ گذارشات پیش کی جائیں گی۔
علم کا اسلامی فلسفہ اور جدید مغربی علوم کے نقائص کو اس مضمون میں زیر بحث نہیں لایا جارہا ہے۔ اس مضمون میں علم سے مراد وہی علم ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں تنقیدی نظر سے حاصل کیا جائے گا۔ معاصر علوم سے استفادے کا مطلب یہی ہوگا کہ اسلامی فکر کے مطابق اس کے قابل اعتراض اجزا اور نا مطلوب اثرات سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کی کوشش کی جائے۔
علم اور ترقی (knowledge and development) اور علم اور قوت (knowledge and power)کے درمیان تعلق کی بحث اہل اسلام کے لیے کوئی نئی نہیں ہے۔ قرآن و سنت میں علم کی اہمیت پر جو نصوص ملتے ہیں وہ اس مضمون کے قارئین کو اچھی طرح مستحضر ہیں، اس لیے ہم ان کا ذکر نہیں کریں گے۔ “علم ہی طاقت ہے ”(knowledge is power))یہ موجودہ دور میں معروف ترین مقولوں میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بات دستیاب ریکارڈوں میں سب سے پہلے حضرت علیؓ کے اقوال میں ملتی ہے۔ نہج البلاغہ میں علم کی اہمیت پر کمیل بن زیاد نخعی کو حضرت علیؓ کی جو نصیحت نقل کی گئی ہے اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں:
‘‘یا كمیل بن زیاد، معرفة العلم دین یدان به، به یكسب الانسان الطاعة فی حیاته، وجمیل الأحدوثة بعد وفاته. والعلم حاكم، والمال محكوم علیه’’
(اے کمیل، علم حکومت ہے جس کا سکہ چلتا ہے۔ اس سے زندگی میں انسان لائق اطاعت بنتا ہے اور مرنے کے بعد عزت و نیک نامی کا سزاوار ہوتا ہے۔ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم ہوتا ہے۔ )[1]
یہ بحث اسلامی کلاسیکی لٹریچر میں ہمیشہ رہی ہے کہ علم اور طاقت و قوت اور سیاست و قیادت میں ایک خاص رشتہ ہے۔ ابن خلدونؒ نے ایک پوری فصل اسی بحث کے لیے قائم کی ہے اور تفصیلی دلائل سے واضح کیا ہے کہ تہذیبی قوت اور تمدن و حضارت کی بالاتری علم کے ساتھ وابستہ ہے۔[2] علم کو عروج و ترقی اور طاقت و قوت کا ایک اہم ذریعہ سمجھنے کا تصور، امام غزالیؒ[3]، شاہ ولی اللہؒ[4] اور دیگر متعدد اسلامی زعما کے یہاں ملتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے بڑے پرزور طریقے سے واضح کیا ہےکہ امامت و قیادت کا تعلق علم سے ہے۔[5] اور یہ کہ وہ علم جس کا امامت و قیادت سے رشتہ ہے، اُس کا مطلب سمع، بصر اور فواد کی قوتوں سے کام لے کر انسانوں کے لیے مفید علم کی افزائش و پیدا ئش ہے۔[6] جب علم ترقی کا ذریعہ ہے تو زوال یا کم زوری و ضعف کا ایک بڑا سبب علم سے محرومی ہے۔ چناں چہ نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ سے یہ اہم اصول بھی منسوب کیا گیا ہے کہ إِذَا أَرْذَلَ اللهُ عَبْداً حَظَرَ عَلَیهِ الْعِلْمَ. جب اللہ تعالیٰ کسی كو زوال کی پستی میں دھکیلنا چاہتا ہے تو اسے علم سے محروم کردیتا ہے۔[7]
قریبی زمانے میں فرانسیسی فلسفی مشل فوکو (Michel Foucault: 1926-1984)کے کام کو اس موضوع پر نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس نے علم اور طاقت (power-knowledge) کے درمیان تعلق کو بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا اور ثابت کیا کہ طاقت کا منبع علم ہے۔ طاقت علم ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور علم کا استعمال کرتی ہے اور اپنے مقاصد کے لیے مخصوص علوم کی تشکیل و تخلیق بھی کرتی ہے۔ فوکو نے اس مروجہ تصور کو چیلنج کیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام کی رائے یا ریاست کی قوت نافذہ ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ طاقت کا اصل محور سچائی کے بارے میں سماج میں پایا جانے والا تصور ہے۔ یہ تصور غلط یا صحیح علم کے ذریعے ہی تشکیل پاتا ہے۔[8]
علم اور طاقت کا تعلق، عصر حاضر میں
اس تمہید سے واضح ہوتا ہے کہ طاقت کو علم کے ساتھ ہمیشہ مربوط سمجھا گیا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں مختلف وجوہ سے یہ تعلق کئی گنا بڑھ گیا ہے اور علم سب سے بڑی اور بااثر طاقت بن کر ابھرا ہے۔ تیس سال پہلے مشہور ماہر مستقبلیات ایلوِن ٹافلر (Alvin Toffler 1928-2016) کی کتاب ‘پاور شفٹ’ شائع ہوئی تھی۔ [9] اس نے تاریخی جائزے سے یہ واضح کیا تھا کہ طاقت کے سرچشمے تین رہےہیں۔ پہلا سرچشمہ جسمانی قوت یا فوجی طاقت یا تشدد کی طاقت ہے۔ یہ قدیم جاگیردارانہ سماج کی اصل کارفرما قوت تھی۔اس قوت کے ذریعے ماتحتوں اور مخالفوں کو سزا دے کر یاسزا کا خوف پیدا کرکے ان پر تسلط حاصل کیا جاتا تھا۔ اس قوت کی علامت زمین تھی۔ جس کے پاس زیادہ زمین ہوتی وہ زیادہ طاقت ور ہوتا۔ یہ سب سے کم تر درجے کی طاقت ہے۔ دوسرا سرچشمہ دولت ہے۔ یہ صنعتی معاشرے کی یعنی سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک کے معاشرے کی اصل قوت تھی۔ اس کی علامت چمنی یعنی کارخانے تھے۔ جو سرمایہ دار زیادہ کارخانوں کے مالک ہوتے وہی اصل اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ٹافلر نے اسے درمیانی درجے کی قوت قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سب سے اعلیٰ درجے کی طاقت علم کی طاقت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آنے والے دور کی (جو اب آچکا ہے) اصل طاقت یہی ہوگی۔ علوم پر جس سماج کی زیادہ قدرت ہوگی، دنیا پر اسی کا تسلط ہوگا۔دنیا میں طاقت و قوت کے مراکز بدل رہے ہیں اور دنیا تیز رفتار پاور شفٹ کے دہانے پر ہے۔[10] ایلوِن ٹافلر نے تیس سال پہلے یہ کتاب لکھی تھی اور اسے آنے والے چار پانچ دہوں کی نمایاں خصوصیت قرار دیا تھا۔ بعد میں حالات اس تیزی سے بدلے کہ ٹافلر کی بتائی ہوئی مدت سے پہلے ہی علم کی اہمیت تیزی سے بڑھتی گئی۔
کمپیوٹر، انٹرنیٹ، مواصلاتی ٹکنالوجی وغیرہ نے دنیا کو اکیسویں صدی کے دہانے پر اس عہد میں پہنچادیا جسے اطلاعاتی عہد (information age) کہا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے معاشرے جو صنعتی معاشرے (industrial societies) کہلاتے تھے، اب اطلاعاتی معاشرے (information societies) کہلائے جانے لگے۔ یعنی مصنوعات کی پیداوار سے زیادہ اطلاعات و معلومات کو ان معاشروں میں اہمیت حاصل ہوگئی اور معلومات ہی اصل تمدنی قوت اور معاشی ترقی کا اصل وسیلہ بن گئیں۔[11] کمپیوٹر کے نیٹ ورکوں اور انٹرنیٹ کے ذریعے بے پناہ ڈاٹا دستیاب ہوگیا۔اس ڈاٹا تک رسائی، ان کے تجزیے و تحلیل اور انھیں بروقت استعمال کرنے کی صلاحیت، قوموں کی طاقت و قوت اور ان کی اثر پذیری کا اصل سرچشمہ قرار پائی۔[12]
لیکن اکیسویں صدی کی ابتدا ہی میں دنیا تیزی سے اطلاعاتی سماج سے علمی سماج (knowledge society) کی طرف بڑھنے لگی۔ علم صرف ڈاٹا یا اطلاعات کا نام نہیں ہے۔ سمع و بصر سے حاصل شدہ ڈاٹا معلومات ہے جب کہ علم فواد کا نتیجہ ہے۔علم افکار و نظریات، آئیڈیا اور حل (solutions) اور اختراعات و ایجادات کا نام ہے۔ اطلاعات پر غور و تدبر، اور پھر وجدان اور تخلیقی عمل سے کام لے کر جب انسانی تمدن کے لیے مفید اصول، حل اور آئیڈیاز سامنے لائے جاتے ہیں تو وہ علم کہلاتے ہیں۔ اطلاعاتی سماج کا زور انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے زیادہ سے زیادہ معلومات اور ڈاٹا کے حصول پر ہوتا ہے جب کہ علمی سماج کا زور تخلیقی عمل اور نئے افکار اور نئے آئیڈیا زکی پیش کش پر ہوتا ہے۔یونیسکو کی رپورٹ میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اطلاعاتی سماج کا تعلق اصلاً ٹکنالوجی کی اختراعات سے تھا جب کہ علمی سماج کے تصورمیں سماجیاتی، تہذیبی، اقتصادی، سیاسی اور ادارہ جاتی ٹرانسفارمیشن سے متعلق پہلو بھی شامل ہیں۔[13] علمی سماج میں لوگوں کی خوش حالی اور ترقی کا سب سے اہم ذریعہ علم ہوتا ہے۔ معاشی پیداوار میں سب سے اہم عامل علم ہوتا ہے اورعلم ہی سماج کا سب سے بیش قیمت سرمایہ بن جاتا ہے۔[14]کہا جارہا ہے کہ اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اکثر محض اطلاعاتی سماج نہیں رہے بلکہ علمی سماج میں بدلتے جارہے ہیں۔
علمی سماج کو ‘آموزش پذیر سماج’ (learning society) بھی کہا گیا یعنی ایسا سماج جہاں مسلسل علم کا حصول ایک سماجی روایت بن جاتا ہے۔[15] علم کا حصول نہ عمر کے مخصوص ادوار تک محدود رہتا ہے اور نہ اپنے مخصوص شعبوں اور پیشوں سے متعلق علوم تک اور نہ ہی علم کے حصول کا ذریعہ صرف باقاعدہ کورس اور تعلیمی ادارے و جامعات رہتے ہیں۔ لوگ ہر طرح کا علم مسلسل اور زندگی بھر حاصل کرتے رہتے ہیں۔کام یاب پیشہ وارانہ زندگی گزارتے ہوئے ایک ڈاکٹر کو اچانک فلسفے میں دل چسپی ہوجاتی ہے اور وہ فلسفہ پڑھنے لگتا ہے۔ لسانیات کا پروفیسر، کمپیوٹر کے الگورتھم سیکھنے لگتا ہے اور مصنوعی ذہانت کے کورس میں شریک ہوجاتا ہے۔ مختلف النوع علوم و فنون کو سیکھنے، سکھانے کا اور ان سے کام لینے کا ایک عمومی ماحول بن جاتا ہے۔ طرح طرح کے علوم کی آمیزش سے نئے افکار و خیالات اور نئے آئیڈیا زکی تخلیق ہوتی رہتی ہے اور اس عمل میں اسکول کے بچوں سے لے کر غیر متعلق شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے بوڑھوں تک ہر کوئی حصہ لیتا رہتا ہے۔ اس وقت دنیا کس طرح ایسے سماج کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ درج ذیل حقائق سے لگایا جاسکتا ہے۔اگرچہ بظاہر ان بحثوں کے بارے میں زیادہ تر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اقتصادیات اور مارکیٹ سے متعلق امور سے ہے لیکن باخبر لوگ جانتے ہیں اور ہمارے محولہ مصادر سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ رجحانات زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہورہے ہیں۔
۱۔ علم کی پیداوار کی رفتار (knowledge velocity)
گذشتہ صدی کے اواخر میں امریکی محقق آر بی فُلر (Richards Buckminster Fuller) نے دنیا بھر میں موجود علم کے مجموعی حجم اور اس میں ہو رہے اضافے کی پیمائش کا ایک طریقہ ایجاد کیا اور واضح کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں دنیا میں جتنا کچھ علم تھا اُسے دوگنا ہونے کے لیے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال لگے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ مدت گھٹتے گھٹتے سو سال رہ گئی یعنی ہر سو سال میں دنیا کا علم دوگنا ہونے لگا۔اس نے پیشین گوئی کی تھی کہ جلد نالج ویلاسٹی اتنی بڑھ جائے گی کہ علم کے دوگنا ہونے کی مدت گھٹ کر محض چند سال رہ جائے گی۔[16] فلر کے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس وقت یعنی 2021 میں، علم میں اضافے کی رفتارکا حساب لگایا گیا ہے کہ ہر تیرہ مہینے میں یعنی لگ بھگ ہر سال علم دو گنا ہورہا ہے۔[17]
۲۔علمی و تحقیقی مقالوں کی اشاعت
علم میں ہورہے تیز رفتار اضافے کا اندازہ علمی و تحقیقی مقالوں کی اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اٹھارہویں صدی کے وسط میں (1726) دنیا بھر میں سالانہ شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں کی تعداد 336 تھی جو 1900 میں بڑھ کر تقریباً ساٹھ ہزار ہوگئی تھی[18] اور اب (2020 میں) یہ تعداد بتیس لاکھ ہوچکی ہے۔[19] سال 1990میں دنیا بھر میں پیٹنٹ (patent) کی تقریباً نو لاکھ درخواستیں داخل کی گئی تھیں۔ اب 2021)میں( یہ تعداد بڑھ کر تقریباً چونتیس لاکھ ہوگئی ہے۔[20]
۳۔کتابوں کی اشاعت
کتابوں کے تعلق سے عام طور پر ہمارے یہاں یہ بات مشہور ہے کہ ٹکنالوجی نے مطالعے کا شوق کم کردیا ہے اور اب لوگ صرف سوشل میڈیا پر ویڈیوز ہی دیکھ رہے ہیں کتابیں نہیں پڑھ رہے ہیں۔ اگر چہ یہ بات عام مشاہدے کے بھی خلاف ہے لیکن اعداد و شمار اور حقائق سے جو تفصیل سامنے آتی ہے وہ انتہائی چشم کشا ہے۔ یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق 1950 میں دنیا بھر میں دولاکھ پچہتر ہزار نئی کتابیں شائع ہوئی تھیں جو 1980میں بڑھ کر چھ لاکھ ستر ہزار ہوگئیں۔[21] اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اورگذشتہ سال یعنی 2021 میں دنیا میں چالیس لاکھ نئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔[22] گوگل نے بارہ سال پہلے دنیا میں موجود ساری قدیم و جدید کتابوں کی معلومات جمع کرنے کی ایک مہم شروع کی تھی۔ 2010 میں اس کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں انسانی تاریخ میں اب تک لکھی گئی وہ تمام کتابیں جو اس وقت دستیاب تھیں اور گوگل جمع کرسکا تھا، ان کی مجموعی تعداد تیرہ کروڑ (متعین تعداد 12 کروڑ 98 لاکھ 64 ہزار آٹھ سو اسی) تھی۔[23] گویا بنی نوع انسان کی ہزاروں سال کی تاریخ میں مجموعی طور پر جتنی کتابیں لکھی گئیں اس کا بتیسواں حصہ صرف ایک سال یعنی گذشتہ سال میں شائع ہوگیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا شوق اور کتابوں کا چلن نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت کتابوں کی انڈسٹری کی عالمی ویلیو تقریباً 142 بلین ڈالر ہے۔[24] یعنی دنیا جتنا سونے کے زیورات (180بلین ڈالر) پر خرچ کرتی ہے اس سے کچھ ہی کم کتابوں پر خرچ کرتی ہے۔ یہ کتابیں صرف بوڑھے لوگ نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کتابوں کی مارکیٹ میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ذیلی سیکٹر بچوں کی کتابیں ہیں۔[25] یہ اعداد و شمار عالمی اوسط سے متعلق ہیں جن میں پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کتابوں پر خرچ کا تناسب تو اور زیادہ ہے۔ اس صورت حال میں یہ کہنا کہ دنیا میں مطالعے کا شوق کم ہورہا ہے، کتنی خلاف واقعہ اور مضحکہ خیز بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم پیچھے ہوگئے ہیں، ساری دنیا پیچھے نہیں ہوئی ہے۔
یہ جائزہ ہم نے اس لیے پیش کیا ہے کہ ہمارے خیال میں امت کی تمکین و ترقی کے جو کام اس وقت ہورہے ہیں ان میں علمی ترقی کا پہلو بری طرح نظر انداز ہو رہا ہے۔ علمی ترقی کا مطلب محض تعلیمی ترقی نہیں ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں داخلوں کا بڑھ جانا تعلیمی ترقی کا مظہر تو ہوسکتا ہے لازماً علمی ترقی کا مظہر نہیں ہے۔صرف مسابقتی امتحانات میں کام یابیاں اور ڈاکٹروں، انجینئروں کی بہتات علمی سماج پیدا نہیں کرتی۔ اونچی تنخواہوں کی کارپوریٹ ملازمتوں کے بڑھ جانے سے علمی طاقت کا حصول نہیں ہوتا۔ بلاشبہ ان حصولیابیوں کی بھی اہمیت ہے۔ یہ اصل میں معاشی ترقی ہے اور تمکین و ترقی میں اس کا بھی ایک کردار ہے۔ (معاشی ترقی کے موضوع کو بھی آئندہ ہم زیر بحث لائیں گے) لیکن علم کا جو اساسی کردار ہے، اس کی محض ان چیزوں سے ادائیگی نہیں ہوسکتی۔ وہ اہم پہلو جن پر اس وقت توجہ بہت کم ہے اور جن کے بغیر علمی ترقی کا تصور اب ناممکن ہوگیا ہے، وہ ہمارے خیال میں حسب ذیل ہیں:
علم کی پیداوار (knowledge production)
سب سے اہم پہلو علم کی پیداوار یا نالج پروڈکشن ہے۔مولانا مودودیؒ نے محولہ بالا خطبے میں اسی پر زور دیا ہے۔ اس کا تعلق تحقیق و اختراع (research and innovation) سے ہے۔ نیا علم پیدا کرنے کی صلاحیت آج سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس سے آپ دنیا کو دینے والے، انسانوں کے مسائل حل کرنے والے اور تمدن کی ایک ضرورت بن کر سامنے آتے ہیں۔ انسانیت کے محسن اور دنیا کا اثاثہ بن کر ابھرتے ہیں۔ دنیا کی بہت سی بااثر قوتوں کا آپ پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔ یہی تمکین و ترقی ہے۔
تعلیمی ترقی کی معاصر کوششوں کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں یہ پہلو نہ صرف نظر انداز ہو رہاہے بلکہ اس کے سلسلے میں ایک طرح کی ہمت شکنی کا ماحول ہے۔ ان کوششوں کا محور و مرکز زیادہ تر وہ پروفیشنل تعلیم ہے جو کم سے کم وقت میں معاشی آسودگی پیدا کرسکے۔علم کی پیداوار کے لائق بننا ایک صبر آزما کام ہے جو لمبی محنت چاہتا ہے اور اس دوران قربانیوں کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے مزاج کی افزائش بھی ہماری تعلیمی کوششوں کا اہم ہدف بننا چاہیے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی علمی و تحقیقی خدمات سے متعلق اعداد و شمار ہمارے پاس دستیاب نہیں ہیں لیکن عالم اسلام کے احوال سے ہم یہاں کی صورت حال کا بھی اندازہ لگاسکتے ہیں۔ منسلک چارٹ میں چند منتخب ممالک میں شائع شدہ علمی و تحقیقی مقالوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب (فی ملین آبادی)میں ظاہر کی گئی ہے۔ بہت زیادہ علمی کام کرنے والے (فی ملین آبادی 2000 مقالے) ممالک میں ایک بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔ درمیانی سطح کے ممالک (500 تا 2000) میں ملیشیا، ایران، ترکی اور تیونس شامل ہیں۔ باقی اکثر ممالک وہ ہیں جن کا علمی کام پس ماندہ ترین ممالک کی صف میں شمار ہوتا ہے۔[26]
تحقیقی کاموں کے حجم کو جانچنے کا ایک اور ذریعہ پیٹنٹ درخواستیں ہیں۔ جب کوئی بالکل نئی چیز ایجاد یا دریافت کرتا ہے تو اسے اپنے نام سے رجسٹر کرنے کے لیے پیٹنٹ درخواست دیتا ہے۔ گذشتہ سال کی درخواستوں کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ چین سے سب سے زیادہ یعنی پندرہ لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔ امریکہ (پانچ لاکھ نو ہزار)، جاپان (چار لاکھ بارہ ہزار)، وغیرہ کے ساتھ نویں نمبر پر ہے اور ہمارا ملک ہندوستان ( سینتیس ہزار نو سو) ہے۔ اس فہرست میں پہلا مسلمان ملک ایران، اکیسویں نمبر پر (ساڑھے گیارہ ہزار) اور تیئیسویں نمبر پر ترکی (دس ہزار درخواستیں) ہے۔ پاکستان کی درخواستوں کی تعداد محض490 اور بنگلہ دیش کی محض 90 ہے۔ عالم اسلام کے تمام ممالک سے مجموعی طور پر جو درخواستیں ملی ہیں ان کی تعداد محض 36 ہزار چار سو ہے۔یہ تعداد چین کی درخواستوں کا محض ڈھائی فی صد اور ہندوستان جیسے ایک ترقی پذیر ملک سے بھی کم ہے۔[27] کتابوں کی جو باڑھ آئی ہوئی ہے اس کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ اس معاملے میں بھی عالم اسلام کے اعداد وشمار نہایت افسوس ناک ہیں۔ برطانیہ میں فی ملین آبادی اگر تین ہزار کتابیں شائع ہوئی ہیں تو یہ تناسب مصر میں محض 182 اور پاکستان میں صرف 26 ہے۔ عالم اسلام میں صرف دو ممالک، ایران (1363) اور ترکی (1010) ہیں جہاں یہ تناسب ہزار سے متجاوز ہے۔[28]
تمکین و ترقی کی ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ ریسرچ اور انوویشن کی اہمیت کا شعور پیدا کرنے کی تحریک عام ہو۔ ہم ایک ایسے تعلیم یافتہ معاشرے کا خواب دیکھیں اور دکھائیں جس میں مختلف میدانوں میں، اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں، زیادہ سے زیادہ نئے علوم دریافت ہورہے ہوں اور افکار و آئیڈیاز کا سیلاب امڈ رہا ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہین بچوں کو علمی و تحقیقی کاموں کی طرف متوجہ کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کا روایتی انداز، امتحان پر مرکوز تعلیم، مسابقتی امتحانات پر مرکوز تعلیم، یا انجینئرنگ و میڈیکل پریکٹس پر مرکوز تعلیم کے بجائے، تحقیق و جستجو اور نئے علم کی دریافت کے جذبے کی افزائش ہو۔ خوش حال لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بیرون ملک کی اُن دانش گاہوں میں بھیجیں جہاں صحیح معنوں میں علمی و تحقیقی مزاج کی افزائش کی جاتی ہے۔ فلاحی ادارے، ایسے طلبہ کو اسکالرشپ دینے کی اسکیمیں شروع کریں۔ آئی بی اور کیمبرج جیسے بین الاقوامی بورڈوں سے ہمارے زیادہ سے زیادہ اسکول منسلک ہوں۔
علم کے ذرائع پر قدرت
علمی کام کے لیے یہ ضروری ہے کہ علم کے ذرائع اور مصادر تک رسائی ہو اور ان کے استعمال پر قدرت ہو۔ قدیم زمانوں میں خواندگی کو اسی لیے اہمیت دی جاتی تھی کہ اس کے نتیجے میں علم کے مصادر تک رسائی ہوتی تھی۔ ایک ناخواندہ آدمی، کتابوں، رسالو ں اور کتب خانوں سے استفادہ نہیں کرسکتا اس لیے علم سے محروم رہ جاتا ہے۔ جو اہمیت گذشتہ صدی میں خواندگی کی تھی وہی آج ٹکنالوجی اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت کی ہے۔ اس صلاحیت کے بغیر علم کے مصادر سے استفادہ اب ممکن نہیں رہا۔
انٹرنیٹ علم کے لامحدود خزانوں تک رسائی کو یقینی بناتا ہے۔ امیزون (Amazon) پر اس وقت ساڑھے تین کروڑ کتابیں دستیاب ہیں۔[29] چند عالمی سطح کی لائبریریوں کے استثنا کے ساتھ، دنیا کی کسی لائبریری یا جامعہ میں اتنی بڑی تعداد دستیاب نہیں ہے۔ بڑی لائبریری میں آپ چلے بھی جائیں تو مطلو ب مواد تلاش کرنا اور اسے حاصل کرنا ایک مشکل اور وقت طلب کام ہے۔ جب کہ یہاں انگلیوں کی جنبش پر سب کچھ دستیاب ہے۔ کنڈل ان لمیٹیڈ میں معمولی فیس دے کر تیس لاکھ کتابیں لائبریری کی طرح دستیاب ہوجاتی ہیں۔[30] انٹرنیٹ آرکائیو میں دو کروڑ کتابیں مفت دستیاب ہیں۔[31] گوگل بکس نے تو انسانی تاریخ میں اب تک شائع شدہ تمام کتابوں کو دستیاب کرنے کا ایک بڑا پرعزم منصوبہ شروع کیا تھا۔ تیرہ کروڑ کتابوں میں سے چار کروڑ کتابیں اس وقت دستیاب کروائی جا چکی ہیں۔[32] کچھ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ پروجیکٹ رکا ہوا ہے لیکن اندازہ ہے کہ جلد ہی یہ مکمل ہوجائے گا۔ یہ تو انٹرنیٹ پر دستیاب باقاعدہ کتابیں ہیں۔ ان کے علاوہ جو معلومات اور ڈاٹا انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، اس کے حجم کا تصور بھی مشکل ہے۔
لیکن معلومات کے اس وسیع سمندر کو علم کی پیداوار کے لیے استعمال کرنا کئی فنون پر دسترس چاہتا ہے۔ صرف کمپیوٹر جاننا یا انٹرنیٹ جان لینا کافی نہیں ہے بلکہ سرچ انجن کا گہرا علم، معلومات کو تلاش کرنے اور مطلوب کتاب یا معلومات تک پہنچنے کا فن، ان معلومات کو حاصل کرنے، اسے محفوظ کرنے اور اس کے کار آمد استعمال کا فن درکار ہے۔
پھر ٹکنالوجی صرف انٹرنیٹ نہیں ہے۔ جمع شدہ معلومات کی تنظیم (knowledge management)، ثانوی دماغ کی ٹکنالوجی (second brain [جومعلومات کی بروقت دستیابی اور اس کے استعمال کے لائق بناتی ہے])، مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) کے مختلف وسائل جن سے کام لے کر تحقیق اور استنباط میں مدد لی جاتی ہے، مختلف لسانی وسائل، دوسری زبانوں کے ذخائر سے استفادے کے لیے ترجمے کی ٹکنالوجی کا استعمال، علمی کاموں کے لیے رابطے کے پلیٹ فارموں اور ڈسکشن فورموں کا استعمال، زبان و بیان کی اصلاح کے وسائل، ای میل، چیٹ ایپس اور سوشل میڈیا سائٹس کی تنظیم کے سافٹ ویر، ڈاٹا کے تجزیے اور اس سے نتائج کے استنباط کے سافٹ ویر (data analysis and visualisation tools)، سیمولیشن اور انسان مرکوز سیمولیشن (human centred simulation)، آگمنٹیڈ اور ورچول ریئیلٹی، وغیرہ بے شمار ٹکنالوجیاں ہیں جن کا تحقیق واختراع اور نالج پروڈکشن میں کلیدی کردار ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی ہی نہیں ،سماجیاتی بلکہ مذہبی علوم میں ہورہی تحقیقات میں بھی ان ٹکنالوجیوں کا استعمال اب عام ہے۔
سرسری جائزہ بھی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسلمانوں میں ٹکنالوجی کا یہ استعمال ابھی بھی عام نہیں ہوسکا ہے۔ جس طرح وہاٹس اپ کی بے بنیاد افواہیں ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی تیزی سے عام ہوجاتی ہیں، جس طرح علامہ اقبال کے نام سے مضحکہ خیز تُک بندیوں کا چلن عام ہے، ہماری کتابوں اور سنجیدہ مضامین تک میں ٹھوس معلومات اور معتبر حوالوں کا جو فقدان نظر آتا ہے، اس سے آسانی سے سمجھ میں آتا ہے کہ معلومات کی تلاش و تنقیح کا فن ہمارے معاشرے میں کس قدر ناپید ہے۔ اردو اخبارات ہوں یا اردو و عربی کی تصنیفات و علمی مقالات، ان کو پڑھنے سے باخبر آدمی اُن کمیوں کو آسانی سے محسوس کرسکتا ہے جو ٹکنالوجی کے موثر استعمال نہ کرپانے کی وجہ سے ان میں رہ جاتی ہیں۔قائدین، اساتذہ اور عمر رسیدہ اہل علم تو عام طور پر ٹکنالوجی کا بنیادی استعمال بھی نہیں کرپاتے، لیکن نئی نسل کے نوجوانوں میں بھی سرچ انجن کے عام استعمال سے ہٹ کر ٹکنالوجی کے نفع بخش استعمال کا رجحان بہت کم محسوس ہوتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہماری نئی نسل کا کمپیوٹر گیم اور سوشل میڈیا اور وہاٹس اپ وغیرہ میں غیر متوازن حد تک مشغول ہوجانا ہے۔ اس انہماک کے نتیجے میں آدمی جب بھی کمپیوٹر پر بیٹھتا ہے، اسے سوشل میڈیا سائٹیں کسی اور مفید کام کی طرف متوجہ ہونے نہیں دیتیں۔
علمی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس طرح کسی زمانے میں خواندگی بڑھانے کی کوششوں کو ایک تحریک بنادیا گیا تھا، اب ٹکنالوجی اور مصادر علم سے استفادے کی صلاحیت کو عام کرنے کی کوششیں بھی ایک تحریک بن جائیں۔
علمی مزاج
علم اسی وقت قوت بنتا ہے جب اس کا انطباق و استعمال ہو۔ علم محض ڈگریوں کا نام نہیں ہے۔ علمی قوت اصلاً علمی مزاج، علمی ماحول اور علم کے انطباق کا نام ہے۔ صرف ملازمت اور پیشے کی جگہ پر اپنی تعلیم کا استعمال، آدمی کو صاحب علم نہیں بلکہ معیشت کے کارخانے کی بے جان مشین بنادیتا ہے۔ جب تک انسان کی مجموعی شخصیت، اس کا مزاج اور اس کا ذہنی سانچہ علم و تحقیق کی اساس پر استوار نہ ہو، علم طاقت نہیں بن سکتا۔
علم افراد میں علمی مزاج تشکیل دیتا ہے۔ اس سے شخصیات طاقت ور ہوتی ہیں۔ علم سماج کے اندر علمی ماحول پروان چڑھاتا ہے۔ جس سے سماج طاقت ور ہوتا ہے۔ علمی مزاج اور علمی ماحول کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فیصلے اور اقدامات علم کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جن سے طاقت کا عملاً استعمال ہوتا ہے۔ یہ سب نہ ہو تو محض علم، ایک ایسے ہتھیار کے مانند ہوتا ہے جو میان کے اندر بند ہو اور جسے استعمال کے لیے نکالا ہی نہ گیا ہو۔ وہ ہتھیار کتنا ہی موثر ہو، اپنے مالک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا۔
آدمی کی شخصیت میں اس کی سوچ کا شاکلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی شاکلے کے مطابق اقدامات اور اعمال کا ظہور ہوتا ہے۔ قُلْ كُلٌّ یعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ (کہو کہ ہر ایک اپنے شاکلے کے مطابق عمل کررہا ہے۔ الاسراء 84) علمی مزاج کا مطلب یہ ہے کہ سوچ کا شاکلہ الہی ہدایات اور اس کے بعد ٹھوس معلومات، دلائل اور ثابت شدہ حقائق کی اساس پر تشکیل پائے۔ آدمی کسی نامعقول رویے کا روادار نہ ہو۔ تحقیق اور دلائل و شواہد کے بغیر کسی بات پر یقین نہ کرے۔ اشیا اور احوال کو دیکھنے کا نقطہ نگاہ محض جذبات کی اساس پر تشکیل نہ پائے۔ جو رائے بھی قائم کرے اور جو قدم بھی اٹھائے وہ قرآنی حکمت کی بنیاد پر ہو۔ یہ ٹھیک وہی مزاج ہے جو قرآن پروان چڑھاتا ہے۔ روایت پرستی اور اندھی تقلید کے مقابلے میں قرآن نے تفکر، تدبر، تفقہ اور تعقل پر زور دیا۔ اللہ کی نشانیوں پر سنجیدہ غور کرنے پر ابھارا اور سوچ اور عقیدے کو بھی شواہد و دلائل کی بنیاد پر تشکیل دینے کی دعوت دی۔اور گمان اور اٹکل کو ممنوعات میں شامل رکھا ہے۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَیسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤلًا [الإسراء: 36] (کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے)۔ صاحب تفہیم القرآن نے اس آیت کی بڑی جامع اور معنی خیز تشریح فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
‘‘اس دفعہ کا منشا یہ ہے کہ لوگ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں وہم و گمان کے بجائے ‘علم’ کی پیروی کریں۔ اسلامی معاشرے میں اس منشاکی ترجمانی وسیع پیمانے پر اخلاق میں، قانون میں، سیاست اور انتظام ملکی میں، علوم و فنون اور نظام تعلیم میں، غرض ہر شعبہ حیات میں کی گئی اور ان بےشمار خرابیوں سے فکر و عمل کو محفوظ کردیا گیا جو علم کے بجائے گمان کی پیروی کرنے سے انسانی زندگی میں رونما ہوتی ہیں۔ اخلاق میں ہدایت کی گئی کہ بدگمانی سے بچو اور کسی شخص یا گروہ پر بلا تحقیق کوئی الزام نہ لگاؤ۔ قانون میں مستقل اصول طے کردیا گیا کہ محض شبہے پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے۔ تفتیشِ جرائم میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ گمان پر کسی کو پکڑنا اور مار پیٹ کرنا یا حوالات میں دے دینا قطعی ناجائز ہے۔ غیر قوموں کے ساتھ برتاؤ میں یہ پالیسی متعین کردی گئی کہ تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور نہ مجرد شبہات پر افواہیں پھیلائی جائیں۔ نظام تعلیم میں بھی ان نام نہاد علوم کو ناپسند کیا گیا جو محض ظن و تخمین اور لا طائل قیاسات پر مبنی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عقائد میں اوہام پرستی کی جڑ کاٹ دی گئی اور ایمان لانے والوں کو یہ سکھایا گیا کہ صرف اس چیز کو مانیں جو خدا اور رسول کے دیے ہوئے علم کی رو سے ثابت ہو۔’’
یہی وہ قرآنی مزاج ہے جس سے علم کی طاقت رو بہ کار آتی ہے۔ جب یہ مزاج کم زور ہوتا ہے تو بے بنیاد اٹکلیں اور اندازے خیالات کی تشکیل کرنے لگتے ہیں۔تحقیق کے بغیر ہر طرح کی باتوں بلکہ افواہوں کو بھی قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ تقلید جامد کا مزاج پیدا ہوتا ہے اور اپنی محبوب و مقتدیٰ شخصیتوں کی کسی اجتہادی غلطی کو تسلیم کرنے کی جذبات اجازت نہیں دیتے۔ اعجوبہ پرستی، پر اسراریت، توہمات اور بے بنیاد علوم (pseudosciences) کا چلن عام ہونے لگتا ہے۔ اس دعوے کے لیے شواہد کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ سب کم زوریاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ مبالغہ آمیز سازشی نظریات اور سازشیت پر مبنی ذہنی شاکلہ اسی مزاج کی دین ہے۔[33]
علمی ماحول
علمی مزاج جب پورے معاشرے میں عام ہوتا ہے تو علمی ماحول تشکیل پاتا ہے۔علمی ماحول کا کیا مطلب ہے؟ علم و تحقیق آزادی چاہتے ہیں۔ علم و تحقیق کی افزائش ایسے ماحول میں نہیں ہوتی جہاں آدمی اپنی رائے کے آزادانہ اظہار کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔اپنی تہذیب، رواجوں، موروثی افکار اور شناخت کی حفاظت کے تقاضے اور دوسری طرف تحقیق و اختراع اور نئے راستوں کی کھوج کے تقاضے اکثر باہم متصادم ہوتے ہیں۔ اس لیے روایتی سماجوں میں علمی تحقیقات کشمکش و اضطراب پیدا کرتی ہیں۔ اس کے رد عمل میں ایک طرف جدید مغربی معاشرے ہیں جنھوں نے جدید ترقیوں کو اختیار کیا اور مذہبی و تہذیبی اساسیات اور دائمی قدروں سے خود کو محروم کرلیا۔ اس رویے نے ان کو تمدنی ترقیاں تو عطا کیں لیکن تہذیبی اساس، مذہب، ایمان اور اخلاقی قدروں سے محروم کردیا۔ دوسری طرف روایتی معاشرےہیں جنھوں نے روایتوں سے چمٹے رہنا پسند کیا۔ اس کے نتیجے میں خود پر علمی و سائنسی ترقیوں کے دروازے بندکرلیے۔
ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی اسلام کا موقف انتہائی معتدل و متوازن ہے۔ اسلام نے بڑی وضاحت سے تغیر پذیر اور دائمی امور کے فرق کا شعور پیدا کیا۔ قرآن و سنت کی صورت میں دائمی عقائد اور قدروں کا ایک مستحکم نظام فراہم کیا جو مضبوط، پائیدار اور دائمی تہذیبی اساس فراہم کرتے ہیں۔ اس نظام نے قرآن و سنت کے دائرے کے باہر زندگی کے وسیع دائرے میں، ایجاد و اختراع، نئے افکار اور نئے سولوشن اور علمی و تمدنی ترقیوں کے لیے بھرپور آزادیاں فراہم کیں۔ اجتہاد کی آزادی دی۔اجتہاد میں غلطی ہونے پر بھی اجر کی بشارت دی۔ اس طرح غور و فکر اور تحقیق و دریافت کے لیے نہ صرف وسیع کھلا میدان فراہم کیا بلکہ اس میدان میں تیز رفتار پیش قدمی کے لیے مہمیز بھی فراہم کی۔ اس طرح مسلم سماج کو وہ پائیدار تہذیبی اساس بھی میسر ہے جس سے جدید مغربی معاشرے محروم ہیں اور علمی اختراعات اور ایجادات کے لیے وہ وسیع میدان بھی موجود ہے جس سے روایتی معاشرےمحروم ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے دور اول میں سائنسی اور علمی تحقیقات کے ایک طاقت ور سلسلے کا آغاز کیا اور تیسری صدی ہجری سے ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری تک کے عرصے میں مسلمانوں نے ہر اہم میدان علم میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔ جہاں ایک طرف دینی علوم میں اسماء الرجال، فقہ واصول فقہ، حدیث و فن حدیث، تفسیر وغیرہ میں حیرت انگیز رفتار سے نہایت گراں قدر علوم و فنون اور علمی مناہج کی دریافت و ایجاد کی وہیں فلکیات، ہندسہ، ریاضی، طب، علم الابدان، کیمیا، طبیعیات،جغرافیہ، فن تعمیر جیسے طبعی علوم میں اور عمرانیات، اقتصادیات، سیاسیات و عوامی نظم و نسق، نفسیات، منطق و فلسفہ، تاریخ و فلسفہ تاریخ جیسے سماجی علوم میں اساسی اور رجحان ساز کارنامے انجام دیے۔ اسلامی تعلیمات نے ایک خاص اسلامی مزاج تشکیل دیا جو وحی الہی پر گہرے ایمان اور انسانیت کی خدمت کے سچے جذبے کے ساتھ، غیر جانب داری و انصاف پسندی، عالی ظرفی و وسیع القلبی، تحقیق پسندی اور جستجو و مہم جوئی جیسی علم دوست صفات سے عبارت تھا۔ مسلمانوں نے اپنی اساسیات سے انحراف کے بغیر دنیا بھر کے مختلف علوم و فنون سے بھرپور استفادہ کیا اور اپنی جستجو سے ان علوم کو ترقیوں کی نئی معراج عطا کی۔[34]
لیکن بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے قرآن و سنت کے ساتھ، بزرگوں کے اجتہادات اور مسالک و غیرہ کو بھی دائمی قدروں کی جگہ دینی شروع کی۔ الہیات کی وہ لایعنی، غیر ضروری اور پیچیدہ بحثیں جن سے منع کیا گیا ہے، انھیں ذہنی و علمی کاوشوں کا مرکز بنادیا۔ نئی تحقیقات کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ روایتی علوم پر قانع ہوگئے۔(بعد میں عصری علوم کو اختیار بھی کیا تو محض روزگار، اپنی پیشہ وارانہ اغراض اور معاشی ترقی کے لیے۔ ان علوم کو بہتر رویوں، اور حکمت عملی کی تشکیل کے لیےاستعمال میں لانے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔) ان سب کے نتیجے میں رائے کی آزادی کا محدود ہونا اورنتیجتاً اختراع و ایجاد کے محرکات کا کم زور پڑنا بالکل فطری تھا۔ اس مزاج کی اصلاح کے بغیر مسلمان علمی قوت سے مالا مال نہیں ہوسکتے۔
فیصلہ سازی اور عمل و اقدام میں علمی رویہ
علمی ماحول کا مطلب یہ بھی ہے کہ سماج میں علم،اہل علم، تخصص (specialisation) اور مہارتوں کی قدر ہو۔ ماہرین سے مشوروں کا عام رواج ہو۔ ان کی ماہرانہ آرا کو اہمیت دی جائے۔ سماج کےاجتماعی ذہن اور اجتماعی رائے کی تشکیل میں ماہرانہ آرا کا دخل ہو۔
یہ مزاج اور ماحول ہو تو پھر فیصلہ سازی اور عمل، علم کی بنیادوں پر ہونے لگتا ہے۔ علاج معالجے اور طبی معاملات میں ماہر فن اطبا اور ڈاکٹروں کی رائے کو اہمیت حاصل ہوتی ہے، عطائیوں اور ٹوٹکوں کو نہیں۔ گھر کی تعمیر ماہر انجینئرکی نگرانی میں ہوتی ہے، محض مالکان کی روز بروز بدلتی خواہشات اور مستریوں کے بے ہنگم اندازوں کی بنیادپر نہیں۔ قانون، تعلیم، نفسیات، تغذیہ، سرمایہ کاری و مالیاتی امور، ان سب معاملات میں متعلق شعبوں کے ماہرین سے رائے لی جاتی ہے اور ان کی رایوں کو اہمیت دیتے ہوئے فیصلہ سازی میں انھیں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
یہی معاملہ اجتماعی فیصلوں کا ہے۔ اجتماعی فیصلوں میں ماہرانہ مشاورت علمی سماجوں کی بہت اہم خصوصیت ہوتی ہے۔حکومتوں کے فیصلے ہی نہیں بلکہ اداروں، پارٹیوں، تنظیموں اور تحریکوں کی فیصلہ سازی میں بھی ماہرانہ تجزیوں، ڈاٹا و اعداد و شمار، رپورٹوں، ماہرین کی کمیٹیوں اور ان کی سفارشات وغیرہ کا اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے۔ فیصلہ سازی اور رائے قائم کرنے کے لیے بڑےسے بڑا قائد بھی محض اپنے وجدان سے کام نہیں چلاتا بلکہ سنجیدہ مطالعات کراتا ہے، ان کی بنیاد پر ماہرانہ آراطلب کرتا ہے اور انھیں اپنے فیصلوں اور اقدامات کی بنیاد بناتا ہے۔ پنچایتیں، اسمبلیاں و پارلیمنٹ ہوں یا کمپنیوں کے بورڈ ہوں، سیاسی پا رٹیوں یا فلاحی انجمنوں کے بااختیار ادارے ہوں یا سماجی تنظیموں اور مذہبی تحریکات کی فیصلہ ساز مجالس ہوں، کوئی بھی خود کو عقل کل نہیں سمجھتا۔ فیصلے کے بھرپور قانونی اختیار کے باوجود، اس اختیار کے استعمال کے لیے علم و تحقیق کی بھرپور کمک کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کا معقول انتظام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھنک ٹینک اور ڈاٹا سینٹر معاصر علمی سماجوں کا خاص جز ہیں اور ہر طرح کی فیصلہ سازی میں ان کا اہم رول ہوتا ہے۔
اس طرح کے علمی مزاج اور علمی ماحول کی افزائش کے بغیر ہم اپنے سماج کو علمی سماج نہیں بناسکتے اور اُن قوتوں کا استعمال نہیں کرسکتے جن کا سرچشمہ علمی سماج ہی ہوتا ہے۔
زندگی بھر سیکھنا
ایلوِن ٹافلر نے ان لوگوں کو اکیسویں صدی کے ناخواندہ قرار دیا تھا جنھوں نے کسی زمانے میں چاہے کتنا ہی پڑھا ہو لیکن مسلسل نئی چیزیں سیکھتے رہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔[35] اکیسویں صدی میں مطلوب تعلیمی نظام پر اقوام متحدہ کے خصوصی کمیشن (جسے ڈیلرز کمیشن بھی کہا جاتا ہے) کی رپورٹ میں اس صدی کے شروع ہونے سے پہلے ہی کہا گیا تھا کہ نئے تقاضوں کے لیے جو نظام تعلیم مطلوب ہے اس میں اصل زور زندگی بھر سیکھتے رہنے کی صلاحیت (learning to learn) پیدا کرنے پر ہونا چاہیے۔[36]
علمی سماج یا نالج سوسائٹی میں، مسلسل سیکھتے رہنا ہر ایک کی ضرورت بن گیا ہے۔ علم کے دھماکے اور علمی ترقی کی رفتارمیں حیرت انگیز اضافے کی وجہ سے اب اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم بھی زندگی بھر کے لیے کافی نہیں ہے۔ زندگی بھر مسلسل سیکھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اور جو لوگ ہر روز نئی باتیں اور نئی صلاحیتیں سیکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، خواہ انھوں نے کسی زمانے میں بہت کچھ پڑھ اور سیکھ رکھا ہو، وہ اپنے نئے زمانے میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔[37]
یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں اب سماجی گروہوں کی ترقی کو ناپنے کے لیے خواندگی اور رسمی تعلیم کے اعدادو شمار کو ناکافی سمجھا جارہا ہے اور ایسے اشاریے ایجاد کیے جارہے ہیں جن سے سماج کی زندگی بھر سیکھتے رہنے کی صلاحیت معلوم ہوتی ہے۔ یورپی یونین نے بہت پہلے ایک خصوصی اشاریہ (European lifelong learning index) تشکیل دیا تھا۔[38] کناڈا کی حکومت نے اسی سے مماثل اشاریہ (composite learning index – CLI) تشکیل دیا ہے۔[39] ترقی یافتہ ملکوں کی تنظیم OECD مسلسل ایسی رپورٹیں اور پالیسی تجاویز شائع کررہی ہے جن کے ذریعے حکومتوں کو اپنے عوام کی مسلسل اور زندگی بھر تعلیم کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سجھائی جارہی ہیں۔[40]
مسلسل اور زندگی بھر تعلیم (lifelong learning) کے تصور کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر ایک کو مسلسل سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پروفیشن اور ٹکنالوجیاں مسلسل ترقی کررہی ہیں اس لیے جو لوگ ان سے وابستہ ہیں انھیں مسلسل اپنی صلاحیتوں کی تازہ کاری کی ضرورت ہے۔ سماجی علوم سے وابستہ افراد ہوں، یا محققین و اساتذہ، صحافی ہوں یا دانش ور، انھیں نہایت تیزی سے ہورہی علمی ترقیوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے اور سماجی و سیاسی قائدین، ملکوں کے سربراہ اور اداروں کے منتظمین کو بھی مسلسل ٹریننگ لیتے رہنے اور تیزی سے پیدا ہو رہے نت نئے علوم و فنون سے خود کو آراستہ کرنے اور اپنی کارکردگی کو موثر بناتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کسی بھی شعبہ زندگی میں اپنی ذمے داریوں کا حق ادا کرنا اب ممکن نہیں رہا۔
ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ہمارے یعنی ہندوستانی مسلمانوں کے انتہائی تعلیم یافتہ طبقات اور افراد بھی اس پہلو سے بہت پس ماندہ ہیں۔ ترقی کی چند سیڑھیاں چڑھتے ہی ہم خود کو تربیت اور سیکھنے کی ضرورت سے بے نیاز سمجھنے لگتے ہیں۔
ہمارے سماج اور روایتوں نے سیکھنے سکھانے کے عمل کی بھی ترتیب مراتب بنارکھی ہے۔ اس ہائرارکی میں سکھانے والے اور سیکھنے والے دو الگ الگ طبقات ہیں۔ سیکھنے والے کم تر درجے کے لوگ ہیں اور سکھانے والے بالا تر درجے کے۔ کسی سے سیکھنے کا مطلب اس کے مقابلے میں خود کو کمتر تسلیم کرنا ہے۔ اس لیے کچھ سیکھنا ہو تو اپنے سے ‘اونچے’ اور بالاتر آدمی سے ہی سیکھا جاسکتا ہے۔چناں چہ جیسے جیسے ہم سماجی مرتبے کی سیڑھیاں چڑھنے لگتے ہیں، ہمارے لیے سیکھنے کے مواقع کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مرتبے کی بلندی ہمارے سیکھنے کے مواقع کم کردیتی ہے۔اس کا ایک بڑا سماجی نقصان بھی ہوتا ہے۔جو لوگ کسی بھی میدان میں سماج کی قیادت کررہے ہیں اور اس کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں، انھیں سب سے زیادہ نئی چیزیں سیکھنے کی اور اپڈیٹ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صرف ان کی ذاتی ضرورت نہیں ہوتی پورے سماج کی اجتماعی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ترتیب مراتب (hierarchy) سب سے زیادہ انھی لوگوں کو سیکھنے کے مواقع سے محروم کردیتی ہے۔اس علمی دور میں یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ ناخواندگی اور جہالت کی طرح نئی چیزوں کو نہ سیکھ پانا بھی آج کے دور میں ایک معذوری ہے۔ یہ صورت حال پوری قوم میں عام ہوجائے تو قومی معذوری بن جاتی ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ہماری یہ قومی معذوری آج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔
مقصد و مشن اور علمی ترقی
امت کی ترقی و تمکین میں مقصد و مشن کے کردار پر ہم اس سے قبل (اشارات، زندگی نو، فروری 2023) گفتگو کرچکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ علمی قوت سے محرومی بھی اصلاً مقصد و مشن کے تصور کے دھندلاجانے ہی کا نتیجہ ہے۔ ہماری تعلیمی تحریکوں میں علم و تعلیم کے مقصد کا تصور بہت کم زور ہے۔ ہم نے عام طور پر یہی پیغام عام کیا ہے کہ جدید تعلیم کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ معاشی ترقی کا زینہ ہے۔ اس سے اچھی ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ گھروں میں خوش حالی آسکتی ہے۔سماج میں عزت و توقیر بڑھ سکتی ہے۔ ہمارے لوگ سرکاری عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں اور دوسرے مسلمانوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
ہمارے علمی و تعلیمی پس منظر کا ابتدائی مرحلہ تو وہ تھا جس میں تعلیم دینی و عصری خانوں میں بٹی ہوئی تھی۔ اور عصری یا فرنگی تعلیم شجر ممنوعہ تھی۔ اب یہ دوسرا مرحلہ ہے جس میں ’عصری تعلیم’ عام تو ہے لیکن عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ محض ذاتی زندگی میں معاشی آسودگی کا ذریعہ اور خوش حالی کا وسیلہ ہے۔جو تعلیم حاصل کی ہے، دفتر سے نکلنے کے بعد اس کا کہیں استعمال ہے تو بس بچوں کو ہوم ورک کرانے میں ہے۔ ایک تعلیم یافتہ سماج جس طرح اپنے مسائل کے حل اور راستوں کی کھوج میں قدم قدم پر علم و تحقیق کے متنوع سرچشموں سے رجوع ہوتا رہتا ہے اور جس طرح نئی تحقیقات، نئے راستوں اور نئے آئیڈیاز کی پیاس اسے مسلسل بے چین کیے رکھتی ہے، اس کا کوئی نام و نشان ہمارے یہاں نظر نہیں آتا۔
یہ نام و نشان اس وقت نمودار ہونے شروع ہوں گے جب ملت کو یہ بتایا جائے گا کہ ہمارا اصل تعلیمی مقصد خیر امت کی تیاری کا فریضہ ادا کرنے کے لیے تیار ہونا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں، انسانوں کے مسائل حل کرنا ہماری دینی ذمے داری ہے۔ ہمیں انجینئرنگ اس لیے پڑھنی ہے کہ انسانی کوششوں کا رخ ہمیں ضرر رساں (یا ایک چھوٹے سے طبقے کی ضروریات کی تکمیل کرنے والی) ٹکنالوجیوں سے موڑکر انسانیت کے لیے مفید ٹکنالوجیوں کی طرف کرنا ہے۔ ہمیں معاشیات اس لیے پڑھنی ہے کہ دولت کی پیداوار اور تقسیم کے توازن کو قائم کرنے والے موثر طریقے اور ماڈل دنیا کے سامنے لانے ہیں۔ دنیا میں ہورہی ہر مفید تحقیق اور ہر مفید علم ہماری متاع گمشدہ ہے۔ اسے نہ صرف ہمیں اپنے اور باقی انسانیت کے فائدوں کے لیے استعمال کرنا ہے بلکہ ان علوم کو آگے بڑھانا ہے۔ ان کی کم زوریوں کو دور کرنا ہے۔ انھیں مالا مال کرنا ہے۔
آج مغربی دنیا والے اس لیے ترقی کررہے ہیں کہ وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور دنیا کے وسائل کے بھرپور استعمال اور اس زندگی کو (جسے وہ واحد زندگی سمجھتے ہیں ) زیادہ سے زیادہ خوش حال بنانے کا مقصد انھیں ہر دم متحرک رکھتا ہے۔ دنیا کی مختلف قوم پرست قومیں اس لیے ترقی کر رہی ہیں کہ ان کے دماغوں میں اپنی اپنی قوموں کو ترقی کی معراج تک پہنچانے اور ‘وشو گرو’ بنانے کا سودا سمایا ہوا ہے۔ ہم اس لیے پس ماندہ ہیں کہ ہمارے معتقدات اور اس دنیا کو بہتر بنانے کی جستجو کے درمیان منطقی تعلق کا شعورہمارے یہاں کم زور ہوگیا ہے۔ حالاں کہ یہ قرآن مجید کا بہت اہم اور مرکزی موضوع ہے۔ قرآن آخرت کی زندگی میں کام یابی کو، اس دنیا کے درست استعمال اور دنیائے انسانیت کی خیر خواہی اور بہتر رہ نمائی ہی پر منحصر قرار دیتا ہے۔ ہماری تعلیم، تعلیمی کاوشوں اور تعلیمی تحریکات کو اب امت کے اصل مقصد پر مرکوز ہوجانا چاہیے۔ یہ ہمارے تعلیمی شعور کی ترقی کا تیسرا مرحلہ ہوگا جس کی تکمیل کے بغیر علمی قوت بروئے کار نہیں آسکتی۔
حواشی و حوالہ جات
[1] (التحقیق) السید الشریف الرضی(1989) نهج البلاغة للامام علی كرم الله وجه؛ مرکز الاشعاع الاسلامی؛ ص 496
[2] عبد الرحمن بن محمد ابن خلدون (2006)مقدمة ابن خلدون (المحقق: عبد اللہ محمد الدرویش)؛ الجزء الاول؛ دار یعرب؛ دمشق؛ ص 137
[3] ابو حامد الغزالی(2011) احیا علوم الدین؛ المجلد الاول؛ دارالمنھاج للنشر والتوزیغ؛ جدة؛ ص 20 تا 119
[4] ملاحظہ ہو شاہ صاحبؒ کی ارتفاقات کی بحث کہ ‘ حکمت’ اور مختلف علوم میں ترقی کے ساتھ کیسے انسان کی تمدنی ترقی ہوتی ہے۔
شاہ ولی اللہ المحدث الدھلوی (2012) حجة اللہ البالغة؛ المجلد الاول؛ دار ابن کثیر؛ بیروت ص144-179
[5] مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (1971) تعلیمات؛ اسلامک پبلیکیشنز لمٹیڈ؛ لاہور؛ ص 52
[6] حوالہ سابق ص 53-56
[7] (التحقیق) السید الشریف الرضی(1989) نهج البلاغة للامام علی كرم الله وجه؛ مرکز الاشعاع الاسلامی؛ ص.526
[8] Foucault, Michel (1998) The History of Sexuality: The Will to Knowledge, London, Penguin.
Michel Foucault (1982) Edited by. COLIN GORDON. Translated by. COLIN GORDON, LEO MARSHALL؛ POWER/KNOWLEDGE. Selected Interviews and Other Writings. 1972-1977; Pantheon Books; New York.
[9] Alvin Toffler(1990) POWERSHIFT: KNOWLEDGE, WEALTH, AND
VIOLENCE AT THE EDGE OF THE 21ST CENTURY; Bantam Books; New York
[10] Ibid see parts I and II
[11] Manuel Castells (2011). The Rise of the Network Society; Wiley Blackwell: Sussex
[12] Manuel Castells (1996). The information age : economy, society and culture; Wiley Blackwell: Sussex
[13] Susan Schneegans ed.(2003) Science in the Information Society; UNESCO Publications; Page 21
[14] The Knowledge Society: The Growing Impact of Scientific Knowledge on Social Relations. Netherlands: Springer Netherlands, 2012.
[15] اس موضوع پر دیکھیں ایک دل چسپ کتاب:
Stiglitz, E Joseph , Bruce Greenwald (2015)Creating a Learning Society: A New Approach to Growth, Development, and Social Progress; Columbia University Press, Columbia.
[16] R.B.Fuller (1981). Critical Path. New York: St. Martin’s Press. as quoted in Paul Chamberlain (2020) Knowledge is not everything, Design for Health, 4: 1, 1-3, DOI: 10.1080/24735132.2020.1731203
[17] D.R. Schilling (2013). “Knowledge Doubling Every 12 Months, Soon to be Every 12 Hours.” Accessed 10 February 2020. http://www.industrytap.com/knowledge-doubling-every-12-months-soon-to-be-every-12-hours/3950
[18] Arif Jinha (2010); Article 50 million: An estimate of the number of scholarly articles in existence in existence. Learned Publishing. 23. 258-263. 10.1087/20100308.
[19] https://www.scimagojr.com/countryrank.php?order=itp&ord=desc &year=2020
[20] https://www.statista.com/statistics/257610/number-of-patent-applications-worldwide/
[21] Robert Escarpit (1982)Trends in Worldwide Book Development; World Congress on Books 1982; UNESCO page 3
[22] https://wordsrated.com/number-of-books-published-per year- 2021/
[23] دیکھیے گوگل کی دل چسپ رپورٹ:
http://booksearch.blogspot.com/2010/08/books-of-world-stand-up-and-be-counted.html
[24] Grand View Research (2021) Global Books Market Size and Industry Trends Report 2022-2030; Grand View Research Inc.; San Francisco.
[25] https://www.grandviewresearch.com/industry-analysis/childrens-young-adult-books-market
[26] درج ذیل جرنل میں شائع شدہ اعداد وشمار سے محسوب کیا گیا ہے۔
https://www.scimagojr.com/countryrank.php?order=itp&ord=desc&year=2020
[27] پیٹنٹ کا ڈاٹا، ورلڈ انٹیلکچول پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO) کی سائٹ پر ایکسیل شیٹ میں دستیاب ہے۔
https://www.wipo.int/publications/en/details.jsp?id=4571&plang=EN
[28]https://en.wikipedia.org/wiki/Books_published_per_country_per_year
[29]̃https://www.tagari.com/how-many-books-are-published-on- amazon/
[30] https://www.aboutamazon.com/news/books-and-authors/the-best-new-books-available-in-kindle-unlimited
[31] https://archive.org/details/texts
[32] https://blog.google/products/search/15-years-google-books/
[33] اس موضوع کو ہم اپنی درج ذیل کتاب میں تفصیل سے زیر بحث لائے ہیں:
سید سعادت اللہ حسینی (2021) سازشیت اور سازشی نظریات؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی
[34] اس عہد کے سائنسی کارناموں اور مسلمانوں کے علمی مزاج کو سمجھنے کے لیے درج ذیل دو کتابیں بہت مفید ہیں:
Ahmad al-Hassan and Donald Hill; Islamic Technology: An Illustrated History (1992);Cambridge University Press; Cambridge
Ehsan Masood (2009) Science & Islam: A History; Icon Books, London.
[35] A. Toffler (1997) Foreword to R.Gibson, Rethinking the Future: Rethinking Business,
Principles, Competition, Control & Complexity, Leadership, Markets, and the
World, London
[36] Jacques Dellors (1998) Learning: The Treasure Within : Report to UNESCO of the International Commission on Education for the Twenty-first Century; UNESCO Publishing; Paris
[37] Neeta Baporikar (2015). Lifelong Learning in Knowledge Society. 10.4018/978-1-4666-9455-2.ch012.
[38] Hans Schuetze, Maria Slowey Ed. (2012) Global Perspectives on Higher Education and Lifelong Learners.Taylor & Francis,; Oxford page 12
[39] Ellen Boeren(2016) Lifelong Learning Participation in a Changing Policy Context: An Interdisciplinary Theory. Palgrave Macmillan UK, 2016.
[40] Ibid pages 38-60
مشمولہ: شمارہ اپریل 2023