جنسیت اور جدید جنسی بیانیہ +LGBTQ

ارتقائی عوامل اور فلسفیانہ بنیادیں

پچھلے مضمون میں جنسیت اور جدید جنسی بیانیے سے متعلق تفصیل سے گفتگو آچکی ہے کہ کس طرح جدید جنسی بیانیے نے عوام کے ذہنوں میں ،پالیسی ساز اداروں میں، تحقیق کے میدان میں روایتی جنسی بیانیے کو پیچھے کردیا ہے اور کس طرح اس جدید جنسی بیانیے نے پوری دنیا میں کم از کم علمی سطح پر ایک طرح کی جنسی انارکی پیدا کردی ہے۔

عام طور پر جدید جنسیت اور اس کی تحریک اور اس تحریک کی غیرمعمولی کام یابی کو اثرات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور اس جانب کم توجہ جاتی ہے کہ اس جدید جنسی بیانیے +LGBTQ کے ارتقائی عوامل کیا رہے اور وہ کون سی فلسفیانہ بنیادیں ہیں جنھوں نے روایتی جنسی بیانیے کے مقابلے میں اس جنسی بیانیے کو قبول عام دلوانے میں مدد کی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جدید جنسیت اور +LGBTQ اور اس قبیل کے تمام ڈسکورس اور ان کے ذریعے پیدا ہونے والے غیر معمولی اور ہمہ گیر اثرات کا کام یاب مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کے عوامل اور فلسفیانہ بنیادوں کا تجزیہ کیا جائے۔ ان کے اندر موجود نظریاتی سقم کو واضح کیا جائے، انسانی تہذیب کے لیے ان کے طویل میعادی اثرات کو واضح کیا جائے، ان کی نظریاتی بنیادوں میں موجود اضافیت کو اجاگر کیا جائے اور ان کی اپسٹیمولوجی کے خلا کو واضح کیا جائے۔

عام طور پر اس پورے ڈسکورس کے حوالے سے ایک عام پڑھا لکھا انسان حیرت میں پڑ جاتا ہےکہ کیا واقعی یہ سب ممکن ہے؟ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ اس پورے ڈسکورس میں موجود اصطلاحات اور ان کی تشریح و تعبیر میں موجود واضح تضادات طرفہ تماشا  ہیں۔

لیکن یہ محض اس لیے ہوتا ہے کہ عام انسان اس پورے ڈسکورس کے ارتقائی سفر کو نہیں جانتا۔ وہ اس ڈسکورس کو فکری غذا فراہم کرنے والی فلسفیانہ بنیادوں سے واقف نہیں ہوتا ۔ ان فلسفیانہ بنیادوں کی علمی کم زوری کے حوالے سے اس کی معلومات صفر ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ ڈسکورس عوام و خواص کو درج ذیل قسموں میں تقسیم کردیتا ہے:

  1. اس ڈسکورس کے ہم نوا اور عملی طور پر اس کو برتنے والے اور اس کی وکالت کرنے والے
  2. اس ڈسکورس کو صحیح سمجھنے والے مگر جنسی اعتبار سے نارمل افراد
  3. اس ڈسکورس کے مخالف، مگر خاموش
  4. اس ڈسکورس کے سلسلے میں سکوت اختیار کرنے والے
  5. اس ڈسکورس کے علمی اور عملی مخالف
  6. سخت گیر مذہبی طبقہ اور اس کے ہم نوا

حالاں کہ مذکورہ بالا تمام اقسام کے افراد اور ان افراد کا مجموعہ (سماج) +LGBTQ کے اس پورے ڈسکورس پر اثر انداز ہوتا ہے ،لیکن ہم یہاں ان سے بحث نہیں کریں گے۔

ذیل میں ان عوامل کا اور ان فلسفیانہ بنیادوں کا جائزہ لیا جاتا ہے جنھوں نے اس ڈسکورس کو اس منزل تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ جائزہ مختصر اور معروضی ہے اور اس موضوع کے حوالے سے اہم ترین عوامل / فلسفیانہ بنیادوں کا تذکرہ کیا جاسکے گا۔ ان عوامل اور فلسفیانہ بنیادوں کی عمومی ترتیب زمانی ہے۔

  1. ڈارون کی اخلاقیات کی تھیوری
  2. کنسے کی تحقیقات اور جنسی اسکیل کی پیش کش
  3. سگمنڈ فرائڈ کے تحلیل نفسی (psychoanalysis)سے متعلق تصورات (جنسیت ہی شخصیت کی تشکیل میں سب سے اہم رول ادا کرتی ہے اور اس قبیل کے تصورات)
  4. یوروپی نشاة ثانیہ (renaissance) اور کرسچین اخلاقیات کا زوال یا اضمحلال
  5. انفرادی حقوق کی تھیوری اور لامحدود شخصی حقوق
  6. جنسی انقلاب
  7. نظریہ اضافت (theory of relativity)کی اخلاقیات تک توسیع
  8. اخلاقی حدود اور اخلاقیات کا ماخذ کے طور پر انکار
  9. انفرادپسندی (individualism)کے غالی تصورات

ڈارون کی اخلاقیات کی تھیوری یا Morality as a byproduct of evolution

اس سے پہلے کہ یہ سمجھا جائے کہ ڈارون کی اخلاقیات کی تھیوری کس طرح LGTBQ+ یا اس قبیل کے تمام رجحانات کو فکری غذا فراہم کرتی ہے، ایک معتدل نقطۂ نظر سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اصل میں ارتقائی اخلاقیات ہےکیا ۔ قارئین کی آسانی کے لیے اسے نکات کی شکل میں آسان لفظوں میں پیش کیا جاتا ہے:

  1. اس تھیوری کے مطابق تمام تر اخلاقیات دراصل انسانی ارتقائی سفر  سے پیدا شدہ ضمنی نتیجہ (by product)ہیں ،کوئی علیحدہ خاصہ (trait) یا خاص طور پر انسان کو دی گئی کوئی خصوصیت یا الہامی سطح پر اسے دیا گیا کوئی اصول نہیں ۔ یعنی انسان سادہ جانداروں سے ارتقا پاکر انسان بنا اور اس پورے سفر کے دوران جب معاشرے وجود میں آنے لگے تو انسان کو اخلاقیات کی ضرورت پیش آنے لگی تاکہ بحیثیت نوع (species)وہ اپنی بقا کو یقینی بنا سکے۔ چناں چہ فطرت نے ان اخلاقی رویوں کو انسان نما جانداروں کے اندر ارتقا پانے کا موقع دیا۔ یہ اجتماعی رویے شکار کرنے، غذا کو بانٹ کر کھانے اور اپنے جھنڈ کی حفاظت کے حوالے سے ارتقا پذیر ہوئے اور ان کے سادہ مظاہر اب بھی چمپانزی، ببون، ایپس اور دیگر جانداروں میں نظر آتے ہیں۔
  2. اخلاقیات کوئی فوق الفطرت شے نہیں ہے۔
  3. اخلاقیات دراصل گروہی فٹنس (group fitness) دیتی ہے۔ گروہی فٹنس سے مراد اجتماعی بقائی مفاد(group survival advantage) ہے یعنی بحیثیت نوع، انسان دوسری انواع کے مقابلے میں ذرائع و وسائل کی بہتر تقسیم کرسکتا ہے۔ اور اس طرح دوسری انواع کے مقابلے میں بہتر طور پر بقا  (survival)پا سکتا ہے۔
  4. اس حوالے سے اخلاقیات اور اخلاقی اقدار مطلق (absolute)نہیں ہیں، بلکہ ان میں ارتقائی اضافیت (evolutionary relativity)پائی جاتی ہے۔
  5. مختصراً یہ کہ ارتقائی اخلاقیات نیچرلسٹک فریم میں تمام تر انسانی اخلاقیات کی تشریح کرتی ہے۔

درج بالا نکات سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ۱۵۰ سال قبل جب ڈارون نے یہ تھیوری پیش کی تھی تب عیسائیت اور اس کے اقتدار کے تحت ظلم و ستم ، اخلاقیات کی آڑ میں ہو رہے منافقانہ اقدام، رہبانیت اور انفرادی خوشی کے سلسلے میں عیسائیت کے غیر فطری، غیرعقلی، غیرمنطقی اور غیر عملی فلسفے سے غیرمطمئن ترقی پذیر اور عبقری ذہن نے ارتقائی اخلاقیات کے دامن میں پناہ لینے اور چین کی سانس لینے میں عافیت سمجھی۔

صورت خداوندی پر انسانی تخلیق (image dei)کا تصور عیسائیت کا اہم نظریاتی ستون ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر بنایا ہے یا اپنی صورت میں تخلیق کیا ہے۔ عیسائیت کے شارحین و مفکرین اس کی تشریح بدنی و روحانی دونوں پہلوؤں کو محیط بتاتے ہیں۔ یعنی خالق کائنات نے انسان کو اپنے اہم اوصاف جیسے اعلیٰ اخلاقی کردار جنس اور نفسانی خواہشات سے پرے ہونے والی صفت اور اس طرح کی دوسری اعلی صفتوں سے مالا مال کیا ہے۔اب اس کو رہبانیت سے جوڑ لیجیے تو جو شکل بنتی ہے وہ یہ ہے کہ ساری نفسانی خواہشات غلط اور ناجائز ہیں، انھیں کچلنا چاہیے۔ عام عیسائی تزکیہ کے اعلیٰ معیار کو تب ہی پہنچ سکتا ہے جب وہ رہبانیت اور نفس کشی کے اس فلسفےپر عمل کرے۔ اس کے بغیر وہ ایک عام انسان تو ہوسکتا ہے جس کے گناہوں کا بوجھ اس کے خدا نے پہلے سے ہی ڈھو لیا ہے اور اب وہ اس احساس جرم کے ساتھ زندگی گزار سکتا ہے کہ وہ جسمانی ونفسانی خواہشات کی گندگی کے ڈھیر میں پڑا ہوا ہے، لیکن تقوی ٰکے اعلی ترین معیار پر وہ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس طرح اس عام عیسائی میں ایک طرح کی تشنگی ہمیشہ باقی رہتی ہے کہ وہ تقویٰ اور خدا کے قرب کے حوالے سے صرف ایک خاص سطح تک ہی پہنچ سکتا ہے، اس سے آگے نہیں۔ اگر وہ شادی شدہ ہے، جنسی طور پر فعال ہے اور جنسی مسرت حاصل کرتا ہے تو تقویٰ اور خدا ترسی کے ایک محدودمعیار تک ہی جاسکےگا۔ اس سے آگے جانے کے لیے اسے رہبانیت کا راستہ ہی اختیار کرناپڑے گا۔

چناں چہ ریناساں والے عام ذہن نے اس غیر معقول مذہبی عقیدے کو پس پشت ڈال دیا اور اشرافیہ ذہن نے اس سے مکمل بغاوت کی اور اس کے مقابلے میں ایک آزادانہ اخلاقیات کی تشکیل کی وکالت کی، جہاں جنسی تلذذ، جنسی خوشیوں اور جنسی آزادیوں کے بھرپور مواقع ہوں، کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہ ہو، ضابطوں اور حدود کی بات نہ ہو اور کسی قسم کی کوئی شرط یا بندھن نہ ہو۔ چناں چہ اس مسلک نے انسانوں کے ضمیر کو اس بات پر مطمئن کیا کہ وہ محض دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور ہیں، لیکن سماجی جانور ہیں۔ ان کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے اور انھیں کسی خاص طریقے سے خاص مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ اس لیے وہ جنسی طور پر بھی آزاد ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ +LGBTQ اور اس طرح کے دوسرے تصورات نے عیسائی جنسی بیانیے کے مقابلے میں عوامی شعور میں بہت آسانی سے اپنی جگہ بنالی۔

سگمنڈ فرائڈ کی تھیوریاں اور جنسیت  مرکوز تحلیل نفسی

سگمنڈ فرائڈ مشہور و معروف آسٹرین سائیکو انالسٹ تھے۔ جنس سے متعلق ان کے تصورات اور جنسیت مرکوز تحلیل نفسی (sex-centric psychoanalysis) اور اس سے متعلق ان کی تھیوریوں کو گو کہ قبول عام حاصل ہوا ہے لیکن بہت سارے محققین کے نزدیک ان کی تھیوریاں یا ان کے مشاہدات میں خامیاں تھیں۔ سگمنڈ فرائڈ نے انسان کی تحلیل نفسی میں جنسیت کو مرکزی محور بنایا اور جنسیت کو سب سے طاقتور محرک کی حیثیت میں پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ انسان کی شخصیت اور اس کے رویے دراصل جنسی محرک کے تابع ہوتے ہیں۔ اس کی شخصیت کے ارتقا میں ان کا غیر معمولی رول ہوتا ہے۔

اس تجزیے کو ڈارون کی تھیوری کے اس نکتے سے بہ آسانی جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے، جس کے تحت تمام انواع بشمول انسان اپنی نسل کو آگے بڑھانے کے لیے تنازع للبقا  (survival of the fittest)کے اصول پر عمل پیرا رہتے ہیں، اس کے لیے جد و جہد کرتے ہیں، اس کے لیے مقابلہ کرتے ہیں اور اس کے لیے جنسی طور پر زیادہ سے زیادہ فعال رہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افزائش نسل کر سکیں اور اپنی نوع کی بقا کو یقینی بنا سکیں۔

چناں چہ اصل بات یہ ہے کہ انسان بقا کی خاطر غیرمعمولی جنسی محرک سے ہم آہنگ(adapt) ہوچکا ہے یا ہوتا ہے۔ جنسیت پر اس غیر معمولی زور نے اور ڈارون اور سگمنڈ فرائڈ کی اس وقت کی تھیوریٹیکل اپیل نے عوام اور خواص دونوں کے ورلڈ ویوکو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا اور جنس کو ایک بہت زیادہ اہم عنصر یا  قوت محرکہ کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ بعد کے ادوار میں ڈارون کی اخلاقیات کی تھیوری اور فرائڈ کی تحلیل نفسی کی تھیوری دونوں پر بہت ساری علمی تنقیدیں ہوئیں۔ان کے بعض نکات تو کامل طور پر غلط ثابت ہوئے۔ لیکن علمی دنیا میں جنسیت اور اس سے متصل متبادل جنسی رویوں پر تحقیق کو آگے بڑھایا گیا اور جنسی دوئی کے باہر کے تمام رویوں جیسے مردانی ہم جنسیت (homosexuality) یا زنانی ہم جنسیت (lesbianism) اور اس سے جڑے گناہ کے تصور کو فرسودہ اور عیسائی قدامت پرستی سے تعبیر کیا گیا۔ یہی صورت دیگر تمام جنسی انحرافی رویوں کے لیے بھی اختیار کی گئی۔

حالاں کہ سگمنڈ فرائڈ کے مشاہدات میں درج ذیل ایسے نقائص ہیں جو سائنس کی تحقیق کے بنیادی اصولوں سے براہِ راست ٹکراتے ہیں:

  1. سگمنڈ فرائڈ نے اپنے مشاہدات / تھیوریوں کی بنیاد بس دو تین ذہنی مریضوں پر رکھی جو ان کے مطب میں تحلیل نفسی کے لیے آتے تھے۔ سائنسی تحقیق میں کسی بھی مشاہدہ کے لیے ایک خاص تعداد کا ہونا ضروری ہے۔ ایک دو یا دس کی تعداد سائنسی تحقیق میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔
  2. سگمنڈ فرائڈ کے پیش کردہ تصور تحت الشعور (subconscious)کو مروجہ سائنسی طریقہ تحقیق کے ذریعے سے نہ تو ثابت کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا کامل انکار ممکن ہے ۔اس لیے بالاصل یہ پورا تصور بے معنی ہوجاتا ہے۔حالاں کہ اس کے قوی امکان موجود ہیں کہ تحت الشعور بہت سارے عوامل سے شکل پذیر ہو سکتا ہے۔
  3. سگمنڈ فرائڈ کے ذریعے دیے گئے تصورات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ حالاں کہ خواب اور اس کی تعبیر اور شخصیت اور خواب کے حوالے سے ان کے بعض تصورات کو محققین قبول کرتے ہیں۔ لیکن یہ اب بھی ادھورے اور ناقص مشاہدات ہی مانے جاتے ہیں۔
  4. سگمنڈ فرائڈ نے شخصیت اور جنسیت کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے اسے دور جدید میں ہورہی جنسیاتی تحقیقات نے چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ مثلاً شخصیت کی تعبیر و تشریح میں جنسیت کے علاوہ سیکڑوںدیگر عوامل جو کم و بیش جنسیت جتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں، وغیرہ۔

چناں چہ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ سگمنڈ فرائڈ کی شخصیت سے متعلق تھیوریوں اور مشاہدات میں واضح خامیاں ہونے کے باوجود انھیں ڈھویا جاتا ہے! کیوں؟ کیوں کہ یہ ایک فطرت پرستانہ (naturalistic)تعبیر کائنات / دنیا کی اسکیم میں بہت اچھی طرح فٹ بیٹھتے ہیں۔

جنسیت پر غیر معمولی زور سے جو رجحان پیدا ہوا اس کی بنا پر جنسیت کے ہر رنگ، ہر طریقے، ہر طور کو اہمیت دی جانے لگی، حالاں کہ بنیادی طور پر اس حقیقت سے آنکھ موندی گئی کہ جنسیت کا محرک اور تنازع للبقا اپنی نسل کے آگے بڑھانے، اپنا ڈی این اے بچانے اور اپنی نوع کو باقی رکھنے کے لیے ہے۔ اگر یہ ارتقائی مقصد پورا نہ ہورہا ہو تو جنسی دوئی (gender binary)کے باہر جتنے انحرافی رویے ہیں ان کا کیا فائدہ؟ جدید جنسی بیانیہ اس کی کوئی وضاحت نہیں کرپاتا کہ جنسی دوئی کے باہر سارے جنسی انحرافات جیسے +LGBTQ اگر نسل کی بقا کی ضمانت نہیں ہیں تو اس کی فطرت پرستانہ یا ڈاروینیت پسندانہ تشریح کیا ہے؟ اس ضمن میں جو ایک دو تھیوریاں آئی ہیں وہ اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ کسی علمی محاکمےکے لائق بھی معلوم نہیںہوتی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ دو ہم جنس مل کر اپنے بھانجوں اور بھتیجوں کے لیے بہتر بقائی فائدہ (survival advantage)دیتے ہیں!! چہ معنی دارد؟ وہ اس طرح اپنے نصف جین کی حفاظت کرتے ہیں ! بھانجوں اور بھتیجوں میں آدھا ڈی این اے باپ کی طرف سے آتا ہے۔ اس سے بہتر ہوتا کہ وہ اپنے ڈی این اے کی مکمل حفاظت کرلیتے۔ یہ ارتقائی فائدے کے حوالے سے زیادہ قابل قبول دلیل ہے۔ لیکن بہرحال اس طرح کی کم زور اور نیم سائنسی دلیلوں سے جنسی انحرافی رویے جیسے مرد ہم جنسیت، زنانی ہم جنسیت، اور اس طرح کے جنسی دوئی سے باہر کے رویوں کو درست ٹھہرانے اور انھیں علمی غذا فراہم کرنے کی کوششیں تیز سے تیز تر ہونے لگیں۔

نسبتاً معتدل محققین نے بھی مذہب کے ذریعے‌ دیے گئے جنسی دوئی کے نظریے کو از کار رفتہ سمجھا۔مذہب کی بنیاد پر سماج میں رائج جنسی دوئی والے مروجہ (normative)بیانیے کی خاموش مخالفت کی جنسیت کے جدید فلسفے اور منحرف جنسیت کی خاموش تائید کی یا علی الاعلان اسے منظوری دی۔ اس طرح سے ڈارون کی ارتقائی اخلاقیات اور سگمنڈ فرائڈ کے تحلیل نفسی کے جنسیت مرکوزتصورات نے مل کر +LGBTQ بیانیے کے لیے سازگار علمی فضا فراہم کی۔

یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت منحرف جنسیت، مرد ہم جنسیت اور عورت ہم جنسیت تک ہی محدود تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ ان بین جنسی افراد تک، جن میں طبی طور پر مرد و عورت کے ظاہری جنسی خصائص موجود ہوتے ہیں (یعنی مردانہ اور زنانہ خاصیتیں)۔

بعد کے ادوار میں اس میں مختلف جنسی انحرافی رویے داخل ہوتے چلے گئے۔

مغرب کی ان دو عبقری شخصیات ڈارون اور سگمنڈ فرائڈ کے بعد +LGBTQ ڈسکورس میں تیسرا سب سے اہم ترین رول اس عمل کا ہے جسے عام طور پر ہم کرسچین اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات کے زوال کے حوالے سے ذکر کرنا چاہیں گے۔

کرسچین اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات کا زوال:

اس سے قبل کہ اس نکتے پر آگے بڑھا جائے، قارئین سے عرض ہے کہ

  • یہاں کرسچین اخلاقیات کا مکمل تجزیہ یا تنقید یا اس کے دیگر اثرات کا تذکرہ مقصود نہیں ہے۔
  • کرسچین اخلاقیات اور عملی طور پر اس وقت کی سوسائٹی میں رائج منافقت یا اخلاقیات کے حوالے سے بے چینی سے بھی صرف نظر کیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرف تو یہ اخلاقیات عوامی اخلاقی بہتری کی بات کرتی تھیں دوسری طرف ایسی پالیسیاں بنائی گئی تھیں کہ بچہ مزدوری، غربت، اور قحبہ گری بالکل عام ہوجائے، اور وہ ہو بھی گئی۔
  • کرسچین اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات کے زوال کے اسباب کی تفصیل سے بھی صرف نظر کیا گیا ہے۔ صرف ان ہی باتوں کی ہلکی تفصیل بیان کی گئی ہے جو اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان نکات کی تفہیم کے بعد اس نکتےکے تحت مختصراً اس پر روشنی ڈالی جائے گی کہ جنسی انحرافی بیانیے یا جدید جنسی بیانیے کے لیے کرسچین اخلاقیات یا وکٹورین اخلاقیات نے کس طرح بحیثیت ایک اہم عنصر کے اپنا رول ادا کیا ہے۔

سادہ الفاظ میں کرسچین اخلاقیات عام طور پر درج ذیل نکات پر مبنی ہے:

  • انفرادیت کو اجتماعیت کے لیے قربانی دینا چاہیے۔ یعنی سوسائٹی اور اس کا نظم فرد سے بلند ہے۔
  • جنسیت کا دائرہ صرف مرد و عورت کو محیط ہے۔
  • خاندان سماج کی اور انسانی تہذیب کی اکائی ہے۔ اس لیے ایک مرد اور ایک عورت کی سب سے اہم ذمہ داری انسانی تہذیب کی اکائی کو بچانے کی ہے۔ جنسی تلذذ یا جنسی خوشی ثانوی چیز ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں، لیکن +LGBTQ کے ارتقا میں مذکورہ بالاتین اخلاقی بنیادیں سب سے اہم ہیں۔

1900-1905 کے آس پاس یعنی بیسویں صدی کے آتے آتے ان اخلاقی نظریات اور ان کی مذہبی بنیادوں نے دم توڑنا شروع کردیا تھا۔ چودہویں صدی میں اٹلی میں شروع ہوئی نشاة ثانیہ (renaissance)کی تحریک نے سترہویں صدی کے آتے آتے جدیدیت کا بیج بودیا تھا۔ اور اس کے برگ و بار بہت جلد دیکھنے کو ملنے لگے تھے۔ جدیدیت نے رہی سہی کرسچین اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا اور اس کے بعد مذہب اور اس کے اصولوں کی حیثیت اجتماعی زندگی میں، اجتماعی فیصلوں میں، اجتماعی رویوں میں اور اجتماعی اداروں میں ثانوی درجہ کی بھی نہ رہی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر وہ اصول جو مذہب سے اخذ کردہ تھا وہ قابل ِنفرت، قابل ِرد اور قابل ِتضحیک سمجھا گیا۔ جنسیت کے حوالے سے عیسائی بیانیے کے باعث یہ سب دوآتشہ ہوگیا۔ اور ہم جنسیت اور اس سے جڑے تصورات کے سلسلے میں خواص کا موقف تبدیل ہونے لگا۔ پہلے یہ قابل ِتعزیر جرم تھا۔ پھر بتدریج اس کے قابل ِتعزیر ہونے میں اختلاف شروع ہوا۔ پھر اس کے بعد اس سے جڑی کراہیت میں کمی آنے لگی۔ اور دھیرے دھیرے عوام میں اسے قبول کرنے کارجحان بڑھنے لگا۔

اسی رجحان سے متصل وہ دورانیہ آتا ہے جب حقوق انسانی کی مہم تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حقوق ِانسانی کی صورت ِحال یوروپ اور امریکہ میں کیا تھی۔ کھلے عام غلاموں کی تجارت اور ان سے جانوروں سے بدتر سلوک، غلاموں کی جان کی قیمت محض چند کرارے نوٹ، عورتوں کا ہر سطح پر استحصال، عورتوں کو حق رائے دہی (یعنی ووٹ دینے کے حق) سے محروم رکھنا، بلکہ اس کی اجازت تک نہ ہونا۔ ایسے سیکڑوںعوامل نے مل کر حقوق انسانی کی اس تحریک کو جنم دیا جس کے اثرات ساری دنیا میں دیکھنے کو ملے۔

انفرادی حقوق کی تھیوری اور لامحدود شخصی حقوق

یہاں انفرادی حقوق کی تھیوری سے مراد کوئی مربوط و منضبط تھیوری نہیں ہے ،بلکہ وہ تصورات مراد ہیں جو انفرادی حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے عام ہیں۔ جن کی رو سے عوام اور خواص دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں:

  • پہلا، جو لامحدود شخصی حقوق اور انتہائی انفراد پسندی (extreme individualism) کے قائل ہیں۔
  • دوسرا، جو محدود انفرادی حقوق اور محدود انفراد پسندی (limited individualism) کے قائل ہیں۔

لامحدود انفرادی حقوق کے قائل افراد سوسائٹی کو ماورائی بیانیہ (metanarrative) یا سب سے بڑا جھوٹ مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فرد جو چاہے کرے، جیسا چاہے ویسا  رہے، اس کے لیے کوئی ضابطہ، کوئی فلسفہ، کوئی ادارہ، کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔

لیکن یہ احمقانہ بات ہے کیوں کہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا ضابطے، فلسفے اور ادارے کے بغیر نہیں چل سکتی۔ چناں چہ یہ محض دیوانے کی بڑ ہے کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔

محدود انفرادی حقوق کے قائلین میں دو مزید شاخیں ہوجاتی ہیں۔ ایک وہ جو انفرادی حق کو اجتماعی فائدے کے لیے قربان کردیں، دوسرے وہ جو ایسا نہیں کرتے یا مانتے ہیں۔

+LGBTQ کے ارتقا میں لامتناہی انفرادی جنسی حقوق کے تصور نے بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کے مطابق فرد کا جنسی حق اجتماعی فائدے، جیسے عوامی اخلاقیات پر اثر، خاندانی نظام، یا انسانی تہذیب کی اکائی ’’خاندان‘‘ کو آگے بڑھانے جیسے اجتماعی فائدے سے بلند ہے اور کسی فرد کو انفرادی جنسی حق اور تلذذ کو ان تمام فائدوں کے لیے ترک نہیں کرنا چاہیے۔ فرد کے لیے خود کو اجتماعی فائدے کے لیے محدود کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

جدید دور میں اس کی جھلک ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ (My body My choice) اور اس طرح کے دوسرے نعروں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن لامحدود جنسی حقوق یا لامحدود انفرادی حقوق کا کھوکھلا پن واضح ہے۔ اور سب یہ جانتے ہیں کہ یہ محض ایک دھوکا ہے۔ فرد جو چاہے کرے۔ یہ ایک ایسا کھلا نظام ہے جو ساری دنیا کو انارکی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ لیکن پھر جنسی انحرافات پر اس کا اطلاق کیوں کیا جاتا ہے؟ اجتماعی فائدے اور انفرادی حق میں فرد کے حق کو اجتماعی فائدے کی موت پر کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟

دراصل اصل مسئله فریم یا کسوٹی کا ہے! صرف انسانی عقل جو فریم یا کسوٹی دے رہی ہے اس کی رو سے انفرادی حقوق کی محدودیت اور اس کی چہار دیواری کا فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ کیوں کہ ایسی کسوٹی جو زیادہ تر یا تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو اس کا ارتقا کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اور ایسا ہو بھی گیا تو اس کے لیے ایسی مضبوط اور پائدار بنیادیں جو زمان و مکان کے فکری لینڈ اسکیپ سے پرے بھی ہوں اور انسانی عقل کو اپیل بھی کرتی ہوں ان کا لانا مشکل ہے۔ سیکولر ہیومنزم کا تجربہ ناکام یاب ہوچکا ہے۔ ساری دنیا میں جاری ہر سطح کی افراتفری اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ ایسی کسوٹی کی غیرموجودگی نے یا اس کسوٹی کی اضافیت نے فرد اور معاشرے کو ’’عقل محض‘‘ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اور جنسیت کے حوالے سے ہر قسم کے جنسی رویہ کے لیے راہ ہم وار کردی۔

اس طرح +LGBTQ ڈسکورس کے ارتقا کے سب سے اہم عوامل میں سے ایک یعنی لامحدود انفرادی جنسی حقوق کی اہمیت نمایاں ہوگئی۔

اگلی قسط

مشمولہ: شمارہ اگست 2022

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223