پچھلے مضمون میں میں ایل جی بی ٹی کیو پلس اور اِس کے ارتقائی عوامل اور فلسفیانہ بنیادوں میں سے چار کا تذکرہ کیا گیا تھا جو درج ذیل ہیں۔
- ارتقائی اخلاقیات Evolutionary Ethics
- سگمنڈ فرائڈ کی تھیوری جس میں جنسیت کو محوربنا کر تحلیل نفسی کی جاتی ہے۔
- نشاة ثانیہ اور کرسچن اخلاقیات کا اضمحلال
- انفرادی حقوق کی تھیوری اور لامحدود شخصی حقوق
اس کے بعد اب کچھ اور عوامل اور فلسفیانہ بنیادوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ایل جی بی ٹی کیو پلس کی تحریک آج اس مقام تک پہنچی ہے۔
لامحدود انفرادیت اور اس کے کھوکھلے فلسفے سے پیدا ہونے والے لامحدود انفرادی جنسی حقوق کے فلسفے نے اس منظرنامے (phenomenon)کو جنم دیا ہے جسے جنسی انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جنسی انقلاب
+LGBTQ اور اس سے جڑے تصورات کو ان کی موجودہ شکل تک پہنچانے میں جنسی انقلاب کا غیرمعمولی رول رہا ہے۔۔ولہم ریش (Wilhelm Reich) اس لفظ کا موجد ہے۔ اس نے قدیم جنسی اخلاقیات کے خاتمے پر زور دیا۔ خاندان کو جبر کے ادارہ سے تعبیر کیا۔ اور اس تصور کو فروغ دیا کہ خاندان اور اس سے جڑے تصورات دراصل فرد کی آزادی چھین لیتے ہیں، اس کے لیے حقیقی خوشی کے حصول کو ناممکن بنا دیتے ہیں اور اسے اخلاقیات کے غیر ضروری دائرے میں جکڑ دیتے ہیں۔[1] اس کے ہی ہم عصر ہربرٹ مارکیوکس نے ضبط نفس (self-restraint) اور تزکیہ اور جنسی خواہشات کے کنٹرول کا مذاق اڑایا اور اسے ایک غیرضروری شے سے تعبیر کیا۔ اس نے سماج کو جبر کے آلہ کے طور پر پیش کیا۔ اس کے مطابق ایک آزاد اور خودمختار سوسائٹی میں جنسیت بھی خودمختار ہونی چاہیے۔[2]
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہیو ہیفنر (Hugh Hefner – پلے بوائے بزنس امپائرکا بانی) نے بھی کھلی جنسیت، لامحدود جنسی تلذذ اور جنسیت کے روایتی طریقے کی تردید جیسے تصورات کو خواص اور علمی حلقوں سے نکال کر عام امریکی تک پہنچا دیا۔ پلے بوائے میگزین سے کون واقف نہیں ہے۔ اس کی فلسفیانہ جڑوں میں اور اس کے لانچ سے لے کر آج تک اس میگزین نے شادی، پیرنٹ ہڈ اور خاندان اور حدود کے پابند جنسی تلذذ کے تصورات کو بری طرح مسخ کیا۔ ان کا مذاق اڑایا اور ایک خاص فحش، عریاں اور غیرت کش لٹریچر کو فروغ دیا جو سماج اور خاندان کی اکائی کےلیے انتہائی مضر تصورات پر مبنی تھا جس میں +LGBTQ کے تمام تصورات شامل ہیں۔
جنسی انقلاب نے امریکہ اور یوروپ کی سماجی اور خاندانی نظام کو درہم برہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے اثرات صرف وہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ ماس میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی بر اعظم ایشیا اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئے۔ چناں چہ وہ تمام تہذیبیں جن کی اخلاقی بنیادوں میں کوئی دم نہیں تھا۔ وہ اس انقلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ ان تصورات کو رد کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی انٹلکچوئل بیس ہی نہیں تھا۔ چناں چہ پہلے ان کے خواص نے (جو علمی اور سیاسی حلقوں اور دیگر سماجی مراکزِ قوت پر مشتمل ہوتا ہے) سب سے پہلے جنسی انقلاب کے ذریعے دیے گئے ان تصورات کو اپنے زیر اثر عوام میں رائج ہونے دیا اور پھر عوام نے جنسی انقلاب کے ذریعے دیے گئے تصورات کو من و عن قبول کرلیا۔ یہ تصورات کیا تھے؟ آزادانہ جنسی رویے، غیرمحدود جنسی تلذذ اور یہ کہ جنسیت صرف مرد و عورت یا مذکر مؤنث نہ ہوکر سیکڑوں اقسام پر مشتمل ہوسکتی ہے، فرد کو جنسی تلذذ کے لیے کسی قانون و ضابطے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ ہم جنسیت اور دیگر تصورات جنس عام جنسی رویے سے انحراف نہیں ہیں بلکہ یہ ایک عام اور فطری بات ہے۔یعنی نر اور مادہ کی جنسیت سے پرے جتنے بھی دوسرے جنسی انحراف کے رویے ہیں وہ سب کے سب فطری ہیں ان میں کوئی بری بات نہیں ہے۔
جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور ہے۔
اوپر دیے گئے تصورات کے لیے جس نام نہاد سائنسی تحقیق کو بنیاد بنایا گیا وہ کنسے (Kinsey) کی سروے والی تحقیقات ہیں۔
چارلس۔ سی۔ کنسے اور جنسی رویہ
چارلس سی کنسے +LGBTQ کے عالمی سرخیلوں میں سے ایک ہے۔ وہ انڈیانا یونیورسٹی میں زولوجی کا پروفیسر اور محقق تھا۔ بعد میں اسے چھوڑ کر اس نے کنسے انسٹیٹیوٹ کو قائم کیا۔ (یہ انسٹیٹیوٹ انسانی جنسی رویوں پر تحقیق کے لیے مشہور و معروف ہے۔) انڈیانا یونیورسٹی میں کنسے کی تحقیق کا موضوع ‘‘انسانی جنسی رویہ’’ تھا۔ پہلی بار اس نے اپنے دو محقق ساتھیوں وارڈل بی یومیرائے اور پال۔ ایچ۔ گیب ہارڈ کے ساتھ مل کر دو کتابوں کی شکل میں اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کیا۔ یہ کتابیں درج ذیل ہیں۔
1- انسانی نر کا جنسی رویہ (sexual behavior in the human male)[3]
- انسانی مادہ کا جنسی رویہ (sexual behavior in the human female)[4]
حالیہ دور میں کنسے نامی فلم بھی بنی ہے۔ اور کنسے انسٹی ٹیوٹ اب بھی جنسی رویوں کی تحقیق کا کام جاری رکھے ہوئے ہوئے۔
ان دو کتابوں نے +LGBTQ بیانیے کے لیے بائبل کی حیثیت اختیار کرلی۔ دوسرے لفظوں میں ان کتابوں کے نتائج نے جدیدیت کے غیرمعمولی جنسی ڈسکورس کو ضروری فکری غذا فراہم کی۔ 1948 اور 1953 میں بالترتیب منظر عام پر آئی ان دو کتابوں نے پہلے سے موجود Volatile سماجی ڈسکورس میں غیرمعمولی ہل چل پیدا کی۔ پہلی بار علمی حلقوں میں ان کتابوں کے ذریعے جنسی دوئی کے باہر موجود جنسی رویوں کے بارے میں اعداد و شمار پیش کیے گئے تھے۔
یہ اعداد و شمار مرد ہم جنسیت، عورت ہم جنسیت، وغیرہ سے متعلق تھے۔ اس تحقیق کے مطابق امریکی معاشرے میں مرد ہم جنسیت کا تناسب 10 فیصد سے بھی زیادہ بتایا گیا اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ بالکل نارمل اور فطری بات ہے کیونک دس فیصد مرد اس میں مبتلا ہیں۔اس کے علاوہ دوسری کتاب میں عورت کی ہم جنسیت کے تعلق سے بھی اسی طرح کے اعداد و شمار پیش کیے گئے مزید انسانی جنسی رویے کے تحت بہت ساری ایسی باتیں پیش کی گئیں جنھوں نے امریکی معاشرے کو چونکا دیا۔[5]
ان کتابوں کے نتائج نے امریکی معاشرے میں غیر معمولی علمی ہل چل کو جنم دیا۔ جنسیت، جنسی دائرے، جنسی تعلقات اور جنسی تلذذ کے حوالے سے جو پرانے تصورات تھے ان پر بڑی کاری ضرب لگی حالاں کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جنسی رویوں پر تحقیق کے حوالے سے خود کنسے اور دوسرے محققین نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ یہ تحقیق کی اپنی کمیاں ہیں ہے، اس کا اسکوپ محدود ہے اور یہ کہ اس تحقیق کو پوری دنیا میں موجود انسانی جنسی رویوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن لیکن بہت سارے ایسے ذاتی مفادات (vested interest) والے افراد اور تنظیمیں تھیں جنھوں نے اس پوری تحقیق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ مزید یہ کہ اس تحقیق میں بہت ساری تکنیکی خامیاں بھی ہیں۔ کنسے کی تحقیق پر تنقید کا ایک وسیع لٹریچر موجود ہے۔ اس میں سے بعض اہم نکات کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ کنسے نے خود اعتراف کیا کہ ان کے یہ نتائج زیادہ سے زیادہ سفید فام، انڈیانا، امریکہ میں رہنے والے افراد کے حوالے تک ہی رکھے جاسکتے ہیں۔[6]
۲۔ کنسے کے ذریعے کی گئی تحقیق میں استعمال کیا گیا سیمپلنگ کا طریقہ شماریاتی سائنس کے معیارات سے ٹکراتا ہے۔[7]
۳۔ کنسے نے عادی مجرم یا ماضی میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کا بھی سیمپل لیا تھا جو کافی بڑا تھا بعض محققین نےاسے 25 فیصد بتایا ہے۔ مزید یہ کہ ان میں قحبہ گری کا پیشہ کرنے والے مرد بھی شامل تھے۔
۴۔ اگر کنسے اور ان کی ٹیم کے ذریعے تیار کردہ سوالات کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ زیادہ تر سوالات کی ساخت ایسی رکھی گئی تھی کہ مثبت جواب ہی آئے۔
۵۔ اس تحقیق میں استعمال کردہ نمونہ نمائندہ نمونہ (representative sample)نہیں تھا۔ یعنی اس تحقیق میں ایک طرح کی انتخابی جانب داری (selective bias)سے کام لیا گیا ہے۔
۶۔ کنسے کے ذریعے دیے گئے ڈیٹا کو اب تک تجربے سے دوبارہ نہیں گزارا (replicate) جاسکا۔یعنی دوسری آزادانہ تحقیقات میں مرد ہم جنسیت کا وہ تناسب نہیں ملا جو کنسے نے بتایا تھا مثلاً کنسے نے اپنی کتاب میں مرد ہم جنسیت کا تناسب 10% بتایا ہے یعنی تمام مرد آبادی کا 10% حصہ ہم جنسیت میں مبتلا ہے، لیکن بہت ساری تحقیقات میں یہ تناسب انتہائی حد تک کم پایا جاتا ہے۔[8] چناں چہ کنسے کا یہ بنیادی مقدمہ ہی غلط ہوجاتا ہے کہ مرد ہم جنسیت کا اتنا زیادہ تناسب یہ بتاتا ہے کہ یہ فطری اور نارمل ہے، استثنائی معاملہ نہیں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس تناسب کو مین اسٹریم میں مرد ہم جنسیت کو فروغ اور قبول عام دلوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مزید یہ بات کہ تمام دنیا کی بیشتر مختلف آبادیوں میں اس تناسب کی کوئی اسٹڈی موجود ہی نہیں ہے جو کچھ ہے وہ extrapolation ہے۔ یعنی کسی آبادی کے ڈیٹا کو دوسری آبادی پر قیاس کرنا۔
۷۔ اسی طرح کنسے کی دوسری کتاب میں پیش کردہ تحقیقی نتائج میں بعض کی تصدیق(validation) کی جا سکی، مثلاً خواتین میں جنسی تلذذ اور اس قبیل کے دوسرے پہلو، لیکن منحرف جنسی رویوں کے نتائج میں وہی مشکل درپیش آئی جو مرد ہم جنسیت میں پیش آئی تھی۔اور منحرف جنسی رویے جیسے مرد ہم جنسیت اور عورت ہم جنسیت و غیرہ پر متفرق نتائج ہی سامنے آئے۔[9]
اوپر دی گئی تمام تر خامیوں کے باوجود انسانی جنسی رویوں کے متعلق ہوئی اس تحقیق کی آڑ لیتے ہوئے +LGBTQ بیانیے نے اسے درست ٹھہرانے (legitimize) کے لیے استعمال کیا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ کنسے کی تحقیق نے انسانی جنسی رویہ کے متعلق بہت سارے انکشافات کیے، جن کی اپنی اہمیت ہے لیکن بہر حال وہ ایک سروے کی بنیاد پر ہوئی تحقیق تھی۔ اس کی اپنی محدودیتیں تھیں۔ اس میں موجود سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ تاحال دہرائی (replicate) نہیں کی جاسکی۔ اس لیے اس تحقیق کو بنیاد بنا کر ایک مخصوص ورلڈ ویو کے پروموشن کے لیے اسے استعمال کرنا ایک سائنسی بددیانتی تھی۔ جو نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن عملاً ایسا ہوا۔
جدید جنسیات میں ہو رہی تحقیقات نے کنسے کے بہت سارے بنیادی مفروضات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ (اگلے مضمون میں ان شاء اللہ اس پر تفصیل آئے گی)۔ بطور خاص سالماتی حیاتیات اور نفسیاتی جینیات میں ہو رہے حیران کن انکشافات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا کنسے نے فرض کرلیا تھا۔
آئنسٹائن کی اضافیت تھیوری کی اخلاقیات تک توسیع
بیسویں صدی اس اعتبار سے انسانی تاریخ میں جداگانہ حیثیت سے یاد رکھی جائے گی کہ اس دور میں معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ مذہب اور اس سے جڑے پہلوؤں کو یا تو مشکوک بنا دیا گیا یا اس کا انکار کردیا گیا۔ چاہے وہ مذہب جس شکل میں بھی موجود رہے ہوں۔ اسی طرح یہ صدی سائنس کو سیاسی و اقتصادی مفادات میں استعمال کیے جانے کے لیے بھی جانی جائے گی۔ جس کی سب سے واضح مثال آئنسٹائن کی اضافیت کی تھیوری ہے۔ کائنات کو سمجھنے کی کوشش میں آئنسٹائن کے ہاتھ لگے گوہر نایاب “اضافیت کی تھیوری” کا اطلاق سماجی ساخت اور سماجی رویوں تک کردیا گیا۔ اخلاقیات کے سلسلے کہا جانے لگا کہ یہ بھی اضافی ہے۔ یعنی مسلم اخلاقی قدروں کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ یہ سماج کی کنڈیشننگ اور دیگر ساختیاتی عوامل (structural factors)کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔ جنسی تلذذ اور جنسی رویہ بھی اضافی ہے۔ ایک شخص کو ایک طریقہ، ایک منہج، ایک نتیجہ پسند ہوسکتا ہے دوسرے شخص کے لیے وہ بیکار ہوتا ہے یا اس کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔اخلاقیات،مذہب، اقدار،اعلیٰ انسانی قدریں سب کی سب اضافی ہے!! چناں چہ اگر سب کچھ اضافی ہے تو اس کے لیے اپنے آپ پر بندش لگانے کی کیا ضرورت ہے؟
دراصل تنوع کو اضافیت کے عدسے (lens)سے دیکھنا اصل مسئلہ ہے۔ +LGBTQ کے ارتقا اور اس ڈسکورس کی کام یابی میں اس نکتہ کا بڑا اہم رول ہے۔ جب اخلاقی اقدار مسلّمہ (absolute) نہیں ہیں تو اضافی ہیں اور پھر جنسی اقدار بھی اضافی ہی ہوئیں۔ جب وہ اضافی ہیں تو فرد جنسی دوئی سے باہر اپنے اپنے اندر موجود جس جنسی انحراف کے لیے کشش پاتا ہے وہ اختیار کر لے۔ کیوں کہ جنسی اقدار جیسے مرد و عورت اور ان کا آپس میں ایک دوسرے سے جنسی لطف حاصل کرنا اور اخلاقی اقدار جیسے شادی یا نکاح کا شرط مطلوب (prerequisite) ہونا وغیرہ، سب اضافی ٹھہرا۔
حالاں کہ یہ ایک مغالطہ ہے۔ اضافیت کی تھیوری دراصل کائنات کے معلوم و محسوس اور نامعلوم وغیرمحسوس کے درمیان تال میل کی ایک تشریح ہے۔ ایک جامع ترین اور خوب صورت ترین تشریح۔ لیکن اس کا اطلاق صرف اس کے اپنے فریم کے اندر ہی ہوگا۔ اس کے باہر نہیں۔
اس صورت حال نے اخلاقی اقدار اور جنسی اقدار دونوں کے ماخذ کے سلسلے میں نئی بحثوں کو چھیڑا۔ جدیدیت، انفرادیت اور نشاة ثانیہ کے آخری دور میں حقوق کے سلسلے میں نمودار ہونے والی نئی صبح نے مذہب کو اخلاقیت اور اقدار کے ماخذ کے تخت سے نیچے تو اتار دیا لیکن اس کا فیصلہ نہیں کر پائی کہ اب اس تخت پر وہ کسے بٹھائے۔
اخلاقی حدود اور جنسی اقدار کے ماخذ کے طور پر مذہب کو مسترد کردینا
+LGBTQ ڈسکورس کی غیرمعمولی کام یابی میں اس نکتہ کا رول کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ جب اخلاقی اقدار کے ماخذ کے طور پر مذہب کو رد کردیا گیا تو فرد اس بات کے لیے حیران و پریشان ہوگیا کہ جنسی اقدار کا حصول کہاں سے کرے؟ مفاد عامہ اور اجتماعی اخلاقی سے وہ پہلے ہی دامن چھڑا چکا تھا۔ پھر اب کیا کرے؟ یہ الجھن آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نزدیک آخری اور اہمیت کے اعتبار سے معتبر عوامل میں سے ایک جنگ عظیم دوم کے وقت/ بعد امریکہ اور یوروپ میں ہوئی جنسی/صنفی نظام کی اساسی تبدیلی ہے۔
صنعتی انقلاب اور کرسچین ورلڈ ویو کی عوامی شکست کے بعد روایتی خاندانی نظام میں تیزی سے جوہری نوعیت کی تبدیلیاں واقع ہونے لگی تھیں۔ روایتی نظام میں خواتین گھر کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور مرد روزی روٹی کے لیے ذمہ دار تھا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جنسی/صنفی نظام تبدیل ہونے لگا۔ جنسی/صنفی نظام تین اہم سماجی ساختوں (social structures)سے منضبط ہوتا ہے[10]: جب یہ تمام ساختیں دوسری جنگ عظیم کے بعد غیر معمولی طور پر درہم برہم ہونے لگیں تب منحرف جنسی رویوں +LGBTQIA کے فروغ میں غیر معمولی تیزی آنے لگی۔
ان تینوں ساختوں پر ذیل میں مختصرًا روشنی ڈالی جاتی ہے:
۱۔ Forms of domination: صنفی اساسی نظام میں یہ ساخت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کے تحت عام طور پر مرد عورت پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔اس کی بہت ساری شکلیں ہو سکتی ہیں۔
۲۔ Normative regulations: خاندان اور سماج اور ان میں رائج ریت رواج جو پرانے زمانے سے چلے آرہے ہیں اور عوام میں مقبول ہوچکے ہیں، ان تمام رویوں کو normative regulations کہا جاتا ہے۔
۳۔Symbolic codes: یہ دراصل وہ تصورات ہوتے ہیں جو مذہب سے یا پرانے ریت رواج سے کسی خاص نظام جیسے نکاح یا وراثت یا عورت کی حیثیت کے متعلق کسی سماج میں پائے جاتے ہیں
۱۔ Forms of domination: روایتی امریکی خاندان میں مرد عورتوں اور بچوں پر حاکم ہوتا تھا۔ اور عورتوں اور بچوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے جو اسے تھے۔ وہ جنسی اعتبار سے بھی آزاد ہوتا۔اس آزادی کا غلط فائدہ اٹھاتا عورت کو البتہ ویسے حا کمانہ حقوق حاصل نہیں تھے۔ چناں چہ اس اسٹرکچر میں حقوق کی پامالی لازم تھی کیوں کہ چیک اور بیلنس کا کوئی میکانیزم اس ساخت موجود نہیں تھا۔اس ساخت کا یہ وہ عیب تھا جس نے فیمینزم کی پوری تحریک کو برپا کرنے میں بہت زیادہ اہم رول ادا کیا۔ اور اسی طرح سے منحرف جنسی رویوں کے لیے بھی راہ ہم وار کی۔کیوں کہ اس طرح کی خاندانی نظام کی ساخت میں مرد کی غیر ضروری حاکمیت نے عورت پر حقوق کے سلسلے میں زیادتی کے احساس کو دوام بخشا اور اس طرح سے نہ صرف اس نظام کے لیے بلکہ جنسی دوئی پر مبنی خاندانی نظام کے لیے بغاوت کے جذبے کو غیرمعمولی طور پر پروان چڑھایا۔
۲۔ Normative Regulations: اس کے تحت عورتوں اور مردوں کے لیے جنسی اقدار کے معیارات الگ الگ ہوتے ہیں۔ مرد اگر شادی سے قبل جنسی تعلقات بناتا ہے تو اسے سماج اتنی بری نظر سے نہیں دیکھتا جتنا عورت کو۔ اس طرح اگر عورت شادی کے بعد کسی دوسرے مرد سے تعلقات بناتی ہے تو اسے مرد کے مقابلے میں زیادہ ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔ اسے اب بھی جدید سماج اور خاندان کی اکائیوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فیمنزم اور اس کے بعد جنسی انحرافی رویوں کی تحریک نے اس طرح کے ساختیاتی مسائل کو اپنے مفاد میں زیادہ سے زیادہ استعمال کیا اور امریکی و یورپی معاشرے کی عورتوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ سیکس جینڈر سسٹم سے باہر آئیں۔اور اس سسٹم سے باہر آنے کے بعد بعد جنسی انارکی کا ہونا بالکل فطری تھا۔
۳۔ Symbolic codes: یعنی نظریاتی formulation جیسے شادی کے مقدس ہونے کے تصورات یا خاندان اور خاندان کو آگے چلانے کی اخلاقی ذمہ داری یا اپنی نسل کو باقی رکھنے کے لیے شادی کی ضرورت یا مذہب کے ذریعے دیے گئے شادی کے تصورات اور جنسی خوشی کے تصورات اور حدود۔جنسی انقلاب کے بعد اس طرح کے تصورات بے معنی ہو کر رہ گئے۔ اس پر مزید یہ کہ کرسچین اخلاقیات کے خاتمے نے اس طرح کے تصورات کے لیے کوئی مذہبی بنیاد باقی نہیں رکھی۔ اسی دوران الحاد کو مین اسٹریم میں جگہ ملنے کی کی وجہ سے منحرف جنسی رویوں اور جنسیت کے متعلق ایک آزاد، بے لگام اور لامحدود جنسی تلذذ والی سوچ عوام میں جگہ بنانے لگی۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اوپر بیان کردہ تینوں سماجی ساختیں فی نفسہ بری یا اچھی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے سائے میں ہونے والے استحصال نے وہ صورت حال پیدا کی جس کی بنا پر انحرافی جنسی رویوں کے لیے جواز تراشا گیا۔ مثلاً جنسی/صنفی نظام کو فی نفسہ ظلم کے آلے کے طور پر پیش کیا گیا۔ حالاں کہ یہ نظام اپنے گرد و پیش کے سیاسی، سماجی اور مذہبی منظرنامے سے تشکیل پاتا ہے اور ان کا اثر قبول کرتا ہے۔
چناں چہ اب تک کے دیے منظرناموں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ جس طرح کا سماجی، مذہبی اور سیاسی سیاق امریکہ اور یوروپ میں پیدا ہوگیا تھا اس کا لازمی نتیجہ اس نظام کا کامل زوال ہی تھا اور یہ زوال تصور کی سطح پر پہلے ہوا بعد میں اس کے عملی مظاہر سامنے آنے لگے۔
اب اس زوال کو تحریک نسواں سے جوڑ دیا جائے، جو اصلاً ایک رد عمل کی تحریک ہے تو تصویر صاف ہوجاتی ہے۔
- یعنی جنسیت اور اس سے جڑے تمام تصورات جو مذہب یا مسلّمہ اخلاقی اقدار سے ماخوذ ہیں وہ سب کے سب ازکار رفتہ قرار پائے اور وہ تمام جنسی رویے جن کو ایک عام عقل قبول کر سکتی ہے وہ سب کے سب صحیح ٹھہرے۔
2.صنفی /جنسی نظام کو ایک ظلم کے آلے کے طور پر پیش کیا گیا اور مرد و عورت کے روایتی جنسی دوئی کے تصور کوہی بنیادی طور پر ظلم کے لیے ذمہ دار قرار دیا گیا۔
3.الٹرا فیمنسٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مردوں کو بھی ماں بننے کا شرف حاصل کرنا چاہیے۔ اور سائنس و ٹکنالوجی کو اس ضمن میں کچھ کرنا چاہیے۔ جنسی/صنفی نظام کے زوال نے متبادل اور متقابل صنفی اور جنسی نظام کے لیے راہ ہم وار کردی اور اس کے بعد دورِ جدید میں ہم دیکھتے ہیں کہ صنفی شناختوں کا ایک سیلاب ہے جو امڈا چلا آتا ہے۔
اوپر دیے گئے مقدمات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ منحرف جنسی رویوں کے لیے ذمہ دار فلسفیانہ اور ارتقائی عوامل نے اس تحریک کو اس جگہ پر لا کر کھڑا کیا ہے جہاں پر اس کے اثرات واضح طور پر ساری دنیا میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ اثرات کچھ افراد تک محدود نہیں ہیں جیسا کہ اس تحریک کے لوگ باور کرانا چاہتے ہیں بلکہ ان فلسفیانہ بنیادوں اور عوامل کی وجہ سے مستقبل میں یہ تحریک پوری نسل انسانی اور اس کی اخلاقیات کی بقا کے لیےمشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔
حوالہ جات:
[1] Wilhelm Reich., (1947). The function of the orgasm. Sex economic problem of Biological Energy (Second Edition) p.5 Farrar, Strauss, and Giroux, New York, USA (Translated from the German by Vincent. R. Carafagno ) For light reading please see:
[2] https://www.academia.edu/38236320/Marcusean_Critical_Theory_Human_Sexuality_and_the_Church
[3] Alfred C. Kinsey., Wardel B. Pomeroy ., Clyde E. Martin . (1948) . Sexual Behaviour in the Human male. W. B. Saunders company Philadelphia and London (USA)
[4] Alfred C. Kinsey., Wardell B. Pomeroy ., Clyde E. Martin . (1953) . Sexual Behaviour in the Human Female. W. B. Saunders company Philadelphia and London (USA)
[5] Alfred C. Kinsey., Wardel B. Pomeroy ., Clyde E. Martin . (1948) . Sexual Behaviour in the Human male. Pp- 3-5. W. B. Saunders company Philadelphia and London (USA)
[6] Cochran, W. G., Mosteller, F., Tukey, J. W., American Statistical Association., ’amp; National Research Council (U.S.). (1970). Statistical problems of the Kinsey report on sexual behavior in the human male: A report of the American Statistical Association committee to advise the National Research Council, Committee for Research in Problems of Sex. Westport, Conn.: Greenwood Press.
[7] Cochran, W. Gemmell, Tukey, J. Wilder, Mosteller, F., ’ Jenkins, W. O. (1954). Statistical problems of the Kinsey report on sexual behavior in the human male. Washington (D.C.): American statistical association.
[8] https://www.apa.org/monitor/2015/10/research-kinsey
[9] ibid
[10] Giddens A. (1979) .Central Problems in Social Theory: Action, Structure, and Contradiction in Social Analysis (Berkeley: University of California Press, 1979), pp. 96-115 and 225-33
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022