یہ تو سچ ہے کہ جادو جیسی چیزیں اثرات رکھتی ہیں ۔ شیطان کا اپنا ایک رول ہے ، جادو ٹونے کا اپنا ایک رول ہے ، نظرِ بد کا اپنا ایک رول ہے ۔ لیکن اگر چیزیں ایک مسلمان کوپریشان کررہی ہیں تووہ کہیں نہ جائےبلکہ اس کی وجہ اپنے اندر ڈھونڈے ، اور اس وجہ کونکال کر صحیح مسلمان بن جائے عقیدے کے اعتبار سے ، عمل کےاعتبار سے ، ایمان کے اعتبار سے ، اخلاق کے اعتبار سے تو سارے اثرات خود بخود ختم ہوجائیںگے ، اور اگر کوئی ڈالنے کی کوشش کرے گا توقدرت خود اس سے انتقام لے لے گی ۔ لہٰذا اثرات کے پیچھے نہ پڑیں ، جھاڑ پھونک والوں کے ہاں نہ دوڑیں بلکہ اس ہدایت کی طرف متوجہ ہوں جو اللہ کی جانب سے آئی ہے ، جس میں تمہارے جسم اورروح دونوں کا علاج ہے ۔ خدا نے خود ضمانت لے رکھی ہے ۔ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْالصَّالِحَاتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئَا تِہِمْ ’’ جولوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے ہیں ہم یقیناً ان سے ہردکھ درد کو چھانٹ دیں گے۔‘‘
آج سانئس اورفلسفے کے پجاری تک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جوخالص خدا کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہر معاملے میں نجات ملتی ہے ۔ ’’ڈاکٹر کارل ینگ‘‘ کہتا ہے :
“Millions of people can be helped simply by turning whole heartedly to God.”
کروڑوں انسان خدا کی جانب رجوع کرکے مصائب سے نجات پاسکتے ہیں۔
(Reader Digest-P.12, March,1954)
آج ہمارے یہاں سے بنیادی چیز یں غائب ہوگئی ہیں ۔ ہر معاملے میں ہم جڑ کو چھوڑ کر شاخ کو پکڑتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے جس طرح ایک وقت میں کلیسا نے کچھ چکر ایجاد کئے تھے اوراس کے گرد چکر لگانا اپنا شیوہ بنالیا تھا ۔ خود ہمارے ہی لوگوں نے عوام کوان جالوں میں پھنسا دیا ہے ۔
ایک دور میں کلیسا کی تمام توجیہات توحید اور علم وعقل کے راستے سے ہٹ کر عملیات ،توہمات (Halucinations)اور کشف وکرامات تک سمٹ کررہ گئی تھی ۔وہ سب کچھ محض مراقبے، چلّے اورمنتر کے بل پر کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے پاس کوئی ایسا سرمایہ ہی نہ تھا کہ جس سے وہ دین اور سماج کی خدمت کرسکیں۔وہ فال گیری ، جادو، بھوت پریت کے افسانے اورطرح طرح کے اعجوبے گھڑھنے میں مست تھے۔ وہ پوری عوام کوانہیں سب جہالت میں الجھائے ہوئے تھے ۔ انہیں ہر طرح کی سنجیدہ بحث فضول نظر آتی تھی ۔ اس نے کس کس پائے کی جہالت کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ تھوڑا تاریخ دیکھئے ۔
کلیسا کی جہالت:
کلیسا کا اپنا بنایا ہوا نظام تھا ۔ اس نظام کی پاسداری کرنے والا کلیسا کا وفادار تھا اوراس سے تجاوز کرنےو الا اسکاباغی تھا ۔ اس میں ایک اہم نظام یہ تھا کہ مذہبی امورمیں عقل چلانے والا کافر، زندقہ اور مرتد ہے ۔ ہم جو کہہ دیں اورجو کتابیں آسمانی درجہ لئے ہوئے ہیں وہ جوکہہ رہی ہیں وہی عین حقیقت ہے۔ اس سے ہٹ کر جس نے بھی ذہن یا زبان چلا یاوہ مستحق سزا ہے ۔ بحث اس سے نہیں تھی کہ اصل دین کیا ہے ، اصل تعلیمات کیا ہیں اور وحدانیت کیا ہے۔ جس نے بھی اس دور میں کوئی علمی ، عقلی اور تحقیقی بحث چھیڑ ی اس کا انجام جانوروں سے بھی بدتر کیا گیا ۔ اور ضرورت یہ نہ محسوس کی گئی کہ ذرا اس پر بصیرت کی نگاہ ڈال کردیکھیں کہ اس میں کوئی اچھائی ہے یا برائی۔ یا اگر کوئی نظریہ ان کے فر مودات یا ان کی کتابوں کے احکامات سے ٹکرایا تویہ بھی سوچنے کی زحمت نہ کی گئی کہ ممکن ہے ہمارے صحیفوں میں کچھ خامی ہو کیونکہ اسے بھی تو متی، مرقس، لوقا اوریوحنا جیسے انسانوں نے مرتب کیا ہے اورہم اپنی اصلاح کریں ورنہ قیامت تک گمراہ کن نظریات میں پڑےرہیں گے۔ کلیسا کے حکمرانوں (پادریوں) کا ذرا چہرہ دیکھیں ۔
’’ولیم ڈریپر‘‘لکھتا ہے :
’’ گلیلیو کے ان اکتشافات نے سخت صدمہ پہنچایا کہ زمین کی طرح چاندبھی پہاڑ اور وادیاں ہیں اورآفتاب بے عیب نہیں ہے بلکہ اس کا چہرہ داغدار ہے ، اور بجائے اس کے کہ وہ شان ووقار کے ساتھ ایک جگہ قرار پذیر ہواپنے محور کے گرد گھومتا رہتا ہے …… ادنیـ درجہ کے جاہل پادری ان اکتشافات کو مکروفریب سے تعبیر کرتے تھے …….. گلیلیو پر اس مقدس برادری نے ، بدعت، الحاد اورزندقہ کا الزام لگایا ……… مقدس محکمۂ احتساب عقائد یعنی ’’انکو یزیشن‘‘ نے ورانٹ گرفتاری جاری کرکے گلیلیو کوپکڑ بلوایا ۔ اس حکم نامہ میں اسپر الزام یہ لگایا گیا تھا کہ وہ اس اصول کی تعلیم دیتا ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ حالانکہ یہ عقیدہ کتب مقدسہ کی تعلیم کے بالکل خلاف ہے ۔ جب وہ اس دینی عدالت کے اجلاس میں حاضر ہوا تو اس سے کہا گیا کہ اپنے ملحدانہ عقیدہ سے توبہ کرے ورنہ قید کردیا جائے گا ……… اسے مجبور کیا گیا کہ گھٹنوں کے بل کھڑے ہوکر اصول حرکت زمین کے قائل ہونے سے توبہ کرے، اور اس پر لعنت بھیجے……. اس کے بعد گلیلیو قید میں ڈال دیا گیا جہاں اپنی زندگی کے باقی دس سال اس نے طرح طرح کی عقوبتوں اورسختیوں کے ساتھ کاٹے اور جب اس کا انتقال ہوا تو اس کی لاش تک کو مسیحی قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا ۔‘‘ ( معرکۂ مذہب وسائنس ۔ ص ۲۸۱۔ ۲۸۲)
یہ تھی پادریوں کی جہالت ، جس نےانہیں یہ بھی سوچنے نہ دیا کہ آخر ان چیزوں سے کون سی مذہب کی توہین ہورہی ہے ۔ لیکن یہاں شرک آڑے آتا ہے اورانہیں سمجھاتا ہے کہ یہ زمین ابن اللہ اورعین اللہ کی جنم بھومی ہے ،لہٰذا اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی عقلی چھیڑ خانی نہ کی جائے ۔ اس چھیڑ خانی کا نتیجہ ہوا کہ گلیلیو کوجیل کا منھ دیکھنا نصیب ہوا۔یہی سبب ہوا کہ اٹلی کا ’’گارڈینو برونو‘‘ پادریوں کی ان سب جہالتوں کو دیکھ کر بہت کُڑھتا تھا ، اور برجستہ کہتا تھا کہ اہلِ مذہب پر تشکیک اورمنافقت کا ملمع چڑھا ہوا ہے ، ان کے ظاہر وباطن میں بعد المشرقین ہے ، اوران کے عقیدے اشتباہ ، جھوٹ اور نفاق وریا کی اس متزلزل (Shaken)بنیاد پرقائم ہیں جسے اخلاق حسنیٰ چھوڑ کر بھی نہیں گزرا ہے ۔ بالآخر ’’برونو‘‘ کوبھی اس طرح کی تنقیدات اورفلسفیانہ نظریات پیش کرنے کی پاداش میں وہی دن دیکھنا پڑا جوگلیلیو نے دیکھا تھا۔
’’ولیم ڈریپر‘‘ لکھتا ہے :۔
’’برونو اس الزام کی پاداش میں کہ وہ ملحد ہی نہیں بلکہ راس الملاحدہ ہے ۔ ’’انکویزیشن‘‘ کے مجلس میں قید کیا گیا ۔ سب سے بڑا الزام اسپر یہ تھا کہ وہ تعداد عوام جیسے ناپاک مسئلہ کا قائل ہے جو کتب مقدسہ کے سیاق اورآیات الہامی خصوصاً ان آیات سے تناقص کلی رکھتا ہے جنہیں انسان کی سبیل نجات سے تعلق ہے ۔ دوسال تک قید کاٹنے کے بعد وہ حاضر عدالت کیا گیا ، اور حکام عدالت نے اسپر فرد قرار داد جرم لگا کر اسے مسیحی برادری سے خارج کردیا اورجب مقدس عدالت کے اس حکم کی تعمیل سے اس نے اذرہ عنایت شرافت نفس انکار کیا کہ وہ اپنےگناہ سے توبہ کرے توکارفرماں قضا وقدر یعنی حکام انکویزیشن نے اس سفارش کے ساتھ اسے دنیوی حکا م کے سپرد کردیا کہ اسے نہایت نرمی سے سزادی جائے اوریہ خیال رکھا جائے کہ اسکے خون کا ایک قطرہ بھی نہ گرنے پائے……..( اس فیصلہ کی تعمیل ۱۶؍فروری ۱۶۰۰ء کو ہوئی اور برونو زندہ جلادیا گیا ۔‘‘ ( حوالہ مذکور۔ ص ۲۸۹)
یہ تمام نوازشات صرف شرکیہ ذہن کی تھی جس نے ان کے دل ودماغ میں یہ چیز پیوست کردی تھی کہ جوروایات تمہیں ملی ہیں اسپر صرف عمل کرو خواہ کھری ہوں یا کھوٹی ۔ وہاں عقل کا استعمال ممنوع ہے ۔ اگرکسی نے عقل چلائی، تو اس کی عقل اس کے سر سے نکال دی جائے گی ۔ ایک زمانے تک کلیسا نے ولا تقربوا العقل کا فتویٰ جاری کررکھا تھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس بیچ خود وہ شرک کے گڑھے میں گرتے چلے جارہے تھے اورعقل کوکام میں قطعاً نہیں لارہے تھے کہ خدا نے کیا کہا ہے اورہم کیا کررہے ہیں ۔ ان کے شرکیہ ذہن کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔
’’۱۴۵۶ء میں جب دمدار ستارہ نمودار ہوا تو اسے خدا کے قہر وغضب کی آسمانی علامت سے تعبیر کیا گیا اوریہ سمجھا گیا کہ اس کا ظہور جنگ ،وبا اورگونا گوں بلاؤں کا پیش خیمہ ہے ۔ پاپائے مقدس کے حکم سے یورپ بھر کے گرجاؤں کے گھنٹے ہلائے گئے تاکہ اُن کی ٹن ٹن سے تارہ دم دبا کر بھاگ جائے۔ دیندار اورخوش عقیدہ نصرانیوں کوایما ہوا کہ روزانہ نماز پر ایک جدید نماز کا اضافہ کریں ……. چنانچہ اس موقع پر جب تارہ غائب ہوگیا تو یہ اعلان کیا گیا کہ عالی جناب مقدس مآب حضرت پاپائے اعظم کوخدا نے دمدار تارے پر فتح عطا فرمائی ۔‘‘ ( حوالہ مذکور ۔ص ۴۳۴۔ ۴۳۵)
ظاہرسی بات ہے کہ یہاں اگر عقل کو کام میں لایا گیا تو سمجھ میں آجاتا کہ ستارے کا تعلق علم نجوم سے ہے ، کسی کی قسمت کو بنانے اور بگاڑنے سے نہیں ۔
’’ڈریپر‘‘ اپنی کتاب ان کے شرکیہ کلام پر یوں ختم کرتا ہے ۔
’’ خدائے تعالیٰ زیادہ آسانی سے ہماری اور آپ کی دعاؤں کوقبول فرمائے۔ ہمیں چاہئے کہ کامل سچائی اور خلوص کے ساتھ خدا کی ماں مریم عذرا سے مدد مانگیں جوہمارے اوراس کے درمیان بمنزلہ ایک وسیلہ کے ہیں اورجواپنے اکلوتے بیٹے خدا وند یسوع مسیح کے داہنے ہاتھ پر زریں رد اوڑھے ہے ۔ اور مختلف زیورات پہنے ہوئے بطور ملکہ کے جلوہ فرما ہیں ۔ اس لئے کہ کوئی مرادایسی نہیں جوآسمان کی ملکہ کے تو سل سے پوری نہ ہوسکے ۔‘‘ ( حوالۂ مذکور ۔ ص ۴۴۷)
ایک دور میں یہی حال بلکہ اس سے بدتر حال عربوں کا تھا ، جنہیں کسی دیوی ، کسی ابن اللہ اورکسی ستارے نے باہر نہیں نکالا ۔ بلکہ یہ قرآن کی برکت تھی کہ ایسے وقت میں جس میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ایسوں کو انسان بنایا جوایک طرح سے ذھناً حیوان تھے اور ایسا بنایا کہ جن کا تبصرہ کرنے سے دنیا شرماتی تھی کہ ان کی قیادت قبول کرلی ۔تھوڑا دیکھئے :
عرب کا عروج
عرب کی تاریخ دیکھئے جب تک وہ بھی دیوی اوردیوا کے چکر کاٹتے رہے، اوہام پرستی کے پیچھےدوڑتے رہے اورہر طرح کے شرک کی شاخ کی آبیاری کرتے رہے تبتک وہ دھکے کھاتے رہے اوراس زمین پر علمی اورعقلی حیثیت سے سب سے غریب بنے رہے ۔ لیکن جیوں ہی انہیں قرآن دیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ دنیا کے سارے مسائل کی گائڈ ہے ،تیوں ہی وہ ساری جہالت سے نکل گئے اوردینی ودنیاوی دونوں اعتبار سے اس قدر ترقی کئے کہ ایک وقت میں وہ ساری دنیا کے بے تاج بادشاہ بن گئے ان کے کردار واخلاق کی قسم کھائی جانے لگی، ان کےعلوم وفنون کے پیچھے دنیا چلنے لگی ۔ انہوں نے فن میں ، انہوں نے علم وعقل میں ، انہوں نے سائنس وفلسفہ میں ، انہوں نے ریاضیات، فلکیات، طبیعیات، نباتات، حیاتیات ، عضویات وغیرہ کا اس طرز سے مطالعہ کیا کہ جس سے دنیا کی بے پناہ ترقی ہوئی اورایسے ایسے نقوش چھوڑے کہ آج پوری دنیا کے سائنٹسٹ اورفلاسفر ان کے مرہونِ منت ہیں۔
’’ڈاکٹر موریس بوکائلے ‘‘ لکھتے ہیں:
’’مہذب عربوں کا یہ ہمارے اوپر بڑا احسان ہے کہ ان کی بدولت قدیم مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ ہمیں بہم دست ہوگیا ہے ۔ ان ہی عربوں نے مفتوحہ ممالک کے کلچر کو منتقل کرنے کا کام کیا ۔ ہم ریاضی، فلکیات، طبیعیات، ارضیات، نباتات، طب وغیرہ کے لئے بھی بڑی حد تک عربی تمدنی کے ممنون احسان ہیں۔ سائنس نے پہلے پہل قرون وسطیٰ کی اسلامی جامعات میں بین الاقوامی صورت اختیار کی ۔ اس زمانہ میں لوگ مذہبی رنگ میںآج کل سے کہیں زیادہ رنگے ہوئے تھے ۔ لیکن اسلامی دنیا میں یہ چیز ان کواس بات سے نہیں روکتی تھی کہ وہ مذہبی اورسائنسداں دونوں ایک ساتھ ہوں۔ عہدٰ وسطیٰ میں عیسائی دنیا کے جمود اورمطلق تعمیل وتقلید کا زمانہ تھا……… یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت یعنی ایک ایسے دور میں جوہجرت کے ادھر اُدھر اندازاً بیس سال کی مدت پر محیط ہے سائنسی معلومات میں صدیوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور اسلامی تمدن کی سرگرمیوںکا دور اپنی سائنسی ترقی کے ساتھ نزول قرآن کے اختتام کے بعد آیا ۔ ‘‘
(بائیبل قرآن اورسائنس ‘‘۔ ص ۱۸۳ ۔ و ۱۸۸۔ وقاص پبلشرز ، سیالکوٹ)
یہ جوآج لوگ عرب کے سائنسدانوں ، فلسفیوں ، طبیبوں اورمؤرخوں کے احسان مند ہیں اوران کی تعریف کے گن گاتے ہیں اس میں عربوں کا کوئی کمال نہیں تھا ، بلکہ کمال قرآن کے اس فلسفۂ توحید کا تھا جوانہیں زمین سے اُٹھاکر آسمان پر لےگیا ۔ جبتک عرب اپنے کارناموں کی بدولت شرک کے لبادے میں ملبوس زندہ تھے ۔ تب تک دنیا میں ان کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ لیکن جیوں ہی انہیں اسلام جیسی انمول دولت ملی اور اس نے خدائے خدا کا تصور پیش کیا تو اسی دن سے ان کا قلب وذہن ایسا بدلا، ان کے عمل ، ان کی عقل اور ان کی فکر میں ایسا انقلاب اُٹھا کہ جوقوم نئے نئے شرک ایجاد کررہی تھی ،بتوں کی رکھوالی کررہی تھی ، شور شراب میں ڈوبی ہوئی تھی اس نے سب کچھ اپنے ہاتھوں سے توڑ کر علم وعقل کا علم اُٹھایا ، او رایسا اُٹھایا کہ دنیا مبہوت (Dumb Founded) ہواُٹھی اوراس نے انہیں اپنا امام تسلیم کرلیا ۔ عربی عالموں، مفکروں اورسائنسدانوں نے ہر معاملے میں دنیا کوایسے انقلابی نظریات فراہم کئے کہ جوان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھے۔
جیسا کہ ’’رابرٹ بریفالٹ ‘‘ عربوں کے عقلی کارناموں کوسراہتے ہوئے لکھتا ہے:
“The debt of our science to that of the Arabs does not consist in starling discoveries of revolutionary theories. science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence.”\ (Making of Humanity- P.190)
عربوں کا جواحسان ہماری سائنس پر ہے ، وہ صرف اتنا ہی نہیں کہ انہوں نے ہمیں انقلابی نظریات کے متعلق حیرت انگیز دریافتیں عطا کیں۔ سائنس اس سے بھی زیادہ عرب تہذیب کے احسا ن مند ہے وہ یہ ہے کہ اس کے بغیر جدید سائنس کا وجود ہی نہ ہوتا۔
آج اس سےدنیا کومجال انکار نہیں ہے کہ ساتویں صدی میں عرب کے ریگستان سے جوانقلاب اُٹھا تھا اس انقلاب کی آواز آج بھی دنیا میں گونج رہی ہے ۔ اگر دنیا کی تاریخ سے اس انقلاب کی داستان کونکال دیا جائے تو دنیا کے پاس سوائے تاریکی کے کچھ بچتا ہی نہیں ہے ۔ اسی انقلاب نے شرک کی کمر توڑ ی ، اسی انقلاب نے عقل کی رہنمائی کی ، اس انقلاب نے علم کےدریابہائے ۔ جن کی طغیانی ایشیاء اورافریقہ تک پہنچی ، پھر یورپ پہنچی، اٹلانٹک کوپار کرتی ہوئی امریکہ میں داخل ہوئی ۔ خرافات کوجس میں دنیا جکڑ ی ہوئی تھی خس وخاشاک کی طرح سے بہا کر کائنات کی تحقیق وتسخیر کا فن سکھایا ۔ اس نے پیغام سنایا : ’’ اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہ سَخَّرَ لَکُمْ مَّافِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِیْ الارْضِ ’’کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اورآسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کررکھی ہیں۔‘‘ (لقمان: ۲۰)
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2017