دنیا کے مختلف علاقوں اور زمانوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا بھیجے۔ انھوںنے اپنی اپنی قوموں تک اللہ کاپیغام پہنچایا اور اس کے احکام و تعلیمات سے انھیں روشناس کیا۔ قرآن کریم میں انبیا اور ان کی قوموں کے احوال و واقعات کے ضمن میں دعوت انبیا کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ان میں بتایاگیاہے کہ ان انبیا نے اپنی اپنی قوموں کے افراد کو کن باتوں کاحکم دیا اور کن کاموں سے روکا؟ کن عقائد کی تعلیم دی اور کن معتقدات و تصورات کی مذمت کی؟ کن رویّوں پر اللہ تعالیٰ کے اجرو انعام کی خوش خبری سنائی اور کن کاموں کے بُرے انجام سے ڈرایا؟ ان سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ کچھ بنیادی تعلیمات ایسی ہیں جو انبیاے کرام کی دعوت میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کوئی پیغمبر کسی زمانے کا ہو اور کسی علاقے میں بھیجاگیاہو ، اس نے اپنی قوم کو ان سے ضرور باخبر کیاہے، لیکن کچھ تعلیمات ایسی ہیں جن کاتذکرہ صرف بعض پیغمبروں کی دعوتوںمیں آیاہے۔تمام انبیا نے اپنی قوموں کے سامنے بنیادی عقائد توحید، رسالت، آخرت اور ان کے دلائل پیش کیے ہیں اور الٰہ واحد کی عبادت پر زور دیاہے۔ اس کے علاوہ ان کی دعوت میں کچھ اور اہم امور بھی آئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات کی یاددہانی
دعوتِ انبیا کا ایک بنیادی موضوع یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد دلاتے ہیں، ان کے سامنے ان دنیوی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں،جن سے اس نے نوازا ہے۔ ان آسائشوں اور خوش حالیوں کاحوالہ دیتے ہیں، جن سے اس نے بہرہ ور کیاہے، تہذیب و تمدن کی ان ترقیوں کو بیان کرتے ہیں جو انھیں حاصل ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں۔ ان کا تقاضا ہے کہ اس کا شکر بجالائو، صرف اسی کی عبادت کرو، اس کے حکموں پر چلو، اس کی نافرمانی سے بچو اور روئے زمین میں فتنہ و فساد نہ پھیلائو۔ بسااوقات انبیاے کرام دنیوی نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کے اجرو انعام کے طورپر بھی پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوموں سے کہتے ہیں کہ اپنی غلط روش سے بازآئو، اللہ سے معافی مانگو، توبہ و استغفار کرو اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارو۔ اگر ایسا کروگے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی بے پایاں نعمتوں سے نوازے گا، تمھیںخوش حالی عطاکرے گا، مال ودولت اور آل و اولاد سے نوازے گااور تمھیں قوت و شوکت سے بہرہ ور کرے گا۔ قرآن کریم میں دعوتِ انبیا کے جوتذکرے ہیں ان میں یہ دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوکر بارگاہِ الٰہی میں جو دعاکی تھی وہ سورہ ٔ نوح میں مذکورہے۔ اس میں ان کی دعوت کا بھی تفصیلی بیان ہے، جو انھوںنے قوم کے سامنے پیش کی تھی۔ انھوںنے فرمایاتھا:
اَسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہُ کَانَ غَفَّاراًo یُرْسِلِ السَّمَآئٓ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراًo وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراًo مَّا لَکُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّہِ وَقَاراً oوَقَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوَاراًoأَلَمْ تَرَوْا کَیْْفَ خَلَقَ اللَّہُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاًoوَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوراً وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجاً oوَاللّٰہُ أَنبَتَکُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً oثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْہَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجاً oوَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطاً oلِتَسْلُکُوا مِنْہَا سُبُلاً فِجَاجاo﴿ نوح:۱۰-۲۰﴾
’’اپنے رب سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیںبرسائے گا، تمھیںمال و اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیداکرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کرے گا۔ تمھیں کیاہوگیاہے کہ اللہ کے لیے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے، حالاں کہ اس نے طرح طرح سے تمھیں بنایاہے، کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہہ برتہہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا، پھر وہ تمھیںاسی زمین میں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا اور اللہ نے زمین کو تمھارے لیے فرش کی طرح بچھادیا،تاکہ تم اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو۔‘‘
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو حاصل ہونے والی آسائشوں اور اس کی تمدنی ترقیوںکا تذکرہ کیا اور ان کے حوالے سے اُسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی تلقین کی۔ فرمایا:
أَتَبْنُونَ بِکُلِّ رِیْعٍ اٰ یَۃً تَعْبَثُونَ oوَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُونَo وَاِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ oفَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ oوَاتَّقُوا الَّذِیٓ أَمَدَّکُم بِمَا تَعْلَمُونَoأَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَّبَنِیْنَ oوَجَنَّاتٍ وَّعُیُونٍ o اِنِّیٓ أَخَافُ عَلَیْْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمo﴿الشعرائ:۸۲۱-۵۳۱﴾
’’یہ تمھارا کیاحال ہے کہ ہر اونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بناڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو، گویا تمھیں ہمیشہ رہنا ہے اور جب کسی پر ہاتھ ڈالتے ہو جبّار بن کر ڈالتے ہو، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ڈرو اس سے جس نے وہ کچھ تمھیںدیا ہے جو تم جانتے ہو۔ تمھیںجانور دیے، اولادیں دیں، باغ دیے اور چشمے دیے، مجھے تمھارے حق میں ایک بڑے دن کے عذاب کاڈر ہے۔‘‘
دوسری طرف حضرت ہود علیہ السلام نے دنیوی نعمتوں کو راست روی کے اجر وانعام کے طورپر بھی پیش کیا۔ انھوںنے فرمایا:
وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوآ اِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً لَی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْاْ مُجْرِمِیْنo﴿ہود:۵۲﴾
’’اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزیدقوت کااضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر ﴿بندگی سے﴾منہ نہ پھیرو۔‘‘
اسی طرح قوم ثمود بھی اپنے زمانے میں دنیوی ترقیات کے عروج پر تھی، لیکن راہِ حق سے بھٹکی ہوئی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اسے یاد دلایا کہ وہ ساری ترقیات تمھیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور نعمت کے طورپر حاصل ہیں، اس لیے اس سے ڈرواور زمین میں فتنہ وفسادنہ پھیلائو۔ فرمایا:
أَتُتْرَکُونَ فِیْ مَا ہَاہُنَا اٰمِنِیْنَ oفِیْ جَنَّاتٍ وَعُیُونٍ oوَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُہَا ہَضِیْمٌ oوَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتاً فَارِہِیْنَ oفَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیْعُونِ oوَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ oالَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ o ﴿الشعرائ:۱۴۶-۱۵۱﴾
’’کیاتم ان سب چیزوں کے درمیان، جو یہاں ہیں، بس یوں ہی اطمینان سے رہنے دیے جائوگے؟ ان باغوں اورچشموں میں؟ ان کھیتوں اور نخلستانوں میں جن کے خوشے اس بھرے ہیں؟ تم پہاڑ کھود کھود کر فخریہ ان میں عمارتیں بناتے ہو۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ان بے لگام لوگوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپاکرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر ہے کہ انھوںنے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلائے:
وَاذْکُرُوآْ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَکُمْ فِیْ الأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُہُولِہَا قُصُوراً وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُیُوتاً فَاذْکُرُوآْ اٰ لائ اللّہِ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَo ﴿الاعراف:۷۴﴾
’’یادکرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمھیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ آج تم اس کے ہم وار میدانوں میں عالی شان محل بتاتے اور اس کے پہاڑوں کو مکانات کی شکل میں تراشتے ہو، پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجائو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی کثرتِ تعداد کو اللہ تعالیٰ کے ایک احسان کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے قوم کی گم راہیوں کی نشان دہی کرتے ہو ئے فرمایا:
وَاذْکُرُوآْ ِذْ کُنتُمْ قَلِیْلاً فَکَثَّرَکُم ﴿الاعراف:۸۶﴾
’’یادکرو وہ زمانہ جب کہ تم تھوڑے تھے، پھر اللہ نے تمھیں بہت کردیا۔‘‘
انعاماتِ الٰہی پر شکر کی تلقین
بندوں سے مطلوب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جن نعمتوں سے نوازا ہے، وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان پر اس کاشکر بجالائیں۔ اللہ کے پیغمبروں کی زبانیں انعاماتِ الٰہی پر شکرگزاری سے تر رہتی تھیں۔ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بہت سے اوصاف مذکور ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
شَاکِراً لِاَّنْعُمِہٰ ﴿النحل:۱۲۱﴾ ’’وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا‘‘
’’انعم‘‘ جمع قلّت کا صیغہ ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قلیل نعمتوں پر بھی شکرگزار رہتے تھے، پھر اس کی بے پایاں نعمتوں پر ان کی شکرگزاری کاکیا عالم ہوگا؟ ﴿تفسیر کبیر، رازی، ۵/۳۷۲﴾
حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی نعمتوں سے نوازاتھا۔ہوائوں، چرند وپرند اور جنّات وغیرہ کو بھی ان کے لیے مسخر کررکھاتھا۔ ایک موقعے پر انھوںنے اپنے ایک کارندے کے ذریعے ملکۂ سبا کا تخت منگوایا۔ پلک جھپکتے ہی وہ تخت ان کے سامنے موجود تھا۔ یہ دیکھ کر ان کا دل شکرِ الٰہی کے جذبے سے معمور ہوگیا اور ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے:
ہٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُ وَمَن شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٰ وَمَن کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْم ﴿النمل:۴۰﴾
’’یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکرکرتاہو یا کافرِ نعمت بن جاتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتاہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے۔‘‘
پیغمبروںنے اپنی قوموں کو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کی شکرگزاری کی تلقین کی۔ انھوںنے اس کے مختلف احسانات یاد دلائے۔ انھیں سمجھایاکہ بندگی کاتقاضا ہے کہ اس کا شکر ادا کیاجائے اور اسی کی عبادت کی جائے، ورنہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے، کوئی شکرکرے یا نہ کرے، اللہ کاکچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی پر تنقید کرتے ہوئے جب اپنی قوم کو سمجھایاکہ جنھیںتم اللہ واحد کو چھوڑکر پوجتے ہو وہ تمھاری روزی کے مالک نہیں ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
فَابْتَغُوا عِندَ اللَّہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہ‘‘ اِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ﴿العنکبوت: ۷۱﴾
’’اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے جیل کے ساتھیوں کے سامنے دعوتِ توحید پیش کرتے ہوئے اسے شکرگزاری کا لازمی تقاضا قرار دیا۔ فرمایا:
مَا کَانَ لَنَآ أَن نُّشْرِکَ بِاللّہِ مِن شَیْْئ ٍ ذٰلِکَ مِن فَضْلِ اللّہِ عَلَیْْنَا وَعَلٰی النَّاسِ وَلَ کِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُونَ ﴿یوسف:۳۸﴾
’’درحقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر ﴿کہ اس نے اپنے سوا کسی کابندہ ہمیں نہیں بنایا﴾ مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات یاد دلائے یہ بھی فرمایا:
وَاِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌoوَقَالَ مُوسَی اِن تَکْفُرُوآْ أَنتُمْ وَمَن فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً فَاِنَّ اللّہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴿ابراہیم:۷،۸﴾
’’اور یاد رکھوتمھارے رب نے خبردارکردیاتھاکہ اگر شکرگزار بنوگے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور کفرانِ نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے اور موسیٰؑ نے کہاکہ اگر تم کفرکرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیںتواللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔‘‘
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے مخاطبین کے سامنے زور دے کر یہ بات فرمائی کہ اللہ کی نعمتوںپراس کاشکر ادا کرو، اس میں تمھارا ہی بھلا ہے۔ اگر ناشکری کروگے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچائوگے:
اِن تَکْفُرُوا فَاِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَاِن تَشْکُرُوا ﴿الزمر:۷﴾
’’اگرتم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتااور اگر تم شکر کروتو اسے وہ تمھارے لیے پسند کرتاہے۔‘‘
اہل ایمان سے کہاگیاکہ وہ اللہ کی عطا کردہ پاکیزہ غذائوں سے لطف اندوز ہوں اور اس کاشکر بجالائیں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ کُلُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُواْ لِلّہِ اِن کُنتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُونَ ﴿البقرہ:۱۷۲﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگرتم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہوتو جو پاک چیزیںہم نے تمھیں بخشی ہیں، انھیں بے تکلف کھائو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
فساد اورسرکشی پر تنبیہ
اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو جائے امن بنایاہے۔ اس نے اپنے بندوں کو حکم دیاہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق پہچانیں، عدل وانصاف کو لازم پکڑیں اور ظلم و زیادتی سے بچیں۔ لیکن عام طور سے انسانوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر اور اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرکے دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی، انھیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور اللہ کی زمین کو فتنہ وفساد سے بھردیا۔ پیغمبروں نے اپنی قوموںکو ان کی سرکشی اور فساد پر سخت تنبیہ کی ہے اور اللہ کی پکڑ سے ڈرایا ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تمدنی اعتبار سے بہت فائق تھی۔ لیکن طرح طرح کی بُرائیوں میں مبتلاتھی۔ انھوںنے اسے اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد دلائے اور فساد انگیزی کی روش سے باز آنے کی تلقین کی۔ فرمایا:
فَاذْکُرُوآْ اٰ لائ اللّہِ وَلاَ تَعْثَوْا فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ﴿الاعراف:۴۷﴾
’’پس اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہوجائو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو۔‘‘
ان کی قوم میں کچھ لوگ بڑے فسادی تھے،فتنہ انگیزی میں پیش پیش رہتے تھے ﴿النمل:۴۸﴾ حضرت صالح علیہ السلام نے ان کی بھی سرزنش کی اور قوم کے دوسرے لوگوں کو بھی سمجھایاکہ وہ ان کی باتوں میں نہ آئیں:
وَلَا تُطِیْعُوآ أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَo الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ o ﴿الشعرائ:۲۵۱-۲۵۲﴾
’’ان بے لگام لوگوںکی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور کوئی اصلاح نہیں کرتے۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم مختلف سماجی بُرائیوں میں مبتلا تھی۔ مال ودولت کی حرص نے اسے اندھا کردیاتھا۔ لوٹ کھسوٹ کرنا، دوسروں کا حق مارنا، جائز وناجائز کی پروا کیے بغیر اسباب معیشت اکٹھا کرنا اس کی پہچان بن گئی تھی۔ اس چیز نے ان کے سماج کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنادیاتھا۔ حضرت شعیب نے انھیں اس سے باز رہنے کی تاکید کی۔ فرمایا:
وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَآئ ہُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴿ہود:۸۵﴾
’’اور لوگوں کو ان کی چیزوںمیں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔‘‘
[یہ آیت الشعرائ:۱۸۳میں بھی آئی ہے۔ سورۂ عنکبوت :۳۶میں صرف دوسرا ٹکڑاہے]
سورۂ اعراف میں اسی مضمون میں کسی قدر تفصیل سے بیان کیاگیاہے:
وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَآئ ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَا ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ oوَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ مَنْ اٰ مَنَ بِہِ وَتَبْغُونَہَا عِوَجاً وَاذْکُرُوآْ اِذْ کُنتُمْ قَلِیْلاً فَکَثَّرَکُمْ وَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَo ﴿الاعراف:۸۶-۸۵﴾
’’لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے، اسی میں تمھاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو۔ اور ﴿زندگی کے﴾ ہرراستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جائو کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگے اور سیدھی راہ کو ٹیڑھاکرنے کے درپے ہوجائو۔‘‘
آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بھی ایسے کاموں سے منع کیاگیاہے جو روئے زمین میں فساد و انتشارکا سبب بنتے ہیں، جن سے بندگانِ خدا کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور ان کے درمیان بغض و نفرت اور باہمی عداوت کو بڑھاوا ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارِشاد ہے:
وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَا ﴿الاعراف:۵۶﴾
’’زمین میں فساد برپانہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے۔‘‘
توبہ و استغفار کی تلقین
انسانوں کو بہکانے کے لیے شیطان ہر دم ان کے پیچھے لگا ہواہے۔ وہ چاہتاہے کہ اللہ کے بندے اس کی سیدھی راہ سے بھٹک جائیں اور غلط کاموں میں پھنس جائیں۔ مطلوب یہ نہیں ہے کہ ان سے کبھی کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد نہ ہو، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ جب بھی دانستہ یا نادانستہ وہ کسی معصیت میں مبتلا ہوجائیں، کسی غلط کام کا ارتکاب کربیٹھیں اور کوئی لغزش ان سے سرزد ہوجائے فوراً انھیں تنبہ ہوجائے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ اس سے معافی چاہیں اور آئندہ اس غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کاعہدکریں۔ اللہ کے پیغمبروںنے اپنی قوموں کو ہمیشہ توبہ واستغفار کی تلقین کی ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد دلائے ہیں، اس کی صفتِ رحمت وشانِ کریمی کو نمایاں کیا ہے اور انھیں امید دلائی ہے کہ اگر وہ اس کی طرف پلٹیں گے اور اپنی کوتاہیوں پر اس سے معافی مانگیںگے تو وہ انھیں اپنی مزید نعمتوں سے نوازے گا اور دنیوی آسائشوں سے مالامال کردے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت، سورۂ نوح میں تفصیل سے مذکور ہے۔ انھوںن ے اپنی قوم سے من جملہ دیگر باتوں کے یہ بھی فرمایا:
اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ اِنَّہ‘‘ کَانَ غَفَّاراًo یُرْسِلِ السَّمَآئ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً oوَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَیَجْعَل لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَل لَّکُمْ أَنْہَاراً ﴿نوح:۱۰-۱۲﴾
’’اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمھیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمھارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا۔‘‘
حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو اپنیمجرمانہ افعال سے بازآنے اور بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفارکی تلقین کی اور اللہ تعالیٰ کے اجروانعام کایقین دلایا۔ فرمایا:
وَیَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُواْ اِلَیْْہِ یُرْسِلِ السَّمَائ عَلَیْْکُم مِّدْرَاراً وَیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلَی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْاْ مُجْرِمِیْن ﴿ہود:۵۲﴾
’’اور اے میری قوم کے لوگو! اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمھاری موجودہ قوت پر مزید قوت کااضافہ کرے گا۔ مجرم بن کر ﴿بندگی سے﴾ منہ نہ پھیرو۔‘‘
قوم ثمود کے ترقی یافتہ تمدن نے ان میں شکرگزاری اور احسان شناسی کاجذبہ پیدا کرنے کی بجائے انھیں بُرائیوں کی راہ پر ڈال دیاتھا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے انھیں اس سے توبہ کرنے، اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے اور نیکی کی راہ اختیار کرنے کی تاکید کی۔ فرمایا:
یَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّیِّئَۃِ قَبْلَ الْحَسَنَۃِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ ﴿النمل:۶۴﴾
’’اے میری قوم کے لوگو!بھلائی سے پہلے بُرائی کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو؟ کیوں نہیں اللہ سے مغفرت طلب کرتے؟ شاید کہ تم پر رحم فرمایاجائے؟‘‘
سورۂ ہود میں حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کامکالمہ تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ بھی فرمایا:
وَاسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوآْ اِلَیْْہِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَدُودٌ ﴿ہود:۹۰﴾
’’اور اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف پلٹ آئو، بے شک میرا رب رحیم ہے اور اپنی مخلوق سے محبت رکھتاہے۔‘‘
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں بھی توبہ و استغفار کی تلقین کا پہلو نمایاں ہے۔ آپ نے توحید کی تعلیم دی اور اِلٰہِواحد کی عبادت کاحکم دیا اور اپنی کوتاہیوںاور خطائوں پر مغفرت طلب کرنے کی تاکیدکی۔ یہ دعوت قرآن الفاظ میں یہ ہے:
أَلاَّ تَعْبُدُوآْ اِلاَّ اللّہَ اِنَّنِیْ لَکُم مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَبَشِیْرٌo وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوآْ اِلَیْْہِ یُمَتِّعْکُم مَّتَاعاً حَسَناً اِلَیٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّی وَیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہُ ﴿ہود:۲۰۳﴾
’’کہ تم نہ بندگی کرو مگر صرف اللہ کی، میں اُس کی طرف سے تم کو خبردار کرنے والا بھی ہوں اور بشارت دینے والا بھی۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مدت خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر صاحبِ فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔‘‘
دوسری جگہ آپﷺ کو اپنی قوم سے خطاب کرکے یہ پیغام پہنچانے کا حکم دیاگیاہے:
قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَی اِلَیَّ أَنَّمَا اِلَہُکُمْ اِلَہٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوا اِلَیْْہِ وَاسْتَغْفِرُوہُ ﴿ حم السجدہ:۶﴾
’’اے نبی ! ان سے کہوکہ میں تو ایک بشر ہوں، تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعے سے بتایاجاتاہے کہ تمھارا خدا تو بس ایک ہی خدا ہے۔ لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اسی سے معافی چاہو۔‘‘
پچھلی اقوام کے انجام سے ڈرانا
انبیائے کرام کی دعوت میں یہ پہلو بھی بہت ابھرا ہوا ہے کہ انھوںنے اپنی قوموں کو پچھلی قوموں کے بُرے انجام سے ڈرایا ہے۔ انھوںنے ان سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیاکہ تم سے پہلے کے لوگ بہت شان وشوکت والے تھے۔ بڑی طاقت و قوت کے مالک تھے، ان کی دنیوی ترقیات عروج پر تھیں، روے زمین پر انھیں کروفرحاصل تھا۔ لیکن جب انھوںنے احکام الٰہی سے سرتابی کی اور زمین کو فتنہ وفساد سے بھردیاتھا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں صفحۂ ہستی سے نیست ونابود کردیا۔ ان کا دنیوی جاہ وجلال ان کے کچھ کام نہ آسکا اور وہ بعد کے لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت بنادیے گئے۔
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم ﴿عاد﴾ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَاذکُرُوآْ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِن بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ ﴿الاعراف:۶۹﴾
’’بھول نہ جائوکہ تمھارے رب نے نوحؑ کی قوم کے بعد تم کو اس کا جانشین بنایا۔‘‘
پھرجب قوم عاد بھی اپنے جرائم کی پاداش میں ہلاک کردی گئی اور قوم ثمود کو اس کا جانشین بنایاگیاتو ان کے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام نے بھی انھیں اپنے پیش رووں کے انجام سے عبرت پکڑنے کی تاکید کی:
وَاذْکُرُواْ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَائ مِن بَعْدِ عَادٍ ﴿الاعراف:۷۴﴾
’’یادکرو وہ وقت جب اللہ نے قومِ عاد کے بعد تمھیں اس کا جانشیں بنایا۔‘‘
’’جانشین بنائے جانے‘‘ کے تذکرے میں یہ تنبیہ پوشیدہ ہے کہ اب اس دنیا میں زندگی گزارنے اور اپنی سرگرمیاں انجام دینے کا جو موقع تمھیں ملاہے، اگر تم نے اس کی قدر نہیں کی، پچھلی قوموں کی طرح تم بھی بداعمالیوںکاشکار رہے، اللہ کے پیغمبروںکاکہنا نہیں مانا اور انھیںجھٹلایاتو تمھارا بھی وہی انجام ہوگا، جس سے گزشتہ قومیں دوچار ہوئی تھیں اور اسی طرح تمھیں بھی ہلاک کردیاجائے گا جس طرح وہ صفحۂ ہستی سے مٹادی گئیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ’’من جملہ دوسری نصیحتوںکے‘‘ اس بات سے بھی ہوشیار کیا۔
وَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴿الاعراف:۸۶﴾
’’اور آنکھیں کھول کر دیکھوکہ دنیا میں مفسدوں کاکیاانجام ہواہے‘‘
قرآن کے دوسرے مقام پر ان کا جو خطاب مذکور ہے، اس میں انھوں نے پہلے ہلاک ہونے والی ایک ایک قوم کانام لے کر اس کے انجام بد سے اپنی قوم کو ڈرایاہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی ہے:
وَیَا قَوْمِ لاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَآقِیْ أَن یُصِیْبَکُم مِّثْلُ مَآ أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ ہُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنکُم بِبَعِیْدٍ ﴿ہود:۸۹﴾
’’اور اے برادرانِ قوم! میرے خلاف تمھاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچادے کہ آخرکار تم پر بھی وہی عذاب آکر رہے جونوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیاتھا اور لوطؑ کی قوم تو تم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔‘‘
قرآن کریم میں ’’رجل مومن‘‘ ﴿مردِ مومن﴾ اور اس کی دعوت کا مفصل بیان موجود ہے۔ یہ وہ شخص تھا جو دربارِ فرعون میں قدر ومنزلت کا مالک تھا۔ اسے حضرت موسیٰؑ کی دعوت قبول کرنے اور ان پر ایمان لانے کی توفیق حاصل ہوئی تو اس نے اپنی قوم کو بھی سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کی۔ اس نے ان کے سامنے دعوتِ حق پیش کی تو یہ بات بھی کہی:
یَا قَوْمِ اِنِّیْ آَٔخَافُ عَلَیْْکُم مِّثْلَ یَوْمِ الْأَحْزَابِo مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِیْنَ مِن بَعْدِہِمْ وَمَا اللَّہُ یُرِیْدُ ظُلْماً لِّلْعِبَادِ ﴿مومن:۳۰-۳۱﴾
’’اے میری قوم کے لوگو! مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پربھی وہ دن نہ آجائے جو اس سے پہلے بہت سے جہتوںپر آچکا ہے، جیسادن قوم نوحؑ اور عاد اور ثمود اور ان کے بعد والی قوموں پر آیاتھا اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ اپنے بندوںپرظلم کاکوئی ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘
قرآن کریم میں پیغمبر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بھی سابقہ اقوام کے انجام سے عبرت پزیری کاباربار تذکرہ ہوا ہے۔ وہ جب بیان کرتاہے کہ ان قوموںنے اللہ کے احکام کو ماننے سے انکار کردیااور اس کے پیغمبروں کو جھٹلایا،اس لیے انھیں ہلاک کردیاگیا تو ساتھ ہی اپنے مخاطبین سے صراحت سے کہتاہے کہ ان کا انجام دیکھ لواور اس سے عبرت حاصل کرو۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت اور ان کی قوم کے اسے قبول کرنے سے انکار کا تذکرہ کرنے کے بعداس کا انجام قرآن نے یہ بیان کیاہے:
وَأَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِاٰ یَاتِنَا فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنذَرِیْنَ ﴿یونس:۳۷﴾
’’اور ہم نے ان سب لوگوںکو غرق کردیا جنھوںے ہماری آیات کو جھٹلایاتھا۔ پس دیکھ لو کہ جنھیں متنبہ کیاگیاتھا ﴿اور پھر بھی انھوںنے مان کر نہ دیا﴾ ان کاکیا انجام ہوا۔‘‘
قوم ثمودکی سرکشی بیان کرنے کے ساتھ اس کے انجام کی طرف ان الفاظ میںاشارہ کیاگیا ہے:
وَمَکَرُوا مَکْراً وَمَکَرْنَا مَکْراً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ oفَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاہُمْ وَقَوْمَہُمْ أَجْمَعِیْنَ oفَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خَاوِیَۃً بِمَا ظَلَمُوا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ o ﴿النمل:۵۰-۵۲﴾
’’یہ چال تو وہ چلے اور پھر ایک چال ہم نے چلی جس کی انھیں خبر نہ تھی۔ اب دیکھ لو کہ ان کی چال کاانجام کیاہوا۔ ہم نے تباہ کرکے رکھ دیا اُن کو اور ان کی پوری قوم کو۔ وہ ان کے گھر خالی پڑے ہیں اُس ظلم کی پاداش میں جو وہ کرتے تھے۔ اس میں ایک نشانِ عبرت ہے، ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔
قوم لوط کا انجام ان الفاظ میں مذکور ہے:
وَأَمْطَرْنَا عَلَیْْہِم مَّطَراً فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ﴿الاعراف: ۸۴﴾
’’اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھردیکھوکہ ان مجرموں کا کیا انجام ہوا‘‘
فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی پرروشنی ڈالتے ہوئے ان کے بھیانک انجام کا ان الفاظ میں تذکرہ کیاگیاہے:
وَاسْتَکْبَرَ ہُوَ وَجُنُودُہُ فِیْ الْأَرْضِ بِغَیْْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ اِلَیْْنَا لَا یُرْجَعُونَo فَأَخَذْنَاہُ وَجُنُودَہُ فَنَبَذْنَاہُمْ فِیْ الْیَمِّ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ o ﴿القصص:۳۹-۴۰﴾
’’اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انھیں کبھی ہماری طرف پلٹانہیں ہے۔آخرکار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔‘‘
[مزید ملاحظہ کیجیے :الاعراف:۱۰۲-۱۰۳، النمل:۱۳-۱۴]
آیاتِ بالا میں گزشتہ قوموں کی ہلاکت کے تذکرے کے ساتھ ان کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ اُنْظُرْ﴿دیکھو﴾ واحدکا صیغہ ہے۔ اس کے ذریعے ہرسننے والے کو مخاطب بنایاگیاہے۔ ان آیات میں گزشتہ قوموں کے ناموں کی صراحت ہے۔ بہت سی آیات میں ان کا اجمالی بیان ہے۔ مثلاً نبیﷺ کی دعوت کو جھٹلانے والوں کے تذکرے کے بعدفرمایاگیا:
کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ﴿یونس:۳۹﴾
’’اسی طرح ان سے پہلے کے لوگ بھی جھٹلاچکے ہیں، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
[مزید ملاحظہ کیجیے: الصفت:۷۲-۷۳، الزخرف:۲۵]
گزشتہ قوموں کی ہلاکت اور تباہی وبربادی سے عبرت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو اس بات پر ابھاراگیاہے کہ وہ زمین میں چلیں پھریں، آثارِ قدیمہ کامشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ جو قومیں کبھی بڑی شان وشوکت کی مالک تھیں، اب کس طرح ان کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔
وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُواْ مِنْہُم مَّا کَانُواْ بِہِ یَسْتَہْزِئُونَo قُلْ سِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ ثُمَّ انظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَo ﴿الانعام:۱۰-۱۱﴾
’’﴿اے نبی﴾ تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جاچکاہے، مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخرکار وہی حقیقت مسلط ہوکر رہی جس کاوہ مذاق اڑاتے تھے۔ ان سے کہو، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہواہے۔‘‘
[مزید ملاحظہ کیجیے: آل عمرانَ۱۳۷، النحل:۳۶، النمل:۵۹، الروم:۴۲]
جو لوگ روے زمین کے آثار کو عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور سابقہ قوموں کے احوال کو جان کر اپنے رویوں پر نظرثانی نہیںکرتے، قرآن ان کی سرزنش کرتاہے اور ان آثار کی عبرت ناکی کی طرف ان کی توجہ مبذول کرتاہے:
أَوَ لَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَیَنظُرُوا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ کَانُوا مِن قَبْلِہِمْ کَانُوا ہُمْ أَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَآثَاراً فِیْ الْأَرْضِ فَأَخَذَہُمُ اللَّہُ بِذُنُوبِہِمْ وَمَا کَانَ لَہُم مِّنَ اللَّہِ مِن وَاقٍo ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانَت تَّأْتِیْہِمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ فَکَفَرُوا فَأَخَذَہُمُ اللَّہُ اِنَّہُ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ﴿مومن:۲۱،۲۲﴾
’’کیا یہ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ انھیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزرچکے ہیں؟ وہ ان سے زیادہ طاقت ور تھے اور ان سے زیادہ زبردست آثار زمین میں چھوڑگئے ہیں۔ مگر اللہ نے ان کے گناہوں پر انھیں پکڑلیا اور ان کو اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ یہ ان کا انجام اس لیے ہواکہ ان کے پاس اُن کے رسول بیّنات لے کر آئے اور انھوںنے ماننے سے انکار کردیا۔ آخرکار اللہ نے ان کو پکڑلیا۔ یقینا وہ بڑی قوت والا اور سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘
[مزید ملاحظہ کیجیے :یوسف:۱۰۹، الروم:۹، فاطر:۴۴، مومن:۸۲، محمد:۱۰]
سابقہ اقوام کے انجام سے ڈرانے کے نتیجے کے طورپر انبیاے کرام نے اپنی قوموں سے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ اگر تم نے بھی ویسے ہی کام کیے جیسے تم سے پہلے کے لوگ کرتے رہے ہیں اور تم نے بھی اپنے پیش رووں کی طرح احکام الٰہی سے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ تمھیں بھی اسی طرح ہلاک کردے گا جس طرح تم سے پہلے کے لوگ تباہ وبرباد کردیے گئے اور تمھاری جگہ وہ دوسرے لوگوں کو لابسائے گا۔ کوئی نہیں جو اللہ کی اس ’’سنت‘‘ میں رکاوٹ ڈال سکے اور اسے ایسا کرنے سے روک سکے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2011