اشارات میں ہم ‘مسلم امت کی ترقی و تمکین’ کے مرکزی موضوع پر قسط وار لکھ رہے ہیں۔ اس ماہ اس سلسلے کے بجائے، ایک مختلف موضوع پر کچھ گذارشات پیش کی جارہی ہیں۔ ان شاء اللہ اگلے ماہ سے ترقی و تمکین پر مضامین کا سلسلہ جاری رہے گا۔
حالات کی شدت جو بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جذبات میں اعتدال باقی نہیں رہتا اور طرح طرح کے انتہا پسندانہ رویے جنم لینے لگتے ہیں۔ اس وقت مسلم نوجوانوں کو ایسے رویوں سے بچانا اور راہِ اعتدال پر قائم رکھنا، اسلامی تحریک کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اعتدال اسلام کی اہم خصوصیت ہے۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا۔ اسلامی پالیسی کا عنوان اگر عدل ہے تو اسلامی فکر ومزاج کا عنوان اعتدال ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اعتدال ہی عدل ہے اور عدل ہی اعتدال ہے۔ ہماری اصل کوشش ہی اسلامی اعتدال کی بازیافت اور اس پر دنیا کو قائم کرنا ہے۔
بے اعتدالی و عدم توازن: جاہلیت کی اہم خصوصیت
بے اعتدالی یہ جاہلیت کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اس وقت بھی دنیا جس بحران سے گزررہی ہے اس کا ایک نمایاں مظہر توازن کا بحران (crisis of balance)ہے۔ یعنی مختلف معاملات میں دنیا راہ اعتدال کی پہچان اور اس پر قائم رہنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہے۔ توازن و اعتدال اس کائنات کی ایک اہم خصوصیت ہے۔وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ‘آسمان کو اُس نے بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ ‘اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی کام یابی کا راز بھی توازن و اعتدال کی اسی راہ میں رکھا ہے جو اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے واضح کردی ہے اور انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ توازن کی اس راہ سے منحرف نہ ہوں۔أَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیزَانِ (اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو)۔
توازن کا یہ بحران ہمیشہ رہا ہے اور ہر دور میں جاہلیت میزان سے انحراف ہی کا نام رہی ہے۔ اس مضمون کے قارئین ہیگل کی جدلیات (Hegelian dialectic)سے واقف ہیں۔ اس نے دو انتہاؤں کے درمیان سفر کو انسانی فکر کی لازمی خصوصیت قرار دیا تھا۔ اسلام نے اس کے مقابلے میں سواء السبیل کو نجات کی راہ قرار دیا ہے۔ قُلْ یاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِی دِینِكُمْ غَیرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِیرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ (کہو، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُ ن لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گم راہ ہوئے اور بہتوں کو گم راہ کیا، اور ‘سَوَا٫ السّبیل’ سے بھٹک گئے۔ المائدة: 77) اس آیت میں اللہ تعالی نے دین میں غلو اور خواہش نفس کی پیروی، ان دونوں انتہاؤں سے بچنے کی تاکید کی ہے اور سواء السبیل پر چلنے کا حکم دیا ہے۔۔ سواء السبیل کیا ہے؟ اس کی بہت خوب صورت وضاحت اُس تفسیری نوٹ سے ہوتی ہے جو مولانا مودودیؒ نے درج ذیل آیت کی تشریح میں لکھا ہے: فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ ( مگراس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو در حقیقت اُس نے سوا٫ السبیل گم کر دی۔ المائدة: 12) اس نوٹ کا یہ حصہ خاص طور پر قابل توجہ ہے:
”موجودہ زمانہ کے بعض نا دان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکّے کھاتی چلی جا رہی ہے، یہ غلط نتیجہ نِکال لیا کہ ‘جَدَلی عمل'(dialectical process) انسانی زندگی کے ارتقا کا فطری طریق ہے۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ (thesis) اُسے ایک رُخ پر بہا لے جائے، پھر اِس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ (antithesis) اُسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے، اور پھر دونوں کے امتزاج (synthesis) سے ارتقائے حیات کا راستہ بنے۔ حالاں کہ دراصل یہ ارتقا کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقا میں بار بار مانع ہو رہے ہیں۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اُس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جا تا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دُور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے۔ جُوں جُوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعووں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھہرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اُسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجے میں ایک دوسری بغاوت اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انھوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انھیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقا کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے نہ کہ خطِ منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا۔”
مثلاً بد نصیبی کا ایک دھکا تو وہ تھا جس کا مظہر ماڈرن ازم تھا اور ایک دھکا وہ ہے جس کا مظہر پوسٹ ماڈرن ازم ہے۔ ایک دھکا کمیونزم تھا تو ایک کیپٹلزم تھا۔پینڈولم کی ایک انتہا، حد سے بڑھی ہوئی انفرادیت پسندی (individualism)تھی تو دوسری انتہا وہ ریاست پرستی (statism)ہے جس کے مظاہر اس وقت ہمارے ملک میں بھی نمایاں ہیں۔
مذہب کے رول کے بارے میں بے اعتدالی
ہمارے ملک میں اس سلسلے میں نمایاں مثال مذہب کے سلسلے میں رائج رویے کی دی جاسکتی ہے۔ مذہب کے حوالے سے جدیدیت کے ڈسکورس کا عنوان سیکولرزم تھا۔ جس میں مذہب کو انفرادی زندگی تک محدود کرنے کی کوشش تھی۔لیکن دنیا کے پیچیدہ مسائل نے انسان کو مذہبی اور روحانی قدروں کی طرف متوجہ کیا۔ یہ سوچ عام ہوئی کہ مذہب کی ضرورت صرف گھر کی چار دیواری میں نہیں ہے، بلکہ ماحولیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے، امن و امان کے لیے، کارپوریٹ کمپنیوں میں تناؤ سے بچنے اور بہتر کارکردگی کے لیے، غرض اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں مذہب یا ‘روحانی قدروں’ کی ضرورت ہے۔ اس سوچ نے فٹ بال کو ایک اور دھکا دیا تو سوچ کے دو دھارے وجود میں آئے۔ اسے آپ مذہب کا پوسٹ ماڈرنسٹ ڈسکورس کہہ سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جسے ان دنوں ‘سیکولر روحانیت’ (secular spirituality)کہا جانے لگا ہے۔ یعنی کسی مذہب کے حوالے کے بغیر، انسان کی اخلاقی و روحانی تربیت کی کوشش کی جائے اور گیان دھیان، میڈی ٹیشن اور لاشعور کی پروگرامنگ کے ذریعہ، اسے ‘اپنی قدروں’ کو خود تشکیل دینے اور ان پر کاربند رہنے میں نیز ذاتی ترقی، دلی سکون اور دوسروں سے بہتر تعلقات بنانےمیں مدد دی جائے۔ اس وقت دنیا کے ہر گوشے میں ایسی ہزاروں روحانی تحریکیں ہیں جو اس اصول پر کام کررہی ہیں۔
دوسرا رجحان یہ ہے کہ مذہب کی اجتماعی زندگی میں واپسی کی حوصلہ افزائی کی جائے لیکن تمام مذاہب کو بیک وقت درست مانا جائے۔ سچائی کی اضافت کا نظریہ پوسٹ ماڈرن ازم کی ایک اہم بنیاد ہے۔ اس نے اس رجحان کو اور تقویت پہنچائی ۔ ہمارے ملک میں ہندو فلسفے میں تو بہت پہلے سے اس کی بنیادیں موجود ہیں۔ چناں چہ یہاں یہ فکر اور زیادہ تیزی سے عام ہوگئی۔ اس وقت صور ت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خصوصاً اور دنیا میں عموماً لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جوکسی ایک مذہب کی حقانیت پر اصرار اور باقی مذاہب کے ردّ و ابطال کو پسند نہیں کرتے۔ اسے وہ اخلاقی عیب سمجھتے ہیں اور اپنے مذہبی عقیدے کو واحد سچائی سمجھنا مذہبی جنون (fanaticism) سمجھتے ہیں۔
یہ عجیب بات ہےکہ دنیا کا یہ رویہ مذہب کے علاوہ کسی اور علمی محاذ پر نہیں ہے (پوسٹ ماڈرن فلسفوں کے استثنا کے ساتھ)۔فلسفہ، مختلف سماجی علوم، حتیٰ کہ نظریاتی سائنس میں بھی مختلف متضاد تھیوریوں پر زوردار بحثیں جاری ہیں۔ لوگ اپنے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں اور متضاد موقف کو غلط سمجھتے ہیں، اور اسے تنقید و جرح کا موضوع بناتے ہیں۔ البتہ اس ‘غلط’ موقف کو اختیار کرنے کے اپنے مخالفین کے حق کو بھی تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر یہ رویہ راست فکری سے اپنایا جائے تو اسی مجادلے سے سچائی نکھر کر سامنے آسکتی ہے، اور دیگر لوگوں کو اپنے موقف کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ دنیا کے تمام علوم و فنون میں اپنے نظریات کے سلسلے میں شفافیت اور صاف گوئی کو اخلاقی خوبی سمجھا جاتا ہے۔
اسلام دین و مذہب کے معاملے میں بھی اسی معقول علمی رویے کا قائل ہے۔اسے بجاطور پر اپنی سچائی پہ اصرار ہے اور وہ اپنے ماننے والوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی حقانیت کو باقی دنیا پر واضح کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ جو لوگ اس سچائی کے قائل نہیں ہیں، ان کے ساتھ مکالمہ و مجادلہ ہوتا رہے۔ لیکن اگر کوئی ماننا ہی نہیں چاہتا تو اس دنیا میں، اسلام اسے نہ ماننے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ دنیا کو دلائل کے ساتھ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذہب سمیت تمام مختلف فیہ معاملات میں یہی معقول اور مطلوب رویہ ہے۔ مخالف موقف کو بھی صحیح سمجھنے کا مطالبہ اور اس پر اصرار ایک غیرفطری اور نامعقول مطالبہ ہے جو بدترین نفاق کو جنم دیتا ہے۔
مذہب کے معاملے میں بحث و مجادلے سے گریز اور سبھی مذاہب کو بیک وقت صحیح سمجھنے پر اصرار کی روش کو ہمیں علمی سطح پر تنقید کا موضوع بنانا چاہیے۔اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ڈائیلاگ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ہماری کوششوں میں کبھی بھی اس مزاج کی جانب جھکاؤ کا اظہار نہ ہو۔ اس وقت ہمارے ملک میں یہ سوچ ہمارے لیے سب سے بڑے فکری چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور باقی دنیا میں بھی اسلامی فکر کی راہ میں یہ بڑی رکاوٹ ہے۔ اس ذیل میں اسلام کا موقف بغیر کسی تذبذب یا ابہام کے بغیر دنیا کے سامنے آئے، یہ ہماری کوشش ہونی چاہیے۔
خیر سگالی اور ہندوستانی سماج سے قربت کے لیے ہم اپنےغیر مسلم بھائیوں کے ساتھ طرح طرح کے پروگرام کرتے ہیں۔ ان پروگراموں میں ہمیں یہ احتیاط سختی سے ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ہمارے کسی عمل سے وحدت ادیان کا پیغام نہ جائے۔ یہاں بھی اعتدال سے انحراف پینڈولم کی دو انتہاؤں کے درمیان گردش کراتا ہے۔ایک طرف کچھ لوگ مختلف مذاہب کے ساتھ تال میل اور تعلق کو اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان و بھائی چارے کی کوششوں کو ہی غلط سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غیر مسلموں سے یا تو ہم الگ تھلگ رہیں یا بات کریں تو ان کو شرک سے روکنے کی بات کریں، توحید کی دعوت کی بات کریں۔محض میل ملاپ کو وہ صحیح نہیں سمجھتے۔ یہ بھی ایک انتہاپسندانہ نقطہ نظر ہے۔ دعوت دین کے لیے میل ملاپ بھی ضروری ہے۔ مدعو کے اندر یہ یقین ہونا ضروری ہے کہ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّی وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِینٌ (تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمھارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔ الأعراف: 68) اسلام دین فطرت ہے۔ قول کے علاوہ داعی کے عمل سے بھی وہ ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔اسلام کی عملی شہادت کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں اور داعیان اسلام کے غیر مسلم سماج سے اچھے تعلقات ہوں۔ اہل اسلام کی زندگیاں وہ قریب سے دیکھیں۔ اسلام کی برکتوں کا مشاہدہ کریں۔ اس لیے میل ملاپ کی کوششیں دعوت دین سے الگ نہیں ہیں۔ لیکن میل ملاپ کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ برسوں اسلام کے تعارف اور گفتگو کا نتیجہ صرف یہ نکلے کہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام میں بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔ موقع و محل ضرور دیکھنا چاہیے لیکن یہ بات ہماری جانب سے پورے اعتماد کے ساتھ آنی چاہیے کہ حق صرف اسلام ہے اور اسی کی طرف ہم سب کو دعوت دیتے ہیں۔
مسلمان اور عدم توازن کا مسئلہ
مسلمان سب سے زیادہ حالات کی سختی سے دوچار ہیں۔ حالات کی سختی عدم توازن کا شکار بھی کرتی ہے لیکن توازن پیدا کرنے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ راہِ اعتدال اس وقت پل صراط کی طرح بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس باریک اعتدال کی شاہراہ سے تھوڑا سا دائیں جھکیں تو انتہاپسندی کے مختلف درجوں کا آغاز ہوجاتا ہے اور تھوڑا بائیں جھکیں تو مداہنت اور مرعوبانہ تجدد پسندی کے مختلف درجے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔شیطان ہم کو پینڈولم کی طرح کبھی دائیں اور کبھی بائیں جھکا کر نقطہ اعتدال سے منحرف کرنا چاہتا ہے۔ اعتدال و توسط کے اس بال سے زیادہ باریک راستے کی بصیرت پیدا کرنا اور اس پر خود قائم رکھنا اور دوسروں کو قائم رکھنا، یہ اس وقت تحریک اسلامی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔اس وقت وہ اجتہادی بصیرت درکار ہے جو مصالحت اور انحراف سے پاک ہو اور وہ جرأت و استقامت مطلوب ہےجو انتہا پسندی اور جمود سے پاک ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو بھی اعتدال کا حکم دیا ہے۔ قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ وَأَقِیمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّینَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ (اے محمدؐ، ان سے کہو، میرے رب نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ ہر عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اسی کو پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر، جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔ الأعراف: 29) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قسط کا حکم دیا ہے۔ اس کی تشریح میں مفسرین نے لکھا ہےکہ یہاں اس کا مطلب ہر چیز میں ٹھیک ٹھیک نقطہ عدل و اعتدال کا اہتمام ہے۔یہ دین اسلام کی روح ہے۔ ایک مفسر نے لکھا ہے کہ پوری اسلامی شریعت اسی روح کی عکاس ہے۔ جو حکم بھی انسانوں کو دیا گیا ہے وہ پوری طرح قسط کے ترازو میں تول کے دیا گیا ہے اس میں کہیں بھی افراط وتفریط کا سایہ تک نہیں ہے۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نماز میں بھی ہم اپنا رخ بالکل متعین کرکے ایک خاص سمت میں رکھتے ہیں۔ نہ ذرا دائیں ہوتے ہیں اور نہ بائیں، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ پیچیدہ آلات کی مدد سے قبلے کی سمت معلوم کریں اور اسی طرف اپنا رخ کریں۔ یہ اس بات کی ٹریننگ ہے کہ زندگی کے معاملات میں بھی یہی متعین رخ مطلوب ہے۔ خدا کا دین زندگی اور فکر کو ایک خاص سمت دیتا ہے۔ اس میں نہ دائیں طرف کسی جھکاؤکی گنجائش ہے اور نہ بائیں طرف۔اس وقت امت کو سب سے زیادہ اسی ٹھیک متعین رخ کی ضرورت ہے۔ ذیل میں کچھ ایسے اہم فکری رجحانات کا ذکر کیا جارہا ہے جنھیں مسلمانوں میں عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جو اس نقطہ وسط سے انحراف کے نتیجے میں اور دائیں یا بائیں جھکنے کے نتیجے میں پیدا ہورہے ہیں۔ ان کا ہم کو مقابلہ کرنا ہے۔
عدم توازن کا نمایاں ترین مظہر: نام نہاد ماڈریٹ اسلام
ان میں سب سے اہم انحراف تو وہ ہے جو اعتدال یا ماڈریٹ اسلام کے نام پر پھیل رہا ہے۔ باطل طاقتوں کے اسلام سے مقابلہ کی حکمت عملی کا ایک اہم ترین جز یہ ہے کہ اسلام سے اہل اسلام کی وابستگی کو کم زور کیا جائے۔ اہل اسلام کے تعلق کو اسلام سے کم زور کرنا آسان نہیں ہے اس لیے اسٹریٹجی یہ ہے کہ اسلام کا نام ضرور باقی رہے لیکن اصلاحات اور ریفارم کے نام پر اسلا م کی روح نکال دی جائے۔ایان ہرسی علی نے اپنی کتاب Heretic: Why Islam Needs a Reformation Now میں، اسلام میں مطلوب اصلاحات کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ کہی ہے کہ مسلمان قرآن کو ضرور مانیں لیکن محمد ﷺ کے تعلق سے یہ تسلیم کرلیں کہ وہ محض خدا کا پیغام لانے والے تھے۔ ان کی باتوں پر عمل ضروری نہیں ہے اور ان کی باتوں پر تنقید کی جاسکتی ہے۔
تفریق بین اللہ و الرسل پراس وقت پوری دنیا میں بڑے پیمانہ پر کام ہورہا ہے۔ اور حدیث اور سنت نبوی ﷺ کی من مانی تاویلات کی راہیں ہم وار کرنے کے لیے نت نئے اصول اور فلسفے گھڑے جارہے ہیں اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام کی ان نئی اور مغرب کی پسندیدہ تعبیرات کی طرف خاص طور پر نوجوان تیزی سے متوجہ ہوں۔
معتدل اسلام (moderate Islam)کے نام پر جو نظامِ فکر عام کیا جارہا ہے، اس کی اہم باتیں یہ ہیں:
اسلام کے مخاطب صرف افراد ہیں اور افراد کواسلام کی تعلیم کے مطابق خود کی اصلاح اور خدا سے قرب پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ فرد پر معاشرے یا حکومت کی کوئی ذمے داری نہیں ہے۔
جہاد صرف دفاعی ہے۔ اگر مسلمانوں کی حکومت پر کوئی بیرونی فوج حملہ آور ہوتی ہے تو مسلمان فوج اپنے ملک کا دفاع کرے گی۔ بس یہی جہاد ہے۔
خواتین، خاندانی نظام، بنک کا سود، انشورنس، وغیرہ معاملات میں مغربی معاشرت سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کی کوشش اور اس کے لیے اسلامی اصولوں پر خطرناک قسم کی مصالحت، اس کے لیے قرآن کی من مانی تاویلات اس حد تک کہ اسلام کا امتیاز باقی نہ رہے۔
استخفاف حدیث و سنت
ان سب اہداف میں سنت نبوی اور احادیث پاک رکاوٹ بنتی ہیں۔چناں چہ احادیث کا استخفاف اس ماڈریٹ اسلام کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مولانا مودودی ؒ نے بہت پہلے اس پروجیکٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ:
”قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے، اور اس نظام فکر وعمل سے جو خدا کے پیغمبر نے اپنی رہ نمائی میں قائم کردیا تھا، الگ کرکے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کرکے ایک دوسرا نظام بنا ڈالا جائے جس پر اسلام کا لیبل چسپاں ہو۔”
اس ہدف کے حصول کے لیے احادیث کے سلسلے میں ردّ و استخفاف کے مختلف رویے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک انتہائی رویہ تو وہ ہے جو ایان ہرسی علی کے حوالے سے ابھی بیان کیا گیاہے کہ حدیث کو دین کا مصدر ماننے ہی سے انکار، حدیث کو صرف اقوالِ زریں کی حیثیت دے دینا، اسے شریعت کا ماخذ تسلیم نہ کرنا، دوسرا رویہ یہ ہے کہ حدیث کو ماخذ تو تسلیم کیا جاتا ہے لیکن مختلف بہانوں سے صحیح احادیث کے بڑے ذخیرے کو ناقابل اعتبار بنادیا جاتا ہے۔ اور تیسرا رویہ یہ ہے کہ احادیث کو تسلیم تو کیا جاتا ہے لیکن اس کی لفظی پیروی ضروری نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ صرف حدیث کی روح کو سمجھ کر آج کے حالات میں اس روح کے انطباق کی کوشش ہونی چاہیے۔ مثلاً احادیث میں عورت کے حجاب کی جو تفصیل آئی ہے اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس کی روح مہذب اور شائستہ لباس ہے۔سر ڈھانکنا اور سارے جسم کو مستور رکھنا مطلوب نہیں ہے بلکہ سماج میں جس لباس کو مہذب اور شائستہ مانا جاتا ہے اور ‘مہذب’ گھرانوں میں جس لباس کا رواج ہو اس کی پابندی کی جائے یہ کافی ہےاور یہی اسلام کا منشا ہے۔ اور یہ کہ مخصوص تراش خراش پر اور لباس و حجاب کے ‘حدودِ اربعہ’ پر اصرار ”دین کا مقصود نہیں ہے’۔ بات آگے بڑھتی ہے تو پھر اس خود ساختہ اصول کی ضرب دین کے ہر حکم پر پڑتی ہے۔ نماز کا مقصود اللہ کی یاد ہے۔ پانچ دفعہ مشکل ہے تو تین دفعہ سہی۔ سود کی حرمت کا مقصد اصلاً غریب قرض داروں کا استحصال روکنا ہے۔ بنک کا سود تو غریب بچت کاروں کی مدد کے لیے ہے اس لیے اس کی حرمت کی کوئی وجہ نہیں۔ بلکہ ہم جنسی کا جواز بھی دین اسلام سے برآمد کرلیا جاتا ہے۔ العیاذ باللہ۔ یہ خیالی باتیں نہیں ہیں۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ ‘ماڈریٹ اسلام’ کے نام پر اب یہ سب باتیں پروسی جارہی ہیں۔
یہ ردّ و استخفاف حدیث کے مختلف درجے ہیں اور ان تینوں ہی رویوں کے نتیجے میں دین کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے۔دین اسلام صرف اُن قدروں تک محدود ہوکررہ جاتا ہے جن پر ساری انسانیت کا اتفاق ہے۔ یعنی امن و امان ہو، ایک دوسرے کے متفق علیہ حقوق کا احترام ہو، تہذیب و شائستگی ہو، اور بس۔ دنیا کا ہر شریف انسان، جن چیزوں کو درست مانتا ہے اُن کے سوا اسلام میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو ہم توازن کے ساتھ ایڈریس کریں۔جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے یعنی یہ کہ اسلام کی سیاسی تعلیمات کا نفاذ اور اس کے لیے کوشش مسلمانوں کی ذمے داری نہیں ہے، یہ سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی فکر ہے۔ اس کی پشت پر حدیث کا استخفاف کرنے والوں سے لے کر شدت پسند اہل حدیث مدخلیوں تک، طرح طرح کے لوگ موجود ہیں۔ اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہیں کہ ان میں ایک عام نوجوان کو اقامت دین نظریاتی اور خیالی و غیر عملی چیز لگتی ہے۔اسلامی ریاست کے نام پر جو طرح طرح کی انتہا پسند، دہشت گرد اور تکفیری تحریکیں حالیہ زمانوں میں چلی ہیں، انھوں نے بھی اس تصور سے بے زاری کو پروان چڑھایا ہے۔ہمارے لٹریچر میں ریاست اور نظام کی جو بحثیں ہیں انھیں پڑھ کر وہی باتیں جب ہم دہراتے ہیں تو لوگوں کو لگتا ہے کہ اقامتِ دین کا مطلب صرف حکومت کا حصول یا اسلامی حکومت کا قیام ہےاور چوں کہ یہ بات اس وقت خیالی محسوس ہوتی ہے اس لیے ہمارا یہ نصب العین بھی لوگوں کو خیالی لگتا ہے۔پھر بعض اوقات اہلِ حق بھی شدت پسندوں کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ اس سے اور دوری پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے ایسے مفکرین میں کشش محسوس ہوتی ہے جو اس نصب العین کا انکار کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کے دستور میں اقامتِ دین کی بہت جامع اور واضح تشریح موجود ہے۔اس میں صرف ریاست کی سطح پر نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کی سطح پر بھی دین کے نفاذ کا تصور موجود ہے۔ اس ملک میں اقامت دین کا کام موجودہ مرحلوں میں کن چیزوں کا تقاضا کرتا ہے وہ بھی ہمارے پالیسی و پروگرام سے بہت واضح ہے۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ان سب باتوں کو وضاحت سے اجاگر کریں۔ اقامت دین کی اصل اور آخری منزل بھی دکھائیں اور موجودہ مرحلوں میں اس کے لیے کرنے کے کاموں پر بھی زور دیں۔ یہ واضح کریں کہ افراد کا تزکیہ و تربیت، معاشرے کی تعمیر، معاشرے کے اداروں کی اسلامی قدروں کی بنیادوں پر تعمیر نو، دعوت دین اور پبلک اوپینین پر اثر اندازی یہ سب اقامت دین کے ہی تقاضے ہیں۔
اسی طرح اس بات کی ضرورت ہے کہ حدیث کے مقام اور حیثیت سے متعلق ہمارا ذہن صاف ہو۔یہ بحث ہمارے اجتماعات میں ہوتی رہے کہ حدیث کا دین میں کیا مقام ہے؟ اور حدیث و سنت کیسے قرآن کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اور کس طرح دین،حدیث و سنت کے بغیر نامکمل ہے۔
استخفاف حدیث کا مطلب
جب ہم حدیث و سنت کے مقام اور اس کی حجیت کی بات کرتے ہیں اور اسے حق و باطل کے درمیان فرق کا ایک نہایت اہم پیمانہ بناتے ہیں تو دوسری انتہاپسندی کا سامنا ہوتا ہے۔یعنی پینڈولم دائیں کو جھک جاتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں سب سے زیادہ مروج گالی ‘منکرِ حدیث’ کی گالی ہے۔ جس نے ہماری بات سے ذرا اختلاف کیا،کسی ایسی رائے کو ترجیح دی جو ہماری رائے کے خلاف ہے تو اسے منکر حدیث کہنا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن کی طرح حدیثیں سب ایک جگہ جمع نہیں ہیں۔اور حدیث کے نام پر ضعیف و موضوع من گھڑت کا بڑا ذخیرہ ہمارے دینی لٹریچر میں در آیا ہے۔ محدثین کرام نے روایات کی چھان بین اور صحیح حدیثوں کی تشخیص کے اصول متعین کیے ہیں۔پھر حدیث سے احکام کو مستنبط کرنا بھی ایک فن ہے۔ ہمارے فقہا نے اس کے بھی اصول وضع کیے ہیں۔ ان اصولوں میں مختلف محدثین اور فقہاکے درمیان کہیں کہیں اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے۔ صحیح حدیثوں میں بھی بعض جگہ تعارض پایا جاتا ہے۔ ہر زمانے میں فقہا نے ایسے حالات میں بعض حدیثوں کو بعض پر ترجیح دی ہے۔بعض کی تاویل کی ہے۔ جو فقہی اختلافات ہیں، ان کا سبب یہی ہے۔ آج بھی اہلِ علم میں یہ بحثیں موجود ہیں۔ بعض حدیثوں کو وہ دوسری حدیثوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ بعض موقعوں پر صحیح حدیثوں پر بعض ضعیف حدیثوں کو ترجیح دیتے ہیں یا بعض صحیح حدیثوں کی تاویل کرتے ہیں۔ اہل حدیث اور اہل رائے کا اختلاف اسلامی تاریخ میں ہر دور میں رہا ہے۔ اہل حدیث روایت کے اصول پر جو حدیث صحیح ہو اس پر ہوبہو عمل کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اہل رائے اس کے بالمقابل حدیث کی روح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن اور دین کی مجموعی روح کو سامنے رکھ کر ان پر غور کرتے ہیں۔ جب غور کرتے ہیں تو الگ الگ رائیں بھی ہوتی ہیں۔کس حدیث میں حکم ہے، کس حدیث میں محض فضیلت کا بیان ہے، کس حدیث میں محض خبر ہے، کون سی سنت، سنت ہدی (وہ سنت جس کی پیروی مطلوب ہے) ہے اور کون سی سنت عادیہ (جو نبی ﷺ نے محض اپنے زمانے کے لحاظ سے بطور عادت اختیار کی ہے جس کی ہر زمانے میں پیروی ضروری نہیں،مثلاً اونٹ کی سواری) ہے،ان سب باتوں پر رایوں کا اختلاف ہواہے۔ یہ فطری ہے اور ہر دور میں رہا ہے۔
آج بھی اس معاملے میں الگ الگ رجحانات ہیں۔ اہل حدیث ہر صحیح حدیث کو ہو بہو لفظی معنوں میں لیتے ہیں۔ اور اس کی لفظی پیروی ہر حال میں ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا مودودی ؒ بعض صحیح حدیثوں کی صحت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں یا بعض حدیثوں کی تاویل کرتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحیؒ، قرآن کو بنیاد بناکر حدیث کے متن کی تنقیح کرتے ہیں اور قرآن کی بنیاد پر حدیث کے قابل قبول یا ناقابل قبول ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ تحریکات اسلامی کے حلقوں میں یہ سب رجحانات ہمیشہ رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کی رائے سے ہمیں اتفاق یا اختلاف ہوسکتا ہے۔ کوئی رجحان ہمارے نزدیک ناقابل قبول بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ حق و باطل کا اختلاف نہیں ہے۔ یہ سب امت کے معتبر رجحانات ہیں۔ یہ علمی اختلافات ہیں اور علمی سطح ہی پر ان سے تعرض کیا جانا چاہیے۔ان اختلافات کو حق و باطل کا اختلاف سمجھ لینا، یا ان کی بنیاد پر عوامی سطح پر حق و باطل کے فیصلے کرنے لگنا، یہ نہایت ناپسندیدہ روش ہے۔ امت میں اسی سے فرقے پیدا ہوئے ہیں اورتحریک اسلامی نے ہمیشہ ایسی فرقہ بازی کی مخالفت کی ہے۔
جو معتبر علما بظاہر کسی حدیث کی بنیاد پر حکم نہیں لگاتے وہ حدیث کو یا اللہ کے رسول ﷺکےقول کو نعوذ باللہ رد نہیں کررہے ہوتے ہیں۔ بلکہ دِرایت کی بنیاد پر حدیث کے صحیح ہونے کو تسلیم نہیں کررہے ہوتےہیں یا مختلف احادیث میں سے کسی حدیث کو عمومی حکم کی اور کسی کو مخصوص معاملے کی بنیاد سمجھ رہے ہوتے ہیں یا کسی صحیح حدیث کی تاویل کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے اختلافات بخاری و مسلم کی بعض صحیح حدیثوں کے سلسلے میں بھی پائے جاتے ہیں۔حدیث کا انکار یا حدیث کا استخفاف اس وقت سمجھا جائے گا جب کوئی حدیث و سنت کو حجت تسلیم کرنے ہی سے انکار کرے، ان کی پابندی کو اصولی طور پر ہی ضروری نہ سمجھےیا بالکل واضح اور متفق علیہ احکام کا انکار کرے یا صحیح احادیث کے بڑے حصے کو رد کردے یا ایسے تفر د سے کام لے جسے امت نے کبھی قبول نہیں کیا ہو۔
مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر بہت تفصیل سے اور بڑی وضاحت سے لکھا ہے۔ اگر یہ کتابیں ہمارے زیر مطالعہ رہیں تو ہم ان فتنوں کا آسانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب ‘سنت کی آئینی حیثیت’ نامی کتاب ہے۔ یہ کتاب اچھی طرح گہرائی سے پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقے کے لیے بہت مفید ہے اور خالص عقلی دلائل سے اس میں دین میں حدیث کے مقام کو متعین کیا گیا ہے۔
اسی طرح تفہیمات حصہ اول کے آخری آٹھ مضامین، اتباع و اطاعتِ رسول،’رسول کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبوی، رسالت اور اس کے احکام، حدیث اور قرآن،مسلک اعتدال، حدیث کے متعلق چند سوالات، قرآن اور سنت رسول، ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب،یہ وہ مضامین ہیں جو دونوں انتہاؤں یعنی انکار حدیث کا فتنہ اور حدیث کو لے کر شدت پسندی، دونوں ہی کے حوالے سے نہایت مدلل فکر پیش کرتے ہیں۔ ان مضامین کو بھی اچھی طرح پڑھنا چاہیے۔خاص طور پر مسلک اعتدال کو بار بار پڑھنا چاہیے۔
اصولوں اور فروعات میں فرق کا ختم ہوجانا
اسی سے ملتا جلتا ایک اہم مسئلہ یا فکری رجحان جزئیات کو زیادہ اہمیت دینے کا مسئلہ ہے۔ تحریک اسلامی نے اس کے خلاف ذہن بنایا تھا۔ لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ عام مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تحریک کی صفوں میں بھی یہ مسئلہ پلٹ کر آرہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بعض امور اور احکام کو قطعی صورت میں بیان کیا ہے۔ یہ امور یا تو قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔ (منصوص احکام) یا اگر ان کی ایک سے زائد تعبیروں کی گنجائش ہے تو کسی ایک تعبیر پر امت کا اجماع ہے (متفق علیہ)۔اسلام کا بڑا حصہ انھی متفق علیہ باتوں پر مشتمل ہے۔ یہی ہماری دعوت کی بنیاد ہے۔ تحریک اسلامی نے اول روز سے واضح کیا کہ دین کی متفق علیہ تعلیمات ہی دین کی اصل ہیں۔ جن باتوں میں صحابہ کے دور ہی سے، یا ائمہ و محدثین کے دور ہی سے اختلاف چلاآرہا ہے یا جو باتیں آج کے معتبر علما کے درمیان مختلف فیہ ہیں، وہ فروعات ہیں۔ ہر مسلک کی اس میں گنجائش ہے۔ ہم کسی ایک مسلک یا رائے پر زور نہیں دیں گے۔ مولانا مودودیؒ کو جب امیر جماعت منتخب کیا گیا تو اپنی پہلی تقریر میں انھوں نے خدا کا واسطہ دے کر ارکان کو ہدایت کی کہ ان کی کسی رائے کو وہ حجت نہ قرار دیں۔
فروعات میں ایسے اختلاف رائے اور تنوع کو امت نے ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔ ان میں سے ہر رائے کی قدر کی ہے۔ امام شافعیؒ نے کو فہ میں امام اعظمؒ کے مسلک کے مطابق نماز پڑھائی ہے۔صحابہ کرامؓ نے بہت سے معاملات میں رائے کے شدید اختلاف کے باوجود نہ صرف ایک دوسرے کا احترام کیا ہے بلکہ ایک دوسرے کی آرا کا بھی احترام کیا ہے۔
اب امت میں کبھی سلفیت کے نام پر، کبھی تقلید کے وجوب کے نام پر، ان فروعی مسائل کو اہمیت دینے کا مزاج پھر عام ہونے لگا ہے۔ خود ہمارے حلقوں میں چھوٹے چھوٹے فقہی مسئلے تنازع کا سبب بن رہے ہیں۔ تحریک اسلامی نے ان جزئیات سے صرف نظر کرنے اور اصول پر توجہ دینے کا مزاج بنایا تھا۔ ان مسائل کی واپسی اچھا رجحان نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ان مختلف فیہ مسائل میں ہمارا رویہ وہی ہونا چاہیے جو ہمارے اسلاف کا تھا۔یعنی جس رائے کو ہم بہتر سمجھیں اپنی زند گی میں اسے اختیار کریں۔ حسبِ ضرورت(اور حسبِ علم) اس کے حق میں گفتگو بھی کریں۔ لیکن مخالف رائے کا بھی احترام کریں۔ اگر کوئی مخالف رائے اختیار کیے ہوئے ہے تو نہ اس کے طرز عمل کو خلاف دین و تقوی سمجھیں اور نہ شدت پسندی سمجھیں۔اس سلسلے میں امام شافعیؒ کا بیان کردہ سنہری اصول ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ رأیی صواب یحتمل الخطأ، ورأی غیری خطأ یحتمل الصواب (میری رائے درست ہے لیکن اس کے غلط ہونے کا بھی امکان ہے۔ مخالف رائے غلط ہے لیکن اس کے صحیح ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔)
ہمارے اسلاف نے معصیت اور منکر میں فرق کیا ہے۔ منکرات وہ محرمات ہیں جن کی حرمت پر امت کا اتفاق ہے۔ (یعنی منصوص یا متفق علیہ) معصیت سے بچنا خود پر واجب ہے جب کہ منکرات سے دوسروں کو بھی روکا جاتا ہے۔ متعدد باتیں ایسی ہیں جن کی حرمت پر معتبر علما میں اختلاف ہے۔ ایسے کسی معاملے میں اگر ہم حرمت کے قائل ہوں تو ان سے بچنا ہم پر واجب ہے لیکن دوسروں کو اس کا حکم دینا یا اس کا ارتکاب کرنے والے کی نکیر کرنا درست نہیں ہے۔ لیکن اس کے برخلاف، جھوٹ، چوری، غیبت، زنا، سود، ہم جنسی،رشوت، بد کلامی وغیرہ ایسے گناہ ہیں جن کے گناہ ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔اور جن کی حرمت نص سے واضح طور پر ثابت ہے اس لیے یہ منکرات ہیں۔ ان سے خود بھی بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے۔ اس فرق کا شعور نہ ہو تو ایسے انتہا پسند رویے جنم لیتے ہیں جن سے امت میں صرف انتشار اور تفرقہ ہی برپا ہوسکتا ہے۔آج اس شعور کی کمی کا نتیجہ ہے کہ ہر ایک نے کسی مسئلہ میں جو رائے بنالی اسے زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اور جن باتوں میں سلف صالحین بلکہ صحابہ کرام کے درمیان بھی ایک سے زیادہ رائیں تھیں، ایسے معاملات کو لے کر نہی عن المنکر کا جوش دکھایا جاتا ہے۔ یہ بھی انتہا پسندی ہی کی ایک شکل ہے جو دین کے ناقص فہم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
جمہوریت کے بارے میں
اس وقت اسلام دشمن طاقتوں کی یہ بھرپور کوشش ہے کہ اسلام کو ان تمام برائیوں کے ساتھ وابستہ کیا جائے جن سے دنیا کے لوگ شدید نفرت کرتے ہیں۔ دنیا چاہتی ہے کہ امن و امان ہو، خون خرابہ نہ ہو تو اسلام کو نہایت خوں خوار دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جائے۔ دنیا مذہب کو دوسروں پر زبردستی تھوپنے اور لوگوں کی آزادیاں ختم کرنے کو ناپسند کرتی ہے تو اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کیا جائے جو تلوار لے کر ہر ایک کو مسلمان بنانے پر تلا ہوا ہے۔ دنیا خواتین کو اونچا اٹھانا چاہتی ہے تو اسلام کو خواتین کے اور ان کے حقوق کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کیا جائے۔ دنیا ڈکٹیٹروں اور مطلق العنان حکم رانوں سے خوف کھاتی ہے تو اسلام کو جمہوریت دشمن اور استبداد دوست سسٹم کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے۔
اسلام دشمنوں کی ان کوششوں کو بڑی کمک ہمارے ان نادان دوستوں سے ملتی ہے جو اسلا م کا ایسا ہی انتہاپسندانہ تعارف کراتے ہیں۔ مثلاً اس وقت بے قید اور مذہب بے زار جمہوریت کے نقصانات دنیا پر واضح ہورہے ہیں۔ اسلام کے حاکمیت الٰہ اور خلافتِ جمہور کے اصول دوگانہ اس مسئلہ کو بہت خوب صورتی سے اور نہایت متوازن طریقے سے حل کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی ذمےد اری تھی کہ وہ پوری دنیا کو اس اعتدال کی طرف متوجہ کرتے اور انھیں اس مخمصے میں سے نکلنے کا راستہ سجھاتے۔ اسلامی تحریکوں نے اس کی کوشش بھی کی۔ لیکن ادھر چند برسوں سے یہ رجحان بھی جڑ پکڑنے لگا ہے کہ جمہوریت ہی کی نفی کی جائے۔ جمہوریت جدید مغربی لبرل ماڈل میں جاکر نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ لیکن حاکمیت الٰہ کے اسلامی اصول کے ساتھ، جمہوری و شورائی قدریں، اسلام کی اسکیم میں بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے اسلامی جمہوریت کے عنوان سے جگہ جگہ جو بحث کی ہے وہ اسی سوچ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہر جگہ اسلامی تحریکوں نے جو ڈسکورس کھڑا کیا ہے، اس میں جمہوریت کے اس اسلامی روپ کی پرزور وکالت موجود ہے۔حال ہی میں ہم نے اپنے بیان میں طالبا ن سے کہا کہ وہ جلد سے جلد اسلام کے شورائی و جمہوری طریقے کے مطابق تمام طبقوں کی نمائندگی کرنے والی حکومت کے لیے راہ ہم وار کریں تو کئی زاویوں سے اس بیان پر اس طرح اعتراض ہوا گویا جمہوریت کی بات ہم نے پہلی بار کہی ہو۔ایسا محسوس ہوا کہ خود تحریک کے بعض افراد میں بھی اس حوالے سے کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ اس لیے ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنا بنیادی لٹریچر اور جماعت کی قراردادیں وغیرہ بار بار پڑھتے اور پڑھاتے رہیں۔
‘اسلامی ریاست ‘ بڑی اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں کئی جگہ جمہوریت کی بحث آئی ہے۔ پہلے باب میں اسلام کا سیاسی نظریہ، اس کے تحت نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات اور اسلامی جمہوریت کی حیثیت ان دونوں ذیلی ابواب میں تفصیل سے جمہوریت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے باب میں پھر چوتھے باب میں اور بھی متعدد جگہوں پر جمہوریت کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر کو واضح کیا گیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تفصیل سے غالباً وہ مضمون ہے جو ‘تفہیمات”حصہ پنجم میں ‘قومی وحدت اور پائیدار جمہوریت ‘کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔(ص ۱۶۱)اس میں تفصیل سے واضح کیا گیا ہے کہ جمہوریت یا اسلامی جمہوریت عین مطلوب ہے اور یہ قرآن کا تقاضا ہے۔
اصل میں لوگ جمہوریت اور مغرب کے سیکولر جمہوری نظام کے درمیان فرق نہیں کرپاتے۔ مغرب کا سیکولر جمہوری نظام انسانوں کی مطلق حاکمیت کے نظریے پر قائم ہے اور جمہور کو یا انسانوں کو لامحدود آزادی دیتا ہے۔ اس لیے یہ بلاشبہ خلاف اسلام ہے۔ لیکن جب ہم اسلامی جمہوریت کہتے ہیں تو اس سے مراد مولانا مودودیؒ کےالفاظ میں حاکمیت الٰہ اور خلافت جمہور کے اصول دوگانہ ہیں۔ یعنی اللہ حاکم ہے لیکن اس کی مرضی کے دائرے میں فیصلے کرنے کا اختیار حاکم کو نہیں بلکہ جمہور کو ہے۔ اس لیے کہ خلافت جمہور کی ہے۔ یہ بات ہم کو بھی سمجھنی چاہیے اور عام مسلمانوں اور مسلم نوجوانوں کو بھی سمجھانی چاہیے۔واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کی جو صحیح اسپرٹ اسلام فراہم کرتا ہے وہ کہیں سے بھی فراہم نہیں ہوتی۔
اس وقت کچھ موضوعات پر توازن کے مطلوب راستے کی نشان دہی کی ہم نے کوشش کی ہے۔ ایسے اور بھی کئی امور ہیں جن میں انتہاؤں سے بچ کر اعتدال کی خالص اسلامی راہ کو روشن کرنے کی اور اس کی طرف رہ نمائی کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ ان امور کو بھی ہم زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2023