ذاکر نگر( جامعہ نگر) نئی دہلی کی کچھ خواتین نے خواہش کی کہ میں ان کے اجتماع میں شریک ہوں اور ان کے سامنے اسلام کی عائلی تعلیمات کی وضاحت کرنے کے ساتھ اس سلسلے میں ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات دوں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ خواتین میں دینی رجحان بڑھ رہا ہے، وہ اسلام کی تعلیمات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا چاہتی ہیں اور ان کے سلسلے میں اپنے ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکالات کو دور کرنے کی خواہاں ہیں۔ میں نے ان کے اجتماع میں شرکت کی اور ان کے سامنے اسلام کے نظام ِ خاندان کی وضاحت کی۔ مقاصد ِنکاح، مہر، طلاق، رجوع، خلع، فسخ نکاح، تفویض طلاق، طلاقِ بدعت، حلالہ اور دیگر موضوعات پر فقہی احکام بیان کیے۔ آخر میں سوالات کا بھی موقع دیا گیا۔ اس اجتماع میں خواتین کی جانب سے کیے جانے والے سوالات اور میرے جوابات کو افادۂ عام کے لیے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے.
مہر کی تعیین میں لڑکی کی مرضی
سوال(۱) : مہر طے کرنے کا حق لڑکی کے والدین کو ہے، یا اس میں لڑکی کی مرضی کا بھی کچھ دخل ہے؟
جواب: مہر نکا ح کی شرائط میں سے ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر نکاح کے وقت مہر کا تذکرہ نہ ہو تب بھی عورت ‘مہر مثل’ (یعنی مہر کی وہ مقدار جو عورت کے خاندان میں دوسری عورتوں کی طے ہوئی ہو) کی حق دار ہوتی ہے۔ دونوں خاندانوں کے ذمے دار باہم مشورہ کرکے مہر کی کوئی بھی مقدار طے کر سکتے ہیں۔ مہر بہت زیادہ طے کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ چوں کہ مہرعورت کا حق ہے اس لیے اسے طے کرتے وقت عورت کی مرضی بھی معلوم کرنی ضروری ہے۔
مہر میں کچھ رقم طے کرنا ضروری ہے؟
سوال(۲) : ایک لڑکی کہتی ہے کہ میں مہر کے طور پرکچھ بھی رقم نہیں لوں گی۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ میرا ہونے والاشوہر دین کے کاموں میں میرا تعاون کرے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: مہر عو رت کی عزت افزائی کی ایک علامت ہے۔ قرآن مجید میں اسے ‘صدقۃ’ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ اسے ادا کریں۔ (النساء: ۴) احادیث کے عمومی رجحان کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے کہا ہے کہ مہر مال کی شکل میں ہونا چاہیے۔ اگرچہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مال ہونا ضروری نہیں۔ حضرت ام سلیمؓ کو ایک صاحب نے نکاح کی پیش کش کی۔ اس وقت تک وہ اسلام نہیں لائے تھے۔ حضرت ام سلیمؓ نے فرمایا کہ آپ اسلام لے آئیں تو میں نکاح کر سکتی ہوں اور یہی میرا مہر ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ (نسائی: ۳۳۴۰) ایک نوجوان سے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مہر میں کچھ دو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ جب اس نے کہا کہ میرے پاس وہ بھی نہیں ہے تو آپ نے فرمایا: اچھا تو اپنی بیوی کو قرآن مجید کی کچھ سورتیں یاد کرا دینا۔ (بخاری: ۵۰۲۹، مسلم: ۱۴۲۵)
اللہ کے رسول ﷺ نے گیارہ نکاح کیے، آپ نے اپنی بیٹیوں اور دیگر رشتے دار لڑکیوں کا نکاح کیا، سب میں مہر مال کی شکل میں طے کیا گیا۔ صحابۂ کرام کے نکاحوں میں بھی عموماً مال کی کوئی مقدار طے ہوئی۔ اس لیے اس تعامل کو دیکھتے ہوئے مہر مال کی شکل میں طے ہونا چاہیے۔ البتہ قرآن میں عورتوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اگر چاہیں تو کل مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کر سکتی ہیں۔ (النساء: ۴)
مہر کی رقم میں اضافہ
سوال (۳ ) : کیا مہر کی رقم میں نکاح کے بعد اضافہ کیا جا سکتا ہے؟
جواب: نکا ح کی حیثیت ایک معاہدہ (Contract)کی ہے۔ اس موقع پر بہ طور مہر جو رقم طے ہو، اس کی ادائیگی شوہر کے ذمے لازم ہے۔ اس لیے وقت ِ نکاح مہر کی جو رقم طے ہو اتنی ہی لینے کا عورت کو حق ہے، بعد میں اس میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر شوہر اپنی خوشی سے اس میں اضافہ کرکے بیوی کو دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
تاخیر سے مہر کی ادائیگی
سوال (۴ ): نکاح کے موقع پر مہر کی جو رقم طے ہوئی تھی، شوہر نے اسے ادا نہیں کیا۔ پچیس (۲۵) برس کے بعد اب وہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس عرصے میں روپیہ کی قدر (Value) میں جو کمی آئی ہے، کیا اس کا حساب کرکے شوہر مزید رقم ادا کرے گا؟
جواب: مہر کی جو رقم طے ہو وہ شوہر کے ذمے قرض ہے۔ فقہاء نے مہر کی دو قسمیں بیان کی ہیں: (۱) مہر معجل، یعنی جسے فوراً ادا کر دیا جائے۔ (۲) مہر مؤجّل، یعنی جسے بعد میں ادا کیا جائے۔ مہر کو فوراً یا حسب ِ سہولت جلد از جلد ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو روپیہ کی قدر میں کمی کا حوالہ دے کر مہر کی متعین رقم سے زیادہ کامطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔ اگر کسی شخص نے دس ہزار روپے قرض لیے تو اس کے ذمے اتنی ہی رقم کی واپسی ہے، چاہے جتنے سال بعد واپس کرے۔ یہی حکم مہر کا بھی ہے۔ البتہ شوہر اپنی خوشی سے اس میں اضافہ کرکے دے سکتا ہے۔
زوجین خاصی مدت تک الگ رہیں تو دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں
سوال (۵ ): اگر میاں بیوی میں کسی بات پر تنازعہ ہوجائے اور وہ خاصی مدت تک الگ رہیں، پھر ان میں صلح صفائی کرادی جائے اور وہ آئندہ ایک ساتھ رہنے پر تیار ہوں تو کیا ان کا دوبارہ نکاح ہوگا؟
جواب: اگر زوجین بغیر طلاق کے کچھ عرصہ الگ الگ رہیں تو اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کا نکاح قائم ہے۔ جس طرح دو فریقوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہو تو جب تک اسے توڑنہ دیا جائے وہ باقی رہتا ہے، اسی طرح جب تک نکاح ختم کرنے کی کوئی کارروائی نہ ہو، وہ باقی رہے گا، چاہے زوجین طویل عرصہ تک الگ الگ رہے ہوں۔
طلاق کی ظالمانہ شرائط
سوال (۶ ): بعض شوہر اپنی بیوی سے کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ماں باپ یا بھائیوں سے ملنے کے لیے گئیں تو تم کو طلاق۔ اگر عورت ایسا کر لے تو کیا اسے طلاق ہوجائے گی؟
جواب: یہ بہت ظالمانہ اور جابرانہ بات ہے۔ شوہر کو حق نہیں ہے کہ بیوی کو اس کے رشتے داروں سے ملنے سے روکے۔ اسلام میں صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اپنے سسرالی رشتے داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، ان کے حقوق ادا کرے اور بیوی کو بھی اس کے حقیقی رشتے داروں سے قطع تعلق پر مجبور نہ کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص طلاق کو اپنے رشتے داروں سے بیوی کی ملاقات سے مشروط کرتا ہے تو ایسا کرتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی۔
رجوع کے بعد دوبارہ طلاق
سوال (۷ ): ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی، پھر رجوع کر لیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد اس نے دوبارہ طلاق دے دی تو کیا اسے دوسری طلاق شمار کیا جائے گا؟ یا رجوع کے بعد طلاق ختم ہوجاتی ہے اور دوبارہ دی جانے والی طلاق پہلی شمار ہوگی؟
جواب: رجوع کرنے سے طلاق کی گنتی ختم نہیں ہوجاتی۔ قرآن مجید میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ دو مرتبہ طلاق دینے تک رجوع کا حق باقی رہتا ہے۔ اگر کسی نے تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو اس کا رشتۂ نکاح ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ (البقرۃ: ۲۳۰)
اگر کسی نے ایک مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کر لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنا ایک طلاق دینے کا حق کھو دیا۔ اگر دوسری مرتبہ طلاق دے کر رجوع کر لیا تو اس نے دوسرا حقِ طلاق کھو دیا۔ اب اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے گا تو ہمیشہ کے لیے اس عورت سے محروم ہوجائے گا۔
عدت پوری ہونے کے بعد دوبارہ نکاح
سوال(۸): اگر کسی شخص نے دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع نہیں کیا تو کتنی مدت تک نکاح کی گنجائش رہتی ہے؟
جواب: کوئی شخص چاہے پہلی مرتبہ طلاق دے،یا دوسری مرتبہ، طلاق دیتے ہی عورت کی عدّت شروع ہوجائے گی۔ (عدّت کی مدت تین حیض ہے اور جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو ان کی عدّت تین ماہ ہے) عدّت مکمل ہونے سے قبل اگر شوہر رجوع کر لے تو دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ اگر عدّت مکمل ہوجائے تو عورت آزاد ہے، اس کا نکاح اس کی مرضی سے کسی دوسری جگہ ہو سکتا ہے۔ اگر کچھ مدت گزر جانے کے بعد بھی عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے نہ ہوسکا ہو اور وہ اور اس کا سابق شوہر دوبارہ میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا چاہیں تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ نئے مہر کے ساتھ ان کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
خلع کے بعد دوبارہ نکاح
سوال (۹): کیا خلع کے بعد دوبارہ نکاح کی گنجائش رہتی ہے؟
جواب: خلع کے نتیجے میں ایک طلاق بائن پڑتی ہے، یعنی عدت کے دوران شوہر کو رجوع کرنے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن عورت کو حق رہتا ہے کہ اگر اس کی مرضی ہو اور شوہر بھی چاہے تو ان کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے عدت مکمل ہونے کا انتظار کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ دورانِ عدت بھی دونوں کا از سر نو نکاح ہو سکتا ہے۔
تفویض طلاق
سوال(۱۰): کیا عورت نکاح کے وقت ‘تفویض طلاق’ کو نکاح نامہ میں لکھواسکتی ہے؟یا بعد میں طے کرسکتی ہے؟
جواب: تفویض طلاق کا مطلب یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو یہ حق دے کہ وہ جب چاہے اپنے اوپر طلاق عائد کرکے اس سے علیٰحدگی حاصل کرلے۔ یہ اصلاً اپنے کسی کام کی انجام دہی کے لیے کسی دوسرے شخص کو وکیل بنانے کا معاملہ ہے۔ چنانچہ تفویض طلاق کا حق شوہر کسی دوسرے مرد کو دے سکتاہے اور بیوی کو بھی۔ لیکن یہ چیز روح ِ شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ شریعت نے طلاق کا حق عورت کو نہیں دیاہے، مرد کو دیاہے؟!بڑابے وقوف ہوگا وہ شخص جو نکاح کی صورت میں عورت کو مہر دے، نکاح کے مصارف برداشت کرے، ولیمہ کرے، عورت کے لیے رہائش فراہم کرے، اسے نفقہ دے، اس کے جملہ اخراجات اٹھائے اور ساتھ ہی عورت کو یہ حق بھی دے دے کہ وہ جب چاہے اپنے اوپر طلاق عائد کرکے اس سے علیٰحدہ ہوجائے۔
بہ ہرحال تفویض ِ طلاق کا حق عورت کو نکاح کے وقت بھی دیاجاسکتاہے اور بعد میں بھی، البتہ اس سے شوہرکا حق ِ طلاق ختم نہیں ہوجاتا، اس کے پاس بھی طلاق دینے کا حق باقی رہتاہے۔
طلاق بدعت
سوال (۱۱): ‘ طلاق بدعت’ کی کیا حیثیت ہے؟
جواب: طلاق ِ بدعت کا مطلب ہے غیر شرعی طریقے پر طلاق دینا۔ طلاق کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بیوی جب پاکی کی حالت میں ہو اور اس سے ہم بستری نہ کی گئی ہو، اسے ایک طلاق دی جائے۔ اس کے خلاف کوئی صورت اختیار کی جائے، مثلاً حالت ِ حیض میں طلاق دی جائے، یا پاکی کی حالت میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دی جائے، یا دو یا تین طلاق ایک ساتھ دی جائے تو اسے‘ طلاق ِ بدعت ’کہتے ہیں۔ البتہ عرف میں ایک ساتھ تین طلاق دینے کو طلاقِ بدعت کہاجاتاہے۔
اگر کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دے تو فقہائے اربعہ کے نزدیک یہ طلاق ہوجاتی ہے اور عورت اس پرہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ البتہ بعض فقہاء اور موجودہ دور میں اہل ِ حدیث حضرات کے نزدیک صرف ایک طلاق واقع ہوگی اور اس صورت میں رجوع کی گنجائش باقی رہے گی۔
دوبارہ نکاح کے لیے حلالہ
سوال(۱۲): طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے لیے کیا حلالہ ضروری ہے؟
جواب: اگر کسی نے تین مرتبہ طلاق دی تو عورت اس پر حرام ہوجائے گی۔ بعد میں اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے ہوجائے، پھر وہ بھی اسے طلاق دے دے ،یا اس کا انتقال ہوجائے تو شریعت نے اجازت دی ہے کہ اس عورت کا ازسر نو نکاح پہلے شوہر سے دونوں کی آزاد مرضی سے ہوسکتاہے۔ یہ ایک فطری صورت ہے۔ قرآن مجید میں اسی کا ذکر ہے۔(البقرہ:۲۳۰)لیکن کوئی شخص غصّے میں آکر تین طلاق دے دے، پھر جب اسے شریعت کا حکم معلوم ہو کہ وہ اس کے لیے حرام ہو گئی ہے تو کسی دوسرے مرد کو تیار کرے کہ وہ اس عورت سے نکاح کرکے اسے طلاق دے دے، تاکہ اس (سابق شوہر) کے لیے اس عورت سے نکاح جائز ہوجائے۔جو شخص یہ کام کرتاہے،یا کرواتاہے، یااس کا واسطہ بنتاہے، سب پر اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔(ابودائود:۲۰۷۶،ترمذی:۱۱۱۹)یہ سراسر حرام اور بدکاری ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020