انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس

”ہم جنس شادی شدہ جوڑوں کے حوالے سے“ (8)

پچھلے مضمون میں انحرافی جنسی رویوں کے حوالے سے ادارہ نکاح اور پرورش اطفال کے ضمن میں تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ عام شادی شدہ جوڑوں اور ہم جنس پرست جوڑوں کے ذریعے پرورش کردہ بچوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اور عام طور پر انحرافی جنسی رویوں کے ڈسکورس کے تحت جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں، جس طرح کے بیانیے کو عوام اور خواص کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کس طرح ایک پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔ اور کس طرح سائنسی تحقیقات کو ایک خاص طریقے سے استنباط کرکے اور مبہم اور پیچیدہ سائنسی سوالات کے جوابات ادھورے اور بعض اوقات نیم سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرکے حاصل کیے جا رہے ہیں۔ اور پھر یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں قسم کے جوڑوں کے ذریعے پرورش کردہ بچوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب اس مضمون میں ‘ہم جنس شادی شدہ’ جوڑوں کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں۔

اس مضمون کے لکھے جانے تک دنیا کے ۱۹۵ ممالک میں سے ۳۰ ممالک نے ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی طور پر منظور کر لیا ہے۔ اور باقی ملکوں میں بھی اس کی منظوری کے لیے زبردست لابنگ، رائے عامہ کی ہمواری کا کام اور قانونی چارہ جوئی جاری ہے۔ خود ہمارے ملک میں ہم جنس پرست شادیوں کے قانونی جواز کے لیے پیٹشن داخل کی جا چکی ہے اور عنقریب اس ضمن میں سنوائی ہوگی۔

پوری دنیا میں ہم جنس پرست شادیوں کے شماریاتی ڈاٹا موجود نہیں ہیں۔ تاہم امریکہ کے ولیمس انسٹی ٹیوٹ نے تخمینہ لگایا ہے کہ پورے امریکہ میں اس وقت تقریبا ۶،۴۶،۵۰۰ ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑے موجود ہیں۔ جس میں تقریبا ایک لاکھ کے قریب صرف کیلی فورنیا میں ہیں۔ جس میں عورت ہم جنس پرست (Lesbian)جوڑے تقریبا ۵۴٪ ہیں اور مرد ہم جنس پرست (Homosexual) ۴۶٪ ہیں۔ (1) ان شادی شدہ جوڑوں کے متعلق تحقیقات کی ایک وسیع دنیا وجود میں آچکی ہے۔ ان تحقیقات میں ہر قسم کی تجزیہ، استنباط اور استخراج کی گنجائش ہے۔ سائنس کے معروف اور مسلم طریقہ تحقیق کے ذریعے انجام دی گئی تحقیقات بھی ہیں اور وہ بھی ہیں جو اس پر پوری نہیں اتر پاتی ہیں۔

اس ضمن میں ایک بات بطور خاص قابل توجہ ہے وہ یہ کہ +LGBTQ کا یہ نفسی معاشرتی ڈسکورس انتہائی باریک سے باریک نکتے پر بھی پروپیگنڈے اور لابنگ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ مثلا حال ہی میں ایک بات بڑے زور و شور سے کہی جانے لگی تھی کہ ہم جنس پرست شادیوں اور اچھی یا مثبت ذہنی حالت (Positive Mental Health) میں براہ راست تعلق ہے یعنی جن ممالک میں ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی درجہ دے دیا گیا ہے وہاں LGBTQ اور اس کے تمام Stake holder کی ذہنی حالت بہتر ہوگئی ہے۔ لیکن ۲۰۱۶ میں جارجیس لیانگس نے تحقیق کرکے حتمی (Conclusive) ثبوت دیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ان کے الفاظ میں “اس طرح کے سروے اور موازنے میں بنیادی طریقہ کار کے مسائل ہیں۔۔۔ یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق قانون سازی اور ذہنی صحت کے حوالے سے وجوہات کا دعوی کرنا قبل از وقت ہے” (2)

اسی طرز پر ایک دوسری مثال بھی ملاحظہ ہو۔ Guttmann اور دیگر محققین نے ہم جنس پرست جوڑوں کے سلسلے میں ایک تحقیق پیش کی جس میں انھوں نے کچھ ہم جنس پرست جوڑوں کو مکالمہ کی دعوت دی اور ان سے ازدواجی رشتوں میں پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے دونوں فریقین نے کس طرح کی کوششیں کی اور کس طرح ایک خوشگوار مکالمہ فریقین میں انجام پاتا ہے اور ازدواجی زندگی کے عمومی مسائل جیسے پہلوؤں پر دونوں فریقین کے انٹرویو الگ الگ نوٹ کیے گئے اور پھر کچھ خاص حسابی ماڈلوں کے ذریعے ان کا تجزیہ کیا گیا۔ (۳) اس تحقیق کے نتائج کافی پیچیدہ اور حسابی زبان میں ہیں۔ اور ان سے کسی قسم کا حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے۔ لیکن اس تحقیق کے شائع ہوتے ہی اخبارات نے اس طرح کی سرخیاں لگائیں “ہم جنس پرست جوڑے عام شادی شدہ جوڑوں سے بہتر ہوتے ہیں”۔ حالاں کہ جو کچھ اس تحقیق نے بتایا وہ صرف اتنا تھا کہ امریکہ میں بسنے والے سفید فام ہم جنس پرست جوڑوں میں بعض حوالوں سے غیر ہم جنس پرست جوڑوں کے مقابلے میں ازدواجی زندگی کے بعض مسائل کے حل کے لیے مثبت مکالمہ اور بہتر پیش قدمی ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات کہاں سے ثابت ہو گئی کہ ہم جنس پرست جوڑے عام شادی شدہ جوڑوں سے بہتر ہوتے ہیں۔

لیکن اخبارات، ٹی وی اور نیوز چینلوں پر اس تحقیق کا خوب چرچا ہوا حتی کہ امریکن سائیکلوجیکل اسوسی ایشن تک نے اس تحقیق کو اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی (حالاں کہ وہاں اس کی زبان نسبتًا سائنسی ہے)۔(۴) اور اس طرح ایک پروپیگنڈا اور سنسنی خیز ماحول تیار کیا گیا۔ اور رائے عامہ کو ہم وار کرنے کی کام یاب کوشش کی گئی کہ ہم جنس پرست جوڑے عام شادی شدہ جوڑوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ حالاں کہ ایسی کوئی فیصلہ کن بات اس تحقیق میں نہیں ہے۔ اور مزید یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ غیر ہم جنس پرست جوڑوں کو ہم جنس پرست جوڑوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے وغیرہ۔

ہم نے یہ دو مثالیں اس لیے دی ہیں تاکہ قارئین پر یہ بات واضح ہو جائے کی اس طرح کے حساس اور نازک موضوعات پر سائنسی تحقیقات کا تجزیہ اور ان کی پیش کش کس طرح ایک خاص ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ بالاصل تحقیق کیا کہ رہی ہے۔ اس تحقیق کا ڈیزائن کیا ہے، کیا وہ ڈیزائن تحقیق کے معیار پر پورا اتر رہا ہے؟ محققین نے مقالہ میں کیا الفاظ استعمال کیے ہیں؟ اور اخبار یا TV کی زبان میں ان الفاظ کو کن معانی کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔ ان مثالوں کو نظر میں رکھتے ہوئے خالص سائنسی بنیادوں پر ہم جنس پرست جوڑوں پر ہو رہی تحقیق پر نظر ڈالی جائے تو درج ذیل بنیادی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔

ہم جنس پرست جوڑے میں “شوہر اور بیوی” کے رول کو کیسے متعین کیا جاتا ہے؟ یہ سوال سب سے بنیادی نوعیت کا ہے کیوں کہ ہم جنس پرست جوڑوں کا تقابل غیر ہم جنس پرست جوڑوں سے کیا جا رہا ہے جن میں “شوہر” اور “بیوی” دو واضح خانوں میں تقسیم ہوتے ہیں لیکن ہم جنس پرست جوڑوں میں یہ تقسیم انتہائی مبہم اور مختلف فیہ ہے۔ جس کے نتیجے میں اس طرح کے تقابلی مطالعہ میں بہت بڑی خامی آ جاتی ہے۔

اس کا توڑ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انھیں Cohabitating Couple لکھا جانے لگا۔ لیکن یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہوئی، رول کی نہیں۔ جب تک رول کی وضاحت دو خانوں میں نہیں بانٹی جا سکتی اس وقت تک یہ تقابل قابل اعتبار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس طرح کے تقابلی مطالعہ کے ناقدین اس طرح کی ہر تحقیق کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دو غیر متعلق گروپوں کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

دوسرا سب سے اہم سوال اس طرح کے مطالعہ جات کے ماڈلس کے حوالے سے ہے۔ شادی، ادارہ نکاح، ازدواجی سکون، رشتوں کی پائیداری اور اس طرح کے وہ تمام اشاریے جو ازدواجی زندگی کے حوالے سے بنائے گئے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر خاندان، خاندانی اکائی اور سماج سے اس کے تعامل کے ارتباط سے ہیں۔ اور یہ تعامل جنسی دوئی یعنی مرد اور عورت کے ذریعے وجود میں آنے والی خاندانی اکائی کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جب یہ ماڈل ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو ان میں موجود یہ اشاریے مزید نئے پہلوؤں کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ لیکن طویل عرصے سے تحقیق، جستجو اور محنت کے بعد حاصل ہونے والے ان اشاریوں کو ہم جنس پرست جوڑوں کے لیے Tailor Made کرنے کا کام ہنوز باقی ہے۔ اس لیے ان تمام ماڈلوں کے ذریعے ان جوڑوں کے متعلق حاصل ہونے والے اعداد و شمار میں ایک خاص قسم کا سقم آ جاتا ہے جو معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بہر حال جب دو بالغ افراد اپنے اپنے صنفی رخ کے مطابق ساتھ رہ رہے ہیں تو وہ ایک جوڑے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور یہ تمام ماڈل بنیادی طور پر دو افراد کے ذریعے وجود میں آنے والے ادارے (ازدواجی زندگی) میں موجود تصورات کے تناظر ہی میں ارتقا پاکر یہاں تک پہنچے ہیں اس لیے ان ماڈلوں کا استعمال ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں کے لیے کیا جا سکتا ہے۔

یہ ایک معصوم جواب ہے۔ کیوں کہ ہم جنس پرست جوڑوں میں اور غیر ہم جنس پرست جوڑوں میں Power dynamics اور Gender role کے حوالے سے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کسی تحقیقی مطالعہ میں شامل سینکڑوں ہم جنس پرست جوڑوں میں ہر جوڑے کی اپنی Power dynamics اور Gender role ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ بات غیر ہم جنس پرست جوڑوں پر صادق نہیں آتی۔ زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں Power dynamics اور Gender role ایک جیسے خطوط پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔

تیسرا سب سے اہم سوال شماریاتی سقم کے حوالے سے ہے۔ ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی جواز حاصل ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اس دوران کئی زاویوں سے ان پر تحقیقات شائع ہوئی ہیں۔ لیکن ان تمام میں نمونوں کے حجم (Sample Size) کے حوالے سے سقم کا اعتراف سبھی محققین کرتے ہیں۔یعنی اس طرح کے مطالعہ جات کے لیے جتنی تعداد میں ہم جنس پرست جوڑوں کے تاثرات اور مشاہدات حاصل کیے جانے چاہئیں اتنے حاصل نہیں ہو پاتے۔ اس لیے ہم جنس پرست جوڑوں پر ہو رہی تحقیقات کے نتائج کے سلسلے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

چوتھا سب سے اہم سوال ‘تنوع’ کے حوالے سے ہے۔ ہم جنس پرست تحقیقات میں تنوع کے حوالے سے ایک خاص قسم کا تعصب در آتا ہے کیوں کہ ہم جنس پرست جوڑے مختلف نسل، رنگ اور ملک اور جغرافیائی خطے کے خاص سماجی و ثقافتی ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ اس لیے جب وہ جوڑے کی شکل میں زندگی کی شروعات کرتے ہیں تو ان کے تجربات اپنے اندر ایک خاصی Indigenousness لیے ہوتے ہیں۔ اب اگر ان کے تجربات کو ساری دنیا کے ہم جنس پرست جوڑوں کے تجربات کے لیے عام کر دیا جائے تو یہ علمی دیانت داری نہیں ہوگی۔ مثلا ایک سیاہ فام، ہم جنس پرست جوڑا جو امریکہ میں پروان چڑھا ہو اس کے تجربات ایک چینی ہم جنس پرست جوڑے سے یکسر مختلف ہوں گے۔ اسی طرح سے امیرکہ میں رہنے والے ہم جنس پرست جوڑوں میں اور ہندوستانی ہم جنس پرست جوڑوں میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔

یہ چار بنیادی سوال ہیں جو ہم جنس پرست جوڑوں اور عام جوڑوں کی تقابلی تحقیق میں ایک خاص قسم کی مشکلات کو پیدا کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے ذریعے حاصل شدہ ڈیٹا یا نتائج سے ایک اندازہ تو قائم کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی بنیاد پر فیصلہ کن بات کہنا مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح ان تحقیقات کی بنیاد پر پالیسی کی تدوین اور فیصلہ سازی ہمیشہ افراط اور تفریط پر منتج ہو سکتی ہے۔

اس لیے LGBTQ+ کے اس پورے طیف کے دونوں سروں پر ہو رہی تحقیقات کو بہت سنجیدگی اور غیر جانب داری سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں سرے کون سے ہیں۔ پہلا سرا وہ ہے جہاں پر وہ محققین ہیں جو اس نفسی معاشرتی ڈسکورس کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔ اسے دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں۔ اور اسے مکمل طور پر غیر فطری اور ماحول کی کارسازی قرار دیتے ہیں۔ دوسرے سرے پر وہ محققین ہیں جو اسے فطری جنسیت کی ایک توسیع کی طرح دیکھتے ہیں۔ یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب فطری اور جینیاتی ہے۔ ہم جنس پرست جوڑے فطری طور پر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور جس طرح ایک عام یا نارمل جوڑے اپنی شادی شدہ زندگی گزارتے ہیں ویسے ہی یہ جوڑے بھی گزارتے ہیں۔ دونوں جوڑوں میں ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک جیسے مسائل ہوتے ہیں۔ وہ عام جوڑوں کے ساتھ ان کی مماثلت کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ تحقیقات ڈیزائن کرتے ہیں اور اپنے نتائج کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اور پھر لابنگ والے حضرات اور ادارے ان تحقیقات کو اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت آگے بڑھاتے ہیں۔ اور ایڈووکیسی کا کام کرتے ہیں۔

دونوں طرف کی تحقیقات میں بعض اوقات ڈیزائن اور نمونوں کے حجم، استنباط یا استخراج اور قیاس وغیرہ کی غلطیوں کا پورا امکان ہوتا ہے۔ بلکہ بڑی تعداد میں یہ غلطیاں پائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن عوام کے درمیان جب بھی ایسی تحقیقات زیر بحث ہوتی ہیں تو وہ ان تحقیقاتی خامیوں کے اظہار کے بغیر ہوتی ہیں۔ اور عوام ان پر آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔

اس مشاہدہ کے بعد ذیل میں ان تحقیقات کے سلسلے میں کچھ تجزیہ پیش کیا جاتا ہے جو ہم جنس پرست جوڑوں کے سلسلے میں ہوئی ہیں۔ اور جن کا استعمال جنسی انحرافی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس اپنے آپ کو نارملائز کرنے کے لیے کرتا ہے۔ یہ جائزہ معروضی ہے اور درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہے۔

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں طلاق کی شرح

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں تشدد کا طیف

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں شادی شدہ زندگی میں استحکام

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں ازدواجی رشتہ میں سکون

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں تربیت اولاد

    ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں تنازعوں کے حل

ان کے علاوہ اور بھی کئی پہلوؤں سے تحقیقات موجود ہیں۔ اوپر دیے گئے پہلوؤں میں سے بعض پہلوؤں پر پچھلے مضامین میں بات آ گئی ہے۔ یہاں پہلے دو پہلوؤں پر کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ باقی دیگر پہلوؤں پر جو تحقیقات موجود ہیں وہ مختلف فیہ ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے نیز وہ سائنسی تحقیقات کے ثقہ اصولوں پر پوری نہیں اترتی ہیں۔

ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں طلاق کی شرح

پچھلے کچھ برسوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ عام شادی شدہ جوڑوں کے مقابلے میں ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح کم ہے۔ لیکن اس طرح کی رپورٹوں کا بغور مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ صرف سفید فام امریکی آبادی کا ڈاٹا ہے۔ دوسرے یہ کہ غیر ہم جنس پرست جوڑوں میں اور ہم جنس پرست جوڑوں میں طلاق کے اسباب میں غیر معمولی تفاوت پایا جاتا ہے۔ اس لیے محض اعداد و شمار کی بنیاد پر اتنی بڑی فیصلہ کن بات کہنا قبل از وقت ہے۔ اس کا اعتراف کرتے ہوئے خود امیرکن سائکلاجیکل اسوسی ایشن APA نے لکھا ہے کہ “زیادہ تر ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ (ہم جنس پرست جوڑے) عام جوڑوں کی بہ نسبت شادی کے بندھن میں زیادہ دیر تک بندھے رہتے ہیں (یعنی ان میں طلاق کی شرح کم ہے) (۵)

لیکن عام طور پر میڈیا نے اس طرح کی رپورٹ کو خوب خوب اچھالا ہے بلکہ ان رپورٹوں کو پالیسی کی تدوین کے لیے استمال بھی کیا جا رہا ہے اور جن ممالک میں ابھی ہم جنس پرست شادیاں ثانوی طور پر ممنوع ہیں۔ وہاں ان رپورٹوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس طرح کا شادی کا نظام عام شادی کے نظام سے بہتر ہے کیوں کہ یہ جوڑے عام جوڑوں کی بہ نسبت کم طلاق دیتے ہیں ! حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تحقیقات میں محققین نے خود ان کی شماریاتی خامیوں کا اعتراف کیا ہے اور  ان کی تعمیم (generalize)کرنے کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔ 

ہم جنس پرست جوڑوں میں اور عام جوڑوں میں تشدد کا طیف

شادی شدہ زندگی میں کسی ایک فریق کا دوسرے فریق پر جسمانی، نفسیاتی یا زبانی زیادتی کرنا Intimate Partner Violence کہلاتا ہے۔ دونوں قسم کے جوڑوں میں IPV کو ازدواجی زندگی کا سب سے اہم اشاریہ سمجھا جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں استحکام، ازدواجی رشتہ میں استحکام، طلاق کی شرح اور بچوں کی نفسیات پر والدین کے اثرات وغیرہ سارے پہلوؤں پر IPV اثر انداز ہوتا ہے۔

ہمارے نزدیک ہم جنس پرست جوڑوں کے جس پہلو پر سب سے زیادہ تحقیق ہوئی ہے وہ IPV ہی ہے۔ دیگر تحقیقات کی طرح اس پہلو پر تحقیق صرف سفید فام امریکی آبادی پر نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ کنیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ کی تفصیلی رپورٹ اور تحقیقات موجود ہیں۔ ان تفصیلات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں میں IPV زیادہ پایا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

ریاستہائے متحدہ امریکہ: انسداد تشدد پروگراموں کے قومی اتحاد کی طرف سے کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ LGBTQ+ شادی شدہ جوڑوں نے غیر ہم جنس پرست جوڑوں کے مقابلے میں مساوی یا زیادہ شرح پر IPV کا تجربہ کیا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ LGBTQ+ افراد میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنے کا امکان 2.6 گنا زیادہ ہوتا ہے اور ہم جنس پرست افراد کے مقابلے میں قریبی ساتھی سے جنسی تشدد کا سامنا کرنے کا امکان 2.4 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ (6)

کینیڈین ویمن فاؤنڈیشن کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہم جنس پرست اور غیر ہم جنس پرست خواتین جوڑوں میں ہم جنس پرست جوڑوں کو IPV کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 25 فیصد ہم جنس پرست خواتین جوڑوں نے گذشتہ سال IPV کا تجربہ کیا تھا، جب کہ غیر ہم جنس پرست جوڑوں میں یہ شرح صرف 15 فیصد تھی۔(7)

آسٹریلوی اداره شماریات کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں کو مخالف جنس کے جوڑوں کے مقابلے میں ساتھی کی جانب سے تشدد کا سامنا کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 37 فیصد ہم جنس پرست جوڑوں کو ساتھی کی جانب تشدد کا سامنا کرنا پڑا جب کہ مخالف جنس کے 15 فیصد جوڑوں نے تشدد کا سامنا کیا۔ (۸)

برطانیہ: برطانیہ میں قائم LGBTQ+ ایڈووکیسی گروپ اسٹون وال کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں پایا گیا کہ برطانیہ میں ہر 4 میں سے 1 ہم جنس پرست جوڑے کو IPV کا تجربہ ہوا ہے۔ جو کہ غیر ہم جنس پرست جوڑوں کے مقابلہ بہت زیادہ ہے۔

مطالعے میں یہ بھی پایا گیا کہ گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والے LGBTQ+ میں صرف ۷ فیصد جوڑوں نے پولیس کو اس کی اطلاع دی تھی۔ (۹)

اس طرح کی تحقیقات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم جنس پرست جوڑوں میں مختلف پہلوؤں سے غیر ہم جنس پرست جوڑوں کے مماثلت یہ مطابقت ہو سکتی ہے لیکن ٹھوس سائنسی بنیادوں پر کم از کم ایک پہلو ایسا ہے جس پر ان دونوں گروپوں میں واضح فرق ہے اور وہ IPV کے حوالے سے ہے۔ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے کہ ان جوڑوں میں IPV میں کیوں زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے جو وجوہات بھی بتائی جاتی ہے وہ سائنسی اعتبار سے ابھی تک فیصل نہیں ہو پائی ہیں۔ ایک دوسرا پہلو جو کافی تعجب خیز ہے وہ یہ کہ IPV زیادہ ہونے کے باوجود جو بعض تحقیقات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ان گروپوں میں رشتہ ازدواج کا استحکام عام گروپوں کے مماثل ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیوں کہ یہ دو پہلو بظاہر مخالف نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ یعنی جس گروہ میں IPV زیادہ ہوگا ان میں طلاق کی شرح بھی زیادہ ہوگی۔ یعنی اگر IPV زیادہ ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ دو فرد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کیسے گزاریں گے؟ اس نکتہ کی مخالفت میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ تشدد برداشت کرتے ہوئے بھی رشتہ ازدواج میں رہنا پڑتا ہے۔ اور رہا جاتا ہے کیوں کہ پوری دنیا میں عام جوڑوں میں بھی تشدد ہوتا رہتا ہے اور پھر بھی وہ ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن یہ دلیل اس لیے قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ یہ معاملہ صرف ترقی پذیر یا غریب ممالک کے لیے صحیح ہوتا ہے۔ جن ممالک میں سماجی سپورٹ سسٹم مضبوط ہے وہاں اس طرح مجبوری میں رہنا بعید از قیاس ہے۔ پھر وہاں انسانی حقوق اور فردی حقوق کے سلسلے میں جو حساسیت پائی جاتی ہے اور جس طرح کا سپورٹ کا نظام موجود ہے وہاں تشدد کے باوجود رشتہ ازدواج میں رہنا ایک غیر منطقی رویہ ہے۔ اور اس کا اظہار وہاں پر غیر معمولی رفتار سے بڑھ رہی طلاق کی شرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو ان تحقیقات میں کچھ مسئلہ ہے جو یہ بتا رہی ہیں کہ ان دونوں قسم کے جوڑوں میں رشتہ ازدواج کا استحکام اور اس کی شرح ایک جیسی ہے۔ یا پھر یہ کہ وہ تحقیقات اپنے اندر کچھ نہ کچھ Bias رکھتی ہیں۔

حرف آخر

انحرافی جنسی رویوں کا نفسی معاشرتی ڈسکورس ہم جنس پرست جوڑوں کے حوالے سے بہت ساری علمی بددیانتی کا شکار نظر آتا ہے۔ ہم جنس پرست جوڑوں پر ہو رہی تحقیقات کے نتائج کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ ان نتائج کو اپنے فکر کے مطابق معنی پہنانا اور پھر ان کو رائے عامہ کی ہمواری کے لیے استعمال کرنے کے فن میں یہ ڈسکورس طاق ہو چکا ہے۔ یہ ڈسکورس اس بات پر مصر ہے کہ یہ مانا جائے کہ عام اور ہم جنس پرست جوڑوں میں رشتہ ازدواج کے حوالے سے ازدواجی زندگی کے اشاریوں کے حوالوں سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ سب کچھ ایک جیسا ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ واضح کیا گیا ہے کہ عام جوڑوں میں اور ہم جنس پرست جوڑوں میں تقابل اور مماثلت میں ہر اعتبار سے مسائل ہیں۔

مثلا:

ان دونوں میں Power dynamics بالکل مختلف ہوتی ہے۔

ہم جنسی پرست جوڑوں میں صنفی رول کی تقسیم بہت مشکل ہے۔

ازدواجی رویوں اور رول کے اعتبار سے ہر ہم جنس پرست جوڑا مختلف ہو سکتا ہے جب کہ غیر ہم جنس پرست جوڑے تقریبا یک رنگ ہوتے ہیں۔

خاندان کا تصور اور اس کا ارتقا اصلا مرد اور عورت کی دوئی کے حوالے سے ہی ہوا ہے۔ اس لیے دو مرد یا دو عورت سے مل کر بنے ہوئے خاندان کا تقابل اور موازنہ ایک مرد اور ایک عورت سے بنے خاندان سے کیسے اور کیوںکر کیا جا سکتا ہے۔

اس لیے چاہے ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں پر اور ان کی معاشرت پر تحقیقات کے مزید انبار لگتے چلے جائیں وہ بنیادی سوالات جن کا تذکرہ اوپر آ چکا ہے ان کے رہتے یہ ڈسکورس کبھی علمی سطح پر یہ بات ثابت نہیں کر پائے گا کہ وہ کس طرح ایک عام جوڑے اور اس کی معاشرت کے مماثل ہے اور اس کا خاندانی نظام جنسی دوئی والے خاندانی نظام جیسا ہی ہے۔

حوالہ جات

[1] https: //williamsinstitute.law.ucla.edu/visualization/lgbt-stats/?to pic=SS&compare=total#comparison

[2] Liangas G, Athanasou JA. Same-sex marriage and mental health. Australas Psychiatry. 2016 Dec;24(6): 568-570. doi: 10.1177/1039856216663735. Epub 2016 Aug 24. PMID: 27558218.

[3] John Mordechai Gottman , Robert Wayne Levenson , Catherine Swanson, Kristin Swanson, Rebecca Tyson & Dan Yoshimoto (2003) Observing Gay, Lesbian and Heterosexual Couples’ Relationships, Journal of Homosexuality, 45: 1, 65-91, DOI:  10.1300/J082v45n01_04

[4] https: //www.apa.org/monitor/2013/04/same-sex

[5] Ibid

[6] National Coalition of Anti-Violence Programs. (2017). Lesbian, Gay, Bisexual, Transgender, Queer and HIV-Affected Intimate Partner Violence in 2016. Retrieved from https: //avp.org/wp-content/uploads/2017/09/ncavp_lgbtqipvreport_2016_final.pdf

[7] Canadian Women’s Foundation. (2018). Issue Brief: Lesbian and Bisexual Women and IPV. Retrieved from https: //canadianwomen.org/wp-content/uploads/2018/06/Lesbian-Bisexual-Women-and-Intimate-Partner-Violence-Issue-Brief.pdf

[8] Australian Bureau of Statistics. (2017). Personal Safety Survey, Australia, 2016. Retrieved from https: //www.abs.gov.au/statistics/people/crime-and-justice/personal-safety-survey-australia-2016/latest-release

[9] Stonewall. (2018). LGBT in Britain–Home and Communities. Retrieved from https: //www.stonewall.org.uk/sites/default/files/lgbt_in_britain_home_and_communities_report.pdf

مشمولہ: شمارہ مئی 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223