پچھلے مضمون میں +LGBTQ کے سائنسی بیانیے کا تنقیدی جائزہ لیا گیا تھا۔ جس میں اس بات کی کوشش کی گئی تھی کہ معتدل نقطہ نظر سے +LGBTQ ڈسکورس کی سائنسی بنیادوں کا تجزیہ کیا جائے۔ اس ضمن میں دیے جا رہے بیانیوں کی حقیقت سائنسی تحقیقات کو سامنے رکھ کر بیان کی جائے۔ اس تجزیہ سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ انحرافی جنسی رویوں کے سلسلے میں جو سائنسی شواہد دیے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر اضافی (relative) ہیں۔ یا ان میں اعداد و شمار کا سقم (statistical flaw) پایا جاتا ہے۔ یا ان سائنسی تحقیقات کا اعادہ (replicate) نہیں کیا جا سکتا۔ مختصرا ًیہ کہ اس بیانیے میں دو انتہائی نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پورے طور پر طبعی اور فطری ہے۔ اس کے لیے جو بھی سائنسی دلائل دیے جاتے ہیں ان کی رو سے یہ نقطہ نظر ثابت نہیں ہوتا۔ دوسرا انتہا پسندانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کامل طور پر ماحول کی دین ہے۔ بچپن کی ذہنی نشو و نما، بچپن کے تجربات، غلط صحبت وغیرہ اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اس کے لیے بھی بعض سائنسی تحقیقات پیش کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ تحقیقات بھی انھیں خامیوں میں ملوث ہیں جن کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا۔ یعنی یا تو وہ اضافی ہوتی ہیں یا ان میں ڈاٹا کے اعتبار سے کمی ہوتی ہے یا ان کی آزادانہ طور پر توثیق (validate) نہیں کی جا سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بیانیہ ان دو انتہاؤں کے درمیان میں کہیں موزوں ہوتا ہے اور اس کے لیے کوئی ایک یک رنگ کینوس تشکیل دینا غلط ہے۔ لیکن عملًا ایسا ہو گیا ہے اور غالبًا یہی وجہ ہے کہ یہ پورا بیانیہ مفادات کے حامل گروپوں(vested interest groups)کے لیے فٹ بال جیسا ہوگیا۔ اور ان گروپوں کے درمیان اس سے نبرد آزما افراد مصائب اور پریشانیاں جھیل رہے ہیں۔ انحرافی جنسی رویوں کے سائنسی بیانیے کے تنقیدی جائزہ کے بعد اس کے نفسی معاشرتی (psychosocial) بیانیے کا تجزیہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس بیانیے کے تجزیہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ :
- مرد ہم جنسیت یا عورت ہم جنسیت کو بیماری ثابت کیا جائے۔
- اس بات کا اعتراف نہ کیا جائے کہ جنسی دوئی کے باہر پائے جانے والے افراد اور رویے اپنے ’مختلف‘ ہونے کی وجہ سے سماجی نا برابری، جنسی ہراسانی، سماجی علیحدگی، جنسی تشدد وغیرہ کا شکار نہیں ہوتے۔
اس اعتراف کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ +LGBTQ کا نفسی معاشرتی بیانیہ کیا ہے:
- جنسیت نر اور مادہ کی دوئی ہی میں قید نہیں ہے۔ مرد ہم جنسیت، عورت ہم جنسیت اور دیگر انحرافی جنسی رویے، نارمل جنسیت کے ہی مظہر ہیں اور یہ کوئی بیماری نہیں ہے نہ ہی اس کے لیے کسی علاج کی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس پر کسی قسم کی شرم ساری یا احساس خطا ہونا چاہیے۔
- جنسی انحرافی رویے مکمل طور پر فطری ہیں۔ اور اس طرح کے جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں۔
- مرد ہم جنس پرست اور عورت ہم جنس پرست افراد بالکل عام افراد کی طرح شادی اور خاندان کے نظام کو قائم کر سکتے ہیں،۔ مددگار تولیدی ٹکنالوجیوں (assisted reproductive technologies) کا استعمال کرکے بچے بھی ’بنواسکتے‘ ہیں۔
- جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد کے ذریعے پرورش شدہ بچے اور نارمل جنسی رویہ رکھنے والے افراد کے ذریعے پرورش شدہ بچے دونوں میں ’نفسیاتی‘ جسمانی اور دیگر سماجی اشاریوں (social indicators) کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔
- مرد ہم جنس پرست اور عورت ہم جنس پرست شادی شدہ جوڑوں میں جنسی تشدد اور دیگر معاملات جو شادی شدہ جوڑوں میں پیش آتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے عام مرد و عورت شادی شدہ جوڑوں میں۔
- نفسیاتی اعتبار سے جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد بالکل ویسے ہی صحت مند ہوتے ہیں جیسے عام جنسی رویہ رکھنے والے افراد یعنی ان کی نفسیاتی صحت اور عام نفسیاتی صحت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
- جنسی انحرافی رویہ رکھنے والے افراد کی وجہ سے خاندانی اکائی یا خاندانی نظام اور سماجی نظام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سماج میں ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ اس طرح کے افراد کے ما بین شادی اور دیگر سماجی معاملات سے کوئی خاطر خواہ یا قابل ذکر (visible) تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
- مرد ہم جنسیت اور عورت ہم جنسیت اور دیگر جنسی رویوں کی سماج میں قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے جنسی رویے رکھنے والے افراد مختلف زیادتیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے۔ ان کے جنسی حقوق انھیں دیے نہیں جاتے۔ اس لیے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ انسانی بنیادوں پر ایسے تمام افراد کا تحفظ کیا جا سکے۔
- مذاہب اور مذہبی تعلیمات کے سبب، ہر وہ جنسی رویہ قابل گرفت اور سزا کے لیے واجب ٹھہرتا ہے جو مرد وعورت کی جنسی دوئی کے باہر کا ہے۔ اس لیے مذہبی تعلیمات میں ترمیم کی جائے یا ان کے رول کو اجتماعی دائرے میں کم / ختم کر دیا جائے تاکہ مذہبی تعلیمات کو جواز بنا کر +LGBTQپر ہو رہے سماجی اور جنسی تشدد کو ختم کیا جا سکے۔
- پوری دنیا میں موجود، جنسی قوانین یا جنسی رویوں کی بنیاد پر وجود میں آئے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ +LGBTQافراد کے لیے سماجی انصاف کو یقینی بنایا جاسکے بطور خاص وہ ممالک جہاں مذہب کی بنا پر قانون سازی ہوتی ہے۔ (مثلًا اسلامی ممالک اور امریکہ کی بعض ریاستیں جہاں جنسیت کے مذہبی روایتی بیانیے کے سبب قوانین بنائے گئے ہیں)۔
مندرجہ بالا دس نکات میں کچھ ترمیم اور اضافہ کے ساتھ عام طور پر +LGBTQ نفسی معاشرتی بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ اب ذیل میں ان میں سے ہر نکتے کے تحت کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ ان نکات میں سے ہر ایک نکتے پر ایک تحقیقی ، تفصیلی اور تجزیاتی محاکمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
مرد ہم جنسیت، عورت ہم جنسیت اور دیگر انحرافی جنسی رویے، نارمل جنسیت کے ہی مظہر ہیں اور جنسیت نر اور مادہ کے دوئی ہی میں قید نہیں ہے۔ یہ کوئی بیماری نہیں ہے نہ ہی اس کے لیے کسی علاج کی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس پر کسی قسم کی شرمساری یا احساس خطا ہونا چاہیے۔
یہ بات تفصیل سے گزر چکی کہ کس طرح مرد وعورت جنسی دوئی کے باہر کے تمام جنسی رویوں کو دھیرے دھیرے پہلے مغربی سماج میں اور اب مشرقی سماج میں بھی قبول عام حاصل ہوا۔ اس کے سلسلے میں اخلاقی حساسیت میں کمی آئی اور اس کے بعد رائے عامہ کے سبب کس طرح اس سلسلے میں قوانین میں ترمیم اور اضافے کیے گئے۔ اور یہ تب تک ممکن نہیں تھا جب تک کہ نفسیات کی علمی دنیا میں سب سے زیادہ اثر رکھنے والے دو ادارے اس بات پر مطمئن نہیں ہو گئے کہ یہ سب کچھ ’نارمل‘ ہے اور وہ دو ادارے امریکن سائیکو لوجیکل اسوسی ایشن اور امریکن سائکیٹرسٹ اسوسی ایشن (اے پی اے)ہیں۔ ان دو اداروں سے وابستہ لاکھوں محققین ہیں، جو ایک خاص نظریہ علم اور تحقیق کو مانتے ہیں اور اسے بنیاد بنا کر تحقیق کے عمل کو انجام دیتے ہیں۔ یہ نظریہ علم و تحقیق خالصتًا مغربی تصور علم و طریق پر مبنی ہے جو فطرت پرستانہ فلسفہ (naturalistic philosophy) اور فطرت پرستانہ منہج (naturalistic methodology) سے عبارت ہے۔
یاد رہے کہ ۱۹۷۳ تک یہ تمام محققین ومفکرین مرد ہم جنس پرستی اور عورت ہم جنس پرستی کو بیماری سمجھتے تھے۔ ۱۹۷۳ میں اس قبیل کی ’ بیماریوں‘ کے سلسلے میں نقطہ نظر کی وضاحت کرنے اور اسے اس کے صحیح مقام پر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ کنسے کی تحقیقات کے بعد جنسیت پر ہونے والی تمام تر تحقیقات کو جمع کرے، ان کا سائنسی تجزیہ کرے اور پھر اے پی اے کو یہ بتائے کہ آیا ہم جنسیت نفسیاتی بیماری ہے یا نہیں؟ اس سے قبل کہ ہم +LGBTQ کے نفسی معاشرتی ڈسکورس پر آگے بڑھیں قارئین کی دل چسپی کے لیے اے پی اے کا مختصر تعارف اور ہم جنس پرستی کے حوالے سے بنائی گئی تحقیقی کمیٹی اور اس تحقیقی کمیٹی کی رپورٹ کا اجمالی تعارف پیش کریں گے۔
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں نفسیات اور اس سے متعلق پہلوؤں پر تحقیقات کی نمائندگی کرنے والی سب سے بڑی سائنسی اور پیشہ ورانہ تنظیم امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) ہے یہ ماہرین نفسیات کی دنیا کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن ہے، جس میں تقریبا ۱۳۰۰۰۰ محققین، اساتذہ، معالجین، کنسلٹنٹ اور طلبہ شامل ہیں۔ [1] ان کا مشن ’معاشرے کو فائدہ پہنچانے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے نفسیاتی علم کی تخلیق کے ضمن میں کام کو آگے بڑھانا ہے۔‘[2] امریکی نفسیات(psychiatrist) ایسوسی ایشن (یہ بھی مخفف اے پی اے ہی استعمال کرتی ہے) دنیا کی سب سے بڑی نفسیاتی معالجوں کی تنظیم ہے۔ یہ ایک میڈیکل اسپیشلٹی سوسائٹی ہے جو ۳۵۰۰۰ سے زیادہ نفسیاتی ماہرین پر مشتمل ہے۔ اس کے ممبروں میں وہ معالجین بھی ہیں جو ذہنی عوارض میں مبتلا تمام افراد کے لیے نگہ داشت اور موثر علاج کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ [3]امریکی نفسیاتی ایسوسی ایشن ذہنی عوارض کی تشخیصی اور شماریاتی دستاویز شائع کرتی ہے جسے عرف عام میں Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders -DSM کہا جاتا ہے۔ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دنیا کے بیشتر حصوں میں نفسیاتی صحت اور ذہنی عوارض کی تشخیص کے لیے مستند گائیڈ کے طور پر استعمال ہونے والی دستاویز ہے۔ ڈی ایس ایم میں دماغی خلل کی تشخیص کے لیے وضاحت، علامات اور دیگر معیارات شامل ہیں۔ یہ معالجین کو اپنے مریضوں کے نفسیاتی عوارض کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے ایک عام فہم زبان اور مستقل و قابل اعتماد تشخیص کے معیارات فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کے مشمولات کو نفسیاتی عوارض کی تحقیق میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اے پی اے نے ایک کمیٹی بنائی جس نے ایک دستاویز تیار کی جو ۱۹۷۳ میں شائع ہوئی۔ جس کا عنوان تھا ’’جنسی واقفیت کے لیے مناسب علاج معالجے کے عنوانات پر ٹاسک فورس کی رپورٹ‘‘ٹاسک فورس نے لائسنس یافتہ ذہنی صحت کے پریکٹیشنر، عوام اور پالیسی سازوں کو سفارشات فراہم کرنے کے لیے یہ رپورٹ تیار کی تھی۔[4]یہ رپورٹ اس دعوے کی حمایت میں ثبوت کے حوالہ جات فراہم کرتی ہے کہ ہم جنس پرستی ایک نفسیاتی عارضہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے والی ’ٹاسک فورس‘ کی سربراہی جوڈتھ ایم گلاسگولڈ، سائی ڈی نے کی تھی، جو خود ایک ہم جنس پرست ماہر نفسیات ہے۔ مزید یہ کہ وہ ہم جنس پرستوں کے نفسیاتی علاج کے جرنل کے ایڈیٹوریل بورڈ کی ممبر بھی رہی ہیں۔ اور اے پی اے میں موجود ہم جنس پرستی کی تحقیقی ڈویزن کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔[5]
ٹاسک فورس کے دوسرے ارکان ڈاکٹر لی بیکسٹیڈ، ڈاکٹر جیک ڈریشر، ڈاکٹر بیورلی گرین، ڈاکٹر رابن لن ملر، ڈاکٹر روجر ایل، تھنگٹن اور ڈاکٹر کلنٹن ڈبلیو اینڈرسن تھے۔ جوزف نکولوسی کے مطابق بیکسٹیڈ، ڈریشر اور اینڈرسن سبھی ہم جنس پرست تھے۔ جب کہ ملر دو جنسیہ (bisexual) تھا۔[6]لہذا قارئین کو یہ نوٹ کرنا چاہیے کہ اس اے پی اے ٹاسک فورس میں شامل افراد غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے ہم جنسیت پر اپنی تحقیق پیش نہیں کر سکتے تھے۔ کیوں کہ وہ خود اس میں مبتلا تھے۔ واضح رہنا چاہیے کہ ہم یہاں صرف یہ دلیل نہیں دے رہے ہیں، چوں کہ وہ ہم جنس پرست تھے اس لیے یہ رپورٹ غلط ہے۔ یہاں بنیادی سائنسی تحقیق کا ایک اصول مد نظر رہے وہ یہ ہے کہ متناقض مفاد (competing interest) رکھنے والے محقق کی تحقیق قبول نہیں کی جائے گی۔ لیکن اے پی اے کی ٹاسک فورس میں متناقض مفاد رکھنے والے محقق موجود تھے۔ بہرحال اے پی اے کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ: ہم جنس پرست جنسی کشش، طرز عمل، اور میلانات انسانی جنسیت کے عام اور مثبت متغیرات ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، وہ ذہنی یا نفسیاتی عوارض کی نشان دہی نہیں کرتے ہیں۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ عام سے ان کا مطلب ’دماغی خلل کی عدم موجودگی‘ ہے۔[7]
اے پی اے و دیگر اداروں کی دلیلوں کا تفصیلی رد عیسائی محققین، مبلغین اور چرچ سے منسلک تھنک ٹینک نے کیا ہے۔ [8] لیکن اس تجزیہ سے آگے یہاں کچھ باتیں عرض کی جاتی ہے۔
اصل میں مرد ہم جنسیت اور بعد کے دور میں تمام جنسی انحرافی رویوں کو محض ایک جنسی تسلسل کے مظہر کے طور پر مان لینے اور منوانے کی کوششوں کے پیچھے تین اہم دلیلیں دی گئی تھیں۔
- مرد اور عورت ہم جنسیت کا تناسب انسانی آبادی میں اتنا زیادہ ہے کہ اسے بیماری نہیں کہا جاسکتا ہے، یہ ایک نارمل رویہ ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم دلیل کنسے کی تحقیقات کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ جس کا تذکرہ پچھلے مضامین میں آچکا ہے۔ (ملاحظہ ہو زندگی نو اکتوبر، نومبر ۲۰۲۲)۔ کنسے نے زور دے کر لکھا ہے کہ ’’اس دنیا میں ہر مظہر کی تقسیم واضح خانوں میں نہیں کی جاسکتی۔ مظاہر سیاہ اور سفید کے واضح خانوں میں تقسیم نہیں کیے جاسکتے۔ تمام چیزیں نہ سیاہ ہیں اور نہ ہی تمام چیزیں سفید ہیں. یہ درجہ بندی کا ایک بنیادی اصول ہے کہ فطرت شاذ و نادر ہی مجرد زمروں میں تقسیم ہوتی ہے۔ صرف انسانی دماغ ہی زمرہ جات ایجاد کرتا ہے اور حقائق کو واضح خانوں میں محصور کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن زندہ دنیا اور اس کے ہر پہلو میں ایک تسلسل ہے۔ اور جتنی جلدی ہم انسانی جنسی رویے کے اس تسلسل کے بارے میں یہ سبق سیکھ لیں گے اتنی ہی جلدی ہم جنسیت اور دیگر جنسی رویوں کی اچھی تفہیم تک پہنچ جائیں گے۔’’جنسیت نر و مادہ کی دوئی میں قید نہیں ہے بلکہ ایک تسلسل ہے اور اس لیے نارمل بات ہے۔‘‘
- مرد اور عورت ہم جنسیت تاریخ کے ہر دور میں موجود رہی ہے۔ یہ کوئی جدیدیت زدہ رویہ نہیں ہے۔ بلکہ انسانی تاریخ میں ایک ثابت شدہ جنسی رویہ ہے۔
- جانوروں میں بھی ہم جنسیت موجود ہے اس لیے یہ نارمل ہے۔ اور یہ ڈاروینی ارتقائے جنس کے لیے ثبوت فراہم کرتی ہے۔
اوپر دی گئی تینوں دلیلوں کا تجزیہ یکے بعد دیگرے ذیل کی سطور میں کیا جاتا ہے۔
Eاصل مسئلہ ’نارمل‘ اور ایب نارمل کی تعریف کا ہے۔ یہاں جو بنیادی مقدمہ (premise) اے پی اے نے قائم کیا تھا وہ یہ تھا کہ انسانی آبادی میں ایک قابل ذکر تعداد میں مرد ہم جنسیت کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ صرف جنسی دوئی کے باہر کا ایک جنسی رویہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو ’خاصہ‘ یا رویہ ’یا عمل‘ انسانوں کی قابل ذکر تعداد میں ہو، وہ نارمل ہے۔ یہ ایک عجیب وغریب منطق ہے کیوں کہ بہت سارے نفسیاتی عوارض، بہت سارے رویے اور بہت سارے خاصے، قابل ذکر تعداد میں انسانی آبادی میں موجود ہیں تو کیا وہ سب کے سب نارمل مان لیے جائیں گے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہم بنیادی طور پر مرد ہم جنسیت وغیرہ کو ’بیماری‘یا ’نارمل‘کی دوئی میں دیکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ اس طرح کے رویے ’جنسی دوئی کے باہر کے انحراف‘ کے درجے میں رکھے جانے چاہئیں اور ان سے اسی سطح سے معاملہ کرنا چاہیے۔
ہمارا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ’نارمل‘ کی تعریف کے لیے اے پی اے جیسے غیر معمولی تحقیقی ادارے نے نارمل کی اتنی مبہم (Vague) بنیادوں پر اتنا غیر معمولی موقف کیوں اختیار کیا؟
یہ بات نفسیات کے تمام ماہرین کے نزدیک مسلم ہے کہ نارمل اور ایب نارمل نفسیاتی رویے ’خاصے‘ یا ’عمل‘ کی درجہ بندی مشکل ترین کاموں میں ایک ہے۔ مثلاً obsessive compulsive disorder کو لیجیے۔ اس نفسیاتی حالت میں اس بات کا فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے کہ بیمار کون ہے، نارمل کون ہے اور ایب نارمل کون ہے۔ مثلا اس حالت میں عام طور پر ایک فرد کسی بھی شے یا عمل کو لے کر حد درجہ حساس ہو جاتا ہے۔ مثلًا جب وہ اپنے گھر کو تالا لگاتا ہے تو ایک بار اسے چیک کرتا ہے کہ وہ صحیح طریقے سے لاک ہوا ہے یا نہیں۔ یہ نارمل کہلائے گا کوئی اگر اسے دو بار چیک کرتا ہے تو یہ زیادہ احتیاط کہلائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ عمل دس مرتبہ کرتا ہے تو اسے OCD کے ابتدائی زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن اسے کوئی پانچ مرتبہ کرے تو اس پر نفسیاتی ماہرین تقسیم ہو جاتے ہیں اور پھر وہ اس ضمن میں دوسرے عوامل کی طرف دیکھتے ہیں جو اس طرح کے رویے کو بیماری اور نارمل کی درجہ بندی کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح بعض افراد صفائی کے سلسلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ بعض بہت زیادہ اور بعض بہت ہی زیادہ، ان تمام میں ایک طرح کا تسلسل (continuum) ہے۔ لیکن OCD میں کون داخل ہے اور کتنا داخل ہے! اس پر بہت زیادہ بحثیں ہیں۔ یقینا یہ کہا جا سکتا ہے اور بڑی حد تک درست بھی ہے کہ OCD کے سلسلے میں Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders – DSM میں واضح ہدایات ہیں. اور اسے دماغی خلل (psychological disorder) کے درجے میں رکھنے کے لیے خصوصیات طے ہیں! لیکن اس سے اس مقدمے (premise) پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نارمل اور ایب نارمل کو طے کرنے کے لیے نفسیات میں ایسی واضح ہدایات، خطوط اور حدود نہیں بنائے جا سکتے ہیں جیسے کہ جسمانی بیماریوں کے سلسلے میں بنائے جاسکتے ہیں۔
یہ بات بڑی دل چسپ ہے کہ بیماری اور دماغی خلل کے سلسلے میں بھی بڑی اہم اور بنیادی نوعیت کے تصورات ہیں جو ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ عام طور پر عیسائی تخلیقیت پسند حضرات کے یہاں سارا زور ہم جنسیت کو بیماری ثابت کرنے پر ہے۔ ہمارے نزدیک +LGBTQ کے پورے ڈسکورس پر +LGBTQ کو رد عمل کی تحریک بنانے میں، +LGBTQ برادری کو مذہب سے بے زار کرنے میں اس ’زور‘ کا بڑا رول رہا ہے۔
بہر حال ’نارمل‘ اور ’ایب نارمل‘ کے ضمن میں عام طور پر ایک مثال بڑی شد و مد سے پیش کی جاتی ہے وہ زینومیلیا (xenomelia) کے حوالے سے ہے۔ زینومیلیا ایک ایسی دماغی حالت ہے جس میں فرد یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے صحت مند ہاتھ یا پاؤں اس کے جسم سے لازمًا کاٹ کر علیحدہ کر دیے جائیں۔ اس میں وہ سکون محسوس کرتا ہے اور ان اعضا کی موجودگی میں وہ بے چین رہتا ہے۔
یہ خالص نفسیاتی بیماری ہے۔ عیسائی تخلیقیت پسند حضرات کہتے ہیں کہ ہم جنس پرستی بھی اسی طرح کی ایک شدید نفسیاتی بیماری ہے، تو جس طرح سے زینومیلیا کے مریض کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے ’آزادانہ حق‘ ’انفرادی حق‘ اور ’اپنی مرضی‘ کو عمل میں لائے۔ اور جب اس طرح کی خواہش کو دماغی خلل مانا جاتا ہے اور چوں کہ اس کی بنا پر فرد اور سماج کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تو پھر ہم جنسیت کو کیوں دماغی خلل (psychological disorder) نہ مانا جائے۔ یہ دونوں قدرتی عوارض ہیں، دونوں انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ لیکن اس طرح کی دلیلوں میں یہ سقم ہے کہ زینومیلیا وغیرہ بہت شاذ (rare) قسم کے دماغی عوارض ہیں، جب کہ ہم جنسیت زینومیلیا کے مقابلے بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک ’نارمل‘ یا دماغی خلل وغیرہ سے آگے بڑھ کر اس مقدمے پر ہی سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جب تک یہ بات مکمل طور پر اعداد و شمار کے ذریعے ثابت نہیں ہو جاتی ہے کہ واقعی ہم جنسیت کا تناسب فلاں کلچر میں فلاں ’ملک و قوم‘ میں اتنا اور اتنا ہے اس وقت تک یہ بات بھی حتمی طور پر کہنا مشکل ہے کہ یہ عام بات ہے۔
دوسری سب سے اہم بات یہ کہ نارمل قرار دینے کے جتنے بھی معیارات (criteria) ہو سکتے ہیں ان میں سے صرف ایک ہی کو بنیاد بنایا گیا۔ مثلا اس کیس میں امریکی افراد میں ہم جنسیت کا تناسب۔ لیکن کیا اس کے علاوہ بھی اور کچھ اور معیارات ہو سکتے ہیں؟ جیسے انسانی اخلاقی تصورات (moral landscape) پر اس کے اثرات، انسانی آبادی اور انسان میں افزائش نسل (procreational) کے تصورات پر اس کے اثرات، بچوں میں جنسی تصورات کی نشو و نما وغیرہ۔
جب تک یہ بات حتمی طور پر ثابت نہیں ہو جاتی کہ انسانی بچے میں صرف اور صرف جینیاتی بنیاد پر ’جنسی رخ‘، ’جنسی رجحان‘ اور ’جنسی عمل‘ کے لیے تحریک طے ہوتی ہے۔ اس وقت تک ایسے ماحول میں جنسی دوئی کے باہر کے انحرافی رویہ کو خوب صورت اور نارمل بناکر پیش کیا جانا علمی بددیانتی اور ناانصافی ہوگی، اور کیا یہ اس بچہ پر زیادتی نہیں ہوگی؟ اور کیا یہ اس کی جنسیت کو متاثر نہیں کرے گی؟
ہمارے نزدیک یہ وہ بنیادی بحث (central thesis) ہے جس پر بہت کم بات کی گئی ہے۔
اس بات کو بالکل تسلیم کیا جانا چاہیے کہ جب آپ کسی رویہ کو ایب نارمل یا دماغی خلل یا دوسرے لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں تو نفسیاتی اعتبار سے الگ تھلگ کرنے (othering)کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اتنی ہی درست یہ بات بھی ہے کہ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی ’نارمل‘ سے انحراف نہیں ہے اس وقت تک اسے نارمل کہنا بھی الگ تھلگ کرنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ نارمل ہونے کے سلسلے میں جتنے دلائل دیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جن سائنسی شواہد کی بنیاد پر یہ کہا جاتا ہے وہ بجائے خود اضافی نوعیت کے ہیں۔
Eجنسی انحرافی رویے مکمل طور پر فطری ہیں۔ اور اس طرح کے جنسی انحرافی رویے رکھنے والے افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں۔
یہ وہ دوسری دلیل ہے جو +LGBTQ کے نفسی معاشرتی بیانیے کے سب سے اہم نکتے کے حق میں دی جاتی ہے کہ چوں کہ ہم جنسیت تاریخ کے ہر دور میں رہی ہے۔ اس لیے یہ نارمل ہے۔ یہ جدیدیت کی پیداوار نہیں ہے۔ اس دلیل میں کئی طرح کی خامیاں ہیں۔ مثلا :
الف۔ اس بات کا واقعی ثبوت نہیں ہے کہ تاریخ کے کس کس دور میں ایسے انحرافی رویے پائے جاتے رہے۔ جو اکا دکا مثالیں ہیں کیا ان کو نارمل اور کثیر تعداد پر پھیلایا جا سکتا ہے! انسانی تاریخ میں تو پھر مختلف منفی رویوں کی بھی جابجا مثالیں مل جاتی ہیں تو کیا وہ سب جائز اور نارمل سمجھے جائیں گے۔ جیسے ماؤں کے ساتھ شادی اور محرم کے ساتھ زنا (incest) وغیرہ۔
ب۔ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ تاریخ کے جن ادوار کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں اس طرح کے رویوں کی حیثیت کیا تھی۔ یہ استثنا شمار ہوتے تھے یا یہ عمومی کلچر تھا؟ کیا اسے عام روش سے انحراف مانا جاتا تھا یا اسے بیماری سمجھا جاتا تھا؟
ج۔ تاریخ نگاری اور تاریخ نویسی کی اپنی خامیاں اور اپنی کم زوریاں ہیں۔ یہ ایک باقاعدہ فن ہے اس کے اصولوں کی رو سے بھی اس طرح کے پیچیدہ مسئلوں اور بعض اوقات شاذ مسئلوں اور شاذ رویوں کو تاریخ کے بھوسے میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چناں چہ یہ سمجھنا کہ جنسی انحرافی رویوں کے وہ مظاہر جو تاریخ کے بعض مآخذ میں مل جاتے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ رویے عام تھے، یا انھیں عوام میں قبول حاصل تھا، یا وہ عوام میں اخلاقی طور پر پسندیدہ سمجھے جاتے تھے، یا ان کی حیثیت بالکل نارمل رویوں کی سی تھی غیر علمی ہے۔ اگر زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھیں تو اس تاریخ میں بھی مرد و عورت ہم جنسیت کا ذکر اتنی وضاحت اور اس تسلسل کے ساتھ نہیں ملتا جس کا دعوی +LGBTQ کے علم بردار کرتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر واقعات مخنث اور اس قبیل کے انسانوں کے حوالے سے یا معروف معنوں میں خواجہ سرا کے حوالوں سے ملتے ہیں۔
لیکن ظاہر سی بات ہے کہ مخنث یا خواجہ سرا یا جنسی طور پر بے ضرر قسم کے مرد نما انسان یا عورت نما مرد یا مرد نما عورت وغیرہ بالکل علیحدہ چیز ہیں۔ اور مرد ہم جنس پرست، یا عورت ہم جنس پرست بالکل الگ۔ +LGBTQ ڈسکورس بڑی چالاکی سے ان سب کو ایک ہی برش سے پینٹ کرتا ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ تاریخ میں ان تمام کا ذکر دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جنس پرستی عام تھی اور یہ گویا سماج کے بااثر طبقات میں بھی اور عام طبقات میں قابل قبول تھی۔ حالاں کہ جو کچھ تھا وہ ان مخصوص جسمانی و ذہنی ساخت رکھنے والے افراد کے ضمن میں تھا جن کا تذکرہ اوپر آیا ہے۔
E تیسری سب سے اہم دلیل جو +LGBTQ ڈسکورس کے مؤیدین دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ جانوروں کی دنیا میں بھی جنسیت نر اور مادہ کی دوئی میں قید نہیں ہے بلکہ ان میں بھی ہم جنس پرستی پائی جاتی ہے۔ ان تینوں دلیلوں میں جو ہم جنس پرستی کے ’نارمل‘ یا ’عام‘ ہونے سے متعلق دی جاتی ہیں، سب سے بودی اور احمقانہ دلیل یہی کہی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ اس میں بہت بنیادی نقص یہ ہے کہ یہ دلیل انسان اور جانور کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے۔ جب کہ کٹر ترین فطرت پرست (naturalist) بھی اب یہ ماننے لگے ہیں کہ بہر حال انسان انسان ہے اور جانور جانور۔
جانوروں سے انسان کا تقابل بہر حال ایک بنیادی نقص ہے، لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جانوروں میں ہم جنس پرستی پائی جاتی ہے تو بھی درج ذیل نکات تشنہ طلب ہے:
جانوروں کی لاکھوں انواع میں سے کتنی انواع میں ہم جنس پرستی کے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تقریبا ً۸ یا ۹ انواع میں، تو یہ استثنائے کثیر ہوا یا عام؟ اسی طرح کچھ جانوروں میں ہم جنس خوری (cannibalism) کا رویہ پایا جاتا ہے۔ یعنی جانور اپنے ہی جیسے اپنے ہی خاندان کے افراد کو کھا جاتے ہیں۔ یہ تو ہم جنس پرستی سے کئی زیادہ فیصد میں جانوروں میں پایا جاتا ہے تو کیا انسانوں میں اس بنیاد پر آدم خوری کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔
اوپر دی گئی دلیل کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ بعض انسانی قبائل بھی آدم خور ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدم خوری انسانوں میں موجود تھی اور ’ڈارونی اخلاقیات‘ یا ارتقائی اخلاقیات کے سبب دھیرے دھیرے ختم ہوئی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ آدم خوری چند ایک قبائل تک محدود تھی یا عام تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استثنائی صورت ہی تھی۔ مزید یہ کہ انسانی ارتقائی سلسلہ میں اس کی ڈاروینی توجیہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ انسانی سلسلہ ارتقا میں گروہی فٹنس یا اجتماعی فائدہ کی بات پر بہت زیادہ زور ہے۔ یعنی ایک گروہ کے افراد انفرادی حیثیت میں ذرائع و وسائل کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں یا ان سے فائدہ اٹھانے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ تاکہ بقائے اجتماعی کو یقینی بنایا جائے۔
ہم جنس خوری کا تصور گروہی فٹنس اور حیاتیاتی ایثار پسندی (یعنی اپنے جیسے دوسرے جاندار کے لیے قربانی دینا یا جان دے دینا یا ذرائع و وسائل کو دے دینا) دونوں سے ٹکراتا ہے۔ اس لیے یہ انسانی ارتقائی سلسلہ میں (اگر فی الواقع ایسا کوئی یقینی سلسلہ رہا ہے!) محض ایک استثنا ہی ہے، عموم نہیں ہے۔ اس لیے اس کی بنیاد پر ہم جنس پرستی کے لیے اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ بہر حال انحرافی جنسی رویوں کے نفسی معاشرتی بیانیے کی سب سے پہلی دلیل جو یہ کہتی ہے کہ مرد وعورت ہم جنسیت ایک نارمل رویہ ہے اس کا تفصیلی تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ:
الف: خالص سائنسی بنیادوں پر جنسی انحرافی رویوں پر موجود ڈاٹا اتنا کم اور متغیر ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی جنسی رویے کو عموم کا درجہ دے دینا غلط ہے۔ ہم جنس پرستی (مرد و عورت) کے نارمل یا عمومی ہونے یا ایک اسکیل کے تسلسل (continuum) میں ہونے کی دلیل جو کنسے سے شروع ہوتی ہے وہ کنسے اسکیل کی تحقیقاتی خامیوں کے باعث از کار رفتہ ٹھہرتی ہے۔(دیکھیے زندگی نو اکتوبر ۲۰۲۲)۔
نارمل یا عمومی ہونے کے لیے دی جانے والی تینوں دلیلوں کی اپنی اپنی خامیاں ہیں۔ یہ دلیلیں تاریخ میں متواتر ہم جنسیت کی موجودگی، کثیر تعداد میں انسانوں میں ہم جنسیت کا تناسب اور جانوروں کی دنیا میں ہم جنسیت کی موجودگی کے حوالے سے دی جاتی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی اور گہرا تجزیہ انھیں غلط ثابت کرتا ہے۔ انحرافی جنسی رویوں کے نفسی و معاشرتی بیانیے کے مزید نکات اگلے مضمون میں بیان کیے جائیں گے۔ (جاری) n
حوالہ جات
[1] https://www.apa.org/about retrieved November 16, 2022
[2] https://www.psychiatry.org/psychiatrists/advocacy retrieved November 16, 2022
[3] Glassgold, Judith M., Lee Beckstead, Jack Drescher, Beverly Greene, Robin Lin Miller, Roger L. Worthington, and Clinton W. Anderson, APA task force on appropriate therapeutic responses to sexual orientation. 2009. Report of the task force on appropriate therapeutic responses to sexual orientation. Washington, DC: American Psychological Association.
[4] Ibid
[5] The A.P.A. Task Force Controversy about Gay Conver — Joseph Nicolosi–Reparative Therapy, https://www.josephnicolosi.com/who-were-the-apa-task-force-me/
[6] Ibid
[7] Glassgold, Judith M., Lee Beckstead, Jack Drescher, Beverly Greene, Robin Lin Miller, Roger L. Worthington, and Clinton W. Anderson, APA task force on appropriate therapeutic responses to sexual orientation. 2009. Report of the task force on appropriate therapeutic responses to sexual orientation. Washington, DC: American Psychological Association.
[8] Robert L. Kinney III: 2015; Homosexuality and scientific evidence: On suspect anecdotes, antiquated data, and broad generalizations. The Linacre Quarterly 82 (4) 2015, 364–390
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022